Sunday 20 March 2022

امر بالمعروف و نہی عن المنکر حصّہ اوّل

0 comments

امر بالمعروف و نہی عن المنکر حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ‌ؕ وَلَوۡ اٰمَنَ اَهۡلُ الۡكِتٰبِ لَڪَانَ خَيۡرًا لَّهُمۡ‌ؕ مِنۡهُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَاَكۡثَرُهُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ‏ ۔ ۔(سورہ العمران آیت نمبر 110)
ترجمہ : جو امتیں لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہیں تم ان سب میں بہترین امت ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘ اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر تھا ‘ ان میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر کافر ہیں ۔

امر بالمعروف دو کلموں پر مشتمل ہے ۔ ایک امر اور دوسرا معروف ۔ امر کا لفظی معنی حکم دینا ۔المنجد مادہ امر ۔ امر نہی کا نقیض ہے ۔ (لسان العرب مادہ امر جلد 4 صفحہ 26)

اصطلاحی معنی : کسی بلند شخصیت کا اپنے سے کسی کمتر شخص سے کسی شئے کے طلب کرنے کو امر کہتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے : وَ اْمُرْ اَهلَکَ بِالصَّلَاةِ ۔ یعنی اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو ۔

کبھی کسی فعل اور شئے کو بھی امر کہتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے : وَ اِلَيه يرْجِعُ الْاَمْرُ ۔ اور اسی کی طرف تمام امور کی بازگشت ہے ۔

معروف لفظِ معروف عَرَفَ سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں ۔ پہچاننا ، جاننا ۔

المنجد مادہ عرف اور معروف ۔ ہر اس فعل کو کہتے ہیں ۔ جس کی اچھائی عقل و شرع سے ثابت ہو ۔

لہٰذا ہر وہ کام جو عقل و شرع کے مطابق ہو اسے معروف کہتے ہیں ۔ کسی شخص سے اگر کسی ایسے فعل کی انجام دھی کےلیےکہیں جو عقل و شرع کے مطابق ہو تو اس فعل کے طلب کرنے کو امر بالمعروف کہتے ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ ہر وہ شئے اور ہر وہ فعل کہ جو محبوب و مطلوب عقل و شرع ہو ۔ اور اللہ عزوجل کی مرضی کے مطابق ہو اسے معروف کہتے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز کہ جو عقل و شرع کے لحاظ سے ناپسندیدہ اور مذموم ہو ۔ اور اللہ عزوجل کی مرضی کے خلاف ہو اسے منکر کہتے ہیں ۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کی عقل کو تقویت دے اس کی روح کی تربیت میں مدد گار ہو ۔ اور قرب الٰہی تک پہنچنے کا وسیلہ ہو اسے معروف کہتے ہیں ۔ اور اس فعل کی انجام دھی کا کسی سے مطالبہ کرنے کو امر بالمعروف کہتے ہیں ۔

اسی طرح نہی عن المنکر بھی دو کلموں نہی اور المنکر سے مرکب ہے ۔

نہی کے لفظی معنی ۔ روکنا منع کرنا ۔ المنجد مادہ نہی ۔

اصطلاحی معنی : کسی بلند شخصیت کی طرف سے اپنے سے کمتر شخص کو کسی فعل سے روکنے ، منع کرنے اور باز رکھنے کو نہی کہتے ہیں ۔ یعنی کسی فعل کے طلب ترک کو نہی کہتے ہیں ۔

منکر ۔ لفظ منکر نکر سے نکلا ہے ۔
جس کے معنی ہیں کسی امر سے نا واقف ہونا ۔ کسی کو نہ جاننا ۔ المنجد مادہ نکر ۔

منکر وہ قول یا فعل جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو ۔ المنجد مادہ نکر ۔ یعنی ہر وہ چیز جس کی برائی ، قباحت یا مذمت عقل و شرع سے ثابت ہو اسے منکر کہتے ہیں ۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر (نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) کی حقیقت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ فی نفسہ ایک اچھی چیز ہے اور ہمدردی بنی نوع کا ایک پاکیزہ جذبہ ہے ، بلکہ درحقیقت وہ نظامِ تمدّن کو فساد سے محفوظ رکھنے کی ایک بہترین اور ناگزیر تدبیر ہے اور ایک خدمت ہے جو دنیا میں امن قائم کرنے ، دنیا کو شریف انسانوں کی بستی کے قابل بنانے اور دنیا والوں کو حیوانیت کے درجہ سے انسانیتِ کاملہ کے درجہ تک پہنچانے کےلیے اللہ نے ایک بین الاقوامی گروہ (اُمّتِ مُسلمہ) کے سپرد کی ہے ، اور یقینًا انسانیت کی اس سے بڑی خدمت اور کوئی نہیں ہو سکتی ۔

یہودیوں میں سے مالک بن صیف اور وہب بن یہودا نے حضرت عبداللہ بن مسعود و دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا کہ’’ہم تم سے افضل ہیں اور ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر خازن اٰل عمران : ۱۱۰، ۱ / ۲۸۷،چشتی)

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا تمام کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے ‘ جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہی پر رہنے دے ‘ پھر اس امت کی مدح کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم کو جبلۃ ‘ وفطرۃ “ سب سے بہتر پایا کیونکہ تم تمام لوگوں کو نیکی کی ہدایت دیتے ہو اور ان کو برائی سے روکتے ہو۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے فرمایا تھا کہ تم اہل کتاب کی طرح سرکش اور نافرمان نہ ہوجانا ‘ پھر ان کو نیکی اور اطاعت شعاری پر برانگیختہ کرنے کے لیے آخرت میں مومنوں کی سرخ روئی اور ان کے درجات کو بیان فرمایا اور کافروں کی روسیاہی اور ان کے عذاب کو بیان فرمایا ‘ اور اب ایک اور طریقہ سے مومنوں کو نیکی اور اطاعت شعاری کی ترغیب دی ہے اس لیے فرمایا تم بہترین امت ہو یعنی تم لوح محفوظ میں سب سے بہتر اور سب سے افضل امت ہو اس لیے مناسب یہ ہے کہ تم اپنی اس فضیلت کو ضائع نہ کرو اور اپنی اس سیرت محمودہ کو زائل نہ کرو ۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس آیت میں امت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مکہ سے ہجرت کی ۔
سدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس آیت سے خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب مراد ہیں اور جو مسلمان ان کے طریقہ پر گامزن ہوں ۔
بہزبن حکیم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سنو تم نے ستر امتوں کو پورا کردیا تم ان کے آخر میں ہو اور تم اللہ کے نزدیک سب سے مکرم ہو ۔
قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا ہم قیامت کے دن ستر امتوں کو پورا کردیں گے ہم ستر امتوں میں سب سے آخر میں ہیں اور سب سے بہتر ہیں ۔ (جامع البیان ج ٤ ص ‘ ٣٠ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ١٤٠٩ ھ،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو کسی اور نبی کو عطا نہیں کیا گیا ۔ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’رُعب کے ساتھ میری مدد کی گئی، مجھے زمین کی کنجیاں عطا کی گئیں ، میرا نام احمد رکھا گیا، میرے لئے مٹی کو پاکیزہ کرنے والی بنا دیاگیا اور میری امت کو بہترین امت بنا دیا گیا۔ (مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب، ۱ / ۲۱۰، الحدیث: ۷۶۳)

چونکہ یہ بہترین امت ہے ، اس لیے اس امت کا اتفاق و اتحاد بہت بڑی دلیلِ شرعی ہے ۔ جو اس سے ہٹ کر چلے وہ گمراہی کے راستے پر ہے چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے : وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا ۔ (سورہ النساء: ۱۱۵)
ترجمہ : اور جو اس کے بعد کہ اس کےلیے ہدایت بالکل واضح ہوچکی رسول کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کے راستے سے جدا راستے کی پیروی کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھرگیا ہے اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے ۔

ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اوراللہ تعالیٰ کا دست ِرحمت جماعت پر ہے اور جو جماعت سے جدا ہوا وہ دوزخ میں گیا ۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، ۴ / ۶۸، الحدیث: ۲۱۷۳،چشتی)

یاد رہے کہ نیکی کی دعوت دینا وہ عظیم منصب اور عہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمایا اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرما کر نبوت کا دروازہ ہمیشہ کےلیے بند کر دیا تو اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو اس منصب سے سرفراز فرما دیا اور اس عظیم خوبی کی وجہ سے انہیں سب سے بہترین امت قرار دیا ، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ بقدرِ توفیق نیکی کی دعوت دیتا اور برائی سے منع کرتا رہے ۔ احادیث میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں : ⬇

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی گئی : لوگوں میں بہتر کون ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے زیادہ ڈرنے والا، رشتہ داروں سے صلہ رحمی زیادہ کرنے والا ، سب سے زیادہ نیکی کا حکم دینے والا اور سب سے زیادہ برائی سے منع کرنے والا (سب سے بہتر ہے) ۔ (شعب الایمان السادس والخمسون من شعب الایمان الخ، ۶ / ۲۲۰ الحدیث ۷۹۵۰)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں جو نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سے ہیں نہ شہدا ء میں سے ، لیکن قیامت کے دن انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہداء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا مقام دیکھ کر رشک کریں گے ، وہ لوگ نور کے منبروں پر ہوں گے ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ بنا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اس کے بندوں کا محبوب بنا دیتے ہیں اور وہ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے زمین پر چلتے ہیں ۔ میں نے عرض کی : وہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ کے بندوں کا محبوب بنا دیتے ہیں (یہ بات تو سمجھ میں آ رہی ہے)  لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ کیسے بناتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں کا حکم دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کاموں سے منع کرتے ہیں تو جب لوگ ان کی اطاعت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرمانے لگتا ہے ۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الفصل الثانی، ۲ / ۲۷۳، الجزء الثالث، الحدیث: ۸۴۵۵)

اگر اہلِ کتاب بھی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرایمان لے آتے تو ان کےلیے بھی بہتر ہوتا لیکن ان میں کچھ ہی لوگ ایمان والے ہوئے ، جیسے یہودیوں میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی اور عیسائیوں میں سے حضرت نجاشی اور ان کے ساتھی رضی اللہ عنہم ۔ اس کے برعکس یہودونصاریٰ کی اکثریت نے اسلام قبول نہ کیا ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔