Monday 3 January 2022

علما اور سیاست حصّہ سوم

0 comments

 علما اور سیاست حصّہ سوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ علما نے جب یہ کام کیا ، معاشرے پر اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے ۔ ان اثرات کا دائرہ اقتدار کے ایوانوں سے لے کر عامۃ الناس کے حجروں تک پھیلا ہوا ہے ۔ مختلف تذکروں میں ہمیں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جب حکمران ، علما کے حجروں میں حاضر ہیں یا علما ارباب اقتدار سے بے نیازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ علما کو اگر معاشرے میں یہ مقام حاصل تھا تو اس کا سبب یہ تھا کہ وہ انذار کے منصب پر فائز تھے ۔ انہوں نے خود کو اس کام کےلیے مخصوص کر لیا تھا کہ وہ دین بیان کریں گے اور معاشرے کے مختلف طبقات کو ان کی دینی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں گے ۔ یہ لوگ کبھی اقتدار کی کشمکش میں فریق نہیں بنے ۔ معاشرے پر ان کے اثرات کا یہ عالم تھا کہ حکمران ان کی رائے کے احترام پر مجبور تھے ۔ پھر یہ وقت بھی آ گیا کہ ایسے لوگ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے جن پر کسی صاحب علم کا خاص اثر تھا ۔ اس نے برسر اقتدار آ کر ان کی رائے کو ریاست کا قانون بنا دیا ۔ ہارون الرشید نے امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کو قاضی القضاۃ بنا دیا ۔ محکمہ قضا جب ان کے ہاتھ آیا تو اسلامی ریاست میں اسی کو قضا کے عہدے پر فائز کیا جاتا جس کی سفارش قاضی ابو یوسف کرتے تھے ۔ افریقہ میں معز بن باولیس کو والی بنایا گیا تو امام مالک علیہ الرحمہ کی فقہ کو وہاں غلبہ حاصل ہو گیا۔ اندلس میں حکم بن ہشام کے دور میں فقہ مالکی کو سرکاری حیثیت مل گئی ۔ مصر میں صلاح الدین یوسف بن ایوب جب عبید کو شکست دے کر حکمران بنے تو فقہ شافعی کو غلبہ ملا کیونکہ بنو ایوب شوافع تھے ۔ اب کسی جگہ ایسا نہیں ہوا کہ وہاں فقہ حنفی کےلیے مہم چلائی گئی ہو یا حنبلی مسلک کے نفاذ کا مطالبہ لے کر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہوں ۔


ہم جن صاحبان عزیمت کا ذکر کرتے ہیں ، اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ تذکرہ ہمارے ایمان کی تقویت کا باعث بنتا ہے ، ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اقتدار کی کشمکش میں کبھی فریق نہیں تھے ۔ انہوں نے حکمرانوں سے اگر اختلاف کیا تو اس موقع پر جب انہوں نے دین میں مداخلت کی یا شریعت کے کسی حکم کو تبدیل کرنا چاہا ۔ عباسی حکمرانوں نے جب یہ حکم جاری کیا کہ جو ان کی بیعت سے نکلے تو اس کی بیوی خود بخود اس پر حرام ہو جائے گی تو یہ فرمان دین میں مداخلت تھا چنانچہ امام مالک علیہ الرحمہ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی کہ اس جبری طلاق کی کوئی حقیقت نہیں ۔ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے اگر حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائی تو اس بات پر کہ وہ ریاست کی قوت کو بروئے کارلا کر یہ چاہتے تھے کہ قرآن مجید کو مخلوق مانا جائے ۔ علما اور فقہاے امت کا یہ کام اپنی حقیقت میں انذار ہے ۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اگر کہیں دین کے کسی حکم کو تبدیل کیا جا رہا ہے تو وہ لوگوں کے سامنے دین کا صحیح تصور پیش کریں ۔ یہ کوئی سیاسی کردار نہیں ہے ۔ ان لوگو ں نے حکمرانوں کے ناپسندیدہ کاموں پر انہیں ٹوکا لیکن نہ خود کو ان کی اطاعت سے آزاد کیا نہ دوسرے لوگوں کو اس کےلیے کہا ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان جلیل القدر لوگوں کو اس راہ میں بہت سی مشکلات برداشت کرنا پڑیں لیکن اس کے بعد ارباب اقتدار کےلیے یہ آسان نہیں رہا کہ وہ اپنی رائے پر اصرار کریں ۔


آج بھی اگر کوئی ایسی صورت حال پیش آتی ہے تو یہ علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کا دفاع کریں اور اس راہ میں کوئی مشقت اٹھانا پڑتی ہے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کریں ۔ صبر و استقامت ایسی چیزیں نہیں ہیں جو رائیگاں چلی جائیں ۔ جو لوگ ان خوبیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں ، معاشرے پر ان کے بے پناہ اثرات ہوتے ہیں ۔ آج کے جمہوری دور میں تو حکمرانوں کےلیے مزید مشکل ہو جائے اگر وہ ایسے لوگوں کی مخالفت کریں ۔


اسی بنیاد پر فقیر اس بات کے قائل ہے کہ علما کے شایان شان یہی ہے کہ وہ اقتدار کی حریصانہ کشمکش سے دور رہ کر منصب اعلیٰ کو آباد کریں اور دین کی حفاظت کے ساتھ لوگوں کا تزکیہ نفس کریں ۔ اس سے دین کو فائدہ پہنچے گا اور ان کے احترام میں بھی اضافہ ہوگا ۔ میں تو یہ عرض کرتا ہوں کہ اس سے ان کا سیاسی اثر ورسوخ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا ۔ میں پاکستان کے کئی ایسے علما و صوفیا کے نام گنوا سکتا ہوں جو اپنی خانقاہوں سے کبھی نہیں نکلے لیکن ان کے معاشرتی اثرات کا یہ عالم ہے کہ ہر عام انتخابات کے موقع پر اہل سیاست ان کے دروازے پر حاضر ہوتے ہیں اور ان سے تائید کی بھیک مانگتے ہیں ۔ وہ جس کے حق میں فیصلہ دے دیں، ان کے حلقہ اثر میں اس کی کام یابی یقینی ہو جاتی ہے ۔


یہ صحیح ہے کہ تاریخ میں ہمیں بعض ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو اقتدار کی کشمکش میں فریق تھے ۔ پورانے دور میں اس کی نوعیت خروج کی تھی ۔ علامہ ابن تیمیہ نے ’’منہاج السنۃ‘‘ میں ان تمام بغاوتوں کا جائزہ لے کر یہ بتایا ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہ صرف یہ کہ کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اس سے امت میں انتشار اور افتراق کا ایسا دروازہ کھلا کہ پھر کبھی بند نہیں ہو سکا ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اگرچہ صاحبان اقتدار کی تبدیلی کے انداز بدل گئے ہیں لیکن علما کی عملی سیاست میں شرکت کے نتائج پر کوئی فرق نہیں آیا ۔ پاکستان کو اگر ہم اپنی توجہ کا مرکز بنائیں تو علما کی سیاست کا دین کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا ۔


پاکستان میں علما عملی سیاست میں بالعموم دو طرح سے شریک رہے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے بعض مذہبی ودینی مسائل پر تحریکیں اٹھائیں اور مطالبات منوانے کےلیے اپنی سیاسی قوت کو بروئے کار لائے ۔ دوسری صورت میں یہ دھماکہ انہوں نے خود کو قوم کے سامنے متبادل قیادت کے طور پر پیش کر کے کیا اور مروجہ نظام کے تحت اقتدار تک پہنچنے کی سعی کی ۔ ان دونوں صورتوں کے جو نتائج نکلے ، فقیر انہیں قدرے تفصیل کے ساتھ زیر بحث لا رہا ہے ۔


تحریکیں اٹھا کر علما نے بعض مذہبی معاملات میں حکومت وقت سے قانون سازی کا مطالبہ کیا ۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۸ء میں دستور اسلامی کےلیے تحریک اٹھی ، ۱۹۵۳ء اور پھر ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کو اسلامی بنانے کےلیے آواز اٹھائی گئی ۔ ان مخصوص مسائل کے علاوہ بھی ہمارے علما ہر حکومت سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے ۔ گزشتہ سالوں میں ان کی طرف سے اسلام آباد پر یلغار کا اعلان تھا ۔ یہ اقدام بھی اس مطالبہ پر مبنی تھا کہ حکومت فوری طور پر نفاذ اسلام کا اعلان کرے ۔ علما کی یہ مہم بڑی حد تک کامیاب رہی ۔ قانون سازی کے باب میں ان کے مطالبات بالعموم تسلیم کر لیے گئے ۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ قانون کی سطح پر پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے میں اب کوئی امر مانع نہیں ہے ۔ یہ البتہ ایک دوسری بحث ہے کہ محض قانون سازی سے کیا کوئی ریاست اسلامی بن سکتی ہے ؟


اب ہم دوسری صورت کی طرف آتے ہیں ۔ اس ملک میں اقتدار تک پہنچنے کے دو راستے ہیں : ایک آئینی ، دوسرا غیر آئینی ۔ آئینی طور پر برسراقتدار آنے کا واحد راستہ انتخابات ہیں ۔ ہماری مذہبی جماعتوں نے انتخابات میں دو طرح سے حصہ لیا ۔ انفرادی حیثیت میں اور سیاسی اتحادوں میں شامل ہو کر ۔ انفرادی سطح پر انتخابات میں حصہ لے کر علما نہ صرف کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکے بلکہ ان کی حمایت میں بتدریج کمی آئی ۔ ۱۹۷۰ء میں انہیں پندرہ فیصد رائے دہندگان کا اعتماد حاصل تھا تو ۱۹۹۷ء تک پہنچتے پہنچتے اس میں بہت کمی آگئی ۔ تاہم اتحادوں میں شامل ہو کر وہ پارلیمنٹ تک پہنچے اور بعض اوقات صوبائی اور قومی سطح پر شریک اقتدار بھی ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ شرکت اسی وقت ممکن ہوئی جب انہوں نے کسی بڑی سیاسی جماعت کا ہاتھ تھاما ۔


یہ تو علما کی سیاست کے براہ راست نتائج ہیں ۔ اب ہم ان نتائج کی طرف آتے ہیں جو بالواسطہ سامنے آئے ۔


پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار کی حریصانہ کشمکش میں شریک ہو کر وہ منصبِ دعوت سے معزول ہو گئے ۔ اب وہ معاشرے میں دین کے داعی کا کردار ادا نہیں کر سکتے ۔ اس کی وجہ بڑی واضح ہے ۔ دعوت بے غرض بناتی ہے اور سیاست غرض مند ۔ جب آپ کسی کو دین کی دعوت دیتے ہیں تو جواباً کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے ۔ اس سے آپ کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوتا ہے اور آپ اس بات سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ آپ کی دعوت کے کیا اثرات مدعو پر پڑیں گے ، اس کو آپ کی بات پسند آئے گی یا نہیں ۔ اس کے بالمقابل جب آپ سیاست میں ہیں تو لوگوں سے ووٹ کےلیے درخواست کرتے ہیں ۔ یہ ایک ضرورت مند کا کردار ہے ۔ آپ کو حق بات کہنے سے زیادہ دلچسپی اس امر میں ہے کہ عوام کے مطالبات کیا ہیں ؟ چنانچہ کسی سیاسی ضرورت کے تحت آپ یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ ہی وہ موزوں ترین شخص ہیں جو ان کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے ۔ جو یہ بات باور کرانے میں کام یاب ہو جاتا ہے ، وہ جیت جاتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیاست کی حریصانہ کشمکش میں جب آپ فریق بنتے ہیں تو پھر وہ گروہ آپ کا مخاطب نہیں رہتا جو آپ کا مخالف ہے ۔ اس طرح آپ کی دعوت اس طبقے تک نہیں پہنچ سکتی اور یہ بات حکمت تبلیغ کے خلاف ہے لہٰذا علما کی سیاست کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ مسند دعوت خالی ہو گیا ۔


دوسرے نتیجے کا تعلق مذہبی جماعتوں کی ہیئت ترکیبی سے ہے ۔ ہمارے ہاں مذہبی جماعتیں ، فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم ہیں ۔ ہر مسلک کے علما نے اپنی سیاسی جماعت بنا رکھی ہے ۔ سیاست کے مبادیات سے واقف ایک شخص بھی یہ جانتا ہے کہ جو جماعت کسی خاص مذہبی فکر پر قائم ہو ، وہ کبھی قومی جماعت نہیں بن سکتی ۔ اس کے ساتھ ان مذہبی عناصر کے مفاد کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ تقسیم باقی رہے کیونکہ اس صورت میں انہیں ایک پریشر گروپ کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور پھر وہ کسی بڑی سیاسی جماعت سے معاملہ کر کے سینٹ یا اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح سیاسی منظر پر اپنی موجودگی کو یقینی بناتے ہیں ۔ اس سے کسی فرد واحد یا چند افراد کو تو دنیاوی اعتبار سے فائدہ پہنچتا ہے لیکن قوم میں مسلکی تقسیم مزید پختہ ہو جاتی ہے ۔ چونکہ ان عناصر کے پیش نظر شخصی مفاد ہوتا ہے اس لیے ایک لازمی نتیجے کے طور پر شخصیات کا تصادم (Personality clash) جنم لیتا ہے اور یہ جماعتیں مزید تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتی ہیں ۔ آج اس ملک میں کوئی مذہبی جماعت ایسی نہیں جو دو یا دو سے زیادہ حصوں میں منقسم نہ ہو ۔ گویا اس مذہبی سیاست کا دوسرا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ فرقہ وارانہ گروہ بندی مضبوط تر ہو گئی ۔


تیسرا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست میں مسلسل ناکامیوں نے ان لوگوں کو مایوسی (Frustration) کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ۔ چنانچہ اب وہ برملا یہ کہنے لگے ہیں کہ انتخابی سیاست سے کامیابی کا کوئی امکان نہیں اس لیے ہمیں اب کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا ہوگا کیونکہ آئین کے تحت تبدیلی کا واحد راستہ انتخابات ہیں ۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو تبدیلی کےلیے مسلح جدوجہد کے قائل ہیں ۔


چوتھا نتیجہ یہ نکلا کہ عملی سیاست میں شریک بعض علما کے دامن پر جب دنیاوی آلودگیوں کے نشانات کا تاثر ابھرا تو اس سے علما کی شہرت کو بالعموم بہت نقصان پہنچا ۔ فقیر کےلیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس تاثر میں صداقت کا تناسب کیا ہے لیکن اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تاثر پیدا ہی تب ہوا جب علما عملی سیاست میں الجھے ۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ دور جدید میں علما کا وقار جتنا مجروح ہوا ہے ، شاید ہی کسی دوسرے طبقے کا ہوا ہو ۔ دنیا داروں کے ساتھ جب انہوں نے معاملات کیے تو علما کو ان کی سطح پر اترنا پڑا ۔


فقیر کے نزدیک ان نتائج کی فہرست طویل ہو سکتی ہے لیکن اگر محض ان ہی کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہی رائے بنتی ہے کہ عملی سیاست دین اور علما دونوں کےلیے مفید ثابت نہیں ہوئی ۔ علما کی عملی سیاست میں شرکت کا واحد فائدہ یہ ہوا کہ یہ ملک آئینی اور دستوری طور پر اسلامی بن گیا ۔ اس کے علاوہ اس شرکت کے تمام نتائج منفی رہے ۔ اب جہاں تک اس واحد فائدے کا تعلق ہے تو علما اگر اپنے منصب انذار پر جلوہ افروز رہتے اور حکمرانوں کو اس جانب متوجہ کرتے کہ اگر کسی خطے میں مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہو جائے تو وہ شرعاً اس کے پابند ہیں کہ وہاں اللہ کے قانون کی حکمرانی ہو تو بھی یہ مقصد حاصل ہو جاتا ۔ یہ قوم مزاجاً بھی ریاست کے سیکولر تشخص کو قبول کرنے کےلیے آمادہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ اگر علما کا یہ دباؤ بھی ہوتا تو کوئی حکومت یہ جرات نہ کر سکتی کہ وہ پاکستان کو دستوری طور پر سیکولر بنائے ۔ پھر اس بات سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ دستور کو اسلامی بنانے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے میں بنیادی کردار ایک عظیم عالمِ دین علامہ شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ اور عملی سیاست سے دور رہنے والے دیگر مشاٸخ و علما کا تھا ۔


اس تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہوگا کہ اس سے مقصود دین و سیاست کی علیحدگی کی وکالت ہے ۔ یہاں محض یہ بات کہی جا رہی ہے کہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے سیاست کا رجحان رکھتے ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو اسلامی ریاست ہونا چاہیے اور اس میں بھی دو آرا نہیں کہ اس کےلیے جدوجہد ہونی چاہیے لیکن ہمارے نزدیک یہ کام وہ لوگ کریں جن کے اندر اس کےلیے فطری داعیہ موجود ہو ۔


حکومت کی طرف سے مساجد کو محکمۂ اوقاف کی تحویل میں لینے کا عمل ، مدارس کو قومیانے کی تجاویز اور وزیر مذہبی امور کی اس سلسلہ میں حالیہ تقریر انہی عزائم کی آئینہ دار ہیں ۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سامراجی نظام یورپ کے عیسائی پادریوں کی طرح ملتِ اسلامیہ کے علماء کی سرگرمیوں کو بھی عبادات و اخلاق کے دائرہ میں محدود کرنے کی بتدریج مساعی میں مصروف ہے ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس گمراہ کن نقطۂ نظر کا جائزہ لے کر عوام الناس کو اس کی فریب کاریوں سے آگاہ کریں اور یہ بتائیں کہ علماء اسلام کا سیاست میں حصہ لینا کیوں ضروری ہے ۔


سب سے پہلے اس امر کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ دینِ اسلام صرف عبادات و اخلاق کے کسی مجموعہ کا نام نہیں بلکہ اسلام انسانی زندگی کے ہر شعبہ کےلیے مکمل نظامِ حیات ہے ۔ اور اجتماعی و انفرادی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اسلامی تعلیمات کی افادیت و ضرورت سے انکار کرنا کفر ہے ۔ عبادات و اخلاق دینِ اسلام کے شعبے ضرور ہیں لیکن صرف انہی میں اسلام منحصر نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ اسلام نے نظامِ حکومت ، نظامِ اقتصادیات ، نظامِ قانون اور نظامِ جہاد بھی انسانیت کو دیا ہے ۔ اور ان نظاموں کو قبول کیے بغیر اسلام کا تصور بلاشبہ ناقص ، ادھورا اور نامکمل رہے گا ۔


مسلم معاشرہ میں ایک عادل اور صالح حکومت کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے یہ بہترین نظام نافذ کر کے اس کی حقانیت ، ضرورت اور افادیت واضح کر دی ہے ۔ مملکتِ اسلامیہ کے تمام شہریوں کے معاشی حقوق کی نگہداشت اور انہیں روٹی ، کپڑا اور مکان فراہم کرنا اسلامی حکومت کے اہم فرائض میں سے ہے جسے پورا کیے بغیر وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی ۔ جرائم کے خاتمہ اور معاشرہ کی اصلاح کےلیے اسلامی حدود و تعزیرات مثلاً زنا ، شراب ، قتل، ڈاکہ، چوری، ارتداد وغیرہ جرائم کی شرعی سزاؤں کا نفاذ ناگزیر ہے جس کے بغیر کوئی بھی حکومت اسلامی کہلانے کی حقدار نہیں ہو سکتی ۔ اور اس کے ساتھ کفر کی سرکوبی اور مسلمانوں میں ملی غیرت و حمیت برقرار رکھنے کےلیے نظامِ جہاد ضروری ہے اور اس کے بغیر اسلامی سطوت و شوکت کا اظہار نہیں ہو سکتا ۔


یہ تمام امور ایسے ہیں جو براہِ راست قرآن و سنت سے ثابت اور مستفاد ہیں اور نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ کی طرح ضروریاتِ دین میں شمار ہوتے ہیں ۔ اس لیے قرآن و سنت کا علم رکھنے والے کسی بھی شخص کےلیے ان امور سے صرفِ نظر کرنا ناممکن ہے اور علم دین سے بہرہ ور کوئی بھی شخص عبادات و اخلاقیات کے ساتھ ساتھ حکومت ، اقتصادیات ، قانون اور جہاد جیسے اہم معاملات میں قوم کی صحیح اور مکمل راہنمائی کیے بغیر اپنی ذمہ داریوں سے عند اللہ تعالیٰ و عند الناس عہدہ برآ نہیں ہو سکتا ۔


اس کے بعد اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ علماء اسلام نے ہر دور میں ملتِ اسلامیہ کی بھرپور سیاسی راہنمائی کی ہے۔ اور ملت اسلامیہ کی سیاسی تاریخ کا کوئی باب ایسا نہیں جو علماء کے عملی سیاست میں حصہ لینے کے مسئلہ میں خاموش ہو ۔ علماء اسلام نے جہاں مسلم معاشرہ میں قرآن و سنت اور فقہ و تاریخ جیسے اسلامی علوم کی حفاظت و اشاعت کی ہے وہاں ملت اسلامیہ کو ظلم سے نجات دلانے ، نظامِ عدل و انصاف کے مکمل نفاذ اور مسلم حکومتوں کو راہ راست پر لانے کے لیے بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں ۔ تاریخ اسلام اس قسم کے بے شمار واقعات و شواہد سے بھر پور ہے ۔ مثلاً حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی جدوجہد کو سامنے رکھیے ، تاریخ بتلاتی ہے کہ حضرت امامِ اعظم رضی اللہ عنہ کو جیل میں زہر پلا کر شہید کر دیا گیا تھا ۔ جرم کیا تھا ؟ کیا حکومتِ وقت نے انہیں نماز ، روزہ ، زکوٰۃ، حج یا عبادات و اخلاص کے کسی مسئلہ پر عمل کرنے سے روکا تھا ؟ یقیناً ایسی بات نہیں تھی بلکہ مسئلہ صرف اتنا تھا کہ حکومت وقت انہیں قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کی مسند پر بٹھا کر بے لوث اصلاح و ارشاد کےلیے ان کی مضبوط آواز کو خاموش کر دینا چاہتی تھی ۔ مگر حضرت امام صاحب رضی اللہ عنہ اس سیاسی خودکشی کے لیے تیار نہ تھے ۔ بالآخر حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ نے زہر کا پیالہ تو پی لیا مگر سیاسی جدوجہد سے اپنے قدم پیچھے نہ ہٹائے ۔ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرات تابعین عضی اللہ عنہم ، و تبع تابعین علیہم الرحمہ اور بعد کے ادوار میں حق و صداقت کی آواز بلند کر کے ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والے علماء کرام کا سلسلہ اتنا طویل ہے کہ ان کے مختصر ذکر کےلیے بھی ایک مفصل کتاب درکار ہے ۔ برصغیر پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ملتِ اسلامیہ کی سیاسی تاریخ علماء کرام کی جدوجہد ہی سے عبارت ہے اور علماء کرام کی جدوجہد کو نظر انداز کر کے برِصغیر میں ملتِ اسلامیہ کی سیاسی تاریخ کا ایک باب بھی مکمل نہیں کیا جا سکتا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔