بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان (اول)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : بے شک ’’بریلوی‘‘ اور مسلک اعلیٰحضرت سچے پکے اصلی اور حقیقی اہلسنت کی علامت و نشان و شناخت و پہچان ہے ۔ اہل علم و فن کا دستور رہا ہے کہ جب کسی شئی کی کما حقہ معرفت کراتے ہیں تو اس کا معرف جامع و مانع لاتے ہیں اور جامعیت مابہ الاشتراک سے آتی ہے اور مانعیت مابہ الامتیاز سے تاکہ معرَّف یعنی جس کی معرفت کرانا مقصود ہوتی ہے اس کا وجود اغیار سے ممتاز ہوکر ذہن میں متصور ہوجائے جیسے علماء نحو نے “کلمہ” کی معرفت کرائی تو صرف “الکلمة لفظ” سے نہ کرائی بلکہ “وضع لمعنی مفرد” کی قید کے ساتھ کرائی کہ یہاں “لفظ” مابہ الاشتراک کی حیثیت کا حامل ہے جو “موضوع و مہمل لفظ” دونوں کو شامل ہے اور یہ کلمہ کےلیے جنس قریب ہے چاہتے تو جنس بعید سے معرفت کراتے یعنی “الکلمة شئی” کہ دیتے لیکن یہ تعریف حد تام نہ ہوتی یہاں تام کا بھی لحاظ رکھا گیا تا کہ مطلوب اغیار قریبہ سے بھی ممتاز ہو کر متصور ہو جائے اور “وضع لمعنی مفرد” مابہ الامتیاز کی حیثیت کا حامل ہے جس سے مہملات اور وہ الفاظ نکل گئے جو کسی معنی پر باعتبار وضع دال نہیں ہیں اور “حروف تہجی” نکل گئے اور مرکب نکل گئے خوا تام ہو یا ناقص اور اس جامعیت اور مانعیت کے لحاظ سے کلمہ کی کما حقہ معرفت حاصل ہوئی اور وہ اغیار بعیدہ و قریبہ سے ممتاز ہو کر ذہن میں متصور ہوا معلوم ہوا کسی شئی کی کما حقہ معرفت حاصل کرنے کے لئے مابہ الاشتراک کے ساتھ ساتھ مابہ الامتیاز کی ضرورت پڑتی ہے مابہ الامتیاز کے بغیر کما حقہ معرفت ہرگز نہیں حاصل ہو سکتی جیسے مناطقہ انسان کی تعریف حیوان ناطق سے کرتے ہیں یہاں حیوان مابہ الاشتراک ہے اور ناطق مابہ الامتیاز جس کی بنا پر انسان کے اغیار یعنی فرس و غنم و غیرہ انسان کی تعریف میں داخل نہ ہوسکے اور انسان کی تعریف جامع و مانع رہی لیکن اگر انسان کی تعریف صرف حیوان سے کی جائے تو اس سے انسان کی تعریف دخول غیر سے مانع نہ رہے گی یعنی فرس و غنم بھی تعریف میں شامل ہوجائیں گے اور انسان کا وجود اغیار سے ممتاز ہوکر متصور نہ ہو پائے گا ۔
اگر مابہ الامتیاز نہ ہو تو معرف یعنی جس کی معرفت کرانی مقصود ہوتی ہے اسکا وجود ذہن میں اغیار سے ممتاز ہوکر نہیں ہوگا بلکہ ابہام باقی رہےگا اور تعریف کا مقصد اصلی فوت ہوجائے گا ۔
پہلے زمانے میں صرف کلمہ پڑھنا ہی اہل حق کا امتیازی نشان رہا ہے یہی اھل حق و باطل کے مابین ممیِز و فصل کا کام کرتا رہا لیکن جب اِنھیں کلمہ پڑھنے والوں میں معتزلہ و جبریہ قدریہ جیسے فرقے وجود میں آئے جو نت نئے طریقوں سے اسلام کو نقصان پہچانے میں مشغول ہونے لگے اور قران و حدیث کے غلط معانی اور مطالب بیان کرنے لگے تو اشتراک پیدا ہوا کہ جو لوگ کلمہ طیب پڑھتے تھے ان میں ایسے نظریات رکھنے والوں کی شرکت ہوئی کہ معرَّف کی معرفت میں ابہام پیدا ہوا اور عوام الناس ابہام کی تاریکی میں گمراہی کے راستے پر چل پڑی اور اھل حق کی معرفت کرنا اندھیرے میں ہاتھ مارنے کے مترادف ہوگیا کیونکہ کوئی خط امتیاز نہ رہا جسکی بنا پر سب میدان اشتراک میں نظر آنے لگے اسلئے کہ عرف میں اصل مسلمان کی پہچان مشکل ہوگئی تھی لھذہ ایسا معرِّف جو معرَّف یعنی اصل مسلمان کی ایسی معرفت کرائے جس سے اصل مسلمان کی شناخت ہوسکے کہ اشتراک ختم ہو کی اشد ضرورت آن پڑی کہ اھل حق و باطل کے مابین تمیز ہوجائے تو اس وقت حضرت ابو الحسن اشعری رحمۃ الله علیه نے معتزلہ سے علیحدگی اختیار کی اور انکے رائے سے اختلاف کیا اور انکے متبعین معتزلہ کی رائے کے باطل کرنے میں مشغول ہوئے اور انھوں نے سنت کی اتباع کی تو انکا نام “اھل سنت و جماعت” ہوا…(جیسا کہ شرح عقائد میں ذکر ہے) تو اسی نام (معرِف) نے اپنے معرَف کی ایسی معرفت کرائی کہ جس سے معتزلہ وغیرہ نکل گئے اور اھل حق جنکی معرفت مشکل تھی,مبہم تھی اب واضح ہوگئی،عیاں ہوگئی اور یہی نام اھل حق کا امتیازی نشان بنارہا ہے کہ جو خود کے بارے میں یہ کہتا تھا کہ ہم “اھل سنت و جماعت” ہیں تو وہی اھل حق جانا جاتا تھا،پہچانا جاتا تھا لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ہم صرف مسلمان ہیں تو یہ کہنے سے اسکی پہچان نہیں ہوپاتی تھی بلکہ لفظ مسلمان کے ساتھ ساتھ اسے “اھل سنت و جماعت” کی قید لگانی پڑتی تھی تبھی اھل حق میں شمار کیا جاتا تھا ورنہ معتزلہ وغیرہ بھی خود کو مسلمان کہتے تھے اسکے بعد ایک ایسا دور آیا کہ “اھل سنت و جماعت” میں سے ایسے فرقے وجود میں آئے جو قطعیات کے خلاف بکواس کرنے لگے کہ یہ خود کو “اھل سنت و جماعت” کہتے تھے جیسے وہابیہ دیابنہ لھذا پھر اھل حق کی معرفت امتیازی حیثیت سے محروم ہوگئی غیر بھی شامل ہونے لگے
۔ لہٰذا ایسے معرِف کی ضرورت آن پڑی جو ان باطل عقائد کے حاملین کو نکال سکے, اور اھل حق کا کوئی امتیازی نشان ہوجائے تاکہ اصل اھل سنت کی معرفت غیروں کے تصور سے ممتاز ہوکر ہوسکے تو اس وقت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے ان کے باطل عقائد کا رد فرمایا انکے رائے سے اختلاف,ان سے علیحدگی اختیار فرمائی,انکے متبعین و معتقدین نے ان فرقوں کی رائے باطل کرنے میں سرگرم رہے لھذا اصل اھل سنت و جماعت کی پہچان عرف میں پھر فصل ممیز کی محتاج ہوگئی تو ہمارے علماء و اکابر نے بنام “مسلک اعلی حضرت” کی اصطلاح کو پسند فرمایا جس کو استعمال کرکے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ شخص اصل اھل سنت و جماعت ہے اور افکار اعلی حضرت رحمۃ الله علیه کی طرف نسبت کرنے کےلیے خود کو “بریلی” کی طرف منسوب کیا ۔ جیسے ماترید ایک جگہ کا نام ہے لیکن حضرت ابو منصور علیہ الرحمہ کے نظریات کی طرف نسبت کرنے کے لیے ماتریدی کہا جاتا ہے ۔
کہ اس سے اصل “اہل سنت و جماعت” کی معرفت ہوئی کہ ہم نہ دیوبندی ہیں نہ وہابی بلکہ اصلی سنی ہیں یہی عرفا بطور امتیاز مستعمل ہوا یہی اھل حق کا امتیازی نشان رہا ‘اہل سنت و جماعت” کے ساتھ یہ ایسی قید ہے کہ جس سے عقائد باطلہ کے حاملین خارج ہوگئے اور اس معرِف سے “اہل سنت و جماعت” کی معرفت جامع و مانع طریقے سے ہوگئی اصل “اہل سنت جماعت کی معرفت کے لئے خود کو صرف بریلوی کہدینا ہی کافی ہوگیا جیسے پہلے “اھل سنت و جماعت” ہی کہدینا کافی تھا اصل مسلمان کی شناخت کے لئے اور اس سے پہلے صرف کلمہ طیب ہی پڑھنا کافی تھا اہل حق و باطل کے مابین امتیاز پیدا کرنے کے کے لیے ۔ (چشتی)
اب جس جگہ جو اہل حق کا امتیازی نشان رہےگا جیسے باہر ممالک میں لفظ “صوفی” مابہ الامتیاز ہے لہٰذا یہی اہل حق کا امتیازی نشان ہے ۔
اہل و علم و فن کے دستور کو اپناتے ہوئے کس طرح اہل سنت کے مقتدر و معتبر علماء نے لفظ “بریلوی” کو پسند فرمایا ۔
غیر مقلد وہابی مصنف البریلویۃ کے ایک رفیق و معین ہمدم و دمساز مولوی امیر حمزہ اپنی کتاب ’’آسمانی جنت اور درباری جہنم‘‘ کے صفحہ نمبر 250,251 پر خود تسلیم کرتے ہیں:
’’1866ء میں دیوبند شہر میں حنفی حضرات نے ایک مدرسے کی داغ بیل ڈالی۔ یہاں سے جو علماء فارغ ہوئے وہ پھر بیسویں صدی میں دیوبندی کے نام سے معروف ہوگئے… آج کل ان کی پہچان اہلسنت و الجماعت حنفی دیوبندی کے نام سے ‘‘
پھر لکھتا ہے ’’احمد رضا خاں بریلوی جوکہ ہندوستان کے صوبہ اترپردیش (یو۔پی) کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے… جس کے ماننے والے اپنے آپ کو اہلسنت و الجماعت حنفی بریلوی کہلواتے ہیں‘‘ (درباری جہنم صفحہ 252)
پھر لکھتا ہے ’’حنفیوں میں سے دیوبندی بنے اور بریلوی بنے‘‘ (آسمانی جنت ص 253)
اسی کتاب میں ندوۃ العلماء اور ندیوں کو بھی اہلسنت حنفی ندوی لکھا ہے اور شیعوں اور غیر مقلدوں (نام نہاد اہلحدیثوں کو بھی اہلسنت لکھا ہے۔ اب مولوی اصدق صاحب بتائیں۔ اب جبکہ کئی فرقے اپنے آپ کو اہلسنت کہلوا رہے ہیں تو آپ کے لئے اہلسنت بریلوی بطور علامت و شناخت و امتیاز و پہچان بریلوی کہلانا کیوں قیامت ہے؟ یہ فتنوں اور فرقوں کا زمانہ ہے۔ اگر حقیقی اہلسنت اکابر کرام اپنی شناخت و پہچان بریلوی متعین کریں تو آپ کو کیا دکھ ہے؟ یا تو آپ یوں کریں کہ وہابیوں، غیر مقلدوں کو آمادہ کریں کہ مہاراج آپ وہابی کہلایا کریں، وہابی ہوکر اہلسنت کالیبل نہ لگائیں اور دیوبندیوں وہابیوں کو پابند کریں کہ آپ کے اکابر وہابی، دیوبندی ہونے کے دعویدار تھے۔ آپ اہلسنت کا نام سرقہ نہ کریں اور دیوبندی وہابی کہلائیں۔ جب آپ ان دونوں فرقوں کو قائل کرلیں تو حقیقی اہلسنت صرف اور صرف اہلسنت و جماعت کہلایا کریں گے اور آپ کے من کی مراد پوری ہوجائے گی اور مسلمانان اہلسنت وہابیوں، دیوبندیوں کی دھوکہ منڈی سے بچ جائیں گے۔ لیکن اب جبکہ دیوبندی بھی نام نہاد اہلسنت کہلائیں، غیر مقلد بھی اہلحدیث اہلسنت کہلائیں، ندوی و مودودی ورافضی بھی خود کو اہلسنت کہلائیں اور ہم بھی تو آپ دیدہ دانستہ سنیوں کو مذکورہ بالا باطل و بد دین فرقوں کے جال میں پھنسانا چاہتے ہیں کیونکہ بقول سیدنا مجدد اعظم سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ:
سنی حنفی اور چشتی، بن بن کے بہکاتے یہ ہیں
خوشتر و اصدق و ذیشان اندھے کی لاٹھی نہ گھمائیں اور مسلک اعلیٰ حضرت، اور بریلوی کے علامتی و شناختی نشان کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے اہلسنت کو بدمذہبوں کے لئے ترنوالہ نہ بنائیں۔ آپ کو چاہئے تھا کہ جس طرح آپ نے مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی انتساب کے خلاف آپ حضرات نے اندھا دھند اپنی ساری توانائیاں جھونک دیں۔ آپ اپنا سارا زور اور تمامتر صلاحیتیں اس پر صرف کرتے، وہابی دیوبندی غیر مقلد مودودی وغیرہ اہلسنت نہیں ہیں۔ ان جعلی بناسپتی، مصنوعی نقلی بناوٹی اہلسنت سے بچو اور اجتناب کرو۔ مگر آپ حضرات یہ تو کرنہ سکے اور الٹا ’’شاخ پہ بیٹھ کر جڑ کانٹنے کی فکر‘‘ مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور بے جوڑ شوشے چھوڑنے ، مغالطے دینے شروع کردیئے۔ بہرحال فقیر بفضلہ تعالیٰ ان ہرسہ باغیان مسلک اعلیٰ حضرت کی فریب کاریوں، مکاریوں، کیادیوں، مغالطہ آمیزیوں کا راز شواہد و حقائق کی روشنی میں جلد طشت از بام کرے گا، لیکن پہلے موضوع زیر بحث اکابر دیوبند سے خود دیوبندی کہلاتا اور مسلک دیوبند۔ دیوبندی مسلک کہلاتا مزید حوالوں سے ثابت کرتا ہے جو ان نوزائیدہ قلم کاروں کی دھندلی نظر سے اخفاء میں رہے یا دیدہ دانستہ صرف نظر سے کام لیا۔
کتاب جائزہ مدارس عربیہ مغربی پاکستان مرتبہ حافظ نذر احمد صاحب مسلم اکادمی لاہور پہلی بار 1960ء میں مرتب ہوکر طبع ہوئی۔ ہمارے پاس محرم الحرام 1392ھ بمطابق مارچ 1972ء کا طبع شدہ و شائع کردہ ایڈیشن ہے جس میں بریلوی دیوبندی، غیر مقلد اہلحدیث و شیعہ مدارس کی تفصیل موجود و مرقوم ہے۔ پہلے دیوبندی مدارس کی تفصیل ملاحظہ ہو۔ صفحہ 18، جامعہ اشرفیہ لاہور مسلک حنفی دیوبندی جامعہ مدینہ لاہور صفحہ 25,24، مسلک حنفی دیوبندی صفحہ 34، جامعہ حنفیہ مسلک حنفی دیوبندی صفحہ 42، جامعہ عربیہ رحیمیہ لاہور مسلک حنفی دیوبندی دارالعلوم مدینہ بہاولپور اہلسنت والجماعت مشرب اکابر دیوبند ،مدرسہ عطاء العلوم، عطاء العلوم والفیوض بہاولپور، نور پور مسلک حنفی دیوبندی ص 74، دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی ص 124، مسلک حنفی دیوبندی، مخزن العلوم خان پور مسلک حنفی دیوبندی ص 143، جامعہ رشیدیہ ساہیوال مسلک حنفی دیوبندی ص 160، مدرسہ اشاعت العلوم لائل پور فیصل آباد مسلک حنفی دیوبندی ص 251، جامعہ قاسمیہ لائل پور فیصل آباد مسلک حنفی دیوبندی ص 259، جامعہ اشرفیہ پشاور مسلک حنفی دیوبندی ص 406، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک حنفی دیوبندی ص 407، دارالعلوم کراچی مفتی محمد شفیع دیوبندی مسلک دیوبندی حنفی ص 477، مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی، مسلک حنفی دیوبندی ص 480، دارالعلوم قوت الاسلام حیدرآباد سندھ مسلک حنفی دیوبندی ص 514، مدرسہ مطلع العلوم کوئٹہ بلوچستان مسلک دیوبندی حنفی ص 565، مدرسہ قاسم العلوم ملتان مسلک حنفی دیوبندی ص 309، مدرسہ خیر المدارس ملتان، مسلک حنفی دیوبندی ص 300، الغرض پاکستان میں دیوبندی مسلک و مکتب فکر کے کل 291 مدارس ہیں جو خود کو حنفی دیوبندی اہلسنت دیوبندی کہلاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو کتاب جائزہ مدارس عربیہ ص 688، یہ مدارس 1972ء سے پہلے کے قائم ہیں۔ مولوی اصدق صاحب غور کرکے بتائیں کہ یہ خود فخریہ دیوبندی مسلک کہلاتے ہیں یا ہم نے کہا ہے؟ مولوی اصدق صاحب یہ بھی بتائیں اب جبکہ دیوبندی خود کو اہلسنت اور حنفی دیوبندی کہلا رہے ہیں تو ہمیں اپنی شناخت و علامت امتیاز و نشان کے طور پر بریلوی حنفی یا اہلسنت بریلوی کہلانا عقلاً و نقلاً کس طرح ممنوع ہے؟
اور بحوالہ کتب یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ہم اہلسنت اور ہمارے مسلمہ اکابر علماء و مشائخ ایک مدت مدید ایک سو سال سے بھی پہلے کے حنفی بریلوی، اہلسنت بریلوی کہلا رہے ہیں، محکمہ اوقاف، محکمہ تعلیم اور افواج پاکستان میں بطور امام و خطیب ہمیں بریلوی اہلسنت حنفی بریلوی لکھا گیا ہے۔ اصدق و خوشتر اور ذیشان سارے سرکاری محکموں سے بریلوی کا انتساب اور علامتی و شناختی نشان کیسے تلف کروائیں گے۔ دنیا آپ کو دیوانہ سمجھے گی۔ ہماری مسجدوں اور ہمارے مدارس کو سرکاری اداروں میں اہلسنت بریلوی، حنفی بریلوی لکھ کر رجسٹریشن کی جاتی ہے، رجسٹرڈ کروانے میں اگر ہم اپنا شناختی و امتیازی نشان بریلوی نہ لکھوائیں صرف مسلمان یا صرف اہلسنت لکھوا دیں تو ایک تو رجسٹریشن ناممکن اور پھر مسجدوں، مدرسوں پر بدمذہبوں کے قبضہ کا خطرہ، لڑائی جھگڑوں، مقدمہ بازیوں تک نوبت پہنچے گی یا نہیں… کیونکہ ہر باطل فرقہ یہ کہہ کر قبضہ کرلے گا ہم بھی مسلمان ہیں، ہم بھی اہلسنت ہیں، ہم بھی حنفی ہیں۔ خدا جانے آپ کیوں عقل و شعور فراست و بصیرت سے ریٹائر ہوکر خالص سنیت کے علامتی نشان بریلوی کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ذرا غور کرکے بتائو۔ ہمارے مرکزی مدارس کے بانی و مہتمم و ناظم اعلیٰ منصرم و منتظم اور حضرات شیوخ الاحادیث کیا فہم و فراست سے بالکل خالی تھے جنہوں نے اپنے مدارس کو حنفی بریلوی متعارف کرایا اور سرکاری اداروں کے ریکارڈ میں بریلوی کا اندراج کرایا۔(چشتی)
آپ ہی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں
ہم اگر بات کریں گے تو شکایت ہوگی
دیکھئے ہمارے مسلمہ اکابر علماء و مشائخ کس فراخدلی اور خندہ پیشانی سے اپنے مدارس دینی اداروں کا عقیدہ و مسلک بریلوی حنفی بریلوی قرار دے رہے ہیں۔ ملاحظہ کتاب جائزہ مدارس عربیہ پاکستان دارالعلوم حزب الاحناف لاہوریہ دارالعلوم حضرت علامہ سید محمد دیدار علی شاہ محدث الوری علیہ الرحمہ شاگرد و خلیفہ حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ بعد میں سیدنا مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے بھی خلافت سے سرفراز فرمایا۔ آپ کے وصال کے بعد شیخ المشائخ حضور سیدنا شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی کے مرید وخلیفہ اور حضور سیدنا صدر الافاضل مولانا شاہ نعیم الدین مراد آبادی کے شاگرد مفتی پاکستان علامہ سید ابوالبرکات، سید احمد قادری ناظم اعلیٰ و شیخ الحدیث ہوئے۔ اپنے دارالعلوم حزب الاحناف کا مسلک حنفی بریلوی لکھا اور کتاب جائزہ میں بریلوی کے علاوہ احناف بریلوی لکھا ہے۔ دارالعلوم جامعہ نعیمیہ لاہور بانی و مہتمم مفتی محمد حسین نعیمی حضرت صدر الافاضل علیہ الرحمہ کے مرید اور جامعہ نعیمیہ مراد آباد شریف کے فاضل ہیں اور حضرت علامہ مفتی عزیز احمد قادری بدایونی فاضل دارالعلوم قادریہ بدایوں شریف وغیرہ حضرات مدرسین تھے۔ کتاب جائزہ صفحہ 22 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صفحہ 49 دارالعلوم نعمانیہ لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صفحہ 36 جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ یہ دارالعلوم نائب اعلیٰ حضرت محدث اعظم علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد قدس سرہ کے حکم پر قائم کیاگیا۔ حضرت قبلہ محدث اعظم علیہ الرحمہ نے ہی افتتاح فرمایا۔ یہاں پہلے محدث اعظم پاکستان قدس سرہ کے داماد محترم اور شاگرد رشید المعقول علامہ غلام رسول رضوی علیہ الرحمہ صدر مدرس و مہتمم تھے۔ بعد میں علامہ مفتی عبدالقیوم قادری رضوی ہزاروی علیہ الرحمہ مہتمم و شیخ الحدیث ہوئے۔ دارالعلوم کی بیشتر روئیدادوں میں مسلک اعلیٰ حضرت لکھا ہے۔ غوث العلوم جامعہ رحیمیہ رضویہ سمن آباد لاہور صفحہ 41 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ صدیقیہ سراج العلوم لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے صفحہ 41، دارالعلوم گنج بخش داتا دربار لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے (کتاب جائزہ صفحہ 43) دارالعلوم جامعہ حنفیہ قصور صفحہ 59 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صفحہ 63 پر جامعہ نقشبندیہ فیض لاثانیہ رائے ونڈ نزد مرکز دیوبندی تبلیغی جماعت رائے ونڈ مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ اویسیہ رضویہ بہاولپوریہ دارالعلوم حضور سیدنا محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ کے جلیل القدر محقق فاضل شاگرد اور سلسلہ اویسیہ کے روحانی پیشوا علامہ مفتی فیض احمد اویسی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ صفحہ 68 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ آپ مصنف کتب کثیرہ ہیں۔ مسلک اعلیٰ حضرت کے عظیم مبلغ و ناشر تھے۔ دارالعلوم فیضیہ رضویہ احمد پور شرقیہ، بہاولپور یہ جامعہ علامہ محمد منظور احمد فیضی چشتی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ صفحہ 72 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ اسلامیہ عربیہ سید المدارس بہاولنگر صفحہ 84 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ فیض العلوم فقیر والی بہاول نگر اور مدرسہ اسلامیہ عربیہ کمال العلوم آستانہ عالیہ توگیرہ بہاول نگر صفحہ 89 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ دارالعلوم جامعہ رضویہ عربیہ ہارون آباد صفحہ 91 مسلک حنفی بریلوی ہے۔ جامعہ قطبیہ رضویہ جھنگ صفحہ 119 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ عربیہ صدیقیہ شاہ جمالیہ فیض آباد ڈیرہ غازی خان صفحہ 122، مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی یہ جامعہ علامہ محب النبی صاحب اجازت از حضرت خواجہ پیر سید مہر علی شاہ صاحب قادری چشتی نظامی علیہ الرحمہ، و علامہ مشتاق احمد صاحب کانپوری صفحہ 125 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ اس جامعہ میں شیخ الحدیث و ناظم اعلیٰ استاذ العلماء علامہ حسین احمد صاحب فاضل جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائل پور ہیں۔ جامعہ غوثیہ مظہر الاسلام راولپنڈی صفحہ 144 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صدر مدرس مولانا محمد سلمان فاضل جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد لائل پور ہیں۔ جامعہ اسلامیہ تدریس القرآن اسلام آباد راولپنڈی صفحہ 125 مسلک حنفی بریلوی ہے۔ جامعہ محمدیہ رضویہ رحیم یار خان مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ عربیہ سراج العلوم خان پور صفحہ 125 مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ فریدیہ ساہیوال منٹگمری صفحہ 163 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ علامہ ابوالنصر منظور احمد چشتی فریدی نظامی خلیفہ حضرت خواجہ میاں علی محمد خان صاحب بسی شریف چشتی نظامی مہتمم و شیخ الحدیث ہیں۔ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیرپور ضلع اوکاڑہ صفحہ 168 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ بانی و اولین شیخ الحدیث استاذ العلماء علامہ محمد نور اﷲ نعیمی علیہ الرحمہ، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ ضلع سرگودھا صفحہ 186 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مگر تحذیر الناس مصنفہ نانوتوی پر پیر کرم شاہ کی رائے سے اکابر اہلسنت متفق نہیں ہیں۔ حسام الحرمین کے برعکس موقف ہے۔ بریلوی لکھا، دارالعلوم جامعہ حنفیہ سیالکوٹ صفحہ 200 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ مدرسہ خدام الصوفیہ گجرات جامعہ شاہ ولایت گجرات امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نقشبندی رحمتہ اﷲ علیہ کے خلیفہ حضرت پیر سید ولایت شاہ نقشبندی رحمتہ اﷲ علیہ، 1920ء میں قائم کیا صفحہ 219 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ غوثیہ نعیمیہ گجرات شیخ التفسیر علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی علیہ الرحمہ اس کے بانی تھے۔ صفحہ 220ء پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ حنفیہ رضویہ سراج العلوم گوجرانوالہ یہ جامعہ محدث اعظم پاکستان قدس سرہ کے حکم سے قائم کیاگیا۔ حکیم الامت علامہ ابو دائود، مولانا محمد صادق صاحب قادری رضوی مدظلہ اس کے مہتمم و بانی ہیں۔ مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ (جائزہ مدارس عربیہ ص 234،چشتی) دارالعلوم جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائل پور فیصل آباد نائب اعلیٰ حضرت محدث اعظم پاکستان قدس سرہ نے قائم فرمایا۔ یہاں سے ہزاروں علماء فارغ التحصیل ہوئے مغربی یورپی افریقی ممالک میں خدمات دینیہ سرانجام دے رہے ہیں۔ صفحہ 253 پر مسلک حنفی رضوی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ اسلامیہ عربیہ انوارالعلوم ملتان غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ آپ کے برادر اکبر اور استاد محترم و پیر و مرشد علامہ قاری سید محمد خلیل کاظمی قدس سرہ بھی خدمات تدریس انجام دے چکے ہیں۔ مدرسہ کے آغاز و افتتاح پر شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم شیخ العلماء علامہ شاہ مصطفی رضا خان بریلوی محدث اعظم ہند ابو المحامد سید محمد محدث کچھوچھوی محدث اعظم پاکستان علامہ محمد سردار احمد لائل پوری قدس سرہ کی تشریف آوری کی بابرکت موقع پر ہوا۔ صفحہ 311 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ حضرت علامہ کاظمی علیہ الرحمہ فرماتے تھے وہ میرا مرید نہیں، ہاں وہ میرا مرید نہیں جو مسلک اعلیٰ حضرت پر نہیں ایک بار چوک حسین آگاہی ملتان کے جلسہ میں ڈپٹی کمشنر ملتان کی موجودگی میں دیوبندی احراری مولوی محمد علی جالندھری نے کہا کہ میں لوہے کی لٹھ دیوبندی ہوں۔ علامہ کاظمی علیہ الرحمہ نے اپنی جوابی تقریر میں کہا لوہا پگھل جاتا ہے اور فرمایا میں پتھر کی طرح سخت بریلوی ہوں، پتھر پگھلتا نہیں۔ دارالعلوم امجدیہ کراچی علامہ مفتی محمد ظفر علی نعمانی قادری رضوی مصباحی فاضل اشرفیہ مبارک پور نے قائم کیا۔ فخر الاسلام علامہ عبدالمصطفی ازہری، علامہ مفتی وقار الدین رضوی یہاں شیخ الحدیث رہ چکے ہیں، علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی مصباحی علامہ قاری محبوب رضا بریلوی یہاں مدرس اور مفتی رہ چکے ہیں۔ صفحہ 483 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ 1966ء سے آج تک دارالعلوم امجدیہ کی سالانہ روئیداد اور امجدیہ کے سالانہ مجلہ رفیق علم میں مسلک اعلیٰ حضرت لکھا ہوتا ہے۔ دارالعلوم حامدیہ رضویہ کراچی صفحہ 487 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ صبغۃ الہدیٰ جامعہ راشدیہ گوٹھ غلام علی تھرپارکر صفحہ 494 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ دارالعلوم احسن البرکات حیدرآباد سندھ بانی علامہ مفتی محمد خلیل خاں برکاتی امجدی رحمتہ اﷲ علیہ صفحہ 511 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ رکن الاسلام جامعہ مجددیہ میدان ہیراآباد حیدرآباد علامہ مفتی محمد محمود صاحب نقشبندی مجددی خلف الرشید شیخ طریقت حضرت مولانا صوفی رکن الدین نقشبندی علیہ الرحمہ صفحہ 513 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ راشدیہ پیر گوٹھ سندھ جامعہ راشدیہ کے بانی حضرت پیر صاحب پاگارہ ہیں۔ حضرت علامہ مفتی محمد صاحبداد خان صاحب علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مفتی محمد تقدس علی خاں صاحب علیہ الرحمہ، شیخ الحدیث و صدر مدرس و مفتی رہ چکے ہیں۔ صفحہ 531 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ سفینۃ العلوم احمد پور خیرپور سندھ صفحہ 533 مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ محمدیہ کنزالعلوم دادو سندھ صفحہ 534 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ راشدیہ سے منسلک مدارس کی تعداد 21 ہے، سب پر حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ انوار العلوم مورو نواب شاہ صفحہ 561 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ کتاب جائز و مدارس میں صفحہ 688 پر 1972ء حنفی بریلوی مدرس کی تعداد 122 ہے۔ اب حنفی بریلوی مدارس 570 ہیں۔ اب مولوی اصدق صاحب اور خوشتر و ذیشان ارشاد فرمائیں اتنے جلیل القدر اکابر علماء کرام اور مشائخ طریقت نے جو خود کو اور اپنے مدارس و مراکز دینیہ کو حنفی بریلوی کا نام دیا اور مسلک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اختیار کیا۔ کیا ان کو جماعتی نقصان اور نسبت بریلوی کے مضمرات کا پتہ نہ تھا۔ کیا آپ حضرات ان اکابر سے زیادہ وسعت علم کے حامل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی بطور خاص ملحوظ خاطر رہے کہ ہم نے بفضلہ بریلوی اور مسلک اعلیٰ حضرت کے اطلاق و استعمال کے باب میں صرف قادری برکاتی رضوی اکابر اعاظم بزرگان اہلسنت ہی نہیں، جملہ سلاسل اربعہ قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اکابرین کرام اور جملہ سلاسل کے علماء کے زیر اہتمام مدارس و جامعات دینیہ کو بحوالہ کتب معتبرہ بیان کیا ہے تاکہ اصدق مصباحی جیسے سطحی سوچ رکھنے والوں کو یہ شوشہ چھوڑنے اور عوام اہلسنت کو جھانسہ دینے کا موقع نہ ملے کہ بریلوی کہلانے اور مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگانے سے دوسری خانقاہوں دوسرے سلسلہ کے بزرگوں کو ماننے والوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ وہ بریلوی اور مسلک اعلیٰ حضرت کو قبول نہیں ہے۔ یہ مولوی اصدق اور خوشتر کی ذاتی و انفرادی سوچ ہے۔ بات یہاں تک پہنچی تھی کہ مختلف سلاسل کے کچھ اور بزرگان اہلسنت کے چندارشادات و فرمودات سامنے آئے۔ قارئین کرام کی ضیافت طبع کے لئے پیش خدمت ہیں۔ ملاحظہ ہو، ماہر رضویات ڈاکٹر پروفیسر محمد مسعود احمد مظہری نقشبندی مرحوم کے عظم المرتبت والد بزرگوار مفتی اعظم دہلی علامہ مفتی محمد مظہر اﷲ صاحب نقشبندی مجددی رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے مجموعہ ’’فتاویٰ مظہری‘‘ ص 375,374 پھر صفحہ 377,376 پھر صفحہ 380,379 پر بار بار بریلوی، دیوبندی، بریلوی، دیوبندی لکھا ہے جس سے بریلوی دیوبندی کے اطلاق استعمال، ستر۔ اسی سال سے بھی بہت پہلے کا ہے۔ فقیر کے پاس حضرت علامہ مفتی محمد مظہر اﷲ قدس سرہ کے مختلف مسائل پر کافی خطوط ہیں۔ دو خطوط میں صاف لکھا ہے ’’اعلیٰ حضرت امام اہلسنت قدس سرہ کی تحقیق و مسلک میں کس کا زہرہ ہے جو جرأت لب کشائی کرسکے‘‘ (قلمی مکتوب)
سیدنا حضرت خواجہ پیر سید مہر علی شاہ صاحب گیلانی تاجدار گولڑہ شریف قادری چشتی نظامی سلسلہ کے عظیم روحانی پیشوا تھے۔ آپ کی مستند سوانح عمری ’’مہر منیر‘‘ میں جگہ جگہ بریلوی دیوبندی بریلوی لکھا ہے جس سے ثابت ہوا کہ یہ استعمال و اطلاق بہت پہلے کا ہے۔ 20,25 سال کی بات نہیں ہے۔
آج سے ساٹھ سال پہلے جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے مارشل لاء لگایا اور محکمہ اوقاف بنایا تو محکمہ اوقاف کے کچھ افسر معلومات حاصل کرنے اور سرکاری فارم پر کرنے کے لئے آستانہ عالیہ گولڑہ شریف پہنچے تو حضرت مخدوم سجادہ نشین علیہ الرحمہ حضرت بابوجی صاحب سے معلوم کیا کہ آپ کا مسلک کیاہے؟ انہوں نے اپنے دارالعلوم و آستانہ کے مفتی و شیخ الحدیث مولانا محمد فیض احمد فیض چشتی علیہ الرحمہ کی طرف اشارہ کیا کہ تم بتائو، وہ کھڑے ہوکر کہنے لگے۔ ہم اہلسنت ہیں۔ افسر نے سوال کیا، ہم نے مسلک پوچھا ہے، بریلوی ہو یا دیوبندی؟ مولانا فیض احمد مرحوم نے کہا ہم گولڑوی ہیں۔ افسر نے کہا کہ ہمارے پاس دو خانے بریلوی اور دیوبندی۔ حضرت مخدوم سجادہ نشین بابوجی رحمتہ اﷲ علیہ خلف گرامی حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’لکھو ہم بریلوی ہیں‘‘ (ماہنامہ سوئے حجاز لاہور مارچ 2006ء و ماہنامہ رضائے مصطفے گوجرانوالہ جولائی 2006ء صفحہ 23)
حضرت صاحبزادہ فیض الحسن نقشبندی سجادہ نشین آلو مہار شریف شعلہ نوا خطیب تھے۔ دیوبندی مجلس احرارمیں امیر الاحرار مولوی عطاء بخاری دیوبندی کے رفیق خاص تھے جب حضور سیدنا محدث اعظم پاکستان علامہ محمد سردار احمد قدس سرہ کی برکت اور خواب میں رہنمائی سے توبہ کی توفیق نصیب ہوئی تو حضرت امیر شریعت علامہ ابو دائود محمدصادق صاحب مدظلہ کی مساعی سے انہوں نے حضرت محدث اعظم علیہ الرحمہ کو تحریر لکھ کر دی، میں حسام الحرمین کی بھرپور تائید و تصدیق کرتا ہوں۔ مسلک اعلیٰ حضرت بریلوی کی پابندی کروں گا (ملخصاً) یہ بھی 55 سال پہلے کی بات ہے۔
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا عظیم روحانی آستانہ جہاں شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمتہ اﷲ علیہ محو استراحت ہیں، مراقبہ میں حضور سیدنا غوث اعظم سرکار بغداد رضی اﷲ عنہ سے رابطہ ہوا۔ عرض کیا حضور اس وقت آپ کا نائب کون ہے۔ فرمایا بریلی میں مولانا احمد رضا خاں حضرت شیر ربانی شرقپوری رحمتہ اﷲ علیہ کے جامعہ حضرت میاں صاحب ہیں۔ ہمیشہ سنی حنفی بریلوی علماء و صدر مدرس و مفتی رہے اور سرکاری کاغذات میں مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ ملخصاً (نور مظہور قصور، کتاب سیدی امام احمد رضا و کتاب دیوبندی مذہب مصنفہ علامہ غلام مہر علی چشتی گولڑوی چشتیاں شریف، کتاب محاسبہ دیوبندیت مصنفہ فقیر محمد حسن علی رضوی بریلوی میلسی،چشتی)
جامعہ حضرت میاں صاحب میں سیدی سندی حضور محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ کے داماد و تلمیذ خاص شیخ المعقول علامہ غلام رسول رضوی قدس سرہ صدر مدرس رہے، جو سیدنا حضور مفتی اعظم شہزادہ اعلیٰ حضرت قدس سرہما کے خلیفہ تھے۔ شیخ طریقت عارف باﷲ میاں علی محمد خان چشتی نظامی قدس سرہ جن کے شیخ المحدثین علامہ سید محمد دیدار علی محدث الوری اور سیدنا محدث اعظم سے خصوصی علمی روحانی مسلکی تعلقات بڑے گہرے تھے۔ ان کے کافی مکتوبات فقیر کے پاس محفوظ ہیں۔ ایک بار مودودیوں نے مودودی پارٹی کے زیر اہتمام بھاشانی کے یوم سوشلزم کے جواب میں یوم شوکت الاسلام منانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سنی بریلوی بعض علماء کے نام سے مغالطہ دیا۔ شہر میلسی میں حضرت میاں علی محمد خاں علیہ الرحمہ کے کچھ مریدین مودودیوں کے جھانسہ میں آگئے۔ فقیر نے میاں صاحب علی الریہمہ کو ایک مکتوب کے ذریعے صورتحال سے آگاہ کیا اور عرض کیا حضرت اپنے مریدین کو مودودیوں کے یوم شوکت الاسلام میں شمولیت سے روکیں۔ تحریری حکم نامہ ارسال کریں۔ حضرت میاں صاحب ان دنوں پاک پتن شریف کی بجائے کراچی تشریف فرما تھے۔ پاک پتن شریف سے فقیر کا عریضہ کراچی گیا اور جواب آیا… وعلیکم السلام ثم السلام علیکم، ہمیں اپنے سنی بریلوی علماء کے ساتھ رہنا چاہئے۔ علماء اہلسنت بریلوی کے فتاویٰ اور شرعی احکام پر عمل کرنا چاہئے۔ خادم الفقیر میاں علی محمد خاں چشتی فریدی نظامی، مکتوب موجود ہے۔
حضور امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ نقشبندی مجددی رحمتہ اﷲ علیہ کے نام گرامی سے پاک و ہند بنگلہ دیش حرمین طیبین کے علماء و مشائخ عوام و خواص بخوبی واقف ہیں۔ اہلسنت کے ممتاز و موقر ماہنامہ رضائے مصطفے گوجرانوالہ میں بار بار چھپ چکا ہے۔ حضرت امیر ملت محدث علی پوری، اور نبیرۂ محدث علی پور مخدوم محترم مولانا پیر سید اختر حسین نقشبندی علیہ الرحمہ مسلک اعلیٰ حضرت کے پابند تھے۔
آل انڈیا سنی کانفرنس کی اولین تاسیس اور سنی کی تعریف میں مسلک اعلیٰ حضرت کی شرط ہے۔ یاد رہے کہ سنی کانفرنس میں حضرت صدر الشریعہ اعظمی، حضرت صدر الافاضل مراد آبادی حضور مفتی اعظم نوری بریلوی، حضور محدث اعظم ہند کچھوچھوی حضور پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری، مبلغ الاسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی، حضور محدث اعظم پاکستان لائل پوری، علامہ ابوالحسنات قادری، علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری، مفتی محمد عمر نعیمی مراد آبادی، پیر صاحب بھرچونڈی شریف، پیر صاحب سیال شریف علماء بدایوں، پیر صاحب مشوری شریف سندھ وغیرہم کثیر اکابر اہلسنت شامل تھے۔ یہاں بھی مسلک اعلیٰ حضرت کی شرط ہے (سواد اعظم لاہور جلد 2 صفحہ 23,24، وصفحہ 41 مطبوعہ لاہور،چشتی)
دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں شیر بیشہ اہل سنت علامہ محمد حشمت علی خان صاحب علیہ الرحمہ کے قلم سے سنی کی تعریف اور حضرت سیدی صدر الافاضل مراد آبادی علیہ الرحمہ کے تائیدی دستخط جس میں مسلک اعلیٰ حضرت کی شرط موجود ہے، قلمی تحریر موجود ہے۔ جو فقیر کو حضرت مفتی پاکستان علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری علیہ الرحمہ نے خود دکھائی۔ یہ تحریر اس وقت کی ہے جب سنی کانفرنس اور تحریک پاکستان کے دور میں حضرت شیر بیشۂ اہلسنت مولانا محمد حشمت علی خاںصاحب علیہ الرحمہ دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں قیام فرما تھے اور حضرت صدر الافاضل علیہ الرحمہ بھی تشریف لے آئے تھے اور علامہ سید ابوالبرکات سید احمد علیہ الرحمہ سے فرمایا یہ بڑے سنی بنے پھرتے ہیں۔ ذرا سنی کی تعریف تو لکھ دیں۔ اس پر شیر بیشۂ اہل سنت نے سنی کی بڑی جامع ومدلل تعریف ارقام فرمائی جس میں مسلک اعلیٰ حضرت بھی موجود تھا۔ حضرت صدر الافاضل نے ملاحظہ فرما کر کہا ہاں ٹھیک ہے۔ لائو میں بھی دستخط کرتا ہوں۔
اسی طرح فقیر کے پاس پرانی ڈاک میں حضرت علامہ سید محمد خلیل محدث امروہوی چشتی صابری علیہ الرحمہ کے متعدد خطوط ہیں جس میں واضح طور پر مسلک اعلیٰ حضرت مرقوم و موجود ہے۔ یہاں پاکستان میں مرکزی جمعیت العلماء پاکستان اور جماعت اہلسنت کے دستور و منشور میں دیگر اکابر کے ساتھ مسلک اعلیٰ حضرت کی تصریح موجود ہے۔ یہاں پاکستان میں بہت سی علاقائی دینی تبلیغی اصلاحی انجمنیں ہیں اور بکثرت ادارے ایسے ہیں جس میں مسلک اعلیٰ حضرت کی شرط موجود ہے۔ حضور سیدی ملجائی مرشدی مولائی امام اہلسنت محدث اعظم علامہ محمد سردار احمد قبلہ قدس سرہ برملا فرمایا کرتے تھے ’’جو مولوی سیدنا اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تحقیق و مسلک کے مقابلہ میں اپنی تحقیق پر اتراتا ہے وہ محقق نہیں، مجہول ہے، اس کی تحقیق نہیں تجہیل ہے‘‘
سیدی سندی حضور محدث اعظم پاکستان کے شجرہ قادریہ برکاتیہ رضویہ و شجرہ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں صاف صاف مرقوم ہے، مسلک سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہ پر عمل کریں۔ فقیر کے پاس حضرت صاحب کے ایک سو سے زائد خطوط و مکتوب موجود ہیں جن میں بار بار مسلک اعلیٰ حضرت کی تاکید و تلقین فرمائی ہے۔ کاش کہ اصدق و خوشتر و ذیشان ماہنامہ اشرفیہ کا حافظ ملت نمبر اور مجاہد ملت نمبر ہی دیکھ لیتے جہاں مسلک اعلیٰ حضرت کا لفظ متعدد مقامات پر ملے گا۔
شیخ العرب والعجم خلیفہ اعلیٰ حضرت قطب مدینہ کی مفصل و جامع طویل وضخیم سوانح عمری بنام ’’سیدی ضیاء الدین احمد القادری علیہ الرحمہ، جناب علامہ حکیم محمد عارف ضیائی رضوی علیہ الرحمہ، خادم و خلیفہ خاص سیدی قطب مدینہ علیہ الرحمہ کے قلم سے دو جلدوں پر مشتمل چھپ چکی ہے اور فقیر نے مدینہ منورہ حاضری کے دوران اس کی تصحیح و پروف ریڈنگ کی۔ اس میں کتنے ہی مقامات پر مسلک اعلیٰ حضرت پایا جاتا ہے۔
جامع اشرفیہ اور مصباح العلوم مبارک پور کا ایک جہاں بھر میں نام روشن ہے اور ہزاروں علماء یہاں سے فیض یاب ہیں۔ حضور سیدنا حافظ ملت بانی اشرفیہ قدس سرہ کی ذات گرامی مینارہ نور ہے۔ وہ حضور سیدی سندی سرکار محدث اعظم پاکستان علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد قدس سرہ کے استاد بھائی ہم سبق و ہم مدرس تھے۔ دونوں حضرات کو سیدنا صدر الصدور صدر الشریعہ قدس سرہ نے ایک دن ایک وقت خلافت و اجازت عطاء فرمائی تھی۔ دستور اساسی دارالعلوم جامعہ اشرفیہ مبارکپور ص 5 ملاحظہ ہو۔ صاف صاف لکھا ہے ’’ادارہ کا مسلک موجود زمانہ میں جس کی واضح نشانی یہ ہے جو اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی سے عقائد و اعمال میں بالکل متفق ہو‘‘ (دستور اساسی ص 5 جامعہ اشرفیہ مبارکپور)
دارالعلوم فیض الرسول برائون شریف کا ایک دنیا میں نام ہے جس کو حضور شعیب الاولیاء مولانا شاہ یار علی شاہ صاحب قبلہ قدس سرہ نے قائم فرمایا تھا جہاں بحرالعلوم علامہ غلام جیلانی، علامہ عبدالمصطفے اعظمی، علامہ بدرالدین احمد قدست اسرارہم جیسے مشاہیر کرام شیخ الحدیث و صدر مدرس رہے، فتاویٰ دارالعلوم فیض الرسول ایک نظر ملاحظہ ہو۔ پچاسوں مقام پر مسلک اعلیٰ حضرت کی جلوہ گری ہے۔
خدا جانے اصدق و خوشتر و ذیشان بے خبری و لاعلمی کی کن وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ انہیں کچھ پتہ نہیں یا تجاہل عارفانہ ہے۔ ذرا ایک نظر بمبئی سے شائع ہونے والا ماہنامہ المیزان کا امام احمد رضا نمبر اور جامعہ اشرفیہ مبارکپور کا حافظ ملت نمبر، مجاہد ملت نمبر، صدر الشریعہ نمبر ہی ایک نظر ملاحظہ کرلیتے۔ بالخصوص ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور کا طویل و ضخیم شاہکار سیدین نمبر میں اور اس میں شہنشاہ برکات و خانوادہ عالیہ برکاتیہ کے مسلمہ اکابر حضور سیدنا تاج العلماء اولاد رسول مولانا شاہ محمد میاں برکاتی، حضور سیدنا سید العلماء سید شاہ آل مصطفے میاں حضور سیدنا شاہ اسماعیل حسن برکاتی، سیدنا حضرت احسن العلماء الشاہ حافظ مصطفے حیدر حسن، میاں حضرت علامہ حسنین میاں نظمی برکاتی، حضرت علامہ ڈاکٹر امین میاں برکاتی (قدست اسرارہم و دامت برکاتہما) کے مسلک اعلیٰ حضرت سے متعلق ارشادات و فرمودات سرسری نظر سے ہی دیکھ لیتے۔ فقیر (محمد حسن علی رضوی بریلوی) نے مختلف مقامات سے 55 حوالہ جات مسلک اعلیٰ حضرت سے متعلق سیدین نمبر سے نوٹ کئے ہیں۔
فقیر کے خیال میںتو ان باغیان مسلک اعلیٰ حضرت نے رضا اکیڈمی ممبئی سے شائع ہونے والی طویل وضخیم معارف شارح بخاری بھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی وہاں بھی مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی کی جلوہ گری ہے۔ عالمی مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ اور قائد جمعیت العلماء پاکستان مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی مسلک اعلیٰ حضرت اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ مولانا نورانی میاں نے دارالعلوم امجدیہ میں عرس امجدی میں خطاب کرتے ہوئے بتایا ’’میرے والد گرامی مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی کی ایک نصیحت میرے پاس موجود ہے۔ فرمایا الحمدﷲ میں مسلک اہلسنت پر زندہ رہا۔ مسلک اہلسنت وہی ہے جو مسلک اعلیٰ حضرت ہے جو اعلیٰ حضرت کی کتابوں میں مرقوم ہے اور الحمدﷲ اسی پر میری عمر گزری اور الحمدﷲ آخری وقت اسی مسلک اعلیٰ حضرت پر حضور پرنورﷺ کے قدم مبارک میں خاتمہ بالخیرہورہا ہے‘‘ ۔ (ماہنامہ ترجمان اہلسنت کراچی ذی الحجہ 1397ھ و ماہنامہ سنی آواز ناگپور ستمبر اکتوبر 1995،چشتی)
مفتی اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری خلف گرامی رئیس المحدثین علامہ سید محمد دیدار علی شاہ محدث الوری قدس سرہما فرماتے ہیں ’’تعجب ہے اعلیٰ حضرت امام اہلسنت قدس سرہ کا فتویٰ ہوتے ہوئے مجھ سے استفسار کیا جارہا ہے، فقیر کا فقیر کے آبائو و اجداد کا وہی مسلک ہے جو اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا ہے‘‘ (قلمی مکتوب بنام فقیر محمد حسن علی رضوی بریلوی میلسی)
فقیہ اعظم علامہ محمد شریف محدث کوٹلوی، امام العلماء مولانا محمد امام الدین کوٹلوی حضرت علامہ مفتی محمد عبداﷲ کوٹلوی قدست اسرارہم کے متعلق علامہ ابو النور محمد بشیر کوٹلوی مدیر ماہنامہ ماہ طیبہ رقم طراز ہیں، فرمایا ’’مولوی بشیر مجھ سے مصافحہ کرلو، میں اب جانے والا ہوں، میری تمہارے لئے دعا ہے، دیکھو تمہارے والد فقیہ اعظم محدث کوٹلوی رحمتہ اﷲ علیہ اور تمہارے تایا حضرت مولانا محمد عبداﷲ قادری رضوی اور میں عمر بھر اعلیٰ حضرت بریلی شریف والوں کے مسلک کی تبلیغ کرتے رہے۔ تم بھی اسی مسلک اعلیٰ حضرت پر قائم رہنا، خدا تمہاری مدد فرمائے گا‘‘ (ماہنامہ ماہ طیبہ اکتوبر 1961ء ص 50)
کہاں تک لکھا جائے اور کون شمار کرسکتا ہے، کتنے بڑے بڑے جلیل القدر اساطین امت نے مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی کی مقدس نسبت کو اپنایا اور اختیار کیا اور تو اور بالخصوص یہاں پاکستان میں جو سرکاری ادارے اور سرکاری محکمے مساجد اور دینی مدارس کو رجسٹرڈ کرتے ہیں، سرکاری ادارے جو فارم فراہم کرتے ہیں وہاں جمہور اہلسنت کو حنفی بریلوی، بریلوی حنفی اہلسنت بریلوی لکھنا پڑتا ہے۔ اسی طرح جب مساجد اور دینی مدارس کے لئے جب اراضی (زمین) خریدنی ہو تو تحصیل ہیڈ کوارٹر میں اہلسنت کو حنفی بریلوی، اہلسنت بریلوی، بریلوی حنفی لکھنا اور لکھوانا پڑتا ہے۔ دوسرے فرقے اپنا عقیدہ و مسلک لکھتے ہیں۔ مولانا رکن الدین اصدق اور جناب خوشتر کہاں کہاں سے بریلوی اور مسلک اعلیٰ حضرت کٹوائیں اور مٹوائیں گے؟
اے رضا روز ترقی پہ ہے چرچا تیرا
اوج اعلیٰ پہ چمکتا ہے ستارا تیرا
اہلسنت کے دلوں میں ہے محبت تیری
دشمن دین کو سدا رہتا ہے کھٹکا تیرا
مقام غور و فکر ہے کہ ایک طرف تو یہ ہزاروں اکابر امت اساطین ملت خود کو بریلوی، اور مسلک اعلیٰ حضرت کا تابع ظاہر فرما رہے ہیں اور بلا امتیاز قادری چشتی نقشبندی سہروردی جملہ سلاسل عالیہ کے اعاظم مشائخ طریقت اپنے مسلمہ امام و مجدد کی مبارک نسبت سے بریلوی کہلانے میں فخر اور ناز سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف نومولود کمسن قلمکار اصدق و خوشتر و ذیشان آج سنی قوم کو یہ سمجھانے اور باور کرانے چلے ہیں کہ بریلوی کا نام ہمیں ہمارے دشمنوں وہابیوں غیر مقلدوں نے دیا ہے۔ مولوی ظہیر غیر مقلد نے اپنی کتاب البریلویہ میں یہ نام ہمیں دے کر دنیا بھر میں ہمیں ایک نیا فرقہ مشہور کردیاہے۔ بہت خوب:
قلمکار بالی عمریا کے طور
ذرا ان کے بھی کروفر دیکھ لینا
ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا
مدیروں کے جھرلو ہنر دیکھ لینا
گویا یہ معدودے چند عناصر اپنے زعم حسد و عناد میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ہزاروں اکابر امت سے زیادہ وسعت علم کے حامل وماہر اور ان سے زیادہ وسعت نظر اور جماعتی مفاد کو سمجھنے والے ہیں۔ ان کثیر الاتعداد اکابر امت نے تو بریلوی کہلا کر اور مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگا کر اہلسنت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ مذکورہ بالا اکابر سے ہم بہتر انداز میں جماعت اہلسنت کا تحفظ دفاع کرسکتے مگر آسمان کا تھوکا منہ پر پڑتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت مسلک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سواداعظم اہلسنت کو جدا نہیں کرسکتی ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment