ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہﷺ گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے، آپﷺ چار رکعات پڑھے ان کی خوبی اور درازی کے بارے میں نہ پوچھو ، پھر آپﷺ چار رکعات پڑھن پس ان کی خوبی اور درازی کے بارے میں نہ پوچھو پھر آپ تین رکعات (وتر) پڑھتے۔ الخ (صحیح بخاری جلد۱ ص۲۶۹)
جبکہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ عشاء کی نماز کے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ الخ (صحیح مسلم جلد۱ ص۲۵۴)
پڑھیئے اس کا جواب : اپنے دعویٰ میں غیرمقلدین کی اس مرکزی دلیل کے متعد جوابات میں سے صرف دس جوابات ہدیہ ناظرین ہیں۔
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ یہ دونوں حدیثیں (کیفیت کے لحاظ سے ) ایک دوسرے سے معارض ہیں کیونکہ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے جب کہ بخاری کی روایت میں ہے کہ آپ آٹھ رکعاتیں چار چار کرکے پڑھتے تھے یعنی ہر چار رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے تھے اور تین وتر (ایک سلام کے ساتھ) پڑھتے تھے۔ چنانچہ غیرمقلدین کے مشہور محدث اور مصنف مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری صاحب اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ظاہر یہی ہے کہ پہلی چار چار رکعتیں ایک سلام سے اور پچھلی تین رکعتیں (وتر کی) ایک سلام سے تھیں۔ (تحفہ الاحوذی جلد۱ص۳۳۱ ) علامہ امیر یمانی صاحب غیرمقلد اس حدیث کے الفاظ یصلی اربعاً کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں یحتمل انھا متصلات وھو الظاہر ویحتمل انھا منفصلات وھو بعید ۔ (سبل السلام جلد۲ ص۱۳) احتمال ہے کہ یہ چار رکعتیں اکھٹی یعنی ایک سلام کے ساتھ تھیں اور یہی اس کے ظاہر معنی ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ علیحدہ علیحدہ یعنی دو سلاموں کے ساتھ ہوں لیکن یہ (حقیقت سے ) بعید ہے۔
غیرمقلدین کے مجلد ہفت روزہ الاعتصام کے مفتی شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی اس سوال کے جواب میں کہ یہ کیا چار نوافل اکھٹے ایک سلام کے ساتھ پڑھے جاسکتے ہیں لکھتے ہیں :۔ صحیح بخاری وغیرہ میں تہجد کے بیان میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے : کان یصلی اربعا کہ نبیﷺ چار رکعات پڑھتے تھے اور ظہر کے فرض سے پہلے بھی بخاری میں چار چار رکعات کی تصریح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ چار نوافل اکھٹے پڑھنے کا جواز ہے۔ (الاعصام ص۵ ۱۲ تا ۱۸ فروری ۱۹۹۹ء) ۔
مولانا صادق سیالکوٹی صاحب غیرمقلد اپنی مشہور کتاب صلوۃ الرسول ﷺ میں اس حدیث کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں: اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کی رات کی نماز کا غالب معمول یہ تھا کہ آپ آٹھ رکعت تہجد چار چار رکعات کی نیت سے دو سلام میں پڑھتے تھے اور پھر تین وتر (صلوۃ الرسول ص۳۷۰) مولانا میاں غلام رسول صاحب غیرمقلد نے بھی ان چار رکعتوں کو ایک سلام کے ساتھ قرار دیا ہے۔ (رسالہ تراویح ص۵۸)
غیر مقلدین کے اکابرین کی ان تصریحات سے ثابت ہوگیا کہ بخاری والی روایت میں یہ چار چار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ تھیں۔ یعنی رسول اللہﷺ ہر چار رکعات کے بعد سلام پھیرتے تھے اور یہ صحیح مسلم کی روایت سے معارض ہے جس میں تصریح ہے کہ آپﷺ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے۔ اسی طرح بخاری والی روایت میں ہے کہ آپ تین وتر (ایک سلام کے ساتھ) پڑھتے تھے جب کہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ ایک وتر پڑھتے تھے۔ نیز یہ دونوں روایتیں عدد کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں کیونکہ بخاری شریف کی روایت میں آٹھ رکعات ( قیام اللیل ) اور تین رکعات ( وتر ) کا ذکر ہے جبکہ مسلم شریف میں کی روایت میں صرف ایک وتر (بقول غیرمقلدین) اور دس رکعات قیام اللیل کا ذکر ہے۔ اب یہ دونوں روایتیں عدد اور کیفیت دونوں اعتبار سے ایک دوسرے سے معارض ہیں اور دو باہم معارض روایتوں سے غیرمقلدین کا حجت پکڑنا باطل ہو گیا کیونکہ اذا تعارضا تسا قطا ۔
اس تفصیل سے بعض غیرمقلدین کا یہ عذر لنگ بھی باطل ہو گیا کہ صحیح مسلم کی روایت صحیح بخاری کی روایت کیلےق مفسِّر ہے کیونکہ جب خود غیرمقلدین کے مسلمات کی روشنی میں ثابت ہو گیا کہ یہ دونوں حدیثیں عدد اور کیفیت دونوں اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف اور معارض ہیں تو پھر ایک دوسرے کیلئے مفسر کیسے ہو گئیں؟؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(2) اس حدیث سے رکعات تراویح پر استدلال ہی فضول ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث میں جس نماز کا تذکرہ فرما رہی ہیں وہ تہجد کی نماز ہے ، اس کا تراویح کی نماز سے کوئی تعلق ہی نہیں چنانچہ روایت مسلم میں تو سرے سے رمضان کا ذکر ہی نہیں لہذا یہ روایت تو موضوع (رکعات تراویح) سے ہی خارج ہے اور بخاری کی روایت میں اگرچہ رمضان کا ذکر ہے لیکن اس میں ساتھ غیررمضان کا لفظ بھی صریح ہے جو کہ اس کے نماز تہجد ہونے پر دال ہے کیونکہ غیر رمضان میں تراویح نہیں ہوتیں بلکہ جو نماز پورا سال (رمضان و غیررمضان) میں پڑھی جاتی ہے وہ نماز تہجد کہلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بڑے بڑے محدثین نے اس حدیث کو تہجد سے متعلق قرار دیا ہے۔ مثلا علامہ شمس الدین کرمانیؒ شارح بخاری اس حدیث میں فرماتے ہیں : اما ان امراد بھا صلوٰۃ الوتر والسوال والجواب واردان علیه۔ (الکوکب الدراری شرح بخاری جلد۱ ص۱۵۵)
اس حدیث سے مراد وتر (تہجد ) کی نماز ہے اور (حضرت عائشہؓ سے ) سوال اور (ان کا ) جواب تہجد کے متعلق تھا۔
علامہ ابو بکر بن الر بیؒ شارح ترمذی فرماتے ہیں : فما کان النبیﷺ زادفی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ وھذه ھی قیام الیل فوجب ان یقتدیٰ فیھا بالنبیﷺ ۔(عارضۃ الاخوذی شرح ترمذی جلد۴ص۱۹)
نبیﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہ آپﷺ کی نماز قیام اللیل (تہجد) تھی۔ پس واجب ہے کہ اس میں آپ ﷺ کی اقتداء کی جائے۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ شارح بخاری اس روایت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تہجد سے متعلق قرار دے کر گیارہ رکعات (تہجد مع الوتر ) کی حکمت یہ بیان فرماتے ہیں۔ وظھر لی الحکمۃ فی عدم الزیادۃ علی احدی عشرۃ ان التہجد والو تر مختص بصلوۃ اللیل وفرائض النھار الظھر وہی اربع، والعصر وہی اربع والمغرب وھی ثلاث وتر النھار فتناسب ان تکون صلوۃ اللیل کصلٰوۃ النھار فی العدد جملۃ و تفصیلاً۔ (فتح الباری شرح بخاری جلد۳ ص۳۲۹،۳۲۸)
میرے لیے ظاہر ہوا کہ گیارہ رکعات سے زائد رکعت نہ ہونے کی حکمت یہ ہے کہ تہجد اور وتر رات کی نماز کے ساتھ خاص ہیں اور دن کے فرائض گیارہ ہیں ،ظہر کے چارفرض ، عصر کے چار فرض ، اور مغرب کے تین فر ض جو دن کے وتر ہیں پس مناسب ہوا کہ رات کی نماز بھی اجمال اور تفصیل دونوں میں دن کی نماز کے مشابہ ہو جائے۔
قاضی عیاض مالکیؒ نے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تمام روایات کو جن میں رسول اللہﷺ کی نماز کا ذکر ہے، تراویح کی بجائے صلٰوۃ اللیل (نماز تہجد) کے متعلق قرار دیا ہے۔ (شرح مسلم للنووی جلد۱ص۲۵۳)
شیخ عبدلحق محدث دہلویؒ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں و صحیح آنست که آنجه آنحضرت ﷺ گزار دو ہمه تہجد بو د که بازدو رکعت باشد ۔ ( بحوالہ فقہ حنفی قرآن و حدیث کی نظر میں )
صحیح یہ ہےکہ آنحضرتﷺ جو گیارہ رکعات پڑھتے تھے وہ تہجد کی نماز تھی۔
حضرت شاہ عبدلعزیز صاحب محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: روایت محمول بر نماز تہجد است که دررمضان و غیر رمضان یکساں بود (فتاویٰ عزیزیہ ص۱۲۵)
حضرت عائشہؓ کی روایت تہجد پر محمول ہے کہ وہ رمضان و غیر رمضان میں برابر تھی۔ قاضی محمد بن علی شوکانی غیرمقلد تحریر کرتے ہیں : وقدورد عن عائشه فی الاخبار عن صلوٰته باللیل روایات مختلفه ۔۔۔۔۔۔ ومنھا عند الشیخین انه ماکان یزید ؓ فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکع یصلی اربعا ً ۔ (نیل الاوطار جلد۳ص۳۹)
حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺ کی رات کی نماز (تہجد) کے متعلق مختلف روایات مروی ہے ان میں سے ایک بخاری اور مسلم کی روایت بھی ہے کہ رسول اللہﷺ رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ مشہور غیرمقلد مولانا صادق سیالکوٹی صاحب کا یہ حوالہ حدیث حضرت عائشہؓ کے تشریح میں ماقبل میں گزر چکا ہے کہ : اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ رسول اللہﷺ کی رات کی نماز کا غالب معمول یہ تھا کہ آپﷺ آٹھ رکعات تہجد چار چار رکعات کی نیت سے دو سلام میں پڑھتے تھے۔ (صلوۃ الرسول ص۳۷۰)
اسی طرح مولانا ثناء اللہ مدنی صاحب غیرمقلد کا یہ حوالہ بھی گزر چکا جس میں وہ اس حدیث کو تہجد سے متعلق قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :صحیح بخاری وغیرہ میں تہجد کے بیان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : کان یصلی اربعاً کہ نبیﷺ چار رکعات پڑھتے تھے۔ (ہفت روزہ الاعتصام ص۵ ،۱۲تا ۱۸ جنوری ۱۹۹۹ء)
پس جب محدثین کرام اور خود علمائے غیرمقلدین کے نزدیک بھی اس حدیث کا تعلق نماز تہجد سے ہے اور مقدمہ میں تفصیل سے یہ بحث گزر چکی ہے کہ تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ نمازیں ہیں تو پھر غیرمقلدین کا اس تہجد والی حدیث سے آٹھ تراویح پر استدلال کرنا خود بخود باطل ہو گیا۔
(3) ہماری اس بات کی تائید کہ مذکورہ حدیث کا تعلق تراویح سے نہیں بلکہ تہجد سے ہے اس سے بھی ہوتی ہے کہ ائمہ حدیث نے تراویح اور تہجد کے الگ الگ باب باندھے ہیں اور اس حدیث کو تروایح کے باب میں ذکر کرنے کی بجائے تہجد کے باب میں ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً امام مالکؒ نے اپنی موطا ص۴۳ پر امام مسلم نے اپنی صحیح جلد۱ص۱۵۴ پر امام ترمذی نے جامع الترمذی جلد۱ص۵۸ پر امام ابو داؤد نے سنن ابی داؤد جلد۱ص۱۹۶ پر امام نسائی نے سنن نسائی جلد۱ ص۱۵۴ پر امام خطیب تبریزیؒ نے مشکٰوۃ المصابیح جلد۱ص۱۰۶ پر حافظ ابن القیمؒ نے زاد المعاد جلد۱ ص۸۶ پر امام محمد بن نصر المروزی نے قیام اللیل ص۹۱ پر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بلوغ المرام جلد۲ ص۱۳ مع سبل السلام میں اور دیگر محدثین نے بھی اپنی اپنی کتب حدیث میں اس حدیث کو تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے اور تراویح کے باب الگ قائم کیا ہے اور اس میں اس حدیث کا ذکر کرنا تو کجا اس کی طرف ادنٰی اشارہ بھی نہیں کیا۔ اسی طرح محمد صادق سیالکوٹی صاحب غیرمقلد نے اپنی کتاب الصلٰوۃ الرسول ص۴۰۶ میں اس حدیث کو تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے معلوم ہوا کہ اس حدیث کا تعلق تراویح کی بجائے تہجد سے ہے۔
اشکال : غیرمقلدین حضرات اس حدیث کو تراویح سے متعلق قرار ددینے کیلئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ امام بخاری ؒ امام محمدؒ امام بیہقیؒ اور علامہ نیمویؒ نے اس حدیث پر تراویح کے ابواب باندھے ہیں لہذا ان ائمہ کے نزدیک اس حدیث کا تعلق تراویح سے ہے۔ نور المصابیح ص۱۳ وغیرہ لیکن غیرمقلدین کا یہ اشکال محض خیال اور وہم ہے۔
اولاً ۔ امام بخاری نے بخاری شریف میں اس حدیث کو کئی ابواب میں ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً باب قیام النبیﷺ فی رمضان وغیرہ میں بھی اس کو ذکر کیا ہے اب رمضان وغیرہ کے الفاظ صراحتاً اس پر دال ہیں کہ امام بخاری کی مراد یہاں تہجد کی نماز کا بیان کرنا ہے کیونکہ غیررمضان میں تمام تراویح نہیں پڑھی جاتی۔ اسی طرح امام بخاری نے اس حدیث کو باب فضل من قام رمضان کے تحت بھی ذکر فرمایا ہے۔ اس باب سے امام بخاری کا مقصد صرف قیام رمضان کی فضیلت بیان کرنا ہے اس کی تعداد اور رکعات بیان کرنا ان کا مقصود نہیں ہے جیسا کہ غیرمقلدین کا دعویٰ ہے کیونکہ اگر امام بخاری کا مقصد قیام رمضان کی تعداد بیان کرنا ہوتا تو وہ باب کا عنوان فضل من قام رمضان کی بجائے عدد قیام رمضان قائم کرتے ۔ اذلیس فلیس۔
نیز یہ کہنا بھی غلط ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر تراویح کا باب باندھا ہے کیونکہ انہوں نے یہاں باب کا عنوان قیام رمضان (قام رمضان) قائم کیا اور غیرمقلدین کے مستند فتاویٰ فتاویٰ علمائے حدیث میں ہے کہ قیام رمضان نماز تراویح سے اعم ہے نیز علامہ کرمانیؒ کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیام رمضان سے بالاتفاق نماز تراویح مراد ہے یہ انہوں نے انوکھی بات کہی ہے۔ فتاویٰ علمائے حدیث جلد۶ ص۲۴۳ بحوالہ تحقیق التراویح ص۶۔
پس جب غیرمقلدین کے نزدیک قیام رمضان کا لفظ عام ہے جو تراویح اور تہجد دونوں کو شامل ہے تو پھر امام بخاری نے قیام رمضان والے عمومی باب میں اس تہجد والی حدیث کو بھی ذکر کر دیا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے نزدیک بھی اس حدیث کا تعلق تراویح سے ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ثانیاً:۔ امام بیہقیؒ نے اپنی کتاب السنن الکبریٰ للبیہقی میں اس حدیث پر باب ماروی فی عدد رکعات الیایم فی شہر رمضان کا عنوان قائم کیا ہے لیکن امام بیہقیؒ کے اس عنوان میں اجمال ہے کہ قیام سے یہاں مراد قیام اللیل ہے یا قیام رمضان ؟ عین ممکن ہے کہ ان کی مراد یہاں قیام سے عام ہو جو قیام اللیل اور قیام رمضان دونوں کو شامل ہے۔ پھر اس عام عنوان کے تحت انہوں نے قیام اللیل اور قیام رمضان دونوں قسم کی احادیث کو ذکر فرما دیا ۔ بالفرض اگر یہاں قیام سے صرف قیام رمضان ہی مراد ہے تو پھر بھی امام بیہقیؒ کے نزدیک اس حدیث کا تعلق تروایح سے ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ ابھی فتاویٰ علمائے حدیث کے حوالہ سے گزر ا ہے کہ قیام رمضان تراویح سے اعم ہے جو تراویح اور تہجد دونوں کو شامل ہے۔ فلا اشکال۔
ثالثاً:۔ امام محمدؒ اس حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کو اپنی کتاب موطا میں باب قیام شہر رمضان و مافیہ من الفضل کے تحت فرمایا ہے اس با ب سے امام محمدؒ دوچیزوں پر استدلال کرنا چاہتے ہیں۔
اول :قیام شہر رمضان کا اثبات بلا عدد رکعات اس کے لئے انہوں نے قیام شہر رمضان کا عنوان قائم کیا ۔
ثانی :۔رمضان المبارک میں عبادت (تہجد وغیرہ) کرنے کی فضیلت کا بیان اس کیلئے انہوں نے وما فیه من الفضل (یعنی رمضان المبارک میں جو فضیلت ہے اس کا بیان ) کا عنوان قائم کیا ہے۔ اب اس باب کے تحت انہوں نے پہلے نمبر پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ذکر کی ہے جس میں نبیﷺ کا رمضان المبارک میں تین دن نماز پڑھنے کا ذکر ہے اور تعداد رکعات کا اس میں کوئی تعین نہیں ہے اور دوسرے نمبر پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت نقل کی جس میں رسول اللہﷺ کا نماز تہجد کی گیارہ رکعات پڑھنا مذکور ہے۔ اب باب کی پہلی حدیث کا تعلق عنوان کے پہلے حصے قیام شہر رمضان سے ہے اور دوسری حدیث کو تعلق عنوان کے دوسرے حصہ و مافیہ من الفضل سے ہے کیونکہ رمضان المبارک میں نماز تہجد پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے اس لئے امام موصوف نے اس تہجد والی حدیث کو باب کے دوسرے عنوان و ما فیہ الفضل کے تحت ذکر فرما دیا لہذا اس سے ہر گز یہ لازم نہیں آتاکہ ان کے نزدیک اس حدیث کا تعلق نماز تراویح سے ہے۔
رابعاً:۔ علامہ نیمویؒ نے اگرچہ اس حدیث پر التراویح ثمان رکعات کا باب باندھا ہے لیکن ان کی اس تبویب سے یہ استدلال کرنا کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا تعلق تراویح سے ہے غلط ہے کیونکہ ان کی کتاب آثار السنن کا مطالعہ کرنے والے پر مخفی نہیں کہ ان کی پوری کتاب کی ترتیب یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے مخالف مسلک کے مطابق باب قائم کرتے ہیں اور اس کے تحت وہ دلائل ذکر کرتے ہیں جن سے مخالف نے استدال کیا ہے خواہ ان مستدلات کا تعلق انکے نزدیک مذکورہ باب سے ہو یا نہیں اسکے بعد وہ اپنے مسلک کے مطابق باب قائم کرکے اپنے مستدلات ذکر فرماتے ہیں۔ صرف ابواب الوتر میں ان کی بیان کرردہ ترتیب دیکھ لیں کہ رکعات وتر کی تعداد بیان کرتے وقت انہوں نے پہلے باب الوتر بخمس اواکثر من ذلک کا عنوان قائم کرکے اس قسم کی احادیث کو جمع کیا ۔ پھر باب الوتر برکعۃ قائم کرکے اس کے تحت اپنی مستدل احادیث کو جمع فرمایا حالانکہ ان کے نزدیک صرف تین رکعات وتر پڑھنا ہی جائز ہے بعینہ اس طرح انہوں نے رکعات تراویح بیان کرتے وقت پہلے غیرمقلدین کے مسلک کے مطابق باب التروایح ثمان رکعات قائم کرکے ان کے مستد لات کو ذکر کیا اور اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث کو بھی ذکر کیا پھر آخر میں اپنے مسلک کے مطابق باب فی التراویح بعشرین رکعات قائم کرکے اپنے مستدلات ذکر کئے اگر انہوں نے غیرمقلدین کے مسلک کے مطابق حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو تراویح کے باب میں ذکر کیا ہے تو اس ے یہ لازم نہیں آتا کہ خود علامہ نیموی ؒ کے نزدیک بھی اس حدیث کا تعلق تراویح سے ہے۔ پس غیرمدتوین کا یہ کہنا غلط ثابت ہو گیا کہ امام بخاری ، امام بیہقیؒ امام محمدؒ اور علامہ نیمویؒ نے نزدیک حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا تعلق تراویح کے باب سے ہے۔
(4) اگر اس صحیح السند حدیث کا تعلق تراویح سے ہوتا جیسا کہ غیرمقلدین کا دعویٰ ہے تو پھر بڑے بڑے محدث اور فقہاء کرام ؒ کبھی بھی یہ نہ فرماتے کہ رسول اللہﷺ سے رکعات تراویح کی بابت کوئی بھی عدد کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں حالانکہ بخاری شریف کی یہ روایت ان کے زیر نظر اور زیر مطالعہ تھی وہ حضرات آج کل کے غیرمقلدین سے احادیث کے جاننے اور سمجھنے میں زیادہ ماہر تھے اور عصر حاضر کا کوئی غیرمقلد عالم ان کے علم وفضل کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود یہ جبال علم صاف صاف اقرار کرتے ہیں کہ کسی بھی صحیح روایت میں نبی ﷺ کی نماز تراویح کی تعدا د منقول نہیں ۔ چنانچہ امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں ان العمارء اختلفو افی عدد ھا و لوثبت من فعل النبیﷺ لم یختلف فیھا۔ (المصابیح ص۷۴، الحاوی للفتاویٰ جلد۱ ص۴۱۵) علمائے کرام نے تراویح کے عدد میں اختلاف کیا ہے اور اگر تراویح کا کوئی خاص عدد نبیﷺ سے ثابت ہوتا تو وہ اس میں اختلاف نہ کرتے ۔ نز سیوطیؒ فرماتے ہیں وانما صلی لیالی صلوۃ لم یذکر عدد ھا (المصابیح ، الحاوی ص۴۱۳) نبیﷺ نے صرف چند راتیں تراویح کی نماز پڑھی جس کا کوئی عدد (صحیح احادیث میں) مذکورہ نہیں۔
نیز تراویح کی تعداد کے بارے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ولو ثبت عدد ھا بالنص لم تجزز یادۃ علیه (الحاوی جلد۱ ص۴۲۵) اگر تراویح کا کوئی عدد کسی (صحیح) نص سے ثابت ہوتا تو اس پر زیادتی جائز نہ ہوتی ۔ امام سیوطیؒ کی ان عبارات سے جہاں غیرمقلدین کے اس دعویٰ کی تردید ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ سے صرف آٹھ رکعات تراویح کا عدد ثابت ہے وہیں ان کا سیوطیؒ کی ان عبارات کی یہ تاویل کرنا بھی باطل ہو جاتا ہے کہ امام سیوطیؒ کی مراد ان عبارات سے بیس تراویح کی نفی کرنا ہے۔ اس لئے کہ وہ تو مطلق عدد کی نفی فرما رہے ہیں جو آٹھ بیس وغیرہ سب کو شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ رکعات تراویح میں غیرمقلدین کے سب سے بڑے وکیل مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب بھی نہ مانتے مانتے یہ حقیقت ماننے پر مجبور ہو گئے کہ اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ امام سیوطیؒ کے نزدیک بجائے بیس کے اگر آٹھ رکعات بلا وتر ثابت ہیں جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح ابن حبان وغیرہ کے حوالے سے انہوں نے بیان کیا ہے تو اس پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ (انہوں نے یہ بھی فرمایا ) لو ثبت ذالک من فعل النبیﷺ لم یختلف فیه تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ معارضہ اس وقت صحیح ہوتا جب امام سیوطیؒ اس عدد کو تحدید تضییق کے ساتھ ثابت مانتے۔ (انور المصابیح ص۵۰)
معلوم ہوا کہ امام سیوطیؒ رسول اللہﷺ کی کسی حدیث کو رکعات تراویح کی تحدید میں ثابت نہیں مانتے۔ والفضل ماشھدت به الاعداء
اسی طرح امام تاج الدین سبکیؒ شرح منھاج میں لکھتے ہیں : اعلم انه کم ینقل کم صلی رسول اللہﷺ فی تلک اللیالی ھل ھو عشرون اواقل و مذھبنا انھا عشرون رکعۃ (مصابیح ص۱۴۴ ، الحاوی جلد۱ ص۴۱۷) جان لو کہ یہ منقول نہیں کہ رسول اللہﷺ نے جن راتوں میں نماز تراویح پڑھی وہ بیس رکعات تھیں یا اس سے کم (آٹھ وغیرہ) اور ہمارا مذھب یہ ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں۔
بعض غیرمقلدین (مولانا نذیر رحمانی صاحب وغیرہ نے امام سبکیؒ کی مذکروہ بالا عبارت کی یہ توجیہ کی ہے کہ اعلم انہ لم ینقل الخ تو ان کا مقصد یہ ہے کہ صحیح یا سنن کی جن راتوں میں تین راتوں کی تفصیلات مذکور ہیں ان روایتوں میں کوئی عدد منقول نہیں ہےکہ رکعات کی تعداد بیس ہے یا اس سے کم یہ منشا نہیں کہ مطلقا فعل نبی سے تراویح کا کوئی عدد منقول ہی نہیں ۔ ( انوار المصابیح ص 46 ) وغیرہ ۔
لیکن غیر مقلدین کی بیان کردہ یہ توجیہ محض دفع الوقتی ہے کیونکہ امام سبکی ؒ نے اپنی اس عبارت میں نہ تو صحیحین یا سنن کی روایات کی طرف اشارہ کیا ہے اور نہ ہی انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تین دن والی تراویح کی جماعت کا تذکرہ کیا بلکہ انہوں نے تو مطلق عدد تراویح کی نفی فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جتنی بھی راتیں نماز تراویح پڑھی خواہ جماعت کیساتھ یا بلا جماعت ان کی رکعات کی تعداد کسی بھی صحیح روایت میں منقول نہیں ہے نہ صحیحین و سنن کی روایات میں اور ہی صحیح ابن حبان یاقیام اللیل وغیرہ کی کسی روایت میں لہذا غیرمقلدین کا مطلق کسی عدد کی نفی سے اپنے مطلب کیلئے صرف خاص مدد کی نفی مراد لینا بلا دلیل اور محض ہوائی دعویٰ ہے۔
اسی طرح مولانا رحمانی صاحب کایہ کہنا بھی غلط ہے کہ علامہ سبکیؒ نے جوزی کے حوالہ سے امام مالک کا یہ قول بلا رد و انکار نقل کیا ہےکہ حضرت عمرؓ نے لوگوں کو جس عدد تروایح پر جمع کیا وہ مجھے پسندیدہ ہے اور وہ گیار ہ رکعات ہیں اور یہی رسول اللہﷺ کی نماز ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ گیارہ رکعات کی بابت ان کو امام مالک کا یہ قول تسلیم ہے کہ ھی صلوۃ رسول اللہﷺ ( محصلہ انورا المصابیح (ص ۴۵) لیکن اول تو رحمانی صاحب کا یہ کہنا ہی غلط ہے کہ اس قول کو علامہ سبکیؒ نے نقل کیا ہے کیونکہ اس ضعیف قول کو نقل کرنے والے امام سیوطیؒ ہیں نہ کہ امام سبکیؒ جیسا کہ سیوطیؒ کے کلام سے واضح ہے اور خود رحمانی صاحب کے ہم مسلک غیرمقلدین کو بھی یہ بات تسلیم ہے ۔ چنانچہ غیرمقلد مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں : سیوطیؒ اپنے اصحاب میں سے امام جوزی کا قول نقل کرتے ہیں کہ امام مالک نے فرمایا کہ جس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں کو جمع کیا وہ گیارہ رکعات تھیں۔۔۔۔ الخ (انارۃ المصابیح ص ۲۴) بحوالہ التوضیح عن رکعت التراویح (ص۱۲۰) حافظ زبر علی زئی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں امام سیوطیؒ نے امام مالکؒ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو گیارہ رکعاتوں پر جمع کیا وہی رسول اللہﷺ کی نماز ہے ( صلوۃ التراویح ص۱۳ ناشر اصحاب الحدیث اٹک شہر ) پس جب علامہ سبکیؒ نے اس قول کو نقل ہی نہیں کیا تو پھر رحمانی صاحب یہ کیسے کہہ سکتےہیں انہوں نے اس قول کو تسلیم بھی کر لیا ہے۔
ثانیاً:۔اگر باالفرض مان بھی لیا جائے کہ امام سبکیؒ نے ہی اس قول کو نقل کیا ہے تو پھر بھی یہ کہنا غلط ہے کہ انہوں نے اس قول کی صحت کو بھی تسلیم کر لیا ہے کیونکہ انہوں نے تو اس ضعیف اور منکر قول کو یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ : ومذھبنا انھا عشرون رکعه (ہمارا مذھب یہ ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں) کیا رحمانی صاحب یا کوئی بھی غیرمقلد امام سبکیؒ جیسے متبع سنت اورعاشق صادق عالم کے بارے میں یہ تصور کر سکتا ہےکہ وہ یہ کہیں کہ رسول اللہﷺ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نماز تروایح تو گیارہ رکعت تھیں لیکن میر مذھب بیس رکعات کا ہے۔ اذالیس فلیس ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
علامہ ابن تیمہ لکھاتےہیں : ومن ظن ان قیام رمضان فیه عدد معین موقت عن النبی ﷺ لایزید ولا ینقض فقد ا خطاً (مجموعہ الفتویٰ جلد۱۱ ص۵۲۰)
جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ تراویح میں کوئی عدد معیّن ہے جس کو رسول اللہﷺ نے مقرر فرمایا ہے کہ جسے نہ زیادہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کم تو وہ شخص غلطی پر ہے۔ نیز فرماتے ہیں : انه لایتوقت فی قیام رمضان فان النبیﷺ لم یتوقت فیها عدداً (الفتاویٰ الکبریٰ جلد۱ص۲۲۷)
تراویح میں کوئی عدد مقرر نہیں کیونکہ رسو ل اللہﷺ نے اس میں کوئی عدد مقرر نہیں فرمایا ۔
غیرمقلدین حضرات نے اپنی عادت مستمرہ کے موافق ابن تیمیہ کی ان واضح اور صریح عبارتوں سے جان چھڑانے کیلئے وہی روش اختیار کی جو وہ امام سبکیؒ وغیرہ علماء کی عبارتوں کے ساتھ انجام دے چکے ہیں۔ چنانچہ مولانا نذیر رحمانی صاحب ابن تیمیہ کی مذکورہ بالا عبارت کی یوں توجیہ بیان کرتے ہیں: ابن تیمیہ کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ نبیﷺ کے فعل سے اگرچہ گیارہ یا تیرہ رکعات ثابت ہیں لیکن ان کی تحدید کسی حدیث میں نہیں ہے۔ گویا انہوں نے نبیﷺ کے فعل سے گیارہ رکعات کی نفی نہیں کی بلکہ اس کی تحدید و تعیین کی نفی کی ہے یعنی نبیﷺ کی کسی قول یا فعلی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس بارے میں آپﷺ نے رکعات کی کوئی حد مقرر فرمائی ہو کہ اس میں نہ کوئی کمی ہو سکے اور نہ زیادتی اور یہی بات ہم اہل حدیث بھی کہتے ہیں کہ گیارہ رکعات نبیﷺ کے فعل سے ثابت ہے اور یہی سنت اور بہتر ہے لیکن اس کے ساتھ اگر کوئی شخص اس سے کم و بیش بطور نوافل پڑھنا چاہے تو اس کی کوئی ممانعت نہیں۔ (انوار المصابیح ص۴۴)
لیکن رحمانی صاحب کی یہ ساری رو جیہ محض ابن تیمیہ کے موقف میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ غیرمقلدین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے صرف گیارہ رکعات کو مسنون کہتے ہیں نہ گیارہ سے کم اور نہ ہی گیارہ سے زائد کو وہ سنت سمجھتے ہیں اور یہی تحدید اور تضییق ہے جس کو ابن تیمیہ غلطی اور خطا بتلا رہے ہیں تو پھر غیرمقلدین اور ابن تیمیہ کا موقف ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے کیا عصر حاضر کے غیرمقلدین جو صرف گیارہ رکعات کے قائل ہیں وہ گیارہ رکعات سے کم یا س سے زائد رکعات پڑھنے کو سنت کہنے کیلئے تیار ہیں ہر گز نہیں بلکہ ان میں سے بعض تو گیارہ رکعات سے زائد تراویح پڑھنے کو بدعت اور حرام تک کہہ دیتے ہیں العیاذ با اللہ۔
اگر یہ تحدید اور تضییق نہیں جس کا ابن تیمیہؒ سختی سے رد کر رہے ہیں تو نہ جانے یہ تحدید کس چیز کا نام ہے۔ رہا یہ کہنا کہ ابن تیمیہ نے تسلیم کیا کہ رسول اللہﷺ گیار ہ یا تیرہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انہوں نے اس گیارہ یا تیرہ والی روایت کو ذکر کیا ہے تو ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے اور یہ کہ یہ حدیث خلفائے راشدین کی سنت کے خلاف ہے اور انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے اگر کوئی گیارہ یا تیرہ رکعات پڑھنا چاہیے بھی تو اس کیلئے شرط ہے کہ وہ اتنا لمبا قیام کرے جتنا رسول اللہ ﷺ لمبا قیام کرتے تھے یعنی صرف ایک رکعت میں تقریبا سوا پانچ پارے ( حافظ صاحب کی یہ تمام عبارتیں حصہ اول میں گذر چکی ہیں فلیراجع الیھا )
کیا غیرمقلدین ابن تیمیہ کی ان باتوں کو تسلیم کرتے ہیں؟
الغرض غیرمقلدین ابن تیمیہ کی عبارات کی جو بھی تاویل کرنا چاہیں کر لیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے کہ وہ ایے شخص کو خطا کار کہتے ہیں جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے صرف گیارہ رکعات کو مسنون سمجھتا ہے۔
خود غیرمقلدین کے اپنے بڑے بڑے رہنما بھی یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ رکعات تراویح کی بابت رسول اللہﷺ سے کوئی عدد صحیح روایت سے مروی نہیں ہے۔ علمائے غیرمقلدین کی یہ عبارات مقدمہ میں گزر چکی ہیں ۔ یاد ہانی کے لیے دو بار ہ نذر قارئیں ہیں۔
قاضی محمد بن علی شوکانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت سمیت اس موضوع سے متعلق متعد روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:۔والحاصل ان الذی دلت علیہ احادیث الباب وما یشابھا ہو مشروعیۃ القیام فی رمضان والصلوٰۃ فیہ جماعۃ وفرادی فقصر الصلوٰۃ المسماۃ بالتراویح علیٰ عدد معیّن وتخصیصھا بقراءۃ مخصوصۃ لم یرد بہ سنۃ ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس باب میں ذکر کردہ احادیث اور ان جیسی دوسری احادیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ صرف رمضان المبارک میں قیام اور اس کو اکیلئے اکیلے یا جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی مشروعیت ہے ۔ پس ا س نماز کو جس کا نام تروایح ہے کسی عدد معین پر بند کر دینا (جیسا کہ آج کل کے غیرمقلدین جو صرف آٹھ کو سنت نبوی کہتے ہیں) اور کسی مخصوص قرأت کے ساتھ خاص کر دینا رسول اللہﷺ کی سنت میں وار د نہیں ہوا۔ (نیل الاوطار جلد۳ص۵۳)
گویا شوکانی صاحب کے نزدیک رکعات تراویح کی بابت جتنی بھی احادیث ذکر کی جاتی ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا وہ تروایح سے غیر متعلق ہیں نیز شوکانی نے یہاں مطلق سنت کی نفی کی ہے جو سنت قولی ، سنت فعلی اور سنت تقریری تینوں کو شام ہے لہذا اس سے غیرمقلدین کی تینوں دلیلوں (سنت فعلی، براویت عائشہ رضی اللہ عنہا بروایت جابر رضی اللہ عنہ اور سنت تقریری بروایت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ) کی نفی اور ان کے دعویٰ کا باطل ہونا ثابت ہو گیا ۔
اس طرح علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب (جن کو غیرمقلدین چودھویں صدی کے مجدد اور محقق اعظم کے لقب سے پکارتے ہیں) فرماتے ہیں :۔ ولم یات تعیین العدد فی الروایات الصحیحۃ المرفوعه (الانتقاد الرجیع ص۶۱)
اور تراویح کے عدد ( گیارہ یا تیرہ وغیرہ ) کی تعین صحیح مرفوع روایتوں میں نہیں آئی ۔
نواب صاحب کے صاحبزادے اور مشہور غیرمقلد عالم نواب نور الحسن خان صاحب فرماتے ہیں: وبا لجمله عددے معین در مرفوع نیامدہ (عرف الجادی ص۸۴) خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ سے کسی مرفوع روایت میں تراویح کا کوئی معین عدد مذکور نہیں ۔
غیرمقلدین کے معبرک اور مستند عالم علامہ وحید الزمان غیرمقلد مترجم صحاح ستہ (جن کے بارے میں مشہور غیرمقلد مولانا بدیع الدین شاہ راشدی یہ القاب بیان کرتے ہیں، نواب عالی جناب ، عالم باعمل فقیہ وقت صحبۃ السنۃ وحید الزمان بن مسیح الزمان الدکنی (ہدایہ المستفید جلد۱ ص۱۰۴) ) بھی اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں: ولا یتعین لصلٰوۃ لیالی رمضان یعنی تراویح عدد معین (نزل الابرار جلد۱ ص۱۲۶)
ترجمہ:۔ اور رمضان البارک کی رات کی نماز یعنی تراویح کے لیے (احادیث میں) کوئی عدد معین نہیں ہے۔
مولانا میاں غلام رسول صاحب غیرمقلد (جو غیرمقلدین کے شیخ الکل مولانا نذیر حسن دہوبی کے خصوصی تلامذہ میں سے ہیں (تاریخ اہل حدیث ص۴۳۳)) نے حضرت ملا علی قاریؒ کا یہ قول بلا رد و انکار نقل کیا ہے۔ اعلم انه لم یوقت رسو ل اللہﷺ فی التراویح عددا معینا (رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص۴۹،۵۰) جان لو کہ رسول اللہﷺ نے تراویح میں کوئی تعدد مقرر نہیں فرمائی۔
محدثین کرام اور علمائے غیرمقلدین کے ان مذکورہ بالابیانات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ سے رکعات تراویح کی بابت کوئی معین عدد منقول نہیں۔ لہذا عصر حاضر کے غیرمقلدین کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رویات سے جو در اصل نماز تہجد سے متعلق ہے رکعات تراویح پر استدلال کرنا باطل غلط ہے اور اپنے ہی کابر کی تصریحات کی خلاف ورزی ہے۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
(5) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث میں جس نماز کا تذکرہ فرما رہی ہیں وہ آپﷺ آخر شب میں پڑھتے تھے۔ چنانچہ اس نماز کے وقت کی بابت جب ان سے پوچھا گیا تو جناب صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ۔ آپﷺ رات کے پہلے حصہ میں آرام فرماتے تھے اور آخری حصہ میں اٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔ (بخاری جلد۱ ص۱۵۴) اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ فان یقوم اذا سمع السارخ (بخاری جلد۱ ص۱۵۳) رسول اللہﷺ نماز کے لئے اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب (آخر شب ) مرغ کی آواز سنتے تھے۔ مولانا میاں غلام رسول صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں کہ:۔ آنحضرتﷺ سونے کے بعد (آخری شب) یہ نماز پڑھتے تھے۔ (رسالہ تراویح ص۵۹) اور آخر شب میں جو نماز پڑھی جاتی ہے وہ تہجد کی نماز ہے نہ کہ تراویح کی ۔ چنانچہ غیرمقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں تہجد کا وقت ہی صبح سے پہلے کا ہے اول شب میں تہجد نہیں ہوتی۔ (فتاویٰ ثنایہ جلد۱ ص۲۵)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مولانا صلاح الدین یوسف غیرمقلد ( سابق ایڈ یٹر الاعتصام ) لکھتے ہیں بہرحال تہجد کا مفہوم رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نوافل پڑھنا ہے ساری رات قیام اللیل کرنا خلاف سنت ہے۔ نبیﷺ رات کے پہلے حصے میں سوتے اور پچھلے حصہ میں اٹھ کر تہجد پڑھتے۔ (تفسیر حواشی ص۷۸۹)
بنا بریں غیرمقلدین کا رسول اللہﷺ کی آخر شب کی نماز (تہجد) سے اول شب کی نماز (تراویح) پر استدلال کرنا خود اپنے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں باطل ہو گیا۔
(6) بالفرض غیرمقلدین کا دعویٰ مان ہی لیا جائے کہ اس حدیث کا تعلق تراویح سے ہے اور تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو پھر بھی ان کا اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے صرف آٹھ رکعت پر اکتفا کرنا اور اسی عدد کو سنت کہنا غلط ہے۔ کیونکہ جس طرح نبی کریمﷺ کا آٹھ رکعات پڑھنا ثابت ہے۔
اسی طرح آپﷺ سے آٹھ رکعات سے کم اور آٹھ رکعات سے زائد پڑھنا بھی ثابت ہے۔ صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی رسول اللہﷺ کی رات کی نماز کی متعدد صورتیں منقول ہیں جن کی صحت کا خود غیرمقلدین کے علماء کو بھی اقرار ہے۔ چنانچہ علامہ شوکانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں: وقد ور دعن عائشہ رضی اللہ عنہا فی الاخبار عن صلاته ﷺ باللیل روایا ت مختلفه ۔ الخ (نیل الاوطار جلد۳ ص۳۹)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ سے رات کی نماز سے متعلق مختلف روایتیں روایت کی گئی ہیں۔ اس کے بعد شوکانی صاحب نے رسول اللہﷺ کی نماز کی مختلف صورتیں (دس رکعات ، آٹھ رکعات نو رکعات مع الوتر ، سات رکعات مع الوتر وغیرہ) بلا ردو انکار نقل فرمائیں۔، اسی طرح غیرمقلدین کے ایک دوسرے بڑے عالم علامہ امر یمانی صاحب لکھتے ہیں: اعلم انه قد اختلفت الروایات عن عائشه رضی اللہ عنہا فی کیفیۃ صلاته ﷺ فی اللیل وعددھا ، فقدروی عنھا سبع وتسع واحدی عشرۃ سوی رکعتی الفجرو منھا ھذہ الروایه : کان یصلی من اللیل عشرر کعات ویوتر سجدۃ ای رکعه ویرکع رکعتی الفجر فتلک ثلاث عشرۃ رکعۃ (سبل السلام جلد۲ ص۱۳)
جان لو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کی رات کی نماز کی کیفیت اور تعداد میں روایات مختلف ہیں چنانچہ آپﷺ سے سات ، نو رکعات گیارہ رکعات (مع الوتر ) علاوہ دو رکعات سنت فجر کے مروی ہیں اور ان روایات میں ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہﷺ رات کی نماز دس رکعات پڑھتے تھے اور ایک رکعت وتر اور دو رکعات فجر پڑھتے تھے ۔یہ کل تیرہ رکعات ہو ئیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ صبح کی دو سنتوں سمیت پندہ رکعات پڑھتے تھے الخ۔
مولانا میاں غلام محمد رسول صاحب لکھتے ہیں:۔ امام قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے جو حضرت سعد بن ہشام ؒ کی سند سے آتی ہے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ گیارہ رکعت پڑھتے تھے جن میں وتر بھی ہوتے تھے جن کی ہر دو رکعت کے بعد سلام کہتے تھے اور جب آپ کے پاس مؤذن آچکتا تو آپﷺ صبح کی دو سنتیں پڑھتے تھے اور حضرت ہشامؒ بن عروہ ؓ کی رویت ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے یہ آتا ہے کہ آپﷺ تیرہ رکعت ادا کرتے جن میں صبح کی دو سنتیں بھی ہوتی تھیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت بھی آتی ہے آپ رمضان اور غیررمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور ان سے یہ روایت بھی ہے کہ آپﷺ تیرہ رکعت پڑھتے تھے آٹھ اورپھر تین وتر اور پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے تے۔ اور ان سے ان سےبخاری میں یہ بھی ہے کہ آپ کی رات کی نماز سات اور نو رکعت ہوتی تھیں (مع الوتر) (رسالہ تراویح مع ترجمہ بنابیع ص۴۸،۵۰)
نیز میاں صاحب فرماتے ہیں : کہ مصنف سفر سعادت نے (رسول اللہﷺ کی) رات کی نماز کے باب میں آٹھ صورتیں لکھی ہیں جو سب کی سب صحیح ہیں۔ پس جو کچھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے یہ خبر دینا بھی ان کا اپنی باری کے دنوں کا ہے جو سال کے چھتیسں دن ان کی باری کے ہوتے تھے۔ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اس طر ح دوسرے حضرات سے گیارہ سے کم اور زیادہ کی روایت گزر چکی ہیں۔ (رسالہ تراویح مع ترجمہ بنابیع ص۴۸،۴۹) غیرمقلدین کے محدث اعظم مولانا عبدلرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں : انہ ثم ان رسول اللہﷺ فان قد یصلی ثلاث عشرۃ رکعت سوی رکعت الفجر (تحفۃ الاحوذی جلد۲ ص۷۳)
یہ ثابت ہے رسول اللہﷺ نے کبھی فجر کی دو رکعات کے علاوہ بھی تیرہ رکعات پڑھی ہیں۔
مولانا عبداللہ غازیپوری نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ حق یہ ہےکہ آپﷺ نے کبھی کبھی سنت فجر کے علاوہ بھی تیرہ رکعتیں پڑھی ہیں۔ (رکعات التراویح ص۵) مولانا صادق سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول خدا کی نماز سے متعلق پوچھا گیا تو جناب صدیقہ رضی اللہ عنہا فرمایا کہ کبھی سات رکعتیں کبھی نو اور کبھی گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھتے (صلوۃ الرسول ص۳۶۹)
نیز سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں :سات رکعت تہجد میں اگر وتر ایک رکعت پڑھیں تو تہجد چھ رکعت ہوئی ۔ اور اگر وتر تین رکعت پڑھیں تو نما ز تہجد چار رکعت ہوئی۔ (صلوۃ رسول ص۳۶۹)
محمد قاسم خواجہ لکھتے ہیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا قیام نبوی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سات یا نو یا گیارہ رکعتیں ہوتی تھیں علاوہ فجر کی دو سنتوں کے (حی علی الصلوۃ ص۳۰)
اس طرح مولانا نذیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خود بخاری شریف جلد۱ ص۱۵۳ میں بیان ہے کہ رسول اللہﷺ سات بھی پڑھتے تھے نو بھی اور گیارہ بھی ۔(انوار المصابیح)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
پس جب صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کی رات کی نماز کی تعداد سے متعلق مختلف روایات مروی ہیں اور آپﷺ کا آٹھ سے کم اور آٹھ سے زائد رکعات پڑھنا بھی ثابت ہے اور ان سب روایات کی صحت خود غیرمقلدین کو بھی تسلیم ہے تو پھر غیرمقلدین حضرات یہ کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ صرف آٹھ رکعات تراویح پڑھنا ہی رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔
(7) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں اس قدر اختلافات (جن کا ہلکا سا نمونہ آپ نے علمائے غیرمقلدین کے مذکورہ بالا بیانات میں دیکھ لیا ہے) کو دیکھتے ہوئے بعض محدثین نے اس حدیث کو ہی مضطرب قرار دیا ہے۔
علامہ محمد شوکانی غیرمقلد لکھتے ہیں:۔ ولا جل ھذا الا ختلاف نسب بعضھم حدیثھا الی الاضردب (نیل الاوطار جلد۳ص۳۹)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ان اختلافات کی وجہ سے بعض علمائے محدثین نے ان کی حدیث کو اضطراب کی طرف منسوب کیا ہے۔
علامہ امیر یمانی غیرمقلد تحریر کرتے ہیں ولما اختلافت الفاظ حدیث زعم البعض انه حدیث مضطرب (سبل السلام جلد۲ ص۱۳)
جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ میں اختلاف ہوا تو بعض بعض محدثین نے اس کو مضطرب خیال کیا ہے۔
ابن تیمہ لکھتے ہیں:۔ واضطرب فی ھذاالاصل (الفتاویٰ الکبریٰ جلد۱ ص۱۲۷)
اس اصل (حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا) میں اضطراب ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں قال القرطبی اشکل روایات عائشہ رضی اللہ عنہا علی کثیر من اھل العلم نسب بعضھم حدیثھا االٰی الا ضطرب (فتح الباری جلد۳ ص۳۳۹)
علامہ قرطبیؒ ( جن کے بارے میں مولانا ارشاد الحق اثری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں علامہ قرطبیؒ فقہ مالکی کے مسلمہ امام ہیں ان کے کلام کو بلا دلیل رد کرنا بھی بہت بڑی جسارت ہے ۔ توضیح الکلام جلد۱ ص۶۵) فرماتے ہیں کہ بہت سے اہل علم پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات مشکل ہوئی ہیں یہاں تک کہ بعض اہل علم نے ان کی اس حدیث کو ہی اضطراب کی طرف منسوب کیا ہے۔
اب جن محدثین نے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے ان کی تحقیق کی رو سے تو یہ حدیث ہی ناقابل حجت ہے۔ کیونکہ مولانا عبدلرحمٰن مبارکپوری صاحب غیرمقلد نے تصریح کی ہے کہ حدیث مضطراب قابل احتجاج نہیں ہو سکتی۔ (تحقیق الکلام جلد۲ ص۷)
(8) حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات میں اختلاف کی وجہ سے جن علماء نے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے ان کے بالمقابل دیگر علمائے جنہوں نے اس کو مضطرب کہنے کی بجائے ان سب روایات میں تطبیق کا راستہ اختیار کیا ہے ان کی تحقیق کی رو سے بھی اس حدیث سے صرف آٹھ رکعات تراویح پر استدلال کرنا غلط ہے۔ کیونکہ علماء کے نزدیک یا تو اس روایات میں اکثر راتوں کا ذکر ہے اور یا یہ تمام روایات آپﷺ کے متعدد اوقات اور مختلف حالتوں سے متعلق ہیں۔ چنانچہ امام نوویؒ قاضی عیاض مالکیؒ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات میں تطبیق ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ واما لا ختلاف فی حدیث عائشہ( رضی اللہ عنہا ) فقیل ھو منھا وقل من الرواۃ عنھا فیحتمل ان اخبار ھا باحدی عشرۃ ھوالا غلب وباقی روایایتھا اخبار منھا بما کان یقع نادر ا فی بعض الاوقات فاکثرہ خمس عشرۃ برکعتی الفجرواقلہ سبع وذلک یحسب ماکان یحصل من اتساع الوقت اوضیفه بطول قراءۃ کما جاء فی حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ وابن مسعود رضی اللہ عنہ اولنوم اوعذر مرض اوغیرہ اوفی بعض الاوقات عند کبرالسن کما قالت فلما اسنﷺ صلی سبع رکعات (شرح مسلم للنووی جلد۱ ص۲۵۳)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں جو اختلاف ہے تو اس کے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اختلاف ان ہی سے منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اختلاف ان سے نقل کرنے والے راویوں کی طرف سے ہے چنانچہ احتمال ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے گیارہ رکعات کے بارے میں جو خبر دی ہے وہ رسول اللہﷺ کی اکثر عادت ہو اور انہوں نے اپنی دیگر روایات میں جو خبر دی ہے وہ ان صورتوں پر محمول ہوں جو آپﷺ سے بعض اوقات میں صادر ہوئیں۔ پس یہ دو رکعات سنت فجر ملا کر زیادہ سے زیادہ پندرہ رکعات اور کم سے کم سات رکعات ہیں یا یہ وقت کی فراخی اور تنگی اور طول قرأت کی وجہ سے ہوتا تھا جیسا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آتا ہے یا نیند یا بیماری وغیرہ کے عذر یا پڑھاپے کی وجہ سے بعض اوقات ایسا ہوتا رہا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ (آخر عمر) میں بوڑے ہو گئے تو سات رکعتیں پڑھتے تھے۔وغیرہ وغیرہ ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کی زندگی کا آخری معمول رات کی نماز میں تین وتر سمیت سات رکعتیں پڑھنے کا تھا۔ اب غیرمقلدین جو اپنے آپ کو قرآن و حدیث کا بلا شرکت غیرے عامل سمجھتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ گیارہ رکعات سنت کہنےکی بجائے سات رکعات کو سنت کہیں کیونکہ امما بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں احادیث نبویہ پر عمل پیرا ہونے کے لیے یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ انما یوخذ من فعل النبیﷺ الاخر فالا خر ۔ (صحیح بخاری جلد۱ ص۹۶) کہ نبیﷺ کا جو آخری عمل ہو گا وہ لیا جائے گیا۔ اس ضابطہ کی رو سے رسول اللہﷺ کی سنت تین وتر سمیت سات رکعات بنتی ہے لیکن غیرمقلدین اس کے برخلاف صرف گیارہ رکعات کو سنت کہتے ہیں نہ گیارہ سے کم اور نہ گیار ہ سے زائد کو۔ معلوم طہوا کہ غیرمقلدین نہ تو قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے کے دعویٰ میں سچے ہیں اوور ننہ وہ (امام بخاری وغیرہ) محدثین کرام کی تصریحات کو مانتے ہیں۔ ہم اس موقع پر غیرمقلدین حضرات کو ان کے ہی ایک بہت بڑے عالم مولانا محمد جونا گڑھی کا ایک شعر یاد دلاتے ہیں۔
قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رات کی نماز میں (رسول اللہﷺ کی طرف سے) کوئی ایسی حد مقرر نہیں کہ جس میں کمی یا زیادتی نہ کی جاسکے اور رات کی نماز ان نیکیوں میں سے ہیں کہ وہ جتنی بھی زیادہ کی جائے ثواب بڑھتا جائے گا۔ اختلاف تو صرف اس بات میں ہے کہ نبیﷺ کا عمل کیا تھا اور انہوں نے اپنے لیے کیا پسند فرمایا : واللہ اعلم۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ان مختلف روایات میں یوں تطبیق بیان فرمائی ہے۔ والصواب ان کل شئی ذکرتہ من ذلک محمول علٰی اوقات متعددۃ واحوال مختلفه (فتح الباری جلد۳ص۳۳۱)
درست بات یہ ہےکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرتﷺ کی نماز سے متعلق جتنی روایات بیان فرمائی ہیں یہ متعدد اوقات اور مختلف حالتوں پر محمول ہیں۔ اسی طرح قاضی شوکانی غیرمقلد اور علامہ امیر یمانی غیرمقلد نے اپنے رسالہ تراویح میں ان روایات میں یہی تطبیق دی ہے کہ یہ سب روایتیں رسول اللہﷺ کی متعدد اوقات اوور مختلف احوال سے متعلق ہیں اور یہ سب صورتیں جائز ہیں۔ (نیل الاوطار جلد۳ص۳۹)، (سبل السلام جلد۲ ص۱۳)
مولانا میاں غلام رسول صاحب غیرمقلد نے اپنے رسالہ تراویح میں ان روایات میں مختلف تطبیقات نقل فرمائی ہیں اور اس دعوے کو غلط ثابت کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گیارہ رکعات والی روایت میں رسول اللہﷺ کا دائمی عمل مذکور ہے۔ (رسالہ تراویح مع ینابیع ص۴۶ تا۵۶)
ان جن علمائے کرام نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات میں بجائے مضطرب کہنے کے ان سب روایات میں یہ تطبیقات ذکر کی ہیں ان کے نزدیک بھی آٹھ رکعات (یا گیارہ مع الوتر) نبی کریمﷺ کا دائمہ عمل نہیں تھا بلکہ ان کے ہاں بھی مختلف موقو ں پر آپﷺ سے آٹھ سے زائد اور آٹھ سے کم رکعات پڑھنا بھی ثابت ہے۔ اور مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں کہ جس عدد کا پڑھنا ایک دفعہ بھی ثابت ہو وہ بے شک سنت ہے۔(انوار المصابیح ص۶۴) چہ جائکہ اس عدد کا متعدد بار پڑھنا ثابت ہو۔ لہذا ان علمائے کرام کی تحقیق میں بھی صرف آٹھ رکعات پڑھنا ہی سنت نہیں بلکہ کبھی آٹھ سے کم اور کبھی آٹھ سے زائد رکعات پڑھنا اور آٹھ پڑھنے کی ہیئت کو بدلنا بھی سنت ہونا چاہئے اور یہ بات صرف ہم نہیں کہتے بلکہ یہ بات خود غیرمقلدین کے بہت بڑے عالم مولانا میاں غلام رسول صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں۔ چناچہ میاں صاحب فرماتے ہیں پس جو کچھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے پڑھتے تھے اور خؤد حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے یہ خبر دینا بھی ان کا اپنی باری کے دنوں کا ہے جو سال میں چھتیس دن ان کی باری کے ہوتے تھے اور خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اس طرح دوسرے حضرات (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) سے (گیارہ رکعات سے) کم و بیش کی روایات پہلے گزر چکی ہیں۔ لہذا گیارہ رکعات کی ہیت کو بدلنا اور اس کا تغیر کرنا بھی سنت ہوا۔ (رسالہ تراویح مع ینابیع ص۵۴،۵۵)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بنابریں موجود غیرمقلدین کا حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے استدلال کرتے ہوئے صرف آٹھ رکعات پر اقتصار کرنا اور اسی عدد کوسنت کہنا خود بخود باطل ہو گیا۔
(9) اگر بالفرض مان لیا جائے کہ صرف آٹھ رکعات کا پڑھنا ہی رسول اللہﷺ کی سنت ہے لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بحثیت خلیفہ راشدان میں اضافہ فرما دیا اور تراویح کی بیس رکعات مقرر کر دیں تو اب صرف آٹھ رکعات کا پڑھنا سنت نہیں بلکہ بیس رکعات کا پڑھنا ہی سنت ہے ۔ کیونکہ نبی کریمﷺ نے اپنے فرمان علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (ترمذی جلد۲ص۹۴) میں اپنی سنت کی سنت کی طرح اپنے خلفائے راشدین کی سنت کو بھی امت کیلے لازم اور ضروری قرار دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ غیرمقلدین کے معتدل اور انصاف پسند علماء صرف آٹھ رکعات تراویح کو سنت نہیں کہتے بلکہ وہ بیس کو بھی سنت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ غیرمقلدین کے مجدد العصر نواب صدیق حسن خان صاحب ان نکتہ کو یوں بیان کرتے ہیں :۔ مقصود آنکه یاز دہ رکعت از آنحضرتﷺ مروی گشته وبسنت رکعت زیادت عمر(رضی اللہ عنہ ) بن الخطاب است وسنت نبویه در زیادت عمر(رضی اللہ عنہ ) پہ معمور پس آئی بزیادت عامل بسنت ہم باشد (ہدایۃ السائل ص۱۳۸)
مقصود یہ ہے کہ گیارہ رکعتیں آنحضرتﷺ سے منقول ہیں اور بیس رکعتیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اضافہ سے ہوئی ہیں۔ اضافہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مقرر کردہ تعداد میں سنت نبوی داخل و شامل ہے لہذا بڑھائی ہوئی تعداد (بیس رکعات) پر عمل کرنے والا بھی (رسول اللہﷺ کی) سنت پر عمل کرنے والا ہے۔
مولانا میاں غلام رسول صاحب اپنے رسالہ تراویح کے خطبہ میں فرماتے ہیں: بیس رکعات تراویح ادا کرنے سے آنحضرتﷺ کی سنت بھی ادا ہو جاتی ہے اور حضرات خلفاء راشدین کی سنت بھی اور اس میں اجر بھی زیادہ ہے۔ (رسالہ ترایح مع ترجمہ ینابیع ص۲۳)
اب غیرمقلدین حضرات اپنے اکابر کا یہ فیصلہ تسلیم کر لیں تو تراویح کے مسئلہ میں اختلافات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ دیدہ باید ۔
(10) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکور ہ حدیث پر غیرمقلدین کا خود اپنا عمل نہیں بلکہ ان کا عمل تو اس حدیث کے سراسر خلاف ہے کیونکہ:۔
(1) اس حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ پورا سال یہ نماز پڑھتے تھے جبکہ غیرمقلدین اس نماز کو صرف ماہ رمضان میں التزام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
(2) حدیث میں ہے کہ آپﷺ یہ آٹھ رکعات چار چار رکعت کی نیت سے دو سلام میں پڑھتے تھے۔ (صلوۃ الرسول ص۳۷۰) جبکہ غیرمقلدین ان آٹھ رکعتوں کو دو دو کرکے چار سلاموں میں پڑھتے ہیں۔
(3) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ تین وتر پڑھتے تھے اور مولانا عبدلرحمٰن مبارکپوری غیرمقلد لکھتے ہیں کہ ظاہر یہی ہے کہ وتر کی یہ تین رکعتیں ایک سلام کے ساتھ تھیں۔ (تحفۃ الاحوذی جلد۱ ص۳۳)
جبکہ غیرمقلدین صرف ایک وتر پڑھتے ہیں اور اگر کوئی تین وتر پڑھتا بھی ہے تو دو سلام کے ساتھ۔
(4) اس حدیث میں ہے کہ پیغمبرﷺ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے تھے جبکہ غیرمقلدین وتر سونے سے پہلے ہی پڑھ لیتے ہیں۔
(5) مذکورہ حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ یہ آٹھ رکعتیں نہایت خوبی اور درازی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن غیرمقلدین یہ آٹھ رکعتیں مختصر اور ہلکی پھلکی پڑھتے ہیں۔
(6) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حدیث میں جس نماز کا تذکرہ کر رہی ہیں وہ آپﷺ آخر شب (سحری کے وقت ) میں پڑھتے تھے۔ (بخاری جلد۱ ص۱۵۴) لیکن غیرمقلدین تراویح نماز عشاء کے متصل بعد پڑھتے ہیں۔
(7) آنحضرتﷺ یہ نماز سونے کے بعد پڑھتے تھے۔ (رسالہ تراویح ص۵۹)
جبکہ غیرمقلدین یہ نماز سونے سے پہلے ہی پڑھ لیتے ہیں۔
(8) اس حدیث میں نبی کریمﷺ کا یہ نماز گھر میں پڑھنا مذکورہے (کیونکہ حدیث ھذا میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور آپﷺ کے درمیان بات چیت کرنے کا جوذ کر ہے یہ دلیل ہے کہ یہ نماز آپﷺ گھر میں ہی پڑھتے تھے) بلکہ ایک روایت میں تو رسول اللہﷺ نے نماز تراویح کو گھر میں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ (بخاری جلد۱ص۱۵۴)
لیکن غیرمقلدین اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تراویح مسجد وں میں پڑھتے ہیں۔
(9) حدیث میں مذکور ہ نماز کو آپﷺ نے بلا جماعت ادا فرمایا لیکن غیرمقلدین اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں بلکہ ان کے فتاویٰ علمائے حدیث میں تو تروایح کے لیے جماعت کو شرط قرار دیا ہے۔ (فتاویٰ علمائے حدیث جلد۶ ص۲۴۳)
(10) اس حدیث میں ہے کہ نبیﷺ آٹھ رکعات پڑھنے کے بعد وتر بھی بلا جماعت پڑھتے تھے لیکن غیرمقلدین پورا رمضان وتر کو تروایح کے ساتھ باجماعت پڑھتے ہیں۔ تلك عشرۃ کاملۃ
غیرمقلدین حضرات نے اس حدیث کی صرف ایک شق (آٹھ رکعات) کو تولے لیا لیکن اس حدیث کی ان دیگر شقوں کو جوان کے موقف کے خلاف تھیں ٹھکرادیا گویا۔
میٹھا میٹھا ھپ ھپ کڑوا کڑوا تھو
اسی طرح و ہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے استدلال کرنے کی وجہ سے اپنے اوپر وار شدہ اعتراضات کا جواب دینے کیلئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قائم کردہ طریقہ جماعت سے تو استدلال کرتے ہیں لیکن ان کی مقرر کردہ بیس رکعات والی سنت کو ترک کر دیتے ہیں۔
یہ ہے غیرمقلدین کی آٹھ تراویح کے اثبات میں پہلی اور مرکزی دلیل جس کو وہ اپنے زعم میں ایک غیر متزلزل پہاڑ سمجھتے ہیں لیکن بحمد اللہ تعالٰی ہمارے ذکر کر دہ ان دس جوابات (جو غیرمقلدین کے مسلمات اور ان کے اکابر کی تصریحات کی روشنی میں ذکر کئے گئے ہیں) سے یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث کا غیرمقلدین کے دعویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس حدیث سے ان کا مدعا ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا۔ ان دس جوابات کے علاوہ اس دلیل کے اور بھی کئی جوابات ہمارے پیش نظر ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ان ہی دس جوابات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ انصاف پسند کیلئے یہی دس جوابات کافی ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment