حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : امام اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 96 ہجری کو 16 سال کی عمر میں والد گرامی (حضرت ثابت رضی اللہ عنہ) کے ساتھ حج کیا ، اس دوران میں نے ایک شیخ کو دیکھا جن کے ارد گرد لو گ جمع تھے ، میں نے والدِ محترم سے عرض کی : یہ ہستی کون ہے ؟ انہوں نے بتایا : یہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ ہیں ۔ میں نے عرض کی : ان کے پاس کون سی چیز ہے ؟ فرمایا : ان کے پاس نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سنی ہوئی احادیثِ مبارکہ ہیں ۔ یہ سُن کر آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور صحابی رسول سے براہِ راست ایک حدیث پاک سننے کا شرف حاصل کیا ۔ (اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ ، صفحہ 18)
اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری و باطنی حسن وجمال سے نوازا تھا ۔ آپ کا قَد دَرمیانہ اور چہرہ نہایت حسین تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ عمدہ لباس اور جوتے استعمال فرماتے ، کثرت سے خوشبو استعمال فرماتے اور یہی خوشبو آپ کی تشریف آوری کا پتہ دیتی ۔ آپ کی زبانِ مبارک سے ادا ہونے والے کلمات پھول کی پتیوں سے زیادہ نرم ہوتے اورلفظوں کی مٹھاس کانوں میں رَس گھول دیتی ، آپ کو کبھی غیبت کرتے نہیں سنا گیا ۔
ایک مرتبہ حضرت ابن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے حَضْرت سُفْیان ثوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ سے آپ کے اِس وصف کا تذکرہ یوں کیا : امامِ اعظم ابُوحنیفہ رضی اللہ عنہ غیبت سے اتنے دُور رہتے ہیں کہ میں نے کبھی ان کو دُشْمن کی غیبت کرتے ہوئے بھی نہیں سُنا ۔ (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ صفحہ ننبر 42،چشتی)
آپ رضی اللہ عنہ رضائے الٰہی کو ہر شئی پر ترجیح دیتے ۔ (تہذیب الاسماء، 2/503، 506)(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ص42)
آپ رضی اللہ عنہ علما و مشائخ کی اعانت پر زرِّ کثیر خرچ فرماتے ۔ (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ صفحہ 42)
آپ رضی اللہ عنہ کے جلیل القدر شاگرد امام ابوىوسف رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : امام اعظم رضی اللہ عنہ 20 سال تک میری اور میرے اہل و عیال کى کفالت فرماتے رہے ۔ (الخیرات الحسان ، صفحہ 57،چشتی)
آپ کسى کو کچھ عطا فرماتے اور وہ اس پر آپ کا شکریہ ادا کرتا تو اس سے فرماتے : اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرو کیونکہ یہ رزق اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا ہے ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 57)
امامِ اعظم رضی اللہ عنہ زہد و تقویٰ کے جامع ، والدہ کے فرمانبردار ، امانت و دیانت میں یکتا ، پڑوسیوں سےحسنِ سلوک میں بے مثال تھے ، بے نظیر سخاوت اورمسلمانوں کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی جیسے کئی اوصاف نے آپ کی ذات کو نمایاں کر دیا تھا ۔ (اخبار الامام اعظم ابی حنیفہ صفحہ 41 تا 49 ، 63)(تبییض الصحیفۃ صفحہ 131)
آپ رضی اللہ عنہ کے حسنِ اخلاق سے متعلق حَضْرت بُکَیْر بن مَعْرُوْف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نےاُمَّتِ مصطفےٰ میں امام ابُو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ حُسْنِ اَخْلاق والا کسی کو نہیں دیکھا ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 56،چشت)
حضرت شفیق بلخی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہا تھا کہ ایک شخص آپ کو دیکھ کر چُھپ گیا اور دوسرا راستہ اختیار کیا۔ جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے اسے پُکارا ، وہ آیا تو پوچھا کہ تم نے راستہ کیوں بدل دیا ؟ اور کیوں چھپ گئے ؟ اس نے عرض کی : میں آپ کا مقروض ہوں ، میں نے آپ کو دس ہزار درہم دینے ہیں جس کو کافی عرصہ گزر چکا ہے اور میں تنگدست ہوں ، آپ سے شرماتا ہوں ۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میری وجہ سے تمہاری یہ حالت ہے ، جاؤ ! میں نے سارا قرض تمہیں معاف کر دیا ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 57)
عبادت و ریاضت امامِ اعظم رضی اللہ عنہ دن بھر علمِ دین کی اِشاعت ، ساری رات عبادت و رِیاضت میں بَسر فرماتے ۔ آپ نے مسلسل تیس سال روزے رکھے ، تیس سال تک ایک رَکعَت میں قراٰنِ پاک خَتْم کرتے رہے ، چالیس سال تک عِشا کے وُضُو سے فجر کی نَماز ادا کی ، ہر دن اور رات میں قراٰن پاک ختم فرماتے ، رمضان المبارک میں 62 قراٰن ختم فرماتے اور جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی اُس مقام پر آپ نے سات ہزاربار قراٰنِ پاک خَتْم کیے ۔(الخیرات الحسان صفحہ 50)
آپ نے 1500 درہم خرچ کرکے ایک قیمتی لباس سلوا رکھا تھا جسے آپ روزانہ رات کے وقت زیبِ تن فرماتے اور اس کی حکمت یہ ارشاد فرماتے : اللہ تعایٰ کےلیے زِینت اختیار کرنا ، لوگوں کےلیے زِینت اختیار کرنے سے بہتر ہے ۔ (تفسیرروح البیان ،3/154)
رات میں ادا کی جانے والی اِن نمازوں میں خوب اشک باری فرماتے ، اس گریہ و زاری کا اثر آپ رضی اللہ عنہ کے چہرۂ مبارکہ پر واضح نظر آتا ۔ (اخبارا بی حنیفۃ و اصحابہ صفحہ 47)(الخیرات الحسان صفحہ 54)
آپ نے حُصُولِ رزقِ حلَال کےلیے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا اور لوگوں سے بھلائی اور شَرعی اُصُولوں کی پاسداری کا عملی مظاہرہ کر کے قیامت تک کے تاجروں کےلیے ایک روشن مثال قائم فرمائی ۔ (تاریخ بغداد، 13/356)
علمِ فقہ کی تدوین ، ابوابِِ فقہ کی ترتیب اور دنیا بھر میں فقہ حنفی کی پذیرائی آپ کی امتیازی خصوصیات میں شامل ہے ۔ (الخیرات الحسان صحہ 43)
وصال ومدفن 150 ہجری کو عہدۂ قضا قبول نہ کرنے کی پاداش میں آپ رضی اللہ عنہ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا ۔ آپ کے جنازے میں تقریباً پچاس ہزار افراد نے شرکت کی ۔
لاکھوں شافعیوں کے امام حضرت سیّدنا امام شافِعی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے بغداد میں قیام کے دوران ایک معمول کا ذکر یوں فرمایا : میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے برکت حاصِل کرتا ہوں ، جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رَکعَت پڑھ کر ان کی قَبْرِمبارک کے پاس آتا ہوں اور اُس کے پاس اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں تو میری حاجت جلد پوری ہو جاتی ہے ۔ آج بھی بغداد شریف میں آپ کا مزارِ فائضُالاَنْوار مَرجَعِ خَلائِق ہے ۔(مناقب الامام الاعظم 2/216)(سیراعلام النبلاء، 6/537)(اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ صدحہ نمبر 94،چشتی)(الخیرات الحسان صفحہ 94)
اسلامی معاشرہ میں تصوف روز اول سے مو جود ہے اور ان شا ء اللہ رہتی دنیا تک پوری آب و تاب کے ساتھ مطلع حیات پر جگمگا تا رہے گا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ تصوف اسلام کی خالص ترین اور پاکیزہ ترین تعبیر ہے سچا تصوف انسان کو حقیقت کا راستہ دکھا تاہے اللہ ورسول کے راستے کا علم عطا کرتا ہے،صوفیا کا تعلق اسلام کے دور اول سے ہی ہے، اسی سلسلے میں سید الطا ئفہ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فرمان ہے کہ:’’ ہمارے طریقے کی بنیاد کتاب و سنت پر ہے اور ہر وہ طریق جو کتاب و سنت کے خلاف ہو باطل اور مردود ہے۔ ‘‘ آپ کا یہ بھی فرمان ہے’’جس شخص نے حد یث نہیں سنی اور فقہا کے پاس نہیں بیٹھا اور با ادب حضرا ت سے ادب نہیں سیکھا وہ اپنے پیروں کاروں کو بگاڑ دیگا۔ ‘‘ جب تک انسان علم سے آشنا نہیں ہو گا تواللہ و رسول کے احکام کی پیر وی کیسے کرے گا اور اسلامی زندگی کے آداب کو کیسے جا نے گا اسی لئے رب تبا رک وتعالیٰ کا فر مان عالیشان ہے۔ فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ ا لذِّ کْرِاِ نْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوُنَ(القرآن،سورہ نحل ۱۶، آیت۴۳) تر جمہ: تو اے لو گو! علم والوں سے پوچھو اگر تمھیں علم نہیں ۔ (کنزالا یمان) علم ہی کی بنیاد پرانسان اللہ و رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اسکی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے اور دین اسلا م میں اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہے، حلال و حرام میں امتیاز برت سکتا ہے۔ اسی لئے قر آن کریم بھی بتا رہا ہیقُلْ ھَلْ یَسْتَوِی ا لَّذِ یْنَ یَعْلَمُوْ نَ وَ الَّذِ یْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ (القرآن،سورہ زمر۳۹،آیت۹)تر جمہ: تم فر ما ؤ کیا برابر ہیں جاننے والے(یعنی علم والے) اور انجان(یعنی ان پڑھ)۔ (کنزالایمان) جا ننے والا اور نہ جاننے والا دونوں برابر نہیں ہو سکتے اللہ جسے چا ہتا ہے اپنے فضل سے نواز تا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَا للّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَا للّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (القرآن،سورہ بقر۲، آیت۱۰۵)تر جمہ: اور اللہ اپنی ر حمت سے خاص کرتا ہے جسے چاہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (کنزالایمان)اللہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نواز تا ہے ہر زمانہ ہر دور میں اللہ اپنے نیک بندوں کو علم وفضل کی د ولت سے نواز کر لوگوں کی ہدایت کے لیے چن لیتا ہے انھیں نیک بندوں میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں (ابوحنیفہ : رحمتہ اللہ علیہ:۶۹۹۔ ۷۶۷ء۔ ۸۰۔ ۱۵۰ھ) آپ سنی حنفی فقہ اسلامی کے بانی تھے آپ ایک تابعی، عالم دین تھے، مجتہد اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کر نے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔
امام اعظم کے مناقب وبشارت:امام ا عظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کے فضا ئل ومناقب میں بڑے بڑے بزر گوں نے کتا بیں لکھیں ہیں مشہور مفسر قرآن( جنکی تفسیر تمام مکاتب فکر کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے) تفسیر جلالین شریف کے مصنف علامہ جلال الد ین سیوطی (۸۴۹۔ ۹۱۱ھ)(تبیض الصحیفۃ فی منا قب الا مام ابی حنیفہ،چشتی) میں بہت خوب صورت باتیں لکھی ہیں جوپڑ ھنے سے تعلق رکھتی ہیں اہل علم ضرور پڑھیں ،آپ کانام نعمان بن ثابت زوتا اور کنیت ابو حنیفہ تھی۔ آپ امام اعظم کے لقب سے یاد کئے جا تے ہیں آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مر تبے پر فائز ہیں ۔ اسلامی فقہ میں امام اعظم ابوحنیفہ کا پایا بہت بلند ہے، آپ نہایت ذہین، ا نتہائی قوی حافظہ (memory) کے ما لک تھے آپ کا زہدو تقویٰ، فہم وفراست اور حکمت ودانائی بہت مشہور تھی، امام اعظم ابو حنیفہ دن میں علم دین پھیلا تے اور رات میں اللہ کی عبادت کرتے انکی حیات مبارکہ کے لا تعداد گوشے ہیں ، ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں تو دوسری طرف زہدو تقویٰ وطہارت کے پہاڑ ہیں آپ اکثر خوش لباس رہتے، گفتگو نہایت شیریں فر ماتے او ر فصاحت تو آپ کی گھٹی میں تھی بے شما ر فضائل و منا قب ہیں چھوٹے سے مقالہ میں لکھنا ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ چار امام (۱) امام اعظم ابو حنیفہ(۲) امام مالک(۳) امام شافعی(۴) امام احمد بن حنبل۔ دین اسلام کے سنگ میل ہیں ، اسلام کے ستون ہیں اور اہلسنت و جماعت کے علماء میں سے ہیں ، ان کے فضائل ومناقب بہت مشہور ہیں کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں ، ہر مذ ہب کے علماء نے اپنے اپنے امام کا تذکرہ کیا ہے، ان کی تعریفوں میں مبالغہ کیا ہے اور اپنی عقیدت کے مطابق ان کے منا قب بیان کئے ہیں ،بہت سی کتا بوں میں امام اعظم کے مناقب مو جود ہیں ۔ حضرت امام اعظم کا گزر بسر ان کی اپنی کمائی اور رزق حلال سے تھی علماء مشائخ پر بہت خر چ فرماتے تھے علم سیکھنے سکھا نے کا بہت زیا دہ ذوق تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آپ کے اسا تذہ کی تعداد چار ہزار سے زیادہ تھی،علم الادب، علم ا لا نساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد فقہ سے فیضیاب ہوئے۔ آپ علم فقہ کے عالم ہیں۔ آپ کے شیوخ اسا تذہ کی تعداد چا ر ہزار بتائی جا تی ہے، جن سے وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہما کی شا گر دی کا شرف اور فخر بھی آپ کو حاصل ہے، امام اعظم ابو حنیفہ نے تقریباً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا، خود امام اعظم کا قول ہے کہ’’ میں نے کوفہ و بصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس سے میں نے علمی استفا دہ نہ کیا ہو‘‘۔ مشہورمجذوب ( خدا کی محبت میں غرق رہنے والا) صوفی بزرگ حضرت بہلول دانا رضی اللہ عنہ بھی آپ کے استاد تھے امام اعظم ابو حنیفہ آپ کے پاس تعلیم حاصل کر نے جاتے رات را ت بھر ان کی خد مت میں رہکر تصوف کے راز جانتے اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ تصوف کے کس قدر اعلیٰ مقام پر فائز ہیں شاگر دوں کی تعداد لا کھوں میں ہے،آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلے کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں ازدھام ہو تا اور حاضرین میں اکثریت اس دور کے جید علما کرام کی ہوتی علامہ کرو ری نے آپ کے خاص شاگر دوں کی تعداد ایک ہزار فقہا، محد ثین، صوفیا ومشائخ شمار کیا ہے یہ ان لا کھوں انسانوں کے علاوہ تھے جو ان کے درس میں شامل ہوتے تھے آپ کے شاگر دوں میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المر تبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے تھے وہ آپ کے مشیر خاص تھے، ان میں چند کے نام یہ ہیں امام حماد بن ابی حنیفہ، امام زفر بن بذیل، امام عبداللہ بن مبارک، امام وکیع بن براح، امام داؤدبن یفر، امام ابو یوسف، اسکے علاوہ قر آن مجید کے بعد اہلسنت و الجما عت کی صحیح ترین کتاب صحیح بخا ری کے مولف حضرت امام محمد اسما عیل بخاری و بڑے بڑے محد ثین کرام آپ کے شاگر دوں کے شاگرد تھے، یہ آپ کے علم کا حال تھا۔آ پ تحفے تحائف اور عطیات قبول نہیں فر ماتے، جب اپنے گھر والوں کے لیے کوئی چیز خرید تے تو بزرگ علما کے لیے بھی خرید تے، علما کو بہت نواز تے، علما کے نواز نے کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے شافیعہ کے مقتدا شیخ شہاب الدین احمد بن حجر ہیتمی مکی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’قلا ئد العیقان فی منا قب النعمان‘‘ میں لکھتے ہیں ، مروی ہے کہ آپ نے اپنے بیٹے حماد کو ایک استاد کے پاس بھیجا، استاد نے انھیں پڑ ھایا’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘امام اعظم نے انھیں پانچ سو درہم بھجوائے، استاد نے کہا کہ یہ تو بہت زیادہ ہیں ( ابھی میں نے پڑھا یا ہی کیا ہے؟) امام اعظم ناراض ہو گئے اور اپنے بیٹے کو روک لیا اور فر مایا: تمہارے نزدیک قر آ ن پاک کی کچھ قدرو منز لت نہیں ہے( ایسے شخص سے اپنے بیٹے کو نہیں پڑھا سکتا)۔تصوف پر آپ کا عمل:آپ کا تصوف پر عمل کس قدر تھا اس واقعہ سے اندازہ لگائیں جامع الا صول میں ہے اور بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جب آپ نے حج کیا تو بیت اللہ شریف کے دربانوں کو نذرانہ پیش کیا اور انتہائی ادب سے بیت اللہ شریف کے اندر نماز پڑھنے کی اجا زت مانگی آپ کو اجازت مل گئی، چنانچہ آپ نے ایک پا ؤں پر کھڑے ہو کر آدھا قرآن پاک پڑ ھا اور باقی آدھا قرآن پاک دوسرے پا ؤں پر کھڑے ہو کر پڑھا، اور دعا کی’’اے میرے رب! میں نے تجھے پہچا نا جیسے کہ تیری معر فت کا حق ہے، لیکن تیری عبادت کا جو حق ہے وہ میں نہیں ادا کر سکا‘‘ یہ معر فت خدا کا کمال تھا کہ آپ نے اپنی عبا دت کو نا قص جا نا، بیت اللہ شریف کے ایک کونے سے آ واز آئی،’’ تم نے خوب معرفت حاصل کی اور اخلاص کے ساتھ عبادت کی، ہم نے تمھیں اور قیامت تک تمھا رے مذہب والوں کو بخش دیا‘‘(عقو دالجمان(حید رآبا د دکن) ص ۱۲۰ مصنف محمد یو سف صالحی،فقہ وتصوف، شاہ عبدالحق دہلوی رحمتہ اللہ ص۲۱۳،۲۱۲،چشتی)
عبادت میں کمال:آپ تصوف کے پیکر تھے آج کل کے نام نہاد صو فیا عبادات میں پابند نہیں اور طرح طرح کی تا ویلیں پیش کر تے ہیں کہ صو فیا کی عبادت فلاں فلاں جگہ ہوتی ہے سب عیاری ومکاری ہے،صو فیا ئے کرا م تو اللہ والے ہوتے ہیں شریعت مطہرہ کی پابندی میں اپنی عا فیت کی راہ کھوجتے ہیں ۔ آپ کے سوانح نگاروں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ نے عشاء کے وضو سے چالیس سال تک فجر کی نماز ادا کی، اور تیس سال تک (ایام ممنوعہ کے علاوہ) روزہ دار رہے، اکثر راتوں میں ایک رکعت میں قرآن پاک ختم کیا کر تے تھے، یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جس جگہ آپ کی وفات ہوئی وہاں آپ نے سات ہزار مر تبہ قرآن پاک ختم کیا تھا، رمضان المبا رک کے ہر دن اور رات میں ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے، عید کے دن دو مر تبہ ختم قر آن فر ماتے، ہر سال حج کیا کرتے، اس طرح آپ نے ۵۵ حج کئے۔
مو من کی پہچان صبرو حلم: امام اعظم انتہائی درجے کے صابر اور حلیم تھے، لوگوں کی ایذا رسانی پر صبر وحلم کا مظاہرہ فرماتے۔ یزید بن ہا رون کہتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ صبر کر نے والا کوئی نہ دیکھا، جب آپ کو اطلاع ملتی کی فلاں شخص نے آپ کی برائی بیان کی ہے تو آپ اسے نر می سے پیغام بھیجتے کہ بھائی اللہ تعالیٰ تمھاری مغفرت فر مائے، میں نے تجھے اللہ کے سپرد کیا، وہ جانتا ہے کہ تم نے غلط بات کی۔ آج کے صو فیا کے لئے آپ کا کر دار مشعل راہ ہے آج تو زرہ زرہ سی بات پر اپنے مخا لفوں کے لیے بدعا کر نے کا رجحان عام ہو گیا ہے جو کی انتہائی فکر اور شرم کی بات ہے۔امانت ودیانت میں آ پ کا مقام: آپ بہت اما نت دار تھے امانت کو ہر بات میں تر جیح دیتے تھے اگر اللہ کی را ہ میں ان پر تلواریں لہر ائی جائیں تو انھیں بر داشت کر لیتے، کہتے ہیں ان کے زمانے میں ایک بکری چوری ہو گئی، امام اعظم نے پو چھا کہ بکری کی عمر عام طور پر کتنی ہو تی ہے؟ بتایا گیا چار سال تک بکری کا گوشت نہیں کھایا( مبادا اس میں چوری کا گوشت نہ کھا جا ؤں۔
اما م اعظم کی صفات: معانی ابن عمران موصلی سے منقول ہے کہ امام ابو حنیفہ میں دس صفات تھیں ، جس شخص میں ان میں سے ایک صفت بھی ہو گی وہ اپنے قبیلے کا سردار اور اپنی قوم کا سردار ہو گا،۱) پر ہیز گاری، ۲) سچائی، ۳ ) فقاہت، ۴ )لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، ۵) سچی مروت، ۶ )کچھ سنا اس کیطرف متوجہ ہو نا، ۷ ) طویل خا موشی، ۸ ) پریشان لو گوں کی مدد کر نا چاہے وہ دوست ہو یا دشمن، ۹ )صحیح بات کہنا، ۱۰) سخاوت۔ ابراھیم بن سعیدی جو ہری سے مر وی ہے کہ میں ایک دن امیر المو منین ہا رون رشید کے پاس تھا ان کے پاس امام ابو یوسف تشریف لائے، امیرا لمومنین نے کہا، یو سف! مجھے امام ابو حنیفہ کے اخلاق کے بارے میں بتائیں ، اما م ابو یوسف نے فر مایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فر ماتا ہے:مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِ لَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌَ۔ (القرآن،سورہ ق ۵۰، آیت۱۸)تر جمہ: کو ئی بات زبان سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک محافظ تیار ہوتاہے،۔ اور یہ ہربات کر نے والے کے پاس ہو تا ہے، امام اعظم ابو حنیفہ کے بارے میں میرا علم یہ ہے کہ* وہ اللہ تعالیٰ کے حرام کئے ہوئے کا موں سے شدت کے ساتھ منع کر نے والے تھے* اللہ تعالیٰ کے دین کی جو بات ان کے علم میں نہ ہوتی اسے کہنے سے سخت پر ہیز کرتے تھے* وہ اس بات کو محبوب رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور نا فر مانی نہ کی جائے* وہ دنیا کے معاملے میں دنیا سے دور دور الگ تھلگ رہتے تھے* دنیا کی کسی چیز میں دلچسپی نہیں لیتے تھے چاہے وہ قیمتی ہو یا معمولی* ان کی خا موشی طویل ہوتی تھی ہر وقت غور و فکر میں مصروف رہتے تھے* ان کا علم بہت وسیع تھافالتو لغو گفتگو با لکل نہیں کرتے تھے ان سے کوئی علمی مسئلہ پو چھا جاتا تو اگر انھیں اس مسئلے کا علم ہوتا تو اس پر گفتگو فر ماتے اور جو کچھ سنا ہو بیان کردیتے ورنہ خاموش رہتے* وہ اپنی جان اور دین کی حفاطت کرتے تھے* علم اور مال کثرت سے خرچہ کرتے تھے* اپنی ذات اور اپنی دولت کی بنیاد پر سب لو گوں سے بے نیاز رہتے تھے* لا لچ کی طرف میلان نہیں رکھتے تھے* غیبت سے یکسر دور تھے اور کسی کا ذکر سوائے بھلائی کے نہیں کرتے تھے۔ ہارون رشید نے کہا کہ صالحین(اولیائے کرام) کے اخلاق ہیں پھر منشی کو کہا یہ صفات تحریر کرکے میرے بیٹے کو پہنچا دو کہ وہ ان کا مطالعہ کرے،پھر اپنے بیٹے کو کہا ان اوصاف کو یاد کر لو، میں تم سے سنوں گا۔
امام اعظم کے بیان کردہ مسائل پانچ لاکھ: بیان کیا گیا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ کے بیان کردہ مسائل کی تعداد پانچ لاکھ ہے ان کے شا گردوں کی تصانیف سے اس کی تا ئید ہوتی ہے، سب سے پہلے آ پ نے کتا ب الفرائض کی بنیادرکھی،احکام استنباط کیا، اجتہاد کے فوائد اور فقہ کے اصول وضع کئے، یہ سب ان سے منقول اور مروی ہے پھر ان کے شاگردوں نے ان اصول کی تحریر اور شرح کا کام اس حد تک پہنچا دیا کہ اس پر اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔
امام اعظم کی وفات:حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ ابن ہبیرہ نے امام اعظم کو کوفہ کا قا ضی بنا نا چاہا تو آپ نے انکا ر کر دیا اور فر مایا: اللہ کی قسم اگر مجھے قتل بھی کردے تو میں یہ منصب قبول نہیں کروں گا، آپ کو کہا گیا کہ وہ محل تعمیر کر نا چاہتا ہے،آپ اینٹوں کی گنتی قبول کر لیں ، امام اعظم نے فر مایا: کہ اگر وہ مجھے کہے کہ میں اسکے لئے مسجد کے دروازے ہی گن دوں تو میں نہیں گنوں گا، (دیکھئے ذیل الجواہر المضیہ، ج۲،ص۵۰۵، ) امام علامہ محمد بن یو سف صا لحی رحمتہ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ خلیفہ ابو جعفر منصور نے امام اعظم کو کو فہ سے بغداد بلایا ہی اسی لیے تھا کہ انھیں شہید کر دے، امام اعظم ابو حنیفہ لوگوں می بہت معزز تھے اور ان کی بات سنی جاتی تھی، ان کے پاس مال تجارت کی بھی فراوانی تھی، ابو جعفر کو سید ابراھیم کی طرف ان کے میلان سے خوف محسوس ہوا، چنانچہ اس نے بلا وجہ انھیں قتل کر نے کی جر اٗت تو نہ کر سکا، البتہ انھیں قاضی بننے کی پیش کش کی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ امام اعظم ابو حنیفہ یہ منصب قبول نہیں کریں گے،آپ نے انکار کیا تو آپ کو قید کردیا اور اس نے بہانے سے انھیں زہر دیکر شہید کر دیا،( عقو دالجمان ص۳۵۹،فقہ و تصوف ص۲۸۲،) اللہ تعا لیٰ ہم اور تمام مسلمانوں کو حق پر چلنے اور سچ پر قائم رہنے کی تو فیق عطا فر مائے آ مین ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment