حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اورچہیتی صاحب زادی سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی ولادت با سعادت مکہ شریف میں ہوئی۔پوری دنیا کی تاریخ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کی نظیر اور مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔آپ کی ذات طیبہ امت مسلمہ کی خواتین کے لئے ایک بے مثال اور قابل تقلید نمونہ ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بڑے پاکیزہ اوصاف کی حامل تھیں ،ہر وقت عبادت الٰہی میں ڈوبی رہتی تھیں ،دنیا کی خواہشات سے آپ کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا،انہیں اعلی صفات کی بنیاد پر آپ متعدد القاب سے جانی جاتی تھیں جن میں سے ایک”بتول” ہے علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ آپ کا لقب “بتول” اس لئے تھا کہ آپ دینداری اور شرافت و پاکیزگی میں تمام عورتوں سے ممتاز اور یگانہ تھیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بچپن کا دور اسلام کا ابتدائی دور تھا۔یہ وقت بڑا کٹھن اور دشوار تر ین تھا،اس وقت مکہ کے کفاروں کا مسلمانوں پر ظلم وستم اور تعصب پورے زور پر تھا۔قریش نے بنی ہاشم پر عر صہ حیات تنگ کر رکھا تھا،اس دوران بنی ہاشم تقریبا تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور بھی رہے اور نہایت تنگ دستی کی زندگی گزاری۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے بچپنے میں اپنے عظیم والد حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھوک اور پیاس کی تمام تکلیفوں کو برداشت کیں۔آپ کی مادرِ عظیم ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی رحلت کا صدمہ بھی آپ کے لئے بڑا جان گداز تھا ،جسے آپ نے بڑے حوصلے سے برداشت کیا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتر بیت اور درس ونصیحت کی وجہ سے آپ بچپنے ہی سے ملکوتی صفات سے آراستہ و پیراستہ ہو گئی تھیں۔آپ کو عام لڑ کیوں کی طرح کھیل کودکا بالکل شوق نہ تھا،آپ نے کبھی ضد نہ کیا،آپ کو زیورات پہننے کی خواہش تھی نہ بناؤسنگھار کی کوئی فکرنہ زرق برق لباس پہننے کی کوئی آرزو۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بچپنے ہی سے پاک باز تھیں ،فہم وتدبر،مہمان نوازی،شرم وحیا،صبر وتوکل،زہد وقناعت اور تواضع وخاکساری آپ کا شعار تھا۔
جب آپ سن بلوغ کو پہنچیں تو بڑے بڑے سرداران عرب نے نکاح کا پیغام بھیجا مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردیا اس وقت ان کے پاس رہنے کو اپنا گھر بھی نہیں تھا۔مگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب کو خوشدلی کے ساتھ قبول فر مایا۔اور پوری زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ بغیر کسی گلہ شکوہ کے گزاردیں۔گھر کے تما م کاج کام آپ خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں،گھر صاف کرتیں،چکی پیستیں،مشکیزہ میں بھر کے پانی لاتیں ،چکی پیسنے کی وجہ سے آپ کی ہاتھوں میں نشان پڑ گئے تھے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ایک دن حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ اونٹ کے بالوں کا ایک موٹا کپڑا پہنے ہوئی ہیں ۔تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:اے فاطمہ !آج اس دنیا کی پر یشانی اور تکلیف پر صبر کرتی رہ تا کہ آخرت میں تمہیں جنت کی نعمتیں ملے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہنا اور اپنے رب کریم کے احکام وفر مانبرداری میں زندگی گزارنا بڑا پسند تھا۔آپ نے کبھی اپنا چہرہ غیر محرم مردوں کے سامنے نہیں کھولا ،حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے پوچھا کہ:عورت کی سب سے بہترین خوبی کیا ہے؟ کسی سے اس کا جواب نہ بن پڑاتو حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر تشریف لے گئے اور یہی سوال حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو آپ نے فر مایا کہ: عورت کی سب سے بہترین خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی کسی غیر مرد کو نہ دیکھے اور نہ کوئی غیر اس کو دیکھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ جواب لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور حضرت فاطمہ کا جواب بیان کیا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:فاطمہ میری لخت جگر ہے اس کی رائے میری رائے ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی زندگی کے تمام ادوار میں بے مثال نظر آتی ہیں۔آپ اپنے والدین کے لئے ایک بے مثال اور قابل فخر بیٹی تھیں۔اپنے شوہر کے لئے ایک بے مثال شریک حیات اور مونس وغمخوار تھیں۔آپ نے ماں ہونے کی حیثیت سے سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما کی ایسی تربیت فر مائی کہ انہوں نے اللہ کے دین کو بچانے کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیا یہاں تک کہ انتہائی صبر وتحمل کے ساتھ اپنی جان بھی قر بان کردی اور اس وقت جب کہ آپ کی نگاہوں کے سامنے عزیز واقارب کی بہترّ نعشیں پڑی تھیں اور خود اپنا جسم تلواروں ،بھالوں،نیزوں اور تیروں کےزخموں سے لہو لہان تھا سجدہ قضا نہ ہونے دیا۔اور اپنی صاحبزادی حضرت زینب اور ام کلثوم کو اللہ و رسول کے احکام کا ایسا پابند بنایا تھا کہ انہوں نے کر ب وبلا کی سر زمین پر اپنے بھائی ،بھتیجوں اور بھانجوں کے تڑپتے لاشے کو دیکھ کر بھی اپنے سر سے دوپٹے کو ہٹنے نہیں دیا ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا: حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والدین علی اور فاطمہ ان دونوں سے بھی بہتر ہیں۔ ( ابن ماجہ،حدیث:۱۱۸ )
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ:میری بیٹی فاطمہ تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ ( ترمذی،حدیث:۳۷۸۱ )
تین (3) رمضان المبارک سن 11 ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔ ( ماخذ : کتب احادیث ، کتب تفاسیر ، فضائل سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ، البتول ، خاتون جنت وغیرہ )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment