وترکی نماز ایک سلام سے تین رکعت ہیں : حدیث شریف: حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکارِ کریمﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ آپﷺ چار رکعت (تہجد) ادا کرتے پھر آپ تین رکعت (وتر) ادا فرماتے (بخاری، کتاب التہجد، جلد اول، حدیث 1077، ص 472، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور مسلم شریف، جلد اول، کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرہا، حدیث 1620، ص 573، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے تین مرتبہ دو دو رکعت کرکے چھ رکعت (تہجد) پڑھی اور اس کے بعد آپﷺ نے تین رکعت وتر ادا کئے (مسلم شریف، جلد اول، کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا، حدیث 1696، ص 597، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائناتﷺ نماز وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی، دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھتے اور تینوں رکعتوں کے آخر میں سلام پھیرتے تھے (سنن نسائی، جلد اول، کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، حدیث 1702، ص 540، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا و مولیٰﷺ تین رکعت و تر پڑھتے تھے۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ نے کہا اہل علم صحابہ کرام و تابعین کرام رحمہم اﷲ کا یہی مذہب ہے (جامع ترمذی جلد اول، ابواب الوتر حدیث 448، ص 283، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور / زجاجۃ المصابیح باب الوتر جلد 2،ص 263)
حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر تین رکعت ہے (طحاوی شریف)
سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما و ترکی تین رکعتوں میں تین سورتیں تلاوت فرماتے۔ سبح اسم ربک الاعلیٰ اور قل یاایھا الکفرون اور قل ہو اﷲ احد (سنن نسائی، جلد اول حدیث نمبر 1706، ص 541، مطبوعہ فرید بک لاہور پاکستان)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ رسول اﷲﷺ وتروں میں کیا پڑھتے تھے تو انہوں نے فرمایا۔ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ، دوسری میں قل یاایھا الکفرون اور تیسری میں قل ہو اﷲ احد پڑھتے تھے (سنن ابن ماجہ، جلد اول، باب ماجاء فیما یقرا فی الوتر، حدیث نمبر 1224، ص 336، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)
ف: مذکورہ احادیث سے احناف کے مذہب کی واضح تائید ہورہی ہے کہ وتر کی تین رکعتیں ہیں کیونکہ مذکورہ تمام احادیث میں تین تین سورتیں پڑھنا وارد ہوا ہے۔
غیر مقلدین کے دلائل : پہلی حدیث: حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما، رسول اﷲﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔ پس جب تم لوٹنے کا ارادہ کرو تو ایک رکوع کرو۔ وتر کرو، جو تم پڑھ چکے (نسائی شریف)
دوسری حدیث: حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ بے شک نبی کریمﷺ رات میں گیارہ رکعت نماز پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک کے ساتھ وتر کرے۔ پھر اپنے سیدھے کروٹ لیٹ جاتے۔ (نسائی شریف)
تیسری حدیث: حضرت نافع رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما وتر میں ایک اور دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے تھے۔ یہاں تک کہ اپنی بعض ضروریات کا حکم دیتے۔
غیر مقلدین کے دلائل کا جواب : پہلی حدیث کا جواب: اس حدیث کا جواب خود اسی میں موجود ہے۔ دو دو رکعت کرکے جب نماز پڑھیں گے اور ایک رکعت ملاکر وتر ادا کریں گے تو تعداد تین ہوگی، کیونکہ یعنی جو تم پڑھ چکے، اس کے ساتھ ایک ملالو۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ تُوْتِر کا مصدر الایتار ہے۔ اور یہ بابِ افعال سے ہے۔ بابِ افعال کی خاصیت تعدی ہونا ہے۔ لہذا تعدی اسی وقت ہوگی جب دو کے ساتھ ایک رکعت ملالی جائے۔
دوسری حدیث کا جواب: احناف کے دلائل میں تیسری حدیث حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہما کی روایت گزر چکی ہے۔ چار چار رکعت پڑھنے کے بعد تین رکعت ادا فرمائی۔ اس لئے دوسری حدیث کی تفسیر خود راوی کی طرف سے موجود ہے کہ گیارہ رکعت میں سے آٹھ رکعت صلوٰۃ اللیل (تہجد) ہے اور تین رکعت وتر ہے۔
تیسری حدیث کا جواب: حضرت عقبہ بن مسلم نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے وتر سے متعلق سوال کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم دن کے وتر کو جانتے ہو۔ آپ نے فرمایا جی ہاں! نماز مغرب یہ سن کر حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ رات کے وتر بھی ایسے ہیں۔ حضرت نافع علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا فعل ثابت ہورہا ہے اور حضرت عقبہ علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا قول ثابت ہورہا ہے۔ قاعدے کے مطابق حدیث قولی کو ترجیح ہوگی اور وتر کا طریقہ نماز مغرب کی طرح ایک سلام سے تین رکعت ہوگی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تراویح کی بیس رکعتیں ہیں
بیس رکعت تراویح سید عالمﷺ، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور مولیٰ علی رضی اﷲ عنہ کے عمل سے ثابت ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
1… سرکارِ کریمﷺ رمضان شریف میں بیس رکعت اور وتر ادا فرماتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ ۲/۳۹۴)
2… سرکار اقدسﷺ رمضان شریف میں بیس رکعت بغیر جماعت اور وتر ادا فرماتے تھے (بیہقی ۲/۴۹۶)
3… سرکار اقدسﷺ رمضان شریف میں بیس رکعت اور تین وتر ادا فرماتے تھے (مجمع الزوائد ۳/۱۷۲)
4… سرکار اقدسﷺ رمضان شریف میں بیس رکعت اور تین وتر ادا فرماتے تھے (کتاب الترغیب للرازی)
5… سرکاری اقدسﷺ رمضان شریف میں بیس رکعت اور تین وتر ادا فرماتے تھے (کشف الغمہ ۲/۱۱۶)
6… سرکار اقدسﷺ رمضان شریف میں بیس رکعت اور تین وتر ادا فرماتے تھے (معجم طبرانی کبیر۱۱/۳۹۳)
7… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا (مصنف ابن ابی شیبہ ۲/۳۹۳، آثار السنن ص 352)
8… حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں تئیس رکعت وتر سمیت پڑھی جاتی تھی (بیہقی ۲/۴۹۶)
9… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں تئیس رکعت وتر سمیت پڑھی جاتی تھی (موطا امام مالک ص 98)
10… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں تئیس رکعت وتر سمیت پڑھی جاتی تھی (آثار السنن ص 253)
11… حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کے دور خلافت میں تئیس رکعت وتر سمیت پڑھی جاتی تھی (التمہید ۸/۱۱۵)
12… حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں بیس تراویح پڑھائی جاتی تھی، قاری مئین پڑھتے تھے (بیہقی ۲/۴۹۶)
13… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں بیس تراویح پڑھائی جاتی تھی، قاری مئین پڑھتے تھے (آثار السنن ص 250)
14… حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا (بیہقی ۲/۴۹۶)
15… حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا (مصنف ابن ابی شیبہ ۲/۳۹۳)
16…حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا… (عمدۃ القاری۱۱/۱۲۷)
17… حضرت علی رضی اﷲ عنہ بیس رکعت اور تین وتر پڑھاتے اور اس میں مضبوطی ہے (بیہقی ۲/۴۹۶)
18… حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے دور میں بیس تراویح پڑھی جاتی تھی (عمدۃ القاری ۷/۱۷۸)
19… حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور میں ابی ابن کعب نے بیس رکعت تراویح پڑھائی (کنزالعمال ۸/۴۰۹)
20… حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور میں تراویح بیس پڑھی جاتی تھی (مرقات۳/۱۹۲)
21… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دور میں تراویح سمیت تئیس پڑھی جاتی تھی (مرقات ۳/۱۹۴)
22… اکثر علماء کا عمل اس پر ہے جو حضرت عمر و علی اور دیگر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے کہ تراویح بیس رکعت ہیں (ترمذی ۱/۹۹)
ان کے علاوہ اجماع صحابہ، تابعین، تبع تابعین، آئمہ اربعہ، آئمہ مجتہدین، فقہاء و محدثین، اولیائے کاملین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بھی بیس رکعت تراویح ثابت ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
فقیہ جلیل علامہ شامی قدس سرہ السامی کے نام نامی سے مغالطہ : غیر مقلد مرتب میقات الصیام لکھتا ہے ’’مشہور حنفی فقیہ علامہ شامی بھی اﷲ کے رسول کی نماز تراویح علاوہ وتر آٹھ رکعت ہی تسلیم کرتے ہیں‘‘ (شامی)
جواباً گزارش ہے کہ یہ صریح کذب ہے اور علامہ شامی قدس سرہ السامی پر بہتان ہے لعنۃ اﷲ علی الکاذبین حقیقت یہ ہے کہ غیر مقلدین وہابیہ نے علامہ شامی قدس سرہ السامی کی عبارت کی کاٹ چھانٹ کرکے پیش کی صرف لفظ ثمانیۃ دیکھ کر جھٹ پٹ اپنے دعویٰ کی دلیل بنا کر پیش کردیا، نہ ماقبل کو پڑھا سمجھا نہ مابعد کو، حالانکہ علامہ شامی قدس سرہ السامی ماقبل میں صاف لکھ رہے ہیں (وہی عشرون رکعۃ) ہو، قول الجمہور وعلیہ عمل الناس شرقاً و غربا یعنی نماز تراویح بیس رکعت ہیں۔ یہی جمہور کا قول ہے اور اسی پر مشرق و مغرب میں لوگوں کا عمل ہے۔ اس کے بعد ہے۔’’امام مالک سے چھتیس مروی ہیں‘‘ پھر ’’فتح‘‘ میں مذکورہ ایک اشکال کہ آٹھ سنت اور باقی مستحب ہیں، کے بارے میں فرماتے ہیں ’’کہ اس کا جواب تعلیقات البحر میں دیا ہے‘‘ (ردالمحتار علی الدر المختار ۱/۵۲۱) (نوٹ: فتح سے فتح القدیر اور بحر سے البحر الرائق مراد ہے)
غیر مقلدین (اہلحدیث) کی دلیل : حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اﷲﷺ رمضان میں نماز کیسے پڑھتے تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ حضورﷺ رمضان میں اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ چار رکعت پڑھتے۔ اس کے حسن اور اس کے طول کے بارے میں نہ پوچھو۔ پھر چار رکعت پڑھتے۔ اس کے حسن اور طول کے بارے میں نہ پوچھو۔ پھر تین رکعت پڑھتے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ یارسولﷺ کیا آپﷺ سونے سے قبل وتر نہیں پڑھتے۔ پس آپ نے فرمایا کہ بے شک میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا ہے (بخاری شریف)
غیر مقلدین (اہلحدیث) کی دلیل کا جواب : حدیث عائشہ رضی اﷲ عنہا میں نمازِتراویح کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نمازِ تہجد کے بارے میں بتا رہی ہیں، کیونکہ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ اگر اس سے مراد تراویح ہو تو رمضان المبارک میں تو ٹھیک ہے۔ غیر رمضان میں کون سی تراویح کی نماز ہوتی تھی۔ معلوم ہوا کہ حدیث مذکورہ میں تراویح کی بات نہیں ہورہی ہے، بلکہ نماز تہجد کی بات ہورہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت امام بخاری علیہ الرحمہ نے اس حدیث پاک کو جسے غیر مقلدین دلیل بناتے، اسے کتاب التہجد میں نقل فرمایا ہے جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ تہجد کا بیان ہے کہ نہ کہ تراویح کا بیان۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment