فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : رمضان المبارک میں نفل عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا زیادہ عطا کیا جاتا ہے ۔ اس ماہ مبارک میں دن میں روزے رکھے جاتے ہیں اور رات میں نماز تراویح ادا کی جاتی ہے ۔ ماہ رمضان کی راتوں میں ادا کی جانے والی بیس رکعات نماز باجماعت کا نام ’’تراویح‘‘ اس لیے رکھا گیا کہ جب لوگوں نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا شروع کی تو وہ ہر چار رکعت کے بعد اتنی دیر آرام کرتے تھے ، جتنی دیر میں چار رکعات پڑھی جاتی تھیں ، یعنی تراویح کے معنی آرام والی نماز ہے ۔ نماز تراویح بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اس کی اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نماز تراویح کی مداومت فرمائی ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو اپنے اوپر لازم کرلو‘‘۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی نماز تراویح ادا فرمائی اور اسے پسند فرمایا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ’’جو رمضان میں قیام کرے ایمان کی وجہ اور طلب ثواب کےلیے ، اس کے اگلے سب گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘ یعنی صغائر ۔ پھر اس اندیشہ سے کہ امت پر فرض نہ ہو جائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ترک فرمائی ۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (رمضان المبارک کی) ایک شب مسجد میں تشریف لے گئے اور لوگوں کو متفرق طورپر نماز پڑھتے دیکھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں تو بہتر ہے‘‘۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے ایک امام حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ لوگوں کو اکٹھا کر دیا ۔ پھر دوسرے دن تشریف لے گئے تو ملاحظہ فرمایا کہ لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں ۔ اس وقت آپ نے فرمایا ’’یہ ایک اچھی بدعت ہے ۔ (بہار شریعت ۔ مصباح الفقہ اول)
واضح رہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو امام بنایا تو تمام صحابۂ کرام نے اس پر اتفاق کیا اور کسی نے اعتراض نہیں کیا ، اس لیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے بہتر قرآن مجید پڑھنے والے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو رَمضان میں ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کے لیے قیام کرے ، تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے ۔ (مسلم صفحہ ۳۸۲ حدیث ۷۵۹،چشتی)
حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : تراویح کی پابندی کی برکت سے سارے صغیرہ (یعنی چھوٹے) گناہ معاف ہو جائیں گے کیونکہ گناہ ِکبیرہ (یعنی بڑے گناہ) توبہ سے اور حقوق العباد (اللہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں توبہ کے ساتھ) حق والے کے معاف کرنے سے معاف ہوتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۲ صفحہ ۲۸۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے رَمضان کے روزے تم پر فرض کیے اور میں نے تمہارے لیے رَمضان کے قیام کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص رَمضان میں روزے رکھے اور ایمان کے ساتھ اورحصولِ ثواب کی نیت سے قیام کرے (یعنی تراویح پڑھے) تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے ولادت کے دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا ۔ (سنن نَسائی صفحہ ۳۶۹ حدیث ۲۲۰۷)
رَمَضانُ الْمبارَک میں جہاں ہمیں بے شمار نعمتیں میسر آتی ہیں انہی میں تراویح کی سنت بھی شامِل ہے اور سنت کی عظمت کے کیا کہنے ! نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : جس نے میری سنت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔ (ابن عساکر جلد ۹ صفحہ ۳۴۳،چشتی)
تراویح سنّتِ مُؤَکَّدَہ ہے اور اس میں کم از کم ایک بار ختم قراٰن بھی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ۔
افسوس ! آج کل دینی مُعاملات میں سستی کادَور دورہ ہے،عموماً تراویح میں قراٰنِ کریم ایک بار بھی صحیح معنوں میں ختم نہیں ہو پاتا۔ قراٰنِ پاک ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے ، مگر حال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے تواکثر لوگ اُس کے ساتھ تراویح پڑھنے کےلیے تیار ہی نہیں ہوتے ! اب وُہی حافظ پسند کیا جاتا ہے جو تراویح سے جلد فارِغ کر دے ۔ یاد رکھئے ! تر اویح اور نمازکے علا وہ بھی تلاوت میں حرف چبا جا نا حرام ہے ۔ اگر تراویح میں حافظ صاحب پورے قرآنِ کریم میں سے صرف ایک حرف بھی چبا گئے تو ختم قران کی سنت ادا نہ ہو گی ۔ بلکہ دورانِ نماز حرف چب جانے کی وجہ سے معنیٰ فاسد ہونے یا مہمل یعنی بے معنیٰ ہو جانے کی صورت میں وہ نماز بھی فاسد ہو جائے گی ۔لہٰذاکسی آیت میں کوئی حرف ’’چب‘‘ گیا یا دُرست ’’مخرج‘‘ سے نہ نکلا اور بدل گیا تو لوگوں سے شرمائے بغیر پلٹ کر پھر پڑھیے اور دُرُست پڑھ کر پھر آگے بڑھئے ۔ ایک افسو س ناک اَمریہ بھی ہے کہ حفا ظ کی ایک تعداد ایسی ہوتی ہے جسے ترتیل کے ساتھ پڑھنا ہی نہیں آتا ! تیزی سے نہ پڑھیں تو بھو ل جا تے ہیں ! ایسوں کی خد متوں میں ہمدردانہ مشورہ ہے ، لوگوں سے نہ شر مائیں ، اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی ناراضی بہت بھاری پڑے گی لہٰذا بلا تاخیر تجوید کے ساتھ پڑھانے والے کسی قا ری صاحب کی مدد سے از اِبتدا تا اِنتہا اپنا حفظ دُرُست فر ما لیں ۔ مدولین (وؤا،ی اور الف ساکن اور قبل کی حرکت موافق ہوتو (یعنی واؤ کے پہلے پیش اور ی کے پہلے زیر اور الف کے پہلے زبر) اس کو مد اور واؤ اور ی ساکن ماقبل مفتوح کو لین کہتے ہیں) کا خیال رکھنا لا زِمی ہے نیز مد ، غنہ ، اظہار ، اِخفا وغیرہ کی بھی رعایت فرمائیں ۔
حضرت صدرُ الشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں : فر ضو ں میں ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرے اور تراویح میں مُتَوَ سِّط (یعنی درمیانہ) انداز پر اور رات کے نوافل میں جلد پڑھنے کی اجازت ہے ، مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں آسکے یعنی کم سے کم ’’مد‘‘ کا جو دَرَجہ قا رِیو ں نے رکھا ہے اُس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے۔اس لئے کہ ترتیل سے (یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر) قراٰن پڑھنے کا حکم ہے ۔ (بہار شریعت جلد ۱ صفحہ ۵۴۷،چشتی)(دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۲ص۳۲۰)
پارہ 29 سُوْرَۃُ الْمُزَّمِّل کی چو تھی آیت میں ارشا د ِربّا نی ہے : وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ ۔
ترجمہ : اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ۔
ترتیل سے پڑھنا کسے کہتے ہیں !:
امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ’’ کمالین علیٰ حاشیہ جلالین‘‘ کے حوالے سے ’’ ترتیل ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں : ’’قراٰنِ مجید اِس طرح آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو کہ سننے والا اِس کی آیات و الفاظ گن سکے ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص۶ ۲۷)
نیز فرض نماز میں اس طرح تلاوت کرے کہ جدا جدا ہر حرف سمجھ آئے، تراویح میں مُتَوَسِّط (یعنی درمیانہ) طریقے پر اور رات کے نوافل میں اتنی تیز پڑھ سکتا ہے جسے وہ سمجھ سکے ۔(دُرِّمُختَار ج۲ص۳۲۰)
’’مدارِکُ التَّنْزِیل‘‘ میں ہے : ’’قراٰن کو آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو ، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ،حروف جدا جدا ، وقف کی حفاظت اور تمام حرکات کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہے،’’ تَرْتِیْلًا ‘‘اس مسئلے میں تاکید پیدا کر رہا ہے کہ یہ بات تلاوت کرنے والے کےلیے نہایت ہی ضَروری ہے ۔‘‘ (مدارکُ التّنزیل ص۱۲۹۲)(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص۸ ۲۷،۲۷۹،چشتی)
قرآنِ کریم پڑھنے پڑھانے والوں کو اپنے اندر اِخلاص پیدا کرنا ضروری ہے اگر حافظ اپنی تیزی دکھانے ، خوش آوازی کی داد پانے اور نام چمکانے کےلیے قرآنِ کریم پڑھے گا تو ثواب تو دُور کی بات ہے ، اُلٹا حب جاہ اور ریاکاری کی تباہ کاری میں جا پڑے گا ! اِسی طرح اُجرت کا لین دین بھی نہ ہو ، طے کرنے ہی کو اُجرت نہیں کہتے بلکہ اگر یہاں تراویح پڑھانے آتے اِسی لیے ہیں کہ معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگرچِہ طے نہ ہوا ہو ، تو یہ بھی اُجرت ہی ہے۔اُجرت رقم ہی کا نام نہیں بلکہ کپڑے یا غلہ (یعنی اناج) وغیرہ کی صورت میں بھی اُجرت ، اُجرت ہی ہے۔ہاں اگر حافِظ صاحب نیت کے ساتھ صاف صاف کہہ دیں کہ میں کچھ نہیں لوں گا یا پڑھوانے والا کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا ۔ پھر بعد میں حافظ صاحب کی خدمت کردیں تو حرج نہیں کہ بخاری شریف کی پہلی حدیثِ مبارَک میں ہے : اِنّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات۔ یعنی اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ۔ (صحیح بُخاری جلد ۱ صفحہ ۶ حدیث ۱)
امام احمد رضاخان قادری عَلَیْہِ الرَّحْمہ کی بارگاہ میں اُجرت دے کر میت کے ایصالِ ثواب کےلیے خَتْمِ قرآن و ذِکرُ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کروانے سے مُتَعَلِّق جب اِستفتا پیش ہوا تو جواباً ارشاد فرمایا : تلاوتِ قراٰن وذکرِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ پر اُجرت لینا دینا دونوں حرام ہے، لینے دینے والے دونوں گناہ گار ہوتے ہیں اور جب یہ فعل حرام کے مرتکب ہیں تو ثواب کس چیز کا اَموات (یعنی مرنے والوں) کو بھیجیں گے ؟ گناہ پر ثواب کی اُمید اور زیادہ سخت و اَشد (یعنی شدید ترین جرم) ہے ۔ اگر لوگ چاہیں کہ ایصالِ ثواب بھی ہو اور طریقۂ جائزہ شرعیہ بھی حاصل ہو (یعنی شرعاً جائز بھی رہے) تو اِس کی صورت یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو گھنٹے دو گھنٹے کے لئے نوکر رکھ لیں اور تنخواہ اُتنی دیر کی ہرشخص کی مُعَیَّن (مقرر) کر دیں ۔ مَثَلاً پڑھوانے والا کہے : ’’میں نے تجھے آج فلاں وَقت سے فلاں وَقت کےلیے اِ س اُجرت پر نوکر رکھا (کہ) جو کام چاہوں گا لوں گا ۔‘‘ وہ کہے : ’’میں نے قبول کیا ۔‘‘ اب وہ اُتنی دیر کے واسطے اَجیر (یعنی ملازِم) ہو گیا ، جو کام چاہے لے سکتا ہے اس کے بعد اُس سے کہے فلاں مَیت کے لئے اِتنا قراٰنِ عظیم یا اِس قدر کلِمۂ طیبہ یا دُرُود پاک پڑھ دو۔ یہ صورت جواز (یعنی جائز ہونے) کی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ج۲۳ص۵۳۷)
اِس فتوے کی روشنی میں تراویح کےلیے حافظ صاحب کی بھی ترکیب ہو سکتی ہے ۔ مَثَلاً مسجد کمیٹی والے اُجرت طے کر کے حافظ صاحب کو ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں نماز عشا کےلیے امامت پر رکھ لیں اور حافظ صاحب بِالتَّبَع یعنی ساتھ ہی ساتھ تراویح بھی پڑھا دیا کریں کیوں کہ رَمَضانُ المبارَک میں تراویح بھی نمازِ عشا کے ساتھ ہی شامل ہوتی ہے ۔ یا یوں کریں کہ ماہِ رَمَضان المبارَک میں روزانہ دویا تین گھنٹے کےلیے (مَثَلاً رات 8 تا 11) حافظ صاحب کو نوکری کی آفر کرتے ہوئے کہیں کہ ہم جو کام دیں گے وہ کرنا ہو گا ، تنخواہ کی رقم بھی بتادیں ، اگر حافظ صاحب منظور فرمالیں گے تو وہ ملازم ہو گئے ۔ اب روزانہ حافظ صاحب کی ان تین گھنٹوں کے اندر ڈیوٹی لگا دیں کہ وہ تراویح پڑھا دیا کریں ۔ یاد رکھیے ! چاہے امامت ہو یا مؤَذِّنی ہو یا کسی قسم کی مَزدوری جس کا م کےلیے بھی اِجارہ کرتے وقت یہ معلوم ہو کہ یہاں اُجرت یاتنخواہ کا لین دَین یقینی ہے توپہلے سے رقم طے کرنا واجِب ہے ، ورنہ دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہوں گے ۔ ہاں جہاں پہلے ہی سے اُجرت کی مقررہ رقم معلوم ہو مَثَلاً بس کا کرایہ ، یا بازار میں بوری لادنے ، لے جانے کی فی بوری مزدوری کی رقم وغیرہ ۔ تواب باربارطے کرنے کی حاجت نہیں ۔ یہ بھی ذِہن میں رکھیے کہ جب حافظ صاحب کو (یاجس کوبھی جس کام کےلیے) نوکر رکھا اُس وقت یہ کہہ دینا جائز نہیں کہ ہم جو مناسب ہوگا دے دیں گے یا آپ کو راضی کر دیں گے ، بلکہ صَراحَۃً یعنی واضح طورپر رقم کی مقدار بتانی ہوگی ، مَثَلاًہم آپ کو 12ہزار روپے پیش کریں گے اور یہ بھی ضروری ہے کہ حافظ صاحب بھی منظور فرمالیں ۔ اب بارہ ہزار دینے ہی ہوں گے ۔ یاد رہے ! مسجد کے چندے سے دی جانے والی اُجرت وہاں کے عرف سے زائد نہیں ہونی چاہیے ، پہلے سے موجود امام صاحب دل برداشتہ نہ ہوں اِس کا بھی خیال رکھا جائے ، پورے ماہِ رَمضان میں نَمازِ عشا کی امامت کی چھٹی کے سبب امام صاحب کو مسجد کے چندے سے اُس ماہ کی عشا کی نمازوں کی تنخواہ دے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اسی طرح کا عرف یعنی معمول جاری ہے ۔ ہاں حافظ صاحب کو مطالبے کے بغیر اپنی مرضی سے طۓ شدہ سے زائد مسجد کے چندے سے نہیں بلکہ اپنے پلے سے یا اسی مقصد کے لیے جمع کی ہوئی رقم دے دیں تب بھی جائز ہے ۔ جو حافظ صاحبان ، یا نعت خوان بغیر پیسوں کے تراویح ، قراٰن خوانی یا نعت خوانی میں حصہ نہیں لے سکتے وہ شرم کی وجہ سے ناجائز کام کا ارتکاب نہ کریں ۔ امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرکے پا ک روزی حاصل کریں ۔ اور اگر سخت مجبوری نہ ہو تو حیلے کے ذَرِیعے بھی رقم حاصِل کرنے سے گریز کریں کہ جس کاعمل ہوبے غرض اُس کی جزا کچھ اور ہے ۔ ایک امتحان سخت امتحان یہ ہے کہ جو رقم قبول نہیں کرتا اُس کی کافی واہ !واہ ! ہوتی ہے ۔ یہاں اپنے آپ کو حب جاہ اور ریاکاری سے بچاناضروری ہے ، بلا حاجت دوسروں سے تذکرہ کرنے سے بچنا اور دعائے اخلاص کرتے رہنا ایسے مواقع پر مفید ہوتا ہے ۔
جہاں تراویح میں ایک بار قراٰنِ پاک کی تلاوت کی جائے وہاں بہتر یہ ہے کہ ستائیسویں شب کو ختم کریں ، رقت و سوز کے ساتھ اِختتام ہو اور یہ اِحساس دل کو تڑپا کر رکھ دے کہ میں نے صحیح معنوں میں قراٰنِ پاک پڑھا یاسنا نہیں ، کوتاہیاں بھی ہوئیں ، دل جمعی بھی نہ رہی ، اِخلاص میں بھی کمی تھی ۔ صد ہزار افسوس ! دُنیوی شخصیت کا کلام تو توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا پاکیزہ کلام دھیان سے نہ سنا ، ساتھ ہی یہ بھی غم ہو کہ افسوس ! اب ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک چند گھڑیوں کا مہمان رَہ گیا ، نہ جانے آیند ہ سال اس کی تشریف آوَری کے وَقت اس کی بہاریں لوٹنے کےلیے میں زندہ رہوں گایا نہیں ! اِس طرح کے تصورات جما کر اپنی غفلتوں پر خود کو شرمندہ کرے اور ہو سکے تو روئے اگر رونا نہ آئے تو رونے کی سی صورت بنائے کہ اچھوں کی نقل بھی اچھی ہے ، اگر کسی کی آنکھ سے مَحَبَّتِ قراٰن و فراقِ رَمضان میں ایک آدھ قطرہ آنسو ٹپک کر مقبولِ بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہو گیا تو کیا بعید کہ اُسی کے صدقے اللہ تعالیٰ سبھی حاضرین کو بخش دے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود بھی تراویح ادا فرمائی اور اسے خوب پسند بھی فرمایا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : جو ایمان و طلبِ ثواب کے سبب سے رَمضان میں قیام کرے اُس کے پچھلے گناہ (یعنی صغیرہ گناہ) بخش دیے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۰۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس اندیشے کی وجہ سے ترک فرمائی کہ کہیں امّت پر (تراویح) فرض نہ کر دی جائے ۔(صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۶۵۸ حدیث ۲۰۱۲،چشتی)
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے (اپنے دورِ خِلافت میں) ماہِ رَمَضان المُبَارَک کی ایک رات مسجد میں دیکھا کہ لوگ جدا جدا انداز پر (تراویح) اداکر رہے ہیں ، کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کی اقتدا میں پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں ۔ لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضرت سیّدنا اُبَی بِن کَعْب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو سب کا امام بنا دیا، پھر جب دوسری رات تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ باجماعت (تراویح) ادا کر رہے ہیں (توبہت خوش ہوئے اور) فرمایا : نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ ۔ یعنی’’ یہ اچّھی بدعت ہے ۔ (بُخاری جلد ۱ صفحہ ۶۵۸ حدیث ۲۰۱۰،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہمارا کتنا خیال ہے ! محض اِس خوف سیجماعتِ تراویح پر ہمیشگی نہ فرمائی کہ کہیں اُمّت پر فرض نہ کر دی جائے ۔ اِس حدیثِ پاک سے بعض وَساوِس کا علا ج بھی ہو گیا ۔ مثَلاً تراویح کی باقاعدہ جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی جاری فرما سکتے تھے مگر نہ فرمائی اور یوں اسلام میں اچھے اچھے طریقے رائج کرنے کا اپنے غلاموں کو موقع فراہم کیا ۔ جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہیں کیا وہ کام سیّدُِنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے محض اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تا قِیا مت ایسے اچھے اچھے کام جاری کرتے رہنے کی اپنی حیاتِ ظاہِری میں ہی اجازت مَرحمت فرمادی تھی ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے : جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اُس کو اس کا ثواب ملے گا اور اُس کا بھی جو (لوگ) اِس کے بعد اُس پر عمل کریں گے اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں برا طریقہ جار ی کرے اُس پر اِس کا گناہ بھی ہے اور ان (لوگوں) کا بھی جو اِس کے بعد اِس پر عمل کریں اور اُن کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔ (صحیح مُسلم صفحہ ۵۰۸ حدیث ۱۰۱۷،چشتی)
اِس حدیثِ مبارَک سے معلو م ہوا ، قیامت تک اسلام میں اچھے اچھے نئے طریقے جاری کرنے کی اجازت ہے جیسا کہ {۱} امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام کیا اور اس کو خود ’’اچھی بدعت‘‘ بھی قرار دیا ۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وِصال ظاہری کے بعد صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی جونیا اچھا کام جاری کریں وہ بھی بدعت حَسَنہ کہلاتا ہے ۔ {۲}مسجِد میں امام کےلیے طاق نما محراب نہیں ہوتی تھی سب سے پہلے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے مسجدُ النَّبَوِی الشّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں محراب بنانے کی سعادت حاصل کی اِس نئی ایجاد (بد عتِ حَسَنہ) کو اس قدر مقبولیت حاصل ہے کہ اب دنیابھر میں مسجد کی پہچان اِسی سے ہے ۔ {۳} اِسی طرح مساجِد پر گنبد و مینار بنانا بھی بعد کی ایجاد ہے ، یہاں تک کہ مسجد الحرام کے مَنارے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے دَور میں نہیں تھے ۔ {۴} ایمانِ مفصل ۔ {۵} ایمانِ مُجْمَل ۔ {۶} چھ کلمے اور ان کی تعداد و ترکیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا اور ان کے نام ۔ {۷} قراٰنِ کریم کے تیس پارے بنانا ، اِعراب لگانا ، ان میں رُکوع بنانا ، رُموزِ اَوقاَف کی علامات لگانا ۔ بلکہ نقطے بھی بعدمیں لگائے گئے ، خوبصورت جِلدیں چھاپنا وغیرہ ۔ {۸} احادیثِ مبارَکہ کو کتابی شکل دینا ، اس کی اَسناد پر جرح کرنا ، ان کی صحیح ، حسن، ضعیف اور موضوع وغیرہ اَقسام بنانا ۔ {۹} فقہ ، اُصولِ فقہ و علم کلام۔ {۱۰}زکٰوۃ و فطر ہ سکۂ رائج الْوقت بلکہ با تصویر نوٹوں سے ادا کرنا ۔ {۱۱} اونٹوں وغیرہ کے بجائے سفینے یاہوائی جہازکے ذَرِیعے سفر حج کرنا ۔ {۱۲} شریعت و طریقت کے چاروں سلسلے یعنی حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی اسی طرح قادِری، نقشبندی ، سہروردی اور چشتی۔
ہر بدعت گمراہی نہیں ہے : ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ ان دو احادیث مبارکہ (۱) کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار ۔ یعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنَّم میں (لے جانے والی) ہے ۔ (صَحیح اِبن خُزَیمہ ج۳ ص۱۴۳حدیث۱۷۸۵) (۲) شَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلالۃ ۔ یعنی بدترین کام نئے طریقے ہیں ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے ۔ (مسلم ص۴۳۰ حدیث۸۶۷) ۔ کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں احادیثِ مبارَکہ حق ہیں ۔ یہاں بدعت سے مراد بدعتِ سَیِّـَٔہ (سَیْ ۔یِ ۔ ئَ ہْ) یعنی بری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بری ہے جو کسی سنت کے خلاف یا سنت کو مٹانے والی ہو ۔ جیسا کہ دیگر احادیثِ مقدسہ میں اس مسئلے کی وضاحت موجود ہے ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر وہ گمراہ کرنے والی بدعت جس سے اللہ عزوجل اور اس کا رسول راضی نہ ہو ، تو اُس گمراہی والی بدعت کو جاری کرنے والے پر اُس بدعت پر عمل کرنے والوں کی مثل گناہ ہے ، اُسے گناہ مل جانا لوگوں کے گناہوں میں کمی نہیں کرے گا ۔ ( تِرمذی ج ۴ ص۳۰۹ حدیث۲۶۸۶)
بخاری شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیْہِ فَہُوَ رَد ۔ (بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۱۱ حدیث ۲۶۹۷) ۔ یعنی ’’جو ہمارے دین میں ایسی نئی بات نکالے جو اُس (کی اصل) میں سے نہ ہو وہ مردود ہے ۔
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا ایسی نئی بات جو سنت سے دُور کر کے گمراہ کرنے والی ہو ، جس کی اَصْل دین میں نہ ہو وہ بدعتِ سَیِّـَٔہ یعنی بری بدعت ہے ، جبکہ دین میں ایسی نئی بات جو سنت پر عمل کرنے میں مدد کرنے والی ہو یا جس کی اصل دین سے ثابت ہو وہ بدعت ِحسنہ یعنی اچھی بدعت ہے ۔
حضرتِ سیِّدُ نا شیخ عبدالحق محدث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک ،’’ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : جو بدعت اُصول اور قواعد سنت کے موافق اور اُس کے مطابق قیاس کی ہوئی ہے (یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی) اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہو وہ بدعت گمراہی کہلاتی ہے ۔ (اَشِعَّۃُ اللَّمعات جلد ۱ صفحہ ۱۳۵،چشتی)
بدعت حسنہ کے بغیر گزارہ نہیں :
اچھی اور بری بدعات کی تقسیم ضروری ہے کیوں کہ کئی اچھی اچھی بدعتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو صرف اس لئے ترک کر دیا جائے کہ قرونِ ثلاثہ یعنی (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان (۲) تابعینِ عظام اور (۳) تبع تابعینِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے اَدوارِ پر انوارمیں نہیں تھیں ، تو دین کا موجود ہ نظام ہی نہ چل سکے ، جیسا کہ دینی مدارِس ، ان میں درسِ نظامی ، قراٰن و احادیث اور اسلامی کتابوں کی پریس میں چھپائی وغیرہ وغیرہ یہ تمام کام پہلے نہ تھے بعد میں جاری ہوئے اور بدعت حسنہ میں شا مل ہیں ۔
تراویح ہر عاقِل و بالغ مسلمان بھائی اور مسلمان بہن کےلیے سنَّت ِمُؤَکَّدہ ہے ۔ (دُرِّ مُخْتارج ۲ص۵۹۶) اس کا تَرْک جائز نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۶۸۸)
تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ہیں ۔حضر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے عہد میں بیس رَکْعَتَیں ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ (السُّنَن ُالکبرٰی للبیہقی ج۲ص۶۹۹حدیث۴۶۱۷)
تراویح کی جماعت سنّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہ ہے ، اگر مسجد کے سارے لوگوں نے چھوڑ دی تو سب اِسائَت کے مرتکب ہوئے (یعنی بُرا کیا) اور اگرچند افراد نے با جماعت پڑھ لی تو تنہا پڑھنے والا جماعت کی فضیلت سے محروم رہا ۔ (ہِدایہ ج۱ص۷۰)
تراویح کا وقت عشا کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادِق تک ہے ۔ عشا کے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو نہ ہو گی ۔ (عالمگیری ج۱ص ۱۱۵ )
وترکے بعد بھی تراویح پڑھی جا سکتی ہے ۔ (دُرِّمُختار ج۲ ص۵۹۷) جیساکہ بعض اوقات 29 کو رویت ہلا ل کی شہادت (یعنی چاند نظر آنے کی گواہی) ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ہے ۔
مُستَحَب یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کریں ، اگر آدھی رات کے بعد پڑھیں تب بھی کراہت نہیں ۔ (لیکن عشا کے فرض اتنے مؤخّر (Late) نہ کئے جائیں ) (دُرِّمُختار ج۲ ص۵۹۸)
تراویح اگر فوت ہو ئی تو اس کی قضا نہیں ۔ (دُرِّمُختار ج۲ ص۵۹۸)
بِہتر یہ ہے کہ تراویح کی بیس رَکْعَتَیں دو دو کر کے دس سلام کے ساتھ ادا کر یں ۔ (دُرِّمُختار جلد ۲ صفحہ ۵۹۹)
تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ایک سلام کے ساتھ بھی ادا کی جا سکتی ہیں ، مگر ایسا کرنا مکروہِ (تنزیہی) ہے ۔ (دُرِّمُختار جلد ۲ صفحہ ۵۹۹،چشتی)
ہر دو رَکعت پر قعدہ کرنا فرض ہے ، ہر قعدے میں اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُود شریف بھی پڑھے اور طاق رَکعت (یعنی پہلی ، تیسری ، پانچویں وغیرہ) میں ثَنا پڑھے اور امام تعوذ و تَسْمِیہ بھی پڑھے ۔
جب دو دو رَکعت کر کے پڑ ھ رہا ہے تو ہر دو رَکعت پر الگ الگ نیت کرے اور اگر بیس رَکْعَتوں کی ایک ساتھ نیت کر لی تب بھی جائز ہے ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۵۹۷)
بلاعذر تراویح بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے بلکہ بعض فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے نز د یک تو ہوتی ہی نہیں ۔ (دُرِّمُختار جلد ۲ صفحہ ۶۰۳)
تراویح مسجِدمیں باجماعت ادا کرنا افضل ہے ، اگر گھر میں باجماعت ادا کی توترکِ جماعت کا گناہ نہ ہوا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں پڑھنے کا تھا ۔(فتاویٰ عالمگیری ج۱ص۱۱۶)
عشا کے فرض مسجد میں باجماعت ادا کرکے پھر گھر یا ہال وغیرہ میں تراویح ادا کیجئے اگر بلا عذرِشرعی مسجد کے بجائے گھر یا ہال وغیرہ میں عشا کے فرض کی جماعت قائم کر لی تو ترک واجب کے گناہ گار ہوں گے ۔
نابالِغ امام کے پیچھے صرف نابالغان ہی تراویح پڑھ سکتے ہیں ۔
بالِغ کی تراویح (بلکہ کوئی بھی نماز حتی کہ نفل بھی) نابالغ کے پیچھے نہیں ہوتی ۔
تراویح میں پورا کلامُ اللہ شریف پڑھنا اور سننا سنَّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہ ہے لہٰذا اگر چند لوگوں نے مل کر تراویح میں ختم قراٰن کا اہتما م کرلیا تو بقیہ علاقے والوں کےلیے کفایت کرے گا ۔ فتاوٰی رضویہ جلد 10 صفحہ 334 پر ہے : قرآن دَرْ تراویح خَتم کَرْ دَنْ نَہ فَرْضَ سْت وَ نَہ سُنَّتِ عین۔یعنی تراویح میں قراٰنِ کریم ختم کرنا نہ فرض نہ سنَّتِ عین ہے ۔ اور صفحہ 335 پر ہے : خَتْمِ قُرآن دَرْ تراویح سنّتِ کِفایہ اَسْت ۔ یعنی تراویح میں ختمِ قراٰن سنَّتِ کِفایہ ہے ۔
اگر با شرائط حافِظ نہ مل سکے یا کسی وجہ سے ختم نہ ہو سکے تو تراویح میں کوئی سی بھی سورَتیں پڑھ لیجیے اگر چاہیں تو اَلَمْ تَرَ سے وَالنَّاس دو بار پڑھ لیجیے ، اِس طرح بیس رَکْعَتَیں یا د رکھنا آسان رہے گا ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۸)
ایک بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ جَہر کے ساتھ (یعنی اُونچی آواز سے) پڑھنا سنت ہے اور ہر سورت کی ابتدا میں آہستہ پڑھنا مُستَحَب ہے ۔ مُتَأَخِّرین (یعنی بعد میں آنے والے فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ علیہم) نے ختم تراویح میں تین بار قُل ھُوَ اللہ شریف پڑھنا مُسْتَحَب کہا نیز بہتریہ ہے کہ ختم کے دن پچھلی رَکعت میں الٓمّٓۚ سے مُفْلِحُوْن تک پڑھے ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ ۶۹۴،۶۹۵،چشتی)
اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قراٰنِ پاک اُن رَکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اِعادہ کریں تاکہ ختم میں نقصان نہ رہے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُسْتَحَب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر پھر آگے بڑھے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
الگ الگ مسجِد میں تراویح پڑھ سکتا ہے جبکہ ختم قراٰن میں نقصان نہ ہو ، مَثَلاً تین مساجد ایسی ہیں کہ ان میں ہر روزسوا پارہ پڑھا جا تا ہے تو تینوں میں روزانہ باری باری جا سکتا ہے ۔
دو رَکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جا ئے ، آخر میں سجدۂ سہو کر لے۔اور اگر تیسری کاسجدہ کر لیا توچارپوری کر لے مگر یہ دو شمار ہوں گی۔ہاں دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
تین رَکْعَتَیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں ان کے بدلے کی دو رَکْعَتَیں دوبارہ پڑھے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۸)
سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین، تو امام کو جو یاد ہو اُس کا اعتبار ہے، اگر امام خود بھی تذبذب (یعنی شک و شبہ) کا شکار ہو تو جس پر اعتماد ہو اُس کی بات مان لے (عالمگیری ج ۱ ص۱۱۷)
اگرلوگوں کوشک ہوکہ بیس ہوئیں یا اٹھارہ ؟ تو دو رَکْعَت تنہا تنہا پڑھیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
افضل یہ ہے کہ تمام شفعوں میں قرائَ ت برابر ہو اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں ،اِسی طرح ہر شفع (کہ دو رکعت پر مشتمل ہوتا ہے اس) کی پہلی اور دوسری رَکعت کی قرائَ ت مساوی (یعنی یکساں) ہو ، دوسری کی قرائَ ت پہلی سے زائد نہیں ہونی چاہیے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
امام و مقتدی ہر دو رَکعت کی پہلی میں ثنا پڑھیں (امام اَعُوْذ اور بِسْمِ اللّٰہ بھی پڑھے) اور اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُودِابراہیم اور دعابھی ۔ (دُرِّمُختار و رَدُّالْمُحتار جلد ۲ صفحہ ۶۰۲،چشتی)
اگر مقتدیوں پر گِرانی (دشواری) ہوتی ہو تو تشہد کے بعد اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ پر اکتفا کرے ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ ۶۹۰،چشتی)(دُرِّمُختار و رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۰۲)
اگر ستائیسویں کویا اس سے قبل قراٰنِ پاک ختم ہو گیا تب بھی آخرِ رَمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنّتِ مُؤَکَّدہ ہے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۸)
ہر چاررَکْعَتَوں کے بعد اُتنی دیر بیٹھنا مُستَحَبْ ہے جتنی دیر میں چاررَکعات پڑھی ہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰،چشتی)(عالمگیری ج۱ص۱۱۵)
اس بیٹھنے میں اسے اختیار ہے کہ چپ بیٹھا رہے یا ذِکر و دُرُود اور تلاوت کرے یا چار رَکعتیں تنہا نفل پڑھے ۔ (دُرِمُخْتار ج۲ص۶۰۰)(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰)
یہ تسبیح بھی پڑھ سکتے ہیں : ⬇
سُبْحٰنَ ذِی الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوْتِ، سُبْحٰنَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْہَيْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْكِبْرِيَآءِ وَالْجَبَرُوْتِ ، سُبْحٰنَ الْمَلِكِ الْحَیِّ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ ، سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلٰٓئِكَۃِ وَالرُّوْحِ اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ ۔بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ ۔
بیس رَکْعَتَیں ہو چکنے کے بعد پانچواں ترویحہ بھی مُسْتَحَب ہے ، اگر لوگوں پر گراں ہو تو پانچویں بار نہ بیٹھے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۵)
مقتدی کو جائز نہیں کہ بیٹھا رہے ، جب امام رکوع کرنے والا ہو تو کھڑا ہو جائے ، یہ مُنافقین سے مشابہت ہے ۔ سُوْرَۃُ النِّسَآء کی آیت نمبر 142 میں ہے : وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ ۔
ترجَمہ : اور (منافِق ) جب نَماز کو کھڑے ہوں تو ہارے جی سے) ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۳)(غُنیہ ص۴۱۰)
فرض کی جماعت میں بھی اگر امام رُکوع سے اُٹھ گیا تو سجدوں وغیرہ میں فورًا شریک ہو جائیں نیز امام قعدۂ اُولیٰ میں ہو تب بھی اُس کے کھڑے ہونے کا انتظار نہ کریں بلکہ شامل ہو جائیں ۔ اگر قعدے میں شامل ہو گئے اور امام کھڑا ہو گیا تو اَلتَّحِیَّاتُُ پوری کیے بغیر نہ کھڑے ہوں ۔
رَمضان شریف میں وِتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے ، مگر جس نے عشا کے فرض بغیر جماعت کے پڑھے وہ وِتر بھی تنہا پڑھے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۲،۶۹۳) ۔ بعض علما نے لکھا وتر جماعت سے پڑھ سکتا ہے ۔
یہ جائز ہے کہ ایک شخص عشا و وِتر پڑھائے اور دوسرا تراویح ۔
حضرت سیّدُنا عمرِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرض و وِتر کی جماعت کرواتے تھے اور حضرتِ سیِّدُنا اُبَیِّ بِنْ کَعْب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ تراویح پڑھاتے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۶) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment