Sunday, 6 March 2022

سجدہ کے احکام و مساٸل

 سجدہ کے احکام و مساٸل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : امام ہو یا عام نمازی سجدہ میں دونوں پاؤں کی دس انگلیوں میں سے کسی ایک انگلی کا پیٹ زمین پر لگنا فرض ہے اور ہر پاؤں کی تین تین انگلیوں کا پیٹ زمین پر لگنا واجب ہے اور دونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں کا پیٹ زمین پر لگنا اور ان کا قبلہ رو ہونا سنت ہے ۔ اگر کسی نے اس طرح سجدہ کیا کہ دونوں پاؤں زمین سے اٹھے رہے یا پاؤں کا صرف ظاہری حصہ زمین پر لگایا یا صرف انگلیوں کی نوک لگائی اور ایک بھی انگلی کا پیٹ زمین پر نہ لگا تو نماز نہیں ہوگی، اس نماز کو دوبارہ درست طریقہ کے ساتھ پڑھنا فرض ہوگا ۔ اسی طرح اگر ایک انگلی کا پیٹ تو زمین پر لگایا مگر دونوں پاؤں کی تین تین انگلیوں کا پیٹ زمین پر نہ لگایا تو ترکِ واجب کی وجہ سے گناہ بھی ہوگا اور نماز واجبُ الاِعادہ ہوگی یعنی اس نماز کو  دہرانا (دوبارہ پڑھنا) واجب ہے ۔ نیز امام چونکہ مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہوتا ہے تو جس صورت میں امام کی نماز نہیں ہوگی اور اعادہ فرض ہوگا اس صورت میں مقتدیوں کی نماز بھی نہیں ہوگی ، ان پر بھی اعادہ فرض ہو گا ، یونہی جس صورت میں امام کی نماز واجبُ الاِعادہ ہوگی ، مقتدیوں کی نماز بھی واجبُ الاِعادہ ہوگی ۔


مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے


سات اعضاء کو زمین یا اس کے حکم کی چیز پر ٹیک دینا شرعاً سجدہ کہلاتا ہے ، وہ اعضا یہ ہیں : (۱) پیشانی اور ناک (۲-۳) دونوں قدم (۴-۵) دونوں ہاتھ (۶-۷) دونوں گھٹنے ۔ (ان میں سے پیشانی یا ناک رکھنا بالاتفاق فرض ہے ، دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے رکھنا سنت ہے ، اور قدم کے بارے میں فرضیت اور وجوب کا اختلاف ہے)


عن العباس بن عبد المطلب أنہ سمع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یقول : إذا سجد العبد سجد معہ سبعۃ أطراف: وجہہ وکفاہ ورکبتاہ وقدماہ۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ / باب أعضاء السجود والنہي عن کف الشعر رقم: ۴۹۱، سنن الترمذي، الصلاۃ / باب ما جاء في السجود علی سبعۃ أعضاء ۱؍۶۲ رقم: ۲۷۱) فہو بوضع الجبہۃ والأنف والقدمین والیدین والرکبتین لما فی الصحیحین من قولہ علیہ الصلاۃ والسلام أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظمٍ: علی الجبہۃ والیدین والرکبتین وأطراف القدمین والأنف داخل في الجبہۃ؛ لأن عظمہما واحد، وہٰذہ الصفۃ المذکورۃ ہي الکمال۔ وإن وضع جبہتہ دون أنفہ جاز سجودہ بالإجماع، ولکن إن کان ذٰلک من غیر عذر الخ یکرہ ۔ (حلبي کبیر ۲۸۲-۲۸۳، طحطاوي ۲۲۹،چشتی)


عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما قال : قال النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، أمرت أن أسجد على سبعة أعظم على الجبهة (وأشار بيده على أنفه) واليدين والركبتين وأطراف القدمين ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں [جوڑں] پر سجدہ کروں ، پیشانی پر [ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ناک کی طرف اشارہ کیا] دونوں ہاتھوں پر ، دونوں گھٹنوں پر اور دونوں پیروں پر ۔ ( صحيح البخاري : 812 ، الأذان)(صحيح مسلم : 490، السجود )

     

حدثنا قبيصة ، قال : حدثنا سفيان ، عن عمرو بن دينار ، عن طاوس ، عن ابن عباس ، امر النبي صلى الله عليه وسلم ان يسجد على سبعة اعضاء ، ولا يكف شعرا ولا ثوبا الجبهة واليدين والركبتين والرجلين ۔ (صحيح بخاری بَابُ السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ حدیث نمبر 809)

ترجمہ : ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے طاؤس سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سات اعضاء پر سجدہ کا حکم دیا گیا ، اس طرح کہ نہ بالوں کو اپنے سمیٹتے نہ کپڑے کو (وہ سات اعضاء یہ ہیں) پیشانی (مع ناک) دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں ۔


حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال : حدثنا شعبة ، عن عمرو، عن طاوس ، عن ابن عباس رضي الله عنهما ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال : امرنا ان نسجد على سبعة اعظم ولا نكف ثوبا ولا شعرا ۔ (صحيح بخاری بَابُ السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ حدیث نمبر 810،چشتی)

ترمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے عمرو سے ، انہوں نے طاؤس سے ، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں سات اعضاء پر اس طرح سجدہ کا حکم ہوا ہے کہ ہم نہ بال سمیٹیں نہ کپڑے ۔


حدثنا معلى بن اسد، قال : حدثنا وهيب، عن عبد الله بن طاوس ، عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : امرت ان اسجد على سبعة اعظم على الجبهة ، واشار بيده على انفه واليدين والركبتين واطراف القدمين ولا نكفت الثياب والشعر ۔ (صحيح بخاری بَابُ السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ حدیث نمبر 812،چشتی)

ترجمہ : ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ، انہوں نے عبداللہ بن طاؤس سے ، انہوں نے اپنے باپ سے ، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ پیشانی پر اور اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر۔ اس طرح کہ ہم نہ کپڑے سمیٹیں نہ بال ۔


حدثنا ابو النعمان ، قال : حدثنا حماد وهو ابن زيد ، عن عمرو بن دينار ، عن طاوس ، عن ابن عباس ، قال : امر النبي صلى الله عليه وسلم ان يسجد على سبعة اعظم ولا يكف ثوبه ولا شعره ۔ (صحيح بخاری بَابُ السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ حدیث نمبر 815)

ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے عمرو بن دینار سے بیان کیا ، انہوں نے طاؤس سے ، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم تھا کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کریں اور بال اور کپڑے نہ سمیٹیں ۔


حدثنا موسى بن إسماعيل ، قال : حدثنا ابو عوانة ، عن عمرو، عن طاوس ، عن ابن عباس رضي الله عنهما ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال : امرت ان اسجد على سبعة لا اكف شعرا ولا ثوبا ۔ (صحيح بخاری بَابُ السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ حدیث نمبر 816)

ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح نے ، عمرو بن دینار سے بیان کیا ، انہوں نے طاؤس سے ، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مجھے سات ہڈیوں پر اس طرح سجدہ کا حکم ہوا ہے کہ نہ بال سمیٹوں اور نہ کپڑے ۔

عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : أمِرْت أن أسْجُد على سَبْعَة أعَظُم على الجَبْهَة، وأشار بِيَده على أنْفِه واليَدَين والرُّكبَتَين ، وأطْرَاف القَدَمين ولا نَكْفِتَ الثِّياب والشَّعر ۔

ترجمہ : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ پیشانی پر اور اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر اور یہ کہ ہم اپنے کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں ۔ (صحیح متفق علیہ)


نماز میں سات اعضا پر سجدہ کرنا واجب ہے ، کیوں کہ امر اصلا وجوب پر دلالت کرتا ہے ۔


حدیث کا مطلب : ”أمِرْت أن أسْجُد“ ایک روایت میں ہے ”أُمرنا“ (ہمیں حکم دیا گیا) اور ایک روایت میں ہے ”أَمَر النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “ (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا) یہ تینوں روایتیں بخاری کی ہیں ۔ شرعی قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کا حکم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا جائے وہ حکم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کےلیے عام ہوتا ہے ۔ ”على سَبْعَة أعَظُم“ یعنی مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ الأعَظُم سے مراد سجدے کے اعضاء ہیں جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی تفسیر بیان کی گئی ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی تفسیر فرمائی : ”على الجَبْهَة“ یعنی مجھے پیشانی پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، پیشانی کے ساتھ ناک بھی شامل ہے جیسا کہ ” و أشار بِيَده على أنْفِه“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ناک کی طرف اشارہ فرمایا تاکہ وضاحت کریں کہ پیشانی اور ناک دونوں ایک ہی عضو ہیں ۔ ”واليَدَين“ یعنی دونوں ہاتھوں کے باطن پر ۔ یدین مطلق بولے جانے کے وقت یہی مُراد ہوتا ہے ۔ ”والرُّكبَتَين وأطْرَاف القَدَمين“ یعنی مجھے دونوں گھٹنوں اور پاؤں کے پنجوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ نماز کی کیفیت کے باب میں ابو حُمید ساعدی کی حدیث ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے ”واسْتَقبل بأصابع رِجْلَيه القِبْلَة“ یعنی حالتِ سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رُخ تھی ۔ ”ولا نَكْفِتَ الثِّياب والشَّعر“ الكَفْت : کا معنی ہے ضم کرنا اور سمیٹنا ، مطلب یہ ہے کہ رکوع اور سجدے کے وقت کپڑے اور بال بکھرنے کی صورت میں ہم انہیں نہیں سمیٹتے تھے ، بلکہ ہم انہیں اپنی حال پر چھوڑ دیتے تھے اور زمین پر دونوں گر پڑتے ، تاکہ تمام اعضاء کپڑوں اور بالوں کے ساتھ سجدہ کریں ۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ۔ پیشانی کا زمین پر جمنا سجدہ کی حقیقت ہے اور پاؤں کی ایک انگلی کا پیٹ لگنا شرط ۔ (مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا عليہ رحمۃ الرحمن ''فتاویٰ رضويہ '' ميں فرماتے ہيں: ''حالتِ سجدہ ميں قدم کی دس انگليوں ميں سے ايک کے باطن پر اعتماد مذہب معتمد اور مفتیٰ بہ ميں فرض ہے اور دونوں پاؤں کی تمام يا اکثر انگليوں پر اعتماد بعيد نہيں کہ واجب ہو ، اس بنا پر جو ''حليہ'' ميں ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ کرنا بغير کسی انحراف کے سنت ہے  ۔''(ت) (''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۷، ص۳۷۶. )

تو اگر کسی نے اس طرح سجدہ کیا کہ دونوں پاؤں زمین سے اٹھے رہے ، نماز نہ ہوئی بلکہ اگر صرف انگلی کی نوک زمین سے لگی ، جب بھی نہ ہوئی اس مسئلہ سے بہت لوگ غافل ہیں ۔ (الدرالمختار ''، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۱۶۷،۲۴۹۔۲۵۱. و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۷، ص۳۶۳۔۳۷۶)


اگر کسی عذر کے سبب پیشانی زمین پر نہیں لگا سکتا ، تو صرف ناک سے سجدہ کرے پھر بھی فقط ناک کی نوک لگنا کافی نہیں، بلکہ ناک کی ہڈی زمین پر لگنا ضرور ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰)


رخسارہ یا ٹھوڑی زمین پر لگانے سے سجدہ نہ ہوگا خواہ عذر کے سبب ہو یا بلاعذر، اگر عذر ہو تو اشارہ کا حکم ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصلاۃ الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰)


ہر رکعت میں دو بار سجدہ فرض ہے ۔


کسی نرم چیز مثلاً گھاس، روئی، قالین وغیرہا پر سجدہ کیا تو اگر پیشانی جم گئی یعنی اتنی دبی کہ اب دبانے سے نہ دبے تو جائز ہے، ورنہ نہیں ۔ (الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰) ۔ بعض جگہ جاڑوں میں مسجد میں پیال  (یعنی چاول کا بھس) بچھاتے ہیں ، ان لوگوں کو سجدہ کرنے میں اس کا لحاظ بہت ضروری ہے کہ اگر پیشانی خوب نہ دبی ، تو نماز ہی نہ ہوئی اور ناک ہڈی تک نہ دبی تو مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوئی ، کمانی دار (یعنی اسپرنگ والے) گدّے پر سجدہ میں پیشانی خوب نہیں دبتی لہٰذا نماز نہ ہوگی، ریل کے بعض درجوں میں بعض گاڑیوں میں اسی قسم کے گدّے ہوتے ہیں اس گدّے سے اتر کر نماز پڑھنی چاہیے ۔


دو پہیا گاڑی یکّہ وغیرہ پر سجدہ کیا تو اگر اس کا جُوا (یعنی وہ لکڑی جو گاڑی يا ہَل کے بيلوں کے کندھے پر رکھی جاتی ہے یا بَم (یعنی گھوڑا گاڑی کا بانس جس ميں گھوڑا جوتا جاتا ہے) بیل اور گھوڑے پر ہے ، سجدہ نہ ہوا اور زمین پر رکھا ہے ، تو ہو گیا ۔ (الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰) بہلی کا کھٹولا (یعنی بيلوں کی چھوٹی گاڑی کی چھوٹی سی چارپائی) اگر بانوں سے بنا ہوا ہو تو اتنا سخت بنا ہو کہ سر ٹھہر جائے دبانے سے اب نہ دبے ، ورنہ نہ ہوگی ۔


جوار ، باجرہ وغیرہ چھوٹے دانوں پر جن پر پیشانی نہ جمے ، سجدہ نہ ہوگا البتہ اگر بوری وغیرہ میں خوب کس کر بھر دئیے گئے کہ پیشانی جمنے سے مانع نہ ہوں، تو ہو جائے گا ۔ (الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰)


اگر کسی عذر مثلاً اژدہام (یعنی بھيڑ۔ مجمع) کی وجہ سے اپنی ران پر سجدہ کیا جائز ہے ۔ اور بلاعذر باطل اور گھٹنے پر عذر و بلاعذر کسی حالت میں نہیں ہوسکتا ۔ (الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰)


اژدہام کی وجہ سے دوسرے کی پیٹھ پر سجدہ کیا اور وہ اس نماز میں اس کا شریک ہے ، تو جائز ہے ورنہ ناجائز، خواہ وہ نماز ہی میں نہ ہو یا نماز میں تو ہے مگر اس کا شریک نہ ہو ، یعنی دونوں اپنی اپنی پڑھتے ہوں ۔ (عالمگیری وغیرہ)


ہتھیلی یا آستین یا عمامہ کے پیچ یا کسی اور کپڑے پر جسے پہنے ہوئے ہے سجدہ کیا اورنیچے کی جگہ ناپاک ہے تو سجدہ نہ ہوا، ہاں ان سب صورتوں میں جب کہ پھر پاک جگہ پر سجدہ کر لیا، تو ہوگیا ۔ (منیۃ المصلي''، مسائل الفريضۃ الخامسۃ ای السجود، ص۲۶۳. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۵۳،چشتی)


عمامہ کے پیچ پر سجدہ کیا اگر ماتھا خوب جم گیا ، سجدہ ہوگیا اور ماتھا نہ جما بلکہ فقط چھو گیا کہ دبانے سے دبے گا یا سر کا کوئی حصہ لگا، تو نہ ہوا ۔(الدرالمختار ''، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۵۲)


ایسی جگہ سجدہ کیا کہ قدم کی بہ نسبت بارہ اونگل سے زیادہ اونچی ہے، سجدہ نہ ہوا ، ورنہ ہوگیا ۔ (الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۵۲)


کسی چھوٹے پتھر پر سجدہ کیا، اگر زیادہ حصہ پیشانی کا لگ گیا ہوگیا، ورنہ نہیں ۔ (الفتاوی الھندیۃ ''، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰)(بہارِ شریعت ،جلد اول حصہ دوم صفحہ۵۱۳تا ۵۱۵)


سجدہ كرنے والے كےليے واجب اور ضرورى ہے كہ وہ ان سات اعضاء پر سجدہ كرے جن پر نبى كريم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے سجدہ كرنے كا حكم ديا ہے وہ سات اعضاء يہ ہيں : پيشانى اور ناک ، دونوں ہتھيلياں ، دونوں گھٹنے، اور دونوں پاؤں كے كنارے اور انگلياں ۔


امام نووى رحمة اللہ علیہ فرماتے ہيں : اگر ان اعضاء ميں سے كسى عضو ميں بھى خلل كرے تو اس كى نماز صحيح نہيں ہو گى ۔ (شرح مسلم نووی)


سجدہ كرنے والے كے سات اعضاء ميں سے كوئى عضو بھى اٹھا كر ركھنا جائز نہيں ، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم كا فرمان ہے : مجھے سات ہڈيوں پر سجدہ كرنے كا حكم ديا گيا ہے، پيشانى پر آپ نے اپنے ہاتھ سے ناك پر اشارہ كيا، اور دونوں ہاتھ، اور دونوں گھٹنے، اور دونوں پاؤں كى انگلياں ۔ (صحيح بخارى حديث نمبر 812)۔(صحيح مسلم حديث نمبر 490)


اگر نمازی نے اپنے دونوں يا ايک پاؤں ، يا پھر پيشانى يا ناک ، يا دونوں ہى اٹھا كر ركھے تو اس كا سجدہ باطل ہو جائے گا اور شمار نہيں ہو گا اور جب سجدہ باطل ہو گيا تو نماز بھى باطل ہو جائے گى ۔


کسی ایک روایت کو لیکر علماء کرام رحمہم اللہ کے بیان کردہ مسائل پہ اعتراض و سوال کرنا درست نہیں ۔ روایات مختلف ہیں ۔ تو علماء نے ان میں ہر طرح کا تتبع۔ غور فکر کرکے مسئل بیان کیے ہیں ۔ فقہ قرآن و احادیث کا نچوڑ و عرق ہے ۔


ابوداؤد کی ابو حمید والی حدیث کی دوسری روایت میں ہے : فرمایا کہ سجدہ کرتے تو اپنی ناک اور پیشانی زمین پر رکھتے اور اپنے ہاتھ پہلوؤں سے دور رکھتے اور اپنی ہتھیلیاں کندھوں کے مقابل رکھتے ۔ تو اس روایت اور دیگر روایات میں پیشانی کیساتھ ساتھ ناک لگانے بھی ذکر ہے ۔


دوسری بات :  یہ ایک خود ائمہ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک اختلافی مسئلہ ہے ۔ جیسا کہ مندرجہ حدیث کی شرح میں بیان کیا گیا ہے ۔ روایت ہےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ کو حکم دیا گیا کہ : سات ہڈیوں پرسجدہ کروں پیشانی ، دو ہاتھ ، دو گھٹنے ، قدموں کے کنارے ۔ اور یہ کہ کپڑے اور بال جمع نہ کریں ۔ (مسلم،بخاری حدیث نمبر 113)


اگرچہ سجدےمیں ناک بھی لگائی جاتی ہے مگر پیشانی اصل ہے اور ناک اس کی تابع اس لیے ناک کا ذکر نہ فرمایا ۔


خیال رہے کہ سجدے میں قدم اور پیشانی زمین پر لگنا فرض ہے لیکن ہاتھ اورگھٹنوں کا لگنا سنت،امام صاحب کے نزدیک صرف پیشانی پر بغیر ناک لگے سجدہ جائز ہے ، یہ حدیث امام صاحب علیہ الرحمہ کی دلیل ہے ۔ (مراة المناجیح شرح مشکوة المصابیح)


ولو سجد على الحشيش أو التبن أو على القطن أو الطنفسة أو الثلج إن استقرت جبهته وأنفه ويجد حجمه يجوز وإن لم تستقرلا ۔

ترجمہ : اور اگر گھاس ، بھوسے ، روئی ، کپڑے یابرف پر سجدہ کیا ، تو اگر اس کی پیشانی اور ناک جم گئے اور وہ اس کی سختی کو محسوس کرے ، تو جائز ہے اور اگر پیشانی نہ جمے تو جائز نہیں ۔ (فتاوی ھندیہ کتاب الصلوۃ الباب الرابع الفصل الاول جلد 1 صفحہ 70 مطبوعہ کوئٹہ)


کسی نرم چیز مثلاً گھاس ، روئی ، قالین وغیرہا پر سجدہ کیا ، تو اگر پیشانی جم گئی یعنی اتنی دبی کہ اب دبانے سے نہ دبے، تو جائز ہے ، ورنہ نہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری) بعض جگہ جاڑوں میں مسجد میں پیال بچھاتے ہیں ، ان لوگوں کو سجدہ کرنے میں اس کا لحاظ بہت ضروری ہے کہ اگر پیشانی خوب نہ دبی ، تو نماز ہی نہ ہوئی اور ناک ہڈی تک نہ دبی ، تو مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوئی ، کمانی دار  گدّے پر سجدہ میں پیشانی خوب نہیں دبتی ، لہٰذا نماز نہ ہوگی ، ریل کے بعض درجوں میں بعض گاڑیوں میں اسی قسم کے گدّے ہوتے ہیں اس گدّے سے اتر کر نماز پڑھنی چاہیے ۔ (بہار شریعت  جلد 1 حصہ 3 صفحہ 514 مکتبۃ المدینہ کراچی) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...