Thursday 6 January 2022

شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ پنجم

0 comments

 شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ پنجم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : جن خوش نصیبوں  نے اىمان کے ساتھ سرکارِ عالی وقار  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کى صحبت پائى ، چاہے یہ صحبت اىک لمحے کےلیے ہی ہو اور پھر اِىمان پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہا جاتا ہے ۔ یوں توتمام ہی صحابۂ کرام  رضیَ اللہُ عنہم عادل ، متقی ، پرہیز گار ، اپنے پیارے آقا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الٰہی کی خوش خبری پانےکے ساتھ ساتھ بے شمار فضائل  و کمالات رکھتے ہیں لیکن ان مقدس حضرات کی طویل فہرست میں ایک تعداد ان صحابہ رضیَ اللہُ عنہم کی ہے جو ایسے فضائل و کمالات رکھتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور ان میں  سرِ فہرست وہ عظیم ہستی ہیں  کہ جب  حضرت سیدنا امام محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والدِ ماجد حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے  پوچھا : رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے بعد (اس اُمّت کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں ؟ تو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق   رضی اللہ عنہ ۔ (بخاری جلد 2 صفحہ 522 حدیث:36717)

ثَانِیَ اثْنَیْنِ : اللہ پاک نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کےلیےقراٰنِ مجید میں ’’صَاحِبِہٖ‘‘یعنی ”نبی کے ساتھی“ اور ”ثَانِیَ اثْنَیْنِ“ (دو میں سے دوسرا)فرمایا ۔ (پ10، التوبۃ:40) یہ فرمان کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا ۔

نام صِدِّیق : آپ رضیَ اللہُ عنہ کا نام صدیق آپ کے رب نے رکھا ، آپ کے علاوہ کسی کا نام صدیق نہ رکھا ۔

رفیقِ ہجرت : جب کفّارِ مکّہ کے ظلم و ستم اور تکلیف رَسانی کی وجہ سے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  مکّۂ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رفیقِ ہجرت تھے ۔

یارِ غار : اسی ہجرت کے موقع پر صرف آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یارِ غار رہے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ نمبر 46،چشتی)

صرف ابو بکر کا دروازہ کُھلا رہے گا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے آخری ایام میں حکم ارشاد فرمایا : مسجد (نبوی) میں کسی کا دروازہ باقی نہ رہے ، مگر ابوبکر کادروازہ بند نہ کیا جائے ۔ (بخاری،ج 1،ص177، حدیث:466)(تفہیم البخاری،ج 1،ص818)

حضورِ اکرم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا : جبریلِ امین علیہِ السَّلام میرے پاس آئےاور میرا ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ دکھایاجس سے میری اُمّت جنّت میں داخل ہوگی۔ حضرت سیّدناابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے عرض کی: یَارسولَ اللہ!میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا، تاکہ میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا۔ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ابوبکر! میری اُمّت میں سب سےپہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہوگے ۔ (سنن ابو داؤد جلد 4 صفحہ 280،حدیث:4652)

ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ  کرام رضیَ اللہُ عنہم کو بُلایا، سب کو ایک ایک لُقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کو تین لُقمے عطا کئے۔ حضرت سیّدنا عباس رضیَ اللہُ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا: جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت جبرائیل علیہِ السَّلام نے کہا: اے عتیق! تجھے مبارک ہو ،جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت میکائیل علیہِ السَّلام نے کہا: اے رفیق! تجھے مبارک ہو، تیسرا لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا: اے صدیق! تجھے مبارک ہو ۔ (الحاوی للفتاویٰ،ج 2،ص51)

حضرت سیّدنا ابو دَرْدَاء رضیَ اللہُ عنہ کا بیان ہےکہ نبیوں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کے آگےچلتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا: کیا تم اس کے آگے چل رہے ہو جو تم سے بہتر ہے۔کیا تم نہیں جانتے کہ نبیوں اور رسولوں کے بعد  ابوبکر سے افضل کسی شخص پر نہ تو سورج طلوع ہوااور نہ ہی غروب ہوا ۔ (فضائل الخلفاء لابی نعیم صفحہ 38 حدیث نمبر 10،چشتی)

ہجرت سے قبل حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائی ہوئی تھی چنانچہ حضرت سیّدتنا عائشہ   رضیَ اللہُ عنہا فرماتی ہیں : میں نے ہوش سنبھالا تو والدین دینِ اسلام پر عمل کرتے تھے ، کوئی دن نہ گزرتا مگر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دن کے دونوں کناروں صبح و شام  ہمارے گھر تشریف لاتے۔ پھر حضرت ابوبکر کو خیال آیا کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنالیں، پھر وہ اس میں نماز پڑھتے تھے اور (بلند آواز سے) قراٰنِ مجید پڑھتے تھے،مشرکین کے بیٹے اور ان کی عورتیں سب اس کو سنتے اور تعجب کرتےاور حضرت ابوبکر کی طرف دیکھتے تھے ۔ (بخاری،ج 1،ص180، حدیث:476)(تفہیم البخاری،ج 1،ص829)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک مرتبہ یوں ارشاد فرمایا : جس شخص کی صحبت اور مال نے مجھے سب لوگوں سے زیادہ فائدہ پہنچایا وہ ابوبکر ہے اور اگر میں اپنی اُمّت میں سے میں کسی کو خلیل ( گہرا دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت قائم ہے ۔ (بخاری،ج 2،ص591، حدیث: 3904)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک بار حضرت صدیق رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا : تم میرے صاحب ہوحوضِ کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں ۔ (ترمذی جلد 5 صفحہ 378 حدیث:3690،چشتی)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدنا جبریلِ امین علیہِ السَّلام سے اِسْتِفْسار فرمایا : میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ تو سیّدنا جبریلِ امین علیہِ السَّلام نے عرض کی : ابو بکر (آپ کے ساتھ ہجرت کریں گے) ، وہ آپ کے بعد آپ کی اُمّت کے معاملات سنبھالیں گے اور وہ اُمّت میں سے سب سے افضل اوراُمّت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں ۔ (جمع الجوامع،ج 11،ص39، حدیث:160،چشتی)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چُکا دیا ہے، مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک اُنہیں روزِ قیامت عطا فرمائے گا ۔ (ترمذی جلد 5 صفحہ 374، حدیث:3681)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غارِ ثور تشریف لے جانے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے اُونٹنی پیش کرتے ہوئے عرض کی : یا رسولَ اللہ!اس پر سوار ہو جائیے ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سوار ہو گئے پھر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا : اے ابوبکر اللہ پاک تمہیں رضوانِ اکبر عطا فرمائے ۔ عرض کی : وہ کیا ہے ؟ آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک تمام بندوں پر عام تجلّی اور تم پر خاص تجلّی فرمائے گا ۔ (الریاض النضرۃ،ج 1،ص166)

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بصیرت و تدبر، عزم و استقلال، وفاداری و فداکاری، ایثار و انفاق کا مرقع خیر، مجسم اسلام کے مردِ مومن کی سچی تصویر تھے، وہ ثانی اثنین فی الغار، وہ جانثارِ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، پروانہ شمع رسالت، اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، ہر دور میں اہلِ حق اور متلاشیان راہ حق و ہدایت کے لئے اصحاب رسول میں سے نمونہ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جنکے بارے میں حضرت اسد بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توجہ فرمائی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نہ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکارا : ابوبکر! ابوبکر! روح القدس جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے کہ میری اُمت میں سے میرے بعد سب سے بہتر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (طبرانی، معجم الأوسط، 6/292، رقم : 6448،چشتی)

آپ رضی اللہ عنہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سمندر میں اپنی ذات کو فنا کر چکے تھے۔ دولتِ دنیا ان کے سامنے ہیچ تھی ۔ اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لبوں پر مچلتا تو لہو کی ایک ایک بوند وجد میں آ جاتی ، ہمہ وقت بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سراپائے ادب رہتے، اور سود وزیاں سے بے نیاز ہر وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اشارے کے منتظر رہتے کہ کب حکم ہو اور وہ اپنی جان و مال آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار کریں۔

ایک موقع پر جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جو کچھ تھا وہ سب کچھ لے کر حاضر خدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا : میں ان کے لئے اللہ تعالی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔(ترمذی، السنن، کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب فی مناقب ابی بکر و عمر رضی الله عنهما کليهما، 6 : 614، رقم : 3675)

گویا وہ بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بقول شاعر یوں عرض گزار ہوئے : ⬇

اے تجھ سے دیدہ مہ و انجم فروغ گیر
اے تیری ذات باعث تکوین روزگار

(اقبال)

جملہ صفات کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کی وفا شعاری اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت نے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آپ کو وہ مقام و مرتبہ عطا کیا جس پر ساکنانِ عرش بھی رشک کرتے ہیں۔

صحابی رسول کا لقب نصِ قرآنی سے

قرآن مجید میں الحمد سے والناس تک ایک لاکھ چودہ ہزار یا چوبیس ہزار صحابہ کرام کی جماعت میں سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ایک فرد ہیں جنکی صحابیت پر اللہ رب العزت نے نص صریح کے ساتھ مہر تصدیق لگا دی۔ ان کو صحابی رسول، اللہ تعالی نے خود قرار دیا ہے۔ غار ثور میں ہجرت کے وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یارِ غار ہونے کا شرف آپ کو نصیب ہوا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سورہ توبہ کی آیات میں اس طرح شان بیان کی گئی ۔

إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔ (التوبه، 9 : 40)
’’اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بے شک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے فرما رہے تھے غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں (فرشتوں کے) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا، اور اللہ کا فرمان تو (ہمیشہ) بلند و بالا ہی ہے، اور اللہ غالب، حکمت والا ہے ۔

اس میں ’’اذ یقول لصاحبہ‘‘ جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق) سے فرما رہے تھے کے الفاظ قرآن مجید میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا بیانِ فضیلت ہے اور یہ لقب کائناتِ صحابہ میں کسی اور کو عطا نہیں کیا گیا ۔

جب قریش کی ایذاء رسانی حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کو ستانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حبشہ کے بعد پھر مدینہ ہجرت کا حکم فرمایا۔ اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم خداوندی کے منتظر تھے، جب اللہ نے آپ کو حکم ہجرت دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ہجرت کا ذکر فرمایا۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پکار اٹھے : ’’اے اللہ کے رسول مجھے بھی معیت سے نوازئیے ۔ ‘‘ ارشاد گرامی ہوا ’الصحبۃ‘ معیت تو ضرور ہو گی اس مصائب والے سفر میں تم میرے ساتھ ہو گے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔ ’’بخدا مجھے اس دن سے قبل معلوم نہ تھا کہ کوئی خوشی سے بھی آنسو بہاتا ہے میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس روز روتے دیکھا ۔ (سيرت ابن هشام، 1 : 485)

اور یوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہجرت کے وقت پیغمبر خدا کا ساتھی ہونے اور یار غار ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہوا اور غار ثور میں تین دن اور تین راتیں متوجہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور متوجہ علیہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔

بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ
’’حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جنگِ ذاتِ السلاسل کا امیرِ لشکر بنا کر روانہ فرمایا جب میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : (یارسول ﷲ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم) عورتوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عائشہ کے ساتھ۔ میں نے پھر عرض کیا : مردوں میں سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اُس کے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ۔ میں نے عرض کیا : پھر اُن کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عمر بن خطاب کے ساتھ۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے بعد چند دوسرے حضرات کے نام لیے ۔ (بخاری الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم، باب : من فضائل أبی بکر الصديق، 3/1339، الرقم : 3462)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جو محبت تھی وہ صرف اس وجہ سے نہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے بلکہ یہ محبت اس وجہ سے بھی تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی ذاتی خصوصیات، اپنے اعلی اوصاف اپنے کردار اور باکمال صلاحیتوں کی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے۔

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے سردار، ہم سب سے بہتر اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے ۔ (ترمذی السنن، کتاب المناقب عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابی بکر صديق رضی الله عنه 5 : 606، رقم : 3656)

امام زہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا تم نے ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) کے بارے میں بھی کچھ کلام کہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں (یا رسول ﷲ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ کلام پڑھو تاکہ میں بھی سنوں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ یوں گویا ہوئے : وہ غار میں دو میں سے دوسرے تھے۔ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر پہاڑ (جبل ثور) پر چڑھے تو دشمن نے اُن کے ارد گرد چکر لگائے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو معلوم ہے کہ وہ (یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو اُن کے برابر شمار نہیں کرتے ہیں ۔ (یہ سن کر) رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حسان تم نے سچ کہا، وہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) بالکل ایسے ہی ہیں جیسے تم نے کہا ہے ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 67، رقم : 4413)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا ساتھی ، دوست ، نائب اور وزیر قرار دینا

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہمہ وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہتے تھے جس کی وجہ سے آپ پورے اسلام کو سمجھتے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسلام کی روح کو سمجھا۔ دعوت کی حقیقت اور مزاج کا احاطہ کیا۔ ربانی منہج آپ رضی اللہ عنہ کے اندر جاگزیں ہو گیا اور اسی الٰہی منہج کی روشنی میں اللہ عزوجل، حیات و کائنات کی حقیقت اور وجود کے راز کی معرفت آپ نے حاصل کی عبادات، قیام اللیل، ذکر الٰہی، تلاوت قرآن پاک آپ کو انتہائی محبوب ہو گئیں۔ ہر وقت صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رہنے سے نفس کی تطہیر اور روح کا تزکیہ عمل میں آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اخلاص اور للہیت نے آپ کو بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ خاص مقام عطا کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو اپنی امت میں اپنا نائب اور دوست قرار دیا ۔
حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگرمیں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : المناقب، باب : قول النبی : لو کنت متخذا خليلا، 3/1338، رقم : 3456،چشتی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہتے تھے سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھایا کرتے تھے، یہاں تک کہ پیر کا دن آ گیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز کی حالت میں صفیں باندھے کھڑے تھے ۔ (اِس دوران) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنے) حجرہ مبارک سے پردہ اُٹھایا اور کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے ۔ ایسے لگ رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور کھلے ہوئے قرآن کی طرح ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم ریز ہوئے ۔ پس ہم نے ارادہ کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی سے نماز توڑ دیں پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں کے بَل (مصلّی امامت سے) پیچھے لوٹے تاکہ صف میں شامل ہو جائیں اور گمان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کےلیے (گھر سے) باہر تشریف لانے والے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اشارہ فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز کو مکمل کرو اور پردہ نیچے سرکا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُسی دن وصال ہو گیا ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : الأذان، باب : أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ، 1 : 240، رقم : 648)

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی قوم کے لئے مناسب نہیں کہ ان میں ابوبکر صدیق موجود ہوں اور اُن کی امامت اِن (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے علاوہ کوئی اور شخص کروائے ۔ (ترمذی، السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : فی مناقب ابی بکر وعمر رضی ﷲ عنهما کليهما، 5 : 614، رقم : 3673)

روزِ آخرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ

اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم عتیق یعنی ﷲ تعالیٰ کی طرف سے آگ سے آزاد ہو۔ پس اُس دن سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام ’’عتیق‘‘ رکھ دیا گیا ۔ (ترمذی، السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : فی مناقب ابی بکر وعمر رضی ﷲ عنهما کليهما، 5 : 616، رقم : 3679)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت جبرائیل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا ، پھر مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری اُمت (جنت میں) داخل ہو گی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاش میں آپ کے ساتھ ہوتا تاکہ میں بھی جنت کا وہ دروازہ دیکھتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقینا تم تو میری اُمت کے وہ پہلے شخص ہو جو جنت میں اُس دروازہ سے داخل ہو گا ۔ (ابو داؤد ، السنن، کتاب السنة، باب الخلفاء، 4 : 213، رقم : 4652)

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جو مقام و مرتبہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نصیب ہوا ۔ اس کی وجہ آپ رضی اللہ عنہ کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ اقدس کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انتہا درجے کی ایسی تعظیم و تکریم ہے جس کا رنگ آپ کے جملہ اعمال اور ارادوں پر چڑھا ہوا نظر آتا ہے ۔ آپ کے اخلاص اور وفا شعاری نے قیامت تک آنے والے ہر اس مسلمان کو سلیقہ محبت اور قرینہ ادب سکھا دیا جو مشن نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کےلیے کوشاں ہے اور روزِ قیامت آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سنگت و معیت کا خواہاں ہے ۔

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیرتِ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جو عشاقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صف میں درخشاں آفتاب کی مانند ہے ، محبت و ادب اور وفا و جانثاری کی کرنیں لینے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔