امر بالمعروف و نہی عن المنکر حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ : لَنْ يَبْرَحَ هٰذَا الدِّيْنُ قَائِمًا يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس دین کی خاطر قیامت تک جنگ کرتی رہے گی ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله : لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3 / 1524، الرقم / 1922)(أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 103، 106، الرقم / 21023، 21052،چشتی)(أبو عوانة في المسند، 4 / 505، الرقم / 7499)(الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 217، 225، الرقم / 1891، 1931)
فرمایا : کہ یہ دین ، دین اسلام ہمیشہ قائم رہے گا اور وجہ یہ ہو گی کہ ہر دور میں قیامت تک کوئی نہ کوئی ایک جماعت اس دین کو قائم رکھنے کےلیے جنگ لڑتی رہے گی، دعوت دیتی رہے گی ، امر و نہی کا فریضہ انجام دیتی رہے گی اور لفظ ارشاد فرمائے : يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ اور اس دین کی حقانیت کےلیے فتنہ گر لوگوں کے خلاف جنگ کرتی رہے گی ۔
محترم قارٸینِ کرام صرف تبلیغ نہیں ، صرف دعوت نہیں ، صرف امر و نہی نہیں ۔ دعوت بھی دے گی ، امر و نہی کا فریضہ بھی ہو گا مگر يُقَاتَلُ أَهْلَ الفِتَنْ ، اہل فتن سے جنگ بھی لڑیں گے اور اسی طرح يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ وہ مسلمانوں کی جماعت دین کی حفاظت کےلیے جنگ بھی لڑتی رہے گی ، مقابلہ بھی کرتی رہے گی، باطل قوتوں سے ٹکراتی بھی رہے گی۔ اس وجہ سے خواہ وہ تھوڑے ہوں یا زیادہ ہر دور میں اللہ اپنے دین کو قائم رکھے گا ۔
محترم قارٸینِ کرام اللہ تبارک وتعالی نے چونکہ اپنے دین کی بقا کی ضمانت دی ہے : اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَ ۔ (سورہ الجر، 15 : 9)
جس طرح قرآن اللہ نے اتارا اسی طرح دین اسلام اللہ نے بھیجا اور قیامت تک اس دین کی حفاظت بھی اللہ نے کرنی ہے ۔ اور دین کی حفاظت اللہ نے امت محمدیہ سے کروانی ہے ۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت نے کرنی ہے اور صاف ظاہر ہے امت کا ہر فرد حفاظت دین کے کام پر مشغول نہیں ہے ۔ پھر اس لیے فرمایا : کہ امت تو بہت ہو گی مگر ہر دور میں میری امت ایک طبقہ ، ایک جماعت ، ہر زمانے ، ہر صدی میں ایسا ایک طبقہ رہے گا جو اس دین کی حمیت و غیرت کےلیے جنگ لڑتا رہے گا ۔ جو اقامت دین کا جھنڈا بلند کرتا رہے گا اور اہل فتن اور خائن و بد دیانت لوگوں کے خلاف ، جو دین کی قدروں کو مٹا رہے ہوں گے ان کے خلاف اس دین کو سربلند کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگاتا رہے گا اور جان و مال قربان کرتا رہے گا ۔
ان کی جدوجہد اور جان و مال کی قربانی کے باعث جو میرے عاشق بھی ہوں گے ، مجھ سے محبت بھی کرتے ہوں گے ، اخلاص بھی ہو گا ، ان کے سبب سے اللہ پاک اس دین کی ہر دور میں حفاظت فرمائے گا ۔ اور وہ لوگ عقیدے میں ، محبت میں ، اکتساب فیض میں مجھ سے جڑے رہیں گے ۔ اللہ کی عطا دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لینے والے لوگ ہوں گے اور پھر ان میں خوبیاں یہ ہوں گی کہ راتوں کو قیام کریں گے، رات کے اندھیروں میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کریں گے اور سجدہ ریز ہوں اور دلوں اور سینوں میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے چراغ جلائیں ۔
فقیر کی درخواست یہ ہے کہ ان ساری خوبیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ اپنے اندر جمع کر لیں ۔ اے مسلم قوم ! اللہ کے عذاب لگاتار ہم پہ اتر رہے ہیں ، آسمان اور زمین سے عذاب ہی عذاب ہیں ، اشرار کا غلبہ ہے ، اگر اللہ کی عذابوں سے بچنا چاہتے ہو اور خیر کی طرف لوٹنا چاہتے ہو تو اپنے اندر وہ خوبیاں پیدا کرو جن خوبیوں کا اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذکر کیا ہے ۔ اور اللہ کا خوف پیدا کرو ، اللہ کی سچی بندگی پیدا کرو، اللہ کی عبادت و تابعداری میں آ جاؤ ، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور صحیح وفاداری میں آ جاؤ ، راتوں کا قیام کرو ، تلاوت آیات کرو ، قرآن کے پیغام کو سمجھو ، سیکھو ، اپنی زندگی میں نافذ کرو ، اپنی اولاد پہ نافذ کرو ، اپنے معاشرے میں نافذ کرو اور اس کے پیغام میں عبادت کے ساتھ خوش اخلاقی بھی ہے ، لوگوں کے ساتھ خوش خلقی سے بات کرو ۔ دین پورا ایک پیکج ہے اسے کُل کے طور پہ زندگیوں میں نافذ کرو ۔ اللہ رب العزت کی رحمتیں ، بخششیں اور برکتیں موسلادھار بارش کی طرح ہمارے اوپر آئیں گی ۔ معاشرے کی برائیوں کے خلاف اپنی جنگ اور جہاد جاری رکھو اور روکنے کے تین درجے ہیں : ⬇
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ. فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ. فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ. وَذَالِکَ أَضْعَفُ الْإِيْمَانِ ۔ فرمایا : مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ. فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ. فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ. وَذَالِکَ أَضْعَفُ الْإِيْمَانِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اپنے ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپنی زبان سے روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو (کم از کم اس برائی کو) اپنے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان کون النهي عن المنکر من الإيمان، 1 / 69، الرقم / 49،چشتی)(أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 20، الرقم / 11166)(أبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 / 123، الرقم / 4340)(الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في تفسير المنکر باليد أو باللسان أو بالقلب، 4 / 469، الرقم / 2172)(النسائي في السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب تفاضل أهل الإيمان، 8 / 111، الرقم / 5008)(ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في صلاة العيدين، 1 / 406، الرقم / 1275)
جو شخص معاشرے کی ایک برائی کو بھی دیکھے تو بحیثیت مومن ، بحیثیت مسلمان، بحیثیت امت محمدی کا فرد اور آقا علیہ السلام کا غلام ہونے، بحیثیت خیرالامم کا فرزند ہونے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے، اپنی قوت سے اس برائی کا خاتمہ کرے، اسے روکے۔ اسے بڑھنے نہ دے اور اگر تمہارے اندر یہ طاقت نہ ہو ایک برائی کو ختم کر سکو اور جہاں سارا معاشرہ برائیوں کے ساتھ بھر گیا ہو، جہاں اوپر سے نیچے تک برائیوں کا راج ہو گیا ہو، جہاں لوگوں کے گھروں میں، سٹرکوں میں، گلیوں میں، بازاروں میں، معیشت، معاشرت، سیاست، ثقافت، تہذیب و اخلاق میں، نجی زندگی میں، اجتماعی زندگی میں۔ زندگی کے ہر گوشے اور ہر حال میں بدی ہی بدی نظر آئے اور نیکی کا خاتمہ کر دیا گیا ہو۔ ہر طرف جھوٹ ہو، مکر ہو، فریب ہو، دجل ہو، لوٹ مار ہو، کذب ہو، ظلم ہو، قتل و غارت گری ہو، دہشتگردی ہو، حرام خوری ہو، خیانت ہو، دیانت کا خاتمہ ہو۔ جہاں سارا معاشرہ ان برائیوں کی آماجگاہ بن گیا ہو تو پھر ایک برائی کو روکنے کے لیے فرمایا : فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ امت مسلمہ کا ہر فرد سنے اور پاکستانی قوم کا ہر شخص سنے ۔
جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہو، تاجدار کائنات کا امتی ہونے کا نام لیتے ہو، ہمیں آج آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید ہماری غیرت دینی کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ ہمارے سوئے ہوئے ایمان کو بیدار کر رہے ہیں، ہم غفلت کی نیند سوئے ہیں، ہمیں بیدار کر کے بتایا جا رہا ہے۔ ایک برئی اگر چھانے لگے تو فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ گونگے بن کے نہ بیٹھے رہو، بے جس، بے ضمیر اور بے غیرت بن کے نہ بیٹھے رہو کہ گھر میں بیٹھ کے باتیں کرو اور برائی کا راج بڑھتا چلا جائے۔ اگر تمہارے دست و بازو میں قوت ہے تو فَلْيُغَيِّرْهُ صرف روکو نہیں بلکہ بدی کو نیکی سے بدل ڈالو۔ شر کو خیر سے بدل ڈالو، ظلم کو عدل سے بدل ڈالو طاقت کے ساتھ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ اور اگر سمجھو کہ مر گئے ہیں، آپ کے دست و بازو میں طاقت نہیں رہی، آپ اٹھ نہیں سکتے، کھڑے نہیں ہو سکتے، انفرادی اور اجتماعی قوت کے ساتھ بدی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
اگر اتنا ہی برا حال ہو گیا ہے تو کم سے کم اپنی آواز بلند کرو بدی کے خلاف۔ جو قوم نہ بدی کے خلاف لڑے، نہ بدی کے خلاف اٹھے اور آواز بلند کرے اس قوم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عذاب کا مستحق ٹھہرایا، اللہ کے عذاب کا۔ فرمایا : امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا جو شرف ہے، جو طرہ امتیاز ہے اس کی نمائیاں خصوصیت یہ ہے کہ تم اپنے معاشرے میں امر بالمعروف کا فریضہ سرانجام دو، نیکیوں کو پھیلاؤ، نیکیوں کی اشاعت کرو اور صرف اشاعت نہ کرو تامرون، حکم دو۔ امر کےلیے حکم دینے کے لیے ایک نظام وضع کیا جاتا ہے، تنظیم ہوتی ہے، جماعتیں بنائی جاتی ہیں، قوت کو اکٹھا کیا جاتا ہے، فکر کو، عمل کو، تدبیر کو ایک نظام کی شکل دی جاتی ہے تب جا کے ایک اجتماعی قوت پیدا ہوتی ہے ۔
فرمایا : تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ، یعنی امر دو، حکم دو نیکیوں کا وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ، اور برائیوں سے روکتے ہو۔ ایک طرف نیکی کو معاشرے میں پھیلانا ہے، دوسری طرف بدی کو معاشرے سے مٹانا ہے روکنا ہے اور اس کے بعد تیسرے درجے پر ارشاد قرآن مجید میں : وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ ۔ اور تم اللہ پر ایمان بھی لاتے ہو ۔
محترمقارٸین : یہ بات توجہ طلب ہے کہ امر بالمعروف کو سب سے پہلے رکھا، نہی عن المنکر کو بعد میں۔ نیکیوں کا حکم دینا اس کا ذکر سب سے پہلے کیا، اب یہ ترتیب قرآن کی ہے میں نے نہیں بنائی، سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 110 ہے، نیکیوں کا حکم دینا، اسے پھیلانا، بڑھانا، قائم کرنا، طاقت دینا، ظاہر کرنا اور نیکیوں کے نظام کو بپا کرنا پہلے نمبر پہ رکھا وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ، اور بدی کے خلاف لڑنا، شر کے خلاف کھڑے ہو جانا اور شر کو مٹانا، شر کا خاتمہ کرنا اور بدی و برائی سے معاشرے کو پاک صاف کرنا اس کو دوسرے نمبر پہ بیان کیا۔ امر و نہی کو بیان کرنے کے بعد تیسرے نمبر پر فرمایا : وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ ۔ اور تم اللہ پر ایمان بھی رکھتے ہو۔ ایمان بااللہ، اب اصولاً تو اس کا ذکر سب سے پہلے آنا چاہیے تھا، بھئی ہر بات تو شروع ایمان ہی سے ہوتی ہے اگر ایمان ہی نہیں ہے تو آگے کام کیا ہو گا۔
مگر اللہ رب العزت نے ترتیب یہ دی کہ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ ۔ کو بعد میں بیان کیا امر اور نہی کو پہلے، اس کی وجہ کیا ہے ؟ اللہ تبارک و تعالی نے امت کو تدبیر سکھائی ہے وہ یہ کہ کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں تم شامل ہو گئے تو ایمان والے تو ہو گئے، جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی بن گئے تو ایمان کی نعمت تو تمہیں مل گئی، مسلمان تو ہو گئے مگر اب اللہ پاک تدبیر یہ سکھا رہے ہیں کہ اس ایمان کو بچایا کیسے جائے، اب اس ایمان کی حفاظت کیسے کی جائے؟ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی بنا کر تمہیں ایمان کی دولت سے سرفراز تو فرما دیا، تم مومن ہو گئے، تمہیں ایمان کی دولت مل گئی، خَيْرَ اُمَّةٍ کا فرد ہو گئے، اب سوال یہ ہے کہ یہ ایمان جو اللہ نے تمہیں دیا اسے بچانے کی فکر بھی ہونی چاہیے یا نہیں؟ آپ کے پاس تھوڑا سا سونا ہو تو اس کو بھی بڑا محفوظ تالوں میں رکھتے ہیں تدبیر کرتے ہیں حفاظت کی ۔
چار پیسے ہوں بینک میں رکھتے ہیں محفوظ کرتے ہیں پیسوں کو، زمین ہو رجسٹری کروا کے چار دیواری لگا کے تدبیر کرتے ہیں حفاظت کی کہ قبضہ گروپ سے بچ جائے۔ کوئی دولت، نعمت، قیمت کی چیز، قدر و قیمت کی چیز آپ کے پاس ہو، کپڑے اچھے ہوں تو گرد و غبار سے بچانے کی تدبیر کرتے ہیں، ہر شئے جس کی کوئی قدر و قیمت ہے اس کو بچانے کی تدبیر کی جاتی ہے اور تدبیریں آپ وضع کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے بھی ایک دولت ہمیں عطا کی ہے اور وہ ایسی دولت ہے کہ کائنات کے بڑے بڑے زمینیں اس کی قدر وقیمت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، اس کائنات کے بڑے بڑے محلات، زیورات، سونا، چاندی، پیسہ، دولت، حکومت، اقتدار کوئی بڑی سے بڑی قیمتی دولت اس دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتی جس دولت سے اللہ رب العزت نے ہمیں بہرہ یاب فرمایا اور وہ دولت کیا ہے ؟ وہ دولت ایمان ہے ۔ اور وہ دولت ایمان جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا کی وہ دولت ایمان یہ نہ سمجھیں کہ فقط صحابہ کرام کو دی تھی، نہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو بڑے دولتمند تھے ایمان کے باب میں، ان کو تو دولت اتنی ملی کہ کائنات کے کسی دور میں کوئی طبقہ بھی اتنی دولت ایمان سے مالا مال نہ ہو گا، جتنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عطا کی ۔ مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اللہ نے اس دولت ایمان کے عطا کرنے میں آخری زمانے کے میری امت کو بھی محروم نہیں چھوڑا، وہ دولت ایمان تمہیں بھی اسی طرح فراوانی سے دی ہے جس طرح امت اور تاریخ اسلام کے دور اول کے لوگوں کو دی تھی ۔
عَن أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ. لَا يُدْرَی أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ ۔
ترجمہ : حضرت اَنس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری اُمت کی مثال بارش (کے قطروں کی) مانند ہے ۔ معلوم نہیں اس کا اوّل بہتر ہے یا آخر ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 130، 143، الرقم / 12349، 12483)(الترمذي في السنن، کتاب الأمثال، باب مثل الصلوات الخمس، 5 / 152، الرقم / 2869)(البزار في المسند، 4 / 244، الرقم / 1412،چشتی)(أبو يعلی في المسند، 6 / 380، الرقم / 3717)(الطيالسي في المسند، 1 / 90، الرقم / 647، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 277، الرقم / 1352)
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ارشاد فرمایا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے : مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ. میری امت کی مثال بارش کے قطروں کی طرح ہے یعنی ایمان اور اللہ کی رحمت اور اللہ کی بخشش اور اللہ کی مغفرت اور اللہ کا ثواب، اللہ کی طرف سے اجر اور اس کی عطا اور اس کی رحمتیں، اس کی نعمتیں، اس کی شفقتیں یہ اللہ پاک ایمان کی دولت میری امت پہ اس طرح مسلسل کرتا رہتا ہے جیسے مسلسل بارش برستی ہے اور اس کے قطرے تسلسل کے ساتھ زمین کو بھگوتے رہتے ہیں۔ میری امت کی مثال پر ایمان کی دولت و رحمت کی دولت اور اللہ کے کرم اور بخشش کی دولت کا حساب اسی طرح ہے جیسے بارش ہوتی ہے ۔
اور پھر فرمایا : لَا يُدْرَی أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ. فرمایا : کہ معلوم نہیں کہ میری امت کا پہلا زمانہ بہتر ہو گا یا آخری زمانہ بہتر ہو گا، یعنی آخری زمانے کے لوگوں کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ترغیب دے رہے ہیں کہیں یہ نہ سمجھنا کہ ہم پہلے زمانوں میں نہ ہوئے، آخر زمانے میں ہوئے تو شاید اللہ کے کرم کا خزانہ کم ہو گیا ہو گا، نہیں، شاید اللہ کی رحمت کا برسنا کم ہو گیا ہو گا، نہیں، شاید اللہ کی عطائیں کم ہو گئی ہوں گی، نہیں، فرمایا : میری امت پر اللہ کی عطائیں، اللہ کی رحمتیں، اللہ کی بخششیں، اللہ کی نوازشیں اسی طرح مسلسل ہیں جیسے بارش کے قطرات مسلسل گرتے رہتے ہیں۔ فرمایا : تمہیں کیا خبر لَا يُدْرَی تمہیں اندازہ نہیں أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ. کہ پہلے زمانے کا حال بہتر تھا یا آخری زمانے کا حال بہتر تھا کہ اللہ اپنی عطاؤں میں آخری زمانے میں بھی کمی نہیں فرمائے گا۔ اللہ اپنی رحمت میں آخری زمانے کے لوگوں کےلیے بھی کمی نہیں فرمائے گا ۔
حضرت عبدالرحمن خضرمی روایت کرتے ہیں : أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ مِنْ أُمَّتِي قَوْمًا يُعْطَوْنَ مِثْلَ أُجُوْرِ أَوَّلِهِمْ فَيُنْکِرُوْنَ الْمُنْکَرَ ۔
ترجمہ : مجھے اس نے خبر دی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک میری اُمت میں ایک قوم ایسی ہے جس کو پہلے لوگوں کے اجور (ثواب) کی طرح کا اجر دیا جائے گا۔ وہ برائی سے منع کرنے والے ہوں گے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 62، الرقم / 16643، وأيضًا، 5 / 375، الرقم / 23229)(الهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 261، 271،چشتی)(المناوي في فيض القدير، 2 / 536)(السيوطي في مفتاح الجنة، 1 / 68)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ مِنْ أُمَّتِي قَوْمًا يُعْطَوْنَ مِثْلَ أُجُوْرِ أَوَّلِهِمْ، کہ میری امت کے آخری زمانے میں بھی ایسے لوگ ہوں گے کہ انہیں ان کے اعمال کا اجر اتنا ہی دیا جائے گا جتنا پہلے زمانے کے لوگوں کو عطا کیا گیا تھا۔ مبارک ہو اے اہل ایمان! اے اہل اسلام، اے غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : إِنَّ مِنْ أُمَّتِي اگر کسی اور کی امت ہوتی تو خدا کے کرم کا عالم یہ نہ ہوتا، یہ شرف، یہ انفرادیت، یہ إِنَّ مِنْ أُمَّتِي امتیاز میری امت ہونے کے سبب سے ہے، چونکہ تم میری امت ہو اور میں نے رب سے مانگا تھا کہ مولی کسی زمانے میں میری امت پہ تیرا کرم کم نہ ہو۔ سو اس نے مجھے وعدہ کیا إنَّا أعْطَيْنکَ الکَوْثَرَ، میرے حبیب! ہم نے تمہیں ساری خیرات، ساری حسنات، ساری برکات کی اتنی کثرت عطا کی کہ ابوبکر و عمر کا زمانہ ہو یا قیامت کے قریب کا زمانہ ہو، اللہ کی رحمتیں اور آپ کی شفقتیں آپ کی امت پر یکساں برستی چلی جائیں گی۔ کسی زمانے میں خدا کا کرم کم نہ ہو گا، کسی دور میں اللہ کی رحمت کم نہ ہو گی اگر ہم خود اس کے کم ہو جانے کا باعث نہ بنیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے : إِنَّهُ سَيَکُوْنُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ لَهُمْ مِثْلُ أَجْرِ أَوَّلِهِمْ. يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُقَاتِلُوْنَ أَهْلَ الْفِتَنِ ۔
ترجمہ : بے شک اس اُمت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے لیے اجر اس اُمت کے اولین کے برابر ہو گا۔ وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور فتنہ پرور لوگوں سے جہاد کریں گے ۔ (أخرجه البيهقي في دلائل النّبوّة، 6 / 513،چشتی)(السّيوطي في مفتاح الجنة، 1 / 68)(کنز العمال، 14 / 72، الرقم / 38240)
بڑی توجہ طلب ہیں یہ الفاظ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّهُ سَيَکُوْنُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ ، میری یہ امت، یہاں ایک عقیدے کا نقطہ بھی بیان کر دوں هَذَا اور هَذِهِ، یہ جو ضمیر ہے یہ قریب کے لیے، حاضر کے لیے ہے۔ کوئی چیز سامنے ہو تو پھر هَذَا اور هَذِهِ کہتے ہیں اور کوئی چیز دور ہو تو پھر ذَالِکَ اور تِلکَ کہتے ہیں۔ حاضر کےلیے هَذَا اور هَذِهِ کہتے ہیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے تھے، آج سے پندرہ سو سال پہلے فرما رہے تھے اور کھڑے تھے شہر مدینہ مسجد نبوی کے ممبر پر، کھڑے وہاں تھے اور مخاطب ابوبکر و عمر تھے، عثمان و علی تھے، ابن عمر، ابن مسعود رضی اللہ عنہم تھے ۔ سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کی جماعت بیٹھی تھی اور ذکر کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت سے پہلے امت کے آخری دور کا ۔ اور کیا فرما رہے ہیں : إِنَّهُ سَيَکُوْنُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ میری اس امت کے آخری زمانے میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دور و نزدیک ہمارے لیے ہے، جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے، جیسے صحابہ کو تک رہے تھے ویسے آپ کو بھی تک رہے تھے۔ هَذِهِ الْأُمَّةِ کہنے کا مطلب یہ ہوا جیسے سامنے بیٹھے ہوئے صحابہ سے خطاب فرما رہے تھے۔ اسی طرح یہ فرما رہے تھے : سَيَکُوْنُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخاطب صرف مسجد نبوی یا ریاض الجنۃ میں بیٹھے ہوئے چند سو صحابہ نہ تھے۔ اگر وہ چند سو صحابہ ہوتے تو آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ کا کلمہ نہ فرماتے، مخاطب ساری امت تھی، لفظ هَذِهِ فرمایا۔ تو پتہ چلا کہ دور صحابہ ہو یا آج کا دور اور خواہ قیامت تک کے مسلمانوں کا دور ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہر زمانہ اسی طرح آنکھوں کے سامنے حاضر ہے جس طرح صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حاضر تھے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے ہر دور کو تک رہے تھے، دیکھ رہے تھے اور مخاطب فرما کے کہہ رہے تھے ام نے فرمایا : سَيَکُوْنُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ، میری اس امت کے آخری زمانے میں جماعتیں ہوں گی، طبقات ہوں گے قَوْمٌ لَهُمْ مِثْلُ أَجْرِ أَوَّلِهِمْ. اب اول کون بیٹھے تھے، آخر کا اشارہ ہماری طرف تھا، آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ کا اشارہ قیامت تک، بعد کے زمانے کے مسلمانوں کی طرف تھا اور أَوَّلِهِمْ یہ اشارہ ان کی طرف تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھے تھے جو دور صحابہ کے لوگ تھے، جو دور تابعین کے لوگ تھے، جو سامنے تھے وہ أَوَّلِهِمْ تھے اور ہم اور ہمارے بعد کے مسلمان یہ آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ تھے۔ فرمایا : ایسی جماعتیں آئیں گی، ایسے لوگ آئیں گے میری اس امت کے آخری زمانوں میں لَهُمْ مِثْلُ أَجْرِ أَوَّلِهِمْ. میرے صحابیو! سن لو ہوں گے آخری زمانے میں مگر ان کو اتنا ہی اجر عطا کیا جائے گا جتنا اجر آج کے زمانے میں تمہیں عطا کیا جا رہا ہے۔ جتنا میری امت کے دور اول میں اللہ پاک جتنا ڈھیروں اجر عطا فرما رہا ہے اسی کی مثل آخری زمانے میں میرے غلاموں کو اجر عطا ہو گا ۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : وہ کیا کام کریں گے ؟ ان کی خوبی کیا ہو گی؟ وہ کیا کام کریں گے کہ آخری زمانے میں جب ایمان کمزور ہو گا لوگوں کا، فتنے زیادہ ہوں گے، گمراہیاں ہوں گی، فسق و فجور ہو گا تو آخری زمانے میں آپ کی امت کے لوگوں کو وہ کون سے اعمال ہوں گے کہ انہیں اتنا ہی اجر عطا کیا جائے گا جتنا آج اول زمانے میں ہمیں عطا ہو رہا ہے۔ ایک سوال تھا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ جو اجر آپ کے اول زمانے کے برابر عطا کیا جائے گا وہ اجر سن لو کس چیز پر ہو گا۔ فرمایا : لَهُمْ مِثْلُ أَجْرِ أَوَّلِهِمْ. اس آخری زمانے کے لوگوں کا اجر میری امت کے اول دور کے لوگوں کے برابر ہو گا، کس وجہ سے؟ يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ کہ اس دور کے حکمران بد ہوں گے، اشرار ہوں گے، کرپٹ ہوں گے، خائن ہوں گے، لٹیرے ہوں گے، ڈاکو ہوں گے، چور ہوں گے، غاصب ہوں گے، طاقتور ہوں گے، لوگ کمزور و محروم ہوں گے، ایمان کمزور ہو گا، ہر طرف شراب ہو گی، بدکاری ہو گی، ظلم ہو گا، طغیانی ہو گی، نافرمانی ہو گی، معاشرے میں فسق و فجور ہو گا، بدی ہی بدی کا راج ہو گا۔ جدھر دیکھو گے برائی ہی برائی نظر آئے گی۔مگر ایسے ماحول میں وہ لوگ میری امت میں زندہ ہوں گے کہ يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وہ اس معاشرے کی بدی کی ہوا کے پیچھے نہیں چلیں گے بلکہ ڈٹ کے کھڑے ہو جائیں گے اور نیکی کا جھنڈا بلند کریں گے، نیکیوں کا حکم دیں گے وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ اور بدی کے خلاف جنگ لڑیں گے، سینہ سپر ہو جائیں گے، اٹھ کر جہاد کریں گے، انقلابی جدوجہد کریں گے۔ نیکی کو بلند کرنے اور بدی کو مٹانے کے لیے اور صرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بات نہیں۔ ورنہ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ فقط تبلیغ کرنے سے یہ فریضہ ادا ہو گیا اور اجر برابر مل گئے، نہیں، فرمایا : ایک تو یہ کہ نیکی کا حکم دیں گے اور بدی کو روکیں گے، یہ تو ایک بات فرمائی اور فرمایا : صرف یہی نہیں، ان کو جو پہلے زمانوں کے برابر اجر دیا جا رہا ہے، اتنا عظیم مرتبہ دیا جا رہا ہے، تو خالی تبلیغ سے نہیں ہو گا امر بالمعروف اس کی بنیاد ہو گی ۔ اس کا رکن اول ہو گا، ان کو اتنا بڑا اجر کہ وہ دور صحابہ اور دور بابعین والا اجر پائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ۔ ایک امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت ہو گی اور دوسرا کیا ہو گا ؟ جو انہیں اس مقام پر پہنچایا جائے گا، فرمایا : وَيُقَاتِلُوْنَ أَهْلَ الْفِتَنِ. جو اس دور میں فتنے بپا کرنے والے ہوں گے ان کے خلاف ڈٹ کر جنگ لڑیں گے۔ یعنی وہ محض تبلیغی لوگ نہیں ہوں گے وہ انقلابی لوگ ہوں گے۔ ان کا کام فقط تبلیغ نہیں ہو گا، فقط تقریر نہیں ہو گا، ان کا کام فقط امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہیں ہو گا بلکہ وَيُقَاتِلُوْنَ أَهْلَ الْفِتَنِ. یہ حدیث پاک ہے۔اہل فتن، جن لوگوں نے فتنہ بپا کیا ہو گا اس دور میں، فتنہ کون بپا کرتا ہے، طاقتور لوگ، اقتدار والے لوگ، سلطنت والے لوگ، پیسے والے لوگ، جو مضبوط، مستحکم، طاقتور ہوتے ہیں، بااثر لوگ وہ جو طاقتور لوگ فتنے بپا کریں گے یہ کمزور اور غریب ہو کر بھی ان کے خلاف ڈٹ جائیں گے ۔ وَيُقَاتِلُوْنَ أَهْلَ الْفِتَنِ. ارے چپ کر کے گھر بیٹھنے والو! تمہیں اول زمانے کا اجر نہیں ملے گا، اجر انہی کو ملے گا جو گھروں سے نکلیں گے، اجر انہی کو ملے گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین بچانے کے لیے اور خیانت کے خاتمے کے لیے ، جنگ لڑیں گے، جہاد کریں گے، جدوجہد کریں گے، عَلمِ حق بلند کریں گے ۔ اور پھر سوال ہوا، کیا یہی دو خوبیاں ہوں گی؟ سوال پیدا ہوتا ہے امر بالمعروف بھی ہو گئی، نہی عن المنکر بھی ہو گیا اور اہل فتن، فتنہ بپا کرنے والوں کے خلاف ایک منظم جنگ بھی ہو گئی۔ ان کی کوئی اور بھی علامت ہے آقا ؟ کئی جماعتیں ہو سکتی ہیں یہ دعوی کرنے والی، کئی لوگ ہو سکتے ہیں جو کہیں کہ ہم بھی یہ کرتے ہیں۔ کوئی خاص علامت بھی ہے؟ تو میرے آقا نے فرمایا : ہاں، خاص علامت بھی ہے۔اس علامت کے ذریعے پھر تم سب دعوی کرنے والوں میں ان کو چن سکتے ہو، وہ کیا ؟ متفق علیہ حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَيَأْتِيَنَّ عَلٰی أَحَدِکُمْ يَوْمٌ وَلَا يَرَانِي، ثُمَّ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ مَعَهُمْ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! تم لوگوں پر ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ تم مجھے دیکھ نہیں سکو گے لیکن میری زیارت کرنا (اس وقت) ہر مومن کے نزدیک اس کے اہل اور مال سے زیادہ محبوب ہو گا ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1315، الرقم / 3394،چشتی)(مسلم في الصحيح کتاب الفضائل، باب فضل النظر إليه صلي الله عليه وآله وسلم و تمنيه، 4 / 1836، الرقم / 2364)(أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 449، 504، الرقم / 9793، 10558)(ابن حبان في الصحيح، 15 / 167، الرقم / 6765)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ خاص علامت سن لو، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، اس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے لَيَأْتِيَنَّ عَلٰی أَحَدِکُمْ يَوْمٌ وَلَا يَرَانِي، تم لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا اور میری امت میں وہ دور آئے گا، وہ لوگ آئیں گے، وہ مسلمان آئیں گے جنہوں نے مجھے دیکھا نہیں ہو گا ثُمَّ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ مَعَهُمْ. مگر میرے عاشق بہت ہوں گے، مجھ سے محبت بہت کریں گے اور میری ذات کے ساتھ ان کے عشق و محبت کا عالم یہ ہو گا، وہ کہیں گے مولا ہمارا سارا مال و دولت بھی لے لے، گھر بار بھی لے لے، تجارت و کاروبار بھی لے لے، ہماری اولاد بھی لے لے، جو کچھ ہمارے ساتھ ہے سب کچھ قربان کرتے ہیں ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک دکھا دے ۔ میرا رخ تکنے کےلیے، ایک دیدار کےلیے سب کچھ لٹانے کےلیے تیار ہوں گے، یہ ان کی علامت ہو گی۔ پھر تم پہنچان لوگ گے کہ امر بالمعروف بھی کریں گے، نہی عن المنکر بھی کریں گے، اہل فتن کے خلاف جنگ بھی لڑیں اور ایسا دعوی کرنے والے اگر کئی ہوں تو ان میں دیکھو کہ پھر ان میں عاشقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں؟ جو اپنا تن من دھن، مال، اولاد سب کچھ ایک دیدارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لٹا دے ۔ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صحیح مسلم کی روایت ہے، یہ بھی حدیث صحیح ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ يَکُوْنُوْنَ بَعْدِي، يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری اُمت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے۔ ان میں سے ہر ایک کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں میری زیارت کر لیں ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب فيمن يود رؤية النبی صلی الله عليه وآله وسلم بأهله وماله، 4 / 2178، الرقم / 2832،چشتی)(أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 417، الرقم / 9388)(ابن حبان في الصحيح، 16 / 214، الرقم / 7231)(ابن عبد البر في التمهيد، 20 / 248)(الديلمي عن أبي ذر رضی الله عنه في مسند الفردوس، 1 / 202، الرقم / 809)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بات اور کھول دی ۔ فرمایا : مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ يَکُوْنُوْنَ بَعْدِي، میرے بعد کے زمانوں میں جب لوگ آئیں گے، آخر امت کی بات کرتے ہوئے فرمایا : ان کا عالم یہ ہوگا کہ میرے ساتھ انہیں بڑی شدید محبت ہوگی، أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا شدید بھی تھوڑی ہے، شدید سے بڑھ کر مجنونانہ محبت ہوگی، وہ مجنوں کی طرح میری عاشق ہوں گے يَکُوْنُوْنَ بَعْدِي، مجھے دیکھا نہیں ہو گا۔ میری باتیں سنی ہوں گی، میری زلفوں کے تذکرے سنیں گے، میری پیاری پیاری آنکھوں کا تذکرہ سنیں گے، میرے اٹھنے بیٹھنے کے انداز سنیں گے، میرا رخسار، میرا چہرہ، میرے لب، میری احادیث، میرے شب و روز کے احوال سنیں گے اور سن سن کر میرے اتنے عاشق ہوں گے، کہیں گے : يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ. ان میں سے ایک ایک شخص یہ کہے گا کہ مولا میرا سب کچھ لے لے ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مطارک دکھا دے۔ میری مال و دولت، اولاد و اہل و عیال اگر سب کچھ بھی لٹ جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک دیدار نصیب ہو جائے تو وہ اس کےلیے بھی تڑپیں گے۔ فرمایا : امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے والوں میں اور فتنہ بپا کرنے والوں کے ساتھ جنگ کرنے والوں میں اگر کئی جماعتیں اور لوگ ایسے ہوں تو ان میں پھر تلاش کرنا کہ میرا عاشق کون ہے۔ جو عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں اور ان شرائط کو پورا کریں فرمایا : ان کو وہی اجر ملے گا جو اول زمانے میں ملتا ہے ۔ اب یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور دین حق کی اقامت کےلیے اٹھنا یہ عمل اللہ تبارک و تعالی کو اتنا پسند ہے کہ اسی سورۃ آل عمران میں اللہ پاک نے اہل کتاب کا ذکر فرمایا، اہل کتاب جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے تک یا آپ کے زمانہ اقدس سے پہلے مومن تھے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے تو پھر ایمان کی ایک ہی شرط اور ایک ہی پیمانہ رہ گیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے تو مومن ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ لائے وہ کافر۔ پھر پیمانہ بدل گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے اس زمانے تک قرآن مجید نے مومنین اہل کتاب کا ذکر کیا ۔ اب دیکھئے، چند خوبیوں کو سنیے، تاکہ ہم بھی ان کو اپنائیں کہ اہل کتاب میں سے بھی جو لوگ اس طرح کے تھے اللہ نے ان سے پیار کیا، ان کی تعرف کی اور فرمایا : لَيْسُوْا سَوَآءً ط مِنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 113)
یعنی ۔ سارے اہل کتاب کو ایک جیسا نہ جانو، یہ یہود و نصاری تھے اہل کتاب، فرمایا : سب اہل کتاب جو ہیں سب کو ایک ہی کھاتے میں شمار نہ کرنا، سارے ایک جیسے نہیں ہیں، یہ کتنا پیار بھرا انداز ہے، کوئی کسی کو بچانا چاہے تو اس سے بات شروع کرتا ہے، بھئی تم تو انہیں جو بھی جانتے ہو سو جانتے ہو مگر سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ کیا ہیں : لَيْسُوْا سَوَآءً ط سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔ مِنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ اُمَّةٌ قَآئِمَةٌ ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 113) ۔ ان اہل کتاب میں کچھ لوگ اور کچھ طبقات ایسے بھی ہیں جو راتوں کو قیام کرتے ہیں۔
اب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خالی ایک کام سے کام نہیں چلتا، اللہ تبارک وتعالی نے ایک پورا پیکج دیا ہے، سب شرائط اکٹھی پوری ہوں تو نتائج پیدا ہوتے ہیں فرمایا : اُمَّةٌ قَآئِمَةٌ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اب تک رات کے اندھیروں میں قیام کرتا ہے۔ جو اٹھ کر قیام کرتے ہیں، اللہ کو رات کا قیام کرنا بڑا پسند ہے۔ اے اہل فتن کے خلاف جنگ لڑنے والو! اگر اپنی جنگ کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہو اور اپنے اجر اول زمانے کے لوگوں کے برابر کرنا چاہتے ہو تو راتوں کو اٹھنے والے بن جاؤ، راتوں کو قیام اللہ کےلیے کرنے والے بن جاؤ، اُمَّةٌ قَآئِمَةٌ امت ہے جو حق پر قائم ہے يَتْلُوْنَ اٰيٰتِ ﷲِ اٰنَآءَ الَّيْلِ، ایسی امت اور ایسا طبقہ ہے جو آج بھی قائم ہے حق پر اور راتوں کو اٹھ کر قیام کر کے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ آج تک ان میں سے کچھ لوگ قائم ہیں حق پر اور حق پر قائم ہونے کے ساتھ ان کی علامت یہ ہے يَتْلُوْنَ اٰيٰتِ ﷲِ اٰنَآءَ الَّيْلِ اور جب رات کے اندھیرے چھا جاتے ہیں تو پھر اٹھ کر قیام بھی کرتے ہیں اور میری آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں، رات کے اندھیروں میں ۔ وَهُمْ يَسْجُدُوْنَ ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 113) ۔ اور رات کے اندھیروں میں میرے حضور سجدہ ریزی بھی کرتے ہیں۔ ایک شرط بیان کی کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو آج تک حق پر قائم ہے۔ دوسری شرط رات کو اٹھ کر قیام کرتے اور میری آیتوں کو تلاوت کرتے ہیں اور تیسرا میرے حضور رات کو سر بسجود ہوتے ہیں اور چوتھا يُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ، اور اللہ اور آخرت پر جیسے ان کے پیغمبروں نے انہیں تعلیم دی اس پر آج تک ایمان رکھتے ہیں۔ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ اور وہ اچھائی و نیکی کا حکم دیتے ہیں اپنے معاشرے میں، اپنے اہل مذہب میں، اپنی سوسائٹی میں اور برائیوں سے روکتے ہیں یعنی انہوں نے امر اور نہی کا فریضہ ترک نہیں کیا۔
آج بھی لڑتے ہیں حق اور سچ کو پھیلانے کےلیے اور بدی و باطل کو مٹانے کےلیے ۔ وَيُسَارِعُوْنَ فِی الْخَيْرٰتِ ۔ اور جب نیکی کے معاملات آ جائیں تو سب سے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ خیرات کا معاملہ آ جائے تو سب سے آگے بڑھ جاتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے محبت کرتے ہیں، مال و دولت، اولاد، اہل و عیال سب کچھ لٹ جائے تب بھی ان کا عشق مجھ سے کم نہیں ہوتا، میرے دیدار کے طالب رہتے ہیں، حق پر قائم رہتے ہیں، راتوں کو تلاوت کرتے ہیں۔ مومنین کی بات شروع ہو گئی اہل کتاب کے بعد، سجدہ ریز ہوتے ہیں، قیام لیل کرتے ہیں اور پھر امر بالمعروف کا فریضہ جاری رکھتے ہیں نہی عن المنکر کرتے ہیں ، ہتھیار نہیں ڈال دیتے۔ بدی کو دیکھ کر مایوس ہو کر بیٹھ نہیں جاتے، ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور حق کا پرچم بلند کرنے کے لیے جہاد کرتے ہیں اور خیرات کے کاموں میں سب سے آگے بڑھتے ہیں۔ اور فرمایا : وَاُولٰئِکَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 114) ۔ اور یہ صالحین میں سے ہیں ۔
آپ اندازہ کر لیں کہ اگر پہلے دور کے مومنین اہل کتاب کی تعریف کر کے اللہ تعالی نے انہیں صالحین کہا تو اس میں بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو سر فہرست رکھا۔ یہ سارا ارشاد فرما کر اس سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو خطاب کیا۔ فرمایا : وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ، یہاں فرمایا تھا نا مِنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ اُمَّةٌ قَآئِمَةٌ، کہ وہ پرانے مومنین اہل کتاب میں بھی ایک امت ہے اب تک، جو حق پر قائم ہے۔ سنا کر فرمایا : جب اہل کتاب کے اُن پہلے دور کے مومنین میں ایک طبقہ ہمیشہ حق پر قائم رہا اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتا رہا اور میں نے ان سے پیار کیا تو اے میرے محبوب کے غلامو! تمہیں بھی چاہیے کہ قیامت تک ایک طبقہ انہی خوبیوں پر قائم رہے ۔ فرمایا : وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ، تم میں بھی ایک جماعت، ایک طبقہ ایسا ضرور باقی رہے، ہونا چاہیے : يَدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 104) ۔ جو لوگوں کو خیر کی دعوت دیتے رہیں، یہ نہیں کہ خود نماز پڑھ لی، خود تلاوت کر لی، بچے بے پرواہ ہیں، آنکھوں کے سامنے بچے بے نمازی ہو رہے ہیں، بچے بری فلمیں دیکھ رہے ہیں، بے حیائی کی طرف جا رہے ہیں، دین سے دور جا رہے ہیں اور لاڈ میں اپنے بچوں کو دین کی طرف لانے کی دعوت نہیں دیتے، تو تم نے معاشرے میں بھلائی کو کیا فروغ دینا ہے۔ يَدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ، سب سے پہلے دعوت الی الخیر دیتے ہیں اور خیر کی دعوت کی ابتدا اپنے گھر سے ہوتی ہے۔ اپنی بیوی بچوں سے ہوتی ہے، اپنی اولاد و بنات سے ہوتی ہے پھر اپنے پوتوں اور نواسوں سے ہوتی ہے۔ جو شخص اپنے گھر کے افراد کو، جو آپ کے اہل خانہ ہیں، اپنی بیوی بچے ہیں، اپنی اولاد ہے جو انہیں خیر پر چلنے کی دعوت نہیں دیتا اسے گھر سے باہر دین کی دعوت دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ گھر کی کشتی ڈوبی جا رہی ہو اور باہر عمامے، جبے پہن کر بڑی وعظ تبلیغیں کی جا رہی ہوں۔ ایسے کردار پر قیامت کے دن گریبان پکڑ لیا جائے گا ۔ قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ۔ (سورہ التحريم، 66 : 6) ۔ پہلے اولاد اور بچوں کو بچاؤ، انہیں دین سکھاؤ، پہلے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام بناؤ، پہلے ان کی تربیت کرو اور ان کو دعوت الی الخیر کے ذریعے اس نیک راہ پہ لگاؤ، پھر گھر کے بعد کسی اور کو دعوت دو اور امر و نہی کا فریضہ سرانجام دو ۔
فرمایا : وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ ایسے لوگ، ایسی جماعت تم میں ہمیشہ قائم رہے جو خیر کی دعوت دیتی رہے، وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ، اور جو نیکیوں کا حکم دیتی رہے وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط اور جو بدی سے روکتی رہے ۔ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 104)
یہ لوگ ہی فلاح پانے والے ہوں گے، انہی کو فلاح ملے گی، انہی کو کامیابی ملے گی، انہی کو کامرانی ملے گی، آپ ہی سرخرو ہوں گے اور آپ ہی اللہ کے عذاب سے بچیں گے۔ جب یہ ساری چیزیں ارشاد فرما دیں، اب آقا علیہ السلام نے حدیث پاک میں اس کی مزید وضاحت فرمائی : عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِﷲِ ۔ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَهُمْ حَتّٰی يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ ﷲِ وَهُمْ عَلٰی ذَالِکَ ۔
ترجمہ : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گی۔ جو اُنہیں ذلیل کرنے کا ارادہ کرے گا یا اُن کی مخالفت کرے گا وہ اُنہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا امر(یعنی قیامت کا دن) آئے گا اور وہ اِسی حالت پر ہوں گے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب سؤال المشرکين أن يريهم النبي صلی الله عليه وآله وسلم آية فآراهم انشقاق القمر، 3 / 1331، الرقم / 3442،وأيضًا في کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی : إنما قولنا لشيئ، 6 / 2714، الرقم / 7022)(مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3 / 1524، الرقم / 1037)(أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 101، الرقم / 16974،چشتی)(أبو يعلي في المسند، 13 / 375، الرقم / 7383)
حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں ، حدیث بخاری و مسلم کی ہے متفق علیہ : لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِﷲِ ۔ قیامت تک ہر دور میں میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی۔ اب اس جماعت کا نام نہیں ہے چونکہ پندرہ صدیاں گزریں ہر صدی میں جماعت کا ہونا لازم ہے اور قیامت تک رہے گی، جب قیامت آئے گی اس وقت بھی حق پر قائم رہنے والی ایک جماعت ہو گی۔ اور وہ جماعت سیدنا امام محمد مہدی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہو گی، ان کی اقتدا میں جنگ لڑے گی اور سیدنا عیسی علیہ السلام قیادت فرما رہے ہوں گے اور حق پر قائم جماعت سیدنا عیسی مسیح علیہ السلام اور سیدنا امام محمد مہدی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دجال کے لشکروں سے جنگ لڑے گی اور دجال کو باب لُد کے مقام پر قتل کر دے گی اور حق کو سر بلند کرے گی ۔ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِﷲِ ۔ ہر دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری ایک امت قائم رہے گی، تو آپ نے دیکھ لی تعریف، تو محض دعوت دینے اور تبلیغ کرنے سے اس حکم کی ادائیگی مکمل نہیں ہوتی، جب امام مہدی رضی اللہ عنہ آئیں گے فقط دعوت و تبلیغ نہیں ہو گی، وہ صاحب عَلم ہوں گے، وہ صاحب جہاد ہوں گے۔ دجال کی دجالی قوتوں کے ساتھ جنگ لڑیں گے اور اسلام کی سلطنت کو پوری کائنات میں قائم کریں گے۔ یہ دعوت و تبلیغ بھی ہے، امر و نہی بھی ہے، قتال اہل فتن بھی ہے اور بیک وقت حق کو سربلند کرنے کی انقلابی جدوجہد بھی ہے۔ فرمایا : ایک جماعت ہر دور میں حق پر قائم ہو گی لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَهُمْ، اب یہاں ایک بڑی عجیب نشانی بیان کی، کھول کھول کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بات سمجھا دی تا کہ شک و شبہ نہ رہے۔ فرمایا : وہ جماعت جو حق پر قائم ہو گی، امر بالمعروف کا فریضہ ادا کرے گی نہی عن المنکر کا فرض ادا کرے گی اور دعوت الی الخیر دے گی اور معاشرے میں نیکی کو بپا کرنے کی جنگ لڑے گی ۔ اس کی ایک اور علامت یہ ہو گی کہ ایسی وہ جماعت نہیں ہو گی کہ کوئی بھی اس کی مخالفت نہ کرے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمایا ، متفق علیہ حدیث بخاری و مسلم کی، وہ ایسے لوگ نہیں ہوں گے کہ ہر کوئی انہیں اچھا جانے، جسے ہر کوئی اچھا جانے وہ کبھی اچھا نہیں ہو سکتا، یہ ایک اصول کی بات ہے اگر ہر کوئی جسے اچھا کہے وہ اچھا ہوتا تو پیغمبروں کی مخالفت کوئی نہ کرتا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پتھر کوئی نہ مارتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تلواروں سے حملہ کوئی نہ کرتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار کوئی زخمی نہ کرتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جادوگر کوئی نہ کہتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاعر کوئی نہ کہتا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کوئی مخالفت نہ کرتا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو گھر سے کوئی نہ نکالتا، حضرت موسی علیہ السلام کو وطن چھوڑ کے نہ جانا پڑتا، حضرت شعیب علیہ السلام کے خلاف لوگ نہ ہوتے، حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں نہ کاٹی جاتیں۔ اگر اچھا کا معنی یہ ہے جسے ہر کوئی اچھا کہے۔ جسے ہر کوئی اچھا سمجھے وہ شخص کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ چونکہ ہر کوئی میں تو ظالم بھی ہے مظلوم بھی ہے، جسے ظالم بھی اچھا جانیں، مظلوم بھی اچھا جانیں وہ اچھا کہاں سے ہو گیا۔ جسے ڈاکو اور چور بھی اچھا کہیں اور جو ُلٹ گیا ہے وہ بھی اچھا کہے وہ اچھا کہاں سے ہوا ؟ جسے قاتل بھی اچھا کہے اور مقتول کے وارث بھی اچھا کہیں وہ اچھا کیسے بن گیا، جسے بد بھی اچھا کہیں لٹیرے بھی اچھا کہیں، بے ایمان شخص بھی اچھا کہے اور ایماندار، کمزور بھی اچھا کہے تو وہ اچھا کیسا ؟ ارے اچھائی کا کوئی پیمانہ ہونا چاہیے ۔ اچھائی کا پیمانہ وہ ہے جو انبیاء کی سیرت سے ہے۔ کہ حق کے طلبگار اسے اچھا کہیں اور حق کا راستہ روکنے والے اسے گالی دیں، اسے برا کہیں جیسے تمام انبیاء علیہم السلام کے خلاف بڑے بڑے لوگ ان کی مخالفت میں اترے، ان پر تہمتیں لگانے لگے، الزامات لگانے لگے، برا بھلا کہنے لگے، انہیں گھر سے نکالنے لگے، انہیں قتل کرتے رہے، شہید کرتے رہے۔ تو اچھا ہونے کی علامت ہے کہ اچھے اچھا کہیں اور برے برا کہیں وہ اچھا ہوتا ہے ۔ کمزور لوگ اچھا کہیں، غریب لوگ اچھا کہیں، مظلوم لوگ اچھا کہیں، ظلم کی آگ میں جلنے والے اچھا کہیں، دین سے محبت کرنے والے اچھا کہیں، غیرت والے اچھا کہیں اور جو بے غیرت ہیں وہ اس کو گالی دیں، لٹیرے گالی دیں، ڈاکو اور چور گالی دیں، حرام مال کھانے والے گالی دیں، ظلم کرنے والے گالی دیں، جب دونوں قسم کے رد عمل ہوں تب پیمانہ مقرر ہوتا ہے کہ اچھا کون ہے اور کون نہیں اور جس کو ہر کوئی اچھا کہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس پیمانے پر وہ جماعت پوری نہیں اترتی۔ فرمایا : ایک جماعت ہر دور میں ہو گی جو حق پر قائم ہو گی اور اس کے حق پر ہونے کی پہچان کیا ہے ؟
عَنْ ثَوْبَانَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِيْنَ عَلَی الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتّٰی يَأْتِيَ أَمْرُ ﷲِ وَهُمْ کَذَالِکَ ۔
ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، جو شخص اُن کو رسوا کرنا چاہے گا وہ اُن کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا وہ اسی حال پر رہیں گے حتیٰ کہ قیامت آ جائے گی ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علي الحق لا يضرهم من خالفهم، 3 / 1524، الرقم / 1920،چشتی)(أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 279، الرقم / 22456)(الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الأئمة المضلين، 4 / 504، الرقم : 2229)(البيهقي في السنن الکبري، 9 / 226، الرقم / 18605)(سعيد بن منصور في السنن، 2 / 177، الرقم / 2372)
یعنی ان کی مخالفت بھی کی جائے گی اور انہیں ذلیل کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی ۔ دو لفظ بیان کیے حدیث میں خَذَلَهُمْ، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی، ان کی کردار کشی بھی کی جائے گی، گالیاں بھی دی جائیں گی، تہمتیں بھی لگائی جائیں گی، انہیں ذلیل بنانے کی کوشش بھی کی جائے گی اور ان کی کھل کر مخالفت بھی کی جائے گی، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چونکہ حق پر قائم ہوں گے نہ ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والا انہیں ذلیل کر سکے گا اور نہ مخالفت کرنے والا ان کا بال بھیکا کر سکے گا۔ انہیں نقصان کوئی نہیں پہنچا سکے گا ۔ حَتّٰی يَأْتِيَ أَمْرُ ﷲِ وَهُمْ کَذَالِکَ ۔ یہاں تک کہ قیامت کا دن آ جائے گا اور وہ بلا خوف و خطر اپنے حق کی راہ پر قائم ہوں گے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment