وتر کی کیفیت یہ ہے کہ دو تشہد اور ایک سلام سے ادا کیا جائے۔اس پر احادیث صحیحہ مرفوعہ، آثار صحابہ و اجماع امت موجود ہیں ۔ احادیث میں نماز وتر کو مغرب کی طرح اد اکرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا نماز وتر دو قعدوں اور ایک سلام سے ادا کی جائے گی فرق اتنا ہے کہ وتر کی تینوں رکعتوں میں قراءۃ فاتحہ اورسورۃ ہوگی تیسری رکعت میں قنوت وتر اور رفع الیدین ہوگا۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ہے : کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث یقرء فی الاولیٰ بسبح اسم ربک الاعلیٰ وفی الرکعۃ الثانیۃ بقل یا ایہا الکافرون وفی الثالثۃ بقل ہو اللہ احد ولا یسلم الا فی آخرہن۔ ( سنن نسائی ج1ص248 )
ترجمہ:آپ علیہ السلام تین رکعات وتر پڑھتے تھے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری رکعت میں قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے اور صرف آخری رکعت میں سلام پھیرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع روایت:ثم اوتر بثلاث لا یفصل فیہن ۔ ( مسند احمد ج6ص156 رقم 25101 )
ترجمہ: آپ علیہ السلام تین رکعت وترایک سلام سے پڑھتے تھے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع حدیث ہے: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم الا فی آخرہن ۔ ( مستدرک حاکم ج 1 ص 608 )
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے تھے اور آخر میں سلام پھیرتے تھے ۔ اس کے بعد امام حاکم فرماتے ہیں: وھذا وتر امیر المومنین عمر بن خطاب وعنہ اخذہ اہل المدینہ ۔ یہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وتر ہیں اور ان سے اہل مدینہ نے یہی عمل لیا ہے۔
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم لا فصل فی الوتر ۔ (جامع المسانید ج1ص402 )
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں آپ علیہ السلام نے فرمایا وتر میں (سلام کا)فاصلہ نہیں ہے۔
عن عائشۃرضی اللہ عنہا قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا یسلم فی الرکعتین الاولیین من الوتر۔ ( مستدرک حاکم ج1ص607 کتاب الوتر )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔
عن عبداللہ قال ارسلت امی لیلۃلتبیت عند النبی منتظر کیف یوتر فباتت عند النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصلی ما شاء اللہ ان یصلی حتی اذا کان آخر اللیل واراد الوتر ۔۔۔۔الخ ( الاستیعاب لابن عبدالبر ص934 رقم 742 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو بھیجا کہ آپ علیہ السلام کے گھر رات گزاریں اور دیکھیں آپ علیہ السلام وتر کس طرح پڑھتے ہیں چنانچہ انہوں نے آپ علیہ السلام کے ہاں رات گزاری پس آپ علیہ السلام نے رات میں جتنا اللہ کو منظور ہوا نماز پڑھی جب رات کا آخری حصہ ہوا آپ علیہ السلام نے وتر پڑھنے کا ارادہ کیا تو پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں قل یا ایہا الکافرون پڑھی پھر قعدہ کیا۔ پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو گئے اور تیسری رکعت میں)سورۃ (قل ھوا للہ احد پڑھییہاں تک کہ جب اس سے فارغ ہوئے تو تکبیر کہی دعائے قنوت پڑھی اور جو اللہ کو منظور تھا دعائیں کی اورتکبیر کہی رکوع کیا ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
آثارِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور کیفیت وتر
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلوۃ المغرب وتر النہار فاوتروا صلاۃ اللیل ۔ ( مصنف عبدالرزاق ج2ص401 )
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا مغرب کی نماز دن کے وتر ہیں تو رات کے وتر بھی پڑھا کرو۔
یعنی جیسے مغرب کی نماز دو تشہد ایک سلام کے ساتھ ہے ایسے ہی وتر کی نماز بھی دو تشہد اور ایک سلام سے ہوگی ۔
عن عقبۃ بن مسلم قال سالت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما عن الوتر فقال اتعرف وتر النہار قلت نعم صلوٰۃ المغرب قال صدقت او احسنت ۔ )طحاوی ج1ص197 باب الوتر (
ترجمہ: حضرت عقبہ بن مسلم فرماتے ہیں میں نے وتر کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا۔ تو انہوں نے فرمایا کیا دن کے وتر جانتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں !مغرب کی نماز۔ انہوں نے فرمایا تو نے سچ کہا یا احسنت فرمایا، تو نے اچھا کہا ۔
اجماعِ امت اورکیفیت وتر
عن الحسن قال اجمع المسلمون علی ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخرہن ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص194 رقم 177 )
ترجمہ: اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات ہیں ان کی صرف آخری رکعت میں سلام ہے۔
قد اجمعوا ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخرہن ۔ ( طحاوی ج1ص207 باب الوتر )
ترجمہ: اس بات پر اجماع کیا ہے کہ وتر تین رکعات ایک سلام کے ساتھ ہیں۔
وتر کی دوسری رکعت میں تشہد
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یستفتح الصلوۃ بالتکبیر والقراۃ بالحمدللہ رب العالمین۔۔ وکان یقول فی کل رکعتین التحیۃ ۔۔ الحدیث ۔ (صحیح مسلم ج1ص194 باب مایجمع صفۃ الصلاۃ )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر سے نماز شروع کرتے جبکہ قرأت کو الحمد للہ رب العالمین سے اور آپ علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہر دو رکعت میں التحیات (تشہد) ہے۔
عن عبداللہ قال کنا لاندری مانقول فی کل رکعتین غیر ان نسبح و نکبر و نحمد ربنا وان محمدا علم فواتح الخیر وخواتمہ فقال اذا قعدتم فی کل رکعتین فقولوا التحیات للہ ۔۔۔ الخ۔ ( سنن النسائی ج1ص174 کیف التشہد الاول )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ جب دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھیں تو کیا کریں بجز اس کے کہ تسبیح کہیں تکبیر کہیں، اپنے پروردگار کی تعریف کریں اور یہ کہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سراپا بھلائی کی باتیں سکھلائی گئیں ہیں، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا جب تم دو رکعت پڑھ کر بیٹھو تو یوں کہو التحیات للہ (آخر تشہد تک)
عن الفضل بن عباس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصلوٰۃ مثنیٰ مثنیٰ تشہد فی کل رکعتین۔ ( جامع الترمذی ج1ص87 المعجم الکبیر ج8ص26 )
ترجمہ: آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے رات کی نماز دو رکعت ہے اور ہر دو رکعتوں میں تشہد ہے۔
دعائے قنوت کے الفاظ
نماز وتر میں دعائے قنوت کے الفاظ اللھم انا نستعینک احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں اور خصوصا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں خلفاء راشدین نے اس کو معمول بہا بنایا ہے اور جمہور امت نے بھی اسی کو معمول بنایا ہے ۔
عن خالد بن ابی عمران قال بینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدعوا علی مضر اذ جاءہ جبرائیل علیہ السلام فاومیٰ الیہ ان اسکت فسکت فقال یا محمد ان اللہ لم یبعثک سبابا ولا لعانا وانما بعثک رحمۃ ولم یبعثک لیس لک من الامر شیئ او یتوب علیہم الایۃ قال ثم علمہ ھذا القنوت اللھم انا نستعینک ونستغفرک ۔۔ ۔۔۔۔ الخ ( سنن الکبری بیہقی ج2ص210 ، مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص518 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ: حضرت خالد بن ابی عمران کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ مضر کے لیے بد دعا کررہے تھے کہ اچانک حضرت جبرائیل علیہ السلام آئےا ور خاموش ہونے کا اشارہ کیا آپ علیہ السلام خاموش ہوگئے تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کو گالی دینے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمت بنا کر بھیجا ہے عذاب بنا کر نہیں بھیجا آپ کے اختیار میں اس قسم کے امور نہیں ہیں اللہ چاہے تو ان کو عذاب دے یا ان کی توبہ قبول کرلے کیونکہ وہ ظالم ہیں پھر آپ کو یہ دعائے قنوت تعلیم فرمائی۔
یہی دعا قنوت معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے متعدد آثار میں مفصل طور پر مروی ہےجن کے مجموعہ سے یہ مکمل دعا ثابت ہے، ان آثار کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص213تا215۔ مصنف عبدالرزاق ج3ص29تا31 )
اما م ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ ؛ امام بخاری وامام مسلم کے شیخ اور استاذ ہیں اور امام عبدالرزاق رحمہ اللہ ؛امام احمد بن حنبل کے شیخ و استاد ہیں۔
قنوت قبل الرکوع
وتر میں قنوت کا عمل تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے اور سال بھر کا معمول ہے جن روایات میں رکوع کے بعد قنوت کا ذکر ہے اس قنوت سے مراد قنوت نازلہ ہے۔
عن عاصم قال سألت انس بن مالک رضی اللہ عنہ عن القنوت فقال قد کان القنوت قلت قبل الرکوع او بعدہ؟ قال قبلہ قال فان فلانا اخبرنی عنک انک وقلت بعد الرکوع فقال کذب انما قنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد الرکوع شہرا ۔ ( صحیح بخاری ج1ص136 باب القنوت قبل الرکوع او بعدہ )
ترجمہ: حضرت عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز میں قنوت کے بارے میں پوچھا کہ وہ رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد میں؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا رکوع سے پہلے ہے۔ آپ علیہ السلام نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینہ قنوت پڑھی تھی۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوتر ویقنت قبل الرکوع ۔ ( سنن نسائی ج1ص248 )
ترجمہ: آپ علیہ السلام وتر پڑھتے تھے اور رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔
عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوتر بثلاث رکعات کان یقرء فی الاولیٰ ب ۔سبح اسم ربک الاعلیٰ وفی الثانیۃ ب۔قل یا ایہا الکافرون، وفی الثالثۃ ب۔قل ہو اللہ احد ویقنت قبل الرکوع ۔ ( سنن نسائی ص243،قیام اللیل للمروزی، باب کیف الوتر بثلاث ص248 )
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے: آپ علیہ السلام تین رکعت وتر پڑھتے تھے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ دوسری میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری میں قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے، اور قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔
عن علقمۃ ان ابن مسعود واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانوا یقنتون فی الوتر قبل الرکوع ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص521 )
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔
علماء غیر مقلدین وہابی حضرات بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قنوت وتر کا محل قبل الرکوع ہے اور جن روایات میں بعد الرکوع کا ذکر ہے ان سے مراد قنوت نازلہ ہے۔
چنانچہ مشہور غیر مقلد عالم مبشر ربانی لکھتے ہیں : آپ علیہ السلام کے قول و فعل اور صحابہ کرام کے عمل سے وتر میں دعا قنوت رکوع سے قبل ثابت ہے اور اکثر روایات رکوع سے قبل ہی قنوت وتر پر دلالت کرتی ہیں۔۔ جو دعا ہنگامی حالات میں مسلمانوں کی خیر خواہی کفار و مشرکین اور دشمنان اسلام کے خلاف بد دعا کے طور پر کی جاتی ہے وہ رکوع کے بعد ہے جسے قنوت نازلہ کہا جاتا ہے، اور جو دعا رکوع سے قبل مانگی جاتی ہے وہ قنوت وتر ہے ۔ ( آپ کے مسائل اور ان کا حل ج1ص185 از مبشر ربانی )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
غیر مقلد ین وہابی حضرات کہتے ہیں قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھنا راجح ہے جیسا کہ نسائی وغیرہ سے ثابت ہے جو لوگ رکوع کے بعد پڑھتے ہیں، وہ قنوت نازلہ پر قیاس کر کے ہی پڑھتے ہیں،، مؤلف کتاب کی ذکر کردہ روایات کا تعلق قنوت نازلہ ہی سے ہے۔ ( تسہیل الوصول الی تخریج و تعلیق صلاۃ الرسول ص295 )
بعض غیر مقلدین لکھتے ہیں وتر میں رکوع کے بعد قنوت کی تمام روایات ضعیف ہیں اور جو روایت صحیح ہے اس میں صراحت نہیں کہ آپ علیہ السلام کا رکوع کے بعد والا قنوت قنوت وتر تھا یا قنوت نازلہ لہذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وتر میں قنوت رکوع سے پہلے کیا جائے۔ ( نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں ص236 )
دعائے قنوت کے وقت رفع یدین : وتر کی تیسری رکعت میں قرأت سے فارغ ہوکر تکبیر کہنا اور رفع یدین کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
عن ابی عثمان قال کان عمر یرفع یدیہ فی القنوت ۔ ( جزء رفع الیدین مترجم ص346 )
ترجمہ: ابو عثمان کہتےہیں حضرت عمر قنوت کے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔
عن عبداللہ انہ کان یقرء فی آخر رکعۃ من الوتر قل ہو اللہ احد ثم یرفع یدیہ ویقنت قبل الرکعۃ ۔ ( جزء رفع الیدین مترجم ص346 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وتر کی آخری رکعت میں قل ہوا للہ احد پڑھتے تھے پھر رفع الیدین کرتے اور رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔
عن الاسود عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ انہ کان یرفع یدیہ فی قنوت الوتر ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص531 )
ترجمہ: حضرت اسود رحمہ اللہ فرماتے ہیں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ وتر میں قنوت کے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔
غیر مقلدین وہابی حضرات کے علماء بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے متعلق کوئی صحیح روایت نہیں ہے۔
صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ۔ ( فتاویٰ علماء حدیث ج3ص206 )
دعا قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے متعلق کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے ۔ ( نماز نبوی ص237 )
بعض صحابہ کرام سے وتروں میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں ضعیف آثار بھی ملتے ہیں بہتر یہ ہے کہ قنوت وتر میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں ۔ ( حاشیہ صلوۃ الرسول ص297 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment