سیرت و فضائل ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
محترم قارئینِ کرام : ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں ۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ ان کے والد کا نام خویلد بن اسد تھا جوکہ قریش کے بہت مالدار سردار تھے ۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی ۔ انہوں نے اپنا کاروبار تجارت اور مال اپنی وفات سے پہلے اپنی اس ذہین اور معاملہ فہم بیٹی کے سپرد کردیا تھا ۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقدِ نکاح میں آنے والی خوش نصیب خاتون ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں ، آپ کا نام خدیجہ بنتِ خویلد ، والِدہ کا نام فاطمہ ہے ۔ (اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 81)
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی کنیت اُمُّ الْقَاسِم ، اُمِّ ھِند اور القاب الکبریٰ ، طاھِرہ اور سَیِّدَۃُ قُرَیْش ہیں ، آپ کی ولادت عامُ الفیل سے 15 سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔ عقدِ نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردارو عمل سے مُتاثِر ہو کر آپ رضی اللہ عنہا نے پیغامِ نکاح بھیجا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمایا ، یوں یہ بابرکت نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ شام سے واپسی کے 2 ماہ 25 دن بعد منعقد ہوا ۔ (المواہب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 101)
اس وقت ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک 40 برس تھی ۔ (الطبقات الکبرٰی جلد 8 صفحہ 13)
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گھر بیٹھے اپنی ذہانت و قابلیت اور معاملہ فہمی کی بدولت اپنی تجارت کو چار چاند لگا دیئے ۔ کبھی کبھار وہ قسمت و مقدر کے بارے میں سوچا کرتیں کہ پتا نہیں اللہ کو کیا منظور ہے ۔ ایک طرف اللہ نے انہیں بھائیوں سے محروم کردیا تو دوسری طرف انہیں ازدواجی زندگی میں پے در پے صدمات برداشت کرنا پڑے ۔ ان کے پہلے خاوند ابو ہالہ بن زرارہ تھے جو شادی کے کچھ ہی عرصے بعد فوت ہو گئے ۔ ان سے ان کے دو بیٹے تھے ۔ ان کی دوسری شادی بنو مخزوم کے بہت خوش خلق نوجوان عتیق بن عابد سے ہوئی لیکن وہ بھی نہایت مختصر عرصے بعد داغ مفارقت دے گئے ۔ ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو صحابیہ بھی ہیں اور ان کانام ہند رضی اللہ عنہا بیان کیا گیا ہے ۔
نسب شریف : ⏬
ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔ آپ کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے ۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام ہند ہے ۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں ۔ (مدارج النبوت قسم پنجم باب دوم در ذکر ازواج مطہرات جلد ۲ صفحہ ۴۶۴،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کل سات بچے عطا فرمائے تھے ۔ ان میں حضرت سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ باقی سب بچے حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ یہ بھی کمال ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو بیٹے اور چار بیٹیاں اس عظیم خاتون سے مرحمت ہوئیں لیکن دونوں بیٹے قاسم اور عبداللہ بچپن ہی میں اللہ نے واپس لے لئے جبکہ بیٹیاں حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا ، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن جوانی کی عمر کو پہنچیں ۔
حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : خير نسائها خديجة بنت خويلد و خير نسائها مريم بنت عمران ۔
ترجمہ : (اپنے زمانہ کی عورتوں میں) سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ہیں ، اور (اپنے زمانہ کی عورتوں میں) سب سے افضل مریم بنت عمران ہیں ۔ (سنن ترمذی جلد 5 صفحہ 702 رقم : 3877،چشتی)
اسی طرح ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھے جتنا رشک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ہوا اتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی دوسری زوجہ پر نہیں ہوا ۔ حالانکہ میں نے ان کا زمانہ نہیں پایا ۔ اس رشک کی وجہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا انہیں کثرت سے یاد کرنا ہے ۔ اگر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم بکری ذبح کرتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت کا ہدیہ بھیجتے ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : 3876)
نکاح کے بعد پچیس برس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں رہیں اور نبوت کے دسویں سال پینسٹھ برس کی عمر میں انتقال فرمایا ۔ ان کے انتقال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود قبر مبارک میں اتر کر ان کو دفن فرمایا تھا ۔
حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور جنابِ ابوطالب کا انتقال ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہر جانا بہت کم کردیا اور گھر میں ہی قیام فرمارہے تھے ۔ ادھر قریش کو ایذا رسانی کا وہ موقعہ ہاتھ آگیا جو انہیں کبھی میسر نہیں ہوا تھا اور نہ ہی وہ اس کی امید کرسکتے تھے ۔ (الوفاء امام عبدالرحمن ابن جوزی علیہ الرحمہ صفحہ 258)
صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جبرائیل علیہ السلام نے حاضر ہو کر عرض کیا : اے اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں ان سے ان کے رب کا سلام فرمانا ۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا الحدیث ۲۴۳۲،چشتی)
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا ، سیدہ فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا اور آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ عنہا امراه فرعون ہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل مسند عبداللہ بن عباس الحدیث۲۹۰۳ جلد ۱ صفحہ ۶۷۸،چشتی)
حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا مالدار ہونے کے علاوہ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں ۔ بکثرت قریشی آپ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے خواہشمند تھے لیکن آپ رضی اللہ عنہا نے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بلکہ سیدہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا ۔ سردارِ کُل جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے چچا ابوطالب ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر رؤساء کے ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لائے ۔ جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا ۔ (مدارج النبوت قسم دوم باب دوم درکفالت عبد المطلب ۔ الخ جلد ۲ صفحہ ۲۷،چشتی)
بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد،تسمیۃ النساء ... الخ ۔ ذکرخدیجہ بنت خولید جلد ۸ صفحہ ۱۳)
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اور ایمانِ ابو طالب
محترم قارئینِ کرام : اکثر ایک سوال کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جنابِ ابو طالب نے پڑھایا تھا ، اگر جنابِ ابو طالب کافر تھے تو کیا کافر نکاح پڑھا سکتا ہے پھر تم بھی کافر سے نکاح پڑھوایا کرو ؟
جنابِ مَن : پہلی بات یہ ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح اعلانِ نبوت سے پہلے ہوا تھا اس لیے یہ خطبہ پڑھنا ایمان کےلیے دلیل نہیں بن سکتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نکاح کا خطبہ پڑھنا مستحب ہے ، ضروری نہیں ہے اور بہتر یہ ہے کہ کوئی دیندار اور نیک شخص نکاح کا خطبہ پڑھے ، البتہ اگر کسی کافر نے مسلمان کے نکاح کا خطبہ پڑھا اور دو گواہوں کی موجودگی میں عاقدین نے ایجاب و قبول کرلیا ، تب بھی نکاح منعقد ہوجائے گا، کیونکہ نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں محض ایجاب و قبول کرنے کا نام ہے اور نکاح خواہ کی حیثیت صرف معبر اور سفیر کی ہوتی ہے، لہذا کافر اگر مسلمان کا خطبہ نکاح پڑھ لے ، تب بھی نکاح ہو جائے گا، البتہ بہتر یہ ہے کہ کوئی دیندار اور نیک شخص نکاح کا خطبہ پڑھے ۔ ⬇
باب الخطبۃ : وقال الترمذي وقد قال بعض أهل العلم إن النكاح جائز بغير خطبة وهو قول سفيان الثورى وغيره من أهل العلم قلت وأوجبها أهل الظاهر فرضا واحتجوا بأنه خطب عند تزوج فاطمة رضي الله تعالى عنها وأفعاله على الوجوب واستدل الفقهاء على عدم وجوبها بقوله في حديث سهل بن سعد قد زوجتها بما معك من القرآن۔۔الخ ۔ (عمدۃ القاری باب الخطبۃ جلد 20 صفحہ 134)
(وينعقد) ملتبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر ۔ (الدر المختار جلد 3 صفحہ 8 مطبوعہ ایچ ایم سعید)
فإن عقد الزواج من غير خطبة جاز،فالخطبة مستحبة غير واجبة ۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ ج: 9، ص: 6618، ط: دار الفکر)
عظیم مفسرِ قرآن فخرِ سادات علامہ سید محمود آلوسی رحمة علیہ لکھتے ہیں کہ : جنابِ ابو طالب نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد اور نصرت کی تو وہ دین اسلام کی محبت میں نہیں کی ‘ بلکہ نسب اور قرابت کی وجہ سے کی ‘ اور اعتبار دینی محبت کا ہے ‘ نسبی محبت کا نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شدید اصرار کے بعد بھی ابو طالب نے ایمان نہ لا کر آپ کو سخت اذیت بھی تو پہنچائی ہے ‘ تاہم ابو طالب کے کفر کے باوجود اس کی اس طرح مذمت نہ کی جائے جس طرح ابو جہل اور دیگر کفار کی مذمت کی جاتی ہے ۔ (روح المعانی ‘ جز ١١‘ ص ٣٣۔ ٣٢‘ مطبوعہ بیروت)
ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے متعلق احادیث
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : سعید بن مسیب کے والد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب ابو طالب کا وقت قریب آپہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت ابو طالب کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی موجود تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے چچا ایک بار ” لا الہ الا اللہ “ کہو تو میں تمہارے حق میں اسلام کی گواہی دوں گا ۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے ‘ اے ابو طالب ‘ کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کی ملت کو چھوڑ رہے ہو ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل ابو طالب کو کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے رہے۔ بہرحال ابو طالب نے جو آخری الفاظ کہے ‘ وہ یہ تھے میں اپنے باپ عبدالمطلب کی ملت پر ہوں اور ” لا الہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بخدا میں اس وقت تک تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ اس سے روک نہ دے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ترجمہ) نبی اور مسلمانوں کے لیے مشرکین کی مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں۔ خواہ وہ ان کے رشتہ دار کیوں نہ ہوں جبکہ ان کا جہنمی ہونا معلوم ہوچکا ہو ۔ (سورہ التوبہ : ١١٣) اور ابو طالب کے بارے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی (ترجمہ) ہر وہ شخص جس کو آپ چاہیں آپ اس میں ہدایت جاری نہیں کرسکتے ۔ البتہ اللہ تعالیٰ جس کے حق میں چاہتا ہے ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے بخوبی واقف ہے ۔ (القصص : ٥٦) (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٩‘ (٢٤) ١٣١‘ صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٧٥‘ سنن النسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠٣٥‘ سنن کبری ‘ للنسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ١١٣٨٣،چشتی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے فرمایا ” لا الہ الا اللہ “ پڑھیں۔ میں قیامت کے دن آپ کے حق میں اس کی گواہی دوں گا۔ ابو طالب نے کہا اگر مجھے قریش کے عار دلانے کا خوف نہ ہوتا ‘ کہ وہ کہیں گے کہ یہ بےصبری کی وجہ سے مسلمان ہوگیا تو میں کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھ ٹھنڈی کردیتا ‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بیشک آپ جس کو چاہیں ہدایت یافتہ نہیں کرسکتے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ‘ ہدایت یافتہ کرتا ہے (القصص : ٥٦) (صحیح مسلم الایمان ‘ ٤٢ (٢٥) ١٣٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٧٢‘ سنن ترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣١٩٩‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٩٦١٦‘ صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٢٧٠‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ٢‘ ص ٣٤٥۔ ٣٤٤)
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : آپ نے اپنے چچا سے کس عذاب کو دور کیا ؟ وہ آپ کی طرف سے مدافعت کرتے تھے ‘ آپ کی خاطر غضبناک ہوتے تھے ۔ آپ نے فرمایا وہ ٹخنوں تک آگ میں ہے اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ آگ کے آخری طبقہ میں ہوتا ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٨٣‘ صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٥٧‘ (٢٠٩) ٥٠٠)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سنا ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ابو طالب کا ذکر کیا گیا۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن میری شفاعت سے اس کو نفع پہنچے گا اس کو تھوڑی سی آگ میں ڈالا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی ‘ جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٨٥‘ صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٠‘ (٢١٠) ٥٠٢)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے کم دوزخ کا عذاب ابو طالب کو ہوگا ‘ اس کو آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا ۔ (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٢‘ (٢١٤) ٥٠٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٦١‘ سنن ترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦١٣‘ مسند احمد ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٤١٨‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ١٦‘ رقم الحدیث :‘ ٧٤٧٢،چشتی)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ قیامت کے دن دوزخ میں سب سے کم عذاب والا وہ شخص ہوگا جس کے پیروں کے تلووں میں دو انگارے ہوں گے ‘ جس سے اس کا دماغ اس طرح کھول رہا ہوگا جس طرح پیتل کی دیگچی میں پانی کھولتا ہے ۔ (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٣ ‘(٢١٣) ٥٠٥‘ صحیح البخاری ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٦١)
امام احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٣ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا آپ کا بوڑھا گمراہ چچا فوت ہوگیا ‘ اس کو زمین میں کون دفن کرے گا ؟ آپ نے فرمایا جاؤ اپنے باپ کو زمین میں دفن کردو ۔ (سنن النسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٢٠٠٥)
امام احمد بن حنبل ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابو طالب فوت ہوگیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جا کر اس کو دفن کردو۔ میں نے عرض کیا وہ مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوا ہے ۔ آپ نے فرمایا جا کر اس کو دفن کردو ۔ جب میں دفن کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس آیا تو آپ نے فرمایا غسل کرلو۔ (مسند احمد ‘ ج ١‘ ص ١٣١‘ ١٣٠‘ ٩٧‘ طبع قدیم ‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ٢‘ ص ٣٤٨،چشتی)
امام ابوبکرعبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥‘ ھ روایت کرتے ہیں : شعبی بیان کرتے ہیں کہ جب ابو طالب فوت ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر کہا آپ کا بوڑھا چچا جو کافر تھا ‘ وہ فوت ہوگیا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ‘ ج ٣‘ ص ٣٤٨‘ مطبوعہ کراچی ‘ ١٤٠٦)
امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا قرآن مجید کی آیت اور وہ لوگوں کو (انہیں ایذاء پہنچانے سے) منع کرتے ہیں اور خود ان سے دور رہتے ہیں (الانعام : ٢٦) ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی تھی ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچانے سے مشرکین کو منع کرتا تھا اور آپ کے لائے ہوئے دین سے دور رہتا تھا ۔ (دلائل النبوۃ ‘ ج ٢‘ ص ٣٤١‘ مطبوعہ بیروت)
ایمانِ ابو طالب اور حضرت سیّد غوثُ الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سیّدنا غوثُ الاعظم شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب ابوطالب پر موت کا وقت آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا ! اے میر چچا ! لا الٰہ الا اللہ پڑھیے میں اس کلمہ کی وجہ سے اللہ کے پاس آپ کی شفاعت کروں گا ‘ تو ابوطالب نے کہا مجھے علم ہے کہ آپ سچے ہیں لیکن میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ یہ کہا جائے کہ ابوطالب موت سے گھبرا گیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو طالب کی مغفرت طلب کرنے سے کرنے سے منع فرما دیا ۔ (تفسیر الجیلانی جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 457 مطبوعہ المکتبۃ المعروفیہ کانسی روڈ کوئٹہ پاکستان بحوالہ مسند احمد بن حنبل)
ایمانِ ابو طالب حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نظر میں
تاجدار گولڑہ حضرت سیّد پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچے اور پھوپھیاں حارث ، قثم ، حمزہ ، عباس ، ابوطالب ، عبدالکعبہ ، جحل ، ضرّار ، غیداق ، ابولہب ، صفیہ ، عاتکہ ، اروی ، اُمّ حکیم ، بّرہ ، امیمہ اس جماعت میں سے حضرت حمزہ و عباس و حضرت صفیہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین وعلیھن ایمان لائے ۔ اور حاشیہ میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں تین حضرات کے مشرف با اسلام ہونے کو جمہور علماء کا مذہب قرار دیا ہے ۔ (تحقیق الحق فی کلمة الحق صفحہ نمبر 153 مطبوعہ گولڑہ شریف،چشتی)۔(یعنی ابو طالب ایمان نہیں لائے تھے)
حضرت سیّد میر عبدالواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ اور ایمانِ ابو طالب
محترم قارئینِ کرام : سبع سنابل کے حوالے سے رافضیوں نے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ ابو طالب کو مسلمان سمجھتے تھے ۔ جب یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ رافضیوں کو بولنے سے پہلے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ سبع سنابل شریف اب بھی چھپ رہی ہے جو چاہے وہ پڑھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ کا وہی موقف ہے جو جمیع اہل سنت و جماعت کے اکابرین کا موقف ہے یعنی ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا ۔ اب آئیے سبع سنابل شریف کی عبارت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ خود فیصلہ کر لیجیے گا : ⏬
حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں : میرے بھائی اگر چہ مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضائل و شرف کے کمالات اہل معرفت کے دلوں میں نہیں سماں سکتے اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر نہیں دکھا سکتے خواہ وہ آباؤ اجداد ہوں یا اولاد در اولاد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و علا نے ان کے دل پر روز اول ہی سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار على العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمك الضال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر پھینکنے والا بنا دیتا ہے ۔ (سبع سنابل صفحہ نمبر 90 مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی اردو بزار لاہور،چشتی)
شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سمجھانے کا حضرت ابو طالب پر کچھ اثر نہ ہوا اور حالت کفر میں انتقال ہوا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جاؤ انہیں دفن کر دو ۔ (فوائد الفواد مترجم اردو صفحہ نمبر 364 پندرہویں مجلس،چشتی) ۔
شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ابو طالب کی قسمت میں ایمان نہیں تھا اس لیے اس نعمت سے محروم رہے ۔ (افضل الفوائد ، ہشت بہشت مترجم صفحہ نمبر 73 مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
خود کو چشتی ، پیر اور سنیوں کا خطیب کہلانے والوں کے نام چشتیوں کے سردار شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام ۔
ایمانِ ابو طالب حضرت سیّد داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں
حضرت سیّد علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : دلائل لانے والوں میں سے ابو طالب سے بڑھ کر کوئی نہ تھا اور حقانیت کی دلیل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بزرگ تر کچھ نہیں ہو سکتی تھی مگر جبکہ جریانِ حکمِ شقاوت ابو طالب پر ہو چکا تھا ۔ لا محالہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس بھی اُسے فائدہ نہ پہنچا سکی ۔ (یعنی ابو طالب ایمان کی دولت سے محروم رہے) ۔ (کشف المحجوب مترجم صفحہ نمبر 448 مطبوعہ مکتبہ شمس و قمر جامعہ حنفیہ غوثیہ بھاٹی چوک لاہور،چشتی)
استدلال میں سے ابو طالب سے بڑھ کر کوئی نہ تھا اور حقانیت کی دلیل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بزرگ تر کچھ نہیں ہو سکتی تھی ، ابو طالب کےلیئے چونکہ بد بختی کا حکم جاری ہو چکا تھا ۔ (توفیق الٰہی اُن کے مقدر میں نہ تھی) ۔ لا محالہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس بھی اُسے فائدہ نہ پہنچا سکی ۔ (توفیق الٰہی اُن کے مقدر میں نہ تھی) ۔ (یعنی ابو طالب ایمان کی دولت سے محروم رہے) ۔ (کشف المحجوب مترجم قدیم صفحہ نمبر 432 مطبوعہ ناشرانِ قرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور)
امامُ العارفین ، محبوبِ یزدانی حضرت سلطان سیّد مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچاؤں میں سے ابو طالب تھے جن کا انتقال حالتِ کفر میں ہوا ۔ (لطائفِ اشرفی فارسی حصّہ دوم صفحہ نمبر 315 مطبوعہ مکتبہ سمنانی فردوس کالونی کراچی،چشتی)،(لطائفِ اشرفی اردو حصّہ سوئم صفحہ نمبر 499)
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچاؤں میں سے بجز حضرت امیر حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے کوئی مسلمان نہ ہوا ۔ ابو طالب اور ابو لہب نے زمانہ اسلام کا پایا لیکن اس کی توفیق نہ پائی جمہور علماء کا یہی مذہب ہے ۔ (مدارج النبوت مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 576 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور پاکستان،چشتی)
ایمانِ ابو طالب حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں
سلطان التارکین بُرھانُ العاشقین حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختار ہیں جو کام کیا اللہ عز و جل کی اجازت سے کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بہت کوشش کی میرا چچا ابو طالب ایمان لے آئے مگر ابو طالب نے کہا مجھے شرم آتی ہے لوگ کیا کہیں گے بھتیجے کی اطاعت کر لی میں نے اس عار کی وجہ سے دوزخ کو اختیار کر لیا ہے ۔ اخترت النار علی العار ۔ (نافع السالکین مترجم اردو صفحہ نمبر 357، چشتی)،(نافع السالکین مترجم اردو صفحہ نمبر 365 مطبوعہ شعاع ادب مسلم مسجد چوک انار کلی لاہور)
امام احمد رضا قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ ابوطالب تمام عمر حضور سیّد المرسلین سیّدالاولین و الاخرین سیدالابرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الٰی یوم القرار کی حفظ و حمایت و کفایت و نصرت میں مصروف رہے ۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا، اور اس وقت میں ساتھ دیا کہ ایک عالم حضور کا دشمنِ جاں ہوگیا تھا ، اور حضور کی محبت میں اپنے تمام عزیزون قریبیوں سے مخالفت گوارا کی ، سب کو چھوڑ دینا قبول کیا ، کوئی دقیقہ غمگساری و جاں نثاری کا نامرعی نہ رکھا ، اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں ، ان پر ایمان لانے میں جنت ابدی اور تکذیب میں جہنم دائمی ہے ، بنوہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے ، نعت شریف میں قصائدان سے منقول ، اور اُن میں براہ فراست وہ امور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے ۔ بعد بعثت شریف ان کا ظہور ہوا ، یہ سب احوال مطالعہ احادیث و مراجعتِ کُتب سیر سے ظاہر ، ایک شعر ان کے قصیدے کا صحیح بخاری شریف میں بھی مروی : ⏬
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ مال الیتامٰی عصمۃ للارامل ۔
ترجمہ : وہ گورے رنگ والے جن کے رُوئے روشن کے توسّل سے مینہ برستا ہے ، یتیموں کے جائے پناہ بیواؤں کے نگہبان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ت) ۔ (صحیح البخاری ابواب الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۳۷،چشتی)
محمد بن اسحٰق تابعی صاحبِ سیر و مغازی نے یہ قصیدہ بتما مہما نقل کیا جس میں ایک سو ۱۱۰ دس بیتیں مدحِ جلیل و نعتِ منیع پر مشتمل ہیں ۔ شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ ، شرح سفر السعادۃ میں اس قیصدہ کی نسبت فرماتے ہیں : دلالت صریح داروبرکمال محبت ونہایت نبوت او ، انتہی ۔
ترجمہ : یہ قصیدہ ابوطالب کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کمال محبت اور آپ کی نبوت کی انتہائی معرفت پر دلالت کرتا ہے ۔ (ت) ۔ (شرح سفر السعادۃ فصل دربیان عیادت بیماراں مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)
مگر مجردان امور سے ایمان ثابت نہیں ہوتا ۔ کاش یہ افعال واقوال اُن سے حالتِ اسلام میں صادر ہوتے تو سیّدنا عباس بلکہ ظاہراً سیّدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاعمام حضور افضل الانام علیہ وعلٰی آلہ وافضل الصلوۃ والسلام کہلائے جاتے ۔ تقدیر الہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا فاعتبروایا اولی الابصار ۔ ( القرآن الکریم ۵۹/ ۲ ) (تو عبر ت لو اے نگاہ والو! ت) ۔ (شرح المطالب فی مبحث ابی طالب(۱۳۱۶ھ،چشتی)،(مطالب کی وضاحت ابُوطالب کی بحث میں)
آج کل بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ : جنابِ ابوطالب پہلا مسلمان اور پہلا صحابی اور کفیل رسول اللہ ہے ہمارے لیے ایمان آزمانے کے لیے ایمان کی کسوٹی ہے ، جو ابوطالب کو "علیہ السلام" کہے گا وہ ہمارا ہے جو ان کے بارے میں گندی زبان ہلائے ، وہ ہمارا نہیں ہے ۔۔۔۔ اس سے دور رہنا چاہیے ۔۔۔۔ جو علی کے باپ کو کافر کہے وہ مومن نہیں ۔۔۔ کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔ وغیرہ ۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ رافضی و نیم رافضی کہہ رہے ہیں ، تو پھر ائمہ محدثین مفسرین علیہم الرّحمہ سے اتنی بڑی بات کیسے چُھپی رہ گئی اور انہیں علم کیوں نہ ہوسکا ؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سوانح و تعارف پہ بڑی بڑی کتابیں محدثین علیہم الرّحمہ نے لکھیں ہیں ، تو جنابِ ابوطالب کا نام کیوں چھوڑ گئے ؟
حضرت سیّدنا غوثُ الاعظم شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جو امام الاولیاء ہیں ، جن کے نام پر آپ کے آستانے چل رہے ہیں ، کیا وہ بھی اس حقیقت سے ناآشنا رہے ؟ ، آخر وہ کون سی وجوہات تھیں ، کہ سلف صالحین علیہم الرّحمہ جناب ابوطالب کے نام کی کانفرنسیں منعقد کرنے کی سعادت سے محروم رہے ؟ ، آخر وہ کیا وجہ تھی کہ اسلاف علیہم الرّحہ آپ کے خود ساختہ معیار پر "علیہ السلام" لکھ کر پورا نہ اتر سکے ؟ ، اس وقت جتنے لوگ ایمان ابی طالب کے مسئلہ کو لے کر انتشار پھیلا رہے ہیں ، ان سب سے گزارش ہے کہ آخر آج وہ کون سی آفت آن پڑی ہے کہ اہل سنت کو روافض کی جھولیوں میں ڈالنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں ، اور ایمان ابی طالب کے مسئلہ پر خاموشی توڑ کر اسے عوام میں یوں بیان کیا جارہا ہے ، جسے سُن کر بڑے بڑے اکابرینِ اہلسنّت پر لوگ انگلیاں اٹھانے لگ پڑے ہیں ؟ ، کیا آپ لوگ خود کو حضرت سیّدنا غوثُ الاعظم شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی بڑے سید اور محب اہل بیت سجھتے ؟ اگر سجھتے تو بھی بتادیں اور اگر نہیں سمجھتے تو پھر کم از کم یہ سمجھنے کی کوشش کریں ، کہ انہوں نے جناب ابوطالب کے بارے میں آپ جیسا عقیدہ و نظریہ کیوں نہ رکھا ؟
صاحبِ روح المعانی لکھتے ہیں کہ : جنابِ ابو طالب کے اسلام کا مسئلہ مختلف فیہ ہے اور یہ کہنا کہ تمام مسلمانوں کا ‘ یا تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ صحیح نہیں ہے کیونکہ علماء شیعہ اور ان کے اکثر مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ ابو طالب اسلام لے آئے تھے اور ان کا دعوی ہے کہ ائمہ اہل بیت کا بھی اس پر اجماع ہے اور ابو طالب کے اکثر قصائد اس پر شاہد ہیں اور جن کا یہ دعوی ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ وہ علماء شیعہ کے اختلاف اور ان کے روایات کا اعتبار نہیں کرتے۔ تاہم ابو طالب کے اسلام نہ لانے کے قول کے باوجود ابو طالب کو برا نہیں کہنا چاہیے اور نہ اس کے حق میں یا وہ گوئی کرنی چاہیے ‘ کیونکہ اس سے علویوں کو ایذاء پہنچتی ہے اور یہ بعید نہیں ہے کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ایذا پہنچے ۔ (تفسیر روح المعانی ‘ جز ٢٠‘ ص ٩٧۔ ٩٦‘ مطبوعہ بیروت،چشتی)
فقیر چشتی عرض کرتا ہے کہ : مذاہب اربعہ کے معروف علماء ‘ فقہاء ‘ مفسرین اور جمہور اہل سنت کا یہ موقف ہے کہ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے ۔ فقیر کےلیے یہ کوئی خوشگوار موضوع نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی خواہش تھی کہ جنابِ ابو طالب ایمان لے آتے ۔ لیکن تقدیر کا لکھا پورا ہو کر رہا ۔ یہ بہت نازک مقام ہے ‘ جو لوگ اس مسئلہ میں شدت کرتے ہیں اور ابو طالب کی ابو لہب اور ابو جہل کی طرح مذمت کرتے ہیں ‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل آزاری کے خطرہ میں ہیں ۔ فقیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل بیت رضی اللہ عنہم کی دل آزاری سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ‘ ہم اس بحث میں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے جنابِ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے اور یہ چیز ہم پر بھی اتنی ہی گراں اور باعث رنج ہے جتنی ساداتِ کرام کےلیے ہے ۔ اس سے زیادہ فقیر اس بحث میں نہ کچھ لکھنا چاہتا ہے اور نہ اس مسئلہ کی باریکیوں میں الجھنا چاہتا ہے ۔ بعض علماۓ اہل سنت نے جنابِ ابو طالب کے ایمان کو ثابت کیا ہے ۔ ہرچند کہ یہ رائے تحقیق اور جمہور کے موقف کے خلاف ہے ‘ لیکن ان کی نیت محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم ہے ‘ اس لیے ان پر طعن نہیں کرنا چاہیے ۔ ان تمام دلائل کے باوجود بعض ناہنجاروں کی طرف سے صرف اکابرین اہلسنت میں سے بعض کو تنقید کا نشانہ بنانا ، سوقیانہ جملے کسنا اُن کے بغض باطن کی دلیل نہیں تو کیا ہے ؟ کبھی ان لوگوں نے سوچا کہ اِن کی نفرت و غلاظت کی زد میں کون کون آرہا ہے ؟ اللہ تعالیٰ جملہ اہلسنّت کو اِن فتنہ پروروں اور فتنوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔
جب تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حیات رہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی موجودگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا ۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا،الحدیث ۲۴۳۵ ، ص۱۳۲۴،چشتی)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ہوئی۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئے ۔ فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں ۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدیجۃ، اولادہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم من خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ص۷۷۔اسدالغابۃ،کتاب النساء ، خدیجۃ بنت خولید ، ج۷،ص۹۱۔چشتی)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تقریباً پچیس سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات رہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال بعثت کے دسویں سال دس (10) ماہ ِ رمضان المبارک کو ہوا ۔ اور مقبرہ حجون میں مدفون ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی ۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی ۔ اس سانحہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ ملول و محزون ہوئے ۔ (مدارج النبوت قسم پنجم باب دوم در ذکر ازواج مطہرات جلد ۲ صفحہ ۴۶۵)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے ۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیاں تھیں۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا الحدیث ۲۴۳۵، ص۱۳۲۳،چشتی)
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نمازکی فرضیت سے پہلے بھی نماز ادا فرماتی تھیں ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 83)
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے اپنی ساری دولت حُضُور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر قربان کردی اور اپنی تمام عمر حُضُور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خِدمَت کرتے ہوئے گزار دی ۔ (سیرت مصطفے صفحہ 95)
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ ایک بار قحط سالی اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کی وجہ سے حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں تو آپ نے انہیں 40 بکریاں اور ایک اُونٹ تحفۃً پیش کیا ۔ (الطبقات الكبرٰى جلد 1 صفحہ 92)
خصوصیات : ⏬
(1) عورتوں میں سب سے پہلے ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نےاسلام قبول کیا ۔ (الاستیعاب،ج4، ص380)
(2) ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی حَیَات میں رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی اور سے نِکاح نہ فرمایا۔( مسلم، ص1016، حدیث: 6281)
(3) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد سِوائے حضرتِ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے آپ رضی اللہ عنہا ہی سے ہوئی ۔ (المواہب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 391)
وصال شریف ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تقریباً 25 سال حُضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریکِ حیات رہیں ۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا وصال بعثت (یعنی اعلانِ نبوت) کے دسویں سال دس رمضان المبارک میں ہوا آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جَنَّتُ الْمَعْلٰی میں مدفون ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی نمازِ جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی (یعنی شرعاً اس کا آغاز نہ ہوا تھا) ، بوقتِ وصال آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی ، آپ کی وفات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت غمگین ہوئے ۔ (مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 465) جس سال آپ کی وفات ہوئی اسے عام الحزن (غم کا سال) قرار دیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment