شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا ۔
ترجمہ : اگر تم اِس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ اِن کی مدد فرماچکا ہے جب کافروں نے اِنہیں (اِن کے وطن سے) نکال دیا تھا جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو ، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اُس پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے ۔ (پ10، التوبہ:40)
یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقام و مرتبہ اورمرکز و مَھْبَطِ عنایاتِ الہٰیہ ہونے پر دلالت کرتی ہے اور اسی آیت سے صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ کی عظمت و شان بھی نمایاں ہوتی ہے ۔ ہجرتِ مدینہ کے متعلق اِس آیتِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو راہِ خدا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کی ترغیب دی ہے کہ اگر تم اِن کی مدد نہ کرو گے تویہ تمہاری مدد کے محتاج نہیں ہیں ، لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اِن کی خاص مدد فرمائے گا جیسے اللہ تعالیٰ نے اِن کی اُس وقت بھی مدد فرمائی جب کفار نے انہیں مکۂ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا اور یہ صرف ایک فرد یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکۂ مکرمہ سے نکل کر غارِ ثور میں آئے اور دوسری طرف کفار اِن کا تَعاقُب کرتے غار کے دھانے پر آپہنچے جس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فکرمند ہوئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تائیدِ اِلہٰی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے ساتھی سے فرمایا : غم نہ کرو ، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے اور پھر واضح طور پر اِعانتِ الہٰی کا ظہور اور بارگاہِ خداوندی سے سکون و اطمینان کا نزول ہوا ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے غیبی لشکروں نے مدد کی اور غار کے منہ پر موجود کفار غار کے اندر جھانکے بغیر ہی واپس لوٹ گئے ۔
صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت
اس آیتِ مبارکہ میں اَصلُ الاُصول تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت و شان اور اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے شاملِ حال ہونے کا بیان ہے لیکن اس کے ساتھ کئی اعتبار سے حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظمت و شان کا بیان بھی موجود ہے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کفار کی طرف سے قتل کے اندیشے کے پیشِ نظر ہجرت فرمائی تھی لہٰذا اپنی جان کی حفاظت کےلیے اپنے انتہائی قابلِ اعتماد ساتھی و غلام صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا جو آپ رضی اللہ عنہ کےمخلص ، باوفا ، خیر خواہ ، کاملُ الایمان ، قابلِ اعتماد اور سچے مُحِبّ و مددگار ہونے کی دلیل ہے کیونکہ خطرناک حالات میں آدمی اسی کو اپنے ساتھ رکھنا پسند کرتا ہے جس کے اِخلاص ، وفا ، ہمت و حوصلے اور جاں نثاری پر بھرپور اعتماد ہو ۔
انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃ السَّلام کی ہجرتیں خاص حکمِ الہٰی سے ہوتی ہیں اور یہ ہجرت بھی اللہ تعالیٰ کی خاص اجازت سے تھی ، اِس اجازت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک پوری جماعت موجود تھی بلکہ ان کے کئی حضرات سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں نَسَبی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نےاُس موقع پر اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قرب و صحبت میں رہنے کا شرف ِ عظیم سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے علاوہ کسی اورکو عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم پر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کی دلیل ہے ۔
دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم حالات کی ناسازی کی وجہ سے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت سے ہجرت کر گئے لیکن یارِ غار، صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُن نامُساعِد حالات کے باوجود بھی پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قرب نہ چھوڑا بلکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت و حفاظت کےلئے مکۂ مکرمہ میں موجود رہے۔
سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جس قدر رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فیض حاصل کیا وہ کسی اور صحابی کو نصیب نہ ہوا کیونکہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ سفر و حضر میں دیگر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم کے مقابلے میں زیادہ وقت گزارا اور خصوصا ًسفر ِ ہجرت کے قرب و صحبت کی تو کوئی برابری کرہی نہیں سکتا کہ ایامِ ہجرت میں بلا شرکت ِ غیرے قرب و فیضانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے تن ِ تنہا فیض یاب ہوتے رہے۔ اسی لئے عمر فاروق ِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسی ہستی نے تمنا کی تھی کہ کاش ! میرے سارے اعمال ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک دن اور ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ۔ ان کی رات تو وہ جس میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ غار ِ ثور تک پہنچے، آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے غار میں جاکر سوراخوں کو اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا، دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دئیے، وہاں سے سانپ نے ڈس لیا تب بھی نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آرام کی خاطر پاؤں نہ ہٹایا اور (کاش کے میرے اعمال کے مقابلے میں مجھے صدیق ِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک دن مل جائے) ان کاوہ دن جب رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال کے بعد عرب کے چند قبیلے مرتد ہوگئے اور کئی قبیلوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تواُن نازک و کمزور حالات میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دین ِ اسلام کو غالب کرکے دکھایا ۔ (یہ فرمانِ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کا معنوی خلاصہ ہے) ۔ (خازن،ج2،ص244)
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غارِ ثور میںرسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی راحت و آرام پر اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہ کیا ۔
اسی سفرِ ہجرت کی وجہ سے آپ کا لقب ثانی اثنین ہے یعنی ’’دو میں سے دوسرے‘‘ پہلے رسولِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور دوسرے صدیق ِ باوفا رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ہجرت کے علاوہ بھی رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی ثانی ہیں حتی کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پہلو میں تدفین میں بھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی ثانی ہیں ۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ساتھی ہونا خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمایا ، یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا ۔
آیت ہی بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں مقدس ہستیوں کے ساتھ تھا ۔
اللہ تعالیٰ کا خصوصیت کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ پر سکینہ نازل فرمانا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے ۔ (تفسیر کبیر،ج6،ص150)(خازن ج2،ص244،چشتی)
لکھنے بیٹھے جو شان صدیق اکبر
قلم نے لفظ عاشق رسول لکھا
افضل البشر بعد الانبیا کی ذات اقدس کو اللہ کریم نے بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے مزین فرمایا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ”اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن” میں سے ہیں۔ غار ثور ہو یا سفر ہجرت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رفیق و امین رہی ۔
ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہ، عَلَیْہِ ۔ (التوبۃ:٤٠)
آپ دو میں سے دوسرے تھے ، جب وہ دونوں (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ)غار میں تھے ، جب (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے یار سے فرماتے تھے ، غم نہ کر ، بیشک ﷲ ہمارے ساتھ ہے تو ﷲ نے اس پر اپنی تسکین نازل فرمائی ۔
اس آیت مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر آپ کے اعلی و ارفع ہونے کی واضح دلیل ہے ۔
بالغ مردوں ميں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے ۔ (ابن حبان الصحيح، 15 : 279. 278، رقم : 6862،چشتی)
جسے آگ سے محفوظ شخص دیکھنا ہو وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے
عن عائشة : أنّ أبا بکر دخل علٰي رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : ”انت عتيق ﷲ من النّار،” فيومئذ سمّي عتيقا ۔
”اُمُّ المؤمنین عائشہ صدِّیقہ رضی ﷲ عنھا سے روایت ہے : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم ﷲ رب العزت کی طرف سے آگ سے آزاد ہو۔” پس اُس دن سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام ”عتیق” رکھ دیا گیا ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح 5 : 616، ابواب المناقب، رقم : 3679)
میں تو معراج سے بھی عجیب تر خبروں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کرتا ہوں
عن أبي هريرة قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لجبريل ليلة أسري به إنّ قومي لا يصدّقونني فقال له جبريل يصدّقک أبوبکر وهو الصّدّيق ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل امین سے ارشاد فرمایا : اے جبرئیل! میری قوم (واقعہ معراج میں) میری تصدیق نہیں کرے گی ۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کی تصدیق کریں گے اور وہ صدیق ہیں ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 140، رقم : 116)
اقوالِ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ
قال سالم بن عبدﷲ أنّ ابن عمر قال : کنّا نقول و رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حيّ، ”أفضل أمّة النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم بعده أبوبکر، ثمّ عمر، ثمّ عثمان رضي ﷲ عنهم أجمعين ۔
”حضرت سالم بن عبد ﷲ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (ظاہری) حیات طیبہ میں کہا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور پھر (ان کے بعد) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابو داؤد، السنن، 4 : 211، کتاب السنة، رقم : 4628،چشتی)
عن محمّد ابن الحنفيّة قال : قلت لأ بي : أيّ النّاس خير بعد رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قال : أبوبکر، قلت : ثمّ من ؟ قال : ثمّ عمر و خشيت أن يّقول عثمان، قلت : ثمّ أنت ؟ قال : ما أنا إلّا رجل مّن المسلمين ۔
”حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں نے اپنے والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے دریافت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر میں نے کہا : ان کے بعد ؟ انہوں نے فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ۔ تو میں نے اس خوف سے کہ اب وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے خود ہی کہہ دیا کہ پھر آپ ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ”نہیں میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام مسلمان ہوں ۔”
(بخاري، الصحيح، 3 : 1342، کتاب المناقب، رقم : 3468
ابو داؤد السنن 4 : 206کتاب السنة، رقم : 4629)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی ۲۴۱ھ) اپنی کتاب”فضائل الصحابۃؓ”میں اس بات کو یوں بیان کرتے ہیں : خطبنا علی رضی اللہ تعالی عنہ علٰی ھذا المنبر، فحمد اللّٰہَ وذکرہٗ ماشاء اللّٰہ أن یذکرہٗ ۔۔۔ فقال : ”إن خیرالناس بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم أبوبکر ۔ (فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنھم، ج:۱، ص:۳۵۵، رقم الحدیث: ۴۸۴،چشتی)
حضرت علی المرتضی کرم ﷲ وجہہٗ ایک دن خطبہ کےلیے منبر پر تشریف لائے اور ﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی ، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ : بے شک لوگوں میں سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی ہے ۔
اگر کوئی خلیل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوتے
امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا خلیل بنانے کی آرزو کی ہے ، جیسا کہ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۲۷۳ھ) اپنی کتاب”سنن ابن ماجہ” میں روایت کرتے ہیں :
عن ابن عبّاس رضي ﷲ عنهما عن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم قال : ”لوکنت متّخذا من أمّتي خليلا، لا تّخذت أبابکر، ولٰکن أخي وصاحبي ۔
”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ”اگرمیں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں ۔ (بخاري الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3456)(مسلم، الصحيح، 4 : 1855 رقم : 2383)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 437، رقم : 4161)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : تم میرے حوض پر بھی صاحب ہو اور غار میں بھی صاحب ہو ۔ (جامع ترمذی 3670)
اللہ عزوجل جملہ اہلِ اسلام کو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سچی اور حقیقی محبت و ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment