سیرت و شانِ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا حصّہ نہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت سیدہ فاطمہ حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہما) سے ناراض تھیں کا جواب
شیعہ رافضی اور نیم رافضی تفضیلی حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنه پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو باغ فدک نہیں دیا جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ اپنی وفات تک حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اپنی وفات تک ناراض رہیں ان سے بات نہیں کی ۔ یہ شیعہ رافضی اور نیم رافضی تفضیلی کے جھوٹ میں سے ایک بہت بڑا جھوٹ ہے جبکہ ان کی خود کی کتب میں اس بات کی تردید موجود ہے ۔ رافضیوں کے رد میں لکھی گئی لاجواب کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : اہل سنت کی روایات تو وہ بھی مدارج النبوت کتاب الوفاق ۔ بیہقی اور مشکوۃ شریف میں موجود ہیں بلکہ شرح مشکوۃ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنه اس قضیہ کے بعد حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنه کے گھر تشریف لے گئے اور دھوپ میں دروازہ پر کھڑے ہوئے اور عذر چاہا اور حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنه ان سے راضی ہوئیں ۔
ریاض النضرہ میں بھی یہ قصہ تفصیل سے مذکور ہے اور فصل الخطاب میں بروایت بیہقی شعبی سے یہ قصہ منقول ہے اور ابن الدمام کتاب الموافقہ میں اوزاعی سے روایت ہے کہ گرمی کے دن حضرت سیدنا صدیق اکبر حضرت فاطمہ رضی الله عنه کے دروازہ پر تشریف لائے اور فرمایا اے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صاحبزادی میں اس جگہ سے نہیں ہٹوں گا جب تک آپ راضی نہ ہوجائیں تو حضرت علی رضی اللہ عنه حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنه کے پاس گئے اور ان کو قسم دی کہ وہ راضی ہوجائیں پس حضرت فاطمہ راضی ہوئیں ۔
اور شیعہ میں زیدیہ تو نعیمیہ اہل سنت کی روایت کے موافق روایت کرتے ہیں اور امامیہ میں سے صاحب محجاج السالکین اور دوسرے یو روایت کرتے ہیں : ⬇
ان ابابكر لماراى ان فاطمة انقبضهت عنه وحجرته ولم تتكلم بعد ذلك فى امر فدك كبر ذلك عنده فاراد استرمناء ها فقال لها صدقت يا ابنة رسول الله فيما ادعيت ولكنى رايت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم يقسمهما فيعطى الفقراء والمساكين وابن السبيل بعد ان يوتى منها قوتكم والصانعين بها فقالت افعل فيها كما كان ابى رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یفعل فیھا فقال ذلك الله على ان افعل فيها ماكان يفعل ابوك فقالت والله لتفعلن فقال والله لا فعلن فقالت اللهم اشهد فرضيت بذلك واخذت العهد عليه وكان ابوبكر يعطيهم منها قوتهم ويقسم الباقى فيعطىالفقراء والمساكين وابن السبيل ۔
ترجمہ : (حضرت) ابوبکر نے دیکھا کہ حضرت فاطمہ مجھ سے کبیدہ خاطر ہوئیں اور مجھ سے تعلقات توڑ لئے اور اس کے بعد گسل کے معاملہ مین کوئی بات نہیں اٹھائی تو یہ بات ان پر بہت شاق گذری چاہا کہ ان کو اپنے سے راضی کریں پس آئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس اور کہا ان سے اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صاحبزادی تم اپنے دعوے میں سچی تھیں لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا کہ اس کو تقسیم کیا کرتے تھے فقیروں مسکینوں اور مسافروں کودیا کرتے جب تم کو تمہارے گذارے کے موافق اور اس میں کام کرنے والوں کو دے چکتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو کرو اس میں جیسا میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیا کرتے تھے پھر کہا حضرت ابوبکر نے قسم ہے خدا کی تمہارے واسطے کرونگا وہ کام جو کچھ تمہارے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیا کرتے تھے تو آپ بولیں قسم خدا کی آپ ایسا ہی کرو گے حضرت ابوبکر نے فرمایا قسم بخدا میں ضرور کرونگا تو اسپر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنه نے ارشاد فرمایا اے اللہ تو گواہ رہنا پس راضی ہوئی حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے اور اسپر عہد لیا پھر حضرت ابوبکر (باغ فدخل سے) دیا کرتے تھے انکا گذار اس سے اور باقی فقیروں مسکینوں اور مسافروں پر تقسیم کرتے ۔ (یہ عبارت شعیہ کتاب محجاج السالکین اور دوسری معتبر کتابوں کی عبارت ہے)
اس عبارت سے صاف پتہ چلا کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ نے حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ کے دعوے کی تصدیق فرمائی لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اس میں تاحین حیات تصرف کرنا اور اس پر قبضہ نہ کرنا اس کو انہوں نے ملک کے مخالف جانا جیسا کہ تمام امت کے نزدیک یہ طے شدہ بات ہے اب حضرت ابوبکرصدیق نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے دعوے کی تصدیق فرمائی تو پھر ام ایمن اور حضرت علی رضی للہ عنہ کے گواہ بنانے کی ضرورت کیا رہ گئی ۔
خدا کا شکر ہے خود روایات شیعہ (امامیہ) کی رو سے حق منکشف ہوگیا اور تہمت جو حضرت ابوبکرصدیق رضی للہ عنہ پر لگائ تھی کہ آپ نے شہادت کو رد کیا اور دعوے کو کیا سراسر جھوٹ ثابت ہوئی ۔
والله يحق الحق ويبطل الباطل ۔
ترجمہ : اور اللہ حق کوثابت کرتا ہے اور باطل کو باطل ۔
حافظ ابن کثیر ( متوفی 774ھ) تصریح فرماتے ہیں : فلما مرضت جاءها الصدیق فدخل علیها فجعل یترضاها فرضِیت ۔
ترجمہ : جب فاطمہ رضی اللہ عنہس بیمار پڑگئیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کےپاس تشریف لائے اور ان کو راضی کرنے لگے حتیٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ان سے راضی ہوگئیں۔ (البدایۃ والنھایۃ: 6؍33… نیز دیکھئے العواصم من القواصم: ص38،چشتی)
امام محمد بن سعد (متوفی 230، 235ھ) کی تصریح : أخبرنا عبد الله بن عمر حدثنا إسماعیل عن عامر الشعبی قال جاء أبوبکر إلىٰ فاطمة حین مرضت فاستأذن. فقال علي: هٰذا أبوبکر على الباب فإن شئتِ أن تأذن له. قالت وذلك أحب إلیك، قال نعم فدخل علیها واعتذر إلیها وکلّمها فرضیتْ عنه ۔
ترجمہ : حضرت عامر شعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا بیمار پڑگئیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور دروازے پر کھڑے ہوکر اندر داخل ہونے کی اجازت طلب فرمائیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : اے فاطمہ ! ابوبکر اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں (اگر اجازت ہو) تو حضرت فاطمہ نے فرمایا : اگر آپ کو ان کے اندر آنے پراعتراض نہ ہو تو تشریف لے آئیں ۔ حضرت علی نے فرمایا : مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ تب ابوبکر صدیق اندر آگئے اور معذرت کرتے ہوئے ان کو راضی کرنے لگے ۔ حضرت فاطمہ نے ان کی معذرت کو پذیرائی بخشتے ہوئے صلح کرلی اور ان سے راضی ہوگئیں ۔ (طبقات ابن سعد: 8؍17، تذکرہ فاطمہ؛ورحمآء بینهم : 1؍147،چشی)(ریاض النضرہ فی مناقب العشرة:1 ؍115)
امام بیہقی کی تصریح : عن الشعبی قال لما مرضت فاطمة أتاها أبوبکر الصدیق فاستأذن علیها فقال علي: یا فاطمة! هٰذا أبوبکر یستأذن علیك فقالت أتحب أن أذن له قال نعم فأذنت له فدخل علیها یترضاها وقال والله ماترکت الدار والمال والأهل والعشیرة إلا ابتغاء مرضاة الله ومرضاة رسوله ومرضاتکم أهل البیت ثم ترضاها حتی رضیت ۔ هٰذا مرسل حسن بإسناد صحیح ۔
ترجمہ : جب حضرت فاطمۃ الزہراء بیمار ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیق ان کی تیمار داری کے لیے تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی۔ حضرت علی نے حضر ت فاطمہ سےکہا کہ ابوبکر صدیق اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔ حضرت فاطمہ نے کہا کہ اگر ان کا آنا آپ کو پسند ہے تو ٹھیک، حضرت علیؓ نے فرمایا: ان کا اندر آنا مجھے گوارا ہے۔اجازت ہوئی، ابوبکر صدیق اندر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ کی رضا مندی حاصل کرنے کی خاطر گفتگو شروع کرتے ہوئے حضرت ابوبکر نے فرمایا : اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رضا مندی کی خاطر اور آپ (اہل بیت) کی خوشنودی کے لیے ہم نے گھر بار مال و دولت، خویش و اقربا کو چھوڑا۔ اس طرح کی گفتگو کاسلسلہ شروع رکھا حتیٰ کہ سیدہ فاطمہؓ ابوبکر صدیقؓ سے راضی ہوگئیں ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی مع الجوہر النقی : 6؍301)(فتح الباری : 6 ؍151)
امام اوزاعی کی تصریح:عن الأوزاعی قال: فخرج أبوبکر حتی قام علىٰ بابها في یوم حار ثم قال لا أبرح مکاني حتی ترضی عني بنت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فدخل علیها علي فأقسم علیها لترضی فرضیت۔
’’امام اوزاعی سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ایک گرم دن میں حضر ت فاطمہ کے دروازہ پر پہنچے او رفرمایا : جب تک رسول زادی مجھ سے راضی نہ ہوگی یہاں سے ہٹنے کا نہیں۔ حتیٰ کہ حضرت علی حضر ت فاطمہ کے پاس آئے اور ان کو قسم دی کہ آپ ابوبکر سے راضی ہوجائیں تو اس پر حضرت فاطمہ راضی ہوگئیں ۔ (أخرجه ابن السمان في الموافقه، ریاض النضرۃ فی مناقب العشر المبشرۃ : 1؍156 ،157 و تحفۃ اثنا عشریۃ جواب طعن سیزدہم)
حضرت سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر صدیق سے سخت ناراض ہوگئیں تھی شیعہ اعتراض : ⬇
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے باغ فدک کا مطالبہ کیا تو انہوں نے سیدہ کو باغ فدک دینے سے صاف انکار کردیا جس پر سیدہ ناراض ہوگئیں اور مرتے دم تک حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے نہ بولیں ۔ حتی کہ یہ وصیت کرگئیں کہ میرے جنازہ میں ابوبکر شریک نہ ہوں۔ چنانچہ بوقت وفات حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے ابوبکر کو اطلاع بھی نہ دی اور راتوں رات سیدہ کو دفن کردیا ۔ دیکھو ابوبکر نے جگرپارۂ رسول کو ناراض کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہے فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی اذیت سے مجھے بھی اذیت ہوتی ہے تو ابوبکر نے فقط فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو غضب ناک نہیں کیا بلکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غضبناک کیا اور اغضاب النبی علی حد الشرک ۔ (خلاصہ از کتاب سواء السبیل ص159، مصنف محمد مہدی شیعہ عالم)
جواب : یہ تھی شیعہ مولوی کی تحریر جس میں شیعہ بدخت نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کو مشرک تک کہہ دیا (معاذ ﷲ) اس پوری تحریر میں صرف اتنی بات صحیح ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ سے باغ فدک کا مطالبہ کیا تو سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے جواب میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حدیث شریف سیدہ کو سنائی ۔
حدیث شریف : حضرت عروہ بن زبیر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کےلیے پیغام بھیجا ۔ ان سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی میراث کا مطالبہ کرتے ہوئے جو ﷲ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مدینہ منورہ اور فدک میں عطا فرمایا تھا اور جو خیبر کے خمس سے باقی تھا ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے ۔ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑیں ، وہ صدقہ ہے مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کھاتے ہیں اور خدا کی قسم میں رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقہ میں ذرا سی تبدیلی بھی نہیں کروں گا اور اسی حال میں رکھوں گا جس حال میں وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عہد مبارک میں تھا اور میں اس میں عمل نہیں کروں گا مگر اسی طرح جیسے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیا کرتے تھے۔ پس حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے اس میں سے حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کردیا ۔ (سنن ابو داٶد جلد دوم، کتاب الخراج، حدیث 1194، ص 455، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)
یہ ناراضگی اور جنازہ میں عدمِ شرکت کا قصہ صرف اس لیے بنایا گیا ہے کہ شیعوں کے زعم باطل کے مطابق حضرت فاطمہ فدک کی وجہ سے آپ سے ناراض تھیں ، کیونکہ اگر یہ ثابت ہوجائے۔ سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر سے راضی تھیں تو شیعوں کےلیے طعن کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ۔ اس لئے ہم فریقین کی کتب سے سیدہ فاطمہ کا حضرت ابوبکر سے راضی ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔
شیعوں کی معتبر اور مشہور ترین کتاب شرح نہج البلاغہ ابن میسم بحرانی جز 35 ص 543 میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب سیدہ کا کلام سنا تو حمد کی درود پڑھا اور پھر حضرت فاطمہ کو مخاطب کرکے کہا کہ اے افضل عورتوں میں اور بیٹی اس ذات مقدس کی جو سب سے افضل ہے۔ میں نے رسول کی رائے سے تجاوز نہیں کیا۔ اور نہیں عمل کیا میں نے ،مگر رسول کے حکم پر۔ بے شک تم نے گفتگو کی اور بات بڑھا دی اور سختی اور ناراضگی کی۔ اب ﷲ معاف کرے ہمارے لیے اور تمہارے لئے۔ اور میں نے رسول کے ہتھیار اور سواری کے جانور علی کو دے دیئے لیکن جو کچھ اس کے سوا ہے اس میں، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : انا معاشر الانبیاء لا نورث ذہباً ولا فضۃ ولا ارضاً ولا عقاراً ولا داراً ولکنا نورث الایمان والحکمۃ والعلم والسنۃ وعملت بما امرنی ونصحت ۔
ہم جماعت انبیاء نہ سونے کی میراث دیتے ہیں نہ چاندنی کی، نہ زمین کی، نہ کھیتی کی اور نہ مکان کی میراث دیتے ہیں لیکن ہم میراث دیتے ہیں ایمان اور حکمت اور علم اور سنت کی اور عمل کیا میں نے اس پر جو مجھے حکم کیا تھا (رسول نے) اور میں نے نیک نیتی کی۔
اس کے بعد یہ ہے کہ حضرت فاطمہ نے یہ فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فدک کو ہبہ کردیا تھا جس پر انہوں نے علی اور ام ایمن کو گواہ پیش کیا۔ جنہوں نے گواہی دی پھر عمر آئے۔ انہوں نے اور عبدالرحمن بن عوف نے یہ گواہی دی کہ حضور فدک کی آمدنی تقسیم فرما دیتے تھے۔ اس پر حضرت صدیق اکبر نے فرمایا۔کان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم یاخذ من فدک قوتکم ویقسم الباقی ویحمل فیہ فی سبیل ﷲ ولک علی اﷲ ان اصنع بہاکما کان یصنع فرضیت بذلک واخذت العہد علیہ بہ وکان یاخذ غلتھا فیدفع الیہم منھاما یکفیہمم ثم فعلت الخلفاء بعدہ ذلک ۔ (شرح میثم، مطبوعہ ایران، ج 35)
تم سب سچے ہو ۔ مگر اس کا تصفیہ یہ ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فدک کی آمدنی سے تمہارے گزارے کےلیے رکھ لیتے تھے، اور باقی جو بچتا تھا اس کو تقسیم فرما دیتے تھے اور ﷲ کی راہ میں اس میں سے اٹھا لیتے تھے اور میں تمہارے لیے ﷲ کی قسم کھاتا ہوں کہ فدک میں وہی کروں گا جو رسول کرتے تھے تو اس پر فاطمہ راضی ہوگئیں اور فدک میں اسی پر عمل کرنے کو ابوبکر سے عہد لے لیا اور ابوبکر فدک کی پیداوار کرلیتے تھے اور جتنا اہل بیت کا خرچ ہوتا تھا ان کے پاس بھیج دیتے تھے اور پھر ابوبکر کے بعد اور خلفاء نے بھی اسی طرح کیا ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت سیدہ کی رضا مندی والی یہ روایت صرف ابن میثم ہی نے نہیں بلکہ متعدد علمائے شیعہ نے اپنی کتابوں میں ذکر کی ہے جن کے نام یہ ہیں ۔ (درنجیفہ شرح نہج البلاغہ مطبوعہ طہران ص 332)(حدیدی شرح نہج البلاغۃ جلد دوم، جز 16،ص 296،چشتی)(سید علی نقی فیض الاسلام کی تصنیف فارسی شرح نہج البلاغہ، جز 5،ص 960)
رضامندی کی اس روایت سے مندرجہ ذیل امور معلوم ہوئے ۔
اول : فدک کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طرز عمل اور صدیق اکبر کے طرز عمل میں کوئی تفاوت نہیں تھا ۔
دوم : حضرت فاطمہ صدیق اکبر سے راضی تھیں اور صدیقی طرز عمل آپ کو پسند تھا ۔
قارئین کرام : للہ انصاف کیجئے ! اس روایت سے جو شیعوں کی معتبر مذہبی کتاب کی ہے بالکل واضح طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا قضیہ فدک میں حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے اور ان کے اس فیصلہ سے جو انہوں نے حدیث رسول کے ماتحت کیا راضی ہوگئیں اور سیدہ نے اس امر کا حضرت ابوبکر سے عہد بھی لے لیا کہ ابوبکر فدک کی آمدنی سے اہل بیت کے اخراجات پورے کریں گے ۔ ایسی صاف و صریح رضامندی کے بعد بھی شیعہ حضرات جناب صدیق اکبر پر زبانِ طعن دراز کریں تو اس کا علاج واقعی کچھ نہیں ہے ۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ سیدہ کے راضی ہوجانے کے بعد کسی محب اہل بیت کےلیے تو یہ گنجائش باقی نہیں رہتی کہ وہ صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پر طعن کر سکے ۔ البتہ نا انصافی سے کام لینا دوسری بات ہے ۔
سوم : اہل بیت کے اخراجات تمام عمر حضرت صدیق اکبر فدک کی آمدنی سے پورے کرتے رہے اور سیدہ اپنے اخراجات حضرت صدیق اکبر سے وصول کرتی رہیں اور صدیق اکبر کے طرز عمل کو سراہتی رہیں ۔
چہارم : نہ صرف صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ بلکہ تینوں خلفاء بھی ایسا ہی کرتے رہے اور انہوں نے فدک میں وہ طرز عمل اختیار کیا جو حضور علیہ السلام اور ان کے بعد صدیق کبر نے اختیار کیا ۔
حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے بھی سیدہ راضی تھیں
شیعوں کی مشہور مذہبی کتاب حق الیقین مطبوعہ ایران کے صفحہ 71 پر ہے : کہ چوں علی وزبیر بیعت کرد ونداویںفتنہ فرد نشست، ابوبکر آمدہ شفاعت از برائے عمر ف فاطمہ از وراضی شد ۔
پھر جب حضرت علی و زبیر نے بیعت کرلی تو حضرت ابوبکر آئے اور حضرت عمر کے متعلق سفارش کی تو حضرت فاطمہ عمر سے بھی راضی ہوگئیں ۔
اسی طرح طبقات ابن سعد جلد 8 مطبوعہ ایران کے ص 17 پر ہے : جاء ابوبکر الی فاطمۃ حین مرضت فاستا دن فقال علی ہذا ابوبکر علی الباب فان شئت ان تاذنی لہ قالت وذلک احب الیک قال نعم فدخل علیہا واعتذر الیہا وکلمہا ورضیت عنہ ۔
حضرت ابوبکر فاطمہ کے پاس آئے جبکہ وہ بیمار تھیں ۔ انہوں نے اجازت چاہی تو حضرت علی نے کہا ابوبکر دروازہ پر ہیں اگر تم چاہو تو ان کی اجازت دے دو ۔ حضرت فاطمہ نے کہا کہ تم (علی) اس کو محبوب رکھتے ہو ۔ علی نے فرمایا۔ ہاں پس حضرت ابوبکر داخل ہوئے عذر کیا اور فاطمہ حضرت ابوبکر سے راضی ہوگئیں ۔
ایک منصف مزاج انسان کی یہ شان نہیں ہے کہ صرف ایک حدیث یا ایک روایت سے کوئی نتیجہ نکال کر خود فیصلہ کرلے ۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی واقعے کو جانچنے کےلیے اس کے متعلق تمام صحیح روایات کو یکجا کیا جائے ، تا کہ ہر راوی کا انداز بیان سمجھتے ہوئے اصل واقعے سے مکمل آگاہی ہو سکے ۔
حدیثِ بخاری : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “”لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ””، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا، وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ، وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الْأَشْهُرَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنِ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا وَاللَّهِ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَمَا عَسَيْتَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي، وَاللَّهِ لآتِيَنَّهُمْ، فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ فَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَقَالَ: إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا فَضْلَكَ وَمَا أَعْطَاكَ اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْكَ، وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ، وَكُنَّا نَرَى لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبًا حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي، وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ فَلَمْ آلُ فِيهَا عَنِ الْخَيْرِ، وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَبِي بَكْرٍ: مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةَ لِلْبَيْعَةِ، فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الظُّهْرَ رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ وَذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ، وَتَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ، فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ وَحَدَّثَ أَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَىأَبِي بَكْرٍ وَلَا إِنْكَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَكِنَّا نَرَى لَنَا فِي هَذَا الْأَمْرِ نَصِيبًا، فَاسْتَبَدَّ عَلَيْنَا، فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا، فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا: أَصَبْتَ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ ۔ (صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4240کتاب غزوات کے بیان میں ۔ باب : غزوہ خیبر کا بیان،چشتی)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں ( اس کی تقسیم وغیرہ ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب تک زندہ رہیں علی رضی اللہ عنہ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو اللہ کی قسم! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ علی رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کو گواہ کیا ‘ اس کے بعد فرمایا ہمیں آپ کے فضل و کمال اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے ‘ سب کا ہمیں اقرار ہے جو خیر و امتیاز آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا ہم نے اس میں کوئی ریس بھی نہیں کی لیکن آپ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی (کہ خلافت کے معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں لیا) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے تھے ( کہ آپ ہم سے مشورہ کرتے ) ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ان باتوں سے گریہ طاری ہو گئی اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی مجھے اپنی قرابت سے صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میرے اور لوگوں کے درمیان ان اموال کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق اور خیر سے نہیں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ میں جو راستہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دیکھا خود میں نے بھی اسی کو اختیار کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دوپہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چنانچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی رضی اللہ عنہ نے پیش کیا تھا پھر علی رضی اللہ عنہ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے فضل و کمال کا انکار مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا) ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب علی رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں یہ مناسب راستہ اختیار کر لیا تو مسلمان ان سے خوش ہو گئے اور علی رضی اللہ عنہ سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کرلی ہے ۔
کسی بھی واقعے کو پرکھنے کےلیے اس کے متعلق تمام صحیح روایات کو یکجا کیا جاتا ہے، تا کہ ہر راوی کا انداز بیان سمجھتے ہوئے اصل واقعے سے مکمل آگاہی ہوسکے ۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطالبہ فدک کی احادیث اور تاریخی روایات با سند کتب سے تقریباً 36 مقامات پر موجود ہے ۔ ان مقامات میں مذکورہ واقعہ بعض جگہ مفصل ہے اور بعض جگہ مختصر بیان ہوا ہے ۔ غور و فکر سے واضح ہوا ہے کہ تمام 36 مقامات میں سے گیارہ عدد روایات وہ روایات ہیں جن کی سند میں ابن شہاب زہری نہیں ہے ۔ صحابہ کرام مثلآ حضرت ابوھریرہ ، ابوالطفیل عامر بن واثلہ ام بانی رضی اللہ عنہم سے یہ روایات مروی ہیں ۔ یعنی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے منقول نہیں ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں کسی ایک مقام پر رنجیدگی و کشیدگی کا نام و نشان نہیں ۔
پچیس مقامات جن کی سند میں ابن شہاب الزہری موجود ہے ، دو طرح کی روایات ہیں ۔
ایک صورت یہ ہے کہ سند میں زہری موجود ہونے کے باوجود مناقشہ نما الفاظ بالکل مفقود ہیں اور کشیدگی سیدہ فاطمہ کا کوئی تذکرہ نہیں ، ایسے مقامات تقریبآ نو عدد ہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ روایات میں وجدد و عدم تکلم وغیرہم منقول ہیں، ان مقامات کی ہر سند میں زہری موجود ہے۔ تقریبآ سولہ مقامات ہیں ۔ تحقیق کے مطابق تقریبآ16 مختلف مقامات پر اس اہم واقعے کو رنجیدگی سے بیان کیا گیا ہے ۔
جن روایات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جواب سن لینے کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا غضبناک ہوجانا، ناراض ہوجانا، حضرت ابوبکر کو چھوڑ دینا، کلام نہ کرنا وغیرہ مذکور ہے ، ان تمام روایات میں “ابن شہاب الزہری” ہی اس واقعے کو آگے بیان کر رہا ہے ۔
کافی تحقیق کے بعد بھی کوئی ایک روایت ایسی نہیں مل سکی جہاں سیدہ فاطمہ کی ناراضگی و ہجران کا ذکر موجود ہو اور وہ روایت “ابن شہاب الزہری” کے بغیر کسی دوسرے راوی سے مروی ہو ۔ اس ایک راوی (زہری) نے جو عروہ سے اور وہ سیدہ عائشہ سے ناقل ہے ، اپنے زعم میں سیدہ فاطمہ کی خاموشی اختیار کرنے کو ناراضگی اور غضبناکی پر محمول کر کے یہ الفاظ ذکر کردیئے۔ حالانکہ کسی چیز کے متعلق سکوت و خاموشی اختیار کرلینا ہمیشہ رنجیدگی کی وجہ سے ہی نہیں ہوتا۔ خاموشی نیم رضامندی بھی ہوا کرتی ہے۔ (یہ ایک مشہور مقولہ بھی ہے) کسی بات کے متعلق اطمینان ہوجانے کی صورت میں انسان سکوت اختیار کرلیتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر کے پاس پردہ میں گئیں تھیں یا بے پردہ ؟
ظاہر ہے سیدہ کے لئے بے پردہ جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔
پھر راوی نے سیدہ فاطمہ کی خاموشی سے یہ اندازہ کیسے لگا لیا کہ سیدہ فاطمہ ناراض ہوگئیں ہیں ؟؟
ظاہر ہے غصہ چہرے سے یا دوسری حرکات سے معلوم کیا جاتا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اہل علم کی اصطلاح میں اس کو “ظن راوی” یعنی راوی کا گمان کہا جاتا ہے۔ اس روایت میں راوی کا اپنا ظن و گمان ہے، اور وہ راوی ابن شہاب زہری ہے ۔ اگر اس حدیث سے سیدہ فاطمہ کا ناراض ہوجانا ہی ثابت کرنا ہے تو مخالفین کو ان سوالوں کے جوابات دین نے ہوں گے ۔ ⬇
راوی کو آخر کس طرح سیدہ فاطمہ کے دل کی بات معلوم ہوگئی ؟
ظاہر ہے ، سیدہ فاطمہ تو پردے میں تھیں اور ناراضگی کے الفاظ ادا بھی نہیں فرمائے ۔
سیدہ فاطمہ کس پر ناراض ہوئیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق پر یا اپنی ذات پر ۔ اگر حضرت ابوبکر صدیق پر ناراض ہوئیں تو نص حدیث سے سیدہ فاطمہ کی زبان مبارک سے ناراضگی کے الفاظ دکھانے پڑیں گے ۔
ہمارہ ایمان ہے کہ سیدہ فاطمہ کبھی بھی اپنے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان سن کر غصہ نہیں ہو سکتیں ، اور وہ بھی دنیا کی ایک ملکیت کے لئے۔۔۔ یہ ایک ناممکن بات ہے ۔
غور فرمائیں ۔۔اس حدیث میں “غضبت علی ابی بکر صدیق” یا اسی قسم کے الفاظ کہیں بھی مذکور نہیں ہیں۔
ناراضگی کے الفاظ راوی کے اپنے ہیں۔ سیدہ کی اپنی زبان سے ایسا کوئی لفظ ادا نہیں ہوا۔
اور یہ بھی غور طلب بات ہے کہ ناراضگی کے الفاظ صرف ایک راوی “ابن شہاب الزہری” سے ہی مروی ہیں۔ جبکہ یہی واقعہ کئی کتب میں مختلف راویوں سے بھی مروی ہے، کسی دوسرے نے ناراضگی کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔
یہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے ، ان سے حضرت عروہ نے لی ہے، حضرت عروہ 22/23 ھجری میں پیدا ہوئے تھے، یہ فدک کا واقعہ 11 ھجری کا ہے، یعنی حضرت عروہ بھی موقعے پر موجود نہ تھے۔۔ ابن شہاب الزہری نے یہ روایت کرتے وقت اپنا گمان بیان کیا ہے۔
سیدہ فاطمہ کی ناراضگی کا یقین صرف اس ایک راوی “ابن شہاب الزہری” کو کیسے ہوا؟؟ جبکہ وہ موقعے پر موجود بھی نہ تھا۔۔
حدیث میں ترک کلام کا اصل مطلب
ترک کلام فدک کے معاملے میں تھا ، سیدہ فاطمہ نے اس مطالبہ اور اس فیصلے کو قول نبوی کے بعد تسلیم کیا اور بعد میں راضی بھی ہوگئیں اس لیے فدک کے معاملے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کوئی بات نہیں کی ، جبکہ اہل سنت و شیعہ کتب کی کچھ روایات سے سیدہ فاطمہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کی فدک کے معاملے کے بعد بھی ملاقات ثابت ہے ۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ۔
روایات فریقین سے ظاہر ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی ﷲ عنہا بوقتِ وفات حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ سے راضی تھیں اور کسی قسم کی کبیدگی ان کے درمیان نہ تھی ۔ اگر بالفرض حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا واقعی مطالبہ میراث پورا نہ ہونے پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئی تھیں تو ان مذکورہ روایات کے مطابق ان کا راضی ہوجانا بھی ثابت ہو رہا ہے ۔ (مزید حصّہ دہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment