Saturday, 19 March 2022

علما کی توہین کا شرعی حکم

علما کی توہین کا شرعی حکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ہمارے معاشرے میں اکثر بیشتر لوگ علماء کرام کی عظمت و عزت سے غافل رہتے ہیں ان کے ساتھ انتہائی ناروا تعلقات رکھتے ہیں ۔ علماء کرام کی گستاخی کرنے کو انتہائی معمولی بات سمجھا جاتا ہے ۔ عالم کی توہین کی تین صورتیں اور ان کے بارے میں شرعی حکم بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت ، امام اہلسنت ، مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ⬇

(1) اگر عالمِ (دین) کو اس لئے بُرا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے ۔

(2) اور بوجہِ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دُنْیَوی خُصومت (دشمنی) کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا (ہے اور) تحقیر کرتا ہے تو سخت فاجر ہے ۔

(3) اور اگر بے سبب (بلا وجہ ) رنج (بغض) رکھتا ہے تو مَرِیْضُ الْقَلْب وَخَبِیْثُ الْبَاطِن (دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے) اور اس (خواہ مخواہ بغض رکھنے والے ) کے کفر کا اندیشہ ہے۔ خلاصہ (کتاب) میں ہے : مَنْ اَبْغَضَ عَالِماً مِنْ غَیْرِ سَبَبٍ ظَاھِرٍخِیْفَ عَلَیْهِ الْکُفْر ۔ جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالمِ دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے ۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، جلد 4، صفحہ 388، مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)(فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 129، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)

یہاں پر عوام کو عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ کوئی کسی سنی عالمِ دین پر اعتراضات و بکواسات کر رہا ہے تو کوئی کسی کے خلاف باتیں کر رہا ہے بہر کیف ان لوگوں کو سوچ لینا چاہیے کہ اگر علمِ دین کی توھین کہ نیت سے کچھ کہا تو کافر ہو جائے گا ۔ اگر علمِ دین کی توہین تو مقصود نہیں مگر تحریکی اختلاف کی بنا پر برا کہتا ہے گالی دیتا ہے تحقیر کرتا ہے تو بھی فاسق و فاجر ہے ۔ اگر بلا وجہ بُغض رکھتا ہے تو ایمان کی خیر منائے کہ فقھاء نے لکھا کہ صحیح العقیدہ عالمِ دین سے بغض رکھنے والے کا کفر پر خاتمے کا اندیشہ ہے ۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ عُلَمائے دین کی توہین کرنے سے متعلق مزید فرماتے ہیں کہ علماء کی توھی : سخت حرام، سخت گُناہ، اَشَدّ کبیرہ۔ عالمِ دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نائِب ہے ۔ اس کی تحقیر (توہین) مَعَاذَ اللہ محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ہے اور محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جناب میں گستاخی مُوجِبِ لعنتِ الٰہی و عذابِ الیم ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ، جلد 23، صفحہ 649، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)

اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے جو علمائے کے بارے بکواسات کرتے ہیں ۔ غور سے پڑھیں کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ صحیح العقیدہ سنی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نائب ہے اور اس کی توھین رسول اللہ علیہ السلام کی توہین و گستاخی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کرنے والا لعنتی ہے ۔ تو خدارا : باھم صحیح العقیدہ سنی علماء کے متعلق پوسٹس کرنے سے گریز کیجیے ۔ بالفرض آپ علمِ دین کی توہین کی نیت سے کچھ نہیں کہتے بلکہ تنظیمی و تحریکی اختلافات کی بنا پر تحقیقر کرتے ہیں تو بھی ناجائز وگناہ ہے ۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : عوام کو علماء سے بدظن کرنا بہت سخت گناہ ہے کہ جب بدظن ہونگے (تو) اُن (یعنی علما) سے بیزار ہونگے اور ہلاکت میں پڑیں گے ۔ (فتاویٰ امجدیہ، جلد 4، صفحہ 515، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی شریف)

علماء کی توہین بوجۂ علم اور داڑھی کی توہین بوجۂ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور شعار اسلام کفر ہے اور کسی ذاتی رنجش یا لڑائی جھگڑا کی وجہ سے ہو تو حرام ہے لہٰذا قائل اپنا محاسبہ کرے کہ کس وجہ سے کہا اگر پہلی صورت ہو تو توبہ کر کے تجدید ایمان کرے اگر صاحب بیعت و زوجہ ہو تو تجدید نکاح وبیعت بھی کرے ۔ اور اگر دوسری صورت ہو تو توبہ کرکے معافی مانگے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کرے ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اہل بستی اس کا بائیکاٹ کریں ۔

فتاویٰ رضویہ میں مجمع الانھر کے حوالے سے ہے : الإستخفاف بالأشراف والعلماء کفر ومن قال للعالم عویلم او لعلوی علیوی قاصدا به الإستخفاف کفر ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ١٤ صفحہ ٣٨٢)

فتاویٰ شارح بخاری میں ہے : داڑھی کی توہین اس نیت سے کرنا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت ہے اسلام کے شعار میں سے ہے تو کفر ہے ۔ لیکن لڑائی جھگڑنے میں پکڑ لینا، نوچ لینا یا داڑھی کو لے کر کوئی سخت کلمہ کہنا کفر نہیں حرام ضرور ہے ۔ (جلد ٢ صفحہ ٣٥٩ طبع دائرة البرکات)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو علماء سے بغض رکھنے اور ان کی گستاخی کرنے سے منع فرمایا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ : اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلَكَ ۔ (مسند البزار :3626،چشتی)
ترجمہ : عالم ، متعلم ، سامع یا علم سے محبت کرنے والے بنیں اگر اس کے علاوہ پانچویں بنیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے ۔

یعنی علم و علماء سے بغض و کدروت کرنے والے نہ بنیں بلكہ محبت كرنے والے بنیں ۔

امام احمد بن اوزاعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : الوقيعة في اھل العلم ولا سيما اکابرھم من کبائر الذنوب ۔
ترجمہ : اہل علم کی مذمت و توہین کرنا ، خاص طور سے بڑے علماء کرام کی ، کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ ( الرد الوافر لابن ناصر الدين الدمشقي : 283،چشتی)

علامہ ابن نجیم مصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ ۔ علم اور علماء کی توہین کفر ہے ۔ (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ : ۱۶۰)

امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : لحوم العلماء مسمومة، من شمها مرض، ومن أكلها مات (المعيد في أدب المفيد والمستفيد صفحہ 60)
ترجمہ : علماء کرام کا گوشت زہریلا ہوتا ہے جو اس کو سونگھے گا بیمار پڑ جائے گا اور جو اس کو کھائے گا مر جائے گا ۔

ایسے لوگوں کی زندگی باری تعالی تنگ کر دیتا ہے اور انہیں ذلیل رسوا کرتا ہے جو لوگ علماء کرام پر تبرا بازی و الزام تراشی کیا کرتے ہیں جیسا کہ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَعَزَلَهُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لَا تُحْسِنُ تُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ:‏‏‏‏ أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا أُصَلِّي صَلَاةَ الْعِشَاءِ فَأَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ وَأُخِفُّ فِي الْأُخْرَيَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلًا أَوْ رِجَالًا إِلَى الْكُوفَةِ فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الْكُوفَةِ وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلَّا سَأَلَ عَنْهُ وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لَا يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ وَلَا يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ وَلَا يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سَعْدٌ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً فَأَطِلْ عُمْرَهُ وَأَطِلْ فَقْرَهُ وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ:‏‏‏‏ فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الْكِبَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ ۔ (صحیح البخاری:755)
تجمہ : اہل کوفہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی ۔ اس لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا ، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے ۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا ۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں (قراءت ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں (تمہاری اس بات پر) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا تھا ۔

صحابه كرام رضی الله عنہم کے زمانہ میں بھی ایسے شقی لوگ موجود تھے جو علماء کرام کی گستاخی وتبرأ بازی کیا کرتے تھے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے افرادکو دنیا میں ہی ذلیل ورسوا کرکے تمام آنے والی نسلوں کےلیے نشان عبرت بنادیا ۔

علامہ محمد بن علی طوسی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : کتب خالد بن خداش الی ابی فی الیوم الذی ضرب فیہ احمد بن حنبل : واخبرک ان رجلا بلغہ ماصنع باحمد ، فدخل المسجد لیصلی شکرا ، فخسف بہ الی صدرہ ، فاستغاث الناس ، فاغاثوہ ۔ (مناقب احمد : 654،چشتی)
ترجمہ : خالد بن خداش نے میرے والد کو ایک خط کے ذریعے اس دن کے واقعے کی خبر دی ، جس دن امام احمد کو درے مارے گئے تھے ، یہ سن کر ایک شخص شکرانے کی نماز پڑھنے مسجد گیا تو اللہ تعالی نے اسے سینے تک زمین میں دھنسا دیا ، اس کی چیخ پکار پر لوگ جمع ہوئے تو اسے کھینچ کر باہر نکالا ۔

حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی تو اللہ تعالی ان پر چار قسم کے عذابات مسلط کرے گا : بِالْقَحْطِ مِنَ الزَّمَانِ، وَالْجَوْرِ مِنَ السُّلْطَانِ، وَالْخِيَانَةِ مِنْ ولَاةِ الْأَحْكَامِ، وَالصَّوْلَةِ مِنَ الْعَدُوِّ ۔
ترجمہ : قحط سالی ، بادشاہ کی جانب سے مظالم ، حکام کی خیانت ، دشمنوں کے مسلسل حملے ۔ (مستدرک حاکم 4 ۔ 361)

 اور اللہ عزوجل ان لوگوں کو دنیا میں عبرت کا نشانہ بناتا ہے جو لوگ علماء کرام کی بے آبرو کرتے ہیں ۔

 عمران بن موسی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : دخلت عن ابی العروق الجلاد الذی ضرب احمد لانظر الیہ فمکث خمسة واربعین ینبح کما ینبح الکلب ۔
ترجمہ : میں ابوالعروق کے پاس گیا ، یہ وہ شخص تھا جس نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو کوڑے مارے تھے ، میں نے دیکھا کہ وہ پینتالیس دن تک کتے کی طرح بھونکتے بھونکتے مر گیا ۔ (مناقب احمد : 424)

کمال ابن القدیم نے تاریخ حلب میں بیان کیا ہے کہ : ابن منیر نامی شخص جو حضرات شیخین کو برا کہتا ہے، جب مرگیا تو حلب کے نوجوانوں کو ابن منیر کا انجام دیکھنے کا داعیہ پیدا ہوا، آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ جو شخص سیدناابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتا ہے تو اس کا چہرہ قبر میں سور جیسا ہوجاتا ہے ، اور ہم جانتے ہیں کہ ابن منیر شیخین کو برا کہتا تھا، چلو اس کی قبر کھود کر دیکھیں کیا واقعی ایسا ہی ہے، جیسا کہ ہم نے سنا ہے، چنانچہ چند نوجوان اس پر متفق ہوگئے اور بالآخر انہوں نے ابن منیر کی قبر کھود ڈالا، جب قبر کھودی گئی تو کھلی آنکھوں سے دیکھا گیا کہ اس کا چہرہ قبلہ سے پھر گیا اور سور کی شکل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس کی لاش کو عبرت کے لیے مجمع عام میں لایا گیا پھر اس کو مٹی میں چھپا دیا گیا ۔ (الزواجر: ۲/۳۸۳،چشتی) 

عمر بن محمد کے والد (محمد بن زید) نے سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہم سے حدیث بیان کی کہ : أَنَّ أَرْوَى خَاصَمَتْهُ فِي بَعْضِ دَارِهِ، فَقَالَ: دَعُوهَا وَإِيَّاهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ بِغَيْرِ حَقِّهِ، طُوِّقَهُ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، اللهُمَّ، إِنْ كَانَتْ كَاذِبَةً فَأَعْمِ بَصَرَهَا، وَاجْعَلْ قَبْرَهَا فِي دَارِهَا، قَالَ: فَرَأَيْتُهَا عَمْيَاءَ تَلْتَمِسُ الْجُدُرَ تَقُولُ: أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشِي فِي الدَّارِ مَرَّتْ عَلَى بِئْرٍ فِي الدَّارِ، فَوَقَعَتْ فِيهَا، فَكَانَتْ قَبْرَهَا ۔ (صحیح البخاری : 4133،چشتی)
ترجمہ : ارویٰ نے ان کے ساتھ گھر کے کسی حصے کے بارے میں جھگڑا کیا تو انہوں نے کہا : اسے اور گھر کو چھوڑ دو ، (جو چاہے کرتی رہے) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا تھا، آپ فرما رہے تھے : جس نے حق کے بغیر ایک بالشت زمین بھی حاصل کی ، قیامت کے دن وہ سات زمینوں (تک) اس کی گردن کا طوق بنا دی جائے گی ۔ (پھر اس کی ایذا رسانی سے تنگ آ کر انہوں نے بددعا کی) اے اللہ ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کو اندھا کر دے اور اس کے گھر ہی میں اس کی قبر بنا دے ۔ (محمد بن زید نے) کہا : میں نے اس عورت کو دیکھا وہ اندھی ہو گئی تھی ، دیواریں ٹٹولتی پھرتی تھی اور کہتی تھی : مجھے سعید بن زید کی بددعا لگ گئی ہے ۔ ایک مرتبہ وہ گھر میں چل رہی تھی ، گھر میں کنویں کے پاس سے گزری تو اس میں گرگئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا ۔

عبد اللہ ابن مبارک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : من استخف بالعلماء ذھبت آخرتہ ومن استخف بالامراء ذھبت دنیاہ ، ومن استخف بالاخوان ذھبت مروءتہ ۔
ترجمہ : جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکمرانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیاوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا - (الذہبی، سير أعلام النبلاء ١٧:٢٥١،چشتی)

کمی کوتاہی ہر بندے سے ہوتی ہے علماء کی چھوٹی موٹی کمی کوتاہی پر اپنے منہ کو بند رکھنا چاہیے اپنی زبان کو علماء کی غیبت سے محفوظ رکھنی چاہیے علماء کی خوبی اور نیک باتوں کو اپنانا چاہیے ۔ اگر آپ کی وجہ سے کوئی صحیح العقیدہ سنی عالم سے بدظن ہو گیا تو دنیا و آخرت میں ہلاکت ہی ہلاکت ہو گی ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں ہمیشہ بے ادبی سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...