پہلے جامعُ القرآن حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا، سارے اجزا الگ الگ تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛ چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو گیا جس کو سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں تدوین قرآن کی صورت یہ تھی کہ اسے مختلف پارچوں سے نقل کرکے ایک جگہ (کاغذ) پر یکجا کیا گیا ۔ یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا اور ہر سورت الگ الگ صحیفے میں لکھی گئی تھی ۔ اور صرف وہی کچھ لکھا گیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوا تھا ۔ (وہ آیات اور حروف نکال دیے گئے جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی) ۔ دورِ صدیقی رضی اللہ عنہ میں قرآنِ کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا مقصد قرآن مجید کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا ، کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں حاملین قرآن اور حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وفات سے قرآنِ مجید کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے ۔
عن عبيد بن السّبّاق : أنّ زيد بن ثابت رضي الله عنه قال : أرسل إليّ أبو بکر، مقتل أهل اليمامة، فإذا عمر بن الخطّاب عنده قال أبوبکر رضي الله عنه : إنّ عمر أتاني، فقال : إنّ القتل قد استحرّ يوم اليمامة بقرّآء القراٰن، و إنّي أخشٰي أن يّستحرّالقتل با لقرّاء با لمواطن فيذهب کثير من القراٰن وإنّي أرٰي أن تامر بجمع القراٰن. قلت لعمر : ’’کيف تفعل شيئا لّم يفعله رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم؟‘‘ قال عمر : ’’هٰذا و ﷲ خير‘‘ فلم يزل عمر يرا جعني حتّي شرح ﷲ صدري لذٰلک، ورأيت في ذٰلک الّذي رأي عمر. قال زيد : قال أبوبکر : ’’إنّک رجل شابّ عاقل لا نتّهمک، وقد کنت تکتب الوحي لرسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فتتبّع القراٰن فاجمعه.‘‘ فوﷲ لو کلّفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل عليّ ممّا أمرني به من جمع القراٰن. قلت : کيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قال : ’’هو وﷲ خير‘‘. فلم يزل أبوبکر يراجعني حتّي شرح ﷲ صدري للّذي شرح له صدر أبي بکر وعمر رضي ﷲ عنهما، فتتبّعت القراٰن أجمعه من العسب و اللّخاف وصدور الرّجال، حتّي وجدتّ اٰخر سورة التّوبة مع أبي خزيمة الانصاريّ، لم أجدها مع أحد غيره : ’’لقد جآء کم رسول من انفسکم عزيز عليه ما عنتّم. حتّي خاتمة براءة‘‘. فکانت الصّحف عند أبي بکر حتّي توفّاه ﷲ، ثمّ عند عمر حياته، ثمّ عند حفصة بنت عمر رضي ﷲ عنهما ۔
ترجمہ : حضرت عبید بن السباق سے مروی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا جب کہ یمامہ والوں (اہل یمامہ) سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی اُن کے پاس تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگِ یمامہ میں کتنے ہی قرآن مجید کے قراء شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ قاریوں کے مختلف مقامات پر شہید ہو جانے کے باعث قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ قرآن کریم کے جمع کرنے کا حکم فرمائیں۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں وہ کام کس طرح کروں جو خود رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ﷲ رب العزت کی قسم! یہ پھر بھی خیر ہے۔‘‘ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ برابر اس بارے مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے اس بارے میں میرا سینہ کھول دیا۔ اور اس معاملے میں میری رائے بھی وہی ہو گئی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی ( میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہو گیا)۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا کہ تم نوجوان اور صاحبِ عقل و دانش ہو اور تمہاری قرآن فہمی پر بھی کسی کو کلام نہیں اور تم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے وحی الٰہی بھی لکھا کرتے تھے۔ پس سعی بلیغ کے ساتھ قرآن مجید کو جمع کر دو۔ پس ﷲ رب العزت کی قسم! اگر وہ مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو وہ میرے لئے جمع قرآن کے اِس حکم سے زیادہ ثقیل (بھاری) نہ ہوتا۔ میں نے عرض کی : ’’آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو خود رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ؟‘‘۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’یہ کام، ﷲ رب العزت کی قسم! بہت بہتر ہے‘‘۔ پس حضرت ابوبکر صدیق برابر مجھ سے بحث فرماتے رہے یہاں تک کہ ﷲ رب العزت نے میرا سینہ اُس کام کے لئے کھول دیا جس کے لئے اُس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا۔ پس میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کر کے جمع کیا یہاں تک کہ سورۃ توبہ کا آخری حصہ میں نے حضرت ابو خزیمہ الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پایا جو ان کے سوا کسی اور کے ہاں سے نہیں پایا تھا۔ یعنی ’’لقد جآء کم رسول سے لے کر سورۃ البراءۃ کے اختتام تک ۔ (یقیناً تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ عظمتوں والے رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت گراں گزرتا ہے) پس یہ صحیفے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا پھر یہ حضرت عمر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام تک رہے۔ پھر یہ قرآن مجید کے نسخے حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی ﷲ عنہا کے پاس رہے ۔ (بخاري، الصحيح، 4 : 1907، کتاب فضائل القرآن، رقم : 4701)(ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 283، کتاب تفسير القرآن، رقم : 3103)(احمد، المسند، 1 : 13، رقم : 86)(نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 7، رقم : 7995)(ابو يعلي، المسند، 1 : 66، رقم : 64،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 5 : 146، رقم : 4901)(ابن حبان، الصحيح، 10 : 364، رقم : 4507)
عن علي قال ان اعظم أجرا في المصاحف ابوبکر الصديق کان أول من جمع القرآن بين اللوحين
ترجمہ : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا : قرآن کے حوالے سے سب سے زیادہ اجر پانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو دو جلدوں میں جمع کیا ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 354، رقم : 513)(ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 148، رقم : 30229)(خثيمه، من حديث خثيمه، 1 : 135)(ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 193)(ابن منده، شروط لأئمة، 1 : 26)
عن صعصعة قال اول من جمع القرآن ابوبکر ۔
ترجمہ : صعصعہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے قرآن جمع کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 259، رقم : 35866،چشتی)
عن الليث بن سعد قال اول من جمع القرآن ابوبکر و کتبه زيد بن ثابت ۔
ترجمہ : لیث بن سعد سے روایت ہے کہ قرآن کو سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کیا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس کی کتابت کی ۔ (عون المعبود، 10 : 20)
عہد صدیقی رضی اللہ عنہم میں قرآن مجید ایک مصحف میں بشکلِ کتاب مرتب نہیں ہوا تھا، بلکہ مختلف چیزوں سے صحیفوں (کتابچوں/ اوراق) میں لکھ لیا گیا تھا ۔ حدیث نبوی میں ان کو “صحف” (صحیفوں) کا نام دیا گیا ہے اور حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ کی تشریح کے مطابق وہ منتشر اوراق (الاوراق المجردۃ) تھے ۔ مصحف اور صحف کا فرق بتاتے ہوئے حافظ موصوف نے لکھا ہے کہ مصحف تو سورتوں کی ترتیب کے مطابق اور بشکل کتاب ہوتا ہے ، جب کہ صحف منتشر اوراق ہیں جن میں سورتیں ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کر دی گئی تھیں۔ یہی صحف صدیقی ہیں ۔ (فتح الباری، 9/24)
ان کو صحف صدیقی رضی اللہ عنہ کہنا اس لیے بھی مناسب و موزوں معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کے حکم سے قرآن کریم کو اوراق و قراطیس میں جمع کرکے محفوظ کر دیا گیا تھا ۔ بعض روایات میں ان کو صحیفہ بھی کہا گیا ہے ، لیکن واحد بول کر جمع مراد لی گئی ہے ۔ دوسری تاریخی اور واقعاتی سند یہ ہے کہ انہی “صحف صدیقی” کی بنا پر حضرت عثمان بن عفان اموی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں مصحف اور مصاحف تیار کیے گئے تھے ، جن کی تعداد مختلف روایات میں مختلف آئی ہیں ، لیکن سات مصاحف کی روایت کو سب سے معتبر کہا گیا ہے۔ ان مصاحف کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نامِ نامی سے موسوم کر کے “مصاحف عثمانی” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
پسِ منظر حدیث کی روشنی میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرض الوصال کے ساتھ ہی فتنے ابھرنے شروع ہوگئے اور آپ کے ظاہری وصال مبارک کے بعد ان فتنوں نے شدت اختیار کرلی ، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے پوری طاقت وقوت صرف کردی اور بہت سے معرکےاس دوران پیش آئے جن میں سے ایک اہم معرکہ جنگ یمامہ کا ہے ، جس میں بہت سے قراء شہید ہوئے جن کا انداز ۷۰/ اور ایک قول کے مطابق ۷۰۰/ تک لگایا گیا ہے ۔ (تفسیرقرطبی:۱/۳۷، عمدۃ القاری:۱۳/۵۳۳)
دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور قاری سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بھی اسی معرکہ میں شہید ہوئے ۔ (مناہل العرفان:۱۷۹)
اس عظیم سانحہ کی وجہ سے بعض اجلۂ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تشویش لاحق ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں : جنگِ یمامہ کے بعد مجھے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلایا میں پہنچا تو وہاں پہلے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرما تھے ، حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ یہ عمررضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ یمامہ کے شدید معرکہ میں بہت سے حفاظ کام آگئے ہیں ، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ایسے ہی دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں چلاجائے گا؛ اس لیے عمررضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ میں (ابوبکررضی اللہ عنہٗ) قرآن مجید کے جمع وتدوین کا اہتمام کروں (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ) میں ان سے کہہ چکا ہوں کہ جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں (لیکن) عمررضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں خدا کی قسم اس میں سراپا خیر ہی ہے یہ مجھ سے بار بار تقاضا کرتے رہے؛ آخر اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمررضی اللہ عنہٗ کی ہے، زید کہتے ہیں: حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ نے مجھ سے فرمایا : تم نوجوان ہو سمجھدار ہو کسی طرح کی تہمت بھی ہم تمہارے (اور تمہارے دین ودیانت کے)بارے میں نہیں پاتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبِ وحی بھی ہو تم قرآن کریم (کے مختلف اجزاء) کو تلاش کرو اور اس کو جمع کرو! حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں: کہ خدا کی قسم اگر وہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو یہ میرے لیے زیادہ آسان تھا، بنسبت اس کام کے جس کا انھوں نے مجھے حکم دیا ہے، یعنی جمع قرآن کا حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں: کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات ایسا کام کیسے کررہے ہیں جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا : بخدا یہ تو اچھا ہی کام ہے، حضرت زید رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ اس بارے میں بار بار مجھ سے اصرار کرتے رہے؛ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ وعمر رضی اللہ عنہٗ کی طرح اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس کام کےلیے کھول دیا (پھر میں صرف حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ واقعی ایک اہم ضرورت سمجھ کر اس کام کے لیے تیار ہوگیا) پھر میں نے قرآن کریم کے اجزاء کو تلاش کرنا شروع کیا او راسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا؛ یہاں تک کہ سورۃ توبہ کی آخری آیتیں ۔ “لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وفٌ رَحِیْمٌ” ۔ (التوبۃ:۱۲۸) “ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہٗ کے پاس ملی جو کسی اور کے پاس نہیں تھیں”۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲۰/۴۹۸۶)
یہ حدیث حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ وہی ان صحیفوں کے کاتب بھی ہیں جن میں مختلف چیزوں سے قرآنی آیات اور سورتیں جمع کر کے لکھی گئیں تھیں ۔ ممکن ہے کہ مذکورہ حدیث میں سورت توبہ کی آخری آیت والا حصہ پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو کہ حضرت زید کو یہ آیت دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس کیوں نہ ملی ؟ ہم اس کی یہاں مختصر وضاحت کردیتے ہیں کہ حضرت زید کا مقصد یہ بتانا نہیں تھا کہ یہ آیت کسی کو یاد بھی نہیں تھی بلکہ یہ کہ یہ آیت حضرت خزیمہ کے علاوہ کسی اور صحابی کے پاس لکھی ہوئی نہ تھی ۔ (تفسیر الاتقان ،ج۱،ص۱۰۱)
دوسرے سینکڑوں حفاظ کے علاوہ خود حضرت زید رضی اللہ عنہم بھی حافظ تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ آیات کہا ں اور کس سورت سے متعلق ہیں اسی لیے انہوں نے اس کو صحابہ کے پاس تلاش بھی کیا ۔ اس ضمن میں صحابہ کی تلاش تائید وتقویت کے لئے تھی کہ حفظ و حافظے کے علاوہ لکھے ہوئے سے بھی اس کی تائید ہوجائے اور وہ ابوخزیمہ انصاری سے مل گئی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت زید نے تنہاء حافظے پر اعتماد نہیں کیا ، سورئہ براءة کی آخری آیات باوجودیکہ حضرت زید کو حفظ تھیں اور ان کے علاوہ متعدد صحابہ کو بھی حفظ تھیں ، لیکن اس وقت تک اُنہیں درج نہیں کیا جب تک کہ کسی صحابی (حضرت خزیمہ رضی الہ عنہ) کے پاس بھی لکھی شہادت نہیں مل گئی ۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ تدوین کے سلسلے میں کس قدر احتیاط کا اہتمام کیا گیا ۔
پورا قرآن عہد رسالت میں لکھا جا چکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو ایک جگہ جمع کیا ۔ علامہ سیوطی ابو عبداللہ محاسبی کی کتاب ”فہم السنن” کے حوالے سے لکھتے ہیں :
”قرآن کی کتابت کوئی نئی چیز نہ تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بذات خود اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے البتہ وہ کاغذ کے ٹکڑوں ، شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب اشیاء یوں تھیں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں قرآن لکھا ہو اہو، ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ) نے ان اوراق کو جمع کرکے ایک دھاگے سے باندھ دیا تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہوپائے ۔ (البرہان جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۲۳۸)۔(الاتقان،ج۱،ص۱۰۱)
وکان القرآنُ فیہا مُنْتَشِراً فَجَمَعَہا جامعٌ و رَبَطَہَا بخیطٍ ۔ (تفسیر الاتقان ۱/۸۳)
ترجمہ : اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو ذخیرہ تھا) اس میں (قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں ؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر کے حکم سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت) نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا ، اور ایک دھاگا سے سب کی شیرازہ بندی کر دی ۔
جمعِ قرآن کے سلسلہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ زید خود حافظ قرآن تھے ؛ لہٰذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے ان کے علاوہ بھی سینکڑوں حفاظ اس وقت موجود تھے ان کی ایک جماعت بناکربھی قرآن کریم لکھا جاسکتا تھا ؛ نیز قرآن کریم کے جو مکمل نسخہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں لکھ لیے گئے تھے حضرت زید رضی اللہ عنہٗ ان سے بھی قرآن کریم نقل فرما سکتے تھے ؛ لیکن انہوں نے احتیاط کے پیشِ نظر ان میں سے صرف کسی ایک طریقہ پر اکتفا نہیں فرمایا ؛ بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لیکر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھیں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ نے انہیں یکجا فرمایا تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے ؛ چنانچہ یہ اعلان عام کر دیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی کچھ بھی آیات لکھی ہوئی ہو ں وہ حضرت زید کے پاس لے آئے (فتح الباری:۹/۱۷،چشتی)(علوم القرآن:۱۸۳)(تفسیر الاتقان:۱۲۸)
اس کام کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ خود نگرانی فرماتے رہے اور انہیں اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے ؛ چنانچہ روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی بطورِ معاون کے حضرت زید کے ساتھ اس کام میں لگادیا تھا ۔ (تفسیر الاتقان:۱/۱۲۹)(فتح الباری:۹/۱۹)
اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اور زید رضی اللہ عنہٗ کو یہ حکم بھی فرما دیا تھا : کہ مسجد کے دروازے کے پاس بیٹھ جاؤ ؛ پھر جو شخص بھی تمہارے پاس قرآن کریم کے کسی جزء پر دوگواہ لے آئے اس کو صحیفوں میں لکھ لو ۔ (تفسیر الاتقان:۱/۱۲۸،چشتی)(فتح الباری:۹/۱۷)
الغرض جو جو شخص بھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن مجید کی آیتیں لے کر آتا حضرت زیدرضی اللہ عنہٗ چار طریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے : ⬇
(۱) سب سے پہلے اپنے حافظہ سے اس کی تصدیق کرتے تھے ۔
(۲) پھر جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا ، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی اس کام میں ان کا معاون بنادیا تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے حافظہ سے اس کی جانچ کرتے تھے ۔
(۳) کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ دو قابل اعتبارگواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دیدی ہو کہ یہ تحریر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے ، امام سیوطی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ بظاہر اس بات کی بھی گواہی لی جاتی تھی کہ یہ لکھی ہوئی آیتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے سال آپ پر پیش کردی گئی تھی اور آپ نے اس بات کی تصدیق فرمادی تھی کہ یہ ان حروفِ سبعہ کے مطاق ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے ۔ (تفسیر الاتقان ۱/۱۲۸،۱۲۹) ۔ امام سیوطی رحمة اللہ علیہ کی اس بات کی تائید متعدد روایات سے بھی ہوتی ہے ۔ (تفسیر الاتقان:۱/۱۱۰)
(۴) اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا، جو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیار کررکھے تھے، امام ابوشامہ فرماتے ہیں: “کہ اس طریقِ کار کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کی کتابت میں زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صرف حافظہ پر اکتفا کرنے کے بجائے بعینہ ان تحریرات سے نقل کیا جائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی ۔ (تفسیر الاتقان:۱/۱۲۸)
جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا ، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ : اس کو کیا نام دیا جائے ؟ چنانچہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا نام ”سِفْر“ رکھا ؛ لیکن یہ نام یہودیوں کی مشابہت کی وجہ سے پاس نہیں ہوا ، اخیر میں ” مصحف“ نام پر سارے صحابہٴ کرام کا اتفاق ہو گیا ۔ (تفسیر الاتقان ۱/۷۷)
دوسرے صحابہ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا ؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت ابوبکر صدیق والا اجماعی نسخہ تھا، ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے، اسی وجہ سے صحابہٴ کرام کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا جاتا تھا،اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں : ⬇
(۱) اس نسخہ میں آیاتِ قرآنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں ؛ لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں ہرسورت الگ الگ پاروں کی شکل میں لکھی ہوئی تھی ۔ (فتح الباری ۹/۲۲)
(۲) اس نسخہ میں ایسی کوئی آیت آنے نہیں دی گئی جس کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہو ۔
(۳) اس نسخہ کے تیار کرنے میں پوری باریک بینی سے تلاش وتفحص کیا گیا اور پوری احتیاط کے ساتھ اسے قلمبند کیا گیا ۔
(۴) یہ نسخہ ساتوں حروف کی رعایت پر مشتمل تھا ۔ (مناہل العرفان ۱/۲۴۶، ۲۴۷،چشتی)
( ۵) اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے ؛ تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے ۔
( ۶) اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر، ایک ہی جلد میں مجلد کرایا گیا تھا، اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا، یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا تھا ۔ (تدوین قرآن ص۴۰)
حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کی اس کوشش سے پہلے بعض صحابہ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہٗ وغیرہ نے قرآن کریم کے جمع کرنے کی کوشش کی تھی جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے ۔ (فتح الباری:۹/۱۵، الاتقان:۱/۱۲۸) ۔ اور کسی حد تک اس میں کامیاب رہے ؛ لیکن وہ ان کی اپنی انفرادی کوشش تھی ، ان کا نسخہ ان خصوصیات سے خالی تھا جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کے تیار کردہ نسخہ میں پائے جاتے تھے ، اس کے علاوہ امت کی اجماعی تصدیق بھی اسے حاصل نہ تھی ؛ اس کے برعکس حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وہ پہلے صحابی ہیں جنہوں نے پورے امت کی اجماعی تصدیق سے ایک معیاری نسخہ”قرآن عظیم” کا تیار کروایا اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے قرآن کریم کے تعلق سے سب سے زیادہ اجر پانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، اللہ ابوبکر رضی اللہ عنہٗ پر رحم فرمائے ؛ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو جمع فرمایا ۔ (فتح الباری:۹/۱۵)
قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا ، جب ان وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا ، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت کے مطابق) آپ کی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رکھا رہا ۔ (صحیح بخاری۲/۷۴۶) ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے تھے ۔ (صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲/۷۴۶، رقم:۴۹۸۷) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment