Sunday, 27 March 2022

فضائل ، احکام و مسائلِ روزہ

فضائل ، احکام و مسائلِ روزہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : روزہ کے بے شمار فضائل ہیں مثلاً روزے سے سابقہ گناہوں کا معاف ہوجانا ۔ (صحیح بخاری ،حدیث 1901)(جامع ترمذی،جلد1صفحہ147)

روزہ دار کےلیے جنت میں داخلے کے وقت ’’باب الریاّن‘‘ کا مختص ہونا ۔ (صحیح بخاری ،حدیث نمبر1896)

روزہ دار کے منہ سے آنے والی مشک کا کستوری سے زیادہ پسندیدہ قرار دیا جانا ۔ (صحیح بخاری ،حدیث نمبر8)

روزہ دار کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی دور ی پر کر دینے کی خوشخبری ۔ (صحیح مسلم ،حدیث نمبر1153)

روزہ کے ان فضائل کو اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ایک مسلمان اصول ضوابط کے ساتھ روزہ رکھے اور اگر اصول وضوابط کو پامال کر دیا جائے تو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور اللہ پاک کو صرف بھوک اور پیاس سے کوئی غرض نہیں ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر1903،چشتی)

روزہ کی نیت

نیت کا معنیٰ ارادہ ہے لہذا اگر کسی نے دل میں ہی ارادہ کیا کہ روزہ رکھوں گا تو اس کاوہی ارادہ نیت کہلائے گا اور نیت کا وقت روزے سے پہلی شام کے غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے رمضان کے ہر روزے کی الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ ’’درمختار‘‘ میں ہے : ویحتاج صوم کل یوم من رمضان الی نیۃ ۔ (در مختار جلد 2 صفحہ 379)

لہٰذا یہ نیت ہر روز کی جائے بیشک وہ دل کے ارادے ہی کی صورت میں ہو ۔

سحری کے احکام و مسائل

سحری کھانا سنت ہے اگر دل نہ چاہے تب بھی سنت کو پورا کرنے کی غرض سے کچھ نہ کچھ کھالینا چاہئے کیونکہ سحری کے کھانے کو بابرکت کہا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان مبارک ہے : تسحروا فان فی السحور برکۃ ۔ (صحیح بخاری،حدیث 1923) ۔ سحری کھایا کرو اس لئے کہ اس کھانے میں برکت ہے ، دوسری حدیث مسند احمد کے حوالے سے ’’ردالمحتار ‘‘میں یوں ہے کہ : السحور کلہ برکۃ فلاتدعوہ ولو ان یجرع احدکم جرعۃ من ماء ۔ (ردالمحتار، جلد2صفحہ419) ۔ سحری تمام تر برکت ہے ، لہذا اسے مت چھوڑو اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی کی صورت میں سحری ہو ۔

سحری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اگر سحری کے وقت آنکھ نہ کھلے تو بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ضروری ہوگا سحری چھوٹ جانے سے روزہ چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

روزے کے لئے دل کی نیت اور سحری کھانا ہی اس روزے کے آغاز کی علامت ہے البتہ یہ دعا بھی پرھ لی جائے تودرست ہے ،سحری کی دعا یہ ہے : وبصوم غدٍ نویت من شھر رمضان ۔

سحری میں تاخیر (آخری وقت میں کھانا) باعث خیر و برکت ہے ۔ (عالمگیری،جلد1صفحہ200)

یہ سوچ کر سحری میں مصروف رہاکہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی بعد میں پتہ چلا کہ صبح صادق ہو چکی ہے تو ایسی صورت میں روزہ نہیں ہوا،غروب تک کھانا پینا جائز نہیں اور اس روزہ کی قضاء بھی ضروری ہے۔(فتاویٰ عالمگیری جلد1 نمبر صفحہ نمبر 194)

اگر غسل فرض ہے اور صبح صادق سے پہلے غسل کرنے کی صورت میں سحری رہ جاتی ہے تو ناپاکی کی حالت میں ہی سحری کھانا اور روزہ رکھ لینا جائز ہے ،البتہ غسل میں اتنی تاخیر ناپسندیدہ ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 200)

صبح صادق کا وقت ختم ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لیے اس کے بعد کھانے سے روزہ نہیں ہوگا اگرچہ ابھی تک اذان نہ ہوئی ہو ۔ (عالمگیری جلد1 صفحہ 194،چشتی)

سحری کے بعد کلی کرنا اور دانتوں کو صاف کر لینا بہتر ہے ۔ (بہار شریعت)

افطاری کے احکام و مسائل

یقینی طور پر سورج کے غروب ہوتے ہی افطار کا وقت شروع ہوجاتا ہے،اسی ابتدائی وقت میں افطار کرنا پسندیدہ اور بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے ۔ (مشکوٰۃ جلد 1 صفحہ ,175)(بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 105)

افطاری کھجور ، چھوہارے یا کسی بھی میٹھی چیز سے کی جائے اگر کوئی میٹھی چیز نہ ہو تو پانی سے افطاری کر سکتے ہیں ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : عن انس رضی اللہ عنہ انہ علیہ السلام کان یفطر علی رطبات قبل ای یصلی فان لم تکن رطبات فتمرات فان لم تمرات حسا حسوات من ماء ۔ (الزیلعی جلد 1 صفحہ 443،چشتی)

احادیث مبارکہ میں افطاری کے وقت کی مختلف دعائیں موجود ہیں جو درجہ ذیل ہیں : ⬇

اول 

اَلّٰلھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ ، اے اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے دئیے ہوئے رزق سے میں افطار کرتا ہوں ۔ (سنن أبي داود | كِتَابٌ : الصَّوْمُ | بَابٌ : الْقَوْلُ عِنْدَ الْإِفْطَارِ الجزء رقم :2، الصفحة رقم:531 رقم الحديث 2358،چشتی)(سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 294)

دوم

اللهم لك صمت، و عليك توكلت و علي رزقك افطرت ۔ (بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث رقم الحديث ٤٦٨)

سوم

الحمد لله الذي أعانني فصمت ورزقني فأفطرت ۔ (شعب الایمان باب فی الصیام حدیث ۳۹۰۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۴۰۶)

چہارم

اللھم لک صمنا وعلی رزقک افطر نا فتقبل منا انک انت السمیع العلیم ۔ (کتاب عمل الیوم و اللیلۃباب مایقول اذاافطر حدیث۴۸۰ معارف نعمانیہ حیدر آباد دکن ص ۱۲۸)

پنجم

ذھب الظمأ و ابتلت العروق ویثبت الاجران شاء اﷲتعالی ۔ (سنن ابی داؤد باب القول عندالافطار)

ششم

بسم ﷲ والحمدﷲ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت وعلیک توکلت سبحٰنک وبحمدک تقبل منّی انک انت السمیع العلیم ۔ (کنز العمال بحوالہ قط فی الافراد حدیث ۲۳۸۷۳ مکتبۃ التراث الاسلامی حلب۸ /۵۰۹)

نوٹ : یہ چھ دعائیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہیں ۔

ہفتم

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي ۔ (سنن ابن ماجه كِتَابُ الصِّيَامِ بَابٌ : فِي الصَّائِمِ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ)

نوٹ : یہ دعا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ۔

اب احادیث سے یہ الفاظ ثابت ہیں ۔ عام طور پر جو الفاظ مشہور ہیں اللھم لك صمت و بك امنت و عليك توكلت و علي رزقك افطرت بعینہ ان الفاظ کے ساتھ افطار کی یہ دعا ثابت نہیں اگر چہ اس کا معنی صحیح ہے ۔

ملا علی القاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وأما ما اشتهر على الألسنة ” اللهم لك صمت وبك آمنت وعلى رزقك أفطرت ” فزيادة ، ( وبك آمنت ) لا أصل لها وإن كان معناها صحيحا ، وكذا زيادة ۔ وعليك توكلت ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح كتاب الصوم باب في مسائل متفرقة من كتاب الصوم رقم الحدیث 1994،چشتی)

لیکن یہ دعا ان الفاظ کے ساتھ ثابت ہے اللهم لك صمت ، و عليك توكلت، و علي رزقك افطرت لیکن یہ اضافہ و بك آمنت ثابت نہیں ۔ ملا علی القاری کا و عليك توكلت کو بے اصل کہنا درست نہیں ۔ یہی اضافہ دو احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ۔

اول ایک طویل حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مختلف وصیتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک وصیت ہے۔ کہ علی جب تم رمضان میں روزے سے ہو تو افطار کے بعد یہ پڑھو ۔

اللهم لك صمت، و عليك توكلت ، و علي رزقك افطرت ۔ (بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث رقم الحديث ٤٦٨،چشتی)

دوسری حضرت انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے پاس کھانا لایا جائے اور تم حالتِ روزہ میں ہوتو یہ کلمات کہو “بسم ﷲ والحمد للہ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت و علیک توکلت سبحٰنک وبحمدک تقبل منّی انک انت السمیع العلیم ۔ (کنز العمال بحوالہ قط فی الافرادحدیث ۲۳۸۷۳مکتبۃ التراث الاسلامی حلب۸ /۵۰۹)
لہذا و عليك توكلت کی زیادت کو بے اصل کہنا درست نہیں ۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہ مشہور دعا ان الفاظ کے ساتھ ثابت ہے ۔ اللهم لك صمت ، و عليك توكلت ، و علي رزقك افطرت لیکن یہ اضافہ و بك آمنت ثابت نہیں ۔ اگر کوئی پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں البتہ افضل و بہتر یہی مسنون دعا ہے ۔

کسی کو روزہ افطار کرانا انتہائی اجرو ثواب کا باعث ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : من فطّر صائما کان مغفرۃ لذنوبہ وعتق رقبتہ من النار وکان لہ مثل اجرہ . (مشکوٰۃ جلد 1 صفحہ 173)
روزہ دار کو افطار کرانے سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں،جہنم سے نجات ملتی ہے ، روزہ دار کے برابر ثواب ملتا ہے ۔

وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ توڑا جا سکتا ہے

روزہ دار اچانک ایسا بیمار ہو گیا کہ روزہ برقرار رکھنے کی صورت میں موت واقع ہوسکتی ہے یا بیماری خطرناک حد تک جاسکتی ہے تو روزہ توڑنا اور دوا استعمال کر لینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 281،چشتی)

سانپ بچھو یا کسی بھی ایسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا کہ دوا نہ لینے کی صورت میں موت کا خطرہ ہے یا شدید نقصان کا خطرہ ہے تو بھی دوا کھانا اور روزہ توڑ دینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 281)

اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس لگی کہ پانی نہ پینے کی صورت میں موت یقینی ہے تو بھی پانی پینا اور روزہ توڑنا جائز ہے اور یہی مسئلہ شدید بھوک کی صورت میں بھی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 207،چشتی)

حاملہ عورت کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ پیش آجائے جس سے اس کی اپنی جان یا بچہ کی جان جانے کا خطرہ ہو تو بھی روزہ توڑنا درست بلکہ افضل ہے ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 207)

اگر کسی شخص کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا جیسے ایکسیڈینٹ ہو جانا ، کسی بلندی سے گرنا ، کسی بھاری چیز کے نیچے دب جانا یا ان جیسا کوئی بھی مسئلہ پیش آجائے جس میں جان پر بن جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ281،چشتی)

وہ تمام صورتیں جن میں روزہ مجبوراً توڑنا پڑا بعد میں صرف ان کی قضاء کرنا ہوگی کفارہ نہیں ۔ (ردالمحتار،جلد2صفحہ402)

وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائزلیکن بعد میں قضاکرناضروری ہے

کوئی شخص بیمار ہے اور کسی مسلمان ماہر ڈاکٹر و طبیب کے بقول روزہ رکھنے سے اسے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے یا موت واقع ہو سکتی ہے تو اس کے لئے روزہ چھوڑنے کی شرعاً اجازت ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد2صفحہ442)

اگر بیمار کو ڈاکٹر و طبیب نے روزہ سے منع نہیں کیا لیکن خود ماہر ہے اور تجربہ کار ہے تو اپنے غالب گمان پر عمل کر کے روزہ چھوڑ سکتا ہے ، البتہ اگر خود ماہر و تجربہ کار نہ ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422،چشتی)

اگر فی الوقت بیمار نہیں مگر پہلے گذری بیماری کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہے اور اس بیماری کی وجہ سے ضعف باقی ہے روزہ رکھنے کی صورت میں بیماری کے دوبارہ شروع ہوجانے کا یقینی خطرہ ہے تو بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)

اگرعورت حاملہ ہو اور روزے کی وجہ سے اپنی جان یا بچے کی جان کو خطرہ ہو تو اس حاملہ کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)

اگر عورت بچے کو دودھ پلاتی ہے اور بچہ اس دودھ کے علاوہ کوئی اور دودھ یا دوسری کوئی خوراک نہیں کھا سکتا ایسی حالت میں دودھ پلانے سے بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہو تو یہ مرضِعہ (دودھ پلانے والی) روزہ چھوڑ سکتی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)

مسافر (جوکم ازکم 48 میل کی مسافت کاسفر کر رہا ہو) سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے اور اگر سفر ذیادہ دشوار نہیں جس میں روزہ رکھنے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی تو روزہ رکھنا ہی افضل ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر421 - 423)

ایسا مسافر جو صبح صادق کے وقت سفر میں نہ ہو دن کے وقت اگرچہ سفر کا پختہ ارادہ ہو اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)

ایسا مسافر جس نے دوران سفر پندرہ دن یا اس سے ذیادہ قیام کا ارادہ کرلیا اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 431،چشتی)

اگر کوئی مسافر زوال سے پہلے مقیم ہو گیا اور اس سے روزے کے منافی کوئی کام سرزد نہیں ہوا تو اسی وقت سے روزہ رکھنا لازم ہوگا افطار کرنا شرعا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)

ایسا آدمی جو کسی بیماری میں تو مبتلا نہیں لیکن عمر ذیادہ ہونے کی وجہ سے کمزوری اس حد تک ہوچکی ہے کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو ایسا شخص بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)

شوگر کے مریض اگر واقعتا روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوں ، روزہ رکھنے کی صورت میں جان کا خطرہ ہو تو وہ بھی روزہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)

لیکن اس میں حتی الامکان استقامت کی کوشش کی جائے اور رمضان المبارک کی رحمتوں سے رو گردانی نہ کی جائے نیز یہ بھی کہ فدیہ دینے کے بجائے مناسب وقت پر اپنے روزے کی قضاء کریں،تفصیل درج ذیل ہے ۔

نوٹ : مذکورہ بالا وہ اعذار جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جب وہ عذر ختم ہو جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ء ضروری ہے اور جب تک روزہ رکھنے کی طاقت موجود ہو یا طاقت کا پایا جانا متوقع ہو فدیہ نہیں دے سکتے قضاء ہی ضروری ہوگی ۔ (بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 265،چشتی)

اگرعذر کی وجہ سے روزہ چھوڑا گیا اور بعد میں روزہ رکھنے کا موقع ہی نہیں ملا جیسے اسی رمضان میں معذور فوت ہو گیا تو اس پر فدیہ بھی نہیں ہوگا اور اگر موقع ملا لیکن روزے رکھنے سے پہلے قریب الموت ہوگیا تو اسے فدیہ کی وصیت لازماً کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوگا ۔ (عالمگیری ، جلد1صفحہ207،چشتی)(فتاویٰ شامی، جلد2 صفحہ 423- 424- 425)

مفسدات روزہ

وہ چیزیں جن سے روزہ فاسد ہوتا (ٹوٹتا) ہے دو طرح کی ہیں

(1) روزہ ٹوٹنے کی صورت میں قضاء اور کفارہ دونوں ہیں ۔

(2) صرف قضاء ہے کفارہ نہیں ۔

وہ مفسدات جن کی وجہ سے قضاء اور کفارہ دونوں لازم آتے ہیں

جان بوجھ کر کھانا ، پینا یا جماع کرنا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 205)

لواطت (غیر فطری فعل،ہم جنس پرستی) ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 406)

وہ چیز جو عادتاً دوا یا غذا ہے اسے جان بوجھ کر استعمال کرنا ۔ (شامی جلد2 صفحہ409-410)

جو چیز عادتاً غذا نہیں لیکن اسے کسی نے اپنی عادت بنا لیا تو اسے جان بوجھ کر استعمال کرنے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا،جیسے مٹی وغیرہ کھانے کی عادت بنا لینا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 202،چشتی)

روزے کا کفارہ

مذکورہ صورتیں وہ ہیں جن میں قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہیں ، یعنی ایک روزہ توڑنے کی صورت میں بطور کفارہ غلام آزاد کرنا ، لگاتار ساٹھ (60) روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (ان تین میں سے کوئی ایک کام کرنا ہوگا ) اور روزے رکھنے کی صورت میں اکسٹھ (61) روزے لگاتاربغیر فاصلے کے رکھنا ہونگے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ412)(ھندیہ جلد1صفحہ215،چشتی)

اگر کفارے کے روزے رکھتے ہوئے ایک دن کا ناغہ بھی کرلیا تو دوبارہ شروع کرنا پڑے گا اور پہلے والے روزے کالعدم ہوجائیں گے ۔ (شامی جلد 2صفحہ412)
البتہ اگر عورت کفارے کے روزے رکھ رہی ہو اور اس کے ’’ایام‘‘ شروع ہو جائیں تو اتنے دن کا ناغہ معاف ہے ’’ایام‘‘ کے بعد وہیں سے شمار کرے گی جہاں چھوڑا تھا ۔ (البحرالرائق ،جلد2صفحہ277)

اگر کفارہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں ادا کرنا ہو تو اس میں مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں :

بھوکے اور خالی پیٹ مسکینوں کا انتخاب کیا جائے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 479)

اگر ایک ساتھ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جا رہا ہے تو صبح و شام دونوں وقت کھانا کھلانا ہوگااور جنہیں ایک وقت کھلایا دوسرے وقت بھی انھیں کو کھلائے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 514،چشتی)

روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن کھلانا بھی ٹھیک اور ساٹھ دنوں میں ہر روز نئے مسکین کو کھلانا بھی درست ہے ۔ (البحرالرائق جلد 4 صفحہ 109)

وہ مفسدات جن کی وجہ سے صرف قضاء لازم ہے کفارہ نہیں

اگر منہ بھر کر قصداً قے کردی یا قے خود بخود آئی تھی لیکن اسے واپس حلق سے نیچے اتار دیا (خواہ وہ چنے کے برابر ہی ہو) اور اس وقت روزہ یاد تھا تو اس کیفیت میں روزہ ٹوٹ گیا ۔ (ردالمحتارجلد2صفحہ414)

کان میں دوائی یا کوئی بھی تر چیز ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)

ناک میں دوائی یا کوئی بھی تر چیزڈالنے سے روز ہ ٹوٹ جائے گا ،اگر کلی کرتے وقت پانی حلق سے نیچے چلا گیا اور اس حال میں روزہ یاد تھا تو روزہ ٹوٹ گیا ۔ (عالمگیری جلد1صفحہ202)

البتہ اگر کلی کرتے وقت روزہ یاد نہیں تھا تو فاسد نہیں ہوگا۔*بھول کر کھایا ، پیا ، جماع کرلیا ، احتلام ہوگیا ، تھوڑی مقدار میں قے ہوگئی یا شہوت کی حالت میں دیکھنے و چھونے سے انزال ہو گیا تو روزہ نہیں ٹوٹا مگر روزہ دار نے ان حالتوں میں یہ گمان کر کے کھانا پینا شروع کردیا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو اب واقعتاً روزہ ٹوٹ چکا ہے صرف اس کی قضاء لازم ہے کفارہ نہیں ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402،چشتی)

نسوار اور سگریٹ استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)

اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس یا بھوک لگی کہ پانی نہ پینے اورکھانانہ کھانے کی صورت میں موت یقینی ہے ، پھر اس نے کھالیا یا پی لیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ 207)

غروبِ آفتاب سے پہلے دی گئی اذان سن کر یا کسی اور طرح غلطی سے غروبِ آفتاب سے پہلے افطار کر لیا تو روزہ مکمل ہونے کے بجائے ٹوٹ گیا ۔ (ہدایہ جلد 1 صفحہ 207،چشتی)

اور پہلے دی گئی اذان پر وقت ہونے یا نہ ہونے کا شک تھایقین نہیں تھا اس کے باوجود افطار کرلیا توبھی روزہ ٹوٹ گیا قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا ۔ (الاشباہ والنظائر،صفحہ60)

اگر کسی بھی وجہ سے خون تھوک پر غالب آکر حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 203)

سحری کا وقت ختم ہونے کے باوجود(یہ سمجھ کر کہ وقت ختم نہیں ہوا) سحری کھانے میں مشغول رہنے سے روزہ نہیں ہوا افطار تک کھانا پینا منع ہے اور قضاء لازم ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 194،چشتی)

دانت میں پھنسی چیز اگر نگل لی اور وہ چنے سے ذیادہ تھی یا دانتوں سے باہر نکال کر دوبارہ نگل لی تو کم ہو یا ذیادہ ہر صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ 202)

کسی بیماری میں مبتلا ہونے والے یا حادثے کا شکار ہونے والے کو دوائی یا پانی پلانے سے روزہ ٹوٹ گیا فقط قضاء لازم آئے گی کفارہ نہیں،اورایسی دوا جو دماغ یا پیٹ کے زخم پر لگانے کی صورت میں دماغ یا پیت تک سرایت کر جائے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)

ایسی دوا جو ناک سے سونگھی جائے اس کے اثرات دماغ تک پہنچنے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،اور دمہ کے مریض جو وینٹولین استعمال کرتے ہیں اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)

اگر روزہ دار کو روزہ توڑنے پر مجبور کیا جائے اور جان جانے کا خطرہ سمجھ کر روزہ دار روزہ توڑ دے تو بھی شرعاً روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (مبسوط سرخسی جلد 3 صفحہ 98)

مسافر نے صبح صادق سے روزہ رکھا تھا پھر کچھ کھایا پی لیا تو روز ہ ٹوٹ گیا قضاء لازم ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 431)

یہ اور ان جیسی دیگر صورتیں وہ ہیں جن میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن کفارہ لازم نہیں آتا فقط قضاء کرنا ہوگی ۔ (عالمگیری،جلد 1 صفحہ 207،چشتی)(فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 384)

وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا

جسم کے بالوں میں تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)

آنکھوں میں سرمہ یا دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)

مسواک تر ہو یا خشک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)

کسی بھی قسم کی خوشبو لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ417)

ٹیکہ (رگ میں لگایا جائے یا گوشت میں) لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (ردالمحتار جلد 2صفحہ395)

بھول کر کھانے اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم کھایا یا ذیادہ ۔ (شامی جلد 2صفحہ394)

کان میں پانی جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ396)

خود بخود قے ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ وہ کم ہو یا ذیادہ ۔ (بدائع الصنائع جلد2صفحہ92)

احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بدائع الصنائع جلد2صفحہ91)

حلق میں گردو غبار دھواں یا مکھی و مچھر چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)

پچھنا ، سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بہار شریعت)

مجبوراً کسی چیز کو چکھا حلق سے نیچے نہیں اتارا تو روزہ نہیں ٹوٹتا ، جیسے بدمزاج و سخت طبیعت شوہر کی سختی اور ناراضگی سے بچنے کے لئے عورت نے کھانا یوں چکھا کہ حلق تک اس کا اثر نہیں پہنچا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 380)

ایسا آپریشن جو پیٹ اور دماغ کے علاوہ کسی اور عضوِ جسم کا ہو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395،چشتی)

اگر دوچار قطرے پسینہ روزہ دار کے منہ میں چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (فتاویٰ تاتار خانیہ جلد 2صفحہ369،چشتی)

البتہ اگرپسینہ ذیادہ ہو اور حلق میں چلا جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا ، اگر ماں نے اپنے دودھ پیتے بچے کو دودھ پلایا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (البحرالرائق جلد 2 صفحہ 278)

مکروہاتِ روزہ

بلا عذر کوئی چیز چکھنے یا چبانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ199)

منہ میں جمع شدہ لعاب کو نگل لینے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ199)

روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ یا منجن استعمال کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے اور اگر حلق سے نیچے اتر جائے تو فاسد ہو جاتا ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 416)

ناک میں پانی ڈالنے یا کلی کرنے میں پانی بہت ذیادہ استعمال کرنا یا بار بار کلی کرنا مبالغہ میں آتا ہے اور یہ مکروہ ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 199)

روزے کی حالت میں اتنا خون دینا جس سے کمزوری آجائے مکروہ ہے ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ200)

ضرورتِ شدیدہ کے بغیر روزے کی حالت میں دانت یا داڑھ نکلوانا مکروہ ہے ۔ (شامی جلد 2صفحہ 396،چشتی)

جماع کے محرکات یعنی شہوت کے ساتھ بوسہ لینا ، شہوت کے ساتھ دیکھنا و چھونا ، فحش مناظر دیکھنا وغیرہ یہ سب کام مکروہ ہیں ۔ (حجۃ اللہ البالغہ جلد 2 صفحہ 141)

غیبت کرنے ، چغلخوری کرنے ، دھوکہ دینے ، جھوٹی قسم کھانے ، جھوٹی گواہی دینے ، ظلم کرنے ، فحش گوئی کرنے اور بے پردگی کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ صفحہ نمبر 141) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا

فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا محترم قارئین کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو آگاہ فرمایا کہ اللہ کی ...