Thursday 31 March 2022

فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ سوم

0 comments

فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قیام رمضان (تراویح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بیس رکعت فرمایا ۔ اسی پر حضرات خلفاءِ راشدین میں سے حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ ، دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ائمہ مجتہدین و حضرات مشائخ رحمہم اللہ عمل پیرا رہے ، بلادِ اسلامیہ میں چودہ سو سال سے اسی پر عمل ہوتا رہا ہے اورامت کا اسی پر اجماع ہے ۔ اس کی مزید وضاحت آ رہی ہے  ان شاء اللہ ۔

لفظ تراویح

حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَالتَّرَاوِيحُ جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ وَهِيَ الْمَرَّۃُ الْوَاحِدَ ۃُ  مِنَ الرَّاحَۃِ کَتَسْلِیْمَۃِ مِنَ السَّلَامِ ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری ج4ص317)
ترجمہ : تراویح ”ترویحہ‘‘ کی جمع ہے اور ترویحہ ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں ، جیسے ”تسلیمہ‘‘ ایک بار سلام کرنے کو کہتے ہیں ۔
تراویح کسے کہتے ہیں ؟ ”ترویحہ‘‘ وہ نشست ہے جس میں کچھ راحت لی جائے ۔ چونکہ تراویح کی چاررکعتوں پر سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر راحت لی جاتی ہے ، اس لیے تراویح کی چار رکعت  کو ایک ”ترویحہ‘‘ کہا جانے لگا اورچونکہ پوری تراویح میں پانچ ترویحے ہیں ، اس لیے پانچوں کامجموعہ ”تراویح‘‘ کہلاتاہے ۔
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمہة اللہ علیہ فرماتے ہیں : سُمِّیَتِ الصَّلٰوۃُ فِی الْجَمَاعَۃِ فِی لَیَالِی رَمَضَانَ التَّرَاوِیْحَ ؛ لِاَنَّھُمْ اَول مااجتمعواعلیھا کانوا یستریھون بین کل تسلیمتین ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری: جلد 4 صفحہ 317،چشتی)
ترجمہ : جونماز رمضان کی راتوں میں باجماعت اداکی جاتی ہے اس کانام ”تروایح“ رکھا گیا ہے ، اس لیے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پہلی بار اس نماز پر مجتمع ہوئے تو وہ ہر دو سلام (چاررکعتوں) کے بعدآرام کیاکرتے تھے ۔

تروایح سنت مؤکدہ ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام رمضان کو سنت قرار دیا ہے جیسا کہ باحوالہ عرض  کیا جا چکا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرات خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس پر مواظبت فرمائی اور یہی مواظبت دلیل ہے کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد روایت فرماتے ہیں : فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ۔ (سنن ابی داؤد: ج2،ص290، باب فی لزوم السنۃ،چشتی)
ترجمہ : تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کو اپنے اوپر لازم پکڑو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ۔

اس حدیث مبارک  میں جہاں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت پر لفظ ’’علیکم‘‘ (تم پر لازم ہے) اور عضوا علیھا بالنواجذ (مضبوطی سے تھام لو) سے عمل کرنے کی تاکید فرمائی اسی طرح حضرات خلفاء راشدین  رضی اللہ عنہم کی سنت پر بھی عمل کرنے کی تاکید فرمائی جوکہ تراویح کے سنت موکدہ ہونے کی دلیل ہے ۔

با جماعت نمازتراویح ؛ تین راتیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تراویح کی جماعت صرف تین دن ثابت ہے ، پورا مہینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو کوئی نماز نہ پڑھائی جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے ۔ چنانچہ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِىَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ. قَالَ فَقَالَ « إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ ». قَالَ فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلاَحُ . . . . ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 204،  باب فى قيام شهر رمضان،چشتی)
ترجمہ : فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے پورا مہینہ ہمیں رات میں نماز نہیں پڑھائی یہاں تک کہ سات دن باقی رہ گئے تو (تیئسویں رات میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نمازپڑھائی یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی جب چھ دن رہ گئے تو نماز نہیں پڑھائی پھر جب پانچ دن رہ گئے تو نماز پڑھائی (یعنی پچیسویں رات میں) یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی میں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ اس رات کے باقی حصے میں بھی ہمیں نفل پڑھا دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا ! آپ نے فرمایا : جب کوئی شخص امام کے ساتھ نماز (عشاء) پڑھے پھر اپنے گھر واپس جائے تو اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا ۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب چار دن باقی رہ گئے توآپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی ، جب تین دن باقی رہ گئے توآپ نے اپنے گھر والوں ، عورتوں اور دیگر لوگوں کوجمع کیا اور نماز پڑھائی (یعنی ستائیسویں رات) اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ ہم سے سحری رہ جائے گی ، پھر باقی ایام بھی آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی ۔

بیس رکعت تراویح کا صحیح احادیث اور تابعین کے اقوال سے ثبوت

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تراویح کے بارے میں مختلف روایات ہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمین کا اس پر اتفاق ہےکہ تراویح بیس رکعت پڑھی جائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمل کو صحابہ کرام سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا ، لہٰذا تراویح بیس رکعت ہی پڑھنی چاہئیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیس رکعت تراویح سے متعلق جو روایات منقول ہے ، اسے ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے : ⬇

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم بیس (20) رکعات تراویح پڑھتے تھے ، اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے ، اور امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے ۔
(السنن الکبری للبیھقی جلد 2 صفحہ 698 رقم الحدیث : 4288، ط: دارالکتب العلمیۃ،چشتی)

علامہ محمد بن علی نیموی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ( معتبر ) ہیں ، اس حدیث کی سند کو امام نووی نے اپنی کتاب " الخلاصہ" میں ، امام ابن العراقی نے "شرح التقریب " میں ، اور امام سیوطی نے " المصابیح" میں صحیح کہا ہیں ۔ (التعلیق الحسن علی آثار السنن : ص 246 ، ط: مکتبۃ البشری،چشتی)

امام مالک نے یزید بن رومان علیہما الرحمہ سے روایت کیا ہے کہ لوگ (یعنی صحابہ و تابعین) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک کے مہینے میں تئیس رکعات (تین رکعت وتر سمیت) تراویح پڑھا کرتے تھے ۔ (مؤطّا الامام مالك بروايۃ يحيي بن يحيي الليثي ، ص 60 ، رقم الحدیث : 249 ، ط: مکتبۃ دارالکتب العلمیۃ،چشتی)

اس حدیث کی سند اگرچہ مرسل ہے ، لیکن مرسل روایت جمہور (جن میں حنفیہ بھی شامل ہیں) کے نزدیک حجت ہے ، نیز مرسل روایت کی تائید جب دوسرے صحیح مرسل روایت سے ہو جاتی ہے تو وہ قابل حجت ہوتی ہے ، ذیل کی روایت بھی مرسل ہے ، لہذا وہ اس کی مؤید ہے ۔

یحیی ابن سعید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 2 صفحہ 163، رقم الحدیث 7682 ط مكتبة الرشد)

اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ، اور مرسل ہونے کی وجہ سے ماقبل روایت کےلیے مؤید ہے ۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں، مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے ، اس لیے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے امیرالمومنین ! آپ نے ایک ایسی بات کا حکم دیا ہے ، جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں عمل نہیں رہا ہے (یعنی باجماعت تراویح پڑھنا) ، حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا : میں جانتا ہوں ، لیکن یہی بہتر ہے ، تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی ۔ (الأحاديث المختارة لضياءالدين المقدسي: ج3، ص 367، رقم الحدیث : 1161، ط: دار خضر)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (20) رکعات ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھتے پایا ہے ۔ (جامع الترمذی : ج 3، ص 160، ط: مطبعۃ مصطفى البابي الحلبي – مصر،چشتی)

حضرات تابعین رضی اللہ عنہم کے چند مشاہدات بھی ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں : ⬇

جلیل القدر تابعی حضرت عطاء رضی الکہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم) کو بیس (20) رکعات تراویح اور تین (3) رکعات وتر پڑھتے پایا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ بحوالہ آثار السنن،ص 247،ط : مکتبۃ البشری)

امام نیموی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند حسن (صحیح کی ایک قسم ) ہے ۔

ابوالخصیب علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ سوید بن غفلہ ہمیں تراویح پانچ ترویحے پڑھاتے تھے ، جو کہ بیس رکعات بنتی ہیں ۔ (السنن للبیھقی بحوالہ آثار السنن، ص 247، ط : مکتبۃ البشری،چشتی)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند بھی حسن ہے ۔

ان صحیح روایات سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام اور حضرات تابعین کو بیس رکعت تراویح پر جمع فرمایا تھا ، اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی اس تعداد کی مخالفت اور تبدیلی بھی ثابت نہیں ہے ، لہٰذا بیس رکعت تراویح خلفائے راشدین ، بلکہ موجود تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا متفقہ سنت طریقہ ثابت ٹھہرا ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد صرف دو سال بعد شروع ہوا ہے ، لہٰذا بیس رکعت کا فیصلہ بالکل دورِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مزاج نبوی کے موافق تھا ۔

نیز جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی سنت کی اتباع کا حکم دیا ہے ، ویسے ہی حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اتباع کا حکم بھی دیا ہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفائے راشدین کی سنت پر چلو ، اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو ، اور (دین میں) نئی چیزوں کی ایجاد سے بچو، کیونکہ دین میں (اپنی طرف سے) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ (سنن ابی داود،ج4، ص 200 رقم الحدیث 4607 ط المکتبۃ العصریۃ)

ائمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کا بیس رکعت تراویح کے سنت ہونے پر اتفاق ہے ۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ : ج 27، ص 141، ط : مطابع دار الصفوة مصر،چشتی)

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ :
اگر لوگ زیادہ دیر تک کھڑے ہونے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ، تو ایسی صورت میں بیس رکعت تراویح پڑھنا افضل ہوگا ۔ اسی تعداد پر اکثر مسلمانوں کا عمل ہے ، اور یہی تعداد دس اور چالیس رکعت کے درمیان معتدل طریقہ ہے ۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ : ج 27، ص 144، ط : مطابع دار الصفوة – مصر)

سعودی وہابیوں کے مشہور عالم علامہ ابن باز کہتے ہیں کہ : اگر کوئی شخص بیس رکعات تراویح پڑھتا ہے ، جیسا کہ حضرت عمر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے رمضان کی بعض راتوں میں منقول ہے ، تو ایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ تراویح کا معاملہ وسعت والا ہے ۔ (مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز،ج 11، ص 322، ط: مکتبۃ الشاملۃ) ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔