امر بالمعروف و نہی عن المنکر حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حق کی دعوت دینی والی اور امر و نہی کا فریضہ سرانجام دینے والی جس جماعت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبت فرماتے ہیں اور جن کو اول زمانے کے اجر کی خوشخبری سنائی ہے اور جو ہر دور میں قیامت تک رہے گی وہ کونسی ہے ؟
مَنْ يُرِدِ ﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَﷲُ يُعْطِي ۔ وَلَنْ تَزَالَ هٰذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلٰی أَمْرِ ﷲِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتّٰی يَأْتِيَ أَمْرُ ﷲِ ۔
ترجمہ : جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے دین کی فقہ (سوجھ بوجھ) عطا فرماتا ہے۔ بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور یہ اُمت ہمیشہ اللہ کے دین پر قائم رہے گی اور ان کے مخالف قیامت تک اُنہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب من يرد ﷲ به خيرا يفقهه في الدین، 1 / 39، الرقم / 71)(مسلم في الصحیح، کتاب الإمارة، باب قوله : لا تزال طائفة من أمتي ظاهرین علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3 / 1524، الرقم / 1037)(أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 101، الرقم / 16973)(الطبراني في المعجم الکبير، 19 / 329، الرقم / 755)
ایک حدیث ہے پوری اس کے چار نکات ہیں ۔ اللہ پاک اُن سے جن سے ارادہ کرے گا خیر کا ، ان کو دین کے علم اور فقہ میں مہارت عطا کر دے گا ۔
پہلی شرط تو یہ ہے کہ محض اَن پڑھ نہیں ہونے چاہیئں، محض سادہ نہیں ہونے چاہیئں، بلکہ دین کی معرفت، دین کا علم اور دین میں تفقہ ہونا چاہئے۔ وہاں سے علم و فقہ دین کے چشمے بھی پھوٹیں، اللہ اگر ارادہ کرتا ہے خیر کا کسی کے ساتھ تو اسے تفقہ فی الدین دیتا ہے، وہاں سے علم دین کے چشمے بھی پھوٹتے ہیں۔ ایک بات۔ اس کے بعد دوسری چیز فرمائی : وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاﷲُ يُعْطِي ۔ پھر اس جماعت کی پہچان یہ ہونی چاہیے کہ ان کا عقیدہ یہ ہو کہ عطا اللہ کرتا ہے مگر ملتا وسیلہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ، یہ دوسری بات فرمائی ۔ اگر کسی کا یہ عقیدہ نہیں تو وہ وہ جماعت نہیں ہے جس کا اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں ۔ وَ إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ فرمایا : ایک تو یہ کہ علم و فقہ کے چشمے پھوٹیں اور دوسرا یہ کہ وہ میری تقسیم سے لیں کہیں اور سے نہ لیں ۔ نہ وہ امریکہ سے لینے والے ہوں، نہ وہ اور عرب ریاستوں سے لینے والے ہوں، نہ وہ شیخوں سے لینے والے ہوں، نہ وہ انڈیا اور ایران سے لینے والے ہوں، نہ وہ برطانیہ اور یورپ سے لینے والے ہوں۔ خدا جانے کہاں کہاں سے کون لیتا ہے، وہ کہیں سے نہ لیں وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وہ صرف مجھ سے لیتے ہوں ۔ ہمارا عقیدہ، ہمارا وطیرہ، ہمارا طریقہ یہ ہے کہ دیتا اللہ ہے اور تقسیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے ہیں ۔ ہم اللہ کی عطا کو تقسیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیتے ہیں ، اللہ کی عطا کو دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیتے ہیں اور کُل مسلمانوں کے لیے سبق ہے، عالم اسلام کے لیے سبق ہے، کُل پاکستانیوں کےلیے سبق ہے، جملہ غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے سبق ہے، اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کےلیے اور ڈیڑھ ارب امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افراد کےلیے سبق ہے کہ عقیدہ یہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : متفق علیہ حدیث ہے بخاری و مسلم کی جو عرض کی جق چکی ہے ، بخاری شریف کتاب العلم، حدیث نمبر 71 اور مسلم شریف کتاب الامارۃ، حدیث نمبر 1037۔ متفق علیہ ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصول بتا دیا، جماعت کی پہچان بتا دی اور عقیدہ صحیح بتا دیا، فرمایا : إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمیں کوئی اور دیتا ہے، قاسم کہتے ہیں تقسیم کرنے والا۔ آپ کو کس سے ملتا ہے؟ جو تقسیم کرتا ہے۔ فرمایا : تم نے خدا کو نہیں دیکھا، وَﷲُ يُعْطِي۔ دیتا تو اللہ ہے، عطا اللہ کرتا ہے، عقیدہ ہونا چاہیے، عطا اللہ کرتا ہے مگر اس کی عطا کو تقسیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے ہیں۔ تو گویا عطا خدا کی ہے اور تقسیم دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔ وہ جماعت حق پر ہو گی جس کا طریقہ یہ ہو گا کہ عطا خدا کی اور تقسیم دستِ مصطفی کی۔ جو دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درمیان سے نکال دے اور تقسیم مصطفی کو نکال دے اور وسیلہ مصطفی کو درمیان سے نکال دے اور واسطہ مصطفی کو نکال دے اور براہ راست اللہ کی عطا کی بات کرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خبردار! وہ میری جماعت نہیں ہو گی وہ اوروں کی جماعت ہو گی ۔ ہر دور میں رہے ایسے ۔ میری جماعت جو قَائِمَةٌ عَلَی الحَقِّ، جو حق پر قائم رہنے والی ہے اور جنہیں پہلے زمانے والوں جیسا اجر ملے گا، ان کی یہ بھی شرط ہو گی کہ وہ خدا کی عطا کو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم کو مانتے ہوں گے۔ عطائے خدا بذریعہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اس سبق کو دوہرا لیں کُل پاکستانی لوگ عطائے خدا بذریعہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ یہ بات میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی، بخاری و مسلم میں إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ، بے شک تقسیم صرف میں ہی کرتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک تقسیم صرف میں ہی کرتا ہوں، دائیں بائیںمت گھومو پھرو کچھ نہیں مل گا، تقسیم مصطفی کی ہے، وَاﷲُ يُعْطِي۔ اور عطا خدا کرتا ہے۔ دو خوبیاں ہو گئیں۔
پھر تیسری بات فرمائی : وَلَنْ تَزَالَ هٰذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلٰی أَمْرِ ﷲِ، قیامت تک ہر دور میں اس امت کا ہر طبقہ اللہ کے امر اور حق پر قائم رہے گا وَلَنْ تَزَالَ هٰذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً قیامت تک ہر دور میں اس امت کا ایک طبقہ حق پر قائم رہے گا اور اس کی خوبی کیا ہو گی، پہچان کیا ہو گی؟ اس کی مخالفت بھی کی جائے گی۔ بخاری مسلم کی متفق علیہ حدیث بتا رہی ہے کہ جس کی مخالفت کوئی بھی نہ کرے وہ وہ جماعت نہیں ہے جس کا ذکر مصطفی نے فرمایا، وہ قَائِمَةً عَلٰی أَمْرِ ﷲِ، جس کی کوئی مخالفت نہ کرے، ہر کوئی پسند کرے۔ اپنے پرائے ہر کوئی تعریف کرے ۔ ہر کسی نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف بھی نہیں کی، وہاں بھی ابوجہل و ابو لہب تھے اور ہزاروں، لاکھوں کفار و مشرکین تھے اور ہزاروں منافقین تھے، اگر ہر کوئی تعریف کرتا تو غزوہ بدر کیوں ہوتی، ہر کوئی مانتا تو جنگ احد کیوں ہوتی، اگر ہر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانتا تو جنگ خندق کیوں ہوتی، پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کیوں کھودتے، اگر ہر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرتا تو حدیبیہ کے میدان سے پندرہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم کو لے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس کیوں چلے جاتے؟ غزوہ حنین کیوں ہوتا؟ غزوہ طائف کیوں ہوتا؟ ارے ہر کوئی تو خدا کو نہیں مانتا۔ چھ ارب انسان ہیں اس دھرتی پر اور اللہ کو صحیح ماننے والے صرف ڈیڑھ ارب ہیں، تو دو تہائی تعداد تو خدا کو نہیں مانتی تو آپ کی جماعت کو ہر کوئی کیسے مانے گا؟ اگر آپ کہیں کہ ہر کوئی ہمیں مانے، ہر کوئی ہماری تعریف کرے تو ہر کوئی تو خدا کو نہیں مانتا، لوگوں نے اپنے خدا بنا رکھے ہیں۔ چھ ارب میں ڈیڑھ ارب خدا کو ماننے والے مسلمان ہیں باقیوں کا دین جدا ہے، دین اسلام کو نہیں مانتے ۔
قرآن و نبوتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مانتے ۔ ہر کسی نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو نہیں مانا۔ 72 تن شہید کر دیے، آپ کیسے توقع کریں کہ ہر کوئی آپ کو مانے۔ جس کو ہر کوئی مانے وہ سچا نہیں ہو سکتا، اس کا مطلب ہے وہ گول مول ہے، اِدھر بھی اُدھر بھی ہے، ہر ایک کو خوش رکھتا ہے : لاَ إِلَى هَـؤُلاَءِ وَلاَ إِلَى هَـؤُلاَءِ ۔ (سورہ النساء، 4 : 143) ۔ اِدھر ملتا ہے تو ان کی بولی بولتا ہے تا کہ یہ تعریف کریں، اُن سے ملتا ہے تو ان کی بولی بولتا ہے وہ تاکہ تعریف کریں۔ جس کو ہر کوئی مانے وہ کبھی سچا نہیں ہوتا، سچا وہ ہے جس کی بولی ایک رہے، خواہ کوئی مانے یا نہ مانے ۔
تو فرمایا : لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، ان کی مخالفت بھی ہو گی تو مخالفت کا ہونا حق ہے، ضروری ہے، واجب ہے، اگر آپ کی مخالفت نہ ہو اور آپ کو ذلیل کرنے کے ہتھکنڈے نہ ہوں تو اس کا مطلب ہے آپ کی دال میں کالا کالا ہے، حق میں آمیزش ہے باطل کی اور اگر کھرا سچ ہو گا تو پھر حق چاہنے والے مانیں گے، باطل چاہنے والے مخالفت کریں گے۔ مگر اللہ نے فرمایا : کتنی مخالفت بھی کوئی کرتا پھرے لَا يَضُرُّهُمْ، حق پر جو لوگ قائم ہیں ان کو نقصان کوئی نہیں پہنچائے گا ۔ پھر صحیح مسلم میں اور احمد بن حنبل کی مسند میں ایک اور حدیث میں دوہرا دوہرا کر سنا رہا ہوں، درجنوں احادیث صحیحہ سنا رہا ہوں تاکہ شک نہ رہے اس امر کے تعین میں ۔
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ ﷲِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، أَوْ خَالَفَهُمْ، حَتّٰی يَأْتِيَ أَمْرُ ﷲِ وَهُمْ ظَاهِرُوْنَ عَلَی النَّاسِ ۔
ترجمہ : میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا جو شخص ان کو رسوا کرنا چاہے گا یا ان کی مخالفت کرے گا وہ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ وہ (ہمیشہ) لوگوں پر غالب رہیں گے حتیٰ کہ قیامت آ جائے گی ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3 / 1524، الرقم / 1037،چشتی)(أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 101، الرقم / 16974)(الطبراني في المعجم الکبير، 19 / 370، 380، 383، الرقم / 869، 893، 899)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ ﷲِ، قیامت تک میری امت میں ایک طبقہ، ایک جماعت، ہر دور میں، ہر زمانے میں قائم رہی، چلی آئے گی، چلتی رہے گی حق پر لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، انہیں ذلیل کرنے کی، بدنام کرنے کی بڑی کوشش کی جائے گی اور ان کی مخالفت بھی بے پناہ کی جائے گی مگر لَا يَضُرُّهُم، نہ انہیں ذلیل کرنے کے ارادے کرنے والا، نہ انہیں ذلیل کر سکے گا، نہ مخالفت کرنے والا اس مخالفت سے انہیں نقصان پہنچا سکے گا، ان کا بال بھی بھیکا نہیں ہو گا۔ حَتّٰی يَأْتِيَ أَمْرُ ﷲِ وَهُمْ ظَاهِرُوْنَ عَلَی النَّاسِ. حتی کہ قیامت کا دن آ جائے گا اور وہ ہمیشہ حق پر ہی قائم رہیں گے ۔ اب اسی حدیث کو امام ترمذی نے حدیث حسن صحیح کہہ کے مسند احمد بن حنبل کے علاوہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا فرمایا : لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِيْنَ عَلَی الْحَقِّ، قیامت تک ہر دور میں میری امت کا ایک طبقہ، ایک جماعت حق پر قائم رہے گی، حق کا جھنڈا بلند کرتی رہے گی۔ حق کا نعرہ بلند کرتی رہے گی، حق کو فروغ دینے کے لیے جنگ لڑتی رہے گی اور باطل سے ٹکراتی رہے گی، ان کی مخالفت بھی ہو گی، انہیں ذلیل کرنے کی کوششیں بھی ہوں گی۔ مگر فرمایا : لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، ایسا کرنے والے ان کا بال بھی بھیکا نہیں کر سکیں گے، حَتّٰی يَأْتِيَ أَمْرُ ﷲِ وَهُمْ کَذَالِکَ ۔ حتی کہ قیامت کا دن آ جائے گا اور وہ لوگ حق پر اسی طرح جرات کے ساتھ قائم و دائم ہوں گے ۔ مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3 / 1524، الرقم / 1920، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 279، الرقم / 22456، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الأئمة المضلين، 4 / 504، الرقم : 2229، والبيهقي في السنن الکبري، 9 / 226، الرقم / 18605، وسعيد بن منصور في السنن، 2 / 177، الرقم / 2372 ۔
عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيْقِ أَنَّهُ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّکُمْ تَقْرَئُوْنَ هٰذِهِ الآيَةَ: {يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لَا يَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ} [المائدة، 5 / 105]. وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ، أَوْ شَکَ أَنْ يَعُمَّهُمُ ﷲُ بِعِقَابٍ مِنْهُ ۔ أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 2، الرقم / 1، وأبو داود فی السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 / 122، الرقم / 4338، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في نزول العذاب إذا لم يغير المنکر، 4 / 467، الرقم / 2168، وأيضًا في کتاب التفسير، 5 / 256، الرقم / 3057، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 / 1327، الرقم / 4005، والبزار فی المسند، 1 / 139، الرقم / 69 ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا خطبہ خلافت دیتے ہوئے فرمایا، جب آپ نے ضمام حکومت سنبھالا اور مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلا خطاب کیا، ابتدا کی امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کی تو اپنے ابتدائی خطبہ خلافت میں ارشاد فرمایا : کہ لوگو! تم نے یہ آیت قرآن مجید کی پڑھی ہو گی کہ اللہ رب العزت نے فرمایا: اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، یعنی اللہ اور اللہ کے رسول نے تمہارے اوپر جو فرائض مقرر کئے ہیں ، جو واجبات مقرر کیے ہیں اور ہدایت و فلاح کے جو راستے تمہیں بتائے ہیں سختی کے ساتھ ان پر عمل در آمد کرو، کسی کی پرواہ کئے بغیر اور اپنا تن من دھن سب کچھ اللہ و رسول کے ان فرمودات کی تعمیل میں لگا دو ۔
تم سے کوتاہی نہ ہو تو پھر تمہیں کوئی شخص جو گمراہ ہو گا، جو فتنہ پرور ہو گا، کوئی بڑے سے بڑا گمراہ بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اگر تم اپنی جانوں کو اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کے تابع کر کے رکھو گے۔ کوئی بڑا شیطان بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ آپ نے اپنا خطاب اس آیت کریمہ کے مضمون سے شروع فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا: کہ میں نے اپنے کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، یہ کون فرما رہا ہے ؟ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ اول، یار غار اور صاحب مزار فرما رہے ہیں: کہ لوگو! میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نے یہ ارشاد فرمایا: کہ ایک زمانہ آئے گا جب معاشرے میں ظلم ہوں گے، برائیاں ہوں گی، بدی عام ہو گی، خیانت ہو گی، لُوٹ مار ہو گی، کرپشن ہو گی، بے حیائی ہو گی، اللہ اور رسول کی نافرمانی ہو گی، ہر عیب ہو گا، فسق و فجور ہو گا۔ معاشرے کو تباہی و ہلاکت کی راہ پر ڈال دیا جائے گا، ہر سمت ظلم ہو رہے ہوں گے، قتل و غارت گری ہو گی، لُوٹ مار ہو گی، لوگ پریشان ہوں گے، ظالم مضبوط اور طاقتور ہوں گے۔ جب ایسا دور آئے گا، تو کیا ہو گا؟ کہ اگر لوگ ظالموں کو ظلم کرتا ہوئے دیکھتے رہیں اور چپ بیٹھے رہیں، دیکھتے رہیں کہ قومی خزانے پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں ، دیکھتے رہیں کہ معصوم جانیں قتل ہو رہی ہیں، دیکھتے رہیں کہ انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے ۔ دیکھتے رہیں کہ اس سوسائٹی کی بیٹیوں کی عزت لُٹ رہی ہے ۔ دیکھتے رہیں کہ لوگ غربت کی آگ میں جل رہے ہیں، ہر طرف ظلم ہی ظلم ہے، اندھیر نگری ہے، دیکھیں اور چپ رہیں فَلَمْ يَأْخُذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ، اور اٹھ کر ان ظالموں کے ہاتھ نہ روک لیں، خاموش تماشائی بنے رہیں تو آپ نے فرمایا: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ اعلان فرما رہے تھے کہ اگر لوگ خاموش تماشائی رہے، ظلم اور ظالم کا راستہ نہ روکا اور حالات بدلنے کےلیے اپنا تن من دھن سب کچھ نہ لُٹایا تو قریب ہے کہ اللہ تعالی پھر سب لوگوں کو ظالم ہوں یا مظلوم، سب لوگوں کو بلا امتیاز اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا ۔ سارے معاشرے کو، پورے ملک کو اللہ اپنے عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔
صرف اس جرم کی پاداش میں کہ ظالم تو ظالم ہی تھے، وہ تو ظلم کر رہے تھے، یہ ان کا شعار تھا، مگر باقی مخلوق جو آنکھوں سے تکتی رہی اور ظلم کے خلاف نہیں اٹھی۔ تو ظالم عذاب میں مبتلا ہوں گے ظلم کے باعث اور باقی سارے مظلوم عذاب الہی میں مبتلاء ہوں گے، چُپ سدھارنے کے باعث، خاموش رہنے کے باعث۔ یہ خاموشی کا طرز عمل اللہ اور اللہ کے رسول کو ظلم کے دور میں گوارہ نہیں ۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَيُوْشِکَنَّ ﷲُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْکُمْ عِقَابًا مِنْهُ. ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ ۔ (أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 388، الرقم / 23349)(الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 4 / 468، الرقم / 2169)(البيهقي في السن الکبری، 10 / 93، الرقم / 19986،وأيضًا في شعب الإيمان، 6 / 84، الرقم / 7558)
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نے فرمایا : اُس ذات کی قسم، اُس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نے فرمایا : اے میری امت کے افراد! تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم ہر صورت نیکی کو سربلند کرنے کےلیے نیکی کا حکم دیتے رہنا ، نیکی کے فروغ ، اشاعت و اقامت کی جدوجہد کرتے رہنا اور ہر صورت معاشرے سے ظلم اور برائی اور بدی کے خاتمے کےلیے حکم دیتے رہنا اور جدوجہد کرتے رہنا ۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ تعالی تم پر اپنا عذاب بھیجے گا اور سارے معاشرے کو اللہ تعالی اپنے عذاب کی لپیٹ میں اس طرح لے لے گا کہ پھر تم پریشان ہو گے، چیخو گے، اللہ کو پکارو گے، دعائیں کرو گے، ہاتھ اٹھاؤ گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نے فرمایا : پھر اللہ تمہاری دعاؤں کو نہیں سنے گا۔ ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ. پھر مسجدوں میں دعائیں ہوں گی، گھر گھر میں دعائیں ہوں گی، مظلوم دعائیں کریں گے، بیوہ عورتیں، یتیم بچے دعائیں کریں گے، ہر بندہ دعا کرے گا مگر آقا علیہ السلام نے فرما دیا: فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ. پھر تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا دروازہ بند کر دیا جائے گا ۔ دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی، کیوں؟ فقط اس لیے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ظلم ہو رہا تھا، امانت کے بجائے خیانت کا دور دورہ تھا، دیانت داری کے بجائے کرپشن کا دور دورہ تھا، ایک لوٹ مار مچی تھی، بے حیائی تھی، بدکاری تھی، شراب خوری تھی، دہشت گردی تھی، ہر طرف اندھیر نگری تھی، تم دیکھتے تھے، جانتے تھے، گھروں میں بیٹھ کر باتیں بھی کرتے تھے مگر گھر سے باہر سڑکوں پر نکل کر ظلم کو روکنے کےلیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بنتے تھے۔ ڈرو اس وقت سے۔ اے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افراد! کہ کہیں دعاؤں کی قبولیت کا دروازہ بند نہ کر دیا جائے ۔
اسی طرح ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت کرتی ہیں، آپ فرماتی ہیں: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، ميرے حجرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو دیکھا اور چہرہ اقدس کی خاص کیفیت سے میں نے جان لیا کہ کوئی چیز ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت کو بے چین کر رہی ہے، ابھار رہی ہے۔ میں نے پہچان لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا، پھر کلام کئے بغیر کوئی بات نہیں کی مجھ سے، وضو کر کے فوراً باہر تشریف لے گئے، میں پیچھے دروازے اور پردے کے پیچھے قریب ہو گئی کہ سنوں صحابہ کرام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خاص حالت میں کیا فرمانے والے ہیں، تو فرماتی ہیں: فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: وضو کر کے نکلے، صحابہ کرام کا اجتماع تھا، میں نے سنا کہ آقا علیہ السلام ان سے خطاب فرمانے لگے اور کیا فرما رہے تھے، فرما رہے تھے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ ﷲَ عزوجل يَقُوْلُ: مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَدْعُوْنِي فَـلَا أُجِيْبُکُمْ، وَتَسْأَلُوْنِي فَـلَا أُعْطِيْکُمْ، وَتَسْتَنْصِرُوْنِي فَـلَا أَنْصُرُکُمْ ۔ (أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 159، الرقم / 25294،چشتی)(ابن حبان في الصحيح، 1 / 526، الرقم / 290)(الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 377، الرقم / 6665)(البيهقي فی السنن الکبری، 10 / 93، الرقم / 19987)(ابن راهويه في المسند، 2 / 338، الرقم / 864)(ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 46 / 298)
فرماتی ہیں : کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی اتری تھی، وحی خفی، جس کو حدیث کہتے ہیں، آپ کے قلب اطہر پر پیغام آیا تھا اللہ کی طرف سے۔ میرے حبیب! صحابہ کی مجلس میں یہ بات ابھی فرما دیں، تاکہ آپ کا پیغام قیامت تک نسلاً بعد نسلٍ امت کو پہنچ جائے۔ اللہ پاک نے فرمایا: لوگو! نیکی کا حکم دو اور نیکی کو سربلند کرنے کےلیے جو کچھ کر سکتے ہو کر لو۔ نیکی کو سربلند کرنے کےلیے اور نیکی کو پھیلانے کےلیے اور نیکی کا دور دورہ کرنے کےلیے جو کچھ کر سکتے ہو امر بالمعروف کے باب میں کر لو۔ اور برائی کو روکو اور بدی کو معاشرے سے روکنے کےلیے جو کچھ کر سکتے ہو کر لو، قبل اس کے اللہ پاک نے مجھے پیغام بھیجا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : قبل اس کے کہ وہ وقت آ جائے کہ پھر تم میری بارگاہ میں دعائیں کرو اور میں تمہاری دعاؤں کو قبول نہ کروں۔ قبل اس کے کہ پھر تم اپنے لیے مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں عطا نہ کروں، قبل اس کے کہ تم مجھ سے مدد مانگو اور میں تمہاری مدد نہ کروں۔ پھر دروازے بند ہو جائیں گے، دروازے بند ہو جانے سے پہلے جو کر سکتے ہو بدی کو مٹانے اور نیکی کو پھیلانے کے لیے کر لو ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفَ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ ﷲُ عَلَيْکُمْ شِرَارَکُمَ ۔ ثُمَّ يَدْعُوْ خِيَارُکُمْ فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ ۔ (أحمد بن حنبل عن حذيفة في المسند، 5 / 390، الرقم / 23360)(البزار في المسند، 1 / 292، الرقم / 188)(الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 99، الرقم / 1379)(ابن أبي شيبه فی المصنف، 7 / 460، الرقم / 37221)(الهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 266)(کنز العمال، 3 / 31، الرقم / 5520)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگو! ہر صورت نیکی کو معاشرے میں پھیلانے، بلند اور طاقتور کرنے کے لیے امر بالمعروف کا فریضہ سرانجام دو. جو کر سکتے ہو نیکی کو پھیلانے کے لیے وہ کرو اور بدی و برائی کو روکنے کے لیے جو کر سکتے ہو روکو۔ کوئی کوشش رہ نہ جائے، کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہو جائے۔ جو ہو سکتا ہے کر لو، اگر نہیں کرو گے تو اللہ تعالی جو بدترین لوگ ہوں گے تمہارے معاشرے کے، بدقماش لوگ، بدمعاش لوگ، سب سے بڑے ڈاکو، چور اور لٹیرے سب سے بڑے ظالم، بددیانت، لوٹ کے کھا جانے والے، جو بدترین شرارکم، وہ لوگ ہوں گے اللہ ان کو تم پر مسلط کر دے گا، تمہارا حکمران بنا دے گا اور یہ اللہ کا عذاب ہو گا ۔
ایسے قماش اور کردار کے لوگوں کا مسلمانوں کا حکمران بن جانا اللہ کا عذاب ہے۔ فرمایا: پھر اگر تم اس کو گوارہ کر لو اور حالات کو بدلنے کےلیے جدوجہد نہ کرو تو پھر کیا ہو گا ثُمَّ يَدْعُوْ خِيَارُکُمْ، جو تم میں اولیاء اللہ ہوں گے، صالحین ہوں گے، عبادت گزار ہوں گے، خیر والے لوگ ہوں گے وہ بھی دعا کریں گے تمہارے حق میں، لیکن اللہ پاک انہیں تمہارے حق میں ان کی دعائیں بھی قبول نہیں کرے گا۔ اللہ اپنے محبوب بندوں کی دعا رد نہیں کرتا اس لیے فرمایا: فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ. یہ نہیں فرمایا: فَـلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ. ان کی دعا رد نہیں ہو گی، تمہارے حق میں قبول نہیں فرمائے گا۔ رہ گئی ان کی دعائیں اللہ ان کو اجر کے طور پہ محفوظ کر لے گا ان کے نامہ اعمال میں، ان کو عطا کرے گا، تمہارے حق میں اس لیے قبول نہیں کرے گا کہ تم اٹھ سکتے تھے، تم اپنی جان لگا سکتے تھے، اپنا مال خرچ کر سکتے تھے، جدوجہد کر سکتے تھے، گھر گھر پیغام پہنچا سکتے تھے، یہ پیغام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ہے۔ بھری مجلس میں ہر روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کو بتایا کرتے تھے، کتنے صحابہ ہیں جنہوں نے روایت کیا۔ سیدنا صدیق اکبر سے لے کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تک اور حضرت حذیفہ بن الیمان سے لے کر حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما تک اتنے صحابہ ہر روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان سنتے کہ لوگو! دروازہ بند ہونے والا ہے، دعائیں اوپر نہیں پہنچیں گی، بند ہو جائیگا دروازہ دعائیں قبول نہیں ہوں گی ۔
صرف اس جرم کی پاداش میں کہ حالات بدلنے کےلیے، نظام بدلنے کےلیے، ظلم روکنے کے لیے، بدی کو مٹانے کےلیے تم نے اپنا اصل کردار جو ادا کر سکتے تھے کیوں نہیں ادا کیا۔ ہماری ذمہ داری کیا ہے کہ جو کچھ ہم سے ہو سکے ہم تگ و دو کریں اور حق کو سربلند کرنے کےلیے اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا ڈالیں۔ جمعۃ الوداع کے خطاب میں میں نے بہت ساری احادیث متفق علیہ بیان کی ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ آخری زمانے میں میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی قاٸم رہے گی جو اہل فتن کے خلاف جہاد کریں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بار بار فرمایا: کہ اس جماعت کی پہچان یہ ہو گی کہ اس کی مخالفت بھی ہو گی، جسے ہر کوئی اچھا کہے وہ اچھا نہیں ہو سکتا ۔
جب انبیاء کرام علیہم السلام کو سب نے نہیں مانا تو ہماری مخالفت نہیں ہو سکتی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمیں ہر کوئی اچھا کہے؟ ظالم اور مظلوم دونوں اچھا کہیں۔ یہ اللہ کا نظام و قدرت ہی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ اس حق کی جماعت کی مخالفت بھی ہو گی لیکن کوئی اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اس کی پہچان امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی کریں گے اور مردان میدان بھی ہوں گے صرف دعوت ہی نہیں دیں گے ، عاشقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہوں گے۔ اپنا جان و مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک زیارت کےلیے سب کچھ لوٹانے والے ہوں گے ۔ پھر ان کا عقیدہ یہ ہو گا کہ عطا خدا کی ہے اور تقسیم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment