Tuesday 8 March 2022

کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا

0 comments
کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىٕلَتْ ۔ بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ ۔ (سورہ تکویر آیت ۔ ٨ ، ٩)
ترجمہ : اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا ۔ کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا ؟

حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں  پوچھا گیا تو انہوں  نے نام لے کر فرمایا ایک صاحب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، میں  نے زمانۂ جاہلیّت میں  اپنی آٹھ بیٹیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا تھا (اب میرے لیے کیا حکم ہے) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : تم ہر بیٹی کی طرف سے ایک غلام آزاد کر دو ۔ اس شخص نے دوبارہ عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، (میرے پاس غلام نہیں ہیں البتہ) میں اونٹوں  کا مالک ہوں ۔ ارشاد فرمایا : اگر تم چاہو تو ہر بیٹی کے بدلے ایک اونٹ ہدیہ کر دو ۔ (معجم الکبیر باب القاف من اسمہ قیس قیس بن عاصم المنقری، ۱۸ / ۳۳۷، الحدیث: ۸۶۳،چشتی)

امام ابو اسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی علیہ الرحمہ المتوفی ٧٢٤ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ”مو ٶدۃ “ اس لڑکی کو کہتے ہیں جس کو زندہ قبر میں دبا دیا جاتا ہے ، عربوں کے ہاں جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی اور وہ اس کو زندہ رکھنا چاہتا تو وہ اس کو اون کا حسبہ پہنا کر جنگل میں بکریوں اور اونٹوں کو چرانے کےلیے چھوڑ دیتا اور اگر وہ اس کو قتل کرنا چاہتا تو اس کو چھوڑ دیتا حتیٰ کہ جب اس کا قد چھ بالشت کا ہوجاتا تو اس کا باپ اس کی ماں سے کہتا : اس کو خوب صورت کپڑے پہناٶ حتی ٰکہ اس کو اس کے رشتہ داروں سے ملانے کےلیے لے جاٶں اور اس نے صحرا میں ایک کنواں کھودا ہوا ہوتا تھا ، وہ اس لڑکی کو وہاں لے جا کر اس سے کہنا : اس کنویں میں جھانک کر دیکھو ، پھر اس کو پیچھے سے دھکا دے کر کنویں میں گرا دیتا اور اس کے اوپر مٹی ڈال کر اس کو زمین کی تہہ کے ساتھ ملا دیتا ۔ (الکشف والبیان ج ٠١ ص ٩٣١، داراحیاء التراث العربی بیروت، ٢٢٤١ ھ،چشتی)

زندہ درگور کرنے کا سبب اور اس لڑکی سے سوال کرنے کی توجیہ 
امام رازی علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ : عرب اپنی بیٹیوں کو اس لیے زندہ در گور کرتے تھے کہ ان کو بیٹی کا باپ کہلانے سے عار آتا تھا یا وہ تنگی رزق کے خطرے سے بیٹیوں کو قتل کر دیتے تھے ، وہ کہتے تھے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں تو وہ بیٹیوں کو بیٹیوں کے ساتھ ملا دیتے تھے ۔
ایک سوال یہ ہے کہ اس آیت میں فرمایا ہے کہ جس کو زندہ در گور کیا گیا ہے ، اس سے سوال کیا جائے گا ، بہ ظاہر یہ چاہیے تھا کہ قاتل سے سوال کیا جاتا کہ تم نے اس لڑکی کو کس گناہ کی وجہ سے زندہ درگور کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال اور جواب اس کے قاتل کی تذلیل کےلیے کیا جائے گا ، جیسے عیسائیوں کی تذلیل کےلیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا جائے گا : ائَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰـھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللہ ِط قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ ط ۔ (المائدہ : ٦١١)
ترجمہ : کیا آپ نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو ؟ عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے : اے اللہ ! تو پاک ہے ، میرے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ میں وہ بات کہتا جس کا مجھے حق نہیں ہے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ مقتولہ سے اس لیے سوال کیا جائے گا کہ وہ قاتل کے خلاف کیا دعویٰ کرتی ہے ۔ (تفسیر کبیر جلد ١١ صفحہ ٦٦ داراحیاء التراث العربی بیروت ٥١٤١ ھ،چشتی)

سلمہ بن زید الجعفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : (زمانہ ـ ٔ جاہلیت میں) زندہ درگور کرنے والا اور جس کو زندہ درگور کیا گیا ، دونوں دوزخ میں ہیں ماسوا اس کے کہ زندہ درگور کرنے والا اسلام کا زمانہ پالے اور پھر اللہ اس سے درگز فرمائے (زمانہ جاہلیت میں مرنے والی نابالغ لڑکی کا دوزخ میں ہونا محل اشکال ہے) ۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٨٧٤۔ رقم الحدیث : ٣٩٤٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

حضرت قیس بن حازم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا : یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں نے زمانہ جاہلیت میں اپنی آٹھ بیٹیوں کو زندہ درگور کیا تھا ، آپ نے فرمایا : ان میں سے ہر ایک کے بدلہ میں ایک غلام آزاد کرو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں اونٹوں والا ہوں ، آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو ان میں سے ہر ایک کے بدلہ میں ایک اونٹ کی قربانی دو ۔ ( مسند البزار رقم الحدیث : ٠٨٢٢١، المعجم الکبیر ج ٨١ ص ٧٣٣،چشتی)(مجمع الزواید ج ٧ ص ٤٣١)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : لِلہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ ؕیَہَبُ لِمَنْ یَّشَاءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَاءُ الذُّکُوۡرَ ۔ اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّ اِنَاثًا ۚ وَ یَجْعَلُ مَنۡ یَّشَاءُ عَقِیۡمًا ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ ۔
ترجَمہ : اللہ ہی کےلیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے ، جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اوربیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کر دے بیشک وہ علم و قدرت والا ہے ۔ (پ ۲۵ الشوریٰ ۴۹، ۵۰)

صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، وہ مالِک ہے اپنی نِعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کر ے جسے جو چاہے دے ۔ انبیاء علیہم السلام میں بھی یہ سب صورَتیں پائی جاتی ہیں ۔ حضرتِ سیِّدُنا لُوط عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام و حضرتِ سیِّدُنا شُعَیب عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام کے صرف بیٹیاں تھیں کوئی بیٹا نہ تھا اور حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے صرف فرزند تھے کوئی دُختر ہوئی ہی نہیں اور نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ تعالیٰ نے چار فرزند عطا فرمائے اور چار صاحِبزادیاں اور حضرت سیِّدُنا یحیٰ عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام اور حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام کے کوئی اولاد ہی نہیں ۔ (خزائن العرفان صفحہ ۷۷۷)

دورجاہلیّت کی نشانی حکایت : شادی کی پہلی رات میاں بیوی نے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے طے کیا کہ کوئی بھی آئے دروازہ نہیں کھولیں گے ۔ کچھ دیر کے بعد لڑکے کے والدین نے اس نیت سے دروازے کو دستک دی  کہ بچوں کو  دُعاؤں سے نوازیں گے ۔ لڑکے نے آواز پہچان لی ، ایک نظر بیوی کودیکھاپھر اپنے ارادے کو دُہراتے ہوئے دروازہ نہیں کھولا،اس کے والدین چلے گئے ۔ کچھ ہی دیر بعد لڑکی کے والدین نے اسی تمنّا کے ساتھ  دروازے پر دستک  دی ، لڑکی نے آواز پہچان لی مگر رُک گئی ، چند لمحوں میں اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اوراس نے آگےبڑھ کر دروازہ کھول دیا اور والدین کی دُعائیں لی ۔ لڑکے نے یہ منظر دیکھا لیکن خاموش رہا۔کچھ عرصےبعد ان کے یہاں بیٹی کی ولادت ہوئی ۔ لڑکا بہت خوش ہوا اوربیٹی کی پیدائش پر پُر تکلّف دعوت کا اہتمام کیا۔ بیوی نے اس قدر خوشی و اہتمام کا سبب پوچھا تو لڑکا بولا : گھر میں اس کی ولادت ہوئی ہے جو میرے لئے دروازہ کھولے گی ۔

اس فرضی حکایت میں  بیٹی  کی مَحبّت و اہمیت کو اُجاگَر کیا گیا ہے،بیٹیاں اللہ کی رحمت  اور غمخواری میں اپنی مثال آپ ہوتی ہیں،ان کی مُسکُراہٹ سے دُکھی دل کو قرار نصیب ہوتا ہے۔ مگر ہائے افسوس! اس پُر فِتن دور میں بیٹیوں کو قدر کی نگاہ سے  نہیں  دیکھا جاتابلکہ دورِجاہلیت کی یاد تازہ کرنے والے ہوش رُبا واقعات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں : ⬇

دو دن پہلے ایک ظالم درندے نے بیٹی پیدا ہونے پر اس ننھی سے گڑیا کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا أَسْتَغْفِرُ اللّٰه ۔

مَعَاذَاللہ زمانۂ جاہلیت کی یاد تازہ ہوگئی ، چھٹی بیٹی کی پیدائش پر ظالم شوہر بیوی کو اسپتال سے لاتے ہی تَشَدُّد کا نشانہ بنانے لگا ۔جُنون ٹھنڈا نہ ہوا تو اپنی ہی لختِ جگر کوپانی کے ٹَب (Tub) میں ڈُبو کر مار ڈالا ، احتجاج  پر بیوی کو بھی سوتے میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا ، مُلْزَم کو گرفتار کر لیا گیا ۔ (روزنامہ جنگ 6 نومبر 2013،چشتی)

کراچی کے ایک علاقے میں سفّاک باپ نے اپنی 10 ماہ کی بیٹی کو فَرْش پر پٹخ کر قتل کردیا اور فرار ہوگیا ۔ واقعے کے فوری بعد مُلْزَم کو گرفتار کر لیا گیا ۔ پولیس کے مطابق مُلْزَم اپنی اہلیہ سے روزانہ جھگڑا کرتا تھا اوراس پرتَشَدُّد بھی کرتا تھا ، اس کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا پیدا ہو اور بیٹا  پیدا نہ ہونے پرہی اس نے اپنی بیٹی کو قتل کیا ۔ (روزنامہ دنیا 5 جنوری 2014)

عقل کام نہیں کرتی  کہ کیا باپ بھی بیٹی کو ۔۔۔۔۔ قلم  لکھتے ہوئے بھی کانپ اٹھےمگر کس قدر سنگدل ہے وہ باپ جس کا ہاتھ کانپا  نہ ہو گا ۔

خدارا بیٹیوں کی قدر کیجئے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بیٹیوں کے بارے میں جو اِرشادات عطا فرمائے ہیں ، انہیں پڑھیے اور غورکیجئے : ⬇

بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو،بے شک وہ مَحبّت کرنے والیاں ہیں ۔ (مسند امام احمد جد 6 صفحہ 134 حدیث 17378)

جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ  اسے اِیذا نہ دے اور نہ ہی بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس شخص کو جنّت میں داخل فرمائے گا ۔(مستدرک للحاکم جلد 5 صفحہ 248 حدیث 7428،چشتی)

جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آپڑے اور وہ ان کے ساتھ حُسنِ سُلوک (یعنی اچھا برتاؤ) کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنَّم سے روک بن جائیں گی ۔(مسلم،ص1084،حدیث:6693)

جو بازار سے اپنے بچوں کےلیے کوئی نئی چیز لائے تو وہ ان (یعنی بچوں) پر صَدَقہ کرنے والے کی طرح ہے اور اسے چاہیے کہ بیٹیوں سے اِبتدا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ بیٹیوں پر رحم فرماتا ہے اور جو شخص اپنی بیٹیوں پر رحمت و شفقت کرے وہ خوفِ خدا میں رونے والے کی مثل ہے اور جو اپنی بیٹیوں کو خوش کرے اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اسے خوش کرے گا ۔(فردوس الاخبار جلد 2 صفحہ 263 حدیث 5830،چشتی)

جس نے اپنی تین بیٹیوں کی پرورش کی وہ جنَّت میں جائے گا اور اسے راہِ خدا عزوجل میں اُس جہاد کرنے والے کی مِثل اَجْر ملے گا جس نے دورانِ جہاد روزے رکھے اورنَماز قائم کی ۔ (الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۴۶ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور اُن کے ساتھ اچّھا سُلوک کرے تو داخِلِ جنَّت ہو گا ۔ (جامع ترمذی جلد ۳ صفحہ ۳۶۶ حدیث ۱۹۱۹دارالفکر بیروت،چشتی)

جو شخص تین بیٹیوں یا بہنوں کی اس طرح پرورش کرے کہ ان کوادب سکھائے اور ان پر مہربانی کا برتاؤ کرے یہاں تک کہ اللہ عزوجل انہیں بے نیاز کردے (یعنی وہ بالِغ ہوجائیں یا ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں) (اشعۃ اللمعات ج ۴ ،ص۱۳۲،چشتی) تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنَّت واجِب فرمادیتا ہے ۔ یہ ارشاد نبوی سُن کر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کی ، اگر کوئی شخص دو لڑکیوں کی پروَرِش کرے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ اس کےلیے بھی یِہی اَجر و ثواب ہے یہاں تک کہ اگر لوگ ایک کا ذِکر کرتے توآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے ۔ (شرح السنۃ للبغوی جلد ۶ صفحہ ۴۵۲ حدیث۳۳۵۱)

اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رِوایَت فرماتی ہیں، میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کر مانگنے کے لیے آئی (بعض مجبوریوں میں مانگنا جائز ہے یہ بی بی صاحِبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا انھیں مجبوریوں میں پھنسی ہوں گی اس لیے سوال درست تھا) (مراۃ المناجیح ج۲ ص ۵۴۵) تو ایک کھجور کے سوا اس نے میرے پاس کچھ نہیں پایا،وُہی ایک کھجور میں نے اس کو دے دی۔ تو اس نے اس ایک کھجور کو اپنی دو بیٹیوں کے درمیان تقسیم کر دیااور خود نہیں کھایا اوربیٹیوں کے ساتھ چلی گئی ۔ اِس کے بعد جب رسو ل اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے پاس تشریف لائے اور میں نے اس واقِعہ کا تذکِرہ حُضُور سے کیا ، تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ، جو شخص ان بیٹیوں کے ساتھ مُبتَلا کیا گیا اس نے ان بیٹیوں کے ساتھ اچّھاسُلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کےلیے آگ (جہنَّم) سے پردہ اور آڑ بن جائیں گی ۔ (صحیح مسلم صفحہ ۴۱۴ حدیث ۲۶۲۹ دارابن حزم بیروت)

یہ دینِ اسلام کا ہی عظیم کارنامہ ہے جس نے بیٹیوں کو اپنے لیے بدنامی کا باعث سمجھ کرزمین میں زندہ دفن کر دینے والے لوگوں کو اس انسانیّت کُش ظلم کا احساس دلا یا اوران لوگوں کی نظروں  میں بیٹی کی عزت اور وقار قائم کیا اور بیٹیوں کے فضائل بیان کر کے معاشرے میں  برسوں سے جاری اس دردناک عمل کا خاتمہ کر دیا ، اس سے معلوم ہوا کہ اسلا م عورتوں پر ظلم نہیں  کرتا بلکہ انہیں ہر طرح کے ظلم سے بچاتا ہے ، چاہے وہ ظلم ان کی ناحق زندگی ختم کر کے کیا جائے یا ان کی عزت و ناموس اور ان کے جسم کے ساتھ کھیل کر یا ان کے جسم کی نمائش کروا کر کیا جائے ۔ اس سے ان لوگوں  کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہیے جو عورت کے بارے دینِ اسلام کے اَحکامات کو اس کے اوپر ظلم قرار دیتے ہیں ، چادر و چار دیواری کو عورت کے حق میں نا انصافی کہتے ہیں اور روشن خیالی اور نام نہاد تہذیب و تَمَدُّن کے نام پر عورت کوشرم و حیا سے عاری کرنے میں اسلام کی شان سمجھتے ہیں ۔ صد کروڑ افسوس آج کل مسلمانوں کی ایک تعداد بیٹی کی پیدائش کو ناپسند کرنے لگی ہے ۔

کاش ! میری یہ فریاد ہر باپ تک پہنچ جائے کہ وہ بیٹی کی پیدائش کو بُرا نہ جانے، بیٹی  سے محبت کرے ، اُس پر شفقت کرے ، اُسے ایذا نہ دے ، (مَعَاذَاللہ) اُسے قتل نہ کرے ، بلکہ اُس کی قراٰن و سنّت کے مطابق بہترین تربیت کر کے آخرت میں ثواب کا مستحِق بنے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔