ساری امت رسول ﷺ کا اس پر اتفاق ہے کہ تراویح آٹھ رکعت نہیں۔ ہاں اکثر مسلمان بیس پڑھتے ہیں اور بعض مسلمان چالیس البتہ غیرمقلد وہابی وہ فرقہ ہے جسے نماز گراں ہے محض نفس پر بوجھ سمجھ کر تراویح صرف آٹھ رکعت پڑھ کر سو رہتے ہیں اور کچھ روایتوں کا بہانہ بناتے ہیں۔ اس لئے ہم اس مسئلہ کو تفصیل سے لکھتے ہیں۔ پہلے بیس رکعت تراویح کے پھر غیر مقلد وہابیوں کے اعتراضات مع جوابات لکھیں گے ان شاء اللہ اہل ایمان ایک بار ضرور پڑھیں جزاکم اللہ خیرا
بیس رکعت تراویح کا ثبوت : بیس رکعت تراویح سنت رسول ﷺ سنت صحابہ سنت عامۃ المسلمین ہے آٹھ رکعت تراویح خلاف سنت ہے۔ دلائل ملاحظہ ہوں۔
ابن ابی شیبہ، طبرانی نے کبیر میں، بیہقی، عبدابن حمید اور امام بغوی نے سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت کی
ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ سری الوتروزارالبیہقی فی غیرجماعۃ
’’بیشک نبی ﷺ ماہِ رمضان شریف میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے وتر کے علاوہ بیہقی نے یہ زیادہ فرمایا کہ بغیر جماعت تراویح پڑھتے تھے‘‘۔
معلوم ہوا کہ خود حضور ﷺ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ جن روایات میں آیا ہے کہ آپ نے صرف تین تراویحوہاں باجماعت پڑھنا مراد ہے یعنی بغیر جماعت تو ہمیشہ پڑھتے تھے جماعت سے صرف تین دن پڑھیں۔ لہٰذا احادیث میں تعارض نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تراویح سنت موکدہ علی العین ہے کہ حضور نے ہمیشہ پڑھی اور لوگوں کو رغبت بھی دی۔
کان الناس یقومون فی زمن عمر الخطاب فی رمضان بثلث وشرین رکعۃ
’’حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں رمضان میں لوگ تئیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے‘‘
اس سے دو مسئلہ معلوم ہوئے ایک یہ کہ تراویح بیس رکعت ہیں۔ دوسرے یہ کہ وتر تین رکعت ہیں۔ اسی لئے کل تئیس رکعتیں ہوئیں۔
بیہقی نے معرفہ میں صحیح اسناد سے حضرت سائب ابن یزید سے روایت کی ۔
قال کنا نقوم فی عھد عمر بعشرین رکعۃ والوتر
’’ہم صحابہ کرام عمر فاروق کے زمانہ میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے‘‘
ابن منیع نے حضرت ابی ابن کعب رضی اﷲ عنہ سے روایت کی : ان عمر ابن الخطاب امرہ ان تصلی باللیل فی رمضان قالن ان الناس یصومون النھار ولا یحسنون ان یقرء وافلوقرات ولیہم باللیل قال یا امیر المؤمنین ہذا شیٔ لم یکن فقال فقد علمت ولکنہ حسن فصلی بھم عشرین رکعۃ
’’حضرت عمر نے او نہیں حکم دیا کہ تم لوگوں کو رات میں نمازِ تراویح پڑھائو کیونکہ لوگ دن میں روزہ رکھتے ہیں اور قرآن کریم اچھی طرح نہیں پڑھ سکتے بہتر یہ ہے کہ تم ان پر قرآن پڑھا کرو رات میں حضرت ابی نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین یہ وہ کام ہے جو اس سے پہلے نہ تھا آپ نے فرمایا میں جانتا ہوں۔ لیکن یہ اچھا کام ہے تو حضرت ابی نے ان کو بیس رکعتیں پڑھائیں‘‘۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ عہد فاروقی سے پہلے مسلمانوں میں تراویح جاری ہی تھی۔ مگر باجماعت اہتمام سے ہمیشہ تراویح کا رواج حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ سے ہوا اصل تراویح سنت رسول اﷲ ہے اور جماعت اہتمام ہمیشگی سنت فاروقی ہے۔
دوسرے یہ کہ بیس رکعت تراویح پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہوا۔ کیونکہ حضرت ابی ابن کعب نے تمام صحابہ کو بیس رکعت پڑھائیں۔ صحابہ کرام نے پڑھیں۔ کسی نے اعتراض نہ کیا۔
تیسرے یہ کہ بدعت حسنہ اچھی چیز ہے کہ حضرت ابی بن کعب نے عرض کیا کہ جماعت تراویح کی باقاعدہ جماعت اہتمام سے بدعت ہے اس سے پہلے نہ ہوئی۔ فاروق اعظم نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے واقعی یہ بدعت ہے مگر اچھی ہے۔
چوتھے یہ کہ جو کام حضور کے زمانہ میں نہ ہو وہ بدعت ہے ۔اگرچہ عہد صحابہ میں رائج ہو کہ تراویح کی جماعت اگرچہ زمانہ فاروقی میں ہوئی۔ مگر اسے بدعت حسنہ فرمایا گیا۔
بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابو عبدالرحمن سلمیٰ سے روایت کی:
ان علی ابن ابی طالب دعا القراء فی رمضان رجلا یصلی بالناس خمس ترویحات عشرین رکعۃ وکان علی یوتربھم
’’کہ علی رضی اﷲ عنہ نے رمضان شریف میں قاریوں کو بلایا پھر ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت پڑھائوحضرت علی اُو نہیں وتر پڑھاتے تھے‘‘۔
بیہقی شریف نے حضرت ابوالحسناء سے روایت کی:
ان علی ابن ابی طالب امر رجلا یصلی بالناس خمس ترویحات عشرین رکعۃ
’’حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعت پڑھائیں‘‘۔
بطورِ نمونہ چند حدیثیں پیش کی گئیں ورنہ بیس رکعت کی احادیث بہت ہیں ۔
عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تراویح بیس رکعت ہوں نہ کہ آٹھ چند وجوہ سے ایک یہ کہ دن رات میں بیس رکعت فرض و واجب ہیں ۱۷ رکعت فرض تین رکعت واجب ماہِ رمضان میں بیس تراویح پڑھی جاویں۔ ان رکعات کی تکمیل اور مدارج بڑھانے کیلئے لہٰذاآٹھ رکعت تراویح بالکل خلاف قیاس ہیں۔
دوسری یہ کہ صحابہ کرام تراویح کی ہر رکعت میں ایک رکوع پڑھتے تھے بلکہ قرآن کریم کے رکوع کو رکوع اسی لئے کہتے ہیں کہ اتنی آیات پر حضرت عمر و عثمان و صحابہ کرام رکوع میں رکوع کرتے تھے۔ اور ستائیسویں شب کو ختم قرآن ہوتا تھا۔ آٹھ رکعت ہوتیں تو چاہیئے تھا کہ قرآن کریم کے رکوع کل دوسوسولہ(۲۱۶) ہوتے حالانکہ قرآن کریم کے کل رکوع ۵۵۷ ہیں بیس رکعت کے حساب سے ۵۴۰ رکوع ہوتے ہیں۔ کوئی وہابی صاحب آٹھ رکعت تراویح مان کر قرآن کریم کے رکوع کی تعداد کی وجہ بیان فرمادیں۔
تیسرے یہ کہ تراویح ترویحہ کی جمع ہے۔ ترویحہ ہر چار رکعت کے بعد کچھ دیر بیٹھ کر راحت کرنے کو کہتے ہیں۔ اگر تراویح آٹھ رکعت ہوتیں تو بیچ میں ایک ترویحہ ہوتا۔ اس صورت میں اس کا نام تراویح جمع نہ ہوتا جمع کم از کم تین پر بولی جاتی ہے۔
علمائے امت کا عمل
ہمیشہ سے قریباً ساری امت کا عمل بیس رکعت تراویح پر رہا۔ اور آج بھی ہے۔ حرمین شریفین اور ساری دنیا کے مسلمان بیس رکعت تراویح ہی پڑھتے ہیں۔
واکثراھل العلم علی ماروی عن علی وعمر وغیرھما من اصحاب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم عشرین رکعۃ وھوقول سفیان الثوری وابن مبارک والشافعی قال الشافعی ھکذا ادرکت بلدمکہ یصلون عشرین رکعۃ
’’اور اکثر علماء کا عمل اسی پر ہے جو حضرت عمر و علی و دیگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے منقول ہے یعنی بیس رکعۃ تراویح اور یہ ہی سفیان ثوری ابن مبارک اور امام شافعی رحمۃ اﷲ کا فرمان ہے امام شافعی نے فرمایا کہ ہم نے مکہ والوں کو بیس رکعۃ تراویح پڑھتے پایا‘‘۔
عمدہ القاری شرح بخاری جلد پنجم صفحہ نمبر ۳۵۵ میں ارشاد فرمایا:قال ابن عبدالبر وھو قول جمھور العلماء وبہ قال الکوفیون والشافعی واکثر الفقھاء وھو الصحیح عن ابی ابن کعب من غیر خلاف من الصحابہ
’’ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ بیس رکعت تراویح ہی جمہور علماء کا قول ہے یہ ہی کوفی حضرات اور امام شافعی اور اکثر علماء فقہاء فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے ابن ابی کعب سے منقول ہے اس میں صحابہ کا اختلاف نہیں‘‘۔
مولانا علی قاری شرح نقایہ میں بیس رکعت تراویح کے بارے میں فرماتے ہیں
فصاراجماعالما روی البیہقی باسناد صحیح کانوا یقیمون علی عھد عمر رکعۃ وعلی عھد عثمان وعلی عشرین
’’بیس رکعت تراویح پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ کیونکہ بیہقی نے صحیح اسناد سے روایت کی صحابہ کرام اور سارے مسلمان حضرت عمرو عثمان و علی رضی اﷲ عنہم کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے‘‘۔
علامہ ابن حجر بینمی فرماتے ہیں : اجماع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃ
’’تمام صحابہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ تراویح بیس رکعت ہیں‘‘
ان تمام حوالوں سے معلوم ہوا کہ بیس رکعت تراویح سنت رسول اﷲ ﷺ ہے بیس رکعت تراویح پر صحابہ کا اجماع ہے۔ بیس رکعت تراویح پر عام مسلمانوں کا عمل ہے۔ بیس رکعت تراویح حرمین شریفین میں پڑھی جاتی ہیں۔ بیس رکعت تراویح عقل کے مطابق ہیں ، بیس رکعت تراویح قرآنی رکوعات کی تعداد کے مناسب ہیں۔ بلکہ آج حرمین طیبین میں نجدیوں کی سلطنت ہے مگر اب بھی وہاں بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی ہیں۔ جس کا جی چاہے جاکر دیکھ لے۔ نہ معلوم ہمارے ہاں کے وہابی غیر مقلد کس کی تقلید کرتے ہیں۔ جو آٹھ رکعت تراویح پڑھتے ہیں۔آٹھ رکعت تراویح سنت رسول کے خلاف، سنت صحابہ کے خلاف، سنت مسلمین کے خلاف، سنت علماء کے خلاف، سنت حرمین طیبین کے خلا ف ہے۔ ہاں ہوا نفس کے مطابق ہے کہ نماز نفس امارہ پر بوجھ ہے رب تعالیٰ نفس امارہ کے پھندوں سے نکالے اور سنت رسول پرعمل کی توفیق بخشے۔ آمین۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بیس رکعت تراویح پر اعتراضات و جوابات : حقیقت یہ ہے کہ غیر مقلدوں کے پاس آٹھ رکعت تراویح کی کوئی قوی دلیل نہیں کچھ اوہام رکیکہ اور کچھ شبہاتِ فاسدہہیں۔ دل تو نہیں چاہتا تھا کہ ہم ان کا ذکر کریں مگر بحث مکمل کرنے کے لئے ان کے اعتراضات مع جوابات عرض کرتے ہیں۔ رب تعالیٰ انہیں ہدایت نصیب کرے۔
اعتراض نمبر1 : امام مالک نے سائب ابن یزید رضی اﷲ عنہ سے روایت کی:
انہ قال امر عمر ابن الخطاب ابی ابن کعب وتمیم الداری ان یقوما للناس باحدی عشرۃ رکعۃ الخ ۔ وہ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اﷲ عنہ نے ابی ابن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے آٹھ تراویح کا حکم دیا تھا۔ اگر تراویح بیس رکعت ہوتیں تو کل رکعات ۲۳ بنتیں مع وتر کے۔
جواب: اس کے چند ابواب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ حدیث تمہارے بھی سخت خلاف ہے۔ کیونکہ اس حدیث سے جہاں آٹھ تراویح کا ثبوت ہوا۔ وہاں ہی تین وتر کا بھی ثبوت ہوا تب ہی تو کل گیارہ رکعتیں ہوگی۔ آٹھ تراویح تین وتر۔ اگر وتر ایک رکعت ہوتی تو کل نو رکعتیں ہوتیں۔ نہ کہ گیارہ۔ بتائو تم ایک رکعت وتر کیوں پڑھتے ہو کیا ایک ہی حدیث کے بعض حصہ کا اقرار ہے بعض کا انکار۔ لہٰذا اس روایت کا جو تم جواب دو گے وہی ہمارا جواب ہے۔
دوسرے یہ کہ اس حدیث کے راوی محمدابن یوسف ہیں ۔ ان کی روایات میں سخت اضطراب ہو ۔ موطاء امام مالک ی اس روایت میں تو ان سے گیارہ رکعتیں منقول ہوئیں۔ اور محمد ابن نصر مروزی نے انہیں سے تیرہ رکعتیں نقل کیں۔ محدث عبدالرزاق نے انہیں سے اکیس رکعتیں نقل فرمائیں دیکھو فتح البہاری شرح بخاری جلد چہارم صفحہ نمبر ۱۸ مطبوعہ مطبع خیریہ مصر۔ لہٰذا ان کی کوئی روایت معتبر نہیں تعجب ہے کہ آپ نفس امارہ کی خواہش پوری فرمانے کے لئے ایسی واہیات روایتوں کی آڑ پکڑتے ہیں۔
تیسرے یہ کہ عہد فاروقی میں اولاً آٹھ رکعت تراویح کا حکم ہوا۔ پھر بارہ رکعت کا پھر آخر میں بیس رکعت پر ہمیشہ کے لئے عمل ہوا۔ چنانچہ اسی موطا امام مالک میں حضرت اعرج سے ایک طویل حدیث نقل فرمائی جس کے آخر الفاظ یہ ہیں۔
وکان القاری یقراء بسورۃ البقرۃ فی ثمان رکعات فاذا اقامھانی اثنی عشرۃ رکعۃ رایٔ الناس انہ قد خفف
قاری آٹھ رکعت تراویح میں سورہ بقرپڑھتے تھے پھر جب بارہ رکعتوں میں پڑھنے لگے تو لوگوں نے محسوس کیا کہ ان پر آسانی ہوگئی۔
اس حدیث کی شرح میں مولانا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃمیں فرماتے ہیں۔
ثبت العشرون فی زمن عمر وفی الموطاء روایۃ باحدی عشرۃ رکعۃ وجمع بینھما انہ وقع اولا ثم استقرالامر علی العشرین فانہ المتورث
’’ہاں بیس کا حکم حضرت عمر کے زمانے میں ثابت ہوا موطاء شریف میں گیارہ رکعت کا ذکر ہے ان دونوں روایتوں کو اس طرح جمع کیا گیا ہے کہ عہد فاروقی میں پہلے تو آٹھ رکعت کا حکم تھا۔ پھر بیس رکعت پر تراویح کا قرار ہوا یہ ہی مسلمانوں میں رائج ہے‘‘۔
معلوم ہواکہ آٹھ رکعت تراویح پر عمل متروک ہے۔ بیس رکعت تراویح صحابہ کرام اور تمام مسلمانوں میں معمول۔
اعتراض نمبر2 : تمہاری پیش کردہ احادیث سے ثابت ہوا کہ حضور انور ﷺ بیس تراویح پڑھتے تھے تو حضرت عمر نے پہلے آٹھ رکعت کا حکم ہی کیوں دیا خلاف سنت حکم صحابہ کی شان سے بعید ہے۔
جواب: حضور ﷺ نے خود تو بیس رکعات تراویح پڑھیں۔ مگر صحابہ کو اس تعداد کا صریحی حکم نہ دیا تھا۔ صرف رمضان کی راتوں میں نماز خصوصی کی رغبت دی تھی۔ بلکہ خود جماعت بھی باقاعدہ ہمیشہ نہ کرائی وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ تراویح فرض ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے صحابہ کرام پر تراویح کی رکعات کی تعداد ظاہر نہ ہوئی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اولاً اپنے اجتہاد سے آٹھ پھر بارہ مقرر فرمائیں۔ بس کی سند مل جانے پر بیس ہی کا دائمی حکم دے دیا۔ اس زمانہ میں آج کی طرح حدیث کتابوں میں جمع نہ تھی۔ ایک ایک حدیث بہت کوشش و محنت سے حاصل کی جاتی تھی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اعتراض نمبر3 : بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابو سلمہ نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ سے پوچھا کہ نبی ﷺ رمضان کی راتوں میں کتنی رکعات پڑھتے تھے۔ تو ام المؤمنین نے ارشاد فرمایا:ماکان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ ولی احدی عشر رکعات ۔
حضور ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ تراویح آٹھ رکعت پڑھتے تھے۔ اگر بیس پڑھتے تو کل رکعات ۲۳ ہوتیں۔
جواب: اس اعتراض کے چند جواب ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ حدیث تمہارے بھی خلاف ہے۔ اس لئے کہ اگر اس سے آٹھ رکعت تراویح ثابت ہوتی ہے تو تین رکعت وتر بھی ثابت ہوئیں تب ہی تو کل رکعت گیارہ ہوئیں۔ بتائو تم وتر ایک رکعت کیوں پڑھتے ہو۔ جواب دو کیا بعض حدیث پر ایمان ہے بعض کا انکار۔
دوسرے یہ کہ حضرت ام المؤمنین یہاں نماز تہجد کا ذکر فرمارہی ہیں نہ کہ نمازِ تراویح کا اس ہی لئے آپ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان اور غیر رمضان دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ تراویح رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں کب پڑھی جاتی ہے۔ اگرآپ اس پر غور کرلیتے تو ایسی جرأت نہ کرتے۔ اس ہی لئے ترمذی شریف نے اس حدیث کو باب صلوٰۃ اللیل یعنی تہجد کے باب میں ذکر فرمایا۔ نیز اس ہی حدیث کے آخر میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ آپ وتر سے پہلے کیوں سو جاتے ہیں۔ تو فرمایا کہ اے عائشہ ہماری آنکھیں سوتی ہیں۔ دل نہیں سوتا جس سے معلوم ہوا کہ یہ نماز سرکار ﷺ آخر رات میں سوکر اٹھ کر ادا فرماتے تھے۔ تراویح سونے سے بعد نہیں پڑھی جاتیں تہجد پڑھی جاتی ہے۔
تیسرے یہ کہاگر اس سے مراد نمازِ تراویح ہے اور آٹھ تراویح حضور نے پڑھی تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بیس تراویح کا حکم کیوں دیا اور تمام صحابہ نے یہ حکم کیوں قبول کیا اور خود ام المؤمنین نے یہ سب کچھ دیکھ کر کیوں نہ اعلان فرمایا کہ میں نے حضور کوآٹھ رکعت تراویح پڑھتے دیکھا ہے۔ تم بیس رکعت پڑھتے ہو۔ یہ خلاف سنت اور بدعت سیئہ ہے آپ کیوں خاموش رہیں ذرا ہوش کرو حدیث کو صحیح سمجھنے کی کوشش کرو۔
وہابیوں سے سوالات
تمام دنیا کے وہابیوں سے حسب ذیل سوالات ہیں سارے مل کر ان کے جوابات دیں
بتاؤ !
(1) حضرت عمر وعثمان و علی رضی اﷲ عنہم نے بیس رکعت کا حکم کیوں دیا۔ کیا اس سنت کی اونہیں خبر نہ تھی۔ آج قریباً چودہ سو برس بعد تم کو پتہ لگا۔
(2) اگر نعوذ باﷲ خلفاء راشدین نے بدعت سیئہ کا حکم دے دیا تھا تو تمام صحابہ کرام نے بے چون و چرا قبول کیوں کرلیاگیا۔ ان میں کوئی بھی حق گو اور متبع سنت نہ تھا آج اتنے عرصہ کے بعد تم حق گو بھی پیدا ہوئے اور متبع سنت بھی۔
(3) اگر تمام صحابہ بھی خاموش رہے تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ کے ایک سنت رسول کے خلاف بدعت سیئہ کا رواج دیکھا تو وہ کیوں خاموش رہیں۔ ان پر تبلیغ حق فرض تھی یا نہیں جیسے آج تم آٹھ رکعت تراویح کے لئے ایڑی چوٹی کا زبانی و قلبی بدنی و مالی زور لگا رہے ہو۔ انہوں نے یہ کیوں نہ کیا۔ پھر تو ام المؤمنین سے تم افضل ہوئے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(4) وہ تمام خلفاء راشدین اور سارے صحابہ بلکہ خود حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہم بیس رکعت تراویح پڑھ کر۔ پڑھوا کر یا جاری ہوتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہ کر ہدایت پر تھے یا نعوذ باﷲ گمراہ۔ اگر آج حنفی بیس رکعت تراویح پڑھنے کی بنا پر گمراہ اور بدعتی ہیں تو ان حضرات پر تمہارا کیا فتویٰ ہے۔ جواب دو۔جواب دو۔ جواب دو۔
(5) اگر بیس رکعت تراویح بدعت سیئہ ہے اور آٹھ رکعت تراویح سنت اورتم بہادروں نے چودہ سو برس بعد یہ سنت جاری کی۔ تو بتائو حرمین طیبین کے تمام مسلمان بدعتی اور گمراہ ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں۔ اور اگر ہیں تو تم آج نجدی وہابیوں کو اس کی تبلیغ کیوں نہیں کرتے۔ تمہارے فتوے صرف ہندوپاکستان میں فساد پھیلانے ہی کے لئے ہیں۔
(6) حضرات ائمہ مجتہدین اور ان کے سارے متبعین جن میں لاکھوں اولیاء علماء محدث فقہاء مفسرین داخل ہیں۔ جو سب بیس تراویح پڑھتے تھے۔ وہ سب بدعتی اور گمراہ تھے یا نہیں۔
(7) اگر سارے یہ حضرات گمراہ تھے اور ہدایت پر تمہاری مٹھی بھر جماعت ہے۔ تو ان گمراہوں کی کتابوں سے حدیث لینا حدیث پڑھنا جائز ہے یا حرام اور ان کی روایت حدیث صحیح ہے یا نہیں جب بدعمل کی روایت صحیح نہیں۔ تو بد عقیدہ کی روایت کیونکر صحیح ہوسکتی ہے۔
(8) تمام دنیا کے مسلمان جو بیس تراویح پڑھتے ہیں۔ تمہارے نزدیک گمراہ اور بدعتی ہیں یا نہیں اگر ہیں تو اس حدیث کا کیا مطلب ہے۔
اتبعوا السواد الاعظم ۔ مسلمانوں کے بڑے گروہ کی اتباع کرو
اور قرآن کریم نے عامۃ المسلمین کی خیر امت اور شہداء علی الناس کیوں فرمایا؟
امید ہے کہ حضرات وہابیہ نجد تک کے علماء سے مل کر ان سوالات کے جواب دیں۔ ہم منتظر ہیں۔
ہمارا مطالبہ : ہم ساری دنیا کے وہابیوں نجدیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک صحیح مرفوع حدیث مسلم بخاری یا کم از کم صحاح ستہ کی ایسی حدیث پیش کریں جس میں صراحۃً مذکور ہو کہ حضور ﷺ آٹھ رکعت تراویح پڑھتے تھے یا اس کا حکم فرماتے تھے۔ مگر تراویح کا لفظ ہو۔ یا صحابہ کرام نے آٹھ تراویح دائمی طور پر قائم فرمائیں۔
اور ہم کہہ دیتے ہیں کہ قیامت تک نہ دکھا سکو گے۔ صرف ضد پر ہو۔ رب تعالیٰ توفیق بخشے آمین۔ بیس رکعت تراویح کا ثبوت الحمد ﷲ حضور کے فعل شریف،صحابہ کرام کے فرمان و عمل عامۃالمسلمین کے طریقہ شرعی اور عقل سے ہوا۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment