Monday 10 January 2022

بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان (دوم)

0 comments

 بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان (دوم)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارٸینِ کرام : آج مدعیانِ اسلام کے تمام فرقے قرآن و حدیث پر ایمان و عمل کے دعویدار ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ قرآن و حدیث پر پورے طور سے ایمان رکھنے والی بڑی جماعت یعنی سواد اعظم صرف اہلسنت و جماعت ہے اور یہی فرقۂ ناجیہ (جنتی فرقہ) ہے باقی سارے فرقے ناری (جہنمی) ہیں ۔ قرآنی آیات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا صحیح مطلب وہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کے صحابۂ کرام نے بیان فرمایا ۔ اسی پر ایمان لانا ضروری ہے ، اس کے خلاف جانا گمراہی ہے ۔ ناجی فرقہ کی بابت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ما انا علیہ واصحابی‘‘ یعنی نجات پانے والا وہ گروہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر قائم رہے ۔


دوسری حدیث میں فرمایا:’’وھی الجماعۃ‘‘وہ ناجی گروہ بڑی جماعت ہے۔ وہ باطل پرست جو خود کو مسلمان کہتے ہیں صرف ان کے زبانی دعوے کافی نہیں ہیں بلکہ دل سے اقرار لازمی ہے۔ مومن وہ ہیں جنہوں نے دل سے مانا اور عمل کیا، انہیں کو’’ یاایھاالذین اٰمنوا‘‘ سے خطاب کیا گیا اور وہی دینِ حق اسلام اور صراط مستقیم پر قائم ہیں اور جنت کے وہی مستحق ہیں۔


صحابۂ کرام اور اہل بیت اطہار کے زمانے سے تابعین تبع تابعین ، ائمہ مجتہدین اور آج تک فرقے در فرقے ظاہر ہوتے رہے۔ مگر بڑی جماعت وہی ہے جس پر صحابۂ کرام ، اہل بیت اطہار، ائمہ مجتہدین ، غوث و خواجہ اوراولیاء ، صلحاء و علماء رہے ہیں، اور وہ ہے مذہبِ اہلسنت و جماعت ۔ آج بھی یہی بڑی جماعت ہے ۔ تمام فرقے صدی اول کے بعد ظاہر ہوئے اور ان کے بطلان کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ اصل اور بڑے فرقے آٹھ ہیں: معتزلہ-۲۰، شیعہ-۲۲، خوارج- ۲۰، مرجیہ-۵ نجاریہ-۳، جبریہ- ۱، مشبہہ- ۱، ناجیہ-۱۔ یہ تہتر؍۷۳ فرقے ہوئے جن میں بہتر ؍۷۲ ناری ہیں اور ایک ناجی ہے ۔ ایک یعنی سوادِ اعظم اہلسنت۔ شیعہ جو اب روافض ہیں وہ تو پہلی صدی ہجری میں ہی سواد اعظم سے کٹ چکے تھے۔ یہ جو حضرت علی مرتضی ص کو خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں اور ایمان کا سارا مدار صرف ان پر رکھتے ہیں۔ اور معاذاللہ انہیں شیعہ اور شیعیت کا علمبردار کہتے ہیں قطعاً باطل ہے۔ خود مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم کا ارشاد ہے کہ اہلسنت و جماعت ہی حق ہے او روہ بھی اہلسنت و جماعت میں ہیں۔


شیعہ مذہب کی کتاب ’’احتجاج طبرسی‘‘ میں ہے کہ حضرت علی مرتضیٰص ایک دن جب بصرہ میں خطبہ دے رہے تھے تو ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ: ’’اے امیر المومنین! آپ مجھے بتائیں کہ اہلِ جماعت، اہلِ فرقہ، اہلِ بدعت اور اہلِ سنت کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا تعجب ہے تجھ پر اور جب تو نے مجھ سے بات پوچھی ہے تو مجھ سے سمجھ لے اور اس کے بعد تجھ پر لازم نہیں ہے کہ میرے بعد تو یہ بات کسی اور سے دریافت کرے لیکن اہل جماعت میں ہوں اور میرے پیروکار…… اور اہلسنت وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کے احکام اور رسول اللہ ا کی سنت کو مضبوطی سے پکڑنے والے ہیں، جو ان کے لئے مقرر کیا گیا ہے …… اہلِ بدعت وہ ہیں جو اللہ تعالی کی کتاب (قرآن مجید) اور اس کے رسول ا کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اور صرف اپنی رائے اور خواہشات پر عمل کرنے والے ہیں۔‘‘ (عربی سے ترجمہ)

سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے اہل سنت اور اہل جماعت کی مدح اور تعریف ثابت ہوتی ہے او راہلِ بدعت اور اہل فرقہ کی مذمت واضح ہوتی ہے۔ معتزلہ، شیعہ، خوارج، نجاریہ، جبریہ، مشبہہ وغیرہ اپنے عقائدِ باطلہ کے سبب جماعت حقہ سے نکل کر فرقۂ ناریہ میں شامل ہوئے۔ آج کل کے وہابی، دیوبندی، غیر مقلد (اہلحدیث)، اہل قرآن (چکڑالوی)، نیچری، ندوی، قادیانی وغیرہ سب انہیں گمراہ فرقوں کی شاخیں ہیں نیز مودودی جماعت (جماعت اسلامی) و الیاسی جماعت (تبلیغی جماعت) بھی دیوبندیہ کی ذُرّیات ہیں اور سب باطل ہیں۔

یہ سارے کے سارے باطل فرقے خود کو شیعہ کے مقابل میں سنی مسلمان کہتے ہیں۔ لہٰذا بھولے بھالے سنّی مسلمان بھی ان کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔ لیکن یہ احسان ہے، چودہویں صدی ہجری کے مجددِ اسلام اعلیٰحضرت امام احمد رضا بریلوی ص کا جنہوں نے ان گستاخانِ خدا و رسول کے چہروں سے نقاب الٹ کر ان کی بدمذہبی ظاہر کردی اور حرمین شریفین اور دوسرے علماء و مشائخ سے ان کے متعلق فتوے لے کر انہیں مرتد او رکافر ڈکلئیر کرادیا…… اعلیٰحضرت امام احمد رضا نے اصل اسلامی عقائد پیش کئے جو صحابۂ کرام سے لیکر آج تک کے صالحین کے عقائد ہیں اور اسی مسلک کو ’’مسلک ِاعلیٰحضرت‘‘ سے پکارا جارہا ہے تا کہ بدمذہب خود کو سنی کہہ کر سنی مسلمانوں کو اپنے جال میں نہ پھانس سکیں۔ یہ مسلکِ اعلیٰحضرت ہی دراصل مسلک ِاہل سنت و جماعت ہے۔ یہی صحیح مذہب ہے اور یہی حق ہے۔


اعلیٰحضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ


ولادت : ۱۰؍ شوال المکرم ۱۲۷۲؁ھ مطابق ۱۴؍ جون ۱۸۵۶؁ء، بریلی شریف۔وصال: ۲۵؍ صفرالمظفر ۱۳۴۰؁ھ مطابق ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۲۱؁ء

اعلیٰحضرت امام احمد رضا ص جیسی عظیم علمی شخصیت اور عاشقِ رسول کئی صدیوں میں نظر نہیںآتے۔ آپ ۷۰؍ دینی و دنیاوی (نقلی اورعقلی) علوم و فنون پر حاوی تھے۔ ملاحظہ فرمائیں۔

(۱) فقہ Jurisprudence (۲) اصولِ فقہ Principle of Jurisprudence (۳) لغتِ فقہ Lexicas of Jurisprudence (۴) تفسیرExcegesis (۵) اصولِ تفسیر Princeple of Excegesis (۶) حدیث Hadith (۷) اصولِ حدیث Principle of Hadith (۸) لغتِ حدیث Lexicus of Hadith (۹) جرح و تعدیل Critical Examination of Hadith (۱۰) علمِ اسماء الرجال Ency clohaedha of Narrators of Hadith (۱۱) دینیات Theology (۱۲) اسلامیات Islameology (۱۳) فلسفہ Philosophy (۱۴) منطق (۱۵) علم الاخلاق Ethichs (۱۶) لسانیات Languaestic (۱۷) فونیات Phonetics (۱۸) علمِ مناظرہ Draletic (۱۹) علم القرآن Knowledge of the Quraan (۲۰) قرأۃ و تجوید Recitation of the Quraan

with Correct Pronounciation (۲۱) عروض Prosody (۲۲) صرف و نحو Accidence & Syntax (۲۳) ہندی شاعری Hindi Poetry (۲۴) اردو شاعری Urdu Poetry (۲۵) فارسی شاعری Percian Poetry (۲۶) عربی شاعری Arabic Poetry (۲۷) عربی نثر Arabic Prose (۲۸) فارسی نثر Percian Prose (۲۹) اُردو نثر Urdu Prose (۳۰) تنقیدات، لغت، ادب Criticism, Lexican, Style etc. (۳۱) خط نسخ Usal form of Arabic Script (۳۲) خط نستعلیق Percian Caligraphy (۳۳) تصوف Mysticism (۳۴) مابعد الطبیعات Meta Physics (۳۵) علم جفر Leterology & Numerology (۳۶) تکسیر Carryeingthefigures (۳۷) اوراد و وظائف وغیرہ Incantation & Invocation (۳۸) توقیت Timings (۳۹) نجوم Astrology (۴۰) ہیئت Astronomy (۴۱) زایرجہ Horoscolism (۴۲) نفسیات Pcychology (۴۳) سیاست Political Science (۴۴) عمرانیات Sociology (۴۵) سیر و تاریخ Biography & History (۴۶) Chronogram (۴۷) جغرافیہ Geography (۴۸) معاشیات Economics (۴۹) علم تجارت Commerce (۵۰) بینک کاری Banking (۵۰)ارثماطبقی Arithmetic (۵۱) ہندسہ Eucledian Geometry (۵۲) ابتدائی الجبرا Simple Algebra (۵۳) جدید اور ہائر الجبرا Modern & Higher Algebra Setheory & Topology (۵۴) مثلث مسطح Plane Tegonometry (۵۵) مثلث کروی Spherical Tegnometry (۵۶)علم Education (۵۷) حساب سمینی Hisab-e-Sateni (۵۸) شماریات Statistics (۵۹) حرکیات Dynamic (۶۰) آبی حرکیات Hydro Dynamic (۶۱) سکونیات Statics (۶۲) آبی سکونیات Hydro Statics (۶۳) حیاتیات Zoology (۶۴) نباتات Botany (۶۵) علم زراعت اور باغبانی Hartienline (،چشتی۶۶) ارضیات Geology (۶۷) طبیعات Physics (۶۸) نامیاتی کیمیاءOrganic Chemistry (۶۹) غیر نامیاتی کیمیاء Inorganic Chemistry (۷۰) طبیعاتی کیمیاء Physical Chemistry (۷۱) طب یونانی Unani Medicine وغیرہ۔


اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ نے ایک ہزار سے زائد کتابیں مندرجہ بالا علوم و فنون میں لکھیں ۔ آپ کے دینی و تجدیدی کارناموں کی وجہ سے حرمین طیبین نیز دیگر بلادِ اسلامیہ کے علماء و مشائخ نے ۱۴؍ ویں صدی ہجری کا مجدِد تسلیم کیا۔ نیز آپ کو بڑے بڑے القاب سے یاد کرنے لگے۔ مولوی اسمٰعیل دہلوی، مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی خلیل احمد انبیٹھوی، مولوی قاسم نانوتوی، مرزا غلام احمد قادیانی، ندویہ، نیچریہ وغیرہ کے عقائد باطلہ اور کلمات کفر سے زمانہ واقف ہے۔ یہاں مختصر ا ً انہیں پیش کیا جارہا ہے۔

مولوی اسمٰعیل دہلوی نے حضورا کا مرتبہ بڑے بھائی کے برابر قرار دیا، بے اختیار کہا، مر کر مٹی میں مل جانیو الا بتایا، ان کے علم غیب کا انکار کیا۔ اللہ تعالی اور فرشتوں کی شان میں گستاخیاں کیں۔ (دیکھئے اسمٰعیل دہلوی کی کتاب، تقویۃ الایمان، صراط مستقیم اور ایک روزی وغیرہ)۔ اعلیٰحضرت نے خصوصیت کے ساتھ اس کے رد میں ’’الکوکبۃ الشہابیہ فی کفریات ابی الوہابیہ‘‘ نامی کتاب لکھی او راس پر ۷۰؍ وجوہ سے لزوم کفر ثابت کیا۔


دیوبند کے عناصر اربعہ


(۱) مولوی رشید احمد گنگوہی نے اللہ کو جھوٹ پر قادر بتایا، میلاد شریف ، ذکر شہادت، عرس سبیل وغیرہ کو شرک و بدعت قرار دیا۔ وغیرہ (فتاویٰ رشیدیہ)

(۲) مولوی قاسم نانوتوی نے حضورا کی خاتمیت کا انکار کیا۔ (تحذیرالناس)

(۳) مولوی اشرفعلی تھانوی نے حضور ا کے علم غیب کو پاگلوں ، بچوں اور جانوروں کے علم کے برابر بتایا۔ (حفظ الایمان)

(۴) مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے اللہ کے جھوٹ کی تائید کی وغیرہ (براہین قاطعہ)

(۵) مرزا غلام احمد قادیانی نے حضور کی خاتمیت کا انکار کرتے ہوئے خود کو نبی اور مسیح موعود کہا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں گستاخی کی۔

اعلیٰحضرت امام احمد رضا نے ان کے رد میں مندرجہ ذیل کتب خاص طور سے تحریر کیں۔ سبحٰن السبوح، اخباریہ کی خبرگیری، اقامۃ القیامۃ، منیرالعین، المعتمد المستند، انوارالانتباہ، تمہیدِ ایمان، الدولۃ المکیۃ وغیرہ۔ نیز ردّ ِقادیانی میں قہر الدّیان، السوء والعقاب، ختم النبوۃ وغیرہ۔ اورندویہ کے رد میں آپ نے فتاویٰ الحرمین، فتاویٰ القدوہ، بارشِ بہاری وغیرہ۔ اور اہلحدیث، تقلید کے قائل نہیں ہیں اس لئے ان کے رد میں اعلیٰحضرت امام احمد رضا نے ہدی الحیران، الامن والعلی وغیرہ کتابیں تصنیف کیں۔ نیچریت کے بانی سرسید احمد نے معجزہ کا انکار کیا، اللہ کی معرفت کے لئے بجائے قرآن و حدیث کے صرف عقل کو کافی قرار دیا۔ وغیرہ

اعلیٰحضرت امام احمد رضا کے پیش کردہ عقائد حسب ذیل ہیں۔

۱۔ اللہ بے نیاز ہے، ہر عیب و خطا، جسم و جسمانیت، مکان و زمان وغیرہ سے پاک ہے۔

۲۔ حضور ا اللہ کے نور اور ایجاد ِعالم کے مادہ ہیں۔

۳۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سارے نبیوں اور رسولوں کے سردار اور خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں۔

۴۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آج بھی حیات ہیں، حاضر و ناظر ہیں۔

۵۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ نے علم غیب عطا کیا تھا۔

۶۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی معراج جسمانی تھی۔

۷۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مختار دو عالم ہیں۔

۸۔ نداء اور وسیلہ جائز ہے۔

۹۔ میلاد پاک ، عرس، نذر و نیاز و فاتحہ جائز ہیں۔

۱۰۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شافعِ محشر ہیں۔ وغیرہ

مندرجہ بالا عقائد کی توضیح و تشریح میں اعلیٰحضرت امام  احمد رضا علیہ الرحمہ نے حسب ذیل کتابیں لکھیں۔ سبحٰن السبوح، الفرق الوجیز، فتاویٰ رضویہ جلد اول، قمر التمام، اسماع الاربعین، تمہیدِ ایمان، الدولۃ المکیۃ، برکات الامداد، تجلی الیقین، الامن والعلی اور متعدد کتب و رسائل لکھے۔


اکابرینِ دیوبند اور قادیانی کی تکفیر


اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ نے ان غدّارانِ اسلام سے اتمام حجت کے بعد حضرت علاّمہ فضلِ رسول بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ’’المعتقد المنتقد‘‘ پر تعلیقات و حواشی کا اضافہ فرماکر تاریخی نام ’’المعتمد المستند بناء نجاۃ الابد‘‘ (۱۲۲۰ھ/ ۱۹۰۲ء) رکھا او راس میں تھانوی، گنگوہی، انبیٹھوی، نانوتوی او رقادیانی کی عبارتوں کو پیش فرما کر ۲۱؍ ذی الحجہ ۱۳۲۳؁ھ کو حرمین شریفین اور دیگر بلادِ اسلامیہ کے علماء و مشائخ کے سامنے پیش کیا۔ ان حضرات نے ان پانچوں پر کفر و ارتداد کا فتویٰ دیا۔ اعلیٰحضرت نے اسے ’’حسام الحرمین علی منحرالکفر والمین‘‘ کے نام سے شائع فرمایا۔ بعد میں ہند و پاک کے مفتیانِ کرام نے بھی اس کی تصدیق کی اور کتاب ’’الصوارم الہندیۃ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اعلیٰحضرت کے تجدیدی کارناموں میں یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے۔


مسلکِ اعلٰیحضرت مسلکِ اہلسنت ہے


مسلکِ اعلیٰحضرت،صحابۂ کرام ، اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبعِ تابعین، ائمہ مجتہدین، صلحاء، اولیاء اور علماء علیہم الرحمہ کا مسلک ہے۔ اعلیٰحضرت کے پیش کردہ عقائد قرآن و سنت اور اخبار و آثار سے ظاہر ہیں۔

تصدیق کے لئے مندرجہ ذیل کتب دیکھ سکتے ہیں۔ انباء الاذکیاء، الخصائص الکبریٰ، مواہب الدنیۃ، حیات الانبیاء، القول البدیع، شرح الشفاء، اشعۃ اللّمعات، فیوض الحرمین وغیرہ۔

مزید معلومات کے لئے مفتی جلال الدّین احمد امجدی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’بزرگوں کے عقیدے‘‘ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کے رد کے لئے علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی تصانیف ملاحظہ فرمائیں۔

۱۔ حضرت سید العلماء علامہ مولانا سید آلِ مصطفیٰ سید میاں قبلہ مارہروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎

یا الٰہی مسلکِ احمد رضا خاں زندہ باد

حفظ ِناموسِ رسالت کا جو ذمہ دار ہے

(ماہنامہ المیزان، ممبئی۔ امام احمد رضا نمبر ۲۳۷،چشتی)

۲۔ امین ملت سیدی سرکار امین میاں مارہروی قبلہ تحریر فرماتے ہیں:’’نوری دادا میرے مرشد برحق تاج العلماء سید شاہ اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی صاور عم محترم حضور سید العلماء نے اپنی پوری زندگی مسلکِ اعلیٰحضرت کی اشاعت کے لئے وقف فرمادی۔ خاندانِ برکاتیہ کا بچہّ بچہّ اعلیٰحضرت کا شیدائی ہے۔ ہماری نِجی مجالس ہوں یا عوامی جلسے ہر جگہ مسلکِ اعلیٰحضرت کی تبلیغ و اشاعت ہی ہم لوگوں کا نصب العین اور مطمحِ نظر ہوا کرتا ہے۔‘‘(ماہنامہ المیزان، ممبئی۔ امام احمد رضا نمبر ۲۷۳،چشتی)

شیخ المشا ئخ سید ناعلی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت:

آپ فرمایا کرتے تھے کہ میرا مسلک شریعت و طریقت میں وہی ہے، جو حضور پر نُور اعلیٰحضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے لہذا میرے مسلک پر مضبوطی سے قائم رہنے کے لئے سیدنا اعلیٰحضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصانیف ضرور زیر مطالعہ رکھو۔‘‘(مجدد اسلام از مولانا نسیم بستوی، ص ۳۴)

حضور قبلہ اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مسلک کو ’’مسلکِ  اعلٰٰیٰحضرت سے منسوب کیا یعنی یہی مسلک ِاہل سنت اور مذہبِ حق ہے۔

حضرت صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں۔

’’سنی وہ ہے جو ’’ما انا علیہ واصحابی‘‘ کا مصداق ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ائمہ دین، خلفائے راشدین، مسلم مشائخِ طریقت اور متأخرین علما ء کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، حضرت ملک العلماء ،بحرالعلوم فرنگی محلّی، حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رام پوری اور حضرت مولانا مفتی شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی کے مسلک پر ہوں۔رحمہم اللہ تعالیٰ‘‘۔ (ماہنامہ عرفات، خصوصی نمبر، لاہور، ص۳۷۲)

گویا حضرت صدرالافاضل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مسلکِ اہلِ سنت کو ’’مسلکِ اعلیٰحضرت‘‘ سے منسوب کیا۔

(۵) حافظِ بخاری حضرت علامہ، مولانا سید شاہ عبدالصمد سہسوانی علیہ الرحمہ کے خلف گرامی قدر اور جانشین حضرت علامہ ،مولانا سید شاہ مصباح الحسن علیہ الرحمہ (پھُپھوَند شریف) نے اپنی وصیت میں یہ بھی فرمایا:

’’مذہب حق اہلِ سنت جس کا معیار اس زمانہ میں حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحبصبریلوی کی تصانیف ہیں۔ یہی مسلک میرے حضرت قبلہ عالم (حضرت حافظ بخاری) کا تھا اور یہی مسلک حضرت پیرانِ عظام ِسلسلہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا تھا اور اسی کا میں پابند ہوں۔ اس کی حمایت میں کسی مخالف کی پرواہ نہیں کرنا چاہئے اور پابندی مذہب کے لئے ’’الحب فی اللہ والبغض فی اللہ‘‘ کا پابند رہنا چاہئے اس سے ہٹنا بدمذہبی ہے جس کی گنجائش نہ میں اپنے جانشینوں کا دیتا ہوں اور نہ متوسلین کو ‘‘ ۔ (ملفوظ مصاہیب القلوب مُرَتبہٗ جناب ظہی السجاد صاحب ۳۱۸)

حضرت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلکِ اعلیٰحضرت کہنا درست ہے۔‘‘ ’’جو لوگ سنی ہونے کے باوجود مسلکِ اعلیٰحضرت کہنے پر اعتراض کرتے ہیں وہ اعلیٰحضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان کے حسد میں مبتلا ہیں اور حسد حرام و گناہ کبیرہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ حسد، حاسدوں کی نیکیوں کواس طرح جلاتاہے جیسے آگ لکڑی کو جلاتی ہے۔(سنن ابوداؤد شریف، جلد۲، ص۳۱۶،چشتی)

یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ مسلک اہل سنت اور مسلک حنفی کہنا کافی ہے اس لئے کہ دیوبندی اور مودودی بھی مسلک اہلسنت اور مسلک حنفی کے دعویدار ہیں تو دیوبندی مسلک اور مودودی مسلک سے امتیاز کے لئے موجودہ زمانہ میں مسلکِ اعلیٰحضرت بولنا ضروری ہے یعنی مسلکِ اعلیٰحضرت،دیوبندی اور مودودی مسلک سے امتیاز کے لئے بولا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو مسلک اہلسنت اور مسلک حنفی کا ماننے والا بتائے اور یہ نہ کہے کہ میں مسلک ِاعلیٰحضرت کا پابند ہوں ظاہر نہیں ہوگا کہ وہ سنی ہے یا بدمذہب۔ لہٰذا مذہبِ حق اہلسنت و جماعت سے ہونے کو ظاہر کرنے کے لئے اس زمانہ میں مسلکِ اعلیٰحضرت سے ہونے کو بتانا ضروری ہوگیا ہے۔ اس پر اعتراض کرنے والے کو خدائے تعالیٰ صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!

(شائع کردہ: مرکز تربیت افتاء، دارالعلوم امجدیہ اہلسنت ارشد العلوم اوجھا گنج، ضلع بستی، یوپی)

آج اعلیٰحضرت کا نام حق و باطل کے درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے۔ اعلیٰحضرت اور ان کا نام سنت کی علامت ہے اور ان سے بغض بدعتی  کی پہچان ہے۔

حضرت مفتی سعد اللہ مکی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

’’نحن نعرفہ بتصنیفاتہ و تالیفاتہ حبّہ علامۃ السنۃ و بغضۃ علامۃ البدعۃ‘‘ یعنی ہم لوگ فاضل بریلوی کو ان کی تصنیفات و تالیفات سے جانتے ہیں۔ انکی محبت سنت کی علامت ہے اور بغض بدعتی کی پہچان۔‘‘

عصر حاضر کے وہابی دیوبندی وغیرہ اپنی بدمذہبی کو چھپانے کے لئے مسلک اہلسنت، مسلک حق، مسلک اعلیٰحضرت کو ’’بریلویت‘‘ کہہ کر مطعون کرتے ہیں لیکن خود ان کے اپنے ہی اس کی تردید کرتے ہیں۔

۱) ماہنامہ الحسنات رام پور: یہ خیال درست نہیں ہے کہ احمد رضا خاں نے دین اسلام میں ایک نئے فرقے کی بنیاد ڈالی ہے البتہ یہ درست ہے کہ علماء کی اس جماعت کو عرف عام میں امام احمد رضا خان بریلوی سے عقیدت کی بنا پر بریلوی کہا جاتا ہے اور دوسرے احناف سے بعض مسائل میں اختلاف کی بناء پر الگ تشخص قائم ہوگیا۔‘‘ (شخصیات نمبر: سالنامہ، ص۵۵، ۱۹۷۶؁۔ء)

۲) احسان الٰہی ظہیر مصنف البریلویہ: ’’یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔‘‘ (البریلویہ، صفحہ ۷)

جماعت اہلسنت کے ممتاز عالم دین اور پیر طریقت حضرت علامہ مولانا سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی قبلہ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’غور فرمایئے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، ازاول تا آخر مقلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اوراجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی نیز سلف صالحین و ائمہ مجہتدین کے ارشادات اور مسلک اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی سبیل مومنین صالحین سے نہیں ہٹے۔

اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہلایا گیا تو کیا بریلویت و سنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے آغاز سے پہلے ہی تسلیم نہیںکرلیا گیا؟‘‘ (تقدیم: دور حاضر میں بریلوی اہلسنت کا علامتی نشان، صفحہ ۱۱،چشتی)

بقول شیخ الاسلام مدنی میاں صاحب قبلہ سنیت متعارف ہے بریلویت سے اور یہی ’’مسلکِ اعلیٰحضرت‘‘ ہے یعنی مسلک اہل سنت و جماعت (سنی مذہب)۔

اب کوئی حنفی ہو یا شافعی، مالکی ہو یا حنبلی۔ سب کا عقیدہ،عقدۂ اہلسنت ہے اور جو سنی نہیں ہے یعنی مسلک ِاعلیٰحضرت کا پیرو نہیں ہے، وہ لاکھ بہلاوا دے کہ وہ حنفی المذہب ہے یا حنبلی المذہب وغیرہ مشربی اعتبار سے وہ قادری ہے یا چشتی یا سہروردی یا نقشبندی ،ان سب سے پہلے وہ مسلکِ اعلیٰحضرت کا پیرو ہے یا نہیں ۔ آیا اس کے عقائد، اعلیٰحضرت امام احمد رضا خاں کے پیش کردہ عقائد کے مطابق ہیں یا نہیں؟ اگر اس کے عقائد اعلیٰحضرت کے پیش کردہ عقائد کے مطابق ہیں تو بیشک وہ سُنّی ہے اور پھر حنفی، حنبلی، مالکی۔۔۔۔۔۔ یا قادری، چشتی، سہروردی، نقش بندی کوئی بھی ہو ہمارا اپنا ہے۔

الحمداللہ ! آج پوری دنیا کے مسلمانوں میں ۷۵؍ فیصد مسلمان مسلکِ اعلیٰحضرت ہی کے ماننے والے ہیں یعنی سنی ہیں اور اہلسنت ہی سوادِ اعظم ہے ۔ (مزید حصہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔