شَعبانُ المعظم کی فضیلت و اہمیت ، نوافل اور عبادات شب برات حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ماہ شعبان کی پندرہویں رات کو شب برأت کہا جاتا ہے ۔ شب کے معنی ’’رات‘‘ اور برأت کے معنی نجات کے ہیں۔ یعنی اس رات کو ’’نجات کی رات‘‘ کہا جاتا ہے چونکہ اس رات کو مسلمان عبادت و ریاضت میں گزار کر جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں ۔ اس لیے اس رات کو شب برأت کہا جاتا ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا ہے ، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں ، اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ۔ (سورۃ الدخان 2/4)
سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان تو ایسا مہینہ تھا جس کے روزے فرض تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پورا کا پورا مہینہ روزے رکھتے لیکن بقیہ گیارہ مہینوں میں سب سے زیادہ روزوں کا اہتمام آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان میں فرماتے تھے۔ آخر کار کوئی سبب اور وجہ تو ہوگی اور کوئی تو خیر اور برکت کا پہلو ایسا ہوگا جو ماہِ شعبان کو ایسی فضیلت و بزرگی عطا کی گئی ۔
اس مہینے کی فضیلت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسی ماہِ مبارک میں وہ مبارک رات بھی آتی ہے جسے ’’شب برات‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ امام بیہقی ’شعب الایمان‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أَتَانِي جِبْرِيْلُ فَقَالَ: هٰذِهِ اللَّيْلَةُ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَ ِﷲِ فِيْهَا عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُوْرِ غَنَمِ کَلْبٍ ۔
ترجمہ : جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے کہا : (یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم!) یہ رات، پندرھویں شعبان کی رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے ۔ (بيهقی، شعب الايمان، رقم : 3837،چشتی)
اللہ رب العزت نے بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے، یوم جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہ رمضان کو تمام مہینوںپر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اور شب برات کو دیگر راتوں پر۔ اَحادیث مبارکہ سے اس بابرکت رات کی فضیلت و خصوصیت ثابت ہے جس سے مسلمانوں کے اندر اتباع و اطاعت اور کثرت عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔
اس فضیلت و بزرگی والی رات کے کئی نام ہیں : ⬇
لیلۃ المبارکۃ : برکتوں والی رات ۔
لیلۃ البراء ۃ : دوزخ سے آزادی ملنے کی رات ۔
لیلۃ الصَّک : دستاویز والی رات ۔
لیلۃ الرحمۃ : رحمت خاصہ کے نزول کی رات ۔ (زمخشری، الکشاف، 4/ 272)
عرفِ عام میں اسے شبِ برات یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں۔ لفظ ’’شبِ برات‘‘ اَحادیث مبارکہ کے الفاظ عتقاء من النار کا بامحاورہ اُردو ترجمہ ہے ۔ اس رات کو یہ نام خود رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں ۔
ابن جریر طبری (م 310ھ) ’جامع البیان‘ میں اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے فرمان : فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِيْمٍ ۔ ’’اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔‘‘ (سورہ الدخان) کی تفسیر میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : قَالَ : فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يُبْرَمُ فِيْهِ أَمْرُ السَّنَةِ وَتُنْسَخُ الأَحْيَاءُ مِنَ الأَمْوَاتِ وَيُکْتَبُ الْحَاجُّ فَـلَا يُزَادُ فِيْهِمْ أَحَدٌ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَحَدٌ ۔ فرمایا : یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے ، اس میں ایک سال کا حال لکھ دیا جاتا ہے۔ اور زندوں کا نام مردوں میں بدل دیا جاتا ہے اور حج کرنے والوں کا نام لکھ دیا جاتا ہے پھر (سال بھر) اس میں کمی ہوتی ہے نہ کوئی اضافہ ہوتا ہے ۔ (ابن جرير طبری، جامع البيان، 25/ 109،چشتی)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ایک آدمی لوگوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے، حالانکہ وہ مردوں میں درج کیا ہوا ہوتا ہے، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی : اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِيْنَ o فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِيْم o ۔
ترجمہ : بے شک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ہے بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتاہے ۔ (سورہ الدخان: 3، 4)
پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے ۔ (طبری، جامع البيان، 25/ 109)
اللہ تعالیٰ کا دنیا پر نزولِ اجلال
شب برات رحمتِ خداوندی کے طفیل لا تعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں ۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے وقت سے ہی (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : ایک رات میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (خواب گاہ میں) نہ پایا تو میں (آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں) نکلی ۔ میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت البقیع میں مسلمان مردوں ، عورتوں اور شہداء کےلیے استغفار کرتے پایا ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تجھے خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ نا انصافی کریں گے ؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ ﷲَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 6/ 238، رقم: 26060،چشتی)
دوسری روایت میں ہے کہ : بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات اپنے بندوں پہ نگاہِ التفات فرماتا ہے تو بخشش طلب کرنے والوں کو بخش دیتا ہے اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے، اور بغض و کینہ رکھنے والوں کو ویسا ہی رہنے دیتا ہے (ان کی حالت کو نہیں بدلتا) ۔
اس مبارک مہینہ میں پائی جانے والی اس بابرکت رات کی فضیلت اس حدیث مبارکہ سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : هَلْ تَدْرِيْنَ مَا فِي هٰذِهِ اللَّيْلَةِ ؟ قَالَتْ: مَا فِيْهَا يَا رَسُوْلَ ﷲِ ؟ فَقَالَ: فِيْهَا أَنْ يُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ مِنْ مَوْلُوْدِ بَنِي آدَمَ فِي هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِيْهَا أَنْ يُکْتَبَ کُلُّ هَالِکٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِيْهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ، وَفِيْهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ ۔
ترجمہ : اے عائشہ ! تمھیں معلوم ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ؟ تو انہوں نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس رات سال میں جتنے بھی لوگ پیدا ہونے والے ہیں سب کے نام لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ فوت ہونے والے ہیں ان سب کے نام بھی لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے (سارے سال کے) اَعمال اٹھالیے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی روزی مقرر کی جاتی ہے ۔ (بيهقی الدعوات الکبير 2/ 145)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی بیان فرماتی ہیں : يَفْتَحُ ﷲُ الْخَيْرَ فِي أَرْبَعِ لَيَالٍ : لَيْلَة الْأَضْحٰی، وَالْفِطْرِ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، يُنْسَخُ فِيْهَا الْآجَالُ وَالأَرْزَاقُ وَيُکْتَبُ فِيْهَا الْحَاجُّ وَفِي لَيْلَةِ عَرَفَةَ إِلَی الْأَذَانِ ۔
ترجمہ : ﷲ تعالیٰ چار راتوں میں (خصوصی طور پر) بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ 1۔ عید الاضحیٰ کی رات، 2۔ عید الفطر کی رات، 3۔ شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اس سال) حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں۔ 4۔ عرَفہ (نو ذو الحجہ) کی رات اذانِ فجر تک ۔ (سيوطی، الدرالمنثور، 7/ 402،چشتی)
اَحادیث مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہ ایسے بھی ہیں کہ جن سے توبہ نہ کرنے والوں کی اس رات بھی بخشش و مغفرت نہیں ہوتی، حالانکہ اس رات اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دریا اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے اور اس کی جود و عطا بہت عام ہوتی ہے اور غروب آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک اس کی رحمت کی برسات ہوتی رہتی ہے ۔ احادیث مبارکہ میں اس رات بھی درج ذیل طبقات کو مغفرت سے محروم قرار دیا گیا : ⬇
شرک کرنے والا
بغض و کینہ اور حسد رکھنے والا
ناحق قتل کرنے والا
شراب نوشی کرنے والا
والدین کا نافرمان
عادی زانی
قطع رحمی والا
توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے !
مذکورہ اَعمالِ سیئہ کے ارتکاب کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بندہ اِن ہی ظلمات میں بڑھتا رہے اور اپنے رب سے مایوس ہو جائے بلکہ وہ سچے دل سے ﷲ تعالیٰ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہو اور توبہ کا خواست گار ہو۔ تو اس کی رحمت اور مغفرت کے دروازے ہر دَم کھلے ہیں : ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا لا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ۔
ترجمہ : پھر بے شک آپ کا رب ان لوگوں کےلیے جنہوں نے نادانی سے غلطیاں کیں پھر اس کے بعد تائب ہوگئے اور (اپنی) حالت درست کر لی تو بے شک آپ کا رب اس کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔ (سورہ النحل، 16: 19)
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہاں تک سچے دل سے توبہ کرنے والے بندے کو امید دلائی کہ فرمایا : التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ ۔
ترجمہ : (سچے دل سے) گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، رقم: 4250،چشتی)
لہٰذا شبِ برات میں گناہ گاروں اور سیاہ کاروں کو بھی رَب کی رحمت، کرم اور بخشش کے خزانوں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بشرطیکہ وہ عجز و نیاز سے اپنے خالق و مالک اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے رب کی بارگاہ میں سچے دل سے تائب ہوں تو وہ بھی ان خزانوں سے اپنی جھولیاں بھر سکتے ہیں ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُوْمُوْا لَيْلَهَا وَصُوْمُوْا نَهَارَهَا، فَإِنَّ ﷲَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إِلٰی سَمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُوْلُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَه، أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَه ، أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِيَه ، أَلَا کَذَا أَلَا کَذَا حَتّٰی يَطْلُعَ الْفَجْرُ ۔
ترجمہ : جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہوتے ہی (اپنی شان کے لائق) آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا نہیں کہ میں اسے رزق دوں ؟ کیا کوئی مبتلائے مصیبت نہیں کہ میں اُسے عافیت عطا کر دوں ؟ کیا کوئی ایسا نہیں ؟ کوئی ایسا نہیں ؟ (اسی طرح ارشاد ہوتا رہتا ہے) یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے ۔ (بيهقی شعب الايمان، رقم: 3822)
برات کے معنی ہیں : نجات ، شبِ برات کا معنی ہے : ’’گناہوں سے نجات کی رات‘‘ اور گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے ۔ سو اس رات میں اللہ تعالیٰ، سے بہت زیادہ توبہ اور استغفار کرنا چاہیے ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر بھی توبہ کریں اور اپنے والدین اساتذہ و رشتہ داروں کے لیے بھی اِستغفار کریں۔
شعبان کی پندرہویں شب کے بارے میں وارد ہونے والی اَحادیث مبارکہ کے مطالعہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس مقدس رات قبرستان جانا، کثرت سے اِستغفار کرنا، شب بیداری اور کثرت سے نوافل ادا کرنا اور اس دن روزہ رکھنا رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ میں سے تھا ۔
جب انسان گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے تو برے اعمال کے باعث اس کے دل کے اندر نیک اعمال و عبادات سے عدم دل چسپی جنم لیتی ہے ۔ اگر بندہ اپنی اصلاح نہ کرے تو عبادات سے یہ محرومی بڑھتے بڑھتے توفیق کے سلب کیے جانے پر منتج ہوتی ہے۔ اس مقام پر اس کا قلب گناہوں کے اصرار کے باعث حلاوت ایمان سے محروم ہو کر تاریک و سیاہ ہو جاتا ہے جو دائمی بدبختی کی علامت ہے ۔
اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے بے پناہ محبت ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے نار جہنم کا ایندھن بنیں۔ چنانچہ ذاتِ حق تعالیٰ نے انہیں اس انجام بد سے بچانے کےلیے اپنی مغفرت و بخشش کو عام کرتے ہوئے دروازہ توبہ کھولنے کا اعلان کیا کہ جو کوئی توبہ کی راہ کو اختیار کرے گا تو وہ اسے ایسے معاف کرے گا گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیںبلکہ اس کو درجہ محبوبیت میں رکھے گا ۔
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ ﷲُ لَہٗ مِنْ ضِيْقٍ مَخْرَجًا وَمِنْ کُلِّ ھَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَہٗ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۔
ترجمہ : جو شخص پابندی کے ساتھ استغفار کرتا ہے ، ﷲ تعالیٰ اس کےلیے ہر غم سے نجات اور ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کے وہم و خیال میں بھی نہ ہو ۔ (ابودائود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فی الاستغفار، 2/85، رقم 1518،چشتی)
نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَا اَصْبَحْتُ غَدَاةً قَطُّ إِلَّا اسْتَغْفَرْتُ ﷲَ فِيْهَا مِائَةَ مَرَّةٍ ۔
ترجمہ : کوئی صبح طلوع نہیں ہوتی مگر میں اس میں سو مرتبہ اِستغفار کرتا ہوں ۔(ابن ابی شيبة المصنف 7/ 172، رقم: 35075)
جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہونے کے باوجود اپنے ربّ کے حضور اس قدر عجز و نیاز اور گریہ و زاری فرمائیں، تو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ اور جب رحمت الٰہی کا سمندر طغیانی پہ ہو تو ہمیں بھی خلوص دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے کیوں کہ اس وقت رحمت الٰہی پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے : کوئی ہے بخشش مانگنے والا کہ اسے بخش دوں، کوئی ہے رزق کا طلب گار کہ میں اس کا دامن مراد بھردوں ۔
امام ابن ماجہ ’’السنن‘‘ میں حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہترین دعا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنَّا يَا غَفُوْرُ ۔ ’’اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ۔ پس اے بخشنے والے! ہمیں بھی بخش دے ۔‘‘
یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برات کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت وسعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات بھی توہمات اور فضول ہندوانہ رسومات کی نذر کر دیتے ہیں اور اس رات میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہو کر اسے کھیل کود اور آتش بازی میں گزار دیتے ہیں۔ من حیث القوم آج ہم جس ذلت و رسوائی، بے حسی، بدامنی، خوف و دہشت گردی اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے چھٹکارے اور نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ساری قوم اجتماعی طور پر ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے اور اس رات کو شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منائے ۔
آئیے اس غفار ، رحمن اور رحیم ربّ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہائیں اور خلوصِ دل سے توبہ کریں، حسب توفیق تلاوت کلام پاک کریں ، رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیہ درود و سلام پیش کریں، نوافل ادا کریں خصوصاً صلاۃ التوبہ پڑھیں، اِستغفار اور دیگر مسنون اَذکار کے ساتھ دلوں کی زمین میں بوئی جانے والی فصل تیار کریں اور پھر اسے آنسوئوں کی نہروں سے سیراب کریں تاکہ رمضان المبارک میں معرفت و محبت الٰہی کی کھیتی اچھی طرح نشوونما پاکر تیار ہو سکے ۔
قیام اللیل اور روزوں کی کثرت ہی ہمارے دل کی زمین پر اُگی خود رَو جھاڑیوں کو جو پورا سال دنیاوی معاملات میں غرق رہنے کی وجہ سے حسد، بغض، لالچ، نفرت، تکبر، خودغرضی، ناشکری اور بے صبری کی شکل میں موجود رہتی ہیں ۔ اُکھاڑ سکے گی اور ہمارے دل کے اندر ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کےلیے قبولیت اور انجذاب کا مادہ پیدا ہو گا ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کی یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ فرمایئے ۔ ارشاد ہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں ۔ وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں ، وہ بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں اور رات میں لوگوں کے (سال بھر کے) اعمال اٹھا لیے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتا ہے ۔ (مشکوٰۃ شریف، جلد اول صفحہ 277،چشتی)
اِس شب میں اللہ تعالیٰ بے شمار لوگوں کی مغفرت کردیتے ہیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ اِرشاد نقل فرماتی ہیں کہ بے شک اللہ شعبان کے پندہویں شب میں آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) نزول فرماتے ہیں اورقبیلہ ”کلب“ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرمادیتے ہیں۔إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ۔(ترمذی:739)
قبیلہ” بنو کلب “ عرب ایک قبیلہ جو بکریاں کثرت سے رکھنے میں مشہور تھا، اور بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ مغفرت کرنے کے دو مطلب ذکر کیے گئے ہیں :
(پہلا مطلب یہ ہے کہ اِس سے گناہ گار مراد ہیں ، یعنی اِس قدر کثیر گناہ گاروں کی مغفرت کی جاتی ہے کہ جن کی تعداد اُن بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔اور اِس کا حاصل یہ ہے کہ بے شمار لوگوں کی مغفرت ہوتی ہے ۔
دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اِس سے گناہ گار نہیں بلکہ گناہ مراد ہیں، یعنی اگر کسی کے گناہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوںتو اللہ تعالٰ اپنے فضل سے معاف فرمادیتے ہیں ۔
یہ رات دعاؤں کی قبولیت والی رات ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا محروم نہیں ہوتا ، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی جانب سے صدا لگائی جاتی ہے کہ کوئی مجھ سے مانگے میں اُس کی مانگ پوری کروں ، جیسا کہ حدیث میں آتاہے، حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اُس کی رات میں قیام (عبادت)کرواور اُس کے دن میں روزہ رکھو، بے شک اللہ تعالیٰ اِس رات میں غروبِ شمس سے ہی آسمانِ دنیا میں (اپنی شان کے مطابق)نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں : کیا کوئی مجھ سے مغفرت چاہنے والا نہیں کہ میں اُس کی مغفرت کروں ؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں کہ میں اُسے رزق عطاء کروں ؟ کیا کوئی مصیبت و پریشانی میں مبتلاء شخص نہیں کہ میں اُسے عافیت عطاء کروں؟کیا فلاں اور فلاں شخص نہیں ……الخ یہاں تک کہ (اِسی طرح صدا لگتے لگتے)صبح صادق طلوع ہوجاتی ہے۔إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا، حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ۔(ابن ماجہ : 1388)
اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ عطاء اور بخشش کی صدا روزانہ رات کو لگتی ہے اوربعض روایات میں رات کے ایک تہائی حصے کے گزرجانے کے بعد صبح تک لگتی ہے اور بعض روایات میں رات کے آخری پہر یعنی آخری تہائی حصہ میں لگائی جاتی ہے جیسا کہ ترمذی شریف:446) کی روایت میں اِس کا ذکر ہے ،لیکن اِس شبِ براءت کی عظمت کا کیا کہنا !! کہ اِس رات میں شروع ہی سے یعنی آفتاب کے غروب ہونے سے لے کر صبح صادق تک یہ صدا لگائی جاتی ہے ، لہٰذا اِن قبولیت کی گھڑیوں میں غفلت اختیار کرنا بڑی نادانی اور حماقت کی بات ہے ، اِس لئے اِس رات میں فضولیات اور لایعنی کاموں میں لگنے یا خواب غفلت میں سوئے پڑے رہنےسے بچنا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرتے ہوئے شوق و ذوق کا اِظہار کرنا چاہیئے ۔
واضح رہے کہ دعاؤں کی قبولیت والی اِس رات میں دعاؤں کی قبولیت کو حاصل کرنے کےلیے ضروری ہے کہ دعاء کی قبولیت کی شرائط کا اچھی طرح لحاظ رکھیں ورنہ دعاء قبول نہیں ہوگی ۔
دعاء کی قبولیت کی چندبنیادیں شرطیں ہیں ، دعاء مانگتے ہوئے ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے : ⬇
پہلی شرط : حرام سے اجتناب :
حدیث کے مطابق جس کا کھانا پینااور لِباس وغیرہ حرام کا ہو اُس کی دعاء قبول نہیں ہوتی ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک شخص کا تذکرہ کیا جوطویل سفر کرتاہے اور اُس کی وجہ سے وہ پراگندہ اور غبار آلود ہوجاتا ہے اور اِس پراگندگی کی حالت میں اپنے ہاتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پھیلاکر کہتا ہے : اے میرے پر وردگار ! اےمیرے پروردگار! حالآنکہ اُس کا کھانا ، اُس کا پینا ، اُس کا لِباس سب حرام ہو اور اُس کی پرورش حرام مال سے کی گئی ہو تو اُس کی دعاء کیسے قبول کی جاسکتی ہے ۔ وَذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ، يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِّيَ بِالحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ۔(ترمذی:2989،چشتی)
دوسری شرط : توجہ سے دعاء کرنا : یعنی دل کی توجہ سے اللہ تعالیٰ سے دعاء کرنا ، ایسا نہ ہو کہ غفلت میں صرف رٹے رٹائے دعائیہ کلمات زبان سے اداء کیے جائیں اور دل حاضر نہ ہو ، کیونکہ حدیث کے مطابق ایسی غفلت کے ساتھ مانگی جانے والی دعاء قابلِ قبول نہیں ہوتی ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ سے قبولیت کے یقین کے ساتھ دعاء مانگا کرواور جان لو!کہ اللہ تعالیٰ غفلت اور لاپرواہی میں پڑے ہوئے دل کے ساتھ دعاء قبول نہیں فرماتے۔ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالإِجَابَةِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ ۔(ترمذی:3479)
تیسری شرط : ایک دوسرے کو امر بالمعروف اور نہی عن المُنکَر کرتے رہنا : نیکی کا حکم دینا اور گناہوں سے روکنا اِسلام کے اہم فرائض اور ذمّہ داریوں میں سے ہے ، جب لوگ اِس میں غفلت بَرتنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا عذاب مختلف شکلوں میں نازل ہوتا ہے جس کی لپیٹ میں صرف بُرے لوگ ہی نہیں بلکہ اُن کو نہ روکنے والے بھی آجاتے ہیں ، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں : ﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾(الأنفال:25) اور ڈرو اُس وَبال سے جو تم میں سے صرف اُن لوگوں پر نہیں پڑے گا جنہوں نے ظلم کیا ہوگا اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کاعذاب بڑا سخت ہے۔
اور جب اِس امر بالمعروف اور نہی عن المُنکَر کو ترک کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ عذاب آتا ہے تو دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں ، حضرت حُذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : قسم اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم لوگ ضرور نیکی کا حکم دیتے اور بُرائیوں سے منع کرتے رہو ، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی جانب سے ایک ایسا عذاب بھیجیں گے کہ تم اُس سے دعاء کروگے لیکن تمہاری دعاء قبول نہیں کیا جائے گی ۔ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ المُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ۔(ترمذی:2169) ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ لوگ جب امر بالمعروف اور نہی عن المُنکر کو ترک کردیتے ہیں تو دعائیں قبول ہونا بند ہوجاتی ہیں ۔
اِس رات کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی کثرت سے جہنم سے لوگوں کو آزاد کرتے ہیں ، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرہویں شب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یہ شعبان کی پندرہویں شب ہےاور اِس رات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر جہنّم سے لوگوں کو آزاد کیا جاتا ہے ۔هَذِهِ اللَّيْلَةُ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلِلَّهِ فِيهَا عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُورِ غَنَمِ كَلْبٍ۔(شعب الایمان :3556)
اِس رات کی ایک اہم فضیلت یہ ہے کہ اِس میں سال بھر کے فیصلے کیے جاتے ہیں کہ کِس نے پیدا ہونا اور کِس نے مَرنا ہے ،کِس کو کتنا رزق دیا جائے گا اور کِس کے ساتھ کیا کچھ پیش آئے گا ، سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اے عائشہ ! کیا تم جانتی ہو کہ اِس پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اِرشاد فرمایا : بنی آدام میں سے ہر وہ شخص جو اِس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے ، اور بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اِس سال مَرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے ، اور اس رات میں بندوں کے اعمال اُٹھالیے جاتے ہیں اور اِسی رات میں بندوں کے رزق اُترتے ہیں ۔فِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كلُّ مَوْلُودٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ وَفِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ هَالِكٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ وَفِيهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ وَفِيهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ۔(مشکوۃ المصابیح:1305)
ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ اِرشاد منقول ہے :ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک عمریں لکھی جاتی ہیں ، یہاں تک کہ کوئی شخص نکاح کرتا ہے اور اُس کی اولاد بھی ہوتی ہے لیکن(اُسےمعلوم تک نہیں ہوتا کہ ) اُس کا نام مُردوں میں نکل چکا ہوتا ہے۔تُقْطَعُ الْآجَالُ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى شَعْبَانَ،حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَنْكِحُ، وَيُولَدُ لَهُ وَقَدْ خَرَجَ اسْمُهُ فِي الْمَوْتَى ۔ (فضائل رمضان لابن ابی الدنیا:30،چشتی)۔(شعب الایمان :3558)
لہٰذا فیصلے کی اِس رات میں غفلت میں پڑے رہنا کوئی دانشمندی نہیں ، عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے اور اپنے لیے ، اپنے گھروالوں کےلیے بلکہ ساری اُمّت کےلیے اچھے فیصلوں کی خوب دعائیں کی جائیں ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment