Thursday 24 March 2022

فضائلِ علم اور علماء حصّہ سوم

0 comments

فضائلِ علم اور علماء حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قرآن کے تقریباً 78 ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو اللہ عزوجل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اقدس پہ نازل فرمایا وہ ’’اِقْرَاْ‘‘ ہے ، یعنی پڑھیے ۔ مزید قرآن پاک کی 6 ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو 5 آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے ۔ علم کی فضیلت و عظمت ، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی ، تعلیم و تربیت ، درس و تدریس تو گویا اس دین برحق کا جزو لاینفک ہو ۔ نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ حصولِ علم کی رغبت اور تلقین فرماتے ، غزوہ بدر کے موقع پہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر اس اسیر کو جو مدینہ منورہ کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاتا تھا آزاد فرما دیتے تھے ۔ اس عمل سے اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ سابقہ مضامین میں علم ، علما اور جہلا میں فرق کے متعلق آپ نے پڑھ لیا ہوگیا اب مزید اہلِ علم کے متعلق پڑھیں : ⬇

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: وَمَنْ سَلَکَ طَرِيْقًا يَلْتَمِسُ فِيْهِ عِلْمًا سَهَلَ ﷲُ لَهُ طَرِيْقًا إِلَی الْجَنَّةِ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص تلاشِ علم کی راہ پر چلا اللہ تعاليٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے ۔(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الذکر والدعاء والتوبة والإستغفار، باب فضل الإجتماع علی تلاوة القرآن وعلی الذکر، 4/ 2074، الرقم/ 2699،چشتی،وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 325، الرقم/ 8299، وأبو داود في السنن، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، 3/ 317، الرقم/ 3643، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، 5/ 28، الرقم/ 2646)

أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ، کَانَ فِي سَبِيْلِ ﷲِ حَتّٰی يَرْجِعَ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص حصولِ علم کےلیے نکلا وہ اس وقت تک ﷲ کی راہ میں ہے جب تک کہ واپس نہیں لوٹ آتا ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، 5/ 29، الرقم/ 2647، والطبراني في المعجم الصغير، 1/ 234، الرقم/ 380، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6/ 124، الرقم/ 2119)

وَرَوَی الْبُخَارِيُ فِي تَرْجَمَةِ الْبَابِ فِي کِتَابِ الْعِلْمِ : إِنَّ الْعُلَمَاء َ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ. وَرَّثُوا الْعِلْمَ. مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ، وَمَنْ سَلَکَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا، سَهَلَ ﷲُ لَهُ طَرِيقًا إِلَي الْجَنَّةِ ۔
ترجمہ : امام بخاری علیہ الرحمہ نے کتاب العلم میں ترجمۃ الباب کے تحت بیان کیا ہے : بے شک علماء، انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔ انہوں نے میراثِ علم چھوڑی ہے ۔ پس جس نے اس (میراثِ علم) کو حاصل کیا ، اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا ۔ جو آدمی علم کی تلاش میں کسی راہ پر چلتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کےلیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب العلم، قبل القبول، 1/ 37)

عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ : أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ رضی الله عنه فَقَالَ : مَا جَاءَ بِکَ ؟ قُلْتُ : أُنْبِطُ الْعِلْمَ . قَالَ : فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا مِنْ خَارِجٍ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ إِلَّا وَضَعَتْ لَهُ الْمَلَاءِکَةُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا بِمَا يَصْنَعُ ۔
ترجمہ : حضرت زِر بن حُبَیش بیان کرتے ہیں : میں حضرت صفوان بن عسال المرادی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں حاضر ہوا ۔ انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا : کیسے آنا ہوا ؟ میں نے عرض کیا : علم کی تلاش میں آیا ہوں۔ انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو کوئی اپنے گھر سے طلبِ علم کی نیت سے نکلتا ہے ، فرشتے اس کے اس عمل سے خوش ہو کر اس کےلیے اپنے پر بچھاتے ہیں ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 239، الرقم/ 18118، و الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب في فضل التوبة والاستغفار وما ذکر من رحمة ﷲ، 5/ 545-546، الرقم/ 3535-الرقم/ 3536، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب الوضوء من الغائط والبول، 1/ 98، الرقم/ 158، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1/ 82، الرقم/ 226)

رَوَی الْبُخَارِيُّ فِي تَرْجَمَةِ الْبَابِ فِی کِتَابِ الْعِلْمِ : رَحَلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ ﷲِ مَسِيْرَةَ شَهْرٍ إِلٰی عَبْدِ ﷲِ بْنِ أُنَيْسٍ فِي حَدِيْثٍ وَاحِدٍ ۔
ترجمہ : امام بخاری علیہ الرحمہ نے کتاب العلم کے ترجمۃ الباب (باب الخروج في طلب العلم) میں بیان کیا ہے : حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد ﷲ بن انیس رضی اللہ عنہ کی طرف ایک حدیث کی خاطر ایک مہینے کا سفر طے کیا ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب الخروج في طلب العلم،1/ 41)

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: يُوْزَنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِدَادُ الْعُلَمَاءِ وَدَمُ الشُّهَدَاءِ فَيَرْجَحُ مِدَادُ الْعُلَمَاءِ عَلَی دَمِ الشُّهَدَاءِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : روز قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی ۔ (أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 5/ 486، الرقم/ 488، چشتی، والجرجاني في تاريخ جرجان، 1/ 91، الرقم/ 52، والسمعاني في أدب الإملاء والاستملاء، 1/ 192)

مَا رُوِيَ عَنِ الأَءِمَّةِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِيْنَ ۔ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما : ذَلَلْتُ طَالِبًا فَعَزَزْتُ مَطْلُوْبًا ۔
ترجمہ : حضرت (عبد ﷲ) بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : میں نے طلبِ علم کے وقت عاجزی اور فروتنی اختیار کی اور جب مجھ سے علم طلب کیا جانے لگا تو میں معزز بن گیا ۔ (أخرجه ابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1/ 117، والنووي في التبيان في آداب حملة القرآن/ 27، والغزالي في إحياء علوم الدين، 1/ 9، وابن القيم في مفتاح دار السعادة/ 168)

کَانَ الإِمَامُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنهما يَقُوْلُ لِبَنِيْهِ وَبَنِي أَخِيْهِ: تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِيْعُوا حِفْظَهُ فَاکْتُبُوْهُ وَضَعُوْهُ فِي بُيُوْتِکُمْ ۔
ترجمہ : امام حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما اپنے صاحبزادوں اور بھتیجوں کو فرمایا کرتے کہ تم علم سیکھو ۔ اگر اسے یاد نہ رکھ سکو تو اسے لکھ کر اپنے گھروں میں رکھ لو ۔ (الشعراني في الطبقات الکبری/ 42)

کَانَ عَبْدُ ﷲِ بْنُ عُمَرَ رضی الله عنهما يَقُوْلُ : لَا يَکُوْنُ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ حَتّٰی لَا يَحْسُدَ مَنْ فَوْقَهُ وَلَا يَحْقِرَ مَنْ تَحْتَهُ وَلَا يَبْتَغِيَ بِالْعِلْمِ ثَمَناً ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے : آدمی اس وقت تک اہل علم میں شمار نہیں ہوتا جب تک وہ (علم میں) اپنے سے فوقیت رکھنے والوں پر حسد کرنا، اپنے سے کم درجہ افراد کو حقیر جاننا اور علم کے ذریعے کسی مال کا طلب کرنا ترک نہیں کرتا ۔ (الشعراني، الطبقات الکبری/ 39،چشتی)

عَنْ مَالِکٍ ، قَالَ : لَا يَبْلُغُ أَحَدٌ مَا يُرِيْدُ مِنْ هٰذَا الْعِلْمِ حَتّٰی يَضُرَّ بِهِ الْفَقْرُ ، وَيُؤْثِرَهُ عَلٰی کُلِّ حَاجَةٍ ۔
ترجمہ : امام مالک علیہ الرحمہ سے مروی ہے : کوئی شخص اُس علم میں سے جو کچھ چاہتا ہے اسے حاصل نہیں کر سکتا ، جب تک کہ فقر اُسے متاثر نہ کرے اور جب تک وہ اپنی ہر ضرورت پر اس علم کو ترجیح نہ دے۔(أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 6/ 331، والخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 186،چشتی)

قَالَ الشَّافِعِيُّ : لَا يَصْلُحُ طَلَبُ الْعِلْمِ إِلَّا لِمُفْلِسٍ. قِيْلَ : وَلَا لِغَنِيٍّ مَکْفِيٍّ ؟ قَالَ : لَا ۔
ترجمہ : امام شافعی علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں : طلبِ علم مفلس شخص کو ہی زیب دیتا ہے ۔ عرض کیا گیا : اور کیا مال دار شخص کو یہ زیب نہیں دیتا ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ۔ (أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 9/ 119، والخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 187،چشتی)

کَانَ الإِمَامُ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ : لَا شَيْئَ أَزْيَنَ بِالْعُلَمَاءِ مِنَ الْفَقْرِ وَالْقَنَاعَةِ وَالرِّضَا بِهِمَا ۔
تجمہ : امام شافعی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ علماء کو فقر و قناعت اختیار کرنے اور ان دونوں پر خوش رہنے سے زیادہ کوئی چیز زیب نہیں دیتی ۔ (الشعراني، الطبقات الکبری/ 77)

کَانَ الإِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيْسَ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ : لَا يُدْرَکُ الْعِلْمُ إِلَّا بِالصَّبْرِ عَلَی الضُّرِّ ۔
ترجمہ : امام محمد بن ادریس الشافعی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے : علم نقصان و تکلیف پر صبر سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔ (أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 186،چشتی)

قَالَ الشَّافِعِيُّ : فَحَقٌّ عَلٰی طَلَبَةِ الْعِلْمِ بُلُوْغُ غَايَةِ جُهْدِهِمْ فِي الاسْتِکْثَارِ مِنْ عِلْمِهِ ، وَالصَّبْرُ عَلٰی کُلِّ عَارِضٍ دُوْنَ طَلَبِهِ ، وَإِخْلَاصُ النِّيَةِ ِﷲِ فِي اسْتِدْرَاکِ عِلْمِهِ نَصًّا وَاسْتِنْبَاطًا ، وَالرَّغْبَةُ إِلَی ﷲِ فِي الْعَوْنِ عَلَيْهِ ۔
ترجمہ : امام شافعی علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں : طالبانِ علم پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لیے غایت درجہ محنت کریں ، اور اس کی طلب میں آنے والی ہر رکاوٹ پر صبر کریں ، اور اپنے علم کو نصاً اور استنباطاً حاصل کرنے میں نیت کو ﷲ تعالیٰ کےلیے خالص رکھیں ۔ اور اس کام میں مدد حاصل کرنے کےلیے ﷲ تعالیٰ کی طرف رغبت رکھیں ۔ (الشافعي في أحکام القرآن، 1/ 21، وأيضًا في الرسالة/ 19، وذکره الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 204،چشتی)

کَانَ الإِمَامُ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ : مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ بِعِزِّ النَّفْسِ لَمْ يُفْلِحْ وَمَنْ طَلَبَهُ بِذُلِّ النَّفْسِ وَخِدْمَةِ الْعُلَمَاءِ أَفْلَحَ ۔
ترجمہ : امام شافعی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے : جس نے عزتِ نفس (انا)کے ساتھ علم حاصل کرنا چاہا ، کامیاب نہ ہوا اور جس نے اسے نفس کی ذلت اور علماء کی خدمت کے ذریعے حاصل کرنا چاہا وہ مقصد پا گیا ۔ (الشعراني الطبقات الکبری/ 77،چشتی)

عَنْ إِبْرَاهِيْمَ الآجُرِّيِّ ، يَقُوْلُ : مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ بِالْفَاقَةِ وَرِثَ الْفَهْمَ ۔
ترجمہ : امام ابراہیم آجری علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں : جس نے فقر و فاقہ کے ساتھ علم طلب کیا وہ فہم کا وارث بنا ۔ (أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 186)

عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيْرٍ، قَالَ: لَا يُسْتَطَاعُ الْعِلْمُ بِرَاحَةِ الْجِسْمِ ۔
ترجمہ : حضرت یحیيٰ بن ابی کثیر علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں : علم آرام طلبی سے حاصل نہیں ہوتا ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب المساجد، باب أوقات الصلاة الخمس، 1/ 428، الرقم/ 612)

کَانَ الإِمَامُ عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيْلَ الشَّعْبِيُّ يَقُوْلُ : أَدْرَکْنَا النَّاسَ وَهُمْ لَا يُعَلِّمُوْنَ الْعِلْمَ إِلَّا لِعَاقِلٍ نَاسِکٍ وَصَارُوْا الْيَوْمَ يُعَلِّمُوْنَهُ لِمَنْ لَا عَقْلَ لَهُ وَلَا نُسُکَ ۔
ترجمہ : امام عامر بن شراحیل شعبی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے : ہم نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو صرف عقلمند عبادت گزار کو ہی تعلیم دیتے تھے جبکہ آج لوگ اس طرح ہوگئے ہیں کہ بے عقل اور غیر عبادت گزار کو علم دینے لگ گئے ہیں ۔ (الشعراني الطبقات الکبری/ 66،چشتی)

کَانَ الإِمَامُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يَقُوْلُ : اَلْعُلَمَائُ ثَـلَاثَةٌ عَالِمٌ بِاﷲِ وَبِأَمْرِ ﷲِ ، فَعَلَامَتُهُ أَنْ يَخْشَی ﷲَ وَيَقِفُ عِنْدَ حُدُوْدِ ﷲِ ، وَعَالِمٌ بِاﷲِ دُوْنَ أَوَامِرِ ﷲِ ، فَعَلَامَتُهُ أَنْ يَخْشَی ﷲَ وَلَا يَقِفُ عِنْدَ حُدُوْدِهِ ، وَعَالِمٌ بِأَوَامِرِ ﷲِ دُوْنَ ﷲِ فَعَلَامَتُهُ أَنْ لَا يَقِفُ عِنْدَ حُدُوْدِ ﷲِ وَلَا يَخْشَی ﷲَ وَهُوَ مِمَّنْ تُسَعَّرُ بِهِمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔
ترجمہ : امام سفیان ثوری علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے : علماء تین (طرح کے) ہیں : (پہلی قسم میں وہ عالم شامل ہے) جو ﷲ تعاليٰ اور اس کے امر (احکام الٰہیہ) کو جاننے والا ہے ۔ ایسے عالم کی علامت یہ ہے کہ وہ ﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اس کی حدود کا احترام بھی کرتا ہے ، (دوسری قسم میں وہ عالم شامل ہے) جو معرفت الٰہیہ تو رکھتا ہے لیکن اس کے اوامر کا اسے (کما حقہ) علم نہیں ۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ ﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے لیکن اس کی حدود کی پروا نہیں کرتا ، (تیسری قسم میں وہ عالم شامل ہے) جو ﷲ تعالیٰ کے اوامر کا علم تو رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے بے خبر ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ نہ تو وہ حدود الٰہیہ کا احترام کرتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور یہ ان لوگوں میں سے ہے جن پر روزِ قیامت جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی ۔ (الشعراني الطبقات الکبری/ 76)

کَانَ الْإِمَامُ شَقِيْقٌ الْبَلْخِيُّ يَقُوْلُ : إِذَا کَانَ الْعَالِمُ طَامِعاً ، وَلِلْمَالِ جَامِعاً فَبِمَنْ يَقْتَدِي الْجَاهِلُ ؟
ترجمہ : امام شقیق بلخی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے : جب عالم دین طمع کرنے والا اور مال جمع کرنے والا ہو تو جاہل کس کی پیروی کرے ؟ ۔ (الشعراني الطبقات الکبری/ 115)

قَالَ الشَّيْخُ أَبُو الْعَبَّاسِ الْمُرْسِيُّ : اَلْعِلْمُ هُوَ الَّذِي يَنْطَبِعُ فِي الْقَلْبِ کَالْبَيَاضِ فِي الْأَبْيَضِ ، وَالسَّوَادِ فِي الْأَسْوَدِ ۔
ترجمہ : شیخ ابو العباس مُرسی علیہ الرحمہ نے فرمایا : علم تو وہ ہے جو کہ دل میں یوں سرایت کر جائے جیسے سفید چیز میں سفیدی اور سیاہ چیز میں سیاہی ۔ (الشعراني الطبقات الکبری/ 318،چشتی)

کَانَ الإِماَمُ أَبُو الْحَسَنِ الشَّاذِلِيُّ يَقُوْلُ : أَرْبَعٌ لَا يَنْفَعُ مَعَهُمْ عِلْمٌ : حُبُّ الدُّنْيَا ، وَ نِسْيَانُ الْآخِرَةِ ، وَ خَوْفُ الْفَقْرِ وَخَوْفُ النَّاسِ ۔
ترجمہ : امام ابو الحسن شاذلی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے : چار چیزوں کے ہوتے ہوئے علم نفع نہیں دیتا : دنیا کی محبت ، آخرت کی فراموشی ، تنگ دستی کا خوف اور (ملامت کرنے والے) لوگوں کا ڈر ۔ (الشعراني الطبقات الکبری/ 309) ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔