سیرت و شانِ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت سیّدہ طیبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے شادی کی خواہش کئی لوگوں نے کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اس سلسلے میں وحی الہی کا انتظار ہے ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت سیّدنا مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی خواہش کا اظہار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول کر لیا اور کہا 'مرحباً و اھلاً ۔ بعض روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ اے علی خدا کا حکم ہے کہ میں فاطمہ کی شادی تم سے کر دوں ۔ کیا تمہیں منظور ہے۔ انہوں نے کہا : ’’ہاں‘‘ چنانچہ شادی ہو گئی ۔ یہی روایت صحاح میں حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے کی ہے ۔ ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح علی رضی اللہ عنہ سے کردوں ۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی ۔ کچھ اور روایات کے مطابق حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ و حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نکاح رمضان میں اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ میں ہوئی ۔ شادی کے اخراجات کے لیے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زرہ 500 درھم میں بیچ دی جو حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے قبل ازیں خرید کر بعد ازاں شادی کے تحفہ کے طور پر دے دی ۔ یہ رقم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کی جو حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر قرار پایا ۔ جبکہ بعض دیگر روایات میں مہر 480 درھم تھا ۔ حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت سیدنا مولا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ سے راجح قول کے مطابق سن 2 ہجری میں ہوا ہے ، نکاح کے مہینہ میں قدرے اختلاف ہے ، اس سلسلے میں مختلف اقول ہیں، (1) رمضان 2 ہجری (2) رجب 2 ہجری ۔ (3) صفر 2 ہجری (4) سن 2 ہجری کے شروع میں محرم کے مہینہ میں ۔
اسی طرح رخصتی کے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں : (1) ذی القعدہ 2 ہجری ، (2) ذی الحجہ 2 ہجری،(3) ایک قول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی تعالیٰ عنہا سے رخصتی کے ساڑھے چار ماہ بعد ، حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح کیا ، اور نکاح کے بعد ساڑھے نو ماہ بعد ان کی رخصتی کی ہے ، اور اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی تعالیٰ عنہا کی رخصتی ہجرت کے پہلے سال شوال کے مہینے میں ہوئی ، اور اس کے ساڑھے چار ماہ بعد کا مطلب ہے کہ صفر میں حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح ہوا ، اور اس کے ساڑھے نو ماہ بعد رخصتی کا مطلب یہ ہوا کہ سن 2 ہجری ذی القعدہ میں حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رخصتی ہوئی ۔ لہٰذا ان میں راجح قول یہی ہے کہ سن 2 ہجری میں غزوہ بدر سے پہلے حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح ہوا ، اور غزوہ بدر رمضان المبارک میں ہوا ، اس سے واپسی پرذی القعدہ کے آخر یا ذی الحجہ کے شروع میں آپ کی رخصتی ہوئی ۔ باقی نکاح کا دن کون سا تھا، تتبع اور تلاش کے باوجود ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکا ۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (16/ 249) میں ہے : وأنكحها رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَليّ بن أبي طَالب، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، بعد وقْعَة أحد، وَقيل: تزَوجهَا بعد أَن ابتني رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بعائشة بأَرْبعَة أشهر وَنصفاً وَبنى بهَا بعد تَزْوِيجه إِيَّاهَا بِتِسْعَة أشهر وَنصف، وَكَانَ سنّهَا يَوْمئِذٍ خمس عشرَة وَخَمْسَة أشهر وَنصفاً، وَكَانَ سنّ عَليّ يَوْمئِذٍ إِحْدَى وَعشْرين سنةً وَخَمْسَة أشهر ۔
كوثر المعاني الدراري في كشف خبايا صحيح البخاري (5/ 288) میں ہے : وتزوجها علي أوائل المحرم سنة اثنتين، قيل: إنه تزوجها بعد أن ابتنى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعائشة بأربعة أشهر ونصف، وبنى بها بعد تزويجه إياها بتسعة أشهر ونصف، وكان سنها يوم تزويجها خمس عشرة سنةً وخمسة أشهر ونصفًا، وكان سن علي إحدى وعشرين سنةً وخمسة أشهر. وقيل: تزوجها في رجب سنة مقدمهم المدينة، وبنى بها مرجعه من بدر، ولها يومئذٍ ثمان عشرة سنةً.وفي الصحيح عن علي قصة الشارفية لما ذبحهما حمزة، وكان علي أراد أن يبني بفاطمة. فهذا يدفع قول من زعم أن تزويجه بها كان بعد أحد، فإن حمزة قُتل بأحد.وولدت له: حسنًا وحُسينًا، ومُحسنًا، وأم كلثوم، وزينب۔
الطبقات الكبرى ط دار صادر (8/ 22) میں ہے : عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «تَزَوَّجَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم فِي رَجَبٍ بَعْدَ مَقْدَمِ النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ بِخَمْسَةِ أَشْهُرٍ وَبَنَى بِهَا مَرْجِعَهُ مِنْ بَدْرٍ وَفَاطِمَةُ يَوْمَ بَنَى بِهَا عَلِيٌّ بِنْتُ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ سَنَةً ۔
الذرية الطاهرة للدولابي (ص: 63) میں ہے : عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: «تَزَوَّجَ عَلِيُّ فَاطِمَةَ فِي صَفَرٍ فِي السَّنَةِ الثَّانِيَةِ وَبَنَى بِهَا فِي ذِي الْحِجَّةِ عَلَى رَأْسِ اثْنَتَيْنِ وَعِشْرِينَ شَهْرًا يَعْنِي مِنَ التَّارِيخِ ۔
سبل السلام (2/ 219) میں ہے : (وعن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال: «لما تزوج علي فاطمة - رضي الله عنهما -) هي سيدة نساء العالمين، تزوجها علي - رضي الله عنه - في السنة الثانية من الهجرة في شهر رمضان، وبنى عليها في ذي الحجة ولدت له الحسن والحسين والمحسن ۔
المنتخب من ذيل المذيل (ص: 90) میں ہے : قال الطبري: وتزوج على فاطمة عليها السلام في رجب بعد مقدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة بخمسة أشهر وبنى بها مرجعه من بدر وفاطمة يوم بنى بها على عليه السلام ابنة ثمانى عشرة كذلك ذكر محمد ابن عمر عن عبد الله بن محمد بن عمر بن على عن أبيه ۔
الإصابة في تمييز الصحابة (8/ 264،چشتی) میں ہے : تزوّج عليّ فاطمة في رجب سنة مقدمهم المدينة، وبنى بها مرجعه من بدر، ولها يومئذ ثمان عشرة سنةً.وفي «الصّحيح» عن عليّ قصّة الشّارفين لما ذبحهما حمزة، وكان عليّ أراد أن يبني بفاطمة، فهذا يدفع قول من زعم أنّ تزويجه بها كان بعد أحد، فإن حمزة قتل بأحد ۔
جہیز کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مقداد ابن اسود رضی اللہ عنہ کو رقم دے کر اشیاء خریدنے کے لیے بھیجا اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدد کے لیے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے چیزیں لا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھیں۔ اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں۔ مختلف روایات میں جہیز کی فہرست میں ایک قمیص، ایک مقنع (یا خمار یعنی سر ڈھانکنے کے لیے کپڑا)، ایک سیاہ کمبل، کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چار چھوٹے تکیے، ہاتھ کی چکی، کپڑے دھونے کے لیے تانبے کا ایک برتن، چمڑے کی مشک، پانی پینے کے لیے لکڑی کا ایک برتن(بادیہ)، کھجور کے پتوں کا ایک برتن جس پر مٹی پھیر دیتے ہیں، دو مٹی کے آبخورے، مٹی کی صراحی، زمین پر بچھانے کا ایک چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا شامل تھے۔ یہ مختصر جہیز دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ان پر برکت نازل فرما جن کے اچھے سے اچھے برتن مٹی کے ہیں۔ یہ جہیز اسی رقم سے خریدا گیا تھا جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ بیچ کر حاصل کی تھی۔
نکاح کے کچھ ماہ بعد یکم ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے جلوس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اشہب نامی ناقہ پر سوار ہوئیں جس کے ساربان حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ ازواج مطہرات جلوس کے آگے آگے تھیں۔ بنی ھاشم ننگی تلواریں لیے جلوس کے ساتھ تھے۔ مسجد کا طواف کرنے کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں اتارا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پانی منگوایا اس پر دعائیں پڑھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سر بازؤوں اور سینے پر چھڑک کر دعا کی کہ اے اللہ انہیں اور ان کی اولاد کو شیطان الرجیم سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔ ازواج مطہرات نے جلوس کے آگے رجز پڑھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاندان عبدالمطلب اور مہاجرین و انصار کی خواتین کو کہا کہ رجز پڑھیں خدا کی حمد و تکبیر کہیں اور کوئی ایسی بات نہ کہیں اور کریں جس سے خدا ناراض ہوتا ہو۔ بالترتیب امہات المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے رجز پڑھے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے جو رجز پڑھے ان کا ترجمہ : حضرت ام سلمیٰ کا رجز : اے پڑوسنو چلو اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے اور ہر حال میں اس کا شکر ادا کرو۔ اور جن پریشانیوں اور مصیبتوں کو دور کرکے اللہ نے احسان فرمایا ہے اسے یاد کرو۔ آسمانوں کے پروردگار نے ہمیں کفر کی تاریکیوں سے نکالا اور ہر طرح کا عیش و آرام دیا۔ اے پڑوسنو۔ چلو سیدہ زنانِ عالم کے ساتھ جن پر ان کی پھوپھیاں اور خالائیں نثار ہوں۔ اے عالی مرتبت پیغمبر کی بیٹی جسے اللہ نے وحی اور رسالت کے ذریعے سے تمام لوگوں پر فضیلت دی ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا رجز : اے عورتو! چادر اوڑھ لو اور یاد رکھو کہ یہ چیز مجمع میں اچھی سمجھی جاتی ہے ۔
یاد رکھو اس پروردگار کو جس نے اپنے دوسرے شکر گزار بندوں کے ساتھ ہمیں بھی اپنے دینِ حق کے لیے مخصوص فرمایا۔ اللہ کی حمد اس کے فضل و کرم پر اور شکر ہے اس کا جو عزت و قدرت والا ہے۔ حضرت فاطمہ زھرائ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کے چلو کہ اللہ نے ان کے ذکر کو بلند کیا ہے اور ان کے لیے ایک ایسے پاک و پاکیزہ مرد کو مخصوص کیا ہے جو ان ہی کے خاندان سے ہے۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا رجز : اے فاطمہ! تم عالم انسانیت کی تمام عورتوں سے بہتر ہو۔ تمہارا چہرہ چاند کی مثل ہے۔ تمہیں اللہ نے تمام دنیا پر فضیلت دی ہے۔ اس شخص کی فضیلت کے ساتھ جس کا فضل و شرف سورہ زمر کی آیتوں میں مذکور ہے۔ اللہ نے تمہاری تزویج ایک صاحب فضائل و مناقب نوجوان سے کی ہے یعنی علی رضی اللہ عنہ سے جو تمام لوگوں سے بہتر ہے۔ پس اے میری پڑوسنو۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو لے کر چلو کیونکہ یہ ایک بڑی شان والے باپ کی عزت مآب بیٹی ہے ۔
آپ کی شادی کے بعد زنانِ قریش انہیں طعنے دیتی تھیں کہ ان کی شادی ایک فقیر (غریب) سے کردی گئی ہے۔ جس پر انہوں نے رسالت مآب سے شکایت کی تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی کہ اے فاطمہ ایسا نہیں ہے بلکہ میں نے تیری شادی ایک ایسے شخص سے کی ہے جو اسلام میں سب سے اول، علم میں سب سے اکمل اور حلم میں سب سے افضل ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ علی میرا بھائی ہے دنیا اور آخرت میں؟۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہنسنے لگیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں اس پر راضی اور خوش ہوں ۔(چشتی)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے آپس میں باہمی رضا مندی سے گھریلو امور اور ذمہ داریوں کی تقسیم کچھ اس طرح کر رکھی تھی کہ باہر کے سارے امور اور ضروریات زندگی کی فراہمی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذمے تھی اور گھر کے سارے کام، چکی پیسنا، جھاڑو دینا، بچوں کی دیکھ بھال اور دیگر گھریلو امور کی انجام دہی حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے سپرد تھی۔ ان امور میں آپ کی خوشدامن حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا بھی معاون تھیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوہ میں یہ روایت درج کی ہے کہ یہ تقسیم خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ اس طرح ان کی زندگی میں تنگ دستی کے باوجود خوشگوار تعاون اور حسن و سکون پیدا ہوگیا تھا۔
سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھیں کہ بیوی کا مزاج شوہر کے مزاج اور فکرو عمل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اسے سعادت مندی کی مسند پر بٹھادے اور چاہے تو بدبختی کے گڑھے میں دھکیل دے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد میدان تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدنی زندگی میں جتنے معرکہ ہائے حق و باطل بپا ہوئے، ان میں علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی کاری ضربیں تاریخ شجاعت کا تابناک باب ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ فاتح خیبر ، غازی بدر و احد و حنین اور خندق کے صف اول کے مجاہد تھے ۔ ایسے ہمہ جہت مرد مجاہد اور عظیم سپہ سالار کی خدمت کے لئے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی خیر خواہ محب و مخلص اور بہادر زوجہ، قدرت کا اپنا انتخاب تھا۔ حضرت سیدہ زہراء رضی اللہ عنہا نے شوہر نامدار کی جہادی زندگی میں بھرپور معاونت فرمائی۔ انہیں گھریلو کاموں سے فراغت اور بے فکری مہیا کی۔ سارا دن تیغ و تُفنگ سے تھکے ماندے حضرت علی رضی اللہ عنہ جب واپس گھر آتے تو سیدہ رضی اللہ عنہا سو جان سے ان کی خدمت بجا لاتیں۔ ان سے جنگ کے واقعات سن کر ایمان تازہ کرتیں اور ان کی شجاعت کی داد بھی دیتیں۔ زخموں کی مرہم پٹی کرتیں، خون آلود تلوار اور لباس کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتیں، یوں یہ پیکر جرات و شجاعت تازہ دم ہوکر اگلے معرکے کے لئے کمر بستہ ہوجاتے ۔
ہاں ! یہی جذبہ مسلمان بیوی کا طرہ امتیاز ہے ۔ وہ شوہر کی صلاحیت ، وقت اور اس کی جان ومال کو اپنی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی امانت سمجھتی ہے اور اس کی صلاحیتوں کو دین کی سربلندی میں صرف کر دینے پر اسے ابھارتی ہے۔ بلاشبہ ایسی خواتین قیامت کے دن مجاہدین کی صف میں کھڑی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی مستحق ٹھہریں گی۔ آج بھی مسلمان خواتین اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس صفت کو اپنے کردار کا حصہ بنالیں تو ایسے گھرانوں میں تربیت پانے والی اولاد سیدنا امام حسن و سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما اور حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شکل میں تاریخ دعوت و عزیمت کا قابل فخر سرمایہ کیوں نہیں بنے گی اور آئندہ مؤرخ ان گھرانوں کو کیسے خراج تحسین پیش نہیں کرے گا ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی سورہ الفتح میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفات بیان فرمائی ہیں کہ وہ : (1) اہل کفر کے لئے شدت پسند ہیں (2) اہل ایمان کے لئے پیکر رحمت و شفقت ہیں (3) ان کی پیشانیوں میں سجدوں کی کثرت کی واضح علامت ہے۔ (4) ان کے شب و روز حالت رکوع و سجود میں رضائے الہٰی کی طلب میں گزرتے ہیں ۔
صاف ظاہر ہے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و منصب اس بات کا متقاضی تھاکہ وہ ان صفات عالیہ میں عام صحابہ کرام رضی اللہ عہنم سے بڑھ چڑھ کر اپنی قربت اور خصوصیت کا ثبوت فراہم کرتے۔ تاریخ گواہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عملاً ایسا کرکے دکھایا آپ بچپن سے فیضان نبوت و رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے براہ راست امین تھے ۔ عارف کامل اور زاہد شب زندہ دار تھے ۔ ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی تھی ۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شخصیت مطہرہ پر بھی یہی صفات غالب تھیں۔ دونوں نے مَہْبِطِ وحی میں پرورش پائی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات دونوں کے پیش نظر تھے اس لئے دونوں ہستیوں کا اوڑھنا بچھونا اسلام کی خدمت اور عبادت و ریاضت تھا۔ اس کا اعتراف سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ازدواجی زندگی کے ابتدائی دنوں میں کرلیا جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا، ’’سناؤ علی! شریکہ حیات کیسی ملی ہے؟‘‘ عرض کیا ’’نعم العون علی العبادۃ‘‘ میری شریکہ حیات فاطمہ میری عبادت گزاری میں بہترین معاون ہیں ۔(چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کل کائنات یہ گھر اور آپ کا سب سرمایہ علم تھا جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا : اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں‘‘ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس نعمت عظمٰی پر ہمیشہ فخرکرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہوکر طالبان علم کو بہت بڑا شرف بخش گیا ہے ۔
رضِينا قِسمة الجبّار فِينا لنا علمٌ ولِلجُهّال مالٌ ۔
ترجمہ : ہم خالق ارض و سماوات کی اس تقسیم پر خوش ہیں جس کے تحت اس نے ہمارے مقدر میں علم کی سعادت اور جہلاء کے لئے مال و دولت رکھ دیا۔
مراد یہ کہ دنیوی مال و اسباب علم کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ انسان کی عظمت علم سے وابستہ ہے نہ کہ مال و دولت سے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت علم سے مالا مال تھے لیکن سیم و زر سے آپ کا دامن ہمیشہ خالی رہا اس لئے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی ساری زندگی فقر و فاقہ اور تنگ دستی میں گزری۔ کونین کے مالک کی لاڈلی دو دو اور تین تین دن کچھ کھائے پئے بغیر گزار دیتیں لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لاتیں۔ حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دینی فرائض سے فرصت پاکر محنت مزدوری کرتے جو ملتا وہ لاکر سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے ہاتھ میں دے دیتے اور آپ اسے صبر و شکر کے ساتھ قبول فرمالیتیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ فقرو تنگ دستی آپ دونوں کے خوشگوار تعلقات پر اثر انداز ہوئی ہو ۔
تنگ دستی پر صبر و ضبط کرلینا شاید آسان ہو لیکن اس حالت پر راضی اور خوش ہوکر اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا اور چہرے پر کبھی ناگواری کے آثار تک نہ لانا بہت بڑے حوصلے اور پختہ کردار کی علامت ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ ’’الفقر فخری‘‘ کہنے والے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت یافتہ عظیم بیٹی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ سیدہ کونین رضی اللہ عنہا کو دو تین دنوں کے فاقہ کے بعد کچھ ملا۔ اپنے شہزادوں اور شوہر کو کھلانے کے بعد اس کا کچھ حصہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! ’’میری بیٹی تمہارا باپ یہ لقمہ چار دن کے بعد کھارہا ہے‘‘ ہاں! یہ وہی گھرانہ ہے جہاں سے مخلوق کو دونوں جہانوں کے خزانے تقسیم کئے جاتے تھے اور اب تک کئے جارہے ہیں لیکن فقر اختیاری تھا کہ اپنی ذات پر ہمیشہ دوسروں کو ترجیح دی ۔
کل جہاں مِلک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمیشہ توازن برقرار رکھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عبادت و ریاضت میں محو ہوکر شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش میں کمی آئی ہو، یا بچوں اور شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں عبادت و ریاضت کے معمولات متاثر ہوئے ہوں۔اللہ کی عبادت اورشوہر کی اطاعت میں یہی حسنِ توازن ہے جو خاتونِ جنت کی کامیاب ترین اور مثالی حیاتِ مقدسہ کا طرہ امتیاز ہے۔ورنہ عام طور پر ان دونوں محاذوں پر خواتین و حضرات انصاف نہیں کر پاتے خصوصاً خواتین کے لئے یہ توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’فاطمہ رضی اللہ عنہا جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کو فریضہ سمجھتی تھی اسی طرح میری اطاعت بھی کرتی تھی۔ عبادت و ریاضت کے انتہائی سخت معمولات میں اس نے میری خدمت میں ذرہ بھر فرق نہ آنے دیا۔ وہ ہمیشہ گھر کی صفائی کرتی، چکی پر گردو غبار نہ پڑنے دیتی، صبح کی نماز سے پہلے بچھونہ تہہ کرکے رکھ دیتی گھر کے برتن صاف ستھرے ہوتے۔ ان کی چادر میں پیوند ضرور تھے مگر وہ کبھی میلی نہیں ہوتی تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گھر میں سامان خوردو نوش موجود ہو اور انہوں نے کھانا تیار کرنے میں دیر کی ہو، خود کبھی پہلے نہ کھاتی، زیور اور ریشمی کپڑوں کی کبھی فرمائش نہ کی، طبیعت میں بے نیازی رہی، جو ملتا اس پر صبر شکر کرتی، میری کبھی نافرمانی نہیں کی، اس لیے میں جب بھی فاطم رضی اللہ عنہا کو دیکھتا تو میرے تمام غم غلط ہو جاتے ۔
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یہی پاکیزہ ادائیں تھیں جن پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دل و جان سے فدا تھے۔ ان کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔ کسی نے وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ’’سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کیسی تھیں ؟‘‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نم دیدہ ہوکر کہنے لگے ۔ ’’فاطمہ رضی اللہ عنہ دنیا کی بہترین عورت تھی، وہ جنت کا ایسا پھول تھا جس کے مرجھا جانے کے بعد بھی مشام جان معطر ہے۔ جب تک زندہ رہی مجھے ان سے کوئی شکایت نہ ہوئی ۔ جگر گوشۂ رسول، حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ بتول رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نکاح کے بعد جب حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ، شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے دولت خانہ میں تشریف لائیں تو گھر کے تمام کاموں کی ذمّہ داری آپ پر آ پڑی آپ رضی اللہ عنہ نے اس ذمّہ داری کو بڑے اَحسن انداز میں نبھایا اور ہر طرح کے حالات میں اپنے عظیم ُ المرتبت شوہر کا ساتھ دیا ۔
حضرتِ سیِّدُنا ضَمْرَہ بن حبیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اُمورِ خانہ داری (مثلاً چکی پیسنے ، جھاڑو دینے ، کھانا پکانے کے کام وغیرہ) اپنی شہزادی حضرت فاطمۃُالزَّہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے سپُرد فرمائے اور گھر سے باہر کے کام (مثلاً بازار سے سودا سلف لانا ، اُونٹ کوپانی پلاناوغیرہ) حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ذمّہ لگا دیئے ۔ (اَلْمُصَنَّف لِاِبْنِ اَبِیْ شَیْبَۃ، کتاب الزھد،کلام علی بن ابی طالب، ج۸، ص۱۵۷، الحدیث:۱۴،چشتی)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدۂ ماجدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض کی ، ’’فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا آپ کی خدمت اور گھر کے کام کاجکیا کریں گی ۔ (اَلْاِصَابَۃُ فِیْ تَمْیِیْزِ الصَّحَابَۃِ، ج۸، ص۲۹۷)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کا مطالَعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا خانہ داری کے کاموں کی اَنجام دہی کے لئے کبھی کسی رشتہ دار یا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں ۔ نہ کام کی کثرت اور نہ کسی قسم کی محنت مشقت سے گھبراتی تھیں ۔ ساری عمر شوہر کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی۔ کھانے کا اُصول یہ تھا کہ چاہے خود فاقے سے ہوں جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلالیتیں خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں ۔
حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا گہوارہ صبر و رضا کی پروردہ تھیں ۔ آپ کے ہاتھ تو چکی چلانے میں مصروف رہتے لیکن زباں پر قرآن پاک کی تلاوت جاری رہتی ۔ نوری اور ناری مخلوق آپ رضی اللہ عنہا کی مطیع اور فرمانبردار تھی لیکن اس سے بے نیاز ہوکر آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی رضا کو شوہر کی رضا میں گم کر رکھا تھا ۔ آپ سحر خیزی اور گریہ شب کی وجہ سے سرہانے اور بستر کے آرام اور تکلف سے بے نیاز تھیں۔ نماز کے وقت آپ کے اشک گہر بار اتنی کثرت سے جاری رہتے کہ جبرائیل امین علیہ السلام ان اشک کے موتیوں کو زمین سے چن کر عرش بریں پر شبنم کی طرح گراتے تھے ۔ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کو آج اگر مسلمان عورت یہ نقوش حرز جاں بنالے تو تاریخ کے اس نازک ترین دور میں بھی اسلام کی برکت سے ہمارا ماحول رشک جنت بن سکتا ہے۔ تباہی کے کنارے کھڑی انسانیت کو آج بھی رحمۃ للعالمین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کی سیرت، فوزو فلاح کاپیغام دے رہی ہے ۔ اب یہ عورت پر منحصر ہے کہ وہ شرف انسانیت کا عنوان بنتی ہے یا تخریب اخلاق و کردار کے ذریعے تباہی کا ہتھیار ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض اضمد چشتی)
No comments:
Post a Comment