فضائل و مسائل زکوٰۃ حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : زکوٰۃ ہر مسلمان، عاقل، بالغ، آزاد اور صاحب نصاب شخص پر واجب ہے جب نصاب پورا ہونے کے بعد اس پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے ۔ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے ۔ سونا چاندی میں چالیسواں حصہ نکال کر بطور زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے یہ ضروری نہیں کہ سونا چاندی کی زکوٰۃ میں سونا چاندی ہی دی جائے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ بازار کے بھاؤ سونے چاندی کی قیمت لگاکر روپیہ زکوٰۃ میں دیں ۔ اگر کسی کے پاس تھوڑی چاندی اور تھوڑا سونا ہے اور سونا چاندی میں سے کوئی بھی الگ سے بقدر نصاب نہیں تو ایسی صورت میں دونوں کو ملاکر ان کی مجموعی قیمت نکالی جائے گی اور جس نصاب (سونا یا چاندی) کو بھی وہ پہنچے اس پر زکوٰۃ واجب ہے ۔
جن زیورات کی مالک عورت ہو خواہ وہ میکے سے لائی ہو یا اس کے شوہر نے اس کو زیورات دیکر مالک بنادیا ہو تو ان زیورات کی زکوٰۃ عورت پر فرض ہے اور جن زیورات کا مالک مرد ہو یعنی عورت کو صرف پہننے کےلیے دیا گیا ہے مالک نہیں بنایا تو ان زیورات کی زکوٰۃ مرد کے ذمہ ہے عورت پر نہیں ۔
تجارتی مال اور سامان کی قیمت لگائی جائے گی اس سے اگر سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہو تو اس کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی ۔
اگر سونا چاندی نہ ہو ، نہ مال تجارت ہو بلکہ صرف نوٹ اور روپے ہوں تو کم سے کم اتنے روپے پیسے اور نوٹ ہوں کہ بازار میں ان سے ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جا سکتی ہو تو وہ صاحب نصاب ہے اور اس شخص کو نوٹ اور روپے پیسوں کی زکوٰۃ ، کل چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے ۔
اگر شروع سال میں نصاب پورا تھا اور آخر سال میں بھی نصاب پورا رہا ۔ درمیان سال میں کچھ دنوں مال گھٹ کر نصاب سے کم رہ گیا تو یہ کمی کچھ اثر نہ کرے گی بلکہ اس شخص کو پورے مال کی زکوٰۃ دینا پڑے گی ۔
روپے پیسوں کی زکوٰۃ میں روپے پیسے ہی دینا ضروری نہیں بلکہ جتنے روپے زکوٰۃ کے نکلتے ہیں اگر ان کا غلہ ، کپڑا ، کتابیں یا کوئی بھی سامان خرید کر مستحق زکوۃ کو دے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ۔
کرایہ پر اٹھانے کےلیے ویگنیں ، موٹریں ، بسیں ، ٹرک اسی طرح دیگیں ، دریاں ، گدے ، کرسیاں ، میزیں ، پلنگ ، مسہریاں یا کرایہ پر اٹھانے کےلیے مکانات اور دکانوں سے حاصل شدہ آمدنی اگر بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر جائے تو پھر اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔
میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ۔ یونہی کوئی شخص اپنے والدین ، اوپر تک اور اپنی اولاد کو نیچے تک زکوٰۃ ، عشر ، فطرانہ اور فدیہ کفارہ کی رقم یا جنس وغیرہ نہیں دے سکتا ۔ ان کے علاوہ غریب رشتہ داروں مثلاً بہن بھائی اوران کی اولاد ، چچا ، پھوپھی ، ماموں ، خالہ اور ان کی اولاد اگر غریب ومستحق ہوں تو ان کو زکوٰۃ وعشر فطرانہ ، فدیہ وغیرہ دینا دوگنا ثواب ہے ۔ اوّل فرض ادا کرنے کا دوم صلہ رحمی اور رشتہ داری کا لحاظ کرنے کاجب یہ تسلی ہو جائے کہ یہ شخص غریب و مستحق ہے اس کو بقدر ضرورت دیدیں ۔ دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ و عشر وغیرہ ہے بلکہ نہ بنانا بہتر ہے تاکہ اس کی عزت ونفس مجروح نہ ہو ۔
زکوٰۃ و صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے اقرباء کو دے پھر ان کی اولاد ، پھر دوسرے رشتہ داروں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو پھر اپنے گاؤں اور شہر کے رہنے والوں کو ۔ (فتاویٰ عالمگیری،چشتی)
زکوٰۃ کے متعلق چند ضروری سوالات اوران کے جوابات : ⬇
سوال : کن کن چیزوں پر زکوٰۃ فرض ہے ؟
1۔ فیکٹری، مشینوں نہ زمین پر فقط تیار شدہ مال کی مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے۔ یونہی اس کے رامیٹریل یعنی خام مال کی مالیت پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔
2۔ مکان یا دکان کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں، ہاں اگر اس کا کرایہ آتا ہے تو باقی مال کے ساتھ وہ بھی شامل ہوجائے گا پھر اگر حد نصاب تک ہے تو سب پرزکوٰۃ ہوگی۔ ورنہ نہیں۔
3۔ گاڑی اگر گھریلویا کمرشل استعمال کیلئے ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں اس کی آمدنی کو باقی مال کے ساتھ جمع کریں گے اور نصاب ہوا تو اس کے حساب سے زکوٰۃ ہوگی ورنہ نہیں۔ ہاں اگر گاڑیوں کی خرید و فروخت کرتا ہے مثلاً اپنا شو روم ہے اور گاڑیاں اس کی اپنی ملکیت ہیں تو یقینا یہ مال تجارت ہے۔ ان کی مالیت پر مقررہ شرائط کے تحت زکوٰۃ فرض ہوگی۔
سوال : کیا سیونگ سر ٹیفکیٹ اور قرض پر زکوٰۃ ہے؟
جواب : آپ کی ملکیت میں جتنا سرمایہ ہے خواہ نقد خواہ سونا چاندی خواہ مال تجارت خواہ واجب الوصول قرض جس کی وصولی کی امید ہو۔ ان سب کو جمع کرکے، سال گزرنے پر سب کی زکوٰۃ فرض ہے۔ سیونگ سر ٹیفکیٹ ہو یا انعامی بانڈز، یہ اور اس جیسی اور تمسکات مالیہ مال ہی ہے۔ سب کی مالیت پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے۔
سوال : (1) کیا قرض کو زکوٰۃ میں بدلا جاسکتا ہے؟
جواب : 1۔ اگرمقروض غریب ومفلس ہے۔ صاحب نصاب نہیں، تو بیشک وہ قرض زکوٰۃ سے بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ غنی ہے صاحب نصاب ہے تو چونکہ اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں، لہٰذا یہ قرض بطور زکوٰۃ اسے دینا جائز نہیں۔
پہلی صورت ہے تو یقیناً زکوٰۃ کا مستحق ہے، اسے کچھ اور بتانے کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ کہہ دیں کہ آپ میرے قرض سے سبکدوش ہیں۔ اب اس کی فکر نہ کریں۔ تاکہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔
سوال : کیا مزارع سے اگر حکومت زکوٰۃ لے لے تو مالک بری الذمہ ہوجائے گا؟
کیا سکنی جائیداد پر زکوٰۃ ہے؟
کیا خالی پلاٹ پر زکوٰۃ ہے؟
کچھ بارانی زمین ہے جس پر کبھی بارش ہوجائے تو کوئی پیداوار ہوجاتی ہے ورنہ نہیں کیا اس پر بھی زکوٰۃ ہے؟
ایک ایکڑ بیٹے کے نام پر ہے۔ جس کی ادائیگی کردی ہے کیا اس پر بھی زکوٰۃ ہے؟
گھریلو سامان جن میں کرسیاں، برتن، چارپائیاں ہیں کیا ان پر بھی زکوٰۃ ہے؟
جواب : 1۔ مزروعہ اراضی پر کوئی شرعی ٹیکس نہیں۔ ہاں اس کی پیدوار پر ہے۔ اگر زمین بارانی ہے۔ یا چشموں کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اور پانی پر کوئی خرچ نہیں آتا، تو اس کی کل پیداوار پر دسواں حصہ عشر (10/ 1) فرض ہے۔ اگر سیراب کرنے کیلئے پیسے خرچ ہوتے ہیں مثلاً نہری پانی پر آبیانہ، یاٹیوب ویل کاخرچہ، تو ایسی زمین کی پیداوار پر نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (20/ 1) عشرفرض ہے۔ یہ عشر ہر فصل پر لازم ہے۔ خواہ سال میں ایک بار ہویا دویا زیادہ۔ اگر زمین ہے مگر پیداوار نہیں دیتی اس پر کسی قسم کے واجبات نہیں، خواہ ہزار ایکڑ ہو۔ پلاٹ، مکان، دکان، گھر کے برتن، بستر، کپڑے، اور برتنے کی گھریلو اشیاء خواہ جتنی چیزیں ہوں ان پر زکوٰۃ نہیں۔ ہاں اگریہی اشیاء یا اور چیزیں مال تجارت کے طور پر ہیں، تو مال تجارت کی تمام مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے۔ زمین، پلاٹ، مکان، دکان پر کوئی زکوٰۃ نہیں خواہ بیچنے کیلئے ہوں خواہ رہائش کیلئے۔ خواہ کرائے کیلئے، ہاں ان کی آمدنی جب نصاب کو پہنچے، اس آمدنی پر زکوٰۃ ہے۔ یہی حال ہے۔ کارخانے وغیرہ کا کہ اس کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں۔ جو مصنوعات اس میں تیار ہوتی ہیں ان پر زکوٰۃ ہے۔ اس خام مال پر زکوٰۃ ہے۔ جس سے مصنوعات تیارہوتی ہیں۔ اس مشینری پر نہیں جس پر مال تیار ہوتا ہے۔
حکومتی ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد جو رقم بچی ہے اس پر زکوٰۃ ہے۔ سونا وچاندی خواہ زیورات کی صورت میں ہوں یا ڈلی وغیرہ کی صورت میں خواہ اس سے تجارت کریں، خواہ نہ کریں، جب بقدر نصاب ہوں، اور سال گذر جائے، ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اگر مزروعہ زمین کی کل پیداوار پر اوپر مذکورہ طریق پر حکومت عشر لیتی ہے تو آپ بری الذمہ، اگر اس نے اس میں حد رکھی ہے اور اس سے کم میں نہیں لیتی تو آپ ساری پیداوار سے عشرادا کریں۔ یعنی جتنے حصے کا حکومت نے نہیں لیا، اس کا آپ ادا کریں جو حکومت نے شرعی نصاب کے مطابق لیا ہے وہ ادا ہوگیا۔
سوال : ایک شخص کی سالانہ آمدنی 50,000 ہے اور تقریباً۔ 50,000 کا مقروض بھی ہوجاتا ہے جبکہ اس کی زمین قریباً 4 لاکھ کی ہے۔ اس پر زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ کار کیا ہے؟
جواب : جس آدمی کی آمدنی پچاس ہزار روپے ہے۔ اس پر قرض بھی تقریباً اتنا ہی ہے، تو معلوم ہوا کہ اس کے پاس کچھ نہیں۔ لہٰذا زکوٰۃ اس پر فرض نہیں، قرض منہا کر کے جو رقم بچ جائے اگر وہ نصاب کو پہنچتی ہے تو سال گزرنے پر اس پر زکوٰۃ دینا فرض ہے۔ اگر قرض سے بچا ہی کچھ نہیں تو زکوٰۃ کس چیز پر؟
2۔ زمین کی کل پیداوار پر، ہر فصل پر، عشر ادا کرنا فرض ہے۔ اگر زمین بارانی ہے تو پیداوار کا دسواں حصہ 1/10 اگر نہری یا ٹیوب ویل سے سیراب ہوتی ہے تو نصف عشر یعنی بیسواں حصہ 1/20 فرض ہے۔ اس کے علاوہ زمین کی مالیت پریا مکان دکان وغیرہ کی مالیت پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ (عامہ کتب فقہ)
سوال : ایک ساتھی نے میٹرسے کم بے شمار کپڑے کے پیس فلاحی ادارے کو بھیجے ہیں۔ اس ساتھی نے یہ کپڑا زکوٰۃ کے طور پر بھیجا ہے۔ مگر اس وقت اس کا کوئی مصرف نہیں کیا ایسا کرنے سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہوجائے گی۔
جواب : میٹر سے کم کپڑا بظاہر کسی مصرف کا نہیں۔ اس لئے بیکار ہے۔ اس سے ان کی زکوٰۃ ہرگزادا نہ ہوگی۔
قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے۔
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ ۔ (آل عمران : 3 / 92)
’’تم ہرگز نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک راہ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو۔ اور تم جو کچھ خرچ کرو، اللہ اس کو جانتا ہے‘‘۔
وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۔ (البقرۃ : 2 / 272)
’’تم جو اچھی چیز خرچ کرو، تو تمہارا اپنا بھلا ہے‘‘۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ۔ (البقرۃ : 2 / 267)
’’اے ایمان والو! اپنی عمدہ اور پاک کمائے ہوئے مالوں میں سے خرچ کرو! اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا، اور اس میں سے گھٹیا چیز خرچ کرنے کا ارادہ بھی نہ کرو، کہ تمہیں ملے تو نہ لو، جب تک اس میں آنکھیں بند نہ کرلو، اور جان رکھو کہ اللہ بے پرواہ سراہا گیا ہے‘‘۔
مالک کے ارشادات پڑھیں اور بار بار پڑھیں۔ ایسے کپڑے کے پیس اللہ کے نام پر دینے والے بھائی کو اللہ کے حضور توبہ کرنا چاہئے۔ اظہار ندامت کرنا چاہئے۔ اور متعلقہ ادارے سے بھی معذرت کرنا چاہئے۔ اور خوف خدا کے پیش نظر آئندہ محتاط رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ عمدہ مال دے۔ آپ اپنے اور اپنے عیال کے لئے اچھا لباس منتخب فرمائیں اور مالک کے نام پر گھٹیا اور بیکار مال دیکر اپنے دینی فرض سے سبکدوش ہونے کی سوچیں؟ اور دل کو جھوٹی تسلی دیکر مطمئن کریں۔ غلط بات ہے زکوٰۃ کی صورت میں یہ عبادت متعین شرح سے سال کے بعد فرض ہوتی ہے۔ اسے خوشدلی سے ادا کرنا چاہئے۔ ان پِیسوں کے دینے سے جو کسی کام نہ آئیں زکوٰۃ ہرگز ادا نہ ہوگی ان کی نہ قدر ہے نہ قیمت زکوٰۃ مال پر ہے بیکار چیز پر نہیں تاوان سمجھ کر بے دلی اور تنگدلی سے نہیں دینا چاہئے۔ زکوٰۃ وعشر تو فرض ہیں۔ نفلی صدقہ وخیرات بھی جب اس طرح دیا جائے قبول نہیں ہوتا۔ الٹا اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ دے اور انصاف کرنے کی توفیق دے آمین۔
سوال : وہ دینی درس گاہیں جو بچوں سے باقاعدہ فیسیں لیتی ہیں کیا ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب : ماڈل سکولز یا ایسے تعلیمی ادارے جہاں طلباء سے فیس لی جاتی ہے ان میں زکوٰۃ فنڈ جمع کرنا تاکہ نادار اور ضرورت مند طلبہ کی ضروریات پوری کی جائیں۔ بالکل درست بلکہ مناسب تر ہے تاکہ ان طلبہ کی بروقت امداد کی جائے اور وہ سکون و اطمینان سے علم حاصل کرسکیں۔ قرآن کریم میں مصارف زکوٰۃ آٹھ بیان ہوئے ہیں۔
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۔ (التوبه : 9 / 60)
’’زکوٰۃ تو صرف محتاجوں، مسکینوں اور جمع کرنے پر مقرر ملازموں اور جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مانوس کرنا ہو، اور مملوکوں کی گردنیں چھوڑانے، اور قرض داروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کیلئے ہے‘‘۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں۔
ان طالب العلم یجوزله اخذ الزکاة ولو غنیااذا فرغ نفسه لافادة العلم و استفادته لعجزه من الکسب والحاجة داعیهّ الی مالابد منه ۔ (الدار المختار والرد المختار ص 240 ج 2،چشتی)
’’طالب علم خواہ امیر ہو زکوٰۃ لے سکتا ہے، جب اس نے اپنے آپ کو علم پڑھانے اور پڑھنے کیلئے وقف کررکھا ہے کہ وہ رزق کمانے سے عاجز ہے، اور ضروریات زندگی کے حاصل کرنے کی مجبوری اس کے جائز ہونے کا سبب ہے‘‘۔
لہٰذا آپ اپنے تعلیمی ادارے کی ضروریات بالخصوص نادار طلبہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زکوٰۃ وصول کرسکتے ہیں۔ تمام مذہبی اور دیگر رفاہی ادارے زکوٰۃ پر ہی چل رہے ہیں۔ آپ کے لئے بہتر ہوگا کہ زکوٰۃ فنڈ سے نادار طلبہ کے اخراجات پورے کریں۔ خواہ کتب وسٹیشنری ہو۔ خواہ فیس وخوراک وپوشاک اور دوا وغیرہ کی صورت میں ہو۔
سوال : کیا کسی ادارے کو مشین وغیرہ خرید کردی جاسکتی ہے جس میں کوئی سیدہ بھی کام سیکھنے آتی ہو؟
جواب : 1۔ زکوٰۃ کی رقم سے کسی رفاہی ادارے کیلئے مشین وغیرہ خرید کردینا اسی طرح جائز ہے جس طرح کسی حاجت مند شخص کو انفرادی طور پر۔ یہ مشین یا مشینیں دراصل اس ادارے کی ملکیت ہوتی ہیں۔ چاہے استعمال کوئی بھی کرے۔ سید ہو یا سید زادی کچھ فرق نہیں پڑتا۔
سوال : کیا زکوٰۃ کی رقم اپنے چھوٹے بھائی کو دی جاسکتی ہے جو بے روز گار ہو؟
جواب : بہن، بھائی، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی یا ان کی اولاد، اگر غریب ہیں اور حاجت مند ہیں۔ تو ان کو زکوٰۃ دینا دوہرا ثواب ہے۔ ایک صلہ رحمی کا دوسرے ادائیگی فرض کا ہاں اپنے اصول یعنی والدین، دادا، دادی، نانا، نانی اور ان سے اوپر والے اور اپنے فروع یعنی اولاد مثلاً بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی اور ان کی اولاد، کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ یونہی میاں بیوی ایک دوسرے کو عشر زکوٰۃ فطرانہ فدیہ مال کفارہ نہیں دے سکتے۔
سوال : اگر کسی خاتون کے پاس پندرہ سولہ تولے سونا ہے۔ اولاد میں سے اگر کوئی بیمار ہو جائے یا ان کی تعلیم پر زکوٰۃکی رقم خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب : 1۔ اگر یہ اولاد نابالغ ہے اور نادار ہے اور اس کے والدین مالدار صاحب نصاب ہیں تو اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ نابالغ اولاد کا نان نفقہ والدین کے ذمہ ہے اور وہ مالدار ہیں۔
2۔ اور اگرکسی کی اولاد بالغ ہے نادار ہے، والدین صاحب نصاب ہیں تو اس اولاد کو مال زکوٰۃ دیا جاسکتا ہے۔
3۔ اپنی اولاد بیمار ہو یا تندرست، چھوٹی ہو یا بڑی اس کو زکوٰۃ وغیرہ دینا جائز نہیں۔
4۔ جی نہیں۔ والدین، اولاد یا میاں بیوی، ایک دوسرے کو زکوٰۃ وعشر فطرانہ، فدیہ کفارہ کی رقم یا جنس نہیں دے سکتے۔ والدین میں ماں، باپ، دادی، دادا، اوپر تک۔ نانا، نانی اوپر تک۔ اولاد۔ میں بیٹا، بیٹی۔ اور ان کی اولاد نیچے تک سب شامل ہیں۔ باقی رشتہ داروں کو دے سکتے ہیں۔ بلکہ غریب عزیزوں۔ رشتہ داروں کوصدقہ، خیرات، زکوٰۃ وغیرہ دینا بہ نسبت دوسرے غرباء کے، افضل ہے کہ فرض بھی ادا ہوجاتا ہے اور صلہ رہمی بھی۔
سوال : میری سالی ہے جس کے پاس پندرہ سولہ تولے سونا ہے تو کیا اس کی اولاد پر اگر وہ غریب ہو تو ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں۔ اور میری سالی کی ایکسیڈنٹ میں ٹانگ ٹوٹ گئی ہے کیا زکوٰۃ کے پیسوں سے میں ان کی مدد کرسکتا ہوں؟
جواب : 1۔ جو مرد یا عورت رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے لباس برتنے کیلئے برتن، فرنیچر، سفر کیلئے سواری۔ بیماری کے لئے علاج، اہل وعیال کے لئے کھانا پینا تعلیم، نلکا، بجلی کے اخراجات نکال کر صاحب نصاب ہے۔ عاقل وبالغ ہے مال پر سال گزر گیا ہے تو اس مال پر ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض ہے۔ اور جس شخص پر زکوٰۃ فرض ہے زکوٰۃ لینے کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے؟ رہی یہ بات کہ دیہاتی لوگ اس سونے کو بچیوں کی یا بچوں کی امانت سمجھتے ہیں۔ اس سے زکوٰۃ دینے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
2۔ بہن، بھائی، ماموں، چچا، سالی، سانڈو یعنی برادران لاء۔ وغیرہ یا ان کی اولاد جو بھی غریب ہے ضرورت مند ہے آپ اس پر زکوٰۃ کا مال خرچ کر سکتے ہیں۔
3۔ سالی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اس کی ٹانگ ٹوٹ چکی ہے وغیرہ وغیرہ آپ زکوٰۃ فنڈ سے سالی، سالہ وغیرہ کی مدد کرسکتے ہیں بلکہ آپ ضرورایسا کریں۔ چونکہ اس کے پاس 15۔ 16 تولہ سونا موجود ہے لہٰذاوہ زکوٰۃ فنڈ سے اعانت نہیں لے سکتی لیکن اگر اس کا خاوند یا اولاد ہے اور یہ مستحقین زکوٰۃ ہیں تو وہ زکوٰۃ لے سکتے ہیں۔ کیونکہ سالی کا سونا اسی کا ہے۔ اس کی اولاد یا خاوندکا نہیں لہٰذا وہ اگر ضرورت مند ہیں اور صاحب نصاب نہیں تو آپ ان کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ آپ سالی کی جو بھی مدد کرنا چاہیں وہ بجائے اسے دینے کے لئے اس طرح دیدیں۔ امید ہے کہ آپ کے تمام سوالات کے جواب ہوگئے ہیں۔
سوال : کیا زکوٰۃ، فطرانہ یا قربانی کی کھالوں کی رقم مدرسہ کے کتب خانہ یالائبریری جو عام مسلمانوں کے لئے بنائی جائے پرخرچ کرنا جائز ہے؟
جواب : زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے تملیک شرط ہے۔ یعنی کسی مستحق کو مالک بنانا۔ حکومت اگر مستحقین میں تقسیم کرنے کے لئے زکوٰۃ وصول کرے تو اسے دینا جائز ہے۔ جیسا کہ ابتدائے اسلام میں ہوتاتھا کہ زکوٰۃ، عشر اور فطرانہ حکومت اسلامی خود وصول کرکے مستحقین کی کفالت کرتی تھی۔ یہی بہتر اسلامی طریقہ ہے۔ آج کل حکومت زکوٰۃ تو لیتی ہے مگر وہ ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی، جو اس کے ساتھ عائد ہوتی ہیں۔ بہرحال زکوٰۃوفطرانہ کے مستحق غرباء ومساکین، مسافر بیوگان اوریتا میٰ ہیں۔ ان کو ترجیح دیں۔ باقی گنجائش ہوتو لائبریری و مدرسہ پر بھی یہ رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔
سوال : کیا زکوٰۃ کی رقم فلاح عامہ کے کاموں پر خرچ کی جاسکتی ہے؟
جواب : رفاہی اداروں کیلئے زکوٰۃ خرچ کی جاسکتی ہے مثلاً محتاج گھر، یتیم خانے، دینی مدارس، سکولز، کالجز، جامعات، فنی ٹریننگ کے سینٹرز، دیگر تعلیمی ادارے، ہسپتال میں غریب مریضوں کی علاج وخوراک پریہ سب رفاہی ادارے ہیں۔ البتہ سڑکوں کی تعمیر، نالیوں کی مرمت وغیرہ پر خرچ نہیں کی جاسکتی۔ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں، باقی کام ان سے کریں۔
سوال : میری ایک بھتیجی ہے جس کا والد فوت ہوگیا ہے۔ کیا میں اپنی زکوٰۃ کی رقم سے اس کی مالی مدد کرسکتا ہوں۔ یا اس کے نام بینک میں جمع کرواسکتا ہوں تاکہ جب اس کی شادی کا مرحلہ آئے تو وہ تمام رقم اس کی والدہ کو یا اس رقم سے سامان خرید کر اس کو دے دیا جائے؟
جواب : آپ زکوٰۃ یا دیگر صدقات، جو بھی دیں آپ کے بہن، بھائی یا ان کی غریب ومستحق اولاد اس کی زیادہ حقدار ہے۔ لہٰذا آپ بلا شبہ اپنی بھتیجی کی ضروریات پر مال زکوٰۃ صرف کر سکتے ہیں۔
سوال : جیل خانہ جات میں مختلف جرائم میں سزا پانے والے قیدیوں کو جیل کی سزا کے علاوہ جرمانہ بھی ہوتا ہے۔ جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں ان کو اصل سزا قید کے علاوہ مزید قید کا ٹنی پڑتی ہے۔ عموماً نہایت غریب، نادار اور مفلس خاندانوں کے افراد جرمانہ ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے اصل قید کے بعد مقید ہی رہتے ہیں اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے رائے طلب کی ہے کہ کیا ایسے لوگوں کو زکوٰۃ یا بیت المال سے رقم دے کر قید سے رہائی دلوائی جاسکتی ہے۔
جواب : اگر قیدی صاحب حیثیت ہے، جیسے بڑے بڑے مالدار، سرمایہ دار، جاگیردار، تاجر یا ملازم، وہ تو جرمانہ اپنے گھر سے دیدیتے ہیں اور جان چھڑا لیتے ہیں، مگر غریب ونادار قیدی جرمانہ ادا نہیں کرسکتے اور مزید عرصہ قید بھگتتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مال زکوٰۃ دیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ فقیر، مسکین اور فی الرقاب، تینوں مصارف میں شامل ہیں۔ گوفی الرقاب نزول قرآن کے وقت لونڈی غلام کے معنوں میں استعمال ہو مگر آج کے دور میں مفلس اسیروں کو بھی اس عام صنف میں شامل کرلیا جائے تو میرے نزدیک اس کی گنجائش موجود ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ بیت المال یا زکوٰۃ فنڈ سے نادار غریب لاوارث قسم کے قیدی اگر جرمانہ اداکرکے رہائی پاسکتے ہیں تو ان کو زکوٰۃ یا بیت المال سے جرمانہ کی رقم دے کر رہائی دلائی جاسکتی ہے ۔
الحَمْدُ ِلله الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دور دراز دیہاتوں میں غریب بچوں کو مفت عصری و دینی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے : ⬇
اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، استاذہ کرام کے وظاٸف ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ، کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر : ⬇ 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، جزاكم اللهُ خیراً کثیرا آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment