Thursday 3 March 2022

شَعبانُ المعظم کی فضیلت و اہمیت ، نوافل اور عبادات شب برات حصّہ چہارم

0 comments

 شَعبانُ المعظم کی فضیلت و اہمیت ، نوافل اور عبادات شب برات حصّہ چہارم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شبِ برات قرآن و حدیث کی روشنی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : حٰمٓۚۛ (1) وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِۙۛ (2) اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ (3) فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ (4) اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاؕ-اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَۚ (5)

ترجمہ : قسم اس روشن کتاب کی ۔ بیشک ہم نے اُسے برکت والی رات میں اُتارا بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ہمارے پاس کے حکم سے بیشک ہم بھیجنے والے ہیں ۔ (پارہ 25، سورۃ دخان، آیت 1 تا 5)


برکت والی رات کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد شبِ براء ت ہے ۔


قرآن کریم میں شب براء ت کا ذکر : اس رات کے بے شمار فضائل ہیں ، یہ رات برکتوں والی رات ہے ، رحمتوں والی رات ہے اور نعمتوں والی رات ہے ، سورۂ دخان کی ابتدائی آیات میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے : حٰمٓ ۔ وَالْکِتَابِ الْمُبِینِ ۔ إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِی لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنْذِرِینَ ۔ فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیم ۔ ترجمہ : حٰمٓ قسم ہے واضح کتاب کی ! بے شک ہم نے اس (قرآن) کو ایک برکت والی رات میں نازل کیا ، ہم ہی ڈرانے والے ہیں ، اس (رات)میں ہرحکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔

ان آیات مبارکہ میں مذکور مبارک رات سے کونسی رات مراد ہے، اس سلسلہ میں علماء امت کی ایک جماعت کے مطابق اس سے مراد پندرہ شعبان کی شب ’’شب براء ت‘‘ہے۔ جیساکہ علامہ شیخ احمد بن محمد صاوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1247؁ھ) نے ’مبارک رات‘’ سے شعبان کی پندرھویں رات ‘مراد ہونے سے متعلق لکھاہے : ھو قول عکرمۃ و طائفۃ ووجہ بامور منھا ان لیلۃ النصف من شعبان لھا اربعۃ اسماء: اللیلۃ المبارکۃ و لیلۃ البراء ۃ و لیلۃ الرحمۃ ولیلۃ الصک ۔

ترجمہ : حضرت عکرمہ اور مفسرین کی ایک جماعت کا بیان ہے کہ’’ برکت والی رات ‘‘ سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے‘اور یہ توجیہ چند امور کی وجہ سے قابل قبول ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ پندرھویں شعبان کے چار نام ہیں: (1) مبارک رات (2) براء ت والی رات (3) رحمت والی رات (4) انعام والی رات ۔ (حاشیۃ الصاوی علی الجلالین، جلد 4 صفحہ 57،چشتی)(التفسیر الکبیرللرازی:سورۃ الدخان :1)


اس مبارک رات سے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے کہ : فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ۔

ترجمہ : اس میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ (سورۂ دخان :4)


اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ برکت والی رات فیصلوں کی رات ہے، اسی طرح پندرہ شعبان کی شب سے متعلق بھی احادیث شریفہ میں یہی تفصیل وارد ہے کہ اس میں سال بھر ہونے والے مختلف امور اور معاملات کے فیصلے کئے جاتے ہیں، اس جہت سے پندرہ شعبان سے متعلق احادیث شریفہ ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ (برکت والی رات) کی تفصیل اور تفسیر قرار پاتی ہیں، جیسا کہ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرماتے ہیں : وروی عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما تقتضی الاقضیۃ کلھا لیلۃ النصف من شعبان ۔

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :جملہ معاملات کے فیصلہ جات شعبان کی پندرھویں شب میں ہوتے ہیں ۔ (روح المعانی ج14، ص174)


برکت والی رات میں نزول قرآن کا صحیح مفہوم : اس مبارک رات سے متعلق یہ تفصیل بیان کی گئی کہ رب العالمین نے اس رات قرآن مجید کو نازل فرمایاہے اور شب قدرسے متعلق بھی قرآن کریم میں یہی تفصیل بیان کی گئی کہ وہ نزول قرآن کی رات ہے ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ کلام الہی شب براء ت میں بھی نازل ہو اور شب قدر میں بھی ؟

شب براء ت کا نام اللہ تعالی نے مبارک رات رکھا ہے اور اس رات قرآن اتارا ، ایساہی شب قدر کے لئے فرمایاکہ ہم نے قرآن اُتاراہے ۔

واقعہ یہ ہے کہ شب براء ت میں قرآن اتارنے کی تجویز ہوئی اور شب قدر میں آسمان اول پر اُتارا،پھر تیئیس 23 سال تک تھوڑا تھوڑا کرکے دنیا میں اترتارہا ۔ (فضائل رمضان، ص:23،چشتی)


اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے : (1)بقر عید کی رات (2) عیدالفطر کی رات (3) شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اِس سال)حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں (4)عرفہ کی رات اذانِ (فجر) تک ۔ ‘‘ (تفسیر در منثور، الدخان، الآیۃ: ، ۷/۴۰۲)


اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے پاس جبریل آئے اور کہا یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے اس میں اللہ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگرکافراور عداوت والے اور رشتہ کاٹنے والے اور(تکبر کی وجہ سے) کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظر ِرحمت نہیں فرماتا ۔ (شعب الایمان ، الباب الثالث و العشرون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان ، ۳ / ۳۸۳ ، الحدیث: ۳۸۳۷،چشتی)


فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ (4) اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاؕ-اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَۚ (5)

ترجمہ : اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ہمارے پاس کے حکم سے بیشک ہم بھیجنے والے ہیں ۔


فِیْهَا یُفْرَقُ : اس رات میں بانٹ دیا جاتا ہے ۔ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس برکت والی رات میں سال بھر میں ہونے والاہر حکمت والا کام جیسے رزق ، زندگی،موت اور دیگر احکام ان فرشتوں کے درمیان بانٹ دئیے جاتے ہیں جو انہیں سرا نجام دیتے ہیں اور یہ تقسیم ہمارے حکم سے ہوتی ہے ۔ بیشک ہم ہی سَیِّدُ المرسلین ، محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجنے والے ہیں ۔ (تفسیر جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۴۱۰، روح البیان، الدخان الآیۃ: ۴-۵، ۸/۴۰۴،چشتی)


یاد رہے کہ کئی احادیث میں بیان ہوا ہے کہ15شعبان کی رات لوگوں کے اُمور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ، جیسا کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : ’’ کیا تم جانتی ہو اس رات یعنی پندرہویں شعبان میں کیا ہے؟میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس میں کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ اس رات میں اس سال پیدا ہونے والے تمام بچے لکھ دیئے جاتے ہیں اور اس سال مرنے والے سارے انسان لکھ دیئے جاتے ہیں اور اس رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور ان کے رزق اتارے جاتے ہیں ۔‘‘ (مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب قیام شہر رمضان ، الفصل الثالث، ۱/۲۵۴، الحدیث: ۱۳۰۵)


ان احادیث اور ا س آیت میں مطابقت یہ ہے کہ فیصلہ 15 شعبان کی رات ہوتا ہے اور شبِ قدر میں وہ فیصلہ ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جنہوں نے اس فیصلے کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’لوگوں کے اُمور کا فیصلہ نصف شعبان کی رات کر دیا جاتا ہے اور شبِ قدر میں یہ فیصلہ ان فرشتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو ان اُمور کو سرانجام دیں گے ۔‘‘ (بغوی، الدخان، تحت الآیۃ: ۴، ۴/۱۳۳)


شب براء ت ، موت و حیات اورتقسیم رزق کا فیصلہ : ہرشخص جانتاہے کہ ازل سے جو ہوا اورابد تک جو کچھ ہونے والا ہے سب کچھ لوح محفوظ میںتحریر شدہ ہے۔ البتہ سال بھر واقع ہونے والے امور سے متعلق تمام احکام کو شب براء ت میں منظوری دی جاتی ہے اور فرشتے لوح محفوظ سے ان فیصلوں کو دفتروںمیں نقل کرتے ہیں ‘اور شب قدر میں ان فائلوں کو متعلقہ فرشتوں کے حوالہ کردیاجاتاہے ، ان فائلوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ اس سال کتنے لوگ پیدا ہوں گے، اور کتنے دنیا سے رخصت ہوجائیںگے اور کس کو کتنا رزق ملے گا۔ جیسا کہ شعب الایمان‘ الدعوات الکبیرللبیہقی‘ مشکوٰۃ المصابیح اور زجاجۃ المصابیح میں حدیث شریف ہے : عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ھل تدرین مافی ھذہ اللیلۃ یعنی لیلۃ النصف من شعبان قالت مافیھا یا رسول اللہ فقال فیھا ان یکتب کل مولود بنی آدم فی ھذہ السنۃ وفیھا ان یکتب کل ھالک من بنی آدم فی ھذہ السنۃ وفیھا ترفع اعمالھم وفیھا تنزل ارزاقھم فقالت یا رسول اللہ مامن احد یدخل الجنۃ الا برحمۃ اللہ تعالیٰ ؟ فقال مامن احد یدخل الجنۃ الا برحمۃاللہ تعالیٰ ثلاثاً قلت ولا انت یا رسول اللہ فوضع یدہ علی ھامتہ ولا أنا الا ان یتغمدنی اللہ منہ برحمتہ یقولھا ثلاث مرات۔

ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتی ہو اس رات یعنی پندرھویں شعبان میں کیا ہوتاہے! آپ نے عرض کیا: اس میں کیاہوتاہے؟یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اس سال پیداہونے والے تمام آدمیوں کے نام اس رات فہرست میں لکھ دئے جاتے ہیں،اور اس سال فوت ہونے والے تمام انسانوں کے نام بھی فہرست میں درج کردئیے جاتے ہیںاور اس میں لوگوں کے اعمال( رب کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں اور ان کے رزق اتارے جانے کا فیصلہ کردیاجاتا ہے۔آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جاسکے گا؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں چلاجائے، آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا:کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا :آپ بھی نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اپنے سر انور پر رکھ کرتین مرتبہ فرمایا نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی آغوشِ رحمت میں لئے ہوئے ہے۔اسے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ دہراتے رہے ۔ (زجاجۃ المصابیح، ج1، ص367۔ مشکوۃ المصابیح، ج1، ص114۔ الدعوات الکبیر للبیہقی،فضائل الاوقات للبیہقی ، باب فضل لیلۃ النصف من شعبان،حدیث نمبر 28۔شعب الایمان للبیہقی ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ،حدیث نمبر: 3675 ۔ العلل المتناھیۃ لابن الجوزی،حدیث فی فضل لیلۃ النصف شعبان ، حدیث نمبر 918 ۔التبصرۃ لابن الجوزی، المجلس الخامس فی ذکر لیلۃ النصف من شعبان ،چشتی)


شب براء ت میں قیام اور دن میں روزہ کا اہتمام : شب براء ت ذکر وشغل اور نمازو تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا اور ساری رات قیام کرنا اور دن میں روزہ رکھنا احادیث شریفہ سے ثابت ہے چنانچہ سنن ابن ماجہ شریف‘ شعب الایمان ‘ کنزالعمال اور’ تفسیر در منثور‘ میں ہے : عَنْ عَلِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَیْلَہَا وَصُومُوا یَوْمَہَا. فَإِنَّ اللَّہَ یَنْزِلُ فِیہَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَائِ الدُّنْیَا فَیَقُولُ أَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِی فَأَغْفِرَ لَہُ أَلاَ مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَہُ أَلاَ مُبْتَلًی فَأُعَافِیَہُ أَلاَ کَذَا أَلاَ کَذَا حَتَّی یَطْلُعَ الْفَجْرُ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا:سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تو اس رات قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو! کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج ڈوبتے ہی آسمان دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتاہے اورارشاد فرماتاہے :کیا کوئی مغفرت کا طلبگار ہے کہ میں اس کو بخش دوں! کیا کوئی رزق چاہنے والا ہے کہ میں اس کو رزق عطا کروں! کیا کوئی مصیبت کا مارا ہوا ہے کہ میں اس کو عافیت دوں! کیا کوئی ایساہے! کیاکوئی ایسا ہے! یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ‘حدیث نمبر: 1451 ۔ شعب الایمان للبیہقی حدیث نمبر: 3664۔ کنزالعمال حدیث نمبر: 35177۔التفسیر الدرالمنثور ،سورۃ الدخان،آیت ۔4،چشتی)


اس روایت سے شب براء ت میں قیام کرنا اور دن میں روزہ کاسنت ہونا مذکور ہے اس سے واضح طور پر معلوم ہورہاہے کہ یہ رات غفلتوں میں رہنے کی رات نہیں‘ بلکہ شب بیداری اورسحرخیزی کی رات ہے ، بارگاہ الہی سے رحمتیں لوٹنے کی رات ہے ، زندگی میں برکت حاصل کرنے اور پریشانیوں سے چھٹکارہ پانے کی رات ہے ۔


فضیلت شب براء ت کی احادیث ثقہ راویوں سے منقول : علامہ ہیثمی نے اپنی کتاب مجمع الزوائد میں شب براء ت کی فضیلت میں وارد احادیث شریفہ نقل کرتے ہوئے امام طبرانی کی معجم کبیرومعجم اوسط سے اس باب میں دو(2)روایتیں نقل کیں اور ان کے راویوں کو قابل اعتبار قراردیتے ہوئے رقم فرمایاہے: ورجالھما ثقات ۔ترجمہ : اور ان دونوں احادیث شریفہ کے راوی معتبر وثقہ ہیں ۔ (مجمع الزوائد ، کتاب الادب ، باب ماجاء فی الھجران ) ۔ شب براء ت کی فضیلت سے متعلق تقریباً سولہ (16) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے روایتیں منقول ہیں ۔


شب براء ت رحمت کے تین سو دروازے کھول دئے جاتے ہیں : شب براء ت جبریل امین سدرہ کے مکین حاضر دربار رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہوکر اس رات عبادت کرنے والوں کے حق میں خوش قسمتی و فیروز بختی کی بشارت سناتے ہیں : قال ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال جاء نی جبریل علیہ السلام لیلۃ النصف من شعبان وقال یا محمد ارفع رأسک الی السماء قال قلت ماھذہ اللیلۃ قال ھذہ اللیلۃ یفتح اللہ سبحانہ فیھا ثلاث مائۃ باب من ابواب الرحمۃ یغفر لکل من لایشرک بہ شےئا الا ان یکون ساحرا اوکاھنا او مدمن خمر او مصرا علی الربا والزنا فان ھؤلاء لایغفرلھم حتی یتوبوا فلما کان ربع اللیل نزل جبریل علیہ السلام وقال یا محمد ارفع رأسک فرفع راسہ فاذا ابواب الجنۃ مفتوحۃ وعلی الباب الاول ملک ینادی طوبی لمن رکع فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الثانی ملک ینادی طوبی لمن سجد فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الثالث ملک ینادی طوبی لمن دعا فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الرابع ملک ینادی طوبی للذاکرین فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الخامس ملک ینادی طوبی لمن بکی من خشیۃ اللہ فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب السادس ملک ینادی طوبی للمسلمین فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب السابع ملک ینادی ھل من سائل فیعطی سؤلہ وعلی الباب الثامن ملک ینادی ھل من مستغفر فیغفرلہ فقلت یاجبریل الی متی تکون ھذہ الابواب مفتوحۃ قال الی طلوع الفجر من اول اللیل ثم قال یا محمد ان للہ تعالیٰ فیھا عتقاء من النار بعدد شعرغنم کلب ۔

ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںکہ آپ نے ارشاد فرمایا :شعبان کی پندرھویں رات میرے پاس جبرئیل علیہ السلام نے حاضر ہوکر عرض کیا : اے پیکر حمدوثنا! اپنا سرانور آسمان کی جانب اٹھائیے ،میں نے کہا :واہ‘اس رات کے کیا کہنے! ،جبرئیل نے عرض کیا اس رات اللہ تعالیٰ رحمت کے تین سو دروازے کھولتا ہے اور ہر اس شخص کی بخشش فرمادیتا ہے جس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، سوائے یہ کہ وہ جادوگر ہو یا کاہن ہو یا شراب کا عادی ہو یا ہمیشہ کا سود خوار اور بدکار ہو کیونکہ ان لوگوں کو نہیں بخشا جائے گا یہاں تک کہ و ہ توبہ کرلیں ، پھر جب چوتھائی رات ہوئی تو جبرئیل نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا:اے پیکر حمد وثنا و لائق ہر ستائش و خوبی ! اپنا سرا نور اٹھائیے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرانور اٹھایا تو جنت کے دروازے کھلے ہیں، پہلے دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے: اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے اس رات رکوع کیا، دوسرے دروازہ پر ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے: اس شخص کیلئے خوشخبری ہے جس نے اس رات سجدہ کیا ، تیسرے دروازہ پر ایک فرشتہ ندادے رہا ہے: بشارت ہے اس شخص کیلئے جس نے اس رات دعاکی ، چوتھے دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے :اس رات ذکر کرنے والوں کیلئے مژدہ ہے ، پانچویںدروازہ پر ایک فرشتہ آوازدے رہا ہے: خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو اس رات اللہ تعالیٰ کے خوف سے روئے ، چھٹے دروازہ پرایک فرشتہ منادی ہے: اس رات اطاعت کرنے والوں کیلئے بشارت ہے ، ساتویں دروازہ پر ایک فرشتہ آوازدے رہا ہے: کیا کوئی مانگنے والاہے کہ اس کی مانگ پوری کی جائے! اورآٹھویں دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے: کیا کوئی بخشش کا طلبگارہے کہ اسے بخش دیا جائے! میں نے کہا: اے جبرئیل!یہ دروازے کب تک کھلے رہتے ہیں، جبرئیل نے عرض کیا: رات کے ابتدائی حصہ سے فجر طلوع ہونے تک پھر عرض کیا : اے پیکر حمدوثنا ولائق ہر ستائش وخوبی ! یقینااس رات اللہ تعالی قبیلۂ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار بندوں کو دوزخ سے آزاد فرماتاہے ۔ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق ،ج:1 ،ص:191،چشتی)


وہ لوگ جن کی شب براء ت بخشش نہ ہوگی : مقام غورہے کہ سارے لوگ اللہ رب العزت کی رحمتوں کو حاصل کررہے ہونگے ، اس کی نعمتوں سے اپنی جھولیوں کو بھر رہے ہوں گے اور اس بخشش والی رات سعادتوں سے اپنے مقدر چمکارہے ہونگے ، ایسی انعام والی رات مغفرت نہ پانا یقینا محرومی کی بات ہے اوراپنے حال پر افسوس وندامت کرنے کی بات ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس رات کی فضیلت سے آگاہ فرمایا، اس رات بٹنے والی رحمتوں ‘برکتوں اور چھٹکارے کا تذکرہ بھی فرمادیا، بات یہیں ختم نہ ہوئی ‘بلکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم گنہگاروں کی بندہ پروری فرماتے ہوئے ؛اس رات محروم رہنے والوں کی تفصیل بھی بتلادی ، چنانچہ اس طرح کرم کا معاملہ فرمایاکہ اگر کوئی شرک وبدعقیدگی ‘قتل وغارت گری اور کینہ پروری میں مبتلا ہوتو شرک وبدعقیدگی کو بالکلیہ طورپرچھوڑے اوردیگر گناہوں پرصدق دل سے توبہ کرلے تواسے سایۂ رحمت میں جگہ دیدی جائیگی ، اگر کوئی ڈاکہ زنی وبدکاری اور سود خوری وشراب نوشی میں ملوث ہوتو ان برائیوں سے باز آجائے اور انہیں آئندہ نہ کرنے کا عہد کرے، متعلقہ افراد کے حقوق ادا کرے اور ان کے املاک واپس کردے تو اس کی کوتاہیوں کو درگزر کردیا جائے گااور اس کے گناہوں کو بھی بخش دیا جائے گا ۔

اسی طرح اگر کوئی جادو کررہا ہے ‘رشتہ داری کاٹ رہاہے اور والدین کی نافرمانی کررہاہے تو اپنے حال زار پر افسوس کرے ،رب العزت کے دربار میں ندامت کے آنسو بہائے اوراپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اہل حقوق کے حقوق ادا کرے تو اللہ تبارک وتعالی اسے بھی محروم نہیں فرمائے گااور اس رات کی برکتوں سے ضرور مالا مال فرمائے گا ۔

اگر سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم ان گناہوں کی تفصیل نہ بتلاتے ہوتے تو یہ تمام لوگ محروم رہ جاتے ، آپ نے اپنی شان رحمۃ للعالمینی کا صدقہ عطا فرمایا اور اپنے وسعت علم اور نگاہ نبوت کے مشاہدہ کے ذریعہ اُن تمام تر تفصیلات سے ہمیں باخبر فرمایا۔ چنانچہ شعب الایمان میں حدیث پاک ہے ،ام المو منین سید تنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے،وہ شب براء ت کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان فرماتی ہیں : اتانی جبریل علیہ السلام فقال ھذہ اللیلۃ لیلۃ النصف من شعبان و للہ فیھا عتقاء من النار بعدد شعور غنم کلب لا ینظر اللہ فیھا الی مشرک ولا الی مشاحن ولا الی قاطع رحم ولا الی مسبل ولا الی عاق لوالدیہ ولا الی مدمن خمر۔

ترجمہ : حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب براءت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اورعرض کیا: یہ رات شعبان کی پندرھویں رات ہے، اس رات اللہ تعالیٰ قبیلۂ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار میں دوزخ سے گنہگاروں کو آ زاد فرماتا ہے ، اور اس رات چند لوگوں کی طرف نظررحمت نہیں فر ماتا،(وہ یہ ہیں:) مشرک ، بدعقیدہ اورکینہ پرور، رشتہ داری کاٹنے والا،ٹخنوں کے نیچے لباس رکھنے والا،والدین کا نا فرمان، شراب کاعادی ۔ (شعب الایمان للبیھقی،اکنت تخافین ان یحیف اللہ ، حدیث: 3678) ۔ اس حدیث شریف کے علاوہ شب براءت میں رب العالمین کی رحمتوں سے محروم رہنے والے افراد سے متعلق احادیث مبارکہ میں تفصیلات ملتی ہیں ، جن کی تعداد تقریباً چودہ (14) ہے، وہ یہ ہیں : (1) مشرک ۔ (2) بدعقیدہ ۔ (3) کینہ پرور ۔ (4) قاتل ۔ (5) زانی وزانیہ ۔ (6) ماں باپ کا نافرمان ۔ (7)رشتہ داری کاٹنے والا ۔ (8) سود خور ۔ (9) شراب کا عادی ۔ (10) جادوگر ۔ (11) کاہن ۔ (12) ڈاکہ زنی کرنے والا ۔ (13) ناجائز طور پر محصول وصول کرنے والا ۔ (14) ازراہ تکبر ٹخنوں کے نیچے لباس رکھنے والا ۔ جب تک یہ لوگ توبہ نہ کریں ‘حق داروں کا حق ادا نہ کریں؛ان کی توبہ درجۂ قبولیت کو نہیں پہنچتی ۔


شب براء ت زیارت قبور کا اہتمام : احادیث شریفہ میں مزارات کی زیارت سے متعلق عام اجازت کے علاوہ بطورخاص شب براء ت میں زیارت کرنے کا ثبوت ملتا ہے، چنانچہ جامع ترمذی شریف ،سنن ابن ماجہ شریف ،مسند احمد ،الترغیب والترھیب ،الغنیۃ لطالبی طریق الحق میں حدیث پاک ہے : عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَۃً فَخَرَجْتُ فَإِذَا ہُوَ بِالْبَقِیعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِینَ أَنْ یَحِیفَ اللَّہُ عَلَیْکِ وَرَسُولُہ‘ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی ظَنَنْتُ أَنَّکَ أَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ ۔فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ ۔

ترجمہ : ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نے ایک رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا ،میں نکلی اور دیکھاکہ آپ بقیع میں تشریف فرما ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے خیال کیا کہ آپ کسی اور زوجۂ مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے ہوںگے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شب براء ت کو آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ (جامع ترمذی شریف ابواب الصوم ،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ج1 ص156، حدیث نمبر:744۔ سنن ابن ماجہ شریف،ابواب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیہا ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان حدیث نمبر: 1379،ج1 ص99۔ مسند احمد حدیث نمبر24825۔ مسند الانصار ، حدیث نمبر: 2482۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ج7ص139۔ شعب الایمان للبیہقی ، حدیث نمبر: 3666،چشتی،کنزالعمال ، تابع لکتاب الفضائل ، حدیث نمبر: 35184۔ تفسیر الدرالمنثور :سورۃ الدخان۔1۔ الترغیب والترھیب ج2 ص119۔ الغنیۃ لطالبی طریق الحق ج1ص191)


خوشبوئے جانفزا وجود گرامی کا پتہ دیتی ہے : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے ساتھ رہنے کے لئے باری مقرر فرمایا کرتے تھے جس وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دولت کدہ میں تشریف فرما تھے اس وقت رات کا کچھ حصہ گزار نے کے بعد ام المومنین کے پاس سے بقیع شریف زیارت کے لئے تشریف لے گئے۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرہ شریفہ میں نہ پایا تو ابتدائًً خیال گذرا کہ شاید دیگر ازواج مطہرات میں سے کسی زوجہ مبارکہ کے پاس تشریف لے گئے ہوں۔ پھر جب آپ نے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مراقبہ کیا تو خوشبوئے جاں فزا نے دامن دل کھینچ کر بقیع شریف تک پہنچادیا۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے گلیاں، فضائیں معطر رہتیں اور عاشقوں کو پتہ دیتیں کہ محبوب کی سواری یہاں سے گذری ہے اور عاشقان گم گشتۂ ہوش و خرد،َنفَسِ رحمانی کی ہدایت پر حالت مراقبہ میں راہ طے کرتے ہوئے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشاہدہ سے بہرہ مندہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ام المومنین نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بقیع شریف میں بحالت سجدہ دعا گو ہیں ۔


جیسا کہ حضرت ملا علی قاری مرقاۃ ،شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں : وفی روایۃ اخری۔ ۔ ۔ فاذاھو ساجد بالبقیع فأطال السجود حتی ظننت انہ قبض فلما سلم التفت الی ۔ اور دوسری روایت میں ہے:ام المومنین رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بقیع شریف میں سجدہ ریز ہیں، اتنا طویل سجدہ فرمایا کہ میں سمجھی کہ آپ حضوریٔ حق سے واپس نہ ہونگے ‘ وصال فرماگئے ہوں۔پھرجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو میری طرف توجہ رحمت فرمائی ۔ (مرقاۃ المفاتیح ‘جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 171،چشتی)

اس مبارک رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بقیع شریف قدم رنجہ فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات بھی زیارت قبورمسنون ومستحب ہے۔


کیا ہر سال شب براء ت کے موقع پر زیارت قبور سنت ہے ؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ شب براء ت میں زیارت قبور کے لئے تشریف لے گئے تھے ،اسی لئے زندگی میں صرف ایک بار زیارت کرلی جائے تو کوئی حرج نہیں، ہر سال شب براء ت کے موقع پر زیارت قبور کا اہتمام بدعت ہے‘‘ان کا یہ قول بغیر دلیل کے دعویٰ اوراستدلال کرنا ہے، جوازروئے شرع قابل قبول نہیں ہوسکتا،کیونکہ احادیث شریفہ کے ذخیرہ میں کہیں یہ صراحت نہیں آئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یا ہر سال زیارت نہیں فرمائی بلکہ اس کے برعکس یہ شہادت موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عام دنوں میں بھی زیارت قبور کا التزام واہتمام فرمایا کرتے ،اور یہ بات حقیقت سے نہایت بعید ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک بار شب براء ت میں زیارت قبور کے لئے تشریف لے گئے ہوں کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی باری ہوتی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بقیع شریف تشریف لے جاتے۔ جیساکہ صحیح مسلم شریف کتاب الجنائز،ج1ص313 میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم کُلَّمَا کَانَ لَیْلَتُہَا مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ إِلَی الْبَقِیعِ فَیَقُولُ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّہُ بِکُمْ لاَحِقُونَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَہْلِ بَقِیعِ الْغَرْقَدِ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: جب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی باری ہوتی تو آپ رات کے آخری حصہ میں بقیع مبارک تشریف لے جاتے اور فرماتے’’ تم پر سلامتی ہو اے ایمان والو!تمہارے پاس پہنچا ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، روزمحشر ملنے والی نعمتیں تمہارے لئے تیار رکھی ہوئی ہیںاور یقیناً ہم تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! اہل بقیع کی بخشش فرمادے ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الجنائز،ج۱ص313کتاب الجنائز، حدیث نمبر2299!سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب الامر بالاستغفار للمؤمنین، حدیث نمبر2012!مسندالامام احمد، مسند الانصار، حدیث نمبر:24297!صحیح ابن حبان ،فصل فی زیارۃالقبور، ج7 ، ص444، حدیث نمبر:3172۔زجاجۃ المصابیح،باب زیارۃ القبور، جلد 1 صفحہ 487،چشتی)

اگر کسی کو یہی اصرار ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک بار زیارت فرمائی ہے تب بھی نفس زیارت تو ثابت ہوئی، اگر کوئی امتی ایک بار یا ہر سال اہتمام کرے تو بہر طور وہ اللہ تعالی کے پاس محبوب و پسندیدہ ہی ہوگا ،کتب اسلامیہ کا مطالعہ کرنے والوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ جو عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یا چند مرتبہ فرمایا ہو اس پر امت کی پابندی و مواظبت سے وہ سنت بدعت نہیں ہوتی بلکہ بقدر پابندی عمل کرنے والا اجروثواب کا مستحق ہوتاہے۔

جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک میں ہے : وان احب الاعمال الی اللہ ادومھا وان قل ۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مواظبت و پابندی کی جائے، اگرچہ وہ تھوڑاہو ۔ (صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل،حدیث نمبر:6464!صحیح مسلم،،کتاب صلوۃ المسافرین وقصرھا ،حدیث نمبر783 !سنن نسائی،ابواب القبلۃ،باب المصلی یکون بینہ وبین الامام سترۃ،حدیث نمبر:754 )

اور صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے : وَکَانَ آلُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا عَمِلُوا عَمَلاً أَثْبَتُوہُ . حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کرام جب بھی کوئی عمل کرتے تو اس پر مواظبت کرتے۔(صحیح مسلم کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا حدیث نمبر 1863،چشتی)


شب براء ت میں آتش بازی کی قباحت : آتش بازی میں بلا کسی فائدہ کے مال ضائع ہو تا ہے ، یہ فضول خرچی اور اسراف ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیرًا . إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینْ ۔ اور فضول خرچی بالکل مت کرو ، بیشک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں ۔ (سورۃ بنی اسرائیل،آیت:26/27) ۔ آتش بازی میں کسی عضوکے ہلاک ہونے کااندیشہ رہتا ہے جبکہ شریعت مطہرہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میںڈالنے سے منع کیاگیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ۔ تم اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (سورۃ البقرۃ،آ یت:195)


مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ اپنے وقت عزیز کو لایعنی اور بے فائدہ امور میں صرف کرے، جیسا کہ جامع ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 58 میں حدیث پاک ہے : من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ ۔ ترجمہ : انسان کے مسلمان ہونے کی خوبی یہ ہیکہ وہ بے فائدہ چیز چھوڑدے ۔ اسی لئے فقہاء کرام نے یہ صراحت کی ہے : (و)کرہ (کل لھو)لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام کل لھو المسلم حرام الا ثلاثۃ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمان کیلئے ہر غافل کرنے والے کھیل مکروہ ہیں بجزتین کے ۔ ۔ ۔ ۔ (الدرالمختار، ج:5ص279)

ان مفاسد و خرابیوں کی وجہ سے آتش بازی شریعت اسلامیہ میں فی نفسہ درست نہیں بالخصوص اس مبارک و باعظمت رات میں اللہ تعالی کی رضاجوئی اور توبہ و استغفارکرنے کے بجائے آتش بازی میں مشغول رہنا رحمت الٰہی سے روگردانی اختیار کرنے اور نعمت خداوندی کی ناقدری کرنے کے برابر ہے ۔

حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : ومن البدع الشنیعۃ ما تعارف الناس فی اکثر بلا دالھند من.......و اجتما عھم اللھوواللعب بالنار واحتراق الکبریت ۔ ان بری بدعتوں میں جو ہندوستان کے باشندوں میں رواج پکڑی ہے آتشبازی، پٹاخے چھوڑنا اور گندہک جلانا ہے ۔ (ما ثبت بالسنۃ،ص:87)

مسلمان اس متبرک اور رحمت والی رات میں آتش بازی جیسے لا یعنی اوربے فائدہ امور سے احتراز کریں اور اللہ تعالی کی رحمتوں سے اپنے دامن مراد کو بھرلیں۔


شب براء ت بطور خاص غیر شرعی امور سے باز رہیں : اسلام ‘امن و سلامتی عطا کرنے والا تہذیب وشائستگی کی تعلیم دینے والامقدس دین ہے، جس کے احکام وقوانین اقوام عالم کے ہر فرد و ہر قبیلہ، ہر رنگ و نسل، ہر زماں و مکاں کیلئے امن و شانتی ‘راحت و اطمینان فراہم کرتے ہیں، جس کا پیغامِ امن اپنے ماننے والوں تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام عالم انسانیت کےلیے ہے ۔

زمین پر کسی بھی قسم کا فتنہ وفساد، نقصان و خسران،قتل و غارتگری اس دین متین میںبالکل ناجائز و ممنوع ہے، ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِہَا ۔ ترجمہ:تم زمین میں اصلاح کے بعد فساد مت کرو!۔(سورۃالاعراف،آیت:65)


مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے طرز عمل اور گفتار سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور سارے لوگ اس سے محفوظ و مامون رہیں، مشکوۃ ، ج1’ص15‘ میںجامع ترمذی اور سنن نسائی کے حوالہ سے منقول ہے : عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والمؤمن من امنہ الناس علی دمائھم واموالھم۔

ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مؤمن وہ ہے جس سے سارے لوگ اپنی جان ومال سے متعلق بے خوف رہیں ۔


اسلامی قانون میں اس بات کی صراحت ہے کہ غیر مسلم سے بھی تکلیف کودور کرنا اور اس کی ایذاء رسانی سے احتراز کرنا ضروری ہے،در مختار میں ہے : ویجب کف الاذی عنہ وتحریم غیبتہ کالمسلم ۔ غیر مسلم کی تکلیف دور کرنا لازم اور اس کی غیبت کرنا حرام ہے جس طرح کسی مسلمان کو تکلیف دینا اور اس کی غیبت کرنا حرام ہے ۔ ( درمختار ’ج3ص272،چشتی)


رات دیر گئے نوجوانوں کا گروہوں کی شکل میں ٹوویلر اور فور ویلر پر سوار ہو کر راہرووں کو ایذاء پہنچانا،سواریوں، دفاتر ‘دکانوں اور لوگوں کی دیگر املاک پر سنگباری کرنا اور راستے مسدود کر کے سواریوں پر مختلف کرتب دکھانا،آتش بازی کے ذریعہ پرُامن فضامیں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنا‘اسلامی احکام و قوانین کے بھی متضاد اور مخالف ہے اور بتقاضۂ انسانیت بھی قابل مذمت ہے۔ خاص طور پر مقدس راتوں میں اس طرح کا عمل سخت ترین گناہ ہے۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے کے حقوق و آداب بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب تم کوبیٹھنا ہی ہوتو راستے کا حق دیا کرو! صحابہ کرام نے عرض کیا: راستہ کا حق کیا ہے؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تو آپ نے ارشاد فرمایا:نظر نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کو دور کرنا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم کرنااور برائی سے روکنا ۔ (صحیح البخاری کتاب المظالم،باب افنیۃ الدور والجلوس فیھا،حدیث نمبر2465-صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النھی عن الجلوس فی الطرقات حدیث نمبر 5685۔زجاجۃ المصابیح ج4ص 7،چشتی)

لہٰذاان مقدس راتوں میں ہر طرح کے غیر شرعی امور سے اجتناب کریں، عبادت و اطاعت کے ذریعہ رحمت و سعادت حاصل کرنے کی سعی کریں ۔

شب معراج‘ شب براء ت اور دیگر مقدس راتوںاور ایام میں زندگی کواللہ تعالی اوراس کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت اور ان کی رضا و خوشنودی میں گزاریں ۔


چودہ 14 رکعات نمازکی خصوصی فضیلت : شب براء ت میں کس طرح عبادت کی جائے اس سے متعلق امام بیہقی نے شعب الایمان میں حدیث پاک نقل کی ہے : عن ابراہیم ، قال ، قال علی ، رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ النصف من شعبان قام فصلی أربع عشرۃ رکعۃ ۔ثم جلس بعد الفراغ، فقرأبأم القرآن أربع عشرۃ مرۃ ، وقل ہو اللہ أحد أربع عشرۃ مرۃ وقل أعوذبرب الفلق أربع عشرۃ مرۃ وقل أعوذبرب الناس أربع عشرۃ مرۃ ،وآیۃ الکرسی مرۃ و’’لقد جاء کم رسول من انفسکم ، الآیۃ ‘‘، فلمافرغ من صلاتہ سألتہ عما رایت من صنیعہ قال : (من صنع مثل الذی رایت کان لہ کعشرین حجۃ مبرورۃ ،وصیام عشرین سنۃ مقبولۃ ، فان اصبح فی ذلک الیوم صائماکان لہ کصیام سنتین سنۃ ماضیۃ ، وسنۃ مستقبلۃ ۔

ترجمہ : حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کی پندرھویں رات قیام فرما دیکھا او رآپ نے چودہ 14 رکعت نماز ادا فرمائی ۔ پھر بعد فراغت نماز آپ تشریف فرما ہوئے اور چودہ مرتبہ سورۃ الفاتحہ ، چودہ مرتبہ سورۃ الاخلاص ، چودہ مرتبہ سورۃ الفلق ،چودہ مرتبہ سورۃ الناس اور ایک مرتبہ آیۃ الکرسی او ر(سورہ توبہ کی آیت128) لقد جاء کم رسول من انفسکم تلاوت فرمائی۔جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا سے فارغ ہوئے تو میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے اس مبارک عمل سے متعلق دریافت کیا جس کو میںنے دیکھا تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی شخص اس طرح عمل کرے گا جس طرح تم نے دیکھا ہے تو اس شخص کیلئے بیس 20 مقبول حج اوربیس 20 سال کے مقبول روزوں کا ثواب ہے۔اگر وہ اس دن (پندرھویں تاریخ کو)روزہ رکھے گا تو اس کیلئے دو سال ،ایک گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا ۔ ( شعب الایمان للبیھقی ،کتاب الصوم حدیث نمبر:3683، الدرالمنثور سورۃ الدخان۔جامع الاحادیث ، مسند العشرۃ،حدیث نمبر:33372،چشتی)


گوکہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے تاہم فضیلت عمل کے باب میں ضعیف اور متکلم فیہ روایت کو بھی قبولیت حاصل ہے‘ جس طرح ماہ رمضان کی فضیلت کے بارے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت مروی ہے ،جس کو امام بیہقی نے شعب الایمان(حدیث نمبر:3455) میں نقل کیا ہے، اُس حدیث کو دیگر مکاتب فکر کے علماء بھی بیان کرتے ہیں ‘حالانکہ اس کی سند میں بھی کلام ہے ، علامہ بدرالدین عینی ودیگر شارحین حدیث نے تو فضائل رمضان سے متعلق حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت کو ’’منکر‘‘ کہا ہے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف کی عظیم شرح’’عمدۃ القاری ‘‘میں علامہ عینی لکھتے ہیں : ولا یصح إسنادہ وفی سندہ إیاس قال شیخنا الظاہر أنہ ابن أبی إیاس قال صاحب (المیزان) إیاس بن أبی إیاس عن سعید بن المسیب لا یعرف والخبر منکر . اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے اور اس سند میں’’ایاس‘‘ ہیں،ہمارے شیخ نے کہا:ظاہر بات ہے کہ اس سند میں’’ابن ابی ایاس‘‘ ہیں، صاحب المیزان نے کہاکہ’’ ایاس ابن ابی ایاس‘‘کا حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا معروف نہیں!لہذا یہ روایت منکر ہے ۔ (عمدۃ القاری ، باب ھل یقال رمضان او شھر رمضان ومن رای کلہ واسعا،حدیث نمبر:9981،چشتی)

فضائل رمضان والی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت منکر ہونے کے باوجوددیگر مکاتب فکرکے علماء بھی عملی طور پر اُسے قبول کرتے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں تو پھر شب براء ت میں چودہ رکعت نماز والی اس روایت کو قبول کرنے میں کیا امر مانع ہے ‘ اگر عمل نہ بھی کریں تو کم ازکم اتنا تو کریں کہ جو عمل کر رہے ہیں ان پر ردوانکار نہ کریں ۔


شب براء ت کی مسنون دعائیں : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: شب براء ت میں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا : اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَاَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ لا اُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ ۔

ترجمہ : ائے اللہ! میں تیری سزا سے تیرے عفو کی پناہ چاہتا ہوں‘ تیرے غضب سے تیری رضا کی پناہ میں آتاہوں اورتجھ سے تیری ہی پناہ میں آتاہوں‘ تیری ذات بزرگی والی ہے اے اللہ! میں تیری مکمل تعریف کا احاطہ نہیں کرسکتا‘ تو ویسا ہی ہے جس طرح تو نے خود اپنی کی تعریف وثناء کی ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : یا عائشۃ تعلمتھن فقلت نعم فقال تعلمیھن و علمیھن ۔اے عائشہ !کیا تم نے ان (کلمات) کویادکرلیاہے؟ (حضرت عائشہ فرماتی ہیں:) میں نے عرض کیا: ہاں! تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے یاد رکھو اور دوسروں کو سکھاؤ ۔ (شعب الایمان للبیھقی‘ حدیث نمبر:3678،چشتی)


رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں محبوبیت کے اعلی مقام پر متمکن ہیں وہیں بارگاہ ایزدی میں عبدیت ونیازمندی کے بھی اعلی مدارج پر فائز ہیں‘ چنانچہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بارگاہ الہی میں نیازمندیوں کا نذرانہ پیش کرنے کی تعلیم دی اوریہ کلمات ادا کئے ‘جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پندرھویں شعبان کی رات یہ دعا فرمائی : سَجَدَ لَکَ خَیَالِیْ وَ سَوَادِیْ وَ آمَنَ بِکَ فُؤادِیْ فَھٰذِہِ یَدِیْ وَمَا جَنَیْتُ بِھَا عَلٰی نَفْسِیْ، یَا عَظِیْمُ یُرْجٰی لِکُلِّ عَظِیْم، اِغْفِرِ الذَّنْبَ العَظِیْمَ، سَجَدَ وَجْھِیْ لِلَّذِیْ خَلَقَہُ وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہُ ۔ ترجمہ : تجھ کو میرے باطن و ظاہر نے سجدہ کیا اور میرا دل تجھ پر ایمان رکھتا ہے تو یہ میرا ہاتھ ہے اور جو کچھ میں نے اس سے اعمال کئے ہیں‘ اے بزرگ و برتر جس کی ہر بڑے مقصد کےلیے امید کی جاتی ہے (میری امت کے) بڑے گناہ کو معاف فرمادے‘ میرے چہرہ نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کو پیدا کیااور اس میں کان اور آنکھ بنائے ۔ (شعب الایمان للبیھقی‘ حدیث نمبر :3680) ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔