Wednesday, 31 May 2017

نماز وتر تین (3) رکعات ہیں و فضائل و احکام

ائمہ احناف کے نزدیک وتر کی نماز واجب ہے ۔ نماز وتر کا وجوب احادیث طیبہ سے ثابت ہے۔چنانچہ اس بارے میں متعدد روایتیں کتب احادیث میں موجود ہیں ۔ان میں سے چند صاف اور صریح روایتیں پیش خدمت ہیں ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:وتر واجب ہے۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب الوتر،حدیث:۱۱۳۲)

حضرت عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺنے فر مایا:وتر واجب ہے ۔تو، جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(سنن ابی داود،کتاب الصلوٰۃ،باب فیمن لم یوتر،رقم الحدیث :۱۴۱۹،المستدرک علی الصحیحین للحاکم،رقم الحدیث:۱۱۴۶،مصنف ابن ابی شیبۃ،حدیث:۶۹۳۴)

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ نے تمہاری نمازوں میں ایک نماز کا اضافہ فرمایا ،اور وہ وتر ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ،حدیث:۹۲۹)

حضرت نافع سے روایت ہے کہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:جو شخص رات میں نماز پڑھے تو چاہئے کہ اس کی آخری نماز وتر ہو کیونکہ حضور نبی کریم ﷺاس کا حکم دیا کرتے تھے۔(مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب صلاۃ اللیل مثنی مثنی الخ حدیث:۷۵۱، سنن النسائی،حدیث:۱۶۸۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ جوشخص وترسے سو جائے یا وتر پڑھنا بھول جائے تو جس وقت یا دآئے پڑھ لے۔(ترمذی،کتاب الصلاۃ عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فی الرجل ینام عن الوتر او ینساہ، حدیث:۴۶۵،ابن ماجہ، حدیث:۱۱۸۸)

دین کا ادنیٰ سوجھ بوجھ رکھنے والاشخص بھی جانتا ہے کہ سنت نمازوں کی قضا نہیں ہوتی اور اس حدیث مبارکہ میں وتر چھوڑنے پرقضا کا حکم دیا گیا ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ وتر کی نماز سنت نہیں اور اس کے فرض ہونے کا کوئی قائل نہیں تو یقینی طور پر معلوم ہوا کہ یہ واجب ہی ہے۔ رہی یہ بات کہ بعض احادیث میں آیا کہ سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وتر کی نماز سواری پر ادا فرمائی ۔جب کہ فرض و واجب نمازیں سواری پر ادا کرنا درست نہیں۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نماز وتر کے واجب ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے یا پھر وہ عذر کی بنا پر تھا جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ وغیرہ کی عذر کی بنیاد پربعض دفعہ فرض نماز سواری پر پڑھی ۔تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ فرض نہیں رہا ۔ بہر حال ان تمام روایتوں سے وتر کا واجب ہونا روز روشن کی طر ح ظاہر ہوگیا۔مسلمان کے لئے تو حضور اکرم ﷺکی ایک ہی روایت کافی ہے مگر جو ان سب روایتوں کے ہونے کے باوجود نہیں مانے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔

وتر کی نماز ائمہ احناف کے نزدیک تین رکعات ہیں ۔ الحمد للہ!وتر کے تین رکعت ہونے پر متعدد احادیث مو جود ہیں ۔ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔

سیدنا ابن عبا س ر ضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی تین رکعتیں ادا فرماتے ،پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی،دوسری میں قل یٰایھاالکٰفرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد‘‘تلاوت فرماتے۔
(سنن نسائی، کتاب قیام اللیل وتطوع النھار،باب کیف الوتر بثلاث ،حدیث:۱۷۰۲،ترمذی، حدیث:۴۶۲)

عبدالعزیز جر یح کہتے ہیں:ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وترمیں کیا پڑھتے تھے تو انہو نے فرما یا: پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی دوسری میں قل یا یھا الکٰفرون او ر تیسری میںقل ھواللہ احدپڑھتے تھے ۔(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا ،باب ماجاء فیما یقرأ فی الوتر ،حدیث:۱۱۷۳)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کس طرح نماز پڑھتے تھے؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ،چار رکعت نماز پڑھتے اور اس نماز کے حسن اور طول کی بات مت پوچھو!پھر چار رکعت نماز پڑھتے  اور ان کے حسن اور طول کی بات مت پوچھو !اس کے بعد تین رکعت وتر پڑھتے،سیدہ عائشہ صدیقہ بیا ن کرتی ہیں کہ :میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ !کیا آپ وتر سے پہلے سو جاتے ہیں؟فرمایا:ائے عائشہ میری آنکھیں سو جاتی ہیںمگر میرا دل نہیں سوتا ۔ (بخاری،کتاب التھجد،باب قیام النبی ﷺباللیل فی رمضان وغیرہ ،حدیث:۱۱۴۷، مسلم ،حدیث:۷۳۸،ترمذی، حدیث:۴۳۹)

ان حدیثوں میں صاف صاف لفظوں میں گن گن کر واضح انداز میں بتایا گیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نماز تین رکعت ادا فرمایا کرتے تھے پہلی رکعت میں فلاں سورت دوسری میں فلاں اور تیسری میں فلاں۔ اب آپ خود سوچئے کہ اگر وتر میں صرف ایک ہی رکعت ہوتی تو دوسری اور تیسری رکعت کی بات کہاں سے آتی ؟ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان فر مایا کہ:رمضان ہو یا غیر رمضان،حضور اکرم ﷺکی عادت یہی تھی کہ آپ ۸؍رکعات تہجد اور تین رکعات وتر ادا فر مایا کرتے تھے۔لہذا وہ لوگ جو نماز پڑ ھنے میں بڑی دقت اور پریشانی سمجھتے ہیں اور ایک ہی رکعت وتر پڑھ کر بھا گنا چا ہتے ہیں ۔انہیں اپنی نفسانی خواہشات سے نکل کر حضور ﷺکے دائمی عمل کی پیروی کرنی چاہئیے کیو نکہ ایک سچے مسلمان کی نشانی یہی ہے۔

حضور ﷺ نے دم کٹی(یعنی صرف ایک رکعت نماز)پڑھنے سے منع فر مایا۔ چنانچہ صحابی رسول سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم بریدہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا یعنی کوئی شخص ایک رکعت وتر پڑھے (اس حدیث کو علامہ ذیلعی نے نصب الرایہ ج،۲، ص،۱۲۰ ،حافظ ابن حجر نے درایہ ج۱،ص۱۱۴،اور علامہ عینی نے عمدہ القاری ج۴،ص،۴، پر بیان کیا ہے) یونہی محمد بن کعب قرظی بیان کرتے ہیںکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کٹی (ایک رکعت)نماز پڑھنے سے منع فرمایا(نیل الاوطارمصنفہ شیخ محمد بن علی شوکانی)

جیسے اور نمازوں میں آخری رکعت میں سلام پھیرا جاتا ہے ویسے ہی وتر میں بھی آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے ،دو رکعت پر نہیں ۔ جیساکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ وترکی تین رکعت ادافرماتے تھے اور سلام آخر ہی میں پھیرتے تھے۔(سنن نسائی،کتاب قیام اللیل وتطوع النھار،باب کیف الوتر بثلاث ،حدیث :۱۷۰۱، ۱۶۹۸)

بظاہر کچھ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار علیہ اسلام نے ایک رکعت کے ذریعے اپنی نمازوں کو طاق بنا یا،ایسی تمام روایات اس معنی پر محمول ہے کہ وہ ایک رکعت دو رکعت سے ملی ہوئی تھی ۔کیونکہ خود حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک رکعت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے ۔اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے کہ وتر کی نماز تین رکعت ہے ۔چنانچہ حضرت حسن بیان فرماتے ہیں کہ ’’اجمع المسلمون علے ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخر ھن‘‘تمام مسلمانو کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعت ہے اور اس کی صرف آخری رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج،۲،ص،۲۹۴ )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں 11/ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے 4/ رکعت پڑھتے تھے، ان کے حسن اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔ پھر آپ 4/ رکعت پڑھتے تھے، ان کے حسن اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔  یہ حدیث، حدیث کی ہر مشہور کتاب میں موجود ہے ،اس حدیث میں تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورہٴ فاتحہ اور ”سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ“، دوسری رکعت میں ”قُل یَا أیُّہَا الکَافِرُون“ اور تیسری رکعت میں ”قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أحَد“ پڑھتے تھے ۔ ( نسائی باب ذکر اختلاف الفاظ الناقلین لخبر أبی بن کعب فی الوتر ۱۷۰۱، أبوداوٴد باب ما یقرا فی الوتر ۱۴۲۳، ابن ماجہ باب ما جاء فی ما یقرا فی الوتر ۱۱۷۱)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد گھر میں تشریف لاتے تھے، پھر دو رکعت پڑھتے تھے، پھرمزید دو رکعت پہلی دو نوں رکعتوں سے لمبی پڑھتے تھے، پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور درمیان میں (سلام کے ذریعہ) فصل نہیں کرتے تھے (یعنی یہ تینوں رکعت ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔ ( مسند احمد ۶/۱۵۶ ، مسند النساء، حدیث السیدہ عائشہ ۲۵۷۳۸، نیزملاحظہ ہو زاد المعاد ۱/۳۳۰ فصل فی سیاق صلاتہ … باللیل ووترہ )

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مغرب کی نماز، دن کی وتر ہے ، پس رات میں بھی وتر پڑھو۔
( مسند احمد ۲/۳۰، موٴطا مالک ، باب الامر بالوتر صحیح الجامع الصغیر للالبانی ۲ /۷۱۲ حدیث نمبر ۳۸۳۴ )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رات کے وتر میں دن کے وتر یعنی نمازِ مغرب کی طرح تین رکعت ہیں۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی ۹/۲۸۲ حدیث نمبر ۹۴۱۹ ورجالہ رجال الصحیح، مجمع الزوائد ۲/۵۰۳ باب عدد الوتر حدیث نمبر ۳۴۵۵ )

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحابی رسول  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور مغرب کی نماز کی طرح تیسری رکعت میں سلام پھیرتے تھے ۔ ( مصنف عبد الرزاق ۳/۲۶ باب کیف التسلیم فی الوتر حدیث نمبر ۴۶۵۹ )

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وتر کی تین رکعت ہیں اور آخر میں ہی سلام پھیرا جائے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۲ /۹۰ باب من کان یوتر بثلاث او اکثر حدیث نمبر ۶۸۳۴ )

صحابی رسول  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین رکعت وتر پڑھی اور صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۲ /۹۱ باب من کان یوتر بثلاث او اکثر حدیث نمبر ۶۸۴۰ )

ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے ہیں، رہا دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے کا ثبوت تو ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہیں ملتی، جس میں یہ ذکر ہو کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر ایک سلام سے پڑھتے تھے اور دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ اس کے برعکس متعدد ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں آپ  صلی اللہ  علیہ وسلم نے دن رات کی ہر نماز میں ہر دوسری رکعت پر قاعدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وتر کا اس عموم سے مستثنیٰ ہونا کسی ایک حدیث میں نہیں ملتا، اگر ایسا ہوتا تو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان فرماتے اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنھم اہتمام سے امت تک پہونچاتے۔

بعض حضرات نے دار قطنی اور بیہقی میں وارد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے صرف ایک حصہ (وَلاَ تَشَبَّہُوا بِصَلاَةِ الْمَغْرِب) کو ذکر کرکے تحریر کردیا کہ نبی اکرم  صلی اللہ  علیہ وسلم نے ایک سلام اور دو تشہد کے ذریعہ نماز ِ وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔ حدیث کے صرف ایک حصہ کو ذکر کرکے کوئی فیصلہ کرنا ایسا ہی ہوگا، جیسے کہ کوئی کہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور دلیل کے طور پر پیش کرے (وَلاَ تَقْرَبُوا الصَّلاة۔۔۔ )۔

دار قطنی اور بیہقی میں وارد اس حدیث کے مکمل الفاظ اس طرح ہیں (لَا تُوتِرُوْا بِثَلاثٍ، اَوْتِرُوا بِخَمْسٍ اَوْ سَبْع وَلا تَشَبَّہُوا بِصَلاةِ الْمَغْرِب) ۔ اگر اس حدیث کا تعلق صرف وتر سے ہے تو اس کے معنی ہوں گے کہ مغرب کی طرح تین وتر نہ پڑھو؛ بلکہ پانچ یا سات پڑھو، جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ یقینا اس کا دوسرا مفہوم ہے۔ ممکن ہے کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہو، یعنی جب تم نماز تہجد اور اس کے بعد وتر پڑھنا چاہو تو کم از کم ۵یا ۷رکعت پڑھو۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اور اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ نبی اکرم … نے نمازِ وتر میں مغرب سے مشابہت سے منع فرمایا ہے، تو کس بنیاد پر ہم یہ کہیں گے کہ اِس سے مراد یہ ہے کہ دوسری رکعت میں قاعدہ نہ کیا جائے۔ کل قیامت تک بھی کوئی شخص نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے دار قطنی اور بیہقی میں وارد اِس حدیث کا یہ مفہوم ثابت نہیں کرسکتاہے۔ اس کے یہ مطلب بھی تو ہوسکتے ہیں:

(1) نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو یعنی وتر کی تیسری رکعت میں بھی سورہٴ فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملاوٴ؛ تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔

(2) نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو یعنی وتر میں دعائے قنوت بھی پڑھو؛ تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔

غرضے کہ اِس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کی تین رکعت ایک سلام سے پڑھنے پر وتر کی دوسری رکعت میں قاعدہ کرنے سے منع فرمایا ہے، صحیح نہیں ہے؛کیونکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں حدیث کا یہ مفہوم مذکور نہیں ہے۔ ہاں کسی عالم یا فقیہ کی اپنی رائے ہوسکتی ہے جو غلطی کا احتمال رکھتی ہے، جس پر عمل کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت مثلاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ اِس حدیث سے یہ مفہوم لینا صحیح نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے مختلف فیہ مسائل میں وسعت سے کام لینا چاہیے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دینے کی ناکام کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔

اس موقع کو غنیمت سمجھ کر یہ بات واضح کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ اِن دنوں بعض حضرات امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ ( جنہیں تقریباً سات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنھم کے دیدار کا شرف حاصل ہے) کی قرآن وسنت کی روشنی میں بعض آراء ( اگر وہ اُن کے علماء کی رائے سے مختلف ہوتی ہے) کو قرآن وسنت کے خلاف بتاتے ہیں اور ایسا تاثر پیش کرتے ہیں کہ جو انہوں نے 1400 سال کے بعد قرآن وسنت کو سمجھا ہے، وہی صحیح ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنھم  اور بڑے بڑے تابعین کی صحبت سے مستفید ہونے والے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن وسنت کے خلاف فیصلہ فرمایا ہے اور اُن کی رائے پر اس طرح لعن وطعن شروع کردیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ رائے گیتا، رامائن اور بائیبل سے اخذ کی ہے، نعوذ باللہ ۔ اگر کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کی دلیل ترمذی جیسی مستندکتاب میں وارد نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل پر مشتمل ہوتی ہے، تو بخاری ومسلم کی حدیث کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔۔ ایک سلام اور دو تشہد سے وتر کی تین رکعت کو غلط قرار دینے کے لیے صحیحین ہی نہیں؛ بلکہ صحاح ستہ سے بھی باہر نکل کر دار قطنی اور بیہقی کی اُس روایت کو بنیاد بنایا جارہا ہے، جس کے متعدد مفہوم ہوسکتے ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...