Sunday 20 February 2022

امام حسن و امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کی صلح و شرائط صلح حصّہ دوم

0 comments

امام حسن و امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کی صلح و شرائط صلح حصّہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : صلح امام حسن و معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی عظمت و مغفرت اور صلح امام حسن اور حضرت معاویہ کے بارے میں امام اہلسنت مجدد دین و ملت محدث ہند فاضل بریلوی الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فتویٰ رضویہ میں متعدد مقامات پر تحقیق پیش کی ہے ان میں سے مختلف اقتباسات پیش خدمت ہیں : ⬇

مگر فضل صحبت و شرف صحابیت سعادت خدائی دین ہے جس سے مسلمان آنکھ بند نہیں کرسکتے تو ان پر لعن طعن یا ان کی توہین تنقیص کیسے گوارہ رکھیں اور کیسے سمجھ لیں کہ مولا علی کے مقابلے میں انہوں نے جو کچھ کیا بربنائے نفسانیت تھا صاحب ایمان مسلمان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی ہاں ایک بات کہتے ہیں اور ایمان لگی کہتے ہیں ہم تو بحمد اللہ سرکار اہل بیت کرام علیہم الرضوان کے غلامان زاد ہیں اور موروثی خدمت گار ہیں ہمیں امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا رشتہ خدانخواستہ ان کی حمایت بے جاکریں مگر ہاں اپنی سرکار کی طرفداری اور امر حق میں ان کی حمایت و پاسداری اور ان کی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خصوصاً الزام بدگویاں اور دریدہ دہنوں بدزبانوں کی تہمتوں سے بری رکھنا منظور ہے کہ ہمارے شہزادہ اکبر حضرت سبط اکبر حسن مجتبٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسبِ بشارت اپنے جدِ امجد سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اختتام مدت خلافت راشدہ کو منہاج نبوت پر تیس سال رہی اور سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو چھ ماہ مدت خلافت پر ختم ہوئی عین معرکہ جنگ میں ایک فوج جرار کی ہمراہی کے باوجود ہتھیار رکھ دیئے بالمقصد والا اختیار اور ملک اور امور مسلمین کا انتظام و انصرام امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سپرد کردیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت فرما لی اگر امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ العیاذباللہ کافر یا فاسق ہوتے یا ظالم جائر ہوتے تو الزام امام حسن پر آتا ہے کیونکہ انہوں نے کاروبار مسلمین و انتظام شرع و دین باختیار خود بلا جبر واحد واکرہ بلا ضرورت شرعیہ باوجود مقصد ایسے شخص کو تفویض فرمایا اور اس کی تحویل میں دے دیا اور خیر خواہی اسلام کو معاذاللہ کام نہ فرمایا اس سے ہاتھ اٹھا لیا گیا اگر مدت خلاقت ختم ہوچکی تھی اور آپ خود بادشاہت منظور نہیں فرماتے تھے تو صحابہ حجاز میں کوئی اور قابل نظم و نسق دین نہ رکھتا تھا جو انہیں اختیار کیا اور انہیں کے ہاتھ پر بیعت اطاعت کرلی حاش باللہ بلکہ یہ بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی پیش گوئی میں ان کے اس فعل کو پسند فرمایا اور ان کی سیادت کا نتیجہ ٹھہرایا کما فی صحیح البخاری جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے
صادق و مصدق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسن رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا : میرا بیٹا یہ سردار ہے سیادت کا علمبردار ہے میں امید کرتا ہوں کہ اللہ عزوجل اس کے باعث دو بڑے گروہ اسلام میں صلح کرادو۔ (صحيح بخاری ج1ص373رقم530،چشتی)
آیت کریمہ کا ارشاد ہے
ونزعنامافی صدورھمہ من غل
اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ لیے ۔ (سورۃ نمبر 7آیت43)
جو دنیا میں ان کے درمیان تھے اور طبیعتوں میں جو کدورت و کشیدگی تھی اسے رفق و الفت سے بدل دیا اور ان میں آپس میں نہ رہی باقی مگر مودت و محبت انتھی ۔ (فتاویٰ رضویہ 29 278)

بے شک امام مجتبٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت سپرد فرمائی تھی اور اس سے صلح و بندش جنگ مقصود تھی اور یہ صلح و تفویض خلافت اللہ و رسول کی پسند سے ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسن کو گود میں لے کر فرمایا تھا میرا بیٹا سید ہے میں امید کرتا ہوں کہ اللہ اس کے سبب سے مسلمانوں کے دو بڑے گرہوں میں صلح کرواے گا ۔ (صحيح بخاری کتاب المناقب الحسن والحسین 1 530)
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اگر خلافت کے اہل نہ ہوتے تو امام مجتبٰی ہرگز انہیں تفویض نہ فرماتے اور نہ اللہ و رسول اسے جائز رکھتے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف ج29ورقہ337)

حدیث امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اجلہ صحابہ میں سے ہیں صحیح ترمزی شریف میں حدیث پاک موجود ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نے ارشاد فرمایا اے اللہ اے راہ نما راہ یاب کر اور اس کے زریعے سے لوگوں کو ہدایت دے ۔ (جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب امیر معاویہ اب 225 سفیان امین کمپنی جلد 2 صفحہ 225،چشتی)
(اور یہ حدیث صحیح ہے کئ طرق سے یہ روایت بہت ساری کتابوں میں ملتی ہے)
صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی صحابی کو کافر بے دین نہ کہے گا مگر کافر بے دین یاگمراہ بددین عزیز جبار و واحد قہار جل وعلاہ نے صحابہ کرام کو دو قسم کیا ایک وہ کہ قبل فتح مکہ جنہوں نے راہ خدا میں خرچ و قتال کیا دوسرے وہ جنہوں نے بعد فتح مکہ پھر فرمادیا کہ دونوں فریق سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا ارادہ فرما دیا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو تمھارے کاموں کی خوب خبر ہے کہ تم کیا کیا کرنے والے ہو بایں ہمہ اس نے تم سب سے حسنی کا وعدہ فرمایا یہاں قرآن عظیم نے ان دریدہ دہندوں بیباکوں بے ادب ناپاک کے منہ میں پتھر دے دیا جو صحابہ کرام علیہم الرضوان کے افعال سے اُن پر طعن چاہتے ہیں وہ بشریت صحت اللہ عزوجل کو معلوم تھے پھر بھی ان سے حسنیٰ کا وعدہ فرمایا تو اب جو معترض ہے اللہ واحد قہار پر معترض ہے جنت و مدارج عالیہ اس معترض عالیہ اس معترض کے ہاتھ می نہیں اللہ عزوجل کے ہاتھ ہیں معترض اپنا سر کھاتا رہے گا اور اللہ نے جو حسنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے ضرور پورا فرمائے گا اور معترض جہنم میں سزا پاۓ گا
وہ آیۃ کریمہ یہ ہے
اے محبوب کے صحابیو تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ و قتال کیا وہ رُتبے میں بعد والوں سے بڑے ہیں اور دنوں فریق سے اللہ نے حسنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرنے والے ہو
(القرآن الکریم 57 10)
اب جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے وعدہ حسنیٰ لیا ہے ان کا حال بھی قرآن عظیم سے سنیے ۔ بیشک جن کے لیے ہمارا بھلائی کا وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ وہ اس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے اور وہ اپنی دل پسند نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔(القرآن الکریم 21 102 103)
یہ ہے جمیع صحابہ کرام علیہم الرضوان کے لئیے قرآن کریم کی شہادت امیر المومنین مولی المسلمین علی المرتضیٰ مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم قسم اول میں ہیں جن کو فرمایا اولیک اعظمہ درجۃ ۔ (القرآن الکریم 57 10)
اُن کے مرتبے قسم دوم والوں سے بڑے ہیں اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قسم دوم میں ہیں اور حسنی کا وعدہ اور یہ تمام بشارتیں سب کو شامل و لہزا امیر المومنین مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے ابن عساکر کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے اصحاب سے لغزش ہوگی جسے اللہ عزوجل معاف فرمائے گا اُس سابقہ کے سبب جو اُن کو میری بارگاہ میں ہے پھر اُن کے بعد کچھ لوگ آئیں گے کہ انہیں اللہ تعالیٰ ان کے منہ کے بل جہنم میں اوندھا کرے گا ۔ (المعجم الاوسط ج4ورقہ142حدیث3243مکتبتہ الریاض)(مجمع الزوائد،چشتی)
یہ ہیں وہ صحابہ کہ صحابہ کی لغزشوں پر گرفت کریں گے
علامہ شہاب خفاجی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب نسیم الریاض شرح شفا امام قاضی عہاض میں فرمایا : جو امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (نسیم الریاض الباب الثالث مرکز اہلسنت گجرات الہند جلد 3 صفحہ 430،چشتی)
اور اللہ تعالیٰ سچ فرماتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے ۔ (فتویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 279)

سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں ان کی شان میں گستاخی نہ کرے گا مگر رافضی جس کتاب میں ایسی باتیں ہوں اس کا پڑھنا سننا مسلمانوں پر حرام ہے اسے مسئلہ میں کتابوں کے حوالے کی کیا حاجت اہلسنت کے مسنون عقائد میں تصریح ہے ۔ صحابہ سب کے سب اہل خیرو عدالت ہیں ان کا ذکر نہ کریں گے مگر بھلائی سے ۔ اگر کوئی شخص اہلسنت کی کتابوں کو نہ مانے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو نہ مانے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں
بہت لوگ وہ ہیں کہ اسلام لائے مگر عمرو بن العاص ان میں ہیں جو ایمان لائے ۔ (جامع الترمذی مناقب عمرو بن العاص حدیث 3870دار الفکر بیروت ج
5ص456)
باقی آپ اوپر صحابہ کرام علیہم الرضوان کے متعلق احادیث و قرآن پڑھ آئے ہیں جس سے یہ بات روز عیاں کی طرح روشن ہے کہ تمام صحابہ کرام جنتی ہیں

اہلسنت کے عقیدہ میں تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعظیم فرض ہے اور ان میں سے کسی پر بھی طعن کرنا حرام ہے اور انکے مشاجرات میں خوض ممنوع
حدیث پاک میں ارشاد ہے
اذا ذکر الصحابی فامسکوا
جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے رُک جاؤ ۔ (المعجم الکبیر حدیث 1427)
اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ جب صحابہ کرام علیہم الرضوان کا ذکر آئے تو خیر ہی سے کریں اور ان کے جو آپس میں معملات ہوے ان سے باز رہیں اور ان کا معاملہ اللہ عزوجل پر چھوڑ دیں اسی میں ہماری بھلائی ہے ۔

اللہ عزوجل سورہ حدید میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی دو قسمیں فرمائیں ایک وہ کہ فتح مکہ سے قبل ایمان لائے ہوئے اور راہ خدا میں مال خرچ کیا دوسرے وہ کہ بعد کے پھر فرمایا
وکلا اللہ وعدہ اللہ حسنا ۔ (القرآن 57 10)
دونوں فریق سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا اور جن سے بھلائی کا ارادہ فرمایا ان کو فرماتا ہے اولیک عنھا مبعدون وہ جہنم سے دور رکھے گئے لا یسمعون حسیسھا اس کی بھنک تک نہ سنیں گے اس کی بھنک تک نہ سنیں گے وَھُمْہ فِی اشْتَھَتْ. اَنْفُسُھُمْہ خَالِدُونَ °لاَ یَحْزُنُھُمُہ الْفَزَعُ. الْاَکْبَرُ اور وہ اپنی من مانتی خواہشوں میں ہمیشہ رہیں گے قیامت کی سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی وَ تَتَلَقَّاھُمُ الْمَلَایِکَةُ اُن کا استقبال کریں گے ھٰذَا یَوْمُکُمُہ الَّزِیکُنْتُمْہ تُوعَدُونَ ۔ (القرآن الکریم 21 101)
یہ کہتے ہیں کہ یہ تمھارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ تھا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہر صحابی کی یہ شان اللہ عزوجل بتاتا ہے تو جو کسی صحابی پر طعن کرے اللہ واحد قہار کو جھٹلاتا ہے اور ان کے بعض معاملات جن میں اکثر حکایات کا ذبہ ہیں ارشاد الہی کے مقابل پیش کرنا اہل اسلام کا کام نہیں رب عزوجل نے اُسی آیت میں اس کا منہ بھی بند فرما دیا کہ دنوں فریق صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بھلائی کا وعدہ کرکے ساتھ ہی ارشاد فرمایا واللہ بما تعلمون خبیر ۔ (قرآن مجید 57 10)
اور اللہ تعالیٰ کو خوب خبر ہے جو کچھ تم کرو گے بااینہیہ میں تم سب بھلائی پر ہو اور تم سے وعدہ فرما چکا ہے ۔
اس کے بعد کوئی بکے اپنا سر کھاے خود جہنم جائے ۔

صحیح ترمزی شریف میں موجود ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے اللہ معاویہ راہ نما راہ یاب کر اور اس کے زریعے سے لوگوں کو ہدایت دے ۔ (جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب معاویہ بن ابی سفیان امین کمپنی دہلی جلد 2 صفحہ 225،چشتی)
اس لیے جو بھی کسی صحابی کو کافر و بے دین کہے گا وہ خود گمراہ بے دین گمراہ ہے ۔

روافض کا قول کذب ہے عقائد نامہ میں خطا و منکر بود نہیں ہے بلکہ خطائے منکر وبود اہل سنت کے نزدیک امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خطا خطاء اجتہادی تھی اجتہاد پر طعن جائز نہیں خطاء اجتہادی دو قسم ہے مقرر ومنکر. مقرر وہ جس کے صاحب کو اُس پر برقرار رکھا جائے گا اور اس سے تعرض نہ کیا جائے گا جیسے حنفیہ کے نزدیک شافعی المزہب مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا اور منکر وہ جس پر انکار کیا جائے گا جب کہ اس کے سبب کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہے جیسے اجلہ اصحاب جمل رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کہ قطعی جنتی ہیں اور ان کی خطاء یقیناً اجتہادی جس میں کسی نام سنیت لینے والے کو محل لب کشائی نہیں بااینہیہ اس پر انکار لازم تھا جیسا امیر المومنین مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کیا باقی مشاجرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں مداخلت حرام ہے
حدیث پاک میں موجود ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر آئے تو زبان روکو ۔ (العجم الکبیر حدیث 1427)
دوسری حدیث فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم : قریب ہے کہ میرے صحابہ سے کچھ لغزش ہوگی جسے اللہ بخش دے گا اُس سابقہ کے سبب جو ان کو میری سرکار میں ہے پھر ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جن کو اللہ جہنم کے بل اوندھا کردے گا یہ وہ ہیں جو اُن لغزشوں کے سبب صحابہ پر طعن کریں گے اللہ عزوجل نے تمام صحابہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن عظیم میں دو قسم کیا ۔
مومنین قبل فتح مکہ و مومنین بعد اول کو دوم پر تفضیل دی اور صاف فرمایا ۔ وکلا وعدہ اللہ الحسنا سورت 57.آیت 10
سب سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا اور ساتھ ہی ان کے افعال کی تفتیش کرنے والوں کا منہ بند کردیا واللہ بما تعملون خبیر 57 10
اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرنے والے ہو باینہہ وہ تم سے سے بھلائی کا وعدہ فرما چکا ہے پھر دوسرا کون ہے کہ ان میں سے کسی کی بات پر طعن کرے واللہ الہادی واللہ اعلم
بے شک امام حسن رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت سپرد فرمائی اور اس سے صلح و بندش جنگ مقصود تھی اور یہ صلح و تفویض خلافت اللہ و رسول کی پسند سے ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن کو گود میں لے کر فرمایا تھا
میرا بیٹا یہ سردار ہے میں امید کرتا ہوں کہ اللہ اس کے سبب سے مسلمانوں کے دو بڑے گرہوں میں صلح کرا دے گا
امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر خلافت کے اہل نہ ہوتے تو امام مجتبٰی ہرگز انہیں تفویضِ خلافت نہ فرماتے ۔ نہ اللہ و رسول اسے جائز رکھتے ۔ (فتاویٰ رضویہ 29 337)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باب میں یہ یاد رکھنا چاہیے وہ ک حضرات انبیاء علیہم السلام نہ تھے اور نہ ہی فرشتے کہ معصوم ہوں ان سے بعض حضرات سے لغزشیں صادر ہوئیں مگر ان کو کسی بات پر گرفت اللہ و رسول کے احکام کے خلاف ہے اللہ عزوجل سورہ حدید میں صحابہ کرام کی دو قسمیں فرمائیں
من انفق من قبل الفتح وقٰتل
الزین انفقوا من بعد وقاتلو 57 آیت 10
یعنی یہ کہ قبل فتح مکہ مشرف بایمان ہوئے راہ خدا میں مال خرچ کیا اور جہاد کیا جب کہ ان کی تعداد بھی کرکے اور اپنی جانوں کو خطروں میں ڈال کر بے دریغ اپنا سرمایہ اسلام کی خدمت کی نزر کردیا یہ حضرات مہاجرین و انصار میں سے سابقین و اولین ہیں ان کے مراتب کیا پوچھنا
دوسرے کہ وہ بعد فتح مکہ ایمان لائے راہ مولا میں خرچ کیا اور جہاد کیا اور جہاد میں حصہ لیا ان اہل ایمان نے اس اخلاص کا ثبوت جہاد مالی و قتال سے دیا جب اسلامی سلطنت کی جڑ مضبوط ہوچکی تھی اور مسلمان کثرت تعداد اور جاہ و مال ہر لحاظ سے بڑھ چکے تھے اجر اُن کا بھی عظیم ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان سابقون اولون والوں کے درجہ نہیں ۔
اسی لیے قرآن عظیم نے ان پہلوں کو ان پچھلوں پر تفضیل دی
اور پھر فرمایا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی
ان سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا دیا کہ اپنے اپنے مرتبے کے لحاظ سے اجر ملے گا سب ہی کو محروم کوئی نہ رہے گا اور جن سے بھلائی کا وعدہ کیا ان کے حق میں فرماتا ہے ۔ اولٰیک عنھا مبعدون وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے
لا یسمعون حسیسھا وہ جہنم کی بھنک تک نہ سنیں گے
وھمہ فی مااشتھت انفسھمہ خٰلدون وہ ہمیشہ اپنی من مانتی جی بھاتی مرادوں میں رہیں گے
(القرآن الکریم سورت 21 آیت 101 102)
لا یحزنھمہ الفزع الاکبر قیامت کی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی
تتلقّٰھمہ الملٰئکۃ فرشتے ان کا استقبال کریں گے
ھٰذَا یومکہ الزی کنتمہ توعدون یہ کہتے ہوئے کہ یہ تمھارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ تھا
(القرآن الکریم 21 ۔ 103 ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہر صحابی کی یہ شان ہے اللہ عزوجل بتاتا ہے تو جو کسی صحابی پر طعن کرے اللہ واحد قہار کو جھٹلاتا ہے ۔

ضروری تنبیہ : اہل سنت کا عقیدہ یہ کہو نکف عن ذکر الصحابہ الابخیر ۔ یعنی صحابہ کرام کا جب ذکر ہو تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے ۔ (شرح عقائد النفسی دارالاشاعت العربیہ قندھار افغانستان صفحہ 116،چشتی)
انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں جو ایمان و سنت و اسلام حقیقی پر تادم مرگ ثابت قدم رہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان جمہور کے خلاف اسلامی تعلیمات کے مقابل اپنی خواہشات کے اتباع میں کوئی نئ راہ نکالی اور بدنصیب کہ اس سعادت سے محروم ہوکر اپنی دکان الگ جما بیٹھے اور اہل حق کے مقابل قتال پر آمادہ ہوگئے وہ ہرگز اس کا مصداق نہیں اس لئیے علماء کرام فرماتے ہیں کہ جنگ جمل وصفین میں جو مسلمان ایک دوسرے کے مقابل آئے ان کا حکم خطائے اجتہادی کا ہے لیکن اہل نہروان جو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تکفیر کرکے بغاوت پر آمادہ ہوے وہ یقیناً فساق فجار طاغی و باغی تھے اور ایک نئے فرقے کے ساعی و ساتھی جو خوارج کے نام سے موسوم ہوا اور امت میں نئے فتنے اب تک اسی کے دم سے پھیل رہے ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 337،چشتی)

اعلیٰ حضرت رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے تحقیق صحابہ پر اینڈ ہی کردیا ایسی وضاحت ایسی کمال کی گفتگو فرمائی ہے اگر بندہ تعصب کی عینک اتار کر پڑھے تو اس کا دل صحابہ کرام علیہم الرضوان کے نعروں سے گونج اٹھے فقیر کو یقین ہے کہ اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ کے ان فتویٰ جات سے بہت سارے فوائد حاصل کیے ہوں گے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ادب و احترام کرنے والا بنادے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔