غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات رمضان المبارک کی آمد کے قریب واویلا شروع کردیتے ہیں کہ تراویح آٹھ (8) رکعات ہیں اس طرح اس بابرکت مہینے میں اہل ایمان کو اللہ کی عبادت سے روکتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو تہجد کی نماز والی احادیث دیکھا اور سنا کر گمراہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں لو جی تراویح آٹھ (8) رکعات ہیں مگر آج تک ایک بھی حدیث پیش نہیں کر سکے جس میں آٹھ (8) رکعات نماز تراویح کا لفظ تراویح کے ساتھ ذکر ہو اللہ انہیں ہدایت دے آمین آیئے ہم بیس (20) رکعات نماز تراویح پر مستند دلائل پیش کرتے ہیں پڑھیئے اور بابرکت ماہ میں اپنے کریم رب عز و جل کی کی عبادت کثرت سے کر کے شیطان اور اس کی ذریت کو شکست دیجیئے اہل علم کہیں غلطی پائیں تو اصلاح فرمائیں جزاکم اللہ خیرا ۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ابوبکر جنتی ہے عمر جنتی ہے عثمان جنتی ہے علی جنتی ہے طلحہ جنتی ہے سعد جنتی ہے سعید جنتی ہے ابو عبید جنتی ہے عبدالرحمن بن عوف جنتی ہے۔(رضی اللہ عنہم) (مشکوۃ باب فضا ئل صحابہ رضی اللہ عنہم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ آپ ﷺٗ نے ارشاد فرمایا اخیر زمانہ میں دجال (جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے )پیدا ہونگے وہ تم کو ایسی حدیثیں سنائیں گے جو تمھارے باپ دادا نے بھی نہیں سنی ہونگی تو بچتے رہنا ان سے ایسا نہ ہوکہ وہ تم کو گمراہ کردیں اور آفت میں ڈال دیں ۔
(مسلم شریف ترجمہ وحید الزماں غیر مقلد وہابی عالم جلد ۱ ص ۴۲)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺٗ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ میری امت کو جمع نہیں کریں گے یا امت محمدیہ ﷺ کوگمراہی پر جمع نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جماعت پر اور جو شخص جدا ہوا جماعت سے وہ آگ میں گرا۔ (جامع ترمذی جلد 2ص 39)
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ تم لوگ میرے بعد شدید اختلاف دیکھو گے اس وقت تم میری سنت اور خلفائے راشدین مہدین کی سنت اختیار کرو اور اُسے داڑھوں سے مظبوطی سے پکڑو۔ (مسند احمد ،سنن ابی داؤد،جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ص 5)
اس حدیث میں سنت خلفائے راشدین کا عطف سنت رسول ﷺٗ پر ہے جو متقضٰی اس امر کو ہے کہ خلفائے راشدین خواہ سنت نبوی ﷺٗ کو بیان کریں خواہ مسائل اجتہاد یہ میں اجتہاد کریں بہر صورت خلفائے راشدین کی اتباع لازم ہے اس لئے کہ ’’ علیکم کلمہ لزوم ‘‘ کا ہے ’’تمسکو ابھا علیھا بالنواجز‘‘سنت نبوی ﷺٗ اور سنت خلفائے راشدین دونوں کے ساتھ لگتا ہے۔
امام الانبیاء سرورکونین نبی اکرم نور مجسّم ﷺٗ کے مبارک دور میں 20 رکعات تراویح : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرما یا کہ نبی کریم ﷺٗ رمضان المبارک کی ایک رات باہر تشریف لائے تو لوگوں کو آپ ﷺٗ نے 24رکعتیں (4رکعت عشاء اور 20رکعات تراویح )تین وتر پڑھائے۔ (تاریخ جرجان لابی قاسم حمزہ ص 317بیروت)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺٗ نے رمضان میں 20 رکعات تراویح اور وتر ادا فرمائی ۔ (اخرجہ عبد ابن حمیدفی مسند والبغوی فی مجمعہ والطبرانی فی الکبیراو بہقی فی سننہ کذا اوجزا المسالک جلد 2ص 398)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺٗ نے رمضان میں 20 رکعات تراویح اوروتر پڑھتے تھے ۔ (مصنف ابی شیبہ ص 286جلد 2)
تراویح کے متعلق نبی کریم ﷺٗ کے ارشادات : حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺٗ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کئیے ہیں اور میں نے اس کی تراویح کو تمھارے لئے سنت بنایا ہے پس جو شخص اسکے روزے رکھے اور اسکی تراویح پڑھے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوجائے گا کہ جس دن اسکی ماں نے اسے جنا تھا۔ (اخرجہ نسائی سند حسن و سکت عنہ ،اعلاء السنن ص 38 جلد7)
خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دور میں 20 رکعات تراویح : حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں 20رکعات تراویح پڑھتے تھے اور یہی عمل حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھا۔(بہقی باسند صحیح اور اوجزالمسالک ص397جلد2)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورمیں 20رکعات تراویح پڑھتے تھے۔(قال النووی فی شرح المذاہب ص 32جلد4)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان کے مہینے میں لوگوں کو 20 رکعات اوروتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابی شیبہ س393جلد2)
حضرت سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ و تابعین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ماہ رمضان میں 20رکعت تراویح پڑھتے تھے اور معین سورتیں نماز میں پڑھتے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں زیادہ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر سہارا کرلیا کرتے تھے۔ (سنن کبریٰ بہقی ص 496جلد 2)
حضرت زید بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم ہم کو رمضان کے مہینے میں نماز پڑھاتے تھے پھر چلے جاتے اور ابھی رات ہوتی۔امام اعمش ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ان کو 20رکعات تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔(رواہ محمد بن نصر مروزی فی قیام الیل ص 107مطبوعہ اثریہ سانگلہ ہل)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قاریوں کو بلوایا اور ان سے ایک کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو 20رکعات تراویح پڑھائے اور خود لوگوں کو تین وتر پڑھاتے تھے۔
(سنن کبریٰ ص 496جلد2)
تابعین عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دور میں 20 رکعات تراویح : حضرت سوید بن غفلہ ؒ جو عمر میں امام الانبیاء شافع محشر ﷺٗ سے 3سال چھوٹے تھے ۔وہ امامت کراتے تھے حضرت ابوالخصیب ؒ فرماتے ہیں سوید بن غفلہ ؒ ہمیں رمضان میں 5 تراویحات یعنی20 رکعات تراویح پڑھاتے تھے۔ (سنن کبریٰ بہقی ص 496جلد 2)
حضرت ابوالبختری ؒ سے مروی ہے کہ وہ رمضان میں 5 ترویحات یعنی 20رکعات تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔
حضرت سعید بن ابی عبید ؒ سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ربیعہ ؒ 5تراویحات یعنی 20رکعات تراویح اور تین وتر پڑھتے تھے ۔ (مصنف ابی شیبہ ص 393جلد2)
حضرت شیتر بن شیکل ؒ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے تھے رمضان میں امامت کراتے تھے اور 20رکعات (تراویح)پڑھاتے تھے۔
(سنن کبریٰ ص 496جلد2)
حضرت سعید بن جبیر ؒ جو کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے شاگرد ہیں ۔(رمضان میں )چوبیس رکعات پڑھاکرتے تھے۔
(تحفۃ الاخودی ص 83جلد2)
امام اعظم نعمان بن ثابت ؒ (المتوفی 150ہجری)20رکعات (تراویح) کے قائل تھے۔ (فتاویٰ قاضی خان ص 112جلد1)
جمہور اہل سنت و جماعت علیہم الرّحمہ اور20 رکعات تراویح : امام ترمذی ؒ ۔ امام محمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن موسیٰ الترمذیؒ فرماتے ہیں کہ اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ اصحاب رسول ﷺٗ سے مروی ہے کہ نماز تروایح 20رکعات ہیں۔امام سفیان ثوری ؒ اور امام عبداللہ بن مبارک ؒ اور امام شافعی ؒ کا بھی یہی قول ہے۔ (جامع ترمذی جلد 1ص99)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس بن عباس شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اس پر ہم نے مکہ میں لوگوں کو پایا کہ وہ 20رکعات تراویح ہی پڑھتے ہیں۔(جامع ترمذی جلد 1ص99)
الشیخ محی الدین ابو ذکریایحیےٰ بن شرف نووی ؒ فرماتے ہیں کہ جان لو تراویح 20رکعات سنت ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ (کتاب الاذکار ص 281بیروت)
الشیخ ابو حامد محمد بن محمد الغزالی الشافعی ؒ فرماتے ہیں کہ تراویح 20رکعات ہیں اور اسکی کیفیت مشہور ہے اور یہ سنتِ موکدہ ہے۔(احیاء العلوم ص167جلد1)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (صحابہ و تابعین)کو رمضان میں 20رکعات تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے پس سارے علماء نے اسی کو سنت کہا ہے اس لئے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصا ر صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اسکو جاری فرمایااور کسی انکار کرنے والے نے انکار نہیں کیا ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ص 68جلد23مطبوعہ دارالجلیل مکتبہ سعودی عرب)
الشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ عشاہ کے فرض اور 2سنت پڑھنے کے بعد تراویح شروع کی جائیں کیونکہ حضور ﷺٗ نے یہ نماز اسی طرح پڑھی ہے یہ 20رکعات ہیں ہر دو رکعت کے بعد قعدہ کرے اور سلام پھیرے۔ (غنیۃ الطالبین اردو ص 470فرید بک سٹال اردو بازار لاہور)
علامہ ابن رشد القرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ امام مالک ؒ کے قول میں امام اعظم ؒ امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ اور امام داؤد ؒ کے نزدیک 20رکعات تراویح ہیں (بدایۃ المجتہد ص152ض جلد 1)
ملا علی قاری ؒ الحنفی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اجماع کیا تھا کہ تراویح 20رکعات ہیں۔ (مغنی ص 802جلد1)
امام موفق بن قدامہ ؒ فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان میں تراویح 20رکعات ہیں اور سنت موکدہ ہیں۔ (مغنی ص 802جلد1)
علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں کہ تراویح سنت موکدہ ہے کیونکہ خلفائے راشدین کا اس پر اجماع ہوگیا ہے اور یہ عشاہ کی نماز کے بعد ہیں اور یہ 20رکعات ہیں۔ (فتاویٰ شامی ص511جلد۱)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام عبدالوہاب شعرانی ؒ فرماتے ہیں اور اسی قبیل سے امام اعظم ؒ امام م شافعی ؒ اور امام احمدؒ کے اقوال ہیں کہ نماز تراویح ماہ رمضان میں 20رکعات ہیں اور اسکا باجماعت ادا کرنا افضل ہے۔ (میزان شعرانی ص 153)
20رکعات تراویح پر اجماع امت : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک شخص کو حکم کیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو 20رکعات تراویح پڑھایا کرے اور مثل اجماع کے ہے ۔ (مغنی لابن قدامہ ؒ ص127جلد2)
امام نووی ؒ شافعی لکھتے ہیں ’یعنی پھر 20رکعات تراویح پر امر مستقر ہوگیا پس یہی متواتر مسلسل عمل ہے۔‘
علامہ ابن حجر مکی شافعی ؒ فرماتے ہیں لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ تراویح 20رکعات ہیں۔ (انارۃ المصابیح ص 18)
یعنی رمضان میں 20رکعات تراویح سنت موکدہ ہے اور ان کا سنت ہونا اجماع سے ثابت ہے۔ (نیل المآ رب )
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ دوم کے زمانے میں باجماعت 20رکعات تراویح پر اجماع ہو ۔ملاعلی قاری ؒ فرماتے ہیں ’’اجمع الصحابہ علیٰ ان التراویح عشرون رکعۃ‘‘ (مرقاۃ ص 194جلد3)
وبالاجماع الذی وقع فی زمن عمر اخذ ابو حنیفہ والنووی والشافعی و الاحمد الجمہور واختارہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالیٰ (اتحاف سادۃ المتقین ص 422جلد3)
وثبت اھتمامہ الصحابہ علی عشرین فی عہد عمر و عثمان و علی فمن بعد ھم (حاشیہ شرح وقایہ مولانا عبدالحئی لکھنوی)
امام نووی ؒ بالاتفاق المسلمین کے لفظ سے اور ابن تیمیہ ؒ فلماجمعھم عمر وابن ابی کعب رضی اللہ عنھم سے اس اجماع کو ذکر فرماتے ہیں ۔(کتاب الاذکار ص 83،فتاویٰ ابن تیمیہؒ ص 401جلد4)
علامہ قاضی خان ؒ فرماتے ہیں وھوالمشہور من الصحابہ التابعین۔ (فتاویٰ قاضی خان ص110)
علامہ ابن عبدالبر ؒ فرماتے ہیں وھو الصحیح عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ من غیر خلاف من الصحابۃ یعنی یہی قول (20رکعت)صحیح ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت والال صحابہ میں سے کسی نے اس سے اخلاف نہیں کیا۔ (عمدہ القاری ص262جلد 5)
اسلامی مراکزجن میں قرون اولیٰ سے آج تک 20رکعات تراویح تسلسل سے جاری ہے
بیت اللہ شریف مکہ ۔ مسجد نبویﷺٗ مدینہ ۔ جامع مسجد دمشق شام ۔ مسجد قباء مدینہ ۔ مسجد قبلتین مدینہ ۔ جامعہ مسجد کوفہ عراق ۔ مسجد اقصیٰ فلسطین ۔ جامع مسجد بغداد عراق ، دیگر مساجد جن میں تعمیرسے لے کر آج تک 20رکعات تراویح تسلسل ہے ۔ جامع مسجد غزنی ۔افغانستان ۔ بادشاہی مسجد دہلی ۔انڈیا ۔ بادشاہی مسجد لاہور۔پاکستان
جامع مسجد داتا دربار لاہور پاکستان ۔ جامع مسجد جامعہ الازہر قاہرہ۔مصر ۔ فیصل مسجد اسلام آباد۔پاکستان ۔ جامع مسجد کابل ۔افغانستان ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور عمل غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث حضرات : یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺٗ کی نماز کیسی تھی تو فرمایا کہ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑتھے تھے۔4رکعت ایسے پڑھتے تھے کہ ان کے حسن طول سے مت پوچھو پھر 4رکعت ایسی پڑتھے تھے کہ ان کے حسن طول کا مت پوچھو پھر 3رکعت پڑھتے تھے عرض کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یا رسول اللہ کیا آپ سوتے ہیں قبل وتر کے فرمایا رسول اللہ ﷺٗ نے اے عائشہ میری دونوں آنکھیں سوتیں ہیں میرا دل نہیں سوتا ‘‘ (صحیح بخاری ص154جلد1)
حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے 8رکعت تراویح پر استدلال کرنا کئی وجوہ سے مخدوش ہے :
(1) یہ ایسی نماز کے بارے میں ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں پڑھی جاتی ہے وہ تہجد کی نماز ہے۔رمضان و غیر رمضان کی تصریح حدیث میں خود موجود ہے۔
۲۔تراویح باجماعت پڑھی جاتی ہے اور اس حدیث میں انفرادی نماز کا ذکر ہے ۔
۳۔تراویح دو دو رکعت پڑھی جاتی ہے مذکورہ بالا حدیث میں چار چار رکعت کا ذکر ہے۔
(2) اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عہد فاروقی ،عہد عثمانی ،عہد علوی ،عہد معاویہ رضی اللہ عنہم میں باوجود مسجد نبوی کے متصل گھر ہونے کے کبھی بھی 20رکعت تراویح پڑھنے والوں کے خلاف پیش نہیں کیا۔
غیر مقلدین کی مخالفت حدیث : غیر مقلدین (نام نہاد اہل حدیث )حضرات کا خود اس حدیث پر عمل نہیں ہے ۔
(1) ایک یہاں غیر رمضان کا ذکر ہے یہ لوگ غیر رمضان میں تراویح نہیں پڑھتے۔
(2) یہاں چار چار رکعت کا ذکر ہے یہ لو گ دو دو کر کے پڑھتے ہیں ۔
(3) حدیث میں گھر میں نماز پڑھنے کا ذکر موجود ہے یہ حضرات مسجد میں پڑھتے ہیں ۔
(4) حدیث میں تین وتر کا ذکر موجود ہے یہ حضرات ایک وتر پڑھتے ہیں ۔
۵۔یہاں بغیر جماعت کا ذکر ہے یہ حضرات باجماعت پڑھتے ہیں ۔
حدیث نبوی ﷺ اور عمل غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث حضرات : (1) آ ج کل غیر مقلدین چاند رات سے نماز تراویح باجماعت شروع کرتے ہیں حالانکہ آنحضرت ﷺٗ نے ساری زندی میں ایک بار بھی چاند رات سے یہ جماعت نہیں کرائی۔
(2) آج کل غیر مقلدین حضرات پورا مہینہ رمضان تراویح باجماعت ادا کرتے ہیں حالانکہ آنحضرت ﷺٗ نے مسجد میں آئے ہوئے لوگوں سے فرمایا تھا کہ اپنے گھروں میں پڑھو۔
(3) آج کل غیر مقلدہر سال رمضان میں تراویح باجماعت ادا کرتے ہیں حالانکہ آنحضرت ﷺٗ نے صرف ایک سال رمضان کے آخری عشرے میں صرف تین دن جماعت کروائی ۔چاند رات سے تراویح شروع کرنا ، پورا مہینہ تراویح پڑھنا اور 20رکعات پڑھنا یہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت ہے ۔
نوٹ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں 20رکعات تراویح باجماعت شروع ہوئی اس کے بعد پوری امت میں سے کسی نے بھی 20رکعات سے کم نہیں پڑھی صرف اور صرف ایک صحیح حدیث جس میں 8رکعات تراویح باجماعت کے صریح الفاظ موجود ہوں اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین ،اور فقہاء ، محدثین ،مفسرین،مترجمین،آئمہ کرام،سلاطین ،و خلفاء کا تعامل رہا ہو پیش کردیں ۔وگرنہ آقا ﷺٗ کا فرمان یاد رکھیں ’’ وید اللہ علی الجماعۃ ومن شذ شذالیٰ النار ‘‘ ترجمہ ۔اللہ کا ہاتھ ہے جماعت پر اور جو شخص علیحدہ ہوا جماعت سے وہ آگ میں گرا۔(جامع ترمذی ص 39جلد2)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
غیر مقلدین اور 20رکعات تراویح :
(1) 20رکعات تراویح پڑھنے میں کوئی حرج نہیں (فتاویٰ اہل حدیث ص 303جلد 2از عبداللہ محدث روپڑی ادارہ احیاء الستۃ النبویہ ڈی بلاک سیٹلائٹ تاؤن سرگودھا))
(2) پس منع از بست و زیادہ چیزے نیست یعنی پس منع کرنا 20رکعات تراویح یا زیادہ کوئی چیز نہیں ۔(عرف الجادی ص 84)
(3) نواب صدیق الحسن خان لکھتے ہیں پس آتی بزیادت عامل بسنت ہم باشد الخ یعنی گیارہ رکعات سے زیادہ تراویح پڑھنے والا بھی سنت پر عامل ہے۔(ہدایت السائل ص 118)
تابعین عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جن کے دور میں 20رکعات تراویح ہوتی رہی : حدیث۔وقال علیہ السلام خیر القرون قرنی ثم الزین یلونھم ثم الذین یلونھم ۔ حسن بصری،عطا بن رباح ،قتادہ،علقمہ،سعید بن جبیر،قاسم بن محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ،زین العابدین بن علی بن حسین رضی اللہ عنہبن علی رضی اللہ عنہ،عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ،سوید بن غفلہ،سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہبن عمررضی اللہ عنہ،نافع،علی بن ربیعہ،علامہ ابن سیرین،امام ابو حنیفہ،سلمان التیمی،عبدالرحمن بن یزید،ابراہیم نخعی ،اسود،مسروق،عمر بن عبدالعزیز،ولید بن الملک ،عبدالعزیز بن رفیع،شیتر بن شکل،سعید بن ابی الحسن،ابن ابی ملیکہ ۔
فقہاء و ائمہ کرام علیہم الرّحمہ : جن کے دور میں 20رکعات تراویح ہوتی رہی
حدیث۔قال رسول اللہ ﷺ فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد ۔ علقمہ،ابراہیم نخعی،امام حماد،عطا بن رباح ،امام ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی،عبداللہ بن مبارک،سفیان ثوری،امام ابو یوسف،امام احمد بن حنبل،امام حسن،اعمش،امام زفر،امام داؤد،اسو بن عمرو،قاسم بن معن،محمد بن المنکدر،یحیےٰ بن زکریا،نافع بن ابی نجیع،عطا بن عبداللہ خراسانی،یحیےٰ بن کثیر،مکحول،اوازعی،ضحاک بن مزاحم ۔
محدثین عظام علیہم الرّحمہ : جن کے دور میں 20رکعات تراویح ہوتی رہی امام مالک ،ابن ابی شیبہ،امام نافع،ابن عبدالرزاق،امام بخاری،امام مسلم،امام ترمذی،امام ابو داؤد،ابن ماجہ،امام نسائی،امام طحاوی،امام نووی،دارمی،مروزی،ابن حجر عسقلانی ،حماد،عبداللہ بن مبارک،شیخ ابو طاہر مدنی،ربیع بن سبیع،سفیان بن عنینہ،حافظ حسام الدین ،شاہ ولی اللہ،شاہ عبدالعزیز ۔
صوفیاء کرام علیہم الرّحمہ : جن کے دور میں 20رکعات تراویح ہوتی رہی : خواجہ حسن بصری،حبیب عجمی،ابوالحسن خرقانی،قاسم بن محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ،جنید بغدادی،بایزید بسطامی،سفیان ثوری،محمود انجیر فغنوی،جعفر صادق،موسیٰ کاظم،سید میر کلاں ،بہاؤالدین نقشبند،عبدالقادر جیلانی،علی بن عثمان داتا گنج بخش ہجویری،معین الدین چشتی،قطب الدین بختیار کاکی،نظام الدین اولیاء ،علاؤالدین صابر کلیر،خواجہ فرید الدین،عبدالقدوس گنگوہی،شہاب الدین سہروردی،مجدد الف ثانی ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment