Monday, 10 January 2022

سیرت و خصاٸل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصّہ سوم

 سیرت و خصاٸل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصّہ سوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امیر المومنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکارم اَخلاق کی تعلیم و تکمیل فرمانے والے نبی کریم کے فیض یافتہ اور بچپن سے ہی آپ کے قریبی دوست اور جانثار ساتھی رہے ہیں ۔ آپ سعید طبیعت کے خوبصورت پیکر تھے ۔ آپ ظہورِ اسلام سے قبل ہی اَخلاقِ حمیدہ سے متصف تھے ۔سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فطرت چونکہ سعید تھی‘ اِس لیے آپ عہدِ جاہلیت میں بھی اَخلاقِ حمیدہ سے مُتَّصِف تھے ۔ اُس زمانہ میں بھی کبھی آپ نے اُم الخبائث شراب کو منہ نہیں لگایا ۔ جوا کی مجلس میں کبھی شریک نہیں ہوتے تھے ۔ کسی بُت کے آگے کبھی سرخمیدہ نہیں ہوئے ، حالانکہ یہ تینوں چیزیں عربوں کی گُھٹی میں داخل تھیں ۔ اِس کے علاوہ غریبوں کی خبر گیری‘ بے کسوں اور اَپاہجوں کی مدد‘ مسافر نوازی اور مہمانداری آپ کے خاص اَوصاف ہیں ۔ پھر شرف اِسلام سے مشرف ہوئے تو اِن اَوصاف پر اور جِلا ہوئی اور آپ مکارم و محامدِ اخلاق کے پیکرِ اتم بن گئے ۔ (کنز العمال جلد 6 صفحہ 361،چشتی)


آپ کے صحیفہ اَخلاق میں سرِ فہرست تقویٰ و طہارت کا وصف ہے ۔ جس طرح ایک تندرست معدہ مکھی یا اِسی طرح کی کوئی اور نجس چیز کو برداشت نہیں کر سکتا۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا معدہ کسی ایسی چیز کو برداشت نہیں کرتا تھا جو معنوی نجاست و گندگی رکھتی تھی ۔ ایک مرتبہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک غلام نے کوئی چیز لا کر دی ۔ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جب اُس کو کھا لیا تو غلام بولا‘ آپ جانتے ہیں وہ کیا چیز تھی ؟ پوچھا کیا تھی ؟ اُس نے جواب دیا کہ میں عہدِ جاہلیت میں جھوٹ موٹ کہانت کا کام کرتا تھا یہ چیز اُسی کا معاوضہ تھی ۔ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سُنتے ہی قے کر دی اور جو کچھ پیٹ میں تھا خارج کر دیا ۔ (بخاری جلد 1 صفحہ 542)


ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو نصیحت فرمائی : بڑائی سے بھاگو تو بڑائی تمہارے پیچھے آئے گی اور موت کی آرزو کرو تو زندگی بخشی جائے گی ۔ مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہونے سے پہلے محلہ کی بچیوں کی بکریوں کا دُودھ دھو دیتے تھے ۔ خلیفہ ہونے کے بعد ایک بھولی بھالی بچی کو سب سے زیادہ فکر ہونے لگی کہ ہماری بکریوں کا کیا ہوگا ؟ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سُنا تو فرمایا : اللہ کی قسم میں اَب بھی بکریاں دوہوں گا ۔ خلافت مجھ کو خدمتِ خلق سے باز نہ رکھ سکے گی ۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) خلافت سے قبل آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا ۔ اِنتخاب کے کچھ دِنوں بعد تک بھی اِس کو قائم رکھا ۔ ایک دِن حسبِ معمول کندھے پرکپڑوں کے کچھ تھان رکھے ہوئے بازار جا رہے تھے کہ راستے میں سیّدنا عمر بن خطاب اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما مل گئے‘ اُنہوں نے کہا“ اے خلیفہ رسول آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ بولے بازار ۔ اُنہوں نے کہا اَب آپ مسلمانوں کے والی ہیں‘ چلیے ہم آپ کےلیے وظیفہ مقرر کر دیںگے ۔ ( ابن اثیر جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 291،چشتی)

لیکن ایک روایت ہے کہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ روز تو تجارت کا مشغلہ جاری رکھا لیکن جب آپ کو یہ محسوس ہوا کہ اِس سے فرائضِ خلافت کی اَنجام دہی میں یکسوئی باقی نہیں رہتی اور اِس میں خلل پڑتا ہے تو آپ نے خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے بقدرِ ضرورت اپنا وظیفہ مقرر کر لیا ۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 217)(صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 817)


اِسلام قبول کرنے کے وقت آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے ۔ مدینہ منورہ پہنچتے ہی کل پانچ ہزار رہ گئے ۔ وہ بھی سب رسول اللہ کی خوشنودی میں خرچ کر دیئے ۔ یہاں حضرت خارجہ رضی اللہ عنہ کی شراکت میں تجارت پھر شروع کی ‘ اِس سے بھی جوکچھ آمدنی ہوئی‘ وہ غزوہ تبوک میں گھر کا سارے کا سارا سازو سامان حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدموں پر لا کر رکھ دیا‘ اور بال بچوں کےلیے صرف اللہ اور اُس کے رسولِ کریم کو چھوڑ دیا ۔ یہ واقعات توخلافت سے پہلے کے تھے ۔ خلیفہ ہوئے تو تجارت ترک کر دی اور بہت معمولی طور پر گزر بسر کرنے لگے ۔ مرضِ وفات میں اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے ہیں ۔ ”جب سے میں خلیفہ ہوا ہوں میں نے مسلمانوں کا نہ تو کوئی ایک درہم کھایا ہے نہ ہی دینا ہے‘ جو وہ کھاتے اور پہنتے ہیں وہی میں نے کھایا اور پہنا ہے اور اَب اِس وقت لے دے کے میرا جو کچھ اثاثہ ہے وہ ایک اونٹ‘ ایک غلام اور ایک چادر ہے ۔ (ابن اثیر جلد 2 صفحہ 290،چشتی)


خود تنگی ترشی سے گزر بسر کرتے تھے لیکن غریبوں اور محتاجوں کا اِتنا خیال تھا کہ موسم سرما میں اُن کوکپڑے تقسیم کرتے تھے ۔ (سنن ابی داﺅدکتاب الادب باب فی الانتصار)


حضت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر کا پلّہ منہ پر ڈال لیا اور اِتنا روئے کہ اُن کی ڈاڑھی شریف بھیگ گئی پھر اُس کے بعد اُنہوں نے فرمایا‘ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ آلِ فرعون والا مومن بہتر تھا یا سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بہتر ہیں ؟ قوم خاموش رہی ۔ آپ نے فرمایا تم مجھے جواب نہیں دیتے تو پھر کہا سنو ! اللہ کی قسم حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ایک ساعت مومنِ آلِ فرعون کی تمام عمر سے بہتر ہے وہ اَیسا شخص تھا جو اِیمان چھپائے ہوئے تھا اور یہ (سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) اپنے اِیمان کا اِعلان کر چکے تھے ۔ (ازالة الخفاءجلد نمبر 2 صفحہ 232 مترجم)


ابنِ عساکر نے حضرت موسیٰ بن عقبہ علیہ الرحمہ سے روایت کی ہے کہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ یہ خطبہ دیا ”تمام تعریفیں اللہ ہی کے واسطے ہیں ‘ میں اُسی کی حمدکرتا ہوں اور اُسی سے مدد مانگتا ہوں اور موت کے بعد اُسی سے کرم کا خواستگار ہوں‘ اے لوگو! میری اور تمہاری موت قریب آ چکی ہے ۔ (ہمیں اور تمہیں سب کو مرنا ہے) ۔میں اِس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اِلٰہ واحد کے کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور نہ کوئی اُس کا شریک ہے اور بے شک حضرت محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ بشیر و نذیر اور روشن چراغ بنا کر بھیجا تاکہ وہ زندہ لوگوں کو (عذابِ الٰہی سے) ڈرائیں اور کافروں پر اللہ کی حجت تمام کر دیں ۔ پس جن لوگوں نے اللہ اور اُس کے رسول کی اِطاعت کی اُنہوں نے ہدایت پائی اور جس نے اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلا گمراہ ہے ۔ حضرت اِمام احمد علیہ الرحمہ نے کتاب الزہد میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے لکھا ہے ۔ فرماتے ہیں : ایک روزمیں امیر سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت کیجیے ۔ آپ نے فرمایا : مسلمانو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘ اچھی طرح یقین کر لوکہ وہ وقت قریب ہے جب ہر پوشیدہ بات ظاہر ہو جائے گی اور لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ ہر چیز میں تمہارا کتنا حصّہ ہے‘ تم نے کیا کھایا اور کیا چھوڑا ۔ جس نے پانچوں وقت کی نماز ادا کر لی وہ صبح سے شام تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ گیا اُس کو کون مار سکتا ہے ؟ اور جس نے اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری سے عہد شکنی کی اللہ تعالیٰ اُس کو دوزخ میں اُوندھے منہ ڈال دے گا ۔ ( تاریخ الخلفاء صفحہ 81،چشتی)


حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ‘ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دُنیا سے پردہ فرمایا تو آپ کے دفن میں لوگوں نے اِختلاف کیا (یعنی کہاں دفنانا چاہیے) ؟ تو حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ایک بات سُنی ہے کہ ”اللہ نے کسی نبی کو وفات نہیں دی مگر اُس جگہ جہاں اُن کا دفن کیا جانا پسند تھا (لہٰذا) حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بستر (مبارک) کی جگہ ہی میں دفن کرو ۔ (ترمذی مشکوٰة، کنزالعمال، تاریخ الخلفا، مرقاة)


آپ رضی اللہ عنہ پندرہ روز علیل رہ کر پیر اور منگل کی درمیانی شب 22 جمادی الاخریٰ 13 ہجری کو فوت ہوئے اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پہلو میں دفن ہوئے ۔


خلیفۂ اوّل حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ وہ عظیم صحابیِ رسول ہیں جنہوں نے مَردوں میں سب سے پہلے تاجدارِ رِسالت،شَہَنْشاہِ نُبُوَّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِسالت کی تصدیق کی اور اِس قدَر جامِعُ الکَمالات اور مَجْمَعُ الفَضائِل ہیں کہ انبیائےکِرام علیہ الصّلوٰۃ والسَّلام کے بعد اگلے اور پچھلے تمام انسانوں میں سب سے افضل واعلیٰ ہیں۔ ذریعۂ معاش حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبررضی اللہ عنہ خلیفہ بننے سے پہلے کپڑے کی تجارت کرتے تھے(حدیقہ ندیہ،ج1،ص222)


اور ابنِ ماجہ وغیرہ کے مطابق آپ نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکےوِصال کے سال سے پہلےتجارت کے لئے (ملک ِشام کے شہر) بُصرٰی کی جانب سفر کیا تھا۔(ابن ماجہ،ج 4،ص211، حدیث: 3719)


خلیفہ بننے کے بعدبیتُ المال سے وظیفہ حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبررضی اللہ عنہجب خلیفہ بنے تو صبح کو اپنے کندھوں پر کپڑوں کی گٹھڑی رکھ کر بازار کی طرف تجارت کےلئے نکلے، راستے میں آپ کی ملاقات حضرتِ سیِّدُناعمر اور حضرتِ سیِّدُنا ابو عُبیدہ بن جرّاحرضی اللہ عنہُماسے ہوئی، انہوں نے پوچھا: آپ کہاں جارہے ہیں؟ارشاد فرمایا: بازار ،انہوں نے کہا: یہ آپ کیا کررہے ہیں ؟ حالانکہ آپ کو مسلمانوں کے معاملات کا والی بنا دیا گیا ہے۔حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبررضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:پھر میں اپنے گھر والوں کو کہاں سے کھلاؤں گا؟ ان دونوں نے کہا:ہم آپ کیلئے وظیفہ مقرّر کردیں گے، چنانچہ صحابۂ کرامعلیہِمُ الرِّضوان نے آپ کےلیے ہر روز آدھی بکری کا تقرّر کیا ۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص137)


یومیہ اور سالانہ وظیفہ آپ کا بیتُ المال سے یومیہ وظیفہ ایک پوری بکری تھا (پہلے پہل آدھی بکری تھا بعد میں بڑھا کر پوری بکری کردیا گیاتھا) اور آپ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ روزانہ صبح شام اپنی مجلس کےحاضرین کو دو پھیلے ہوئے بڑے پیالے کھانا کھلاتے تھے ۔ (عمدۃ القاری،ج 8،ص 328،تحت الحدیث:2070)آپ کا سالانہ وظیفہ 300 دینار تھا ۔ (الریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 255)


نیز آپ کے وظیفے میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ آپ کے لئے دو چادریں ہوں،جب وہ پرانی ہوجائیں تو آپ ان کی مثل اور دو چادریں لے لیں اور سفر کے لئے سواری کا جانور ہواور آپ کے گھر والوں کو اتنا خرچ دیا جائے جتنا خلیفہ بننے سے پہلےآپ ان پر خرچ کرتے تھے ۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص137)


بیتُ المال سے لیا ہوا مال واپس کردیا حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبررضی اللہ عنہ کے وِصال کا وقت جب قریب آیا تواس خرچے کا حساب لگایا گیا جو آپ نے بیت المال سے لیا تھا اورجتنا خرچ لیا تھا اس سے زیادہ مال بیت المال میں جمع کروا دیا۔(عمدۃ القاری،ج 8،ص 328، تحت الحدیث:2070)


اُمّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہرضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ جب مرضُ الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ نے یہ وصیّت فرمائی کہ میرے خلیفہ بننے کے وقت سے میرے مال میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اسے میرے بعد والے خلیفہ کے پاس بھیج دینا، چنانچہ آپ کے وصال کے بعدہم نے غور کیا تو (اضافہ شدہ مال میں) ایک غلام تھا جو بچّوں کو اٹھاتا تھا اور ایک اونٹ تھا جس سے باغ میں پانی دیا جاتا تھا،ہم نے وہ دونوں امیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمررضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیے تو حضرتِ سیِّدُنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ابو بکر پر اللہ کی رحمت ہو،انہوں نے اپنے بعد والوں کو مَشقّت میں ڈال دیا ہے ۔ (عمدۃ القاری،ج 8،ص328، تحت الحدیث:2070) ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا

فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا محترم قارئین کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو آگاہ فرمایا کہ اللہ کی ...