Sunday 20 March 2022

امر بالمعروف و نہی عن المنکر حصّہ دوم

0 comments
امر بالمعروف و نہی عن المنکر حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حصّہ اوّل میں درج آیتِ مبارکہ میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو تمام امتوں سے افضل فرمایا گیااور بعض آیات میں بنی اسرائیل کو بھی عالَمین یعنی تمام جہانوں سے افضل فرمایا گیا ہے ، لیکن ان کا افضل ہونا ان کے زمانے کے وقت ہی تھا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا افضل ہونا دائمی ہے ۔

مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو یہ خبر دی ہے کہ وہ اس وقت تمام امتوں سے افضل ہے ‘ اور جب تک یہ امت نیکی کا حکم دیتی رہے گی اور برائی سے روکتی رہے گی اور اللہ پر صحیح ‘ صادق اور کامل ایمان رکھے گی اس وقت تک یہ امت تمام امتوں سے افضل ہی رہے گی ‘ اس آیت میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کو ایمان پر مقدم کیا ہے ‘ اس لیے کہ ان ہی دو وصفوں کی وجہ سے مسلمانوں کو دوسروں پر فضیلت ہے ‘ کیونکہ ایمان کا تو دوسری امتیں بھی دعوی کرتی ہیں لیکن دوسری امتوں نے ایمان کی حقیقت کو بگاڑ دیا تھا اور ان میں شر اور فساد غالب آچکا تھا ‘ اس لیے ان کا ایمان صحیح نہیں تھا ‘ اور وہ نیکی کا حکم دیتے تھے نہ برائی سے روکتے تھے ۔ 

اللہ تعالیٰ نے جس صحیح ‘ صادق اور کامل ایمان لانے کا حکم دیا ہے اس کا معیار اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمایا ہے : انما المؤمنون الذین امنوا باللہ ورسولہ ثم لم یرتابوا وجاھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ اولئک ھم الصادقون ۔ (سورہ الحجرات : ١٥) 
ترجمہ : ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں ۔

انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم واذا تلیت ایتہ زادتھم ایمانا وعلی ربھم یتوکلون ۔ (سورہ الانفال : ٢) 
ترجمہ : ایمان والے تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوف زدہ ہوجائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیں ‘ اور وہ صرف اپنے رب پر بھروسہ کریں ۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا تب صحیح ہوگا جب ہر اس چیز پر ایمان لایا جائے جس پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ مثلا آسمانی کتابوں پر ‘ فرشتوں پر ‘ تمام نبیوں پر ‘ تقدیر پر ‘ مرنے کے بعد اٹھنے پر ‘ حساب و کتاب پر اور جزاء اور سزا پر ‘ اور جو شخص ان میں سے بعض پر ایمان لایا اور بعض پر ایمان نہیں لایا تو اس کا ایمان صحیح نہیں ہے ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان الذین یکفرون باللہ و رسلہ و یریدون ان یفرقوا بین اللہ و رسلہ ویقولون نؤمن ببعض ونکفر ببعض ویریدون ان یتخذوا بین ذالک سبیلا ۔ اولئک ھم الکافرون حقا ۔ (سورہ النساء : ١٥١۔ ١٥٠) 
ترجمہ : بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان جدائی کا ارادہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر ایمان نہیں لاتے اور وہ کفر اور ایمان کا درمیانی راستہ بنانے کا ارادہ کرتے ہیں ‘ درحقیقت وہی لوگ کافر ہیں ۔

نیز اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں فرمایا اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر تھا ‘ ان میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر کافر ہیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ اللہ کی تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان نہیں لائے تھے اور قرآن مجید کے کتاب اللہ ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے کا انکار کرتے تھے ۔ کیونکہ ان کو یہ خوف تھا کہ اگر انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو مان لیا تو ان کی ریاست جاتی رہے گی ‘ اور یہودی عوام جو ان کی اتباع کرتے ہیں وہ ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور دنیاوی مال اور نذرانے ملنے بند ہوجائیں گے حالانکہ اگر وہ اسلام قبول کرلیتے تو دنیا میں بھی ان کی عزت و کرامت زیادہ ہوتی اور وہ آخرت میں بھی اجر عظیم کے مستحق ہوتے ۔

یہ ایمان صحیح کا معیار ہے اور ایمان صادق کا معیار یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان کو بےدریغ خرچ کریں ‘ تاکہ ان کا دعوی ایمان صادق ہو ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون ۔ (سورہ العنکبوت : ٢) 
ترجمہ : کیا لوگوں کا یہ گمان ہے کہ وہ اس کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی ۔

اور ایمان کامل کا یہ معیار ہے کہ تمام فرائض اور واجبات کو دوام اور التزام کے ساتھ ادا کیا جائے اور کسی فرض اور واجب کو ترک نہ کیا جائے اور حتی الامکان تمام سنن اور مستحبات کو ادا کیا جائے ‘ اور کسی حرام اور مکروہ تحریمی کا کبھی بھی ارتکاب نہ کیا جائے اور ہر قسم کے مکروہ تنزیہی اور خلاف اولی کاموں سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے ‘ اور اگر تقاضائے بشریت سے کبھی کوئی فرض یاواجب رہ جائے تو فورا اس کی قضا کرلی جائے اور اگر غلبہ نفسانیت سے کبھی کسی حرام یا مکروہ تحریمی کا ارتکاب ہوجائے تو اس پر فورا توبہ کرلی جائے ۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری علیہ الرحمہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : عمربن عبد العزیز نے عدی بن عدی کی طرف لکھا کہ ایمان کے فرائض اور شرائع ہیں اور حدود اور سنن ہیں جس نے ان کو مکمل کرلیا اس کا ایمان کامل ہوگیا اور جس نے ان کو مکمل نہیں کیا اس کا ایمان کامل نہیں ہوا ۔ 
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور (کامل) مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو ترک کر دے ۔ 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوگا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٦ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام مسلم بن حجاج قشیری علیہ الرحمہ ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی زانی زنا کرتے وقت (کامل) مومن نہیں ہوتا ‘ اور کوئی چور چوری کرتے وقت (کامل) مومن نہیں ہوتا ‘ اور کوئی شرابی شراب پیتے وقت (کامل) مومن نہیں ہوتا اور کوئی لٹیرا لوٹ مار کرتے وقت (کامل) مومن نہیں ہوتا ۔ 
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مسلمان کو گالی دنیا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔ 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انسان اور اس کے کفر اور شرک کے درمیان نماز کو ترک کرنا ہے ۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٦١۔ ٥٥‘ ملتقطا مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ،چشتی)

حافظ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی علیہ الرحمہ متوفی ٨٠٧ ھ بیان کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر خطبہ میں یہ فرماتے تھے جو شخص امانت دار نہ ہو وہ (کامل) مومن نہیں اور جو شخص عہد پورا نہ کرے اس کا دین (کامل) نہیں ۔ اس حدیث کو امام احمد ‘ امام ابو یعلی ‘ امام بزار اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص بہت طعنے دیتا ہو بہت لعنت کرتا ہو ‘ بد زبانی اور بےحیائی کی باتیں کرتا ہو وہ (کامل) مومن نہیں ۔ اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے ۔ (مجمع الزوائد ج ١ ص ‘ ٩٧۔ ٩٦ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ،چشتی)

امام ابوجعفر محمد بن محمد طحاوی علیہ الرحمہ متوفی ٣٢١ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ شخص (کامل) مومن نہیں ہے جو رات کو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو ۔ (شرح الآثار ج ١ ص ١٦‘ مطبوعہ مجتبائی پاکستان لاہور ‘ ١٤٠٤ ھ،چشتی)

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پر صحیح ایمان یہ ہے ان تمام امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانا ضروری ہے ‘ اور صادق ایمان یہ ہے کہ اس کے دل میں اس کے خلاف شک نہ آئے ‘ وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور اللہ کی راہ میں جان اور مال کو بےدریغ خرچ کرے ۔ اور کامل ایمان یہ ہے کہ تمام فرائض اور واجبات پر دائما عمل کرے اور سنن اور مستحبات پر بھی عامل ہو اور ہر حرام اور مکروہ تحریمی ہے دائما مجتنب ہو اور مکروہ تنزیہی اور خلاف اولی سے بچتا رہے ‘ اور اس درجہ کے ساتھ جو مسلمان بھی نیکی کا حکم دیتے رہیں گے اور برائی سے روکتے رہیں گے وہ تمام امتوں میں بہترین امت ہونے کے مصداق ہیں ۔

اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر فاسق ہیں ‘ مومنوں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ایسے لوگ مراد ہیں جو پہلے یہودی تھے اور بعد میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ فاسق کا معنی ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اس سے مراد مرتکب کبیرہ ہیں ‘ اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہود میں ایسے لوگ تھے جو کافر ہونے کے علاوہ دینی اور دنیاوی معاملات میں بدعمل اور بداخلاق بھی تھے ۔

آج ان فتنوں کے نقصانات کا امت اپنے لیے تدارک کس طرح کر سکتی ہے ۔ ایک مسلمان انفرادی زندگی میں اور مسلمان معاشرہ اپنی اجتماعی زندگی میں اور امت مسلمہ عالمی سطح پر ، بین الاقوامی زندگی میں اگر ان تباہ کن اور ہلاکت انگیز فتنوں سے یا ان فتنوں کی ہلاکتوں سے ، ان فتنوں کے شر انگیز خطرات سے اپنے آپ کو بچانا چاہے اور اللہ رب العزت کے عذاب سے پناہ لینا چاہے، نجات پانا چاہے تو کیا تدبیر اختیار کرنا ضروری ہے ۔ کون سا راستہ ہے جو اس امت کو عذاب الہی سے بچا سکتا ہے ۔ کون سا راستہ ہے جو اس امت کو فتنوں کے ہلاکت انگیز خطرات سے محفوظ کر سکتا ہے ۔ سو وہ راستہ اللہ رب العزت نے بھی واضح فرما دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بصراحت اور بوضاحت بیان کر دیا ۔ وہ راستہ امت کےلیے امر بالمعروف نہی المنکر کا راستہ ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امت کو اول زمانے سے آخر زمانے تک خیر پر قائم رہنے ، ہدایت پر قائم رہنے اور تباہیوں اور ہلاکتوں سے محفوظ رہنے کا نسخہ عطا کیا وہ قرآن اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں ہے ۔ قرآن مجید نے فرمایا : کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ، اے امت مسلمہ ! تم بہترین امت ہو ، یعنی عالمِ انسانیت کا سب سے بہتر طبقہ ہو اور تمہیں تمام لوگوں اور تمام انسانوں کی رہنمائی کےلیے چنا گیا ہے ، ظاہر کیا گیا ہے ۔ یہ بات ارشاد فرما کر امتِ مسلمہ کی اس عظمت ، امتِ مسلمہ کی اس خصوصی شرف ، امتِ مسلمہ کی یہ جو انفرادیت بیان کی گئی ہے أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ، تمام اقوام عالم میں تمہیں بلند و بالا اور نمایاں مقام دیا گیا ہے ۔

اس کا سبب کیا ہے ؟ تین چیزیں بطور خاص بیان کی ہیں قرآن مجید میں ، ایک یہ کہ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ، تمہاری خوبی یہ ہے اور اس اسلوب بیان سے قرآن مجید نے جو طرز اور اسلوب اختیار کیا ہے بیان کا اس سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ کہ still اگر تم یہ چاہتے ہو کہ عالم انسانیت میں تمہارا مقام اسی طرح بلند و بالا رہے اور تم اسی طرح منتخب امت رہو اور اسی طرح تمہارا شرف اور انفرادیت برقرار رہے اور اسی طرح اللہ کی نعمتوں ، برکتوں ، رحمتوں اور سعادتوں سے مالا مال ہوتے رہو ، جو شان کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ میں بیان کی گئی ہے اگر چاہتے ہو کہ یہ شان retain ہو ، برقرار رہے ، محفوظ رہے ، ابد الآباد تک تم اس شان کے ساتھ متصف رہو اور یہ شان تم سے چھین نہ لی جائے ۔

یہ مقام تم سے سلب نہ کر لیا جائے ، تم اسی منصب پر فائز رہو قیامت تک ، اگر چاہتے ہو کہ جس شان سے اللہ نے نوازا ہے یہ شان برقرار رہے تو پھر تین شرائط کو پورا کرنا ہو گا تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ، کہ تم ہمیشہ نیکیوں کا حکم دینے والے بنے رہو یا فرمایا : کہ تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو اگر اس شان کر برقرار رکھنا چاہتے ہو تو ہمیشہ نیکیوں کا حکم دینے والے بنے رہو ۔ پھر فرمایا : وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ، اور تم معاشرے کی بدیوں اور برائیوں سے روکتے ہو ، منع کرتے ہو اور سبق یہ ہوا کہ اگر چاہو کہ اگر تمہارا خَيْرَ اُمَّةٍ ہونے کا شرف برقرار رہے تو معاشرے کی برائیوں کو روکتے رہو ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔