حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے لقب سے ظاہر ہے کہ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں ۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا پایہ بہت بلند ہے ۔ آپ نے فقہ کی تعلیم اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان سے حاصل کی ۔ آپ کے اساتذہ کا سب سے پہلا طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں آپ اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ آپ تابعی ہیں ۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علمِ حدیث حاصل کیا ۔ آپ کے علاوہ امام مالک سمیت ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ علیہم الرحمہ میں کوئی امام بھی تابعی نہیں آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی براہِ راست زیارت کی اور ان سے احادیث نبوی کا سماع کیا ۔
امام اعظم رضی اللہ عنہ نے علم حدیث کے حصول کےلیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا ۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا ۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم رضی اللہ عنہ خود بنے ۔
دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا ۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا ۔
ایک مرتبہ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہو گیا ۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا ۔ حضرت امام ابو عبد ﷲ رحمۃ ﷲ علیہ نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور اصحابِ شافعی سے فرمایا : پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب گنے گئے تو 80 تھے ۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایا : اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب انہوں نے شمار کیے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے ۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے ۔
حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے ۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں : ⬇
1۔ امام ابو یوسف رحمۃ ﷲ علیہ
2۔ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمۃ ﷲ علیہ
3۔ امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ
4۔ امام زفر بن ہذیل رحمۃ ﷲ علیہ
5۔ امام عبد ﷲ بن مبارک رحمۃ ﷲ علیہ
6۔ امام وکیع بن جراح رحمۃ ﷲ علیہ
7۔ امام داؤد بن نصیر رحمۃ ﷲ علیہ
قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح البخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم ﷲ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے ۔
آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے ۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی ۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا ۔ 40 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں ، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے ، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں ۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں ۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں : میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب ﷲ سے اخذ کرتا ہوں ، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں ، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی ، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں ۔
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ رضی اللہ عنہ ہی کے مسائل ، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے مذہب کا پیرو کار ہے ۔
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی تصانیف : ⬇
امام اعظم نے کلام وعقائد ،فقہ واصول اورآداب واخلاق پر کتابیں تصنیف فرماکر اس میدان میں اولیت حاصل کی ہے ۔ امام اعظم کے سلسلہ میں ہردور میں کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار رہے ہیں اورآج بھی یہ مرض بعض لوگوں میں موجود ہے ۔فقہ حنفی کو بالعموم حدیث سے تہی دامن اورقیاس ورائے پراسکی بنا سمجھی جاتی ہے جوسراسر خلاف واقع ہے۔اس حقیقت کو تفصیل سے جاننے کیلئے بڑے بڑے علماء فن کے رشحات قلم ملاحظہ کریں جن میں امام یوسف بن عبدالھادی حنبلی ،امام سیوطی شافعی ، امام ابن حجر مکی شافعی ،امام محمد صالحی شافعی وغیرہم جیسے اکابر نے اسی طرح کی پھیلائی گئی غلط فہمی کے ازالہ کیلئے کتابیں تصنیف فرمائیں ۔علم حدیث میں امام اعظم کو بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں جن میں کوئی دوسرامحدث شریک نہیں ۔
امام اعظم کی مرویات کے مجموعے چار قسم کے شمار کئے گئے ہیں جیسا کہ شیخ محمد امین نے وضاحت سے ’’مسانید الامام ابی حنیفہ ‘‘ میں لکھا ہے ۔
کتاب الآثار ۔مسند امام ابو حنیفہ ۔ اربعینات ۔وحدانیات ۔
متقدمین میں تصنیف وتالیف کا طریقہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے لائق وقابل فخر تلامذہ کو املا کراتے ،یاخود تلامذہ درس میں خاص چیزیں ضبط تحریر میں لے آتے ،اسکے بعد راوی کی حیثیت سے ان تمام معلومات کو جمع کرکے روایت کرتے اورشیخ کی طرف منسوب فرماتے تھے ۔
کتاب الآثار ۔ امام اعظم نے علم حدیث وآثار پر مشتمل کتاب الآثار ،یونہی تصنیف فرمائی ، آپ نے اپنے مقرر کردہ اصول وشرائط کے مطابق چالیس ہزار احادیث کے ذخیرہ سے اس مجموعہ کا انتخاب کرکے املا کرایا ۔قدرے تفصیل گذر چکی ہے ۔ کتاب میں مرفوع ،موقوف ، اورمقطوع سب طرح کی احادیث ہیں ۔ کتاب الآثار کے راوی آپکے متعددتلامذہ ہیں جنکی طرف منسوب ہوکر علیحدہ علیحدہ نام سے معروف ہیں اور مرویات کی تعداد میں بھی حذف واضافہ ہے ۔
عام طور سے چند نسخے مشہور ہیں: ۔
۱۔ کتاب الآثار بروایت امام ابویوسف ۔
۲۔ کتاب الآثار بروایت امام محمد ۔
۳۔ کتاب الآثار بروایت امام حماد بن امام اعظم ۔
۴۔ کتاب الآثار بروایت حفص بن غیاث ۔
۵۔ کتاب الآثار بروایت امام زفر (یہ سنن زفر کے نام سے بھی معروف ہوئی )
۶۔ کتاب الآثار بروایت امام حسن بن زیاد
ان میں بھی زیادہ شہرت امام محمد کے نسخہ کو حاصل ہوئی ۔
امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :۔
روی الآثار عن نبل ثقات ۔غزارالعلم مشیخۃ حصیفۃ۔
امام اعظم نے الآثار ،کوثقہ اورمعززلوگوں سے روایت کیا ہے جو وسیع العلم اورعمدہ مشائخ تھے ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ۔
والموجود من حدیث ابی حنیفۃ مفرداانما ھوکتاب الآثار التی رواہ محمد بن الحسن ۔
اور اس وقت امام اعظم کی احادیث میں سے کتاب الآثار موجود ہے جسے امام محمد بن حسن نے روایت کیا ہے ۔ اس میں مرفوع احادیث ۱۲۲ ہیں ۔
امام ابویوسف کا نسخہ زیادہ روایات پر مشتمل ہے ،امام عبدالقادر حنفی نے امام ابویوسف کے صاحبزادے یوسف کے ترجمہ میں لکھا ہے:۔
روی کتا ب الآثار عن ابی حنیفۃ وھو مجلد ضخم ۔
یوسف بن ابویوسف نے اپنے والد کے واسطہ سے امام اعظم ابو حنیفہ سے کتاب الآثار کو روایت کیا ہے جو ایک ضخیم جلد ہے ، اس میں ایک ہزار ستر (۱۰۷۰) احادیث ہیں ۔
مسند امام ابوحنیفہ : یہ کتاب امام اعظم کی طرف منسوب ہے ،اسکی حقیقت یہ ہے کہ آپ نے جن شیوخ سے احادیث کو روایت کیا ہے بعد میں محدثین نے ہرہر شیخ کی مرویات کو علیحدہ کرکے مسانید کو مرتب کیا ۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہاجاسکتاہے کہ آپ نے تدوین فقہ اوردرس کے وقت تلامذہ کو مسائل شرعیہ بیان فرماتے ہوئے جو دلائل بصورت روایت بیان فرمائے تھے ان روایات کو آپکے تلامذہ یابعد کے محدثین نے جمع کرکے مسند کانام دیدیا ۔ان مسانید اورمجموعوں کی تعداد حسب ذیل ہے ۔
۱۔ مسندالامام مرتب امام حماد بن ابی حنیفہ
۲۔ مسندالامام مرتب امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری
۳۔ مسندالامام مرتب امام محمد بن حسن الشیبانی
۴۔ مسندالامام مرتب امام حسن بن زیاد ثولوی
۵۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو محمد عبداللہ بن یعقوب الحارث البخاری
۶۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاہد
۷۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسین محمد بن مظہر بن موسی
۸۔ مسندالامام مرتب حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ الاصفہانی
۹۔ مسندالامام مرتب الشیخ الثقۃ ابوبکر محمد بن عبدالباخی الانصاری
۱۰۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی
۱۱۔ مسندالامام مرتب حافظ عمربن حسن الاشنانی
۱۲۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوبکر احمدبن محمد بن خالد الکلاعی
۱۳۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوعبداللہ حسین بن محمد بن خسروالبلخی
۱۴۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو القاسم عبداللہ بن محمد السعدی
۱۵۔ مسندالامام مرتب حافظ عبداللہ بن مخلد بن حفص البغدادی
۱۶۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسن علی بن عمربن احمد الدارقطنی
۱۷۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوحفص عمر بن احمد المعروف بابن شاہین
۱۸۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالخیر شمس الدین محمد بن عبدالرحمن السخاوی
۱۹۔ مسندالامام مرتب حافظ شیخ الحرمین عیسی المغربی المالکی
۲۰۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالفضل محمدبن طاہر القیسرانی
۲۱۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالعباس احمد الہمدانی المعروف بابن عقدہ
۲۲۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوبکر محمد بن ابراہیم الاصفہانی المعروف بابن المقری
۲۳۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو اسمعیل عبداللہ بن محمد الانصاری الحنفی
۲۴۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسن عمربن حسن الاشنانی
۲۵۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالقاسم علی بن حسن المعروف بابن عساکر الدمشقی ۔
ان علاوہ کچھ مسانید وہ بھی ہیں جنکو مندرجہ بالا مسانید میں سے کسی میں مدغم کردیاگیا
ہے ۔مثلا ابن عقدہ کی مسند میں ان چار حضرات کی مسانید کا تذکرہ ہے اور یہ ایک ہزار سے زیادہ احادیث پر مشتمل ہے۔
۱۔ حمزہ بن حبیب التیمی الکوفی
۲۔ محمد بن مسروق الکندی الکوفی
۳۔ اسمعیل بن حماد بن امام ابو حنیفہ
۴۔ حسین بن علی
پھر یہ کہ جامع مسانید امام اعظم جس کو علامہ ابو المؤید محمد بن محمود بن محمد الخوارزمی نے ابواب فقہ کی ترتیب پر مرتب کیا تھا اس میں کتاب الآثار کے نسخے بھی شامل ہیں اگر انکو علیحدہ شمار کیا جائے تو پھر اس عنوان سند کے تحت آنے والی مسانید کی تعداد اکتیس ہوگی جبکہ جامع المسانید میں صرف پندرہ مسانید ہیں اور انکی بھی تلخیص کی گئی ہے مکرراسناد کو حذف کردیاہے یہ مجموعہ چالیس ابواب پر مشتمل ہے اور کل روایات کی تعداد ۱۷۱۰ ہے ۔
مرفوع روایات ۹۱۶
غیر مرفوع ۷۹۴
پانچ یا چھ واسطوں والی روایات بہت کم اور نادر ہیں ،عام روایات کا تعلق رباعیات ، ثلاثیات ،ثنائیات اوروحدانیات سے ہے ۔
علامہ خوارزمی نے اس مجموعہ مسند کے لکھنے کی وجہ یوں بیان کی ہے ،کہ میں نے ملک شام میں بعض جاہلوں سے سنا کہ حضرت امام اعظم کی روایت حدیث کم تھی ۔ایک جاہل نے تو یہانتک کہاکہ امام شافعی کی مسند بھی ہے اورامام احمد کی مسند بھی ہے ،اورامام مالک نے تو خود مؤطالکھی ۔لیکن امام ابو حنیفہ کا کچھ بھی نہیں ۔
یہ سنکر میری حمیت دینی نے مجھکو مجبورکیا کہ میں آپکی ۱۵ مسانید وآثار سے ایک مسند مرتب کروں ،لہذا ابواب فقہیہ پر میں نے اسکو مرتب کرکے پیش کیاہے ۔(سوانح بے بہائے امام اعظم ابو حنیفہ ۳۴۸)
کتاب الآثار ،جامع المسانید اوردیگر مسانید کی تعداد کے اجمالی تعارف کے بعد یہ بات اب حیز خفا میں نہیں رہ جاتی کہ اما م اعظم کی محفوظ مرویات کتنی ہونگی ،امام مالک اورامام شافعی کی مرویات سے اگر زیادہ تسلیم نہیں کی جاسکیں توکم بھی نہیں ہیں ،بلکہ مجموعی تعداد کے غالب ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوناچاہیئے ۔
امام اعظم کی مسانید کی کثرت سے کوئی اس مغالطہ کا شکار نہ ہو کہ پھر اس میں رطب ویابس سب طرح کی روایات ہونگی ۔ہم نے عرض کیاکہ اول تو مرویات میں امام اعظم قدس سرہ اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان واسطے بہت کم ہوتے ہیں ۔اور جوواسطے مذکور ہوتے ہیں انکی حیثیت وعلوشان کا اندازہ اس سے کیجئے کہ :۔
امام عبدالوہاب شعرانی میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں ۔
وقد من اللہ علی بمطالعۃ مسانید الامام ابی حنیفۃ الثلاثۃ فرأیئہ لایروی حدیثا الاعن اخبار التابعین العدول الثقات الذین ھم من خیرالقرون بشہادۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کالاسود وعلقمۃ وعطاء وعکرمۃ ومجاہد ومکحول والحسن البصری واضرابھم رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔بینہ وبین رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عدول ثقات اعلام اخیار لیس فیہم کذاب ولامنہم بکذب ۔(میز ان الشریعۃ الکبری ۱/۶۸)
اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا کہ میں نے امام اعظم کی مسانید ثلاثہ کو مطالعہ کیا۔ میں نے ان میں دیکھا کہ امام اعظم ثقہ اور صادق تابعین کے سوا کسی سے روایت نہیں کرتے جن کے حق میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیرالقرون ہونے کی شہادت دی ،جیسے اسود ،علقمہ عطاء ،عکرمہ ، مجاہد ،مکحول اور حسن بصری وغیرہم ۔لہذا امام اعظم اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان تمام راوی عدول ، ثقہ اور مشہور اخیار میں سے ہیں جنکی طرف کذب کی نسبت بھی نہیں کی جاسکتی اور نہ وہ کذاب ہیں ۔
اربعینات : امام اعظم کی مرویات سے متعلق بعض حضرات نے اربعین بھی تحریر فرمائی ہیں مثلاً : ⬇
الاربعین من روایات نعمان سیدالمجتہدین ۔(مولانا محمد ادریس نگرامی)
الاربعین۔ (شیخ حسن محمد بن شاہ محمد ہندی)
وحدانیات :۔ امام اعظم کی وہ روایات جن میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک صرف ایک وسطہ ہو ان روایات کو بھی ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس سلسلہ میں بعض تفصیلات حسب ذیل ہیں :۔
۱۔ جزء مارواہ ابوحنیفۃ عن الصحابۃ۔
جامع ابومعشر عبدالکریم بن عبدالصمد شافعی ۔
امام سیوطی نے اس رسالہ کو تبییض الصحیفہ فی مناقب الامام ابی حنیفہ میں شامل کردیا ہے ، چنداحادیث قارئین ملاحظہ فرماچکے ۔
۲۔ الاختصار والترجیح للمذہب الصحیح۔
امام ابن جوزی کے پوتے یوسف نے اس کتاب میں بعض روایات نقل فرمائی ہیں ۔
دوسرے ائمہ نے بھی اس سلسلہ میں روایات جمع کی ہیں ۔مثلا:۔
۱۔ ابو حامد محمد بن ہارون حضرمی
۲۔ ابوبکر عبدالرحمن بن محمد سرخسی
۳۔ ابوالحسین علی بن احمد بن عیسی نہفقی
ان تینوں حضرات کے اجزاء وحدانیات کو ابو عبداللہ محمد دمشقی حنفی المعروف بابن طولون م ۹۵۳،نے اپنی سند سے کتاب الفہرست الاوسط میں روایت کیا ۔
نیز علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی سند سے المعجم المفہرس میں
علامہ خوارزمی نے جامع المسانید کے مقدمہ میں
ابوعبداللہ صیمری نے فضائل ابی حنیفہ واخبارہ میں روایت کیاہے ۔
البتہ بعض حضرات نے ان وحدانیات پر تنقید بھی کی ہے ،تواسکے لئے ملاعلی قاری ،امام عینی اورامام سیوطی کی تصریحات ملاحظہ کیجئے ،ان تمام حضرات نے حقیقت واضح کردی ہے ۔
امام اعظم کی فن حدیث میں عظمت وجلالت شان ان تمام تفصیلات سے ظاہر وباہر ہے لیکن بعض لوگوں کو اب بھی یہ شبہ ہے کہ جب اتنے عظیم محدث تھے تو روایات اب بھی اس حیثیت کی نہیں ،محدث اعظم واکبر ہونے کا تقاضہ تو یہ تھا کہ لاکھوں احادیث آ پ کو یاد ہونا چاہیئے تھیں جیساکہ دوسرے محدثین کے بارے میں منقول ہے ۔تو اس سلسلہ میں علامہ غلام رسول سعیدی کی محققانہ بحث ملاحظہ کریں جس سے حقیقت واضح ہوجا ئے گی ۔لکھتے ہیں :۔
چونکہ بعض اہل اہوایہ کہتے ہیں کہ امام اعظم کو صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں ۔اس لئے ہم ذرا تفصیل سے یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ امام اعظم کے پاس احادیث کا وافر ذخیرہ تھا۔ حضرت ملاعلی قاری امام محمد بن سماعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔
ان الامام ذکر فی تصانیفہ بضع وسبعین الف حدیث وانتخب الآثار من اربعین الف حدیث ۔
امام ابوحنیفہ نے اپنی تصانیف میں ستر ہزار سے زائد احادیث بیان کی ہیں اور چالیس ہزار احادیث سے کتاب الآثار کا انتخاب کیا ہے ۔
اور صدر الائمہ امام موفق بن احمد تحریر فرماتے ہیں :
وانتخب ابوحنیفۃ الاثار من اربعین الف حدیث ۔
امام ابو حنیفہ نے کتاب الاثار کا انتخاب چالیس ہزار حدیثوں سے کیا ہے ۔
ان حوالوں سے امام اعظم کا جو علم حدیث میں تبحر ظاہر ہورہاہے وہ محتاج بیاں نہیں ہے ۔
ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ سترہزار احادیث کو بیان کرنا اور کتاب الآثار کا چالیس ہزار حدیثوں سے انتخاب کرنا چنداں کمال کی بات نہیں ہے ۔ امام بخاری کو ایک لاکھ احادیث صحیحہ اور دولاکھ احادیث غیر صحیحہ یاد تھیں اور انہوں نے صحیح بخاری کا انتخاب چھ لاکھ حدیثوں سے کیا تھا پس فن حدیث میں امام بخاری کے مقابلہ میں امام اعظم کا مقام بہت کم معلوم ہوتا ہے ۔ اسکے جواب میں گزارش ہے کہ احادیث کی کثرت اور قلت درحقیقت طرق اور اسانید کی قلت اور کثرت سے عبارت ہے ۔ایک متن حدیث اگر سو مختلف طرق اور سندوں سے روایت کیا جائے تو محدثین کی اصطلاح میں ان کو سو احادیث قرار دیا جائے گاحالانکہ ان تما م حدیثو ں کا متن واحد ہوگا ۔منکرین حدیث انکار حدیث کے سلسلے میںیہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ تمام کتب حدیث کی روایات کو اگر جمع کیا جائے تو یہ تعداد کروڑوں کے لگ بھگ ہوگی اور حضور کی پور ی رسالت کی زند گی کی شب وروز پر انکو تقسیم کیاجائے تو احادیث حضور کی حیات مبارکہ سے بڑھ جا ئیں گی ۔پس اس صورت میں احادیث کی صحت کیونکر قابل تسلیم ہوگی ۔ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ روایا ت کی یہ کثرت دراصل اسانید کی کثرت ہے ورنہ نفس احادیث کی تعداد چار ہزارچارسو سے زیادہ نہیں ہے ۔
چنانچہ علامہ امیر یمانی لکھتے ہیں : ان جملۃ الاحادیث المسندۃ عن النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یعنی الصحیحۃ بلاتکرار اربعۃ الاف واربع مائۃ ۔
بلاشبہ وہ تمام مسند احادیث صحیحہ جو بلا تکرار حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مروی ہیں ان کی تعداد چار ہزار چار سو ہے ۔
امام اعظم رضی اللہ عنہ کی ولادت ۸۰ھ ہے اور امام بخاری ۱۹۴ھ میں پید اہوئے اور ان کے درمیان ایک سو چودہ سال کا طویل عرصہ ہے اور ظاہر ہے اس عرصہ میں بکثرت احادیث شائع ہو چکی تھیں اور ایک ایک حدیث کو سیکڑوں بلکہ ہزاروں اشخا ص نے روایت کرنا شروع کردیاتھا ۔امام اعظم کے زمانہ میں راویوں کا اتنا شیوع اور عموم تھا نہیں ، اس لئے امام اعظم اور امام بخاری کے درمیان جو روایت کی تعداد کا فرق ہے وہ در اصل اسانید کی تعداد کا فرق ہے ، نفس روایت نہیں ہے ورنہ اگر نفس احادیث کا لحاظ کیا جائے تو امام اعظم کی مرویات امام بخاری سے کہیں زیادہ ہیں ۔
اس زمانہ میں احادیث نبویہ جس قدر اسانید کے ساتھ مل سکتی تھیں امام اعظم نے ان تمام طرق واسانید کے ساتھ ان احادیث کو حاصل کرلیا تھا اورحدیث واثر کسی صحیح سند کے ساتھ موجود نہ تھے مگر امام اعظم کا علم ا نہیں شامل تھا ۔وہ اپنے زمانے کے تمام محدثین پر ادر اک حدیث میںفائق اور غالب تھے۔ چنانچہ امام اعظم کے معاصر اور مشہور محدث امام مسعر بن کدام فرماتے ہیں : ۔
طلبت مع ابی حنیفۃ الحدیث فغلبت واخذ نا فی الزہد فبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون۔
میں نے امام ابو حنیفہ کے ساتھ حدیث کی تحصیل کی لیکن وہ ہم سب پر غالب رہے اور زہد میں مشغول ہوئے تو وہ اس میں سب سے بڑھ کرتھے اور فقہ میں ان کا مقام تو تم جانتے ہی ہو ۔
نیزمحدث بشربن موسی اپنے استاد امام عبدالرحمن مقری سے روایت کرتے ہیں :۔
وکان اذاحدث عن ابی حنیفۃ قال حدثنا شاہنشاہ ۔
امام مقری جب امام ابوحنیفہ سے روایت کرتے تو کہتے کہ ہم سے شہنشاہ نے حدیث بیان کی۔
ان حوالوں سے ظاہر ہوگیا کہ امام اعظم اپنے معاصرین محدثین کے درمیان فن حدیث میں تمام پر فائق اور غالب تھے ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ان کی نگاہ سے اوجھل نہ تھی ،یہی وجہ ہے کہ ان کے تلامذہ انہیں حدیث میں حاکم اور شہنشاہ تسلیم کرتے تھے ۔اصطلاح حدیث میں حاکم اس شخص کو کہتے ہیں جو حضور کی تمام مرویات پر متناًوسنداً دسترس رکھتاہو ،مراتب محدثین میں یہ سب سے اونچا مرتبہ ہے اور امام اعظم اس منصب پر یقیناً فائز تھے۔ کیونکہ جو شخص حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی ناواقف ہو وہ حیات انسانی کے تمام شعبوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایات کے مطابق جامع دستور نہیں بناسکتا ۔
امام اعظم کے محدثانہ مقام پرا یک شبہ کاازالہ: ۔ گزشتہ سطور میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بلاتکراراحادیث مرویہ کی تعداد چارہزار چار سو ہے اور امام حسن بن زیادکے بیان کے مطابق امام اعظم نے جو احادیث بلاتکرار بیان فرمائی ہیں انکی تعداد چار ہزار ہے۔ پس امام اعظم کے بارے میں حاکمیت اور حدیث میں ہمہ دانی کا دعوی کیسے صھیح ہوگا ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ چار ہزار احادیث کے بیان کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ باقی چار سو حدیثوں کا امام اعظم کو علم بھی نہ ہو کیونکہ حسن بن زیاد کی حکایت میں بیان کی نفی ہے علم کی نہیں ۔‘
خیال رہے امام اعظم نے فقہی تصنیفات میں ان احادیث کا بیان کیا ہے جن سے مسائل مستنبط ہوتے ہیں اور جن کے ذریعہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے امت کیلئے عمل کا ایک راستہ متعین فرمایا ہے جنہیں عرف عام میں سنن سے تعبیر کیاجاتا ہے لیکن حدیث کا مفہوم سنت سے عام ہے کیونکہ احادیث کے مفہوم میں وہ روایات بھی شامل ہیں جن میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ، آپ کی قلبی واردات ،خصوصیات ، گذشتہ امتوں کے قصص اور مستقبل کی پیش گوئیاں موجود ہیں اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی احادیث سنت کے قبیل سے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ احکام ومسائل کیلئے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
پس امام اعظم نے جن چارہزار احادیث کو مسائل کے تحت بیان فرمایاہے وہ از قبیل سنن ہیں اور جن چارسو احادیث کو امام اعظم نے بیان نہیں فرمایا وہ ان روایات پر محمول ہیں
جواحکام سے متعلق نہیں ہیں لیکن یہاں بیان کی نفی ہے علم کی نہیں ۔‘
فن حدیث میں امام اعظم کا فیضان :۔امام اعظم علم حدیث میں جس عظیم مہارت کے حامل اور جلیل القدر مرتبہ پر فائز تھے اس کالازمی نتیجہ یہ تھا کہ تشنگان علم حدیث کا انبوہ کثیر آپ کے حلقہ ٔ درس میں سماع حدیث کیلئے حاضر ہوتا۔
حافظ ابن عبدالبر امام وکیع کے ترجمے میں لکھتے ہیں :۔
وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ کثیرا ،۔
وکیع بن جراح کو امام اعظم کی سب حدیثیں یادتھیں اور انہوں نے امام اعظم سے احادیث کا بہت زیادہ سماع کیا تھا ۔
امام مکی بن ابراہیم ،امام اعظم ابوحنیفہ کے شاگرد اورامام بخاری کے استاذ تھے اور امام بخاری نے اپنی صحیح میں بائیس ثلاثیات صرف امام مکی بن ابراہیم کی سند سے روایت کی ہیں ۔ امام صدر الائمہ موفق بن احمد مکی ان کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
ولزم اباحنیفۃ رحمہ اللہ وسمع منہ الحدیث ۔
انہوں نے اپنے اوپر سماع حدیث کیلئے ابوحنیفہ کے درس کو لازم کرلیا تھا ۔
اس سے معلوم ہو اکہ امام بخاری کو اپنی صحیح میں عالی سند کے ساتھ ثلاثیات درج کرنے کا جو شرف حاصل ہواہے وہ دراصل امام اعظم کے تلامذہ کا صدقہ ہے اور یہ صرف ایک مکی بن ابراہیم کی بات نہیں ہے ۔امام بخاری کی اسانید میں اکثر شیوخ حنفی ہیں ان حوالوں سے یہ آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیاکہ امام اعظم علم حدیث میں مرجع خلائق تھے ،ائمہ فن نے آپ سے حدیث کاسماع کیا اور جن شیوخ کے وجود سے صحاح ستہ کی عمارت قائم ہے ان میں سے اکثر حضرات آپ کے علم حدیث میں بالواسطہ یابلا واسطہ شاگرد ہیں ۔
فقیہ عصر شارح بخاری علیہ رحمۃ الباری تقلیل روایت کا موازنہ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
ہمیں یہ تسلیم ہے کہ جس شان کے محدث تھے اس کے لحاظ سے روایت کم ہے ۔مگر یہ ایساالزام ہے کہ امام بخاری جیسے محدث پر بھی عائد ہے ۔انہیں چھ لاکھ احادیث یاد تھیں جن میں ایک لاکھ صحیح یاد تھیں ۔مگر بخاری میں کتنی احادیث ہیں ۔غور کیجئے ایک لاکھ صحیح احادیث میں سے صرف ڈھائی ہزار سے کچھ زیادہ ہیں ۔کیا یہ تقلیل روایت نہیں ہے ؟ ۔
پھر محدثین کی کوشش صرف احادیث جمع کرنا اور پھیلانا تھا ۔مگر حضرت امام اعظم کا منصب ان سب سے بہت بلند اور بہت اہم اوربہت مشکل تھا ۔وہ امت مسلمہ کی آسانی کیلئے قرآن وحدیث واقوال صحابہ سے منقح مسائل اعتقادیہ وعملیہ کااستنباط اور انکو جمع کرنا تھا ۔مسائل کا استنباط کتنا مشکل ہے ۔اس میں مصروفیت اور پھر عوام وخواص کو ان کے حوادث پر احکام بتانے کی مشغولیت نے اتنا موقع نہ دیا کہ وہ اپنی شان کے لائق بکثرت روایت کرتے ۔
ایک وجہ قلت روایت کی یہ بھی ہے کہ آپ نے روایت حدیث کیلئے نہایت سخت اصول وضع کئے تھے ،اور استدلال واستنباط مسائل میں مزید احتیاط سے کام لیتے ،نتیجہ کے طور پر روایت کم فرمائی ۔
چند اصول یہ ہیں :۔
۱۔ سماعت سے لیکر روایت تک حدیث راوی کے ذہن میں محفوظ رہے ۔
۲۔ صحابہ وفقہاء تابعین کے سواکسی کی روایت بالمعنی مقبول نہیں ۔
۳۔ صحابہ سے ایک جماعت اتقیاء نے روایت کیاہو۔
۴۔ عمومی احکام میں وہ روایت چند صحابہ سے آئی ہو ۔
۵۔ اسلام کے کسی مسلم اصول کے مخالف نہ ہو ۔
۶۔ قرآن پر زیادت یاتخصیص کرنے والی خبرواحد غیر مقبول ہے ۔
۷۔ صراحت قرآن کے مخالف خبر واحد بھی غیر مقبول ہے ۔
۸۔ سنت مشہور ہ کے خلاف خبر واحد بھی غیر مقبول ہے ۔
۹۔ راوی کا عمل روایت کے خلاف ہو جب بھی غیر مقبول ۔
۱۰۔ ایک واقعہ کے دوراوی ہوں ،ایک کی طرف سے امر زائد منقول ہو اور دوسرا نفی بلادلیل کرے تو یہ نفی مقبول نہیں ۔
۱۱۔ حدیث میں حکم عام کے مقابل حدیث میں حکم خاص مقبول نہیں ۔
۱۲۔ صحابہ کی ایک جماعت کے عمل کے خلاف خبر واحد قولی یاعملی مقبول نہیں ۔
۱۳۔ کسی واقعہ کے مشاہدہ کے بارے میں متعارض روایات میں قریب سے مشاہدہ کرنے والے کی روایت مقبول ہوگی ۔
۱۴۔ قلت وسائط اور کثرت تفقہ کے اعتبار سے راویوں کی متعارض روایات میں کثرت تفقہ کو ترجیح ہوگی ۔
۱۵۔ حدودوکفارات میں خبر واحد غیر مقبول ۔
۱۶۔ جس حدیث میں بعض اسلاف پر طعن ہووہ بھی مقبول نہیں ۔
واضح رہے کہ احادیث کو محفوظ کرنا پہلی منزل ہے ،پھر انکو روایت کرنا اور اشاعت دوسرا درجہ ۔ اور آخری منزل ان احادیث سے مسائل اعتقادیہ وعملیہ کا استنباط ہے ۔اس منزل میں آکر غایت احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے ۔ امام اعظم نے کتنی روایات محفوظ کی تھیں آپ پڑھ چکے کہ اس وقت کی تمام مرویات آپ کے پیش نظر تھیں ۔پھر ان سب کو روایت نہ کرنے کی وجہ استنباط واستخراج مسائل میں مشغولی تھی جیساکہ گذرگیا ۔
اب آخری منزل جو خاص احتیاط کی تھی اسکے سبب تمام روایات صحائف میں ثبت نہ ہوسکیں کہ ان کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔جو معمول بہا تھیں ان کو املا کرایا اور انہیں سے تدوین فقہ میں کام لیا ۔
فقہ حنفی میں بظاہر جو تقلیل روایت نظر آتی ہے اس کی ایک وجہ اور بھی ہے ،وہ یہ کہ امام اعظم نے جو مسائل شرعیہ بیان فرمائے انکو لوگ ہرجگہ محض امام اعظم کا قول سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ۔بلکہ کثیر مقامات پر ایساہے کہ احادیث بصورت مسائل ذکر کی گئی ہیں ۔امام اعظم نے احادیث وآثار کو حسب موقع بصورت افتاء ومسائل نقل فرمایا ہے جس سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کہنے والے کا خود اپنا قول ہے حالانکہ وہ کسی روایت سے حاصل شدہ حکم ہوتاہے حتی کہ بعض اوقات بعینہ روایت کے الفاظ کے ساتھ ہوتاہے ۔
امام اعظم کا یہ طریقہ خود اپنا نہیں تھا بلکہ ان بعض اکابر صحابہ کا تھا جو روایت حدیث میں غایت احتیاط سے کام لیتے تھے ،وہ ہر جگہ صریح طور پر حضور کی طرف نسبت کرنے سے احتراز کرتے ۔حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی صراحۃً نسبت کرنے میں ان کی نظر حضور کے اس فرمان کی طرف رہتی تھی کہ:۔
من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔
جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ باندھا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنایا ۔
لہذا کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے شعوری یا غیر شعوری طور پر انتساب میں کوتاہی ہوجائے اور ہم اس وعید شدید کے سزاوار ٹھہریں ۔امیر المومنین حضرت عمر فارق اعظم اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس سلسلہ میں سر فہرست رہے ہیں جن کے واقعات آپ نے ابتداء مضمون میں ملاحظہ فرمائے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد حضرت عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ میں ہرجمعرات کی شام بلاناغہ حضرت ابن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوتا لیکن میں نے کبھی آپ کی زبان سے یہ الفاظ نہیں سنے کہ حضور نے یہ فرمایا۔
ایک شام ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ،کہتے ہیں ! یہ الفاظ کہتے ہی وہ جھک گئے میں نے ان کی طرف دیکھا تو کھڑے تھے ،ان کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے ،آنکھوں سے سیل اشک رواں تھا اور گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں ۔یہ آپ کی غایت احتیاط کا مظاہرہ تھا۔
اس وجہ سے آپ کے تلامذہ میں بھی یہ طریقہ رائج رہا کہ اکثر احادیث بصورت مسائل بیان فرماتے اور وقت ضرورت ہی حضور کی طرف نسبت کرتے تھے ،کوفہ میں مقیم محدثین وفقہاء بالواسطہ یابلاواسطہ آپ کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ آپ پڑھ چکے ،امام اعظم کا سلسلہ سند حدیث وفقہ بھی آپ تک پہونچتا ہے لہذا جواحتیاط پہلے سے چلی آرہی تھی اسکو امام اعظم نے بھی اپنایا ہے اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ امام ابوحنیفہ احادیث سے کم اور اپنی رائے سے زیادہ کام لیتے اور فتوی دیتے ہیں ۔
کلمات الثنا: ۔امام اعظم کی جلالت شان اورعلمی وعملی کمالات کو آپکے معاصرین واقران ۔
محدثین وفقہاء ،مشائخ وصوفیاء ،تلامذہ واساتذہ سب نے تسلیم کیا اوربیک زبان بے شمار حضرات نے آپکی برتری وفضیلت کا اعتراف کیا ہے ۔حدیث وفقہ دونوں میں آپکی علو شان کی گواہی دینے میں بڑے بڑوں نے بھی کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں کی ،چند حضرات کے تاثرات ملاحظہ کیجئے ۔
امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :۔
انکی مجلس میں بڑوں کو چھوٹا دیکھتا ،انکی مجلس میں اپنے آ پ کو جتنا کم رتبہ دیکھتا کسی کی مجلس میں نہ دیکھتا ،اگراسکا اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ یہ کہیںگے کہ میں افراط سے کام لے رہاہوں تومیں ابو حنیفہ پر کسی کو مقدم نہیں کرتا ۔
نیزفرمایا:۔
امام اعظم کی نسبت تم لوگ کیسے کہتے ہو کہ وہ حدیث نہیں جانتے تھے ، ابوحنیفہ کی رائے مت کہو حدیث کی تفسیر کہو ۔اگرابو حنیفہ تابعین کے زمانہ میں ہوتے توتابعین بھی انکے محتاج ہوتے ۔آپ علم حاصل کرنے میں بہت سخت تھے وہی کہتے تھے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ثابت ہے ،احادیث ناسخ ومنسوخ کے بہت ماہر تھے ۔آپ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں
میں سے ایک نشانی تھے ۔
اگراللہ تعالیٰ نے امام اعظم اورسفیان ثوری کے ذریعہ میری دستگیری نہ کی ہو تی تو میں عام آدمیوں میں سے ہوتا ۔میں نے ان میں دیکھا کہ ہردن شرافت اور خیر کا اضافہ ہوتا ۔
سفیان بن عیینہ نے کہا : ابوحنیفہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم ہیں ،میری آنکھوں نے ان کامثل نہیں دیکھا ۔
مکی بن ابراہیم استاذ امام بخاری فرماتے ہیں ۔امام ابوحنیفہ اپنے زمانے کے اعلم علماء تھے ۔
امام مالک سے امام شافعی نے متعدد محدثین کا حال پوچھا ،اخیر میں امام ابوحنیفہ کو دریافت کیا توفرمایا : سبحان اللہ !وہ عجیب ہستی کے مالک تھے ،میں نے انکا مثل نہیں دیکھا ۔
سعید بن عروبہ نے کہا : ہم نے جو متفرق طور پر مختلف مقامات سے حاصل کیا وہ سب آپ میں مجتمع تھا ۔
خلف بن ایوب نے کہا :اللہ عزوجل کی طرف سے علم حضور کو ملا ،اور حضور نے صحابہ کو ، صحابہ نے تابعین کو اورتابعین سے امام اعظم اور آپ کے اصحاب کو ،حق یہ ہی ہے خواہ اس پر کوئی راضی ہو یاناراض ۔
اسرائیل بن یونس نے کہا: اس زمانے میں لوگ جن جن چیزوں کے محتاج ہیں امام ابوحنیفہ ان سب کو سب سے زیادہ جانتے تھے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود کے پوتے حضرت قاسم فرماتے : امام ابوحنیفہ کی مجلس سے زیادہ فیض رساں اور کوئی مجلس نہیں ۔
حفص بن غیاث نے کہا : امام ابوحنیفہ جیسا ان احادیث کا عالم میں نے نہ دیکھا جواحکام میں صحیح اور مفید ہوں ۔
مسعربن کدام کہتے تھے :مجھے صرف دوآدمیوں پر رشک آتاہے ،ابو حنیفہ پر ان کی فقہ کی وجہ سے ،اور حسن بن صالح پر ان کے زہد کی وجہ سے ۔
ابوعلقمہ نے کہا: میں نے اپنے شیوخ سے سنی ہوئی حدیثوں کو امام ابوحنیفہ پر پیش کیا توانہوں نے ہرایک کا ضروری حال بیان کیا ،اب مجھے افسوس ہے کہ کل حدیثیں کیوں نہیں سنادیں ۔
امام ابویوسف فرماتے : میں نے ابوحنیفہ سے بڑھ کر حدیث کے معانی اور فقہی نکات جاننے والا کوئی شخص نہیں دیکھا ۔جس مسئلہ میں غوروخوض کرتا تو امام اعظم کا نظریہ اخروی نجات سے زیادہ قریب تھا ۔میں آپ کیلئے اپنے والد سے پہلے دعا مانگتا ہوں۔
ابوبکر بن عیاش کہتے ہیں :امام سفیان امام اعظم کیلئے کھڑے ہوتے تو میں نے تعظیم کی وجہ پوچھی ۔فرمایا: وہ علم میں ذی مرتبہ شخص ہیں ،اگر میں ان کے علم کے لئے نہ اٹھتا تو انکے سن وسال کی وجہ سے اٹھتا ،اگراس وجہ سے نہیں تو انکی فقہ کی وجہ سے اٹھتا ،اور اس کے لئے بھی نہیں تو تقوی کی وجہ سے اٹھتا ۔
امام شافعی فرماتے : تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے محتاج میں ،امام ابوحنیفہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو فقہ میں موافقت حق عطاکی گئی ۔
امام یحیی بن معین نے کہا : جب لوگ امام اعظم کے مرتبہ کو نہ پاسکے تو حسد کرنے لگے ۔
امام شعبہ نے وصال امام اعظم پر فرمایا : اہل کوفہ سے علم کے نور کی روشنی بجھ گئی ،اب اہل کوفہ ان کا مثل نہ دیکھ سکیں گے ۔
دائود طائی نے کہا : ہروہ علم جو امام ابوحنیفہ کے علم سے نہیں وہ اس علم والے کے لئے آفت ہے ۔
ابن جریج نے وصال امام اعظم پر فرمایا : کیسا عظیم علم ہاتھ چلاگیا ۔
یزید بن ہارون فرماتے ہیں : امام ابوحنیفہ متقی ،پرہیز گار ،زاہد ،عالم ،زبان کے سچے اور
اپنے زمانہ کے سب سے بڑے حافظ تھے ،میں نے انکے معاصرین پائے سب کویہ ہی کہتے سنا : ابو حنیفہ سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا ۔
فضیل بن عیاض نے فرمایا : ابو حنیفہ ایک فقیہ شخص تھے اور فقہ میں معروف ،انکی رات عبادت میں گذرتی ،بات کم کرتے ،ہاں جب مسئلہ حلال وحرام کا آتاتو حق بیان فرماتے ،صحیح حدیث ہوتی توا س کی پیروی کرتے خواہ صحابہ وتابعین سے ہو ورنہ قیاس کرتے اور اچھا قیاس کرتے ۔
ابن شبرمہ نے کہا: عورتیں عاجز ہوگئیں کہ نعمان کا مثل جنیں ۔
عبدالرزاق بن ہمام کہتے ہیں : ابوحنیفہ سے زیادہ علم والاکبھی کسی کو نہیں دیکھا ۔
امام زفر نے فرمایا : امام ابوحنیفہ جب تکلم فرماتے توہم یہ سمجھتے کہ فرشتہ ان کو تلقین کررہاہے ۔
علی بن ہاشم نے کہا: ابوحنیفہ علم کا خزانہ تھے ، جومسائل بڑوں پر مشکل ہوتے آپ پرآسان ہوتے ۔
امام ابودائود نے فرمایا: اللہ تعالیٰ رحم فرمائے مالک پر وہ امام تھے ،اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ابوحنیفہ پر وہ امام تھے ۔
یحیی بن سعید قطان نے کہا: امام ابوحنیفہ کی رائے سے بہتر کسی کی رائے نہیں ،
خارجہ بن مصعب نے کہا : فقہاء میں ابوحنیفہ مثل چکی کے پاٹ کے محور ہیں ،یاایک ماہر صراف کے مانند ہیں جوسونے کو پرکھتا ہے ۔
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں : میں نے حسن بن عمارہ کودیکھا کہ وہ امام ابوحنیفہ کی رکاب پکڑے ہوئے کہہ رہے تھے : قسم بخدا! میں نے فقہ میں تم سے اچھا بولنے والا صبرکرنے والااورتم سے بڑھکر حاضر جواب نہیں دیکھا ،بیشک تمہارے دور میں جس نے فقہ میں لب کشائی کی تم اسکے بلا قیل وقال آقاہو ۔جو لوگ آپ پر طعن کرتے ہیں وہ حسدکی بناپر کرتے ہیں ۔
ابومطیع نے بیان کیاکہ میں ایک دن کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھا ہواتھا کہ آپکے پاس مقاتل بن حیان ،حماد بن سلمہ ،امام جعفر صادق اوردوسرے علماء آئے اورانہوں نے امام ابوحنیفہ سے کہا : ہم کویہ بات پہونچی ہے کہ آپ دین میں کثرت سے قیاس کرتے ہیں ۔اسکی وجہ سے ہم کو آپکی عاقبت کا اندیشہ ہے ،کیونکہ ابتداء جس نے قیاس کیا ہے وہ ابلیس ہے ۔امام ابوحنیفہ نے ان حضرات سے بحث کی اور یہ بحث صبح سے زوال تک جاری رہی اوروہ دن جمعہ کا تھا۔
حضرت امام نے اپنا مذہب بیان کیا کہ اولاًکتاب اللہ پر عمل کرنا یوں پھر سنت پر ،اور پھر حضرات صحابہ کے فیصلوں پر ،اور جس پر ان حضرات کا اتفاق ہوتاہے اسکومقدم رکھتا ہوں اوراسکے بعد قیاس کرتا ہوں ۔یہ سنکر حضرات علماء کھڑ ے ہوئے اورانہوں نے حضرت امام کے سراور گھٹنوں کوبوسہ دیا اورکہا: آپ علماء کے سردارہیں اورہم نے جو کچھ برائیاں کی ہیں اپنی لاعلمی کی وجہ سے کی ہیں ۔آپ اسکو معاف کردیں ۔آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہماری اورآپ سب کی مغفرت فرمائے ۔آمین ۔
امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :میں امام اوزاعی سے ملنے ملک شام آیا اور بیروت میں ان سے ملا۔انہوں نے مجھ سے کہا اے خراسانی !یہ بدعتی کون ہے جوکوفہ میں نکلا ہے اور اسکی کنیت ابوحنیفہ ہے ،میں اپنی قیام گاہ پر آیا اورامام ابوحنیفہ کی کتابوں میں مصروف ہوا ،چندمسائل اخذکرکے پہونچا،میرے ہاتھ میں تحریردیکھ کر پوچھا کیاہے ،میں نے پیش کیا ،تحریر پڑھ کر بو لے ،یہ نعمان بن ثابت کون ہیں ؟میں نے کہا: ایک شیخ ہیں جن سے عراق میں میری ملاقات ہوئی ۔فرمایا: یہ مشائخ میں زیادہ دانشمند ہیں ۔ان سے علم میں اضافہ کرو ،میں نے ان سے کہا : یہ
ہی وہ ابوحنیفہ ہی جن سے آپ نے مجھے روکا تھا ۔
امام اعظم سے اسکے بعد مکہ مکرمہ میں ملاقات ہوئی ،مسائل میں گفتگوہوئی ،جب ان سے میری ملاقات دوبارہ ہوئی توامام اوزاعی فرماتے تھے ،اب مجھے انکے کثرت علم وعقلمندی پررشک ہوتاہے۔میں انکے متعلق کھلی غلطی پرتھا ،میں اللہ سے استغفار کرتاہوں ۔
مدینہ منورہ میں حضرت امام باقر سے ملاقات ہوئی ،ایک صاحب نے تعارف کرایا ، فرمایا: اچھاآپ وہی ہیں جو قیاس کرکے میرے جد کریم کی احادیث ردکرتے ہیں ۔عرض کیا : معاذاللہ ،کون ردکرسکتاہے ۔حضور اگراجازت دیں توکچھ عرض کروں ۔اجازت کے بعد عرض کیا: ۔
حضور مرد ضعیف ہے یا عورت ؟ارشاد فرمایا: عورت ۔
عرض کیا:۔
وراثت میں مرد کاحصہ زیادہ ہے یاعورت کا ؟
فرمایا:۔ مردکا۔
عرض کیا:۔
میں قیاس سے حکم کرتا توعورت کومرد کا دوناحصہ دینے کاحکم دیتا ۔
پھر عرض کیا: ۔
نماز افضل ہے یاروزہ ؟
فرمایا:۔ نماز ۔
عرض کیا :۔
قیاس یہ چاہتاہے کہ حائضہ پر نماز کی قضابدرجہٗ اولی ہونی چاہیئے ،اگر قیاس سے حکم کرتاتو یہ حکم دیتاکہ حائضہ نما زکی قضاکرے ۔
پھر عرض کیا:۔
منی کی ناپاکی شدید ترہے یاپیشاب کی ؟
فرمایا:۔ پیشاب کی ۔
عرض کیا:۔
قیاس کرتا توپیشاب کے بعد غسل کا حکم بدرجۂ اولی دیتا۔
اس پر امام باقر اتنا خوش ہوئے کہ اٹھکر پیشانی چوم لی ۔اسکے بعد ایک مدت تک حضرت امام باقر کی خدمت میں رہکر فقہ وحدیث کی تعلیم حاصل کی ۔
امام جعفر صادق نے فرمایا : یہ ابوحنیفہ ہیں اور اپنے شہر کے سب سے بڑے فقیہ ہیں ۔
یہ ائمہ وقت اوراساطین ملت توامام اعظم کے علم وفن اورفضل وکمال پرکھلے دل سے شہادت پیش کرتے ہیں اورآج کے کچھ نام نہاد مجتہدین وقت نہایت بے غیرتی کا ثبوت دیتے ہوئے کہتے پھرتے اور کتابوں میں لکھتے ہیں : امام ابوحنیفہ کا حشر عابدین میں تو ہو سکتا ہے لیکن علماء وائمہ میں نہیں ہوگا ۔ نعوذباللہ من ذلک ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment