Monday, 21 March 2022

امر بالمعروف و نہی عن المنکر حصّہ پنجم

امر بالمعروف و نہی عن المنکر حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اپنی بھلائی پر قناعت کرتے ہوئے دوسروں کی بھلائی نہ چاہنا ، خود کو بدی سے دور کرکے مطمئن ہو جانا خود غرضی ہی نہیں خود کشی بھی ہے ۔ اسلام کے ارکانِ پنجگانہ ، ایمان ، نماز ، روزہ ، زکاۃ اور حج تو معروف ہیں جن میں سے کسی کا انکار کفر ہے اور ان میں سے کسی کا انکار تو نہ کرنا مگر اس کی فرضیت کا معترف ہونے کے باوجود شیطان کے بہکاوے میں آ کر ان کی ادائیگی میں سستی و تساہل برتنا فسق اور کبیرہ گناہ ہے ۔ ان پانچ ارکان اسلام کے علاوہ بھی کئی امور ایسے ہیں جو ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول نے مسلمانوں پر فرض قرار دئیے ہیں۔ ان میں سے بعض تو فرض عین ہیں اور بعض فرض کفایہ ۔ انہی ثانی الذکر فرائض میں سے ہی اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا بھی ہے جو دین اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے اور اسے قرآن کریم اور حدیث شریف میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہا گیا ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فرض کفایہ دینے کی دلیل سورہ آلِ عمران کی آیت 104 میں مذکورہ کلمہ ’’مِنْکُمْ‘‘ ہے اور مفسرین کے نزدیک یہاں ’’مِنْ‘‘ تبعیض کیلئے ہے جو کُل افراد میں سے بعض کو خاص کر دیتا ہے۔ اگر کچھ لوگ اس فریضہ کو ادا کرتے رہیں تو باقی لوگوں کے سر سے گناہ اتر جاتا ہے ورنہ سب گنہگار ہوتے ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ایک فریضہ ہی نہیں بلکہ امت اسلامیہ کی تخلیق کا مقصد بھی ہے کہ ان کے ہاتھوں ﷲ تعالیٰ نے ’’اصلاحِ عالم‘‘ کی ایک خاص خدمت لینا ہے اور قرآن و سنت میں اس مقصد کے حصول اور یہ خدمت سرانجام دینے کا جابجا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ آل عمران میں ارشاد الٰہی ہے۔ ’’تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں اور جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘ اور تھوڑا آگے چل کر ارشاد فرمایا ’’(مسلمانو! )
اب دنیا میں بہترین امت تم ہی ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدا ن میں لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور ﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اس آیت میں ’’اُخْرِجَتْ للِنَّاس‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان کسی خاص نسل ، قوم ملک یا رنگ کے لوگوں کےلیے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی خدمت و اصلاح کیلئے پیدا کئے گئے ہیں اس خدمت و اصلاح کا ذریعہ یہ ہے کہ وہ نیکی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں، اس طرح ﷲ تعالیٰ نے وطن پروری و قوم پرستی اور رنگ و نسل کی غیر طبعی تقسیم کو منسوخ کر دیا ہے اور امت اسلامیہ کی رہنمائی، عالمگیر خدمت انسانیت کی طرف کی ہے۔ جنت کے مستحق اہل ایمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ﷲ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں فرمایا ہے: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے ( دلی محبت رکھنے والے) رفیق ہیں، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے ہیں زکاۃ دیتے ہیں ، ﷲ کی اطاعت اور اس کے رسول( )کی اتباع کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن پر ﷲ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقینا ﷲ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔‘‘ اور اگلی ہی آیت میں فرمایا: ’’ ان (اوصاف والے) مومن مردوں اور عورتوں سے ﷲ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسی جنتیں دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، ان سدا بہار جنتوں میں ان کیلئے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی او ر سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں ﷲ کی خوشنودی حاصل ہوگی یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اس فریضہ کی عظمت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے سورۂ اعراف میں نبی اکرمکی جو ذمہ داریاں بتائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے: ’’وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں۔‘‘
حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو جو معروف و صیتیں کی تھیں، وہ قرآن کریم کی سورۃ لقمان میں مذکور ہیں، انہی میں سے ان کی یہ نصیحت بھی منقول ہے: ’’ بیٹا نماز قائم کر ،نیکی کا حکم دے اور بدی سے روک۔‘‘ سورۂ آل عمران کی گزشتہ آیت میں امت اسلامیہ کو : (مسلمانوں) دینا میں بہترین امت تم ہی ہو جسے لوگوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں اتار اگیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور ﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ فرما کر پوری انسانیت کی اصلاح کی ذمہ داری سونپی ہے۔ اس تعلیم کو ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مقامات پر مختلف موثر پیرائیوں میں پیش کیا ہے اور تنگ نظری و تنگ خیالی کے طلسم کو توڑ کر فرض شناسی کے ایک وسیع عالم کی راہیں کھول دی ہیں۔ چنانچہ البقرہ میں ارشاد الٰہی ہے: ’’اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط (یعنی اعلیٰ و اشرف گروہ) بنا یا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر ( قیامت کے دن حق کے ) گواہ بنو اور رسول() تم پر گواہ بنیں۔‘‘ امام رازیؒ تفسیر کبیر میں ، امام ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ کَذٰلِکَ‘‘ یعنی اسی طرح کی اس تشبیہ سے مراد ایک تو یہ ہے کہ جس طرح ہم نے تم پر ہدایت کی نعمت پوری کی ہے اسی طرح ہم نے تمہیں امتِ وسط بنا کر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا ہے۔ دوسری مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس طرح ہم نے تمہارے لیے کعبہ شریف کو قبلہ قرار دیا ہے (جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے) جو کہ سب قبلوں سے افضل اور انبیاء کے امام حضرت ابراہیم ؑکا قبلہ ہے، اسی طرح ہم نے تمہیں سب امتوں سے افضل امت قرار دیا ہے۔
امام قرطبی و ابن کثیر کے مطابق الوسط سے مراد بہتر افضل ہے جیسا کہ صحیح بخاری، ترمذی و نسائی اور ابن ماجہ میں خود نبی اکرم سے منقول تفسیر سے ثابت ہے کہ آپ نے ’’وسطاً ‘‘کا معنیٰ ’’عدلاً ‘‘بیان فرمایا جس کا مفہوم ثقہ اور قابل اعتماد، اعتقاد و اخلاق بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہ اعتقاد و اخلاق اور اعمال میں معتدل اور اممِ سابقہ کی افراط و تفریط سے پاک اور مبرا امت۔ اسی مضمون کی تشریح سورۃ الحج میں یوں کی گئی ہے: ’’ اور ﷲ کی راہ میں ایسا جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں (اسی کام کیلئے) چن لیا ہے اور تم پر دین کے دائرہ میں کوئی تنگی نہیں رکھی، یہ وہی ملت ہے جو تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی تھی اور ﷲ نے تمہارا نا م اس سے پہلے اور اس کتاب میں بھی مسلم ( یعنی اطاعت گزار) رکھا ہے تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو پس نماز قائم کرو، زکاۃ دو اور ﷲ کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو۔‘‘
ان دونوں مذکورہ آیتوں کو ملاکر پڑھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں بھی ﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی زندگی کا مقصد وہی عالمگیر خدمت انسانی اور اصلاح عالم ہی بتائی ہے نیز یہ کہ دین اسلام کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں کوئی تنگی نہیں اور رنگ و نسل ، قومیت اور وطنیت اور زبان کی قیود اس کی برکتوں کو عام ہونے سے نہیں روک سکتیں۔ اسی مضمون کو ایک دوسرے طریقہ سے پیش کرتے ہوئے ارشاد الٰہی ہے: ’’ یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں طاقت و اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکاۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے تمام معاملات کا انجامِ کار ﷲ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ سورۂ آل عمران آیت 110 میں’’ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ فرما کر اس فریضہ کو عالمگیر پیمانے پر ادا کرنے کا حکم دیا تھا تو یہاں ’’اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ‘‘ فرما کر یہ بتا دیا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اخلاقی کا م عرب و عجم یا شرق و غرب کیلئے نہیں بلکہ انہیں اس غرض کےلیے روئے زمین کے گوشے گوشے، چپے چپے، دشت و جبل اور بحر و بر ہر جگہ پہنچنا چاہئے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ خیر امت ہونے کی وجہ سے مسلمان صرف اپنی ذات کی خدمت کےلیے پیدا نہیں ہوئے بلکہ تمام انسانیت کی خدمت ان کا مقصدِ وجود ہے اور ان کے اس شرف کا راز’’ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ میں پوشیدہ ہے۔ اس سے تو کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ اپنی بھلائی پر قناعت کرتے ہوئے دوسروں کی بھلائی نہ چاہنا ،خود کو بدی سے دور کرکے مطمئن ہو جانا اور دوسروں کو اس سے بچانے کی کوشش نہ کرنا ،سب سے بڑی خود غرضی اور انانیت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم اگر یہ بھی کہہ دیں کہ یہ صرف انانیت و خودغرضی ہی نہیں بلکہ خود کشی بھی ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ کسی کو غلط کام سے نہ روکنا خود اپنے لئے بھی پیام اجل بن سکتا ہے۔
نبی اکرم نے اس پہلو کو سمجھانے کیلئے نہایت ہی خوب انداز اختیار فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں2 مختلف مقامات پر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منقول ہے، آپ نے فرمایا: ’’ﷲ کی حدود پر قائم رہنے اور حدود الہٰی سے تجاوز کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے ایک بحری جہاز کے حصے تقسیم کر لئے، کچھ لوگ اوپر کے حصے میں چڑھ گئے اور کچھ نیچے کے حصے میں رہ گئے، جو لوگ کشتی کے نچلے حصہ میں رہے وہ اوپر چڑھ کر پانی لاتے تھے لہٰذا اوپر والوں پر ان کا گزر ہوتا تھا۔ نیچے والوں نے سوچا کہ ہم اپنے جہاز کے نچلے حصے میں سوراخ کر کے پانی لے لیتے ہیں تاکہ ( ہمارے بار بار جا نے سے) اوپر والوں کو تکلیف نہ ہو، اب اگر اوپر والوں نے نیچے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تو (جہاز میں پانی بھر جانے سے) ڈوب کرسب ہلاک ہوجائیں گے، اگر انہوں نے نیچے والوں کو روک دیا تو سبھی (غرق ہونے سے ) بچ جائیں گے۔‘‘
بخاری کی اس حدیث میں مذکور نبی اکرم کی بیان کردہ اس مثال پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو غلط کام سے روکنا جانبین کےلیے نہ صرف اخروی نجات و ثواب کا باعث بن جاتا ہے بلکہ اس کے نتائج دنیا میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور غلط کام سے نہ روکنا نہ صرف غلط کام کرنے والے کےلیے ہی برا ہے بلکہ نہ روکنے والے کیلئے بھی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے اسی لئے ہم نے برے کاموں سے نہ روکنے کو خود کشی سے تعبیر کیا ہے ۔

اک شاخ پہ الو بیٹھا ہو برباد نشیمن ہوتا ہے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا

آج ہمارے معاشرہ میں جو برائیاں، خرابیاں اور تباہ کاریاں سرکش عفریت کی طرح سر اٹھائے کھڑی ہیں ان کا شمار کرنا ناممکن ہے اور انہوں نے ہمارے فکرو ذہن، عقل و فہم اور دل و ددماغ کو ایک حیثیت سے ماؤف کرکے زندگی کی ہنگامہ خیزیوں سے کنارہ کش کر دیا ہے اور ہمیں ذلت و رسوائی، خواری و ناداری کی نہ ٹوٹنے والی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ ہمارے دل و دماغ اس طرح کند ہو چکے ہیں کہ ہمیں معاشرہ میں کسی قسم کی کوئی برائی نظر ہی نہیں آتی۔ ضلالت و گمراہی میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ حق کو دیکھنے، سننے اور سمجھنے کی توفیق نہیں۔ حق کو دیکھنے، سننے اورسمجھنے سے اس قدر محروم ہیں جیسے ہمارے دل و دماغ اور کانوں پر مہر لگی ہو اورآنکھوں پر پردہ پڑا ہو بلکہ پردہ و مہر تو کیا یہاں تو بات قفل سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں اوران کے گناہوں کے درمیان ایک حد مقر ر کی ہے جب بندہ گناہوں کی اس حد تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر مہر کر دی جاتی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے، اب اسے دوبارہ کبھی بھی نیکی کرنے، حق کو دیکھنے، سننے اور سمجھنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی اور اگر وہ ضلالت و گمراہی اور غفلت میں مزید آگے بڑھے تو یہی مہر ’’قفل‘‘میں تبدیل کر دی جاتی ہے کہ اب حق بات ان کے دل و دماغ تک پہنچنے ہی نہیں پاتی۔ یہی وہ قفل ہے جس کے بارے میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔

اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا o (محمد 24:47)
’’تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہیں۔‘‘

یہی قفل آج ہمارے دل ودماغ پر پڑے ہیں کہ ہمیں معاشرہ میں کوئی برائی نظر ہی نہیں آتی، حق کو دیکھنے، سننے اور سمجھنے سے محروم ہیں۔ ضلالت، گمراہی و جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے سکون و اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ خدا سے غافل، دین و دنیا سے غافل، یوم حساب سے بے نیاز، برائیو ں پر برائیاں کیے جا رہے ہیں لیکن کسی کو ذرا خوف نہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے، اپنے رب کے حضور جوابدہی کیلیے حاضر ہونا ہے اور اپنی دنیاوی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہے۔آخر انسان کس چیز پر بھروسہ رکھتا ہے، اس کے پاس ایسا ہے کیا جو قیامت کے دن اس کو نجات دلائے؟ انسان کے تو اپنے ہاتھ پاؤں اس کے اپنے نہیں ہیں، وہ اپنے حریف، اپنے مخالف گواہ اپنے ساتھ رکھتا ہے جو قیامت کے دن رب کے حضور اس کے خلاف گواہی دیں گے کہ اس نے یہ یہ عمل کیے ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...