Saturday 8 January 2022

شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ چہاردہم

0 comments

چہاردہم

شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ چہاردہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی علالت کے دوران مجھے ہدایت کی کہ اپنے والد ابوبکر رضی ﷲ عنہ اور اپنے بھائی کو میری پاس بلواٶ تاکہ میں انہیں کوئی تحریر لکھ دوں کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی اور شخص (خلافت کا) آرزو مند ہوسکتا ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حق دار ہوں ۔ حالانکہ ﷲ تعالیٰ اور اہل ایمان صرف ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو (خلیفہ کے طور) پر قبول کریں گے ۔ (مسلم شریف، جلد سوم، کتاب فضائل الصحابہ حدیث 6057، ص 298، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی چیز کے متعلق کلام کیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ وہ دوبارہ آئے ۔ اس عورت نے عرض کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے خبر دیں ۔ اگر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں آٶں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہ پاٶں گویا کہ اس عورت کی مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال ظاہری تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگر تو آئے اور مجھے نہ پائے تو پھر ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پاس آجانا ۔ (بخاری شریف، جلد سوم، کتاب الاحکام، حدیث 2084، ص 935، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

حضرت سیدنا عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال شریف ہوا تو انصار نے کہا کہ ہم میں سے ایک صاحب کو امام ہونا چاہیے اور مہاجرین میں سے ایک امیر ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی ﷲ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے دریافت کیا ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا تھا ۔ تم میں کون ایسا شخص ہے کہ جو حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے مقدم ہونے پر راضی ہو ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فرمایا کہ ہم اس بات سے ﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم جناب ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے مقدم ہوں ۔ (سنن نسائی کتاب الامۃ حدیث 780 صفحہ 238 مطبوعہ فرید بک لاہور،چشتی)

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ آیات قرآنیہ ، احادیث نبویہ اور اقوال صحابہ کرام علیہم الرضوان کی بناء پر انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد افضل الناس ہیں۔ علماء اہلسنت کا اس امر پر اجماع ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ تمام بنی نوع انسان میں افضل ترین انسان ہیں ۔ آپ رضی ﷲ عنہ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بہترین نمونہ ہیں ۔ امام بن جوزی علیہ الرحمہ کے بقول آیت شریفہ ’’وسیجنبھا الاتقی الذی‘‘ الخ سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔ آیت مذکورہ میں سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کو اتقی یعنی سب سے زیادہ پرہیزگار فرمایا گیا ہے ۔

امامت دو قسم کی ہیں صغریٰ اور کبریٰ ۔ امام صغریٰ امامت نماز ہے ، جبکہ امامت کبریٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نیابت مطلقہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام امور دینی و دنیاوی میں حسب شرع تصرف عام کا اختیار رکھے اور غیر معصیت میں اس کی اطاعت تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہو ۔ اس امام کے لئے مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، قادر اور قریشی ہونا شرط ہے۔ ہاشمی، علوی اور معصوم ہونا اس کی شرط نہیں (امام کا ہاشمی، علوی اور معصوم ہونا) روافض (شیعہ) کا مذہب ہے جس سے ان کا یہ مقصد ہے کہ برحق امرائے مومنین خلفائے ثلاثہ ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ عنہما کو خلافت سے جدا کریں، حالانکہ ان کی خلافتوں پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے ۔

مولیٰ علی و حسنین کریمین رضی ﷲ عنہم نے ان کی خلافتیں تسلیم کیں اور علویت کی شرط نے تو مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو بھی خلیفہ ہونے سے خارج کردیا ۔ مولیٰ علوی کیسے ہوسکتی ہیں۔ رہی عصمت تو انبیاء و ملائکہ علیہم السلام کا خاصہ ہے جس کو ہم پہلے بیان کر آئے ۔ امام کا معصوم ہونا روافض کا مذہب ہے ۔ (بہار شریعت حصہ اول، ص 239، امامت کا بیان، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)

مسئلہ خلافت میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ

خلافت راشدہ کا زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق تیس سال ہے اور ﷲ تعالیٰ نے حسب وعدہ اس عرصہ میں خلفائے راشدین کے مراتب کے اعتبار سے مسند خلافت پر فائز فرمایا ۔ نیز آیت ’’استخلاف‘‘ میں رب العزت نے جو وعدے فرمائے تھے ، وہ سب اس مدت میں پورے فرمادیئے ۔ امامت ، خلافت سے کوئی الگ چیز نہیں ہے اور امامت ’’اصول دین‘‘ میں سے نہیں ہے۔

مسئلہ خلافت میں اہل تشیع کا عقیدہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حضرت علی کرم ﷲ تعالیٰ وجہہ خلیفۂ بلا فصل تھے اور ان کی خلافت منصوص من ﷲ تھی ۔ خلفائے ثلاثہ نے اسے جبراً چھینے رکھا ۔ اس لیے ان تینوں کا زمانہ جو روجفا کا زمانہ تھا ، عدل و احسان کا وہی دور تھا جس میں حضرت علی کرم ﷲ تعالی وجہہ مسند خلافت پر فائز رہے ۔ امامت اور چیز ہے اور خلافت اس سے علیحدہ منصب ہے کیونکہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے ۔ اور خلافت کے منصب پر متمکن ہونے والے کےلیے عصمت کی کوئی شرط نہیں ۔

خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کو برحق نہ سمجھنے والا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک لعنتی ہے : ⬇

قال امیر المومنین و من لم یقل انی رابع الخلفآء فعلیہ لعنۃ ﷲ ۔ (مناقب علامہ ابن شہر آشوب سوم، 63)
ترجمہ : حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو مجھے ’’رابع الخلفا‘‘ نہ کہے اس پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔

حضرت علی کرم ﷲ وجہ نے اپنے اس کلام میں صاف صاف فیصلہ فرمایا کہ میں چوتھے نمبر پر خلیفہ ہوں اور جس کایہ عقیدہ نہ ہو ، اس پر ﷲ کی لعنت ہو ، حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس قول سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں : ⬇

1 : آپ کو خلیفہ بلافصل کہنا باطل ہے اور ایسا کہنے والے پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔
2 : آپ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم میں سے چوتھے نمبر پر خلیفہ ہیں اور یہی عقیدہ ضروری بھی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس کلام پر عمل کرنا اور اسے درست تسلیم کرنا اس وقت درست ہوگا جبکہ خلیفہ ’’بلافصل‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کو مانا جائے ۔ اور دوسرا خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کو اور تیسرا حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کو تسلیم کر لیا جائے ۔ ان تینوں کے بعد حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کو مانا جائے ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ بِلافصل ہونے سے ﷲ تعالیٰ کا انکار

بقول شیعہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت بلافصل کا ایک سو بیس مرتبہ حکم آسمان پر اور تین دفعہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر ہوا،اگر بزعم اہل تشیع اسے درست تسلیم کرلیا جائے تو بقول ان کے آخری مرتبہ ﷲ تعالیٰ نے ’’فان لم تفعل فما بلغت رسالتہ‘‘ کے تو بیخانہ انداز سے حضور رضی اللہ عنہ کو اس کے اعلان پرزور دیا گیا ہے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر یہ سب دعاوی درست ہے تو ’’فرات بن ابراہیم اسکوفی‘‘ نے حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ کے حوالے سے اپنی تفسیر ’’رات اسکوفی‘‘ میں یہ بات کیوں اور کس وجہ سے تحریر کی ؟

حدثنی جعفر بن محمدن الفزاری محنحنا عن جابر قال قرأت عن ابی جعفر علیہ السلام لیس لک من الامر شیٔ قال فقال ابو جعفر بلی وﷲ لقد کان لہ من الامر شی فقلتہ جعلت فداک فما تاویل قولہ لیس لک من الامر شی ء قال ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حرص ان یکون الامر لأمیر المومنین (ع) من بعدہ فابی ﷲ ثم قال کیف لایکون لرسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من الامرشیٸ وقد فوض الیہ فما احل کان حلالاً الی یوم القیامۃ وما حرم کان حراماً الی یوم القیٰمۃ (تفسیر قرات اسکوفی مطبوعہ صدریہ نجف اشرف ص 19)
جعفر ابن محمد فزاری حضرت جابر رضی ﷲ عنہ سے راوی ہیں اور حضرت جابر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ کے سامنے ’’لیس لک من الامر شیئ‘‘ آیت کا حصہ تلاوت کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں (اے پیغمبر) کسی معاملہ کا قطعاً کوئی اختیار نہیں (چونکہ اس آیت کے حصے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اختیار کی عام اور مطلق نفی ہے حالانکہ آپ مختار ہیں) تو اس پر جناب امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا۔ ہاں! خدا کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اختیار تھا۔ امام موصوف کے کہنے کے بعد میں نے عرض کی۔ آپ پر اے امام میرے ماں باپ قربان (اگر آپ کا فرمانا درست ہے) تو ﷲ کے اس ارشاد کا کیا مفہوم ہے ’’لیس لک من الامر شیئ‘‘ اور اس کی کیا تاویل ہوگی، حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس امر کے شدید متمنی ہیں کہ ﷲ تعالیٰ حضرت علی المرتضیٰ کےلیے ’’خلافت بلافصل‘‘ کا حکم عطا فرمائے لیکن ﷲ نے اس خواہش کو پورا کرنے سے انکار فرمادیا۔ پھر امام موصوف نے فرمایا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہ ہو ۔ حالانکہ ﷲ نے آپ کو اس کی تفویض فرمادی تو ﷲ کی تفویض کی وجہ سے جس کو آپ نے حلال فرمایا۔ وہ قیامت تک حلال ہوئی اور جس کی حرمت فرمادی وہ تاقیامت حرام ہوئی ۔
توضیح : اس روایت میں اہل بیت کے سردار جناب حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فیصلہ ہی کر دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ﷲ رب العزت سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی ’’خلافت بلافصل‘‘ کا سوال تو کیا تھا لیکن ﷲ نے اس کا انکار فرمادیا ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انکار

’’شیخ مفید‘‘ اپنی مشہور اور معتبر کتاب ’’ارشاد شیخ‘‘ میں حدیث قرطاس کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں : فنہضوا وبقی عندہ العباس والفضل بن عباس و علی بن ابی طالب واہل بیتہ خاصۃ فقال لہ العباس یارسول ﷲ ان یکن ہذا الامر لنا مستقراً من بعدہ فبشرنا وان کنت تعلم انا نغلب علیہ فاقض بنا فقال انتم المستضعفون من بعدی وصمت فنھض القوم وہم یبکون قد یئسوامن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ (الارشاد الشیخ المفید ص 99 باب فی طلب رسول اﷲ بداوۃ وکتف،چشتی)(اعلام الوریٰ مصنفہ ابی الفضل ابی الحسن الطبرسی ص 142 بالفاظ مختلفہ)(تہذیب المتین فی تاریخ امیر المومنین مطبوعہ یوسی دہلی جلد اول صفحہ 236)
ترجمہ : (قلم دوات لانے کے متعلق جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا) جب سب اٹھ کر چلے گئے وہاں باقی ماندہ اشخاص میں حضرت عباس، فضل بن عباس، علی بن ابی طالب اور صرف اہل بیت تھے۔ تو حضرت عباس نے عرض کی یارسول ﷲ! اگر امر خلافت ہم بنی ہاشم میں ہی مستقل طور پر رہے تو پھر اس کی بشارت دیجئے اور اگر آپ کے علم میں ہے کہ ہم مغلوب ہوجائیں گے تو ہمارے حق میں فیصلہ فرمادیجئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میرے بعد تمہیں بے بس کردیا جائے گا۔ بس اسی قدر الفاظ فرما کر سکوت فرمالیا۔ اورحالت یہ تھی کہ جناب عباس، علی ابن طالب اور دیگر موجود اہل بیت رو رہے تھے اور روتے روتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ناامید ہوکر اٹھ گئے ۔
مذکورہ حدیث میں اس بات کی بالکل وضاحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی کے آخری وقت تک کسی کو خلافت کےلیے نامزد نہیں فرمایا تھا۔ اگر حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ ’’خم غدیر‘‘ کے مقام پر ہوچکا ہوتا اور وہ بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے تو قلم دوات لانے پر اختلاف لانے کے موقع پر حضرت عباس کی گزارش مذکورہ الفاظ کی بجائے یوں ہونی چاہئے تھی ۔ ’’یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر خلافت علی رضی ﷲ عنہ (جیسا کہ آپ خم غدیر پر فیصلہ فرما چکے ہیں) قائم و دائم رہے گی تو ہمیں خوشخبری سنا دیجیے ۔

ﷲ تعالیٰ کا فرمان : واذا اسریٰ النبی الی بعض ازواجہ حدیثا
جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی کسی بیوی سے ایک روز کی بات کی ۔
تفسیر میں ’’صاحب تفسیر صافی‘‘ اور صاحب تفسیر قمی نے اس کا سبب نزول یوں لکھا ہے کہ : جس دن سیدہ حفصہ کی باری تھی، ان کے گھر اس وقت وہاں ’’ماریہ قبطیہ‘‘ بھی موجود تھیں ۔ اتفاقاً سیدہ حفصہ کسی کام سے باہر گئیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ’’ماریہ قبطیہ‘‘ سے صحبت فرمائی ۔ تو جب سیدہ حفصہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ناراضگی فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ نے میرے گھر میں اور پھر میری باری میں ماریہ قبطیہ سے صحبت کیوں فرمائی ۔ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ حفصہ کو راضی کرنے کےلیے یہ فرمایا ۔ ایک تو میں نے ماریہ قبطیہ کو اپنے نفس پر حرام کیا اور آئندہ اس سے کبھی صحبت نہیں کروں گا اور دوسرا میں تجھے ایک راز کی بات بتاتا ہوں ۔ اگر تو نے اس راز کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو تیرے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ سیدہ حفصہ نے عرض کی ٹھیک ہے ۔
فقال انّ ابابکر یلی الخلافۃ بعدی ثم بعدہ ابوک فقالت من انباک ہذا قال نبأنی العلیم الخبیر ۔
ترجمہ : (راز کی بات ارشاد فرماتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے بعد بے شک ابوبکر خلیفہ ہوں گے ۔ پھر ان کے بعد تیرے والد بزرگوار اس منصب پر فائز ہوں گے ۔ اس پر سیدہ حفصہ نے عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ خبر آپ کو کس نے دی ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مجھے ﷲ علیم و خبیر نے خبر دی ۔ (تفسیر صافی صفحہ 714،چشتی)(تفسیر قمی صفحہ 457، سورہ تحریم)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت بلافصل ثابت کرنے کی دھن میں توہین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

شیعہ حضرات کو تو اپنا مقصد بیان کرنا ہے ۔ خواہ اس کے لئے من گھڑت روایات، غلط استدلال اور لچر تاویلات ہی کیوں نہ کرنی پڑیں ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کے دوران انہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ ہمارے اس طرز استدلال سے انبیاء کرام اور خصوصا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس پر کیا کیا گستاخیاں ہورہی ہیں ؟ بطور ثبوت ایک دو مثالیں ملاحظہ ہوں : ⬇

ﷲ رب العزت کا ارشاد ہے : لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخٰسرین ۔
ترجمہ : بفرض محال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شرک کیا تو یقینا آپ کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آپ لازماً خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔
اس آیتہ کی تفسیر میں ’’صاحب تفسیر قمی اور صاحب تفسیر صافی شیعہ ‘‘ یوں گویا ہیں ۔
تفسیر صافی و تفسیر قمی
ترجمہ : ’’حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ (لئن اشرکت) کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا کہ اس کی تفسیر یہ ہے کہ آپ نے اگر اپنی وفات کے بعد حضرت علی کی خلافت کے ساتھ کسی اور کو اس امر میں شریک کار کیا تو اس جرم کی پاداش میں آپ کے تمام اعمال حسنہ ضائع ہوجائیں گے اور نتیجتاً آپ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔

شیعوں کی خبر متواتر ، عقل و نقل سے باطل

سید ابن طاؤس و ابن شہر آشوب و دیگر ان روایت کردہ اندر کہ عامر بن طفیل و ازید بن قیس بقصد قتل آنحضرت آمدند، چوں داخل مسجد شدید، عامر بزدیک آنحضرت آمدند گفت، یامحمد، اگر من مسلمان شوم، برائے من چہ خوابدبو، حضرت فرمودکہ برائے تو خواہد بود آنچہ برائے ہمہ مسلمانان ہست، گفت میخو اہم بعد از خودمرا خلیفہ گردانی، حضرت فرمود، اختیار ایں امر بدست خدا است و بدست من تونیست  (حیاۃ القلوب، ج 2، ص 72، 44 باب بستم بیان معجزات کفایت از شردشمنان مطبوعہ نامیع نولکشود)
ترجمہ : سید ابن طاٶس ابن شہر آشوب اور دیگر حضرات نے روایت کیا کہ عامر بن طفیل اور ازید بن قیس جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کرنے کی نیت سے آئے اور مسجد میں داخل ہوئے تو ’’عامر بن طفیل‘‘ آپ کے نزدیک گیا اور کہا : یامحمد اگر میں مسلمان ہوجاٶں تو میرے لیے کیا انعام ہوگا اور مجھے اس سے کیا فائدہ ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تمہیں بھی وہی ملے گا جو تمام مسلمانوں کو ملتا ہے ۔ (یعنی تمہارا فائدہ اور نقصان سب کے ساتھ مشترکہ ہوگا ۔ اس نے کہا میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ بنا دیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ۔ یہ تو ﷲ کے اختیار میں ہے مجھے اور تجھے اس میں کوئی دخل نہیں ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کو اپنے پر لازم قرار دیا : ⬇
ترجمہ : ہر ذلیل میرے نزدیک باعزت ہے ۔ جب تک اس کا دوسرے سے حق نہ لے لوں اور قوی میرے لیے کمزور ہے ۔ یہاں تک کہ میں مستحق کا حق اسے دلادوں ۔ ہم ﷲ کی قضا پر راضی ہوئے اور اس کے امر کو اسی کے سپرد کیا تو سمجھتا ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بہتان باندھوں گا ۔ خدا کی قسم ! میں نے ہی سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلا جھٹلانے والا ہوں ۔ میں نے اپنا معاملہ میں غور و فکر کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا ابوبکر کی اطاعت کرنا اور ان کی بیعت میں داخل ہونا اپنے لیے بیعت لینے سے بہتر ہے اور میری گردن میں غیر کی بیعت کرنے کا عہد بندھا ہوا ہے ۔ اس روایت کے کچھ الفاظ کی ’’ابن میثم شیعہ ‘‘ اس طرح شرح کرتا ہے ۔ ’’پس میں نے غور و فکر کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ میرا اطاعت کرنا بیعت لینے سے سبقت لے گیا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے جو ترک قتال کا حکم لیا تھا وہ اس بات پر سبقت لے گیا ہے کہ میں قوم سے بیعت لوں ۔ فاذا المیثاق فی عنقی لغیری سے مراد سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مجھ سے عہد لینا مجھے اس کا پابند رہنا لازم ہے ۔ جب لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت لے لیں تو میں بھی بیعت کرلوں ۔ پس جب قوم کا وعدہ مجھ پر لازم ہوا یعنی ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت مجھ پر لازم ہوئی تو اس کے بعد میرے لیے ناممکن تھا کہ میں اس کی مخالفت کرتا ۔ (شرح ابن مثیم)

مذکورہ خطبہ اور اس کی شرح سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے : ⬇

1 : حضرت علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کے اپنے فرمان کے مطابق آپ کے نزدیک قوی اور ضعیف برابر تھے۔ کیونکہ آپ ہر قوی سے قوی ہیں اس لئے آپ ہر کمزور کو حق دلا سکتے ہیں ۔

2 : جب ﷲ نے صدیق اکبر کی خلافت کا فیصلہ کر دیا تو ہم نے اسے تسلیم کرتے ہوئے اسے ﷲ کے سپرد کیا ۔

3 : جب ایمان لانے میں مجھے اولیت حاصل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جھوٹ بولوں ۔

4 : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم تھا کہ میرے بعد مسئلہ خلافت میں کسی سے لڑائی نہ کرنا ۔

5 : مسئلہ خلافت پر غور و فکر سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرے لیے ابوبکر صدیق کی بیعت کرلینا اپنی بیعت لینے سے زیادہ راجح ہے ۔

6 : میری گردن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ عہد بندھا ہوا ہے کہ جب لوگ ابوبکر صدیق کی بیعت کرلیں تو میں بھی بیعت کرلوں ۔
ان تمام امور بالا سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کسی طرح بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اعراض نہ کر سکے تھے کیونکہ ﷲ کی رضا اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عہد اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ برحق ہونے کا بین ثبوت ہیں تو اس امر بیعت کو حضرت علی کرم ﷲ وجہہ اس قدر اہم سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کےلیے اتنی جلدی کی کہ پورا لباس بھی زیب تن نہ کر سکے ، صاحب روضۃ الصفاء نے اس کو یوں نقل کیا ہے : امیر المومنین علی چوں استماع نمود کہ مسلماناں بر بیعت ابوبکر اتفاق نمودند بتعجیل ازفاتہ بیروں آمد چنانچہ ہیچ وربرنداشت بغیر ازپیرہن نہ ازا رونہ راہچناں نزد صدیق رفتہ ہاد بیعت نمود بعد ازاں فرستا ندتدہ جامعہ بمجلس آورند۔ ودربعضی روایات و اردشدہ کہ ابو سفیان پیش از بیعت یاامیر المومنین علی گفت کہ تو راضی مشوی کہ شخصی از نہی تمیم متصد ٹی کاری حکومتشود بخدا سو گند کہ اگر تو خواسی ایں وادی پراز سوارو پیادہ گردانم علی گفت اے ابو سفیان تو ہمیشہ ورہام جاہلیت فتنہ می انگیختی ومالا نیزمی خواہما کہ فتنہ در اسلام ابوبکر راسائستہ امیں کارمیداتم ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے جب سنا کہ تمام مسلمانوں نے ابوبکر صدیق کی بیعت پر اتفاق کرلیا ہے تو اس قدر جلدی درِ دولت سے باہر تشریف لائے کہ چادر اور تہبند بھی نہ اوڑھ سکے صرف پیرہن میں ملبوس تھے ۔ اس حالت میں ابوبکر صدیق کے ہاں پہنچے اور بیعت کی بیعت سے فراغت کے بعد چند آدمی کپڑے لینے کےلیے بھیجے تاکہ مجلس میں کپڑے لے آئیں بعض روایات میں اس قدر مذکور ہے کہ ابو سفیان نے بیعت سے قبل حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے کہا کہ اے علی ! کیا تو بنو تمیم کے ایک آدمی کو حکومت کا والی بنانے پر راضی ہو گیا ہے ۔ ﷲ کی قسم ! اگر تم چاہو تو میں اس کی وادی کو سنواروں اور پیادوں سے بھردوں ۔ یہ سن کر حضرت علی نے کہا اے ابو سفیان ! دور جاہلیت میں بھی فتنہ پرداز رہا ہے ۔ اور اب بھی چاہتا ہے کہ اسلام میں فتنہ بپا کردے ۔ میں ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کو اس کاروبار حکومت کےلیے نہایت اچھا آدمی سمجھتا ہوں ۔
نوٹ : واذا المیثاق فی عنقی لغیری ۔ جملہ کی تشریح ’’ابن میثم‘‘ اور اس کے بعد ’’روضۃ الصفا‘‘ سے آپ پڑھ چکے ہیں ان دونوں شیعوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس جملہ کی جو شرح کی ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ بخوشی اور بسرعت حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کےلیے چل پڑے ۔ آپ کو کوئی مجبوری نہیں تھی اور نہ زبردستی بیعت کرنے کےلیے آپ کو آمادہ کیا گیا ۔

خلافت صدیقی کا ثبوت شیعہ حضرات کی کتب سے : ⬇

1 ۔ شیعہ مفسر طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں اسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’واذا اسرالنبی الی بعض ازواجہ حدیثا یعنی حفصۃ عن الزجاج قال و لما احرم ماریۃ قبطیۃ اخبر حفصۃ انہ یملک من بعدہ ابوبکر ثم عمر‘‘ ۔
ترجمہ : اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا سے راز کی بات کی ۔ زجاج سے مروی ہے کہ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی ﷲ عنہا کو اپنے اوپر حرام فرما لیا تو حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا کو آپ نے خبر دی کہ میرے بعد حضرت ابوبکر اور ان کے بعد حضرت عمر مملکت کے مالک ہوں گے ۔ (تفسیر مجمع البیان، جلد 10،ص 314، مطبوعہ بیروت، چشتی)

2 ۔ شیعہ مفسر فیض کاشانی اپنی تفسیر صافی میں اس آیت کے تحت لکھتا ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا کو فرمایا ۔ انا افضی الیک سرا ان اخبرت بہ فعلیک لعنۃ ﷲ والملٰئکۃ والناس اجمعین فقالت نعم ماہو فقال ان ابابکریلی الخلافۃ بعدی ثم بعدہ ابوک فقالت من انباک ہذا قال نبانی العلیم الخبیر ۔
ترجمہ : میں تمہیں راز کی ایک بات بتاتا ہوں ۔ اگر اس سے تم نے کسی کو مطلع کیا تو تم پر ﷲ تعالیٰ ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی ۔ عرض کرنے لگیں ، درست ہے ۔ وہ کیا بات ہے بتائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میرے بعد ابوبکر کو خلافت ملے گی ، پھر ان کے بعد تمہارے والد (حضرت عمر) خلیفہ ہوں گے ۔ حضرت حفصہ (رضی ﷲ عنہا) نے عرض کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کو یہ بات کس نے بتائی تو فرمایا ﷲ تعالیٰ علیم و خبیر نے ۔ (تفسیر صافی، جلد 4، ص 716، سطر 14 تا 16 مطبوعہ ایران)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے نزدیک شیخین عادل اور برحق خلیفہ تھے اور ان کے وصال سے اسلام کو سخت نقصان

واقعہ صفین : ثم قال اما بعد فان ﷲ بعث النبی صلی ﷲ علیہ وسلم علیہ وآلہ فانقذ بہ من الضلالۃ و من الہلاکۃ وجمع بہ بعد الفرقۃ ثم قبض اﷲ علیہ وقد ادی ماعلیہ ثم استخلف الناس ابا بکر و عمر و واحسنا السیرۃ وعدلا فی الامۃ وقد وجدنا علیہا ان تولیا الامر دوننا ونحن ال الرسول واحق بالامر فعفونا فاذا الک لہما ۔
اس کے بعد حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے لکھا ہے کہ بے شک ﷲ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیج کر لوگوں کو گمراہی اور ہلاکت سے آپ کی وجہ سے بچایا اور منتشر لوگوں کو آپ کی بدولت جمع کیا۔ پھر آپ ﷲ کو پیارے ہوگئے ۔ آپ نے اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا فرمایا ۔ پھر لوگوں نے آپ کے بعد ابوبکر اور عمر کوخلیفہ بنایا اور انہوں نے لوگوں میں خوب انصاف کیا اور ہمیں افسوس تھا کہ ہم آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہوئے وہ امر خلافت کے بانی بن گئے حالانکہ اسے ہم زیادہ حقدار تھے سو ہم نے انہیں معاف کر دیا کیونکہ عدل وانصاف اور اچھی سیرت کے حامل تھے ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی طرف خط لکھا : انہ بایعنی القوم الذی بایعوا ابابکر وعمر و عثمان علی مابایعوھم علیہ فلم یکن للشاہد ان یختار ولا للغائب ان یردو وانماالشوری للمہاجرین والانصار فان اجتمعوا علی رجل وسموہ اما ماکان ذلک ﷲ رضاً فان خرج عن امرہم خارج بطعن او بدعۃ ردو الیہ فخرج منہ فان ابی قاتلوہ علی اتباعہ غیرسبیل المومنین ولاہ اﷲ الی ماتولیّ ۔ (نہج البلاغہ خط نمبر 6 ص 366)

خلاصہ کلام : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی طرف خط لکھا اور فرمایا : بات یہ ہے کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی کی تھی اور مقصد بیعت بھی وہی تھا جو ان سے تھا لہٰذا موجودہ حضرات میں سے کسی کو علیحدگی کا اختیار نہیں اور نہ غائب لوگوں کو اس کی تردید کی اجازت ہے ۔ مشورہ مہاجرین اور انصار کو ہی شایان شان ہے تو اگر یہ سب کسی شخص کے خلیفہ بنانے پر متفق ہو جائیں تو یہ ﷲ کی رضا ہوگی اور اگر ان کے حکم سے کسی نے بوجہ طعن یا بدعت کے خروج کیا تو اسے واپس لوٹا دو اور اگر واپسی سے انکار کر دے تو اس سے قتال کرو کیونکہ اس صورت میں وہ مسلمانوں کے اجتماعی فیصلہ کو ٹھکرانے والا ہے اور ﷲ نے اسے متوجہ کر دیا جدھر وہ خود جاتا ہے ۔

توضیح درج ذیل امور ثابت ہوئے : ⬇

1 ۔ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی بیعت کی تھی ۔ ان ہی لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کی ۔
2 ۔ تمام مہاجرین و انصار کا کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلینا اتنا اہم ہے کہ اس کے بعد حاضرین یا غائبین لوگوں میں سے کسی کو اس کے خلاف اختیار نہیں رہ جاتا ۔
3 ۔ شوریٰ کا استحقاق صرف مہاجرین و انصار کو ہے ۔
4 ۔ مہاجرین و انصار کا باہمی مشورہ سے کسی کو امام یا خلیفہ پسند کرلینا دراصل خوشنودی خدا ہوتا ہے ۔
5 ۔ ان کے متفقہ طور پر کسی کو منتخب کرلینے کے بعد اگر کوئی بوجہ طعن بیعت نہ کرے تو اسے زبردستی واپس لایا جائے اور اگر انکار کردے تو اسے قتل کیا جائے۔ کیونکہ وہ اس طرح جمیع مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرتا ہے ۔

اگر مرض باقی ہے تو ایک خوراک اور پیش ہے : ⬇

شارح ابن میثم شیعہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خطبے کی علم منطق کے ذریعے خلافت حقہ کےلیے جو ترتیب دی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے : ⬇

صغریٰ : میری بیعت ان لوگوں نے کی جنہوں نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کی تھی ۔
کبریٰ : جس آدمی کی بیعت وہی لوگ بیعت کر لیں تو اس کے بعد کسی غائب یا حاضر کو بیعت نہ کرنے یا اس کے رد کا اختیار نہیں ۔
نتیجہ : چونکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت بھی انہی لوگوں نے کرلی ہے لہٰذا کسی کو اس کے رد کا اختیار نہیں ۔ (شرح ابن میثم جلد نمبر 4 ص 353)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس خط میں انما الشوریٰ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے ۔ وحصر للشوری والاجماع فی المہاجرین والانصار لانھم اہل الحل والعقد من امۃ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتفقت کلمتھم علی حکم الاحکام کاجماعھم علی بیعتہ وتسمیتہ اماماً کان ذلک اجماعاً حقاً ہو رضی ﷲ عنہ مرضی لہ و سبیل المومنین الذی یجب اتباعہ
ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے شوری کو صرف مہاجرین اور انصار کےلیے مخصوص فرمایا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کے اہل حل و عقد و ارباب بست و کشادہ وہی ہیں اور جب وہ کسی معاملہ پر متفق ہو جائیں جس طرح حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و بصیرت پر متفق ہوئے تو ان کا یہ اجماع و اتفاق حق ہو گا اور وہ اجماع ﷲ کا پسندیدہ ہوگا اور مومنین کا ایسا راستہ ہوگا جس کی اتباع واجب ہے ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی محبت کے دعویداروں کو دعوتِ فکر : ⬇

اجماع حقہ وہی ہے جو مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کا ہو ، یہ دونوں غزوہ بدر اور بیعتِ رضوان میں شامل تھے ، ان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنتی ہونے کی خوشخبری فرمائی ۔
ان کا اجماع ﷲ کا پسندیدہ ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اجماع جنتیوں کا اجماع ہے ۔ معلوم ہوا کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت حق تھی ۔

خلفائے راشدین کی خلافت حقہ پر دلیل نہم

کتب شیعہ میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت بغیر جبر و اکراہ کے بطریق رضا کی ہے ۔ شیعوں کے امام الاکبر محمد الحسینی نے اپنی مشہور کتاب اصل الشیعہ واصولہا میں اس کی ان الفاظ میں تصدیق اور توثیق کی ہے : ⬇
اصل الشیعہ و اصولہا
وحین رایٰ ان المتخلفین اعنی الخلیفۃ الاول والثانی بذلا اقصیٰ الجہد فی نشر کلمۃ التوحید وتجہیز الجنود وتوسیع الفتوح ولم یستاتدوا ولم یستبدوا ابیع وسالم و اغضی عمایداہ حقاً لہ محافظۃ علی الاسلام ان تصدع وحدتہ وتتفدق کلمتہ ویعود الناس الی جاہلیتھم الاولیٰ وبقی شیعتہ منفسدین تحت جناحہ ومستنیرین بمصباحہ ولم یکن للشیعۃ والتشیع یومئذ مجال للظہور لان الاسلام سحان یجدی علی منہ ہجرہ القویمۃ حتی اذ تمیذا الحق من الباطل وتبین الرشد من الغّی وامتنع معاویۃ عن البیعۃ لکلی وحاربہ فی (صفین) انضم بقیۃ الصحابۃ الی علی حتی الحثدھم تحت رایتہ وکان معہ من عظماء اصحٰب النبی ثمانون بعلا کلہم بدری عقبی لعمار بن یاسر وخزیمۃ ذی الشہادتین وابی ایوب الانصاری ونظر ائھم ثم نما قتل علی علیہ السلام وائتقبا الامہ لمکاویۃ وانقضی دور الخلفآء الراشدین ساد معاویۃ بسیدۃ الجبا برۃ فی المسلمین ۔ (اصل الشیعہ واصولہا صفحہ 115 تذکرہ صرف القوم الخلافتہ عن علی مطبوعہ قاہرہ طبع جدید، چشتی)
ترجمہ : جب دیکھا حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ اور عمر فاروق رضی ﷲ عنہ نے کلمہ توحید کی نشرواشاعت میں اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کو کسی معاملے میں ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے ان کی بیعت کرلی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی۔ کیونکہ اس میں اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت تھی تاکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں اور باقی شیعہ کمزوری کی وجہ سے آپ کے زیر دست رہے۔ آپ کے چراغ سے روشنی حاصل کرتے رہے اور شیعہ اور ان کے مذہب کے لئے ان ایام میں ظہور کی مجال نہیں تھی۔ کیونکہ اسلام مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہو چکی تھی اور معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت سے انکار کیا اور صفین میں ان سے جنگ کی تو اس وقت جتنے صحابہ کرام موجود تھے انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا ساتھ دیا حتی کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے جھنڈے کے نیچے اکثر صحابہ کرام شہید ہوئے اور آپ کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کرام میں سے 80 وہی صحابہ تھے جو کل کے کل بدری تھے۔ مثلاً عمار یاسر اور حضرت خزیمہ جن کی شہادت دو شہادتوں کے برابر تھی اور ابو ایوب انصاری اور اسی مدینے کے اور صحابہ اور پھر جب حضرت علی شہید ہوئے اور امرِ خلافت امیر معاویہ کی طرف لوٹا تو اس کے ساتھ خلفاء راشدین کا دور ختم ہوا اور امیر معاویہ نے مسلمانوں میں جبارین دین کی سیرت کو اپنایا۔
مذکورہ عبارت سے درج ذیل امور صراحتاً ثابت ہوئے : ⬇
1 : حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا مقصود خلافت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ کلمہ توحید کی نشرواشاعت اور لشکروں کی تیاری کے ساتھ فتوحات میں توسیع دینا تھا ۔ اسی لیے جب انہوں نے دیکھا کہ جو اسلام کے مقاصد تھے وہ سب کے سب شیخین نے پورے کردیے تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے رضامندی کے ساتھ یکے بعد دیگرے ان کی بیعت کرلی ۔
2 : شیخین کے زمانہ میں شیعہ اور ان کے مذہب کا اس لیے ظہور نہیں ہوا کہ اسلام اپنے صحیح اور مضبوط طریقے پر چل رہا تھا ۔ یہاں تک کہ حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہو چکی تھی ۔
3 : جنگ صفین کے زمانہ تک بدری صحابی موجود تھے جو 80 کی تعداد میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے لشکر میں شامل ہوئے ۔
4 : خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم خلفاء راشدین تھے نہ کہ ظالم فاسق اور فاجر ۔
5 : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال پر صحابہ کرام کے ارتداد کا مسئلہ (معاذ ﷲ) شیعہ حضرات کا خود ساختہ ہے کیونکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے زمانہ تک بدری صحابہ موجود تھے جوکہ قطعی جنتی تھے جوکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے لشکر میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔

خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت حقہ پر دلیل دہم : ⬇

فرمانِ مولا علی رضی ﷲ عنہ : ﷲ تعالیٰ نے نبی کری صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد لوگوں کے لئے بہترین شخص کا انتخاب فرمایا ۔
ان فی الخبر المروی عن امیرالمومنین علیہ السلام لماقیل لہ الا توصی فقال مااوصیٰ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم فاوصی ولٰکن ان اراد ﷲ بالناس خیرا استجمعھم علی خیرہم کما جمعہم بعد نبیہم علی خیرہم قتضمن لما یکاد یعلم بطلانہ مندورۃ لان فیہ التصدیح القوی بفضل ابی بکر علیہ وانہ خیر منہ والظاہر من احوال امیر المومنین علیہ السلام والمشہور من اقوالہ واحوالہ جملۃ وتفصیلاً یقتصی انہ کان یصدم نفسہ علی ابی بکروغیرہ ۔ (تلخیص الشافی تالیف شیخ الطائفہ ابی جعفر طوسی جلد دوم صفحہ نمبر 237 دلیل آخر علی امامتہ علیہ السلام مطبوعہ قم طبع جدید)
ترجمہ : امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ سے کہا گیا کہ آپ وصیت کیوں نہیں کرتے تو آپ نے فرمایا کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ میں وصیت کروں لیکن اگر ﷲ تعالیٰ نے لوگوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا تو ان کو ان میں سے بہترین شخص پر جمع کردے گا جیسا کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد انہیں بہترین شخص پر جمع کیا ۔ یہ اس چیز کو متضمن ہے کہ قریب ہے کہ اس کا بطلان بدایۃً معلوم ہوجائے کیونکہ اس میں ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی فضیلت حضرت علی رضی ﷲ عنہ پر تصریح قوی ہے اور یہ کہ ابوبکر رضی ﷲ عنہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے بہتر ہیں ۔ لیکن امیرالمومنین کے احوال اور ان کے اقوال و احوال سے اجمالاً اور تفصیلاً جو ظاہراً اور مشہور ہے اس کا متقضیٰ یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ وغیرہ پر مقدم جانتے ہیں ۔
الحاصل : مذکورہ عبارت سے دو اہم مسائل ثابت ہوئے : ⬇
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو وصی نہیں بنایا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ﷲ تعالیٰ نے امت کے سب سے بہترین شخص کو خلافت کےلیے منتخب فرمایا جیسا کہ اس نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے بعد امت کے بہترین شخص حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ کو امت کےلیے منتخب فرمایا ۔

خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت حصہ پر دلیل یادہم : ⬇

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے متعلق اپنے بعد خلیفہ اور جنتی ہونے کی پیش گوئی فرمائی ۔
تلخیص الشافی : روی عن انس ان رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امرہ عند اقبال ابی بکر ان یسبشرہ بالجنۃ وبالخلافۃ بعدہ وان یستبشرہ عم بالجنۃ وبالخلافہ بعد النبی بکر و روی عن جبیربن مطعم ان امراۃ اتت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فکلمتہ فی شیٔ فامر بہا ان ترجع الیہ فقالت یارسول ﷲ ارایت ان رجعت فلم اجدک (یعنی الموت) قال ان لم تجدنبی فات ابابکر ۔ (تلخیص الشافی جلد سوم ص 39، فصل فی ابطال قول من حالت فی امامۃ امیر المومنین بعد النبی علیہما السلام بلا فصل مطبوعہ قم، طبع جدید)
ترجمہ : حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے مجلس میں آنے کے وقت ارشاد فرمایا کہ انہیں (ابوبکر صدیق) کو جنت اور میرے بعد خلافت کی خوشخبری سنادو اور حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کو جنت اور ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے بعد خلافت کی بشارت دو اور حضرت جبیربن مطعم رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور کسی معاملہ میں آپ سے بات چیت کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ پھر میرے پاس آنا ، عورت نے عرض کی کہ اگر میں دوبارہ آٶں اور آپ کو نہ پاٶں تو ؟ (یعنی اس وقت تک اگر آپ وصال کر جائیں تو پھر کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پاس چلی جانا (اور ان سے اپنا مسئلہ حل کروالینا) ۔
الحاصل : مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ خلیفہ برحق ہیں اور ان کے بعد عمر فاروق رضی ﷲ عنہ اور دوسرا یہ جنتی بھی ہیں اور یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مذکورہ عورت کو اسی لیے اپنے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی وصیت فرمائی کیونکہ آپ من جانب ﷲ جانتے تھے کہ میرے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ خلیفہ ہوں گے۔
کیا حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے (معاذ ﷲ) دشمنوں کے غلبہ کی وجہ سے بطور تقیہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ؟
حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی طرف اس بات کو منسوب کرنا ان کی شان کے خلاف ہے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ تو ایسے بہادر تھے جو پورے پورے لشکر کو اکیلے شکست دے دیتے تھے ۔ خیبر کے موقع پر چالیس آدمیوں کا کام اکیلے مولا علی شیر خدا رضی ﷲ عنہ نے کیا ۔
پہلی دلیل : کیا وہ شیر خدا کسی کے دباٶ میں آسکتا ہے ؟ کیا ﷲ تعالیٰ کا شیر حق بات کہنے سے (معاذ ﷲ) ڈر جائے یہ ناممکن ہے ۔
دوسری دلیل : جس شیر خدا کے بیٹے حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے خون میں لہولہان ہو کر ، اپنے گھرانے کو لٹا کر ایک ظالم کی بیعت نہ کی ۔
کیا ان کے والد شیر خدا (معاذ ﷲ) بزدل تھے۔ کیا انہوں نے (معاذ ﷲ) ڈر اور خوف کی وجہ سے بیعت کرلی ۔
نہیں بلکہ وہ جانتے تھے کہ جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چن لیا ۔ اس کی بیعت کرنا ہمارا ایمان ہے ۔

شیعہ حضرات کی معتبر کتاب سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا ثابت ہے : ⬇

دلیل ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائی ۔ (شیعہ حضرات کی کتاب : جلاء العیون ص 150)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی کتاب نہج البلاغۃ سے ثابت کرتے ہیں : ⬇

نہج البلاغۃ میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو خط لکھا کہ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی بیعت کی۔ انہیں لوگوں نے میری بیعت کی ہے ۔ اب کسی حاضر یا غائب کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کی مخالفت کرے ۔ بے شک شوری مہاجرین و انصار کا حق ہے اور جس شخص پر جمع ہوکر یہ لوگ اپنا امام بنالیں ، ﷲ تعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے ۔ (کتاب نہج البلاغۃ، دوسری جلد، ص 8، مطبوعہ مصر)
اب کسی شک کی گنجائش نہیں ۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ حضرت ابوبکر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم سے راضی تھے ۔ اب لوگ کچھ بھی کہیں ۔ چار یاروں کی آپس میں ایسی محبت تھی ۔ جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی ۔

شیعہ حضرات کی کتاب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کاثبوت : ⬇
شیعہ حضرات کی معتبر کتاب احتجاج طبرسی میں شیعہ عالم علامہ طبرسی لکھتا ہے کہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر و صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ۔ (احتجاج طبرسی، ص 54، چشتی)
اگر حضرت علی رضی ﷲ عنہ بطور تقیہ بیعت کرتے تو علامہ طبرسی جوکہ مشہور شیعہ عالم ہیں ، وہ اپنی کتاب میں تقیہ کا ذکر ضرور کرتے مگر انہوں نے تقیہ کا کوئی ذکر نہیں کیا بلکہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’جس کا میں مولا ہوں ، اس کے علی مولا ہیں‘‘ اس کا جواب : سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث شریف پر ہمارا بھی ایمان ہے تبھی تو ہم اہلسنت و جماعت حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو مولا علی شیر خدا کہتے ہیں ۔
دلیل ۔ اس حدیث میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی شان مولائی بیان کی گئی ہے اور مولا کا مطلب مددگار کے ہوتا ہے ۔ اس حدیث میں خلافت کا کہیں ذکر واضح نہیں ۔
دلیل  مولا کے کئی معنی ہیں ۔ لغت کی مشہور کتاب قاموس کی جلد 4 صفحہ 302 پر تحریر ہے کہ ’’المولیٰ، المالک والعبد والصاحب، والناصر، والمحب، والتابع، والعصر‘‘ مولا کے معنی مالک، غلام، محب، صاحب، مددگار، تابع اور قریبی رشتہ دار کے ہیں۔
القرآن ۔ فان ﷲ ہو مولہ وجبریل و صالح المومنین والملٰئکۃ بعد ذالک ظہیرا ۔ (سورۂ تحریم، آیت 4، پارہ 28)
ترجمہ: بے شک ﷲ، جبریل، نیک مومنین اور تمام فرشتے مددگار ہیں۔
اس آیت میں مولا کا لفظ مددگار کےلیے بیان کیا گیا ہے۔
القرآن: انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین ۔ (سورۂ بقرہ، آیت 286، پارہ 3)
ترجمہ: اے ﷲ تو مددگار ہے، ہمیں کافروں پر مدد و نصرت فرما۔
اس آیت میں بھی مولا کا لفظ مددگار کےلیے بیان کیا گیا ہے۔ تو ’’من کنت مولاہ فعلی مولا‘‘ کا معنی یہی معتبر ہوگا کہ جس کا میں والی، مددگار اور دوست ہوں، حضرت علی رضی ﷲ عنہ بھی اس کے والی، مددگار اور دوست ہیں۔
دلیل ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر سینکڑوں احادیث واضح موجود ہیں جنہیں ہم ذکر کر چکے ہیں الحَمْدُ ِلله جن میں خلافت کا ذکر ہے مگر مولا والی حدیث میں کہیں بھی حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کا واضح ذکر نہیں ہے ۔

حدیث شریف میں ہے کہ تم مجھ سے بمنزلہ ہارون کے ہو ، لہٰذا جس طرح ہارون علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے ، اسی طرح حضرت علی رضی ﷲ عنہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ ہیں ؟
جواب : بخاری شریف کی حدیث شریف ملاحظہ ہو : اما ترضیٰ ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی ۔
ترجمہ :  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے فرمایا کہ تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تو مجھ سے بمنزلہ ہارون کے ہو موسیٰ علیہ السلام ، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ (بخاری شریف، مسلم شریف)
دلیل ۔ اس حدیث پاک میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اگر ہے تو صرف یہ کہ سرکار اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں اہل بیت کی حفاظت کےلیے مقرر فرمایا تھا تو اس کا سبب ایک تو قرابت و رشتہ داری تھا اور دوسرا یہ کہ اہلبیت کی حفاظت و نگہبانی کا اہم فریضہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ ہی ادا کر سکتے ہیں ۔
دلیل ۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی خلافت تو عارضی تھی کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی وصال فرما چکے تھے پھر اگر خلافت مولا علی رضی ﷲ عنہ کو خلافت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دی جائے تو کسی صورت بھی درست نہیں ہے ۔
دلیل ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تم میرے ساتھ ایسے ہو ، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام تھے ، اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح دین حق کو پھیلانے میں حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد کی ، اسی طرح تم نے بھی اسلام کی تبلیغ میں میری مدد کی ہے ۔

حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا : ⬇

1 ۔ شیعہ حضرات کے علامہ طبرسی تحریر کرتے ہیں کہ ’’ثم قام و تھیأ للصلوٰۃ و حضر المسجد و صلی خلف ابی بکر‘‘ پھر (حضرت علی) اٹھے اور نماز کا ارادہ فرمایا اور مسجد میں تشریف لائے پھر حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز ادا فرمائی ۔ (الاحتجاج طبرسی جلد اول، ص 126، سطر 4 مطبوعہ ایران)
2 ۔ ملا باقر مجلسی نے بھی حضرت علی کا حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھنا لکھا ہے ۔ جلاء العیون مترجم کی عبارت ملاحظہ ہو ۔ جناب امیر (علیہ السلام) نے وضو کیا اور مسجد میں تشریف لائے ۔ خالد بن ولید بھی پہلو میں آکھڑا ہوا۔ اس وقت ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے ۔ (جلاء العیون اردو جلد اول، ص 213، سطر 21-20، مطبوعہ لاہور، چشتی)
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت تحریر فرمانا چاہتے تھے ، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے کاغذ ، قلم و دوات طلب فرمائی تو انہوں نے نہ دی بلکہ یہ کہا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہذیان کہتا ہے اور ہمیں ﷲ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے ۔ یہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے بڑی غلطی کی ؟
جواب : جھوٹوں پر خدا کی لعنت ، آپ کی پہلی ہی غلط ہے ۔ اہل اسلام میں کی کتب میں اس کے برعکس لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے مرض الوصال میں جناب ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی خلافت تحریر فرما گئے تھے ۔ جیسا کہ مشکوٰۃ شریف صفحہ 555 پر واضح الفاظ موجود ہیں نیز اس طعن کرنے سے اتنا پتہ چل گیا کہ غدیر خم کے موقع پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ مقرر نہیں ہوئے تھے اور عید غدیر منا کر شیعہ لوگ خواہ مخواہ بدنام ہو رہے ہیں ۔ آپ کا یہ دعویٰ پیغمبر علیہ السلام نے کاغذ ، قلم ، دوات حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے طلب فرمائی تو یہ بھی جھوٹ ہے بلکہ آپ نے جمیع حاضرین سے (جن میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ ، حضرت عباس رضی ﷲ عنہ اور گھر کی خواتین وغیرہ بھی شامل ہیں) کاغذ ، قلم ، دوات طلب فرمایا ۔ جیسا کہ بخاری شریف کتاب الجزیۃ باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب صفحہ 426 رقم الحدیث 2932 میں ہے، چشتی) : فقال ائتونی بکتف اکتب لکم کتاباً ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ کتف لاٶ تاکہ میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ جس کے بعد تم راہ حق کو نہ گم کرو ۔
غور فرمایئے ۔ حدیث میں ’’ائتونی‘‘ صیغہ جمع مذکر مخاطب بول کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جمیع حاضرین سے کتف طلب فرما رہے ہیں ، نہ کہ فقط حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے اور ان سے طلب ہی کیوں فرماتے جبکہ وہ ان کا گھر ہی نہ تھا کہ جس میں قلم دوات طلب کی گئی بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کا حجرہ تھا ۔ جیسا کہ بخاری شریف جلد 1 صفحہ 382 پر ہے اور پھر اگر قریب تھا تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا گھر لہٰذا اگر خاص طور پر فرماتے تو ان سے کہ جن کا گھر قریب تھا ۔ (تمام شیعہ متفق ہیں کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا گھر مدینہ شریف کے آخری کونہ پر تھا) بہرحال نقل و عقل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قلم ، دوات طلب نہیں فرمائی ۔
2 ۔ آپ اس کا کیا جواب دیں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس واقعہ کے تین دن بعد تک حیات رہے لیکن حضرت علی رضی ﷲ عنہ اس کے باوجود بھی ان کی تعمیل حکم نہ کر سکے اور بقول شیعہ خلافت بھی اُنہی کی تحریر ہونی تھی اور ادھر حکم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی تھا ۔ لہذا اگر باقی سب صحابہ مخالف تھے تو ان پر لازم تھا کہ چھپے یا ظاہر ضرور لکھوا لیتے تاکہ بعد میں یہی تحریر پیش کرکے خلیفہ بلا فصل بن جاتے مگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ تو تحریر ہی سرے سے ضروری نہ تھی بلکہ ایک امتحانی پرچہ تھا کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی رائے سے اتفاق فرمایا ورنہ آپ پر حق اور وحی چھپانے کا الزام عائد ہو گا ، حالانکہ جماعت انبیاء علیہم السلام اس سے بالاتر ہے ۔
3 ۔ اگر یہ ضروری تحریر تھی یا وحی الٰہی تھی اور کاغذ دوات نہ لانے والا خواہ مخواہ ہی مجرم ہوا تو اس جرم کے اولاً مرتکب اہل بیت رضی اللہ عنہم قرار پاتے  ۔ اس لیے کہ وہ ہر وقت گھر میں رہتے تھے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ جن کا گھر باقی صحابہ کی نسبت قریب تھا اور اگر وہ مجرم نہیں تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ بھی مجرم نہیں ۔ لہٰذا شیعوں کا یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے کاغذ اور دوات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طلب فرمائی ، باطل ہوا ۔

کیا حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے (العیاذ باﷲ) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف ہذیان کی نسبت کی ؟
جواب : یہ بھی جھوٹ اور افتراء ہے بلکہ بخاری شریف کتاب الجزیۃ باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب صفحہ 426، رقم الحدیث 2932 پر یوں موجود ہے : فقالوا مالہ اہجر استفہموہ ، یعنی حاضرین نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کیا حال ہے ۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے ہجرت فرمانے لگے ہیں ۔ آپ سے دریافت تو کرلو ۔
اور عبارت میں ’’قالوا‘‘ بصیغہ جمع مذکر غائب موجود ہے لہٰذا پہلی جہالت تو شیعوں کی یہ ہوئی کہ صیغہ جمع سے ایک شخص واحد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ مراد لے لیا ۔ دوسری جہالت یہ کہ ’’ہجر‘‘ کا معنی برخلاف عربیت بلکہ برخلاف سباق و سیاق ہذیان لکھ مارا حالانکہ ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان کیا جائے تو آگے ’’استفہموہ‘‘ کا کوئی مطلب نہیں ہو سکتا کیونکہ شیعوں کے ماسویٰ کوئی عقلمند بھی نہیں ملے گا کہ پہلے کسی کو مخبوط الحواس اور مجنون سمجھ لے اور پھر اس سے اس کے ہذیان کا مطلب پوچھنے لگے ، بہر حال صیغہ ’’استفہموہ‘‘ نے بتادیا کہ ’’اہجر‘‘ کے معنی وہی دار دنیا سے جدا ہونے کا ہی ہے ، نہ کچھ اور ۔
2 ۔ اگر ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان بھی تسلیم کرلیا جائے تو بھی مفید نہیں کیونکہ ’’اہجر‘‘ میں ہمزہ استفہام انکاری موجود ہے کہ جس سے نفی ہذیان مفہوم ہو رہا ہے معنی یہ ہوگا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوئی ہذیان فرما رہے ہیں ۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہوش سے فرما رہے ہیں ذرا دریافت تو کرلو بہرکیف حضرت عمر رضی ﷲ عنہ تو ویسے ہی اس مقولہ کے قائل نہ تھے ، باقی رہے قائلین تو چونکہ ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان ثابت نہیں ہوا ۔ اگر ہوا تو بوجہ ہمزہ استفہام منفی ہو گیا لہٰذا وہ بھی اس سے بری ہوگئے ۔

اگر یہی بات ہے تو پھر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے ’’حسبنا کتاب ﷲ‘‘ کیوں کہا ؟
جواب : اول تو اکثر روایات میں حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا یہ مقولہ ہی نہیں شمار ہوا ۔
2 ۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ بخوبی جانتے تھے کہ ﷲ کا دین اور قرآن پاک کا نزول مکمل ہوچکا ہے کہ جس پر ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ شاہد ہے پس آپ نے گمان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ حکم وحی الٰہی کی وجہ سے نہیں اور وجوب نہیں بلکہ بطور مشورہ ہے تو آپ نے بطور مصلحت اور مشورہ عرض کردیا کہ یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ تحریر قرطاس کی زحمت نہ فرمائیں ۔ کتاب ﷲ کو ہمارے لیے کافی سمجھیں جس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے موافقت ظاہر فرمائی اور تحریر قرطاس پر زور دینے والوں کو ڈانٹ دیا ۔ چنانچہ بخاری شریف کتاب الجہاد والسیر باب ہل یستشفع الی اہل الذمۃ ومعاملتہم، جلد 10 صفحہ 268 رقم الحدیث 2825 پر ہے : دعونی فالذی انا فیہ خیر مما تدعونی الیہ ۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے اپنے کلام میں قرآن کو مسلمان کے لیے کافی ہونا کا بیان کیا ہے تو حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا نہج البلاغہ جلد 3 صفحہ 57 پر ہے : وﷲ وﷲ فی القرآن ‘‘ نیز کتاب مذکور جلد 2 صفحہ 27 پر ہے ’’فاوصیک بالاعتصام بحبلہ‘‘ اور جلد 2 صفحہ 22 پر ہے ’’ومن اتخذ قولہ دلیلا ہدی‘‘ دیکھیے حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی ہدایت کےلیے قرآن کو کافی قرار دیا ۔ لہٰذا اگر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے قول سے انکار بالسنۃ لازم نہیں آتا تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے قول سے لازم کیوں آئے گا ؟ بربنائے حکمت و مصلحت مشورہ دینا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی ہرگز نہیں ہے ۔
جنگ حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ۔ اے علی اسے مٹایئے (لفظ ’’رسول ﷲ‘‘ کے بارے میں) توحضرت علی رضی ﷲ عنہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صاف جواب دیا کہ میں اسے ہرگز نہیں مٹاٶں گا ۔ جب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ الفاظ اپنے ہاتھ مبارک سے مٹادیے ۔ اگر اس واقعہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو نافرمان نہیں کہا جا سکتا تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو بھی نہ کہا جائے کیونکہ بربنائے مصلحت و حکمت حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خلاف ورزی کی ہے تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو بھی کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن ہم کہتے ہیں نہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلاف ورزی کی ہے ، نہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے بلکہ وہی ہوا جو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہتے تھے ۔

فضائل عمر از لسان حیدر رضی ﷲ عنہما

شیعہ صاحبان خواہ مخواہ سیدنا عمر رضی ﷲ عنہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جبکہ ان کی کتابوں میں مذکورہ ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے مناقب بیان فرمائے ۔ جب خلیفہ ثانی عمر رضی ﷲ عنہ نے روم پر چڑھائی کی اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا کہ نواحی اسلام کو غلبہ دین سے بچانے اور مسلمانوں کی شرم رکھنے کا ﷲ ہی کفیل ہے ۔ وہ ایسا خدا ہے جس نے انہیں اس وقت فتح دی جب ان کی تعداد نہایت قلیل تھی اور کسی طرح فتح نہیں پاسکتے تھے ۔ انہیں اس وقت مغلوب ہونے سے روک رہا ہے جب یہ کسی طرح روکے نہیں جا سکتے اور وہ خداوند عالم حی لایموت ہے ۔ اب اگر تو خود دشمن کی طرح کوچ کرے اور تکلیف اٹھائے تو پھر یہ سمجھ لے کہ مسلمانوں کو ان کے اقصائے بلاٶ تک پناہ نہ ملے گی اور آپ کے بعد کوئی ایسا مرجع نہ ہوگا جس کی طرف وہ رجوع کریں لہٰذا آپ دشمن کی طرف اس شخص کو بھیجیں جو کار آزمودہ ہو اس کے ماتحت ان لوگوں کو روا نہ کرو جو جنگ کی سختیوں کے متحمل ہوں اور اپنے سردار کی نصیحت کو قبول کریں ۔ اب اگر خدا غلبہ نصیب کرے گا تب تو وہ چیز ہے جسے تو دوست رکھتا ہے اور اگر اس کے خلاف ظہور میں آیا تو ان لوگوں کا مددگار اور مسلمانوں کا مرجع تو موجود ہے ۔ (نیرنگ فصاحت صفحہ 19،چشتی)
فقیر نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے عربی کلام کا ترجمہ شیعہ حضرات کی کتاب ’’نیرنگ فصاحت‘‘ سے لیا ہے تاکہ ان کو یہ عذر نہ ہو کہ ترجمہ میں دست اندازی کی گئی ہے ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے اس کلام سے درج ذیل امور ثابت ہوئے ہیں : ⬇
1 ۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو حضرت علی رضی ﷲ عنہ پر پورا اعتماد تھا ۔ ہر معاملہ میں ان سے مشورہ لیا جاتا ورنہ یہ مُسلّم ہے کہ کوئی شخص اپنے دشمن سے اس طرح کا مشورہ ہرگز نہیں لیا کرتا ۔
2 ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو مسلمانوں کا ملجا و ماوا سمجھتے تھے ۔ اسی وجہ سے آپ نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو یہ مشورہ نہ دیا کہ اس مہم میں بذات خود معرکہ کارزار میں جائیں ۔ اگر خدانخواستہ باہمی کدورت ہوتی تو یہ مشورہ دیتے کہ آپ خود لڑائی میں جائیں تاکہ ان کا کام تمام ہو اور آپ کےلیے جگہ خالی ہو ۔ اس بات سے ظاہر ہوا کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ ، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے صادق دوست تھے ۔
3 ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی کامیابی کو کامیابیِ اسلام تصور کرتے تھے ۔ اس لیے ان کو تسلی دی کہ ﷲ تعالیٰ تمہارا اور مسلمانوں کا خود حامی و ناصر ہے ۔ جب مسلمان تھوڑے تھے اس وقت بھی ان کی حفاظت فرمائی اور اب تو بفضل خدا مسلمانوں کی تعداد کثیر ہے ۔ پھر اس کی تائید و نصرت پر کیوں نہ بھروسہ کیا جائے ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے کلام سے یار لوگوں کی اس من گھڑت بات کی بھی تردید ہوتی ہے کہ بعد از وصالِ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف تین چار مسلمان ہی رہ گئے تھے ۔ ایسا ہوتا تو آپ یوں فرماتے ۔ پہلے مسلمانوں کی تعداد کثیر تھی ، اب گنتی کے چند آدمی رہ گئے ہیں ۔ ان کی اس مہم پر بھیجو تو فتح ہوگی ورنہ شکست ۔

حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ عنہم ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم مبارک کو چھوڑ کر خلافت کے چکر میں پڑگئے تھے جس سے تدفین میں تین دن تاخیر ہوئی ؟
جواب : جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال ہوا تو نفاق نے سر اٹھایا ، عرب کے کچھ لوگ مرتد ہو گئے ۔ منکرین زکوٰۃ کا مسئلہ درپیش آگیا اور انصار نے بھی علیحدگی اختیار کرلی ۔ اتنی مشکلیں جمع ہوگئیں کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی جگہ پہاڑ پر بھی پڑتیں تو وہ بھی اس وزن کو برداشت نہ کر سکتا ۔ لیکن ﷲ اکبر ، حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے اپنی حکمت عملی سے ہر ایک مشکل کا مقابلہ کیا ۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جو صحابہ کرام علیہم الرضوان ایک لمحہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جدا نہیں رہ سکتے تھے ۔ آج وہ غم سے نڈھال ہیں ۔ ان سب کو حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ نے حوصلہ دیا ۔ اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تدفین میں تاخیرہوئی ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ انور اگر قیامت تک کھلا رہتا تو اصلاً کوئی خلل واقع نہ ہوتا کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجسام طاہرہ بگڑتے نہیں ۔ قرآن گواہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام انتقال کے بعد کھڑے رہے ۔ سال بعد دفن ہوگئے مگر نورانیت میں فرق نہ آیا تو جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت سلیمان علیہ السلام کے بھی امام ہوں ، ان کا جسم مبارک کیسے بگڑ سکتا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ انور حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کے حجرہ مبارک میں تھا ۔ جہاں اب مزار مبارک ہے ۔ اس سے باہر لے جانا نہ تھا ۔ چھوٹا سا حجرہ اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس صلوٰۃ و سلام سے مشرف ہونا تھا ۔ ایک جماعت آتی اور درود وسلام پڑھتی اور باہر چلی جاتی ۔ پھر دوسری جماعت آتی یوں یہ سلسلہ تیسرے دن ختم ہوا ۔ اگر تین برس میں یہ سلسلہ ختم ہوتا تو جنازہ مبارک یوں ہی نور سے جگمگاتا رہتا ۔ اسی صلوٰۃ و سلام کی وجہ سے تاخیر ضروری تھی ۔
اگر کسی بدباطن کے نزدیک یہ تاخیر لالچ کے سبب تھی تو سب سے بڑا الزام تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ پر ہے ۔ وہ تو لالچی نہ تھے اور کفن دفن کا کام تو ویسے ہی گھر والوں کے ذمے ہوتا ہے ۔ یہ کیوں تین دن بیٹھے رہے ، یہ تدفین فرما دیتے ۔ معلوم ہوا کہ یہ الزام غلط ہے کیونکہ جسدِ انور کی تدفین میں تاخیر دینی مصلحت تھی ۔ جس پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اتفاق تھا ۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ میں شرکت : ⬇

شیعہ حضرات الزام لگاتے ہیں کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نب کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ میں شرکت نہیں کی جبکہ ان کی اپنی ہی کتاب ’’الاحتجاج طبرسی‘‘ میں ہے : لم یبق من المہاجرین والانصار الاّ صلی علیہ ۔
ترجمہ : مہاجرین اور انصار میں کوئی باقی نہ رہا جس نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ میں شرکت نہ کی ہو ۔ (الاحتجاج طبرسی، جلد اول، ص 106، سطر 7-6، مطبوعہ ایران)

محترم قارئینِ کرام : حضرت ابوبکر وعمر و عثمان رضی ﷲ عنہم مہاجرین میں سے تھے لہٰذا شیعہ حضرات کی کتاب سے سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازے میں ان کی شرکت ثابت ہوگئی ۔ (مزید حصّہ پانزدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔