بر صغیر اور اس سے ملحقہ کچھ ممالک میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی کچھ شریر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے امت کو تقسیم کرنے میں پورا زور لگاتے ہیں، ایمان تازہ کرنے اور نیکیوں کے اس موسم میں نت نئی خرابیوں کے علاوہ ایک اہم مسئلہ نماز تراویح کی رکعات کا ہے۔ شروع سے ہی امت میں متفقہ طور پر بیس رکعات تراویح ادا کی جاتی رہیں مگر ہندوستان کے کچھ لوگوں نے ماضی قریب میں اسے بھی متنازعہ بنا دیا۔ حرمین شریفین ، بلاد عرب ، شرق و غرب اور کرہ ارض پر موجود امتِ مسلمہ کی اکثریت بیس رکعات ادا کرتی ہے اور یہ جمہور کا مذہب ہے۔ عوام الناس کے ذہنوں میں موجود غلط فہمی اور ان لوگوں کی جہالت کو روکنے کی نیت سے پہلے کچھ روایات مستند کتبِ حدیث سے پیشِ خدمت ہیں جو کہ بیس ترایح پر دلیل و ثبوت ہیں۔
1۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان ثوری، ابن مبارک رضی اللہ عنہم وغیرہ بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : و اکثر اهل العلم علی ماروی عن علی و عمر غيرهما من اصحاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم عشرين رکعت و هو قول سفيان الثوری، و ابن المبارک و الشافعی و قال الشافعی هکذا ادرکت ببلد مکتة يصلون عشرين رکعت.(جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی قيام شهر رمضان، جلد 1)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اکثر اہل علم کا عمل اس پر ہے جو حضرت علی و حضرت عمر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، بیس رکعت۔ یہی حضرت سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی کا قول ہے، امام شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے شہر مکہ میں یہی عمل پایا کہ لوگ بیس رکعت پڑھتے ہیں۔
یہ روایت کس واضح اور روشن انداز میں بیان کر رہی ہے کہ امت کے جلیل القدر ائمہ کرام رضی اللہ عنہم متفقہ طور پر تراویح کی بیس رکعات کے قائل ہیں۔ اس روایت میں ائمہ اربعہ میں سے ایک امام سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کا نام شامل نہیں لیکن انہوں نے الگ سے احادیث شریف پر عظیم کتاب "موطا امام مالک" میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت نقل فرما کر اس فتنے کو لگام ڈال دی۔
کنا نقوم فی عهد عمر بعشرين رکعت ۔ (مؤطا امام مالک)
ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبد الرزاق میں امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم منقول ہے : یحی بن سعید کہتے ہیں کہ : ان عمر بن الخطاب امر رجلا ان يصلی بهم عشرين رکعة.(مصنف ابن ابی شيبه، 1 : 393، مصنف عبد الرزاق، 1 : 262)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔
قارئین کرام توجہ فرمائیے؛ وہ لوگ جو آٹھ تراویح کا شور کرتے ہیں ان کے پاس کوئی ایک ضعیف حدیث بھی نہیں ہے جس میں صراحت ہو کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھو اور یہاں اللہ کے حبیب ﷺ کے خلیفہ جناب عمر رضی اللہ عنہ حکماً فرما رہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پڑھو۔ سبحان اللہ عزوجل۔
اس کے علاوہ تراویح کی بیس رکعات پر علماء کرام کی تصانیف اور تحقیقات کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں میں چند سوالات درج کر رہا ہوں، جو لوگ آپ کے آس پاس میں آٹھ رکعات پڑھنے کے قائل ہیں ان سے یہ سوالات کیجئیے ا نشاء اللہ حق واضح ہو جائے گا۔
1۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حرم مکہ اور حرم مدینہ میں کبھی آٹھ رکعات نماز تراویح با جماعت ادا کی گئی ہو؟
2۔ شریعت اسلامیہ میں عمل کی ایک شرعی حیثیت ہوتی ہے، عمل یا تو غلط ہوتا ہے یا درست، اگر آپ کے نزدیک آٹھ تراویح درست ہیں تو حرمین شریفین میں آج بھی بیس رکعات با جماعت ادا کی جاتی ہیں۔ آپ دونوں میں سے کون غلط؟ حرمین شریفین والے یا آپ؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
3۔ ملتِ اسلامیہ میں اس وقت تقریباً ستاون اسلامی ممالک ہیں، کیا آپ بتا سکتے ہیں کسی ایک ملک میں سرکاری سطح پر آٹھ رکعات تروایح ادا کی جاتی ہیں؟
4۔ تروایح کی رکعات میں ہند و پاک کے علماء پر ہی کیوں اعتراض، آٹھ تراویح کی وکالت سعودی علماء کے سامنے کیوں نہیں کرتے؟ اور سعودی عرب میں آٹھ تراویح پڑھانے کے لئیے وہاں کے علماء پر کیوں زور نہیں دیتے؟
5۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیس تراویح کا حکم جاری فرمایا ، کیا آپ کوئی ایک ضعیف روایت بھی دکھا سکتے ہیں جس میں دور ِ عمر رضی اللہ عنہ یا ان کے بعد کے ائمہ و مشائخ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے ذرہ برابر اختلاف کیا ہو؟
6۔ اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے علماء و اسلاف اور قرنِ اولٰی کے ائمہ کو اختلاف نہیں تھا تو آپ کل کی پیداوار ہیں، آپ کس بنیاد پر اختلاف کر رہے ہیں؟
7۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین اور تمام بڑی مساجد میں با جماعت بیس رکعات تروایح ادی کی جاتی ہیں، ہندوستانی و پاکستانی غیر مقلد علماء وہاں موجود ہوتے ہیں، جب آپ کے سامنے ایک غیر شرعی عمل ہو رہا ہوتا ہے تو آپ کلمہ حق کیوں بلند نہیں کرتے اور ان لوگوں کو بیس رکعات کی ادائیگی سے کیوں نہیں روکتے؟
8۔ عالمِ اسلام کی عظیم درسگاہ جامعۃ الازہر کے مفتی، علماء اور فضلاء بیس رکعات پڑھتے ہیں، کیا آپ نے ہندوستان و پاکستان سے باہر نکل کر کبھی ان علماء کو بھی دعوتِ مناظرہ دی یا صرف ہند و پاک میں ہی فرقہ پرستی پھیلانا مقصود ہے؟
9۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں تراویح کا با جماعت عمل شروع کیا، بیس رکعات بھی انہیں سے ثابت، آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان حیات و موجود تھے، کسی ایک صحابی نے بیس رکعات پر اعتراض نہیں کیا، کسی ایک کتاب سے کوئی ایک اعتراض ثابت نہیں۔۔۔ تو اب ہم اصحابِ رسول کے قول و فعل کا اعتبار کریں گے یا آپ کی تاویلات مبنی بر جہالت مانیں؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
10۔ ہم اوپر لکھ چکے اور مزید ثابت کرنے کو تیار ہیں کہ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی بیس رکعات ثابت ہیں اور یہی چاروں امام امت اسلامیہ کے لئیے رہنماء ہیں، حرمین شریفین میں بھی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کی جاتی ہے تو اس قدری وزنی دلائل اور ائمہ امت کے اقوال کی موجود گی میں کیا یہ ضرورت باقی رہتی ہے کہ ہم ہندوستان میں پیدا ہونے والی کسی مولوی کی بات پر یقین کر کے تراویح کی رکعات آٹھ مان لیں؟
سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی) لک ھی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ،لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے․․․․ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ ۸ سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو۔
11۔ سعودی عالمِ دین جو کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے امام و شیخ تھے، انہوں نے آٹھ تروایح کو غلط سمجھا اور اس پر مکمل کتاب لکھ ڈالی اور کتاب بھی چیلنج سے بھرپور۔۔۔ آٹھ تراویح پڑھنے والوں نے آج تک اس کتاب کا جواب کیوں نہیں دیا؟ آپ دونوں میں سے کون غلط؟ امام مسجد نبوی یا آپ؟
صبحِ قیامت تک ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہو گا۔ میری گزارش ہے کہ تقسیم در تقسیم اس قوم پر رحم کیجئیے اور امت کے متفقہ مسائل میں شرانگیزی نہ کیجئیے۔ اس قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اس لئیے اگر آپ عملِ خیر نہیں کر سکتے تو ماہِ مقدس میں اپنی شرارتوں سے دوسروں کو اذیت بھی نہ دیجئیے۔ تمام قارئین و محبین سے گزارش ہے کہ تروایح کی بیس رکعات مکمل ادا کیجئیے۔ اس سے کم نوافل ہو سکتے ہیں تراویح نہیں ہو گی۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment