Sunday, 31 May 2020

اکابرین اسلام علیہم الرّحمہ اور عقیدہ حاضر وناظر

اکابرین اسلام علیہم الرّحمہ اور عقیدہ حاضر وناظر
محترم قارئینِ کرام : اکثر منکرین کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ عقیدہ حاضر وناظر بریلویوں کی ایجاد ہے آیئے اِس جھوٹ کا جواب حقائق و دلائل کی روشنی میں پڑھتے ہیں کہ اکابرین اسلام علیہم الرّحمہ کا عقیدہ حاضر وناظر کیا ہے :
قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمتہ نقل کرتے ہیں کہ : حضرت عمرو بن دینار رحمتہﷲعلیہ نے فرمایا : ان لم یکن فی البیت احد فقل : السلام علی النبی ورحمتہﷲ وبرکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادﷲ الصالحین السلام علیٰ اھل البیت ورحمتہﷲ وبرکاتہ "
ترجمہ : اگر کوئی گھر میں نہ ہو تو (داخل ہوتے وقت) یوں کہو : السلام علی النبی ورحمتہﷲ وبرکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادﷲ الصالحین السلام علیٰ اھل البیت ورحمتہﷲ وبرکاتہ ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم الجزء الثانی صفحہ ٣٠٧ القاضی ابی الفضل عیاض بن موسیٰ بن عیاض المالکی (٥٤٤ھ) الیحصُبی الاندلسی ثم المراکشی مطبوعہ دارالحدیث القاھرہ (مصر) ۔ (کتاب الشفاء اردو جلد دوم صفحہ نمبر 64 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
شفاء شریف کی شرح کرتے ہوئے امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر آکر یوں فرماتے ہیں : لان روحہ علیہ السلام حاضر فی بیوت اھل الاسلام ۔
ترجمہ : (یعنی السلام علی النبی ورحمۃ ﷲ وبرکاتہ کا حکم اس لئے کیونکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی روح ہر مسلمان کے گھر میں حاضر ہوتی ہے ۔ (شرح الشفاء الجزء الثانی صفحہ ١١٨ الملا علی قاری الھروی الحنفی علیہ الرحمتہ (متوفی ١٠١٤ھ) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علماء امت کے مذاہب اور اختلافات کی کثرت کے باوجود کسی ایک شخص کا بھی اس مسئلے میں اختلاف نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم مجاز کے شائبہ اور تاویل کے وہم کے بغیر حقیقی حیات کے ساتھ دائم وباقی اور اعمال ِ امت پر حاضر وناظر ہیں ۔ (عبدالحق محدث دہلوی ، شیخ محقق، مکتوبات برحاشیہ اخبار الاخیارطبع سکھر صفحہ نمبر 551)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لیئے لفظ حاضر وناظر بولا جاتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کی بشریت مطہرہ اور جسم خاص ہر جگہ ہر شخص کے سامنے موجود ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اپنے مقام رفیع پر فائز ہونے کے باوجود تمام کائنات کو ہتھیلی کی طرح ملاحظہ فرماتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی روحانیت اور نورانیت کے اعتبار سے بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوسکتے ہیں اور اولیائے کرام بیدار ی میں آپ کے جمال اقدس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں نظر رحمت وعنایت سے مسرور فرماتے ہیں ۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا، سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے حاضر ہونے کا معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے ۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ عقیدہ ظنیہ اور از قبیل فضائل ہے ۔ اس کے لیئے دلائل قطعیہ کا ہونا ہی ضروری نہیں ، بلکہ دلائل ظنیہ بھی مقید مقصد ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : یا ایھا النبی انا ارسلناک شاھدا (الاحزاب 33،51)
ترجمہ : اے غیب کی خبریں دینے والے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضروناظر ۔
علامہ ابوالسعود (م 159ھ) رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہم نے تمہیں ان لوگوں پر شاہد (حاضر وناظر) بنا کر بھیجا جن کی طرف آپ مبعوث ہیں ۔ آپ ان کے احوال و اعمال کا مشاہدہ اور نگرانی کرتے ہیں ۔ آپ ان سے صادر ہونے والی تصدیق و تکذیب اور ہدایت و ضلالت کے بارے میں گواہی حاصل کرتے ہیں اور قیامت کے دن اُن کے حق میں یا ان کے خلاف جو گواہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم دیں گے مقبول ہوگی ۔ (محمد بن محمد العمادی، ابوالسعود امام، تفسیر، ابوالسعود (احیاء التراث العربی، بیروت، ج 7، ص 24) ۔ علامہ سلمان جمل رحمۃ اللہ علیہ نے الفتوحات الالٰہیہ (ج 3 ص 244) اور علامہ سید محمود آلوسی نے تفسیر روح المعانی (ج 22 ص 54) میں یہی تفسیر کی ہے ۔
امام محی السنہ علاء الدین خازن رحمۃ اللہ علیہ (م 147ھ) نے ایک تفسیر یہ بیان کی ہے ۔ شاھدا علی الخلق کلھم یوم القیامۃ ۔ ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن تمام مخلوق پر گواہ ہوں گے ۔ (علی بن محمد البغدادی الشہیر بالخازن؛ تفسیر لباب التاویل فی معانی التنزیل (مصطفےٰ البابی مصر) جلد 5، ص 662)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی دعوتِ اسلام ہرمومن وکافر کو شامل ہے۔ لہٰذا امت دعوت میں ہرمومن وکافرداخل ہے، البتہ! اُمتِ اجابت میں صرف وہ خوش قسمت افراد داخل ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آیت مبارکہ کی تفسیر میں علیٰ من بُعُثُ اِلَیھِم (جن کی طرف آپ کو بھیجا گیا) اور علی الخلق کلھم کہہ کر حضرات مفسرین نے اشارہ کیا ہے کہ آپ صرف اہل ایمان کو ہی نہیں، بلکہ کافروں کے احوال بھی مشاہدہ فرمارہے ہیں، اسی لیئے مومنوں کے حق میں کافروں کے خلاف گواہی دیں گے ۔
مفتی بغداد علامہ سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعض اکابر صوفیہ نے اشارہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بندوں کے اعمال پر آگاہ کیا اور آپ نے انہیں دیکھا، اسی لیئے آپ کو شاہد کہا گیا ۔ مولانا جلال الدین رومی قدس سرہ نے فرمایا : در نظر بودش مقامات العباد۔ زاں سبب نامش خدا شاہد نہاد ۔ (محمد آلوسی؛ علامہ سید؛ روح المعانی جلد 22، ص 54)
بندوں کے مقامات آپ کی نظر میں تھے اس لیئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شاہد رکھا۔
امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے فرمان شاھدا میں کئی احتمال ہیں (پہلا احتمال یہ ہے کہ) آپ قیامت کے دن مخلوق پر گواہی دینے والے ہیںجیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ویکون الرسول علیکم شھیدا۔ (رسول تم پر گواہ ہوں گے اور نگہبان) اس بنا پر نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم شاہد بنا کر بھیجے گئے ہیں ، یعنی آپ گواہ بنتے ہیں اور آخرت میں آپ شہید ہوں گے یعنی اس گواہی کو ادا کریں گے جس کے آپ حامل بنے تھے ۔ (محمد بن عمر بن حسین الرازی، امام ، تفسیر کبیر (مطبعۃ بہیہ مصر) ج 52، ص 612،چشتی)
مشہور مفسر قرآن علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی تعظیم وتوقیر کا مطلب یہ ہے کہ اس ظاہر وباطن میں آپ کی سنت کی حقیقی پیروی کی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ آپ موجودات کا خلاصہ اور نچوڑ ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی محبوب ازلی ہیں، باقی تمام مخلوق آپ کے تابع ہے ، اسی لیئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا۔
چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اللہ تعالیٰ کی پہلی مخلوق ہیں اس لیئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ربوبیت کے شاہد ہیں اور عدم سے وجود کی طرف نکالی جانے والی تمام ارواح، نفوس، احرام و ارکان،اجسام واجساد، معدنیات، نباتات،حیوانات، فرشتوں،جنات، شیاطین اور انسانوں وغیرہ کے شاہد ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کے افعال کے اسرار عجائب صنعت اور غرائب قدرت میں سے جس چیز کا ادراک مخلوق کے لیئے ممکن ہو وہ آپ کے مشاہدہ سے خارج نہ رہے، آپ کو ایسا مشاہدہ عطا کیا کہ کوئی دوسرا اس میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہیں ہے ۔ اسی لیئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا علمت ما کان وماسیکون (ہم نے جان لیا وہ سب جو ہوچکا اور جو ہوگا) کیونکہ آپ نے سب کا مشاہدہ کیا۔ اور ایک لمحہ بھی غائب نہیں رہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے آدم علیہ السلام کی پیدائش ملاحظہ فرمائی ، اسی لیئے فرمایا؛ ہم اس وقت بھی نبی تھے جب کہ آدم علیہ السّلام مٹی اور پانی کے درمیان تھے ، یعنی ہم جانتے تھے کہ ہم نبی ہیں اور ہمارے لیئے نبوت کا حکم کیا گیا ہے جبکہ حضرت آدم علیہ السّلام کا جسم اور روح ابھی پیدا نہیں کی گئی تھی ۔ آپ نے ان کی پیدائش، اعزاز واکرام کا مشاہدہ کیا اور خلاف روزی کی بنا پر جنت سے نکالا جانا ملاحظہ فرمایا : آپ نے ابلیس کی پیدائش دیکھی اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے سبب اس پر جوکچھ گزرا ، اسے رائندہ درگاہ اورملعون قراردیاگیا، سب کچھ ملاحظہ فرمایا، ایک حکم کی مخالفت کی بنا پر اس کی طویل عبادت اور وسیع علم رائیگاں گیا۔ انبیاء ورسل اور ان کی امتوں پر وارد ہونے والے حالات کے علوم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو حاصل ہوئے ۔ (اسماعیل حقی ، امام: روح البیان (دار احیاء التراث العربی، بیروت) جلد 9، ص 81)
ارشاد باری تعالیٰ ہے : سورۃ البقرہ 2 ، 341۔ و يکون الرسول عليکم شهيدا ۔
ترجمہ : اور یہ رسول تمہارے گواہ (اور حاضروناظر ہیں)
علامہ اسماعیل حقی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہما الرّحمہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے گواہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نور نبوت کےذریعے ہردیندار کے بارے میں جانتے ہیں کہ اس کے دین کا مرتبہ کیا ہے، اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ اور اس حجاب کو بھی جانتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمال دین سے روک دیا گیا ہے ۔ پس آپ امتیوں کے گناہ، ان کے ایمان کی حقیقت، ان کے اعمال، نیکیوں ، برائیوں اور اخلاص ونفاق وغیرہ کو جانتے ہیں ۔ (اسماعیل حقی ،امام ،تفسیر روح البیان دار احیاء التراث العربی ،بیروت جلد 9،صفحہ 842) ۔ (عبدالعزیز،محدث دہلوی، علامہ شاہ، تفسیر عزیزی فارسی طبع دہلوی جلد 1، صفحہ 815،چشتی)
علامہ امام ابن الحاج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اپنی امت کو ملاحظہ فرماتے ہیں ۔ ان کے احوال، نیتوں، عزائم اور خیالات کو جانتے ہیں اور اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اور وصال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ آپ پر عیاں ہے اور اس میں کچھ اخفاء نہیں ہے ۔ (ابن الحاج امام، المدخل (دارالکتاب العربی ، بیروت) ج 1،ص 252،احمد بن محمد القسطلانی،امام ، مواہب اللدنیہ مع الزرقانی (طبع مصر 2921ھ) جلد 8، ص 843)
و جنا بک على هؤلاء شهيدا۔ ترجمہ اور ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے ۔ (النساء،4،14)
ان آیات مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو شاہد اور شہید کہاگیا ہے۔ ان دونوں کا مصدر شہود اور شہادت ہے۔ آئیے دیکھیں کہ علماء لغت اور ائمہ دین نےا س کا کیا معنی بیان کیا ہے ؟
امام راغب اصفہانی (م205ھ) فرماتے ہیں : الشھود والشھادۃ الحضور مع المشاھدۃ اِماََ بالبصر او بالبصیرۃ والشھادۃ قولُ صادرِ عن علم حصل بمشاھدۃ بصیرۃ او بصرِ واما الشھید فقد یقال للشاھد والمشاھدُ للشئیی وکذا قولہ فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنابک علیٰ ھٰئولآء شھیدا۔
ترجمہ : شہود اور شہادۃ کا معنی مشاہدہ کے ساتھ حاضر ہونا ہے۔ مشاہدہ آنکھ سے ہو یا بصیرت سے شہادت اس قول کو کہتے ہیں جو آنکھ یا بصیرت کے مشاہدہ سے حاصل ہونے والے علم کی بنا پر صادر ہو، رہا شہید تو وہ گواہ اور شے کا مشاہدہ کرنے والے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہی معنی ہے (جس کا ترجمہ یہ ہے) کیا حال ہوگا ؟ جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے ۔ (حسین بن محمد المقلب بالراغب اصفہانی ، المفردات (نورمحمد ، کراچی)ص 962۔07،چشتی)
امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (شہادت) ، مشاہدہ، اور شہود کا معنی دیکھنا ہے، جب تم کسی چیز کو دیکھو تو تم کہتے ہو شھدت کذا (میں نے فلاں چیز دیکھی) چونکہ آنکھ کے دیکھنے اور دل کے پہچاننے میں شدید مناسبت ہے، اس دل کی معرفت اور پہچان کو بھی مشاہدہ اور شہود بھی کہا جاتا ہے۔(محمد بن عمر بن حسین الرازی، امام ، تفسیر کبیر (المطبعۃ المصریہ) جلد 4، ص 311،411)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (م 176ھ) فرماتے ہیں : شہادت کی تین شرطیں ہیں جن کے بغیرو ہ مکمل نہیں ہوتی۔ (1) حاضر ہونا ۔(2) جو کچھ دیکھا اسے محفوظ رکھنا، (3) گواہی کا ادا کرنا۔ (محمد بن احمد القرطبی، امام، التذکرہ (المکتبۃ التوفیقیۃ) ص 381)
امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ (م564ھ) فرماتے ہیں : ومعنی الشاھد الحاضر فکل ماھو حاضر قلبک فھو شاھدلک ۔ (عبدالکریم بن ہوازن، ابوالقاسم الامام، الرسالہ القشیریہ (مصطفیٰ البابی ، مصر) ص 74)
قرآن پاک سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم شاہد ہیں اور شاہدکا معنی حاضر ہے جیسے کہ امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ امام اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق شہادت کا معنی حضور مع المشاہدہ ہے۔ خواہ مشاہدہ سر کی آنکھوں سے ہو یا دل کی بصیرت سے، کہنے دیجئے کہ قرآن پاک کی آیات سے ثابت ہوگیا کہ حضور سید یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حاضر وناظر بنایا ہے۔ اس عقیدے کو اپنی نادانی کی بناء پر کوئی شخص نہیں مانتا تو بے شک نہ مانے لیکن اسے شرک قرار دینے کا کوئی قطعاََ جواز نہیں ہے۔
سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کس کی نسبت سے حاضر و ناظر ہیں ؟ اس سے پہلے مستند تفاسیر کے حوالے سے بیان کیا جاچکا ہے ۔ امام رازی اور امام خازن علیہما الرّحمہ نے فرمایا کہ آپ قیامت کے دن تمام مخلوق پر گواہ ہوں گے، امام ابوسعود نے فرمایا؛ جن کی طرف آپ کو بھیجا گیا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے جو امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا، کیونکہ حدیث شریف میں ہے : ارسلت الی الخلق۔ ہم تمام مخلوق کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ (مسلم بن الحجاج القشیری، امام، صحیح مسلم شریف (طبع کراچی) جلد 1، ص 991،چشتی)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ شاہد اور شہید کے الفاظ دوسرے لوگوں کے لیئے بھی وارد ہوئے ہیں ، کیا آپ انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی طرح حاضر وناظر مانیں گے ؟
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر شاہد اپنی شہادت کے دائرہ کار تک حاضر وناظر رہتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم تو تمام امت اور تمام مخلوق کے شاہد ہیں، کوئی ایسا شاہد نہیں پیش کیا جاسکتا جس کی شہادت کا دائرہ اتنا وسیع ہو، لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کسی کو حاضر وناظر ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں وہ الگ بات ہے کہ جیسے وہابی/دیوبندی دھرم میں انبیاء علیہم السّلام کو اپنی طرح عام بشر سمجھنے کا مشرکینِ مکہ کا جو عقیدہ رائج ہے وہ ہی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے) ۔
النبي اولى بالمؤمنين من انفسهم ۔ (الاحزاب،33،6) ، ترجمہ : نبی ان کی جانوں کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں اور ان کے زیادہ قریب ہیں ۔ (علامہ محمود آلوسی، روح المعانی جلد 12،ص 151)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رح نے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے ۔
پیغمبر نزدیک تراست، بمومناں از ذات ہائے ایشاں ۔
(یعنی ! پیغمبر مومنوں کے زیادہ قریب ہیں ان کی ذوات سے بھی)۔ (مدارج النبوۃ ؛ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر) جلد 18)
بانی دیوبند علامہ محمد قاسم نانوتوی لکھتے ہیں : النبي اولى بالمؤمنين من انفسهم ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نزدیک ہے مومنوں سے بہ نسبت ان کی جانوں کے یعنی ان کی جانیں ان سے اتنی نزدیک نہیں جتنا نبی ان کے نزدیک ہے۔ اصل معنی اولیٰ کے اقرب ہیں۔ (مولوی قاسم نانوتوی، آب حیات (مجتبائی، دہلی) ص 37، ب ایضاََ تحذیر الناس ، ص 01)
کیا یہ قرب صرف صحابہ کرام سے خاص تھا یا قیامت تک آنےوالے تمام مومنوں کو شامل ہے ؟ اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ خود کریں ۔ مامن مئومن اِلا واَنَا الناسِ بہ فی الدنیا والاخرۃ ۔ ہم دنیا اور آخرت میں دوسرے تمام لوگوں کی نسبت ہرمومن کے زیادہ قریب ہیں۔ (امام محمد بن اسماعیل البخاری: صحیح بخاری؛ ج 2، ص 507)
وما ارسلنٰک اِلا رحمۃ للعالمین ۔ اے حبیب! ہم نے تمہیں نہیں بھیجا مگر رحمت تمام جہانوں کے لیے۔ (الانبیاء: 12:701)
یہ بھی ارشاد ربانی ہے ۔
وما یعلم جنود ربک اِلا ھو۔ (المدثر: 47،13) ۔ ترجمہ: اور تیرے رب کے لشکروں کو وہی جانتا ہے ۔
ان آیات کے پیش ِ نظر ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات بے شمار ہیں اور ہمارے آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیئے رحمت ہیں، یہ تعلق سمجھنے کے لیئے درج ذیل تصریحات ملاحظہ کریں ۔
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام جہانوں کے لیئے رحمت ہونا اس اعتبار سے ہے کہ ممکنات پر ان کی قابلیتوں کے مطابق جو فیض الٰہی وار د ہوتا ہے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس فیض کا واسطہ ہیں ۔ اسی لیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور سب سے اول پیدا کیا گیا ۔ حدیث میں ہے : اے جابر! اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا نور پیدا کیا ۔ اور یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ دینے والا ہے اور ہم تقسیم کرنے والے ہیں۔ اس سلسلے میں صوفیاءکرام کا کلام کہیں بڑھ چڑھ کر ہے ۔ (روح المعانی ج 71، ص 501،چشتی)
علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ (م 7311ھ) تفسیر عرائس البیان کے حوالے سے فرماتے ہیں : اے دانشور بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ اس نے سب سے پہلے حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا، پھر عرش سے لے کر تحت الثریٰ تک تمام مخلوقات کو آپ کے نور کی ایک جز سے پیدا فرمایا : پس آپ کو وجود اور شہود کی طرف بھیجنا ہر موجود کے لیئے رحمت ہے ۔ لہٰذا آپ کا موجود ہونا مخلوق کا ہونا ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا موجود ہونا وجودِ مخلوق اور تمام مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سبب ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی رحمت ہیں جو سب کے لیئے کافی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی سمجھا دیا کہ تمام مخلوق قضاء قدرت میں بے روح صورت کی طرح پڑی ہوئی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا انتظار کررہی تھی۔ جب حضور اقدس تشریف لائے تو عالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مسعود کی بدولت زندہ ہوگیا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات کی روح ہیں ۔ (شیخ اسماعیل حقی ، العلامہ، روح البیان (طبع بیروت) ج 5، ص 825، ب: روزبہان، العلامہ، شیخ: عرائس البیان طبع لکھنئو ج2، ص 25)
مصباح الغات میں لفظ (الشھید ، والشھید) کے معنی میں لکھا گیا ہے کہ ۔ حاضر ۔ گواہی میں امانت دار۔ وہ ذات جس کے علم سے کوئی چیز غائب نہ ہو۔ اللہ کی راہ میں مقتول ۔
مزید لفظ (اشھدَہ) ۔ کےمعنوں میں لکھا ہے کہ ۔ حاضر کرنا۔ گواہی کے معاملہ کو مدد دینا ۔ اسی طرح الشھادۃ ۔تشھد۔گواہی طلب کرنا۔ یعنی ساتھ میں ہی التحیات کے حوالے سے ذکر ہے ۔ ثابت ہوا کہ شاہد کے لیئے حاضروناظر ہونا ضروری ہے ۔ جس کو واقعہ کے علم ہو، اپنی آنکھوں دیکھا حال جانتے ہوں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیئے تمام امتوں پر شاہد ہیں خصوصی طور پر اس اُمتِ مرحومہ پر ۔ آج بھی اور قیامت تک جو بھی مسلمان ہوگا وہ کلمہ میں شہادت دیئے بنا ایمان ہی نہیں لا سکتا، اور شہادت دینے کا مطلب یہی ہے کہ آپ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر شاہد ہیں کہ اور شاہد ، شھدہ سے مشہود ہے یعنی ، حاضر وناظر ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...