فتوحات و فیضانِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی : اللھم اجعلہ ھادیا ومھدیا واھدبہ ۔
ترجمہ : اے اللہ! معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دیجئے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیجئے ۔ (جامع ترمذی صفحہ 247، جلد2، مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی)
آپ کا نام معاویہ رضی اللہ عنہ اور کنیت ابو عبد الرحمٰن ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کا نام صخر اور کنیت ابو سفیان رضی اللہ عنہ ہے اور اسی نام سے مشہور ہوئے ۔ والدہ محترمہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا ہیں ۔ یہ دونوں فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے ۔ والد ماجد کی جانب سے سلسلہ نسب یوں ہے : ⬇
معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف ۔
اس طرح آپ کا شجرہ نسب پانچویں پشت میں سرکار کل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے ۔
والدہ ماجدہ کی جانب سے سلسلہ نسب یوں ہے : ⬇
حضرت ہند رضی اللہ عنہا بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بعثت نبوی سے پانچ سال قبل 608 عیسوی میں پیدا ہوئے ۔ (ابن حجر: الاصابہ، صفحہ 412، جلد3)
علامہ ابن کثیر، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : وکان رئیسًا مطاعاً ذا مال جزیل ۔ یعنی آپ اپنی قوم کے سردار تھے ، آپ کے حکم کی اطاعت کی جاتی تھی اور آپ کا شمار مالدار لوگوں میں ہوتا تھا ۔
(ابن کثیر، البدایہ والنہایہ صفحہ 21، جلد 8 طبع مصر،چشتی)
ایک مرتبہ جب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نوعمر تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد ماجد سیدنا ابو سفیان رضی اللہ انہوں نے آپ کی طرف دیکھا اور کہنے لگے :
میرا بیٹا بڑے سر والا ہے اور اس لائق ہے کہ اپنی قوم کا سردار بنے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا نے یہ سنا، تو کہنے لگیں : فقط اپنی قوم کا ؟ میں اس کو روؤں اگر یہ پورے عالمِ عرب کی قیادت نہ کرے ۔ (ابن حجر: الاصابہ صفحہ 412 جلد 3)
آپ رضی اللہ عنہ کے والدین نے آپ رضی اللہ عنہ کی تربیت خاص طور پر کی ۔ مختلف علوم و فنون سے آراستہ کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو علم و فن سے آراستہ تھے اور لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ظاہری طور پر فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اس سے قبل ہی اسلام قبول کرچکے تھے ۔ چنانچہ مشہور مورخ واقدی کہتے ہیں :
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کے دن اسلام لائے مگر آپ رضی اللہ انہوں نے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا اور فتح مکہ کے دن ظاہرکیا ۔
علامہ ابن سعد کہتے ہیں : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں عمرۃ القضاء کے روز ایمان لایا تھا لیکن اپنے والد کے ڈر سے اپنے ایمان کو فتح مکہ تک چھپائے رکھا۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 118،چشتی)
شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں : معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ ایک صحابی اور خلیفہ راشد ہیں ۔ فتح مکہ سے قبل مشرف بہ اسلام ہوئے اور آپ کاتب وحی بھی تھے ۔ (تقریب التہذیب، صفحہ 375)
مذکورہ بالا حوالہ جات اس بات پر شاہد ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے قبل اسلام لائے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بدر ، احد ، خندق اور غزوہ حدیبیہ کے معرکوں میں کفار کی جانب سے شریک نہ ہوئے ، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان تھے ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کتابت وحی کا منصب عطا ہوا ۔ جو وحی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتی ، اسے قلمبند فرماتے اور جو خطوط و فرامین حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دربار سے جاری ہوتے ، انہیں بھی آپ رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ۔
چنانچہ علامہ ابن حزم اندلسی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبین وحی میں سب سے زیادہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا ۔ یہ دونوں حضرات رات دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے ۔ (ابن حزم جوامع السیرۃ صفحہ 27،چشتی)(تاریخ التشریح الاسلامی صفحہ 12)
عہدِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ میں آپ رضی اللہ عنہ کا مقام : ⬇
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری دورِ مبارک میں آپ رضی اللہ عنہ نے مختلف غزوات میں شرکت کی اور کفار سے جہاد کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ غزوہ حنین میں بھی شرکت فرمائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی فہم و فراست ، دیانت وامانت ، ذہانت و ذکاوت اور تدبر پر مکمل اعتماد کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو شام بھیجے جانے والے لشکر کے ہر اول دستے کا علمبردار مقرر فرمایا جب کہ اس لشکر کے امیر اور سپہ سالار آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے ۔ (محاصرات تاریخ الامم الاسلامیہ جلد 4 صفحہ 471،چشتی)(فتوح البلدان صفحہ 48)
عہد فاروقِ اعظم میں آپ رضی اللہ عنہما کا مقام و مرتبہ : ⬇
عہد فاروقِ اعظم میں بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما اعلٰی عہدوں پر فائز رہے ۔ 18 ہجری میں عمواس کے طاعون میں آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی صحابی رسول حضرت یزید رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو دمشق کا گورنر مقرر فرمادیا ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 124)(ابن خلدون جلد 3 صفحہ 6)
محمد حسین ہیکل نے ایک روایت نقل کی ہے کہ شام سے واپسی پر جابیہ کے مقام پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو معزول فرما کر ان کی جگہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر فرما دیا ۔ جب امیر المومنین سے سیدنا شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہما کی وجہ معزولی دریافت کی گئی ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے کسی ناراضی کی وجہ سے انہیں معزول نہیں کیا بلکہ اس لیے معزول کیا ہے کہ یہاں ایک مضبوط سیاسی گورنر کی ضرورت تھی ۔ (الفاروق صفحہ 298)
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے چار سال شام کے گورنر کی حیثیت سے گزارے ۔ اس دوران آپ رضی اللہ عنہ نے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور بہت سارے شہر فتح کیے ۔
عہد عثمانِ غنی میں آپ ضی اللہ عنہما کا مقام اور فتوحات : ⬇
خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حسن انتظام ، تدبر اور سیاست سے متاثر ہوکر حمص ، قنسرین اور فلسطین کے علاقے بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ماتحت کر دیے ۔ (تاریخ ابن خلدون)
25 ھجری میں آپ رضی اللہ عنہ نے روم کی جانب جہاد کیا اور عموریہ تک جا پہنچے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلا بحری جہاد کرنے والے لشکر کے حق میں ان الفاظ میں جنت کی بشارت دی تھی : اوّل جیش من امتی یغزون البحر قد اوجبوا ۔
یعنی : میری امت کے پہلے لشکر نے جو بحری لڑائی لڑے گا اپنے اوپر جنت واجب کر لی ہے ۔ (صحیح البخاری صفحہ 410 جلد 1 مطبوعہ نورمحمد دہلی،چشتی)
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی تاریخ میں پہلی بار بحری بیڑہ تیار کرایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ہمراہ 27 ہجری میں قبرص کی جانب روانہ ہوئے ۔ (حافظ ذہبی العبر جلد 1)
ابن خلدون لکھتے ہیں : حضرت امیع معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے بحری بیڑہ تیار کرایا اور مسلمانوں کو اس کے ذریعے جہاد کی اجازت دی ۔ (مقدمہ ابن خلدون صفحہ 453 مطبوعہ بیروت)
27 ہجری میں آپ رضی اللہ عنہ قبرص (Cyprus) کی طرف اپنا بحری بیڑہ لے کر روانہ ہوئے اور 27 ہجری میں وہ آپ کے ہاتھوں فتح ہوگیا ۔ (النجوم الزاہراہ، صفحہ 85، مطبوعہ مصر) ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے وہاں کے لوگوں پر جزیہ عائد کیا ۔ (ابن خلدون صفحہ 1008 جلد 2 بیروت،چشتی)
تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے پہلا بحری لشکر جس نے 28 ہجری میں سمندر کے سینے کو چیر کر قبرص (Cyprus) پر حملہ کیا اور اس کو فتح کرکے اسلامی پرچم لہرایا اس کی قیادت حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہا نے کی ۔
علامہ ابن کثیر کہتے ہیں : خلافتِ عثمانی رضی اللہ عنہ میں جب یہ حملہ ہوا تو اس لشکر کے امیر حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما تھے اور ان کے ساتھ ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہ جیسے کئی دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے ۔ (اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 575)
33 ہجری میں آپ رضی اللہ عنہ نے افرنطینہ ، ملطیہ اور روم کے کچھ قلعے فتح کیے ۔ 35 ہجری میں غزوہ ذی خشب پیش آیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس میں امیرِ لشکر کی حیثیت سے شرکت فرمائی ۔
36 ہجری میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ۔ شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد جنگ صفین و جمل کے واقعات پیش آئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اور حضرت سیدنا مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے درمیان یہ جنگ چار پانچ سال تک جاری رہی ۔۔۔۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ حضرت مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے قاتلینِ عثمان کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے جبکہ حضرت مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قتل میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے ۔ میں نے بلوائیوں کو ہر چند سمجھانے کی کوشش کی تھی اور میرے بیٹے قصرِ عثمان کا پہرا دیتے رہے ہیں ۔
17 رمضان المبارک 40 ہجری کو ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ پر تلوار سے وار کیا جس کے نتیجے میں آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو گئے اور 21 رمضان المبارک 40 ہجری کو جامِ شہادت نوش فرمایا ۔ حضرت مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر کے خلافت ان کے سپرد کردی ۔ اس سال کو تاریخِ عرب میں عام الجماعۃ کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ سال ہے کہ جس میں امت کا شیرازہ پھر مجتمع ہوا اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔
علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحیح اور حق بات یہ ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی صلح کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلافت صحیح معنوں میں ثابت ہے اور اس کے بعد وہ خلیفہ حق اور امام صادق ہیں ۔ الصواعق المحرقہ صفحہ 216،چشتی)
بلاشبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کے سب سے بڑے مسلم حکمران تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے 19 سال تک نصف سے زائد دنیا یعنی 64 لاکھ 65 ہزار مربع میل کے وسیع و عریض رقبہ پر اسلامی حکومت قائم کی ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بے شمار علاقے فتح کیے ۔ فتوحات کا وہ سلسلہ جو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد رک گیا تھا ، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس کو دوبارہ جاری کیا ۔
اپنے بہترین کمانڈر عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ کے توسط سے 41 ہجری میں شمالی افریقہ کے ایک وسیع علاقے کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا ۔
آپ رضی اللہ عنہ کے جرنیل مہلب بن ابی صفر رضی اللہ عنہ نے 44 ہجری میں سندھ اور ترکستان کے علاقوں پر اسلامی پرچم لہرایا ۔
پھر قسطنطنیہ پر حملہ کروایا ۔
53 ہجری میں بحری لڑائی کے ذریعے آپ رضی اللہ عنہ کے جرنیل جنادہ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے روڈس فتح کیا ۔
54 ہجری میں قسطنطنیہ کے قریب اروارڈ نامی جزیرے کو اسلامی حکومت میں داخل کیا ۔
علامہ خیرالدین زرکلی کہتے ہیں :
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے بحرِ روم کو اپنے جہازوں کی بازی گاہ بنایا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے عہد میں یونان کے بے شمار جزیرے اور درہ دانیال وغیرہ علاقے فتح ہوئے ۔ (الاعلام جلد 8 صفحہ 173،چشتی)(الفتوحات الاسلامیہ جلد 2 صفحہ 98)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ملک میں رعایا کی خوشحالی اور آرام کے لیے مختلف اصلاحات نافذ کیں ۔ چنانچہ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں : آپ (معاویہ) رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں دشمن کے ممالک میں جہاد کا سلسلہ جاری تھا ۔ اللہ کا کلمہ بلند تھا ۔ غنیمتیں زمین کے سب گوشوں سے سمٹ کر آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آتی تھیں اور مسلمان آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں عدل و انصاف اور راحت و آرام کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزارتے تھے ۔ (البدایہ و النہایہ جلد 8 صفحہ 188)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنی رعایا سے سلوک بہترین حکمرانوں کا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ کی رعایا آپ رضی اللہ عنہ کو دل دل و جان سے چاہتی تھی ۔ (منہاج السنۃ جلد 3 صفحہ 189) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment