شریعت ، طریقت اور تصوف
محترم قارئینِ کرام : طریقت و تصوّف کیا ہے اور اس کی حقیقت ؟ ، طریقت یا تصوف سے کیا مراد ہے ؟ : قرآن و حدیث اور صوفیا کرام علیہم الرّحمہ کے ارشادات کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں : سورہ بقرہ میں ﷲ تعالیٰ جل جلالہ کا فرمان عالی شان ہے‘ ’’جیسا ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا‘‘ ۔(آیت ۱۵۱)
اس آیت مقدسہ میں ﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پانچ فرائض نبوت کا ذکر فرمایا ہے۔
۱۔ ﷲ تعالیٰ کی آیات تلاوت کرنا
۲۔ کتاب ﷲ کی تعلیم دینا
۳۔ حکمت کی تعلیم دینا
۴۔ مومنوں کو پاک کرنا
۵۔ باطنی علم سکھانا
ایک بات جو اس آیت مبارکہ سے بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظاہری و باطنی علوم کے ساتھ ساتھ لوگوں کو پاک کرنے کا اختیار بھی عطا فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاک کرنے والا ان کی مثل کیسے ہوسکتا ہے جو پاک نہیں ہیں ؟ علم سکھانے والا ان کی مثل کیونکر ہوسکتا ہے جو کچھ نہیں جانتے۔ پس ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے مثل بشر ہیں ۔
اب ہم اس آیت مقدسہ کے ترجمہ پر غور کرتے ہیں‘ تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کے متعلق تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ اس سے مراد قرآن پاک اور شریعت مطہرہ کی مکمل تعلیم ہے۔ تزکیہ سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لوگوں کے قلوب کو روحانی پاکیزگی عطا کرنا ہے ۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ الامن واعلیٰ میں تفسیر بیضاوی اور تفسیر معالم التنزیل کے حوالے سے سورہ جمعہ آیت ۳ کے تحت فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا فرمانا‘ گناہوں سے پاک کرنا‘ ستھرا بنانا صرف صحابہ کرام علیہم الرضوان سے خاص نہیں بلکہ قیامت قائم ہونے تک تمام امت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاکی عطا فرماتے ہیں‘‘ ولی کامل مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں :
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
میرا دل بھی چمکادے چمکانے والے
تو زندہ ہے وﷲ تو زندہ ہے وﷲ
میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
آخر الذکر کے متعلق قاضی ثناء ﷲ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں ’’یعلم کا فعل دوبارہ ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تعلیم‘ کتاب و حکمت کی تعلیم سے جدا نوعیت کی ہے‘ شاید اس سے مراد علم لدنی ہے جو قرآن کے باطن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارکہ سے حاصل ہوتا ہے اور اس کا حصول صرف انعکاس کے ذریعہ ممکن ہے‘‘ یعنی یہ علم کتابوں سے نہیں ملتا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ پرانوار سے علم لدنی کے تجلیات و انوار‘ اولیائے کرام کے قلوب پر منعکس ہوتے ہیں اور پھر سینہ بہ سینہ یہ اسرار و معارف اہل ﷲ حاصل کرکے تشنگان معرفت کے دلوں پر نقش کرتے ہیں۔ اسی باطنی علم کو علم لدنی یا علم طریقت و تصوف کہا جاتا ہے ۔
سورہ کہف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اسے (یعنی خضر علیہ السلام کو) اپنا علم لدنی عطا کیا‘‘ (آیت ۶۵)
مفسرین فرماتے ہیں کہ علم لدنی سے مراد وہ باطنی علم ہے جو بغیر الفاظ و عبارت کے محض اﷲ تعالیٰ کی تعلیم سے (بطریق الہام جس کو وحی خفی) بھی کہا جاتا ہے) حاصل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کے پاس حکم الٰہی سے تشریف لے گئے تو انہوں نے فرمایا ’’اے موسیٰ! میں ﷲ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم میں سے ایک علم پر ہوں جو اس نے مجھے سکھایا ہے۔ اس علم کو آپ نہیں جانتے اور آپ ﷲ تعالیٰ کے عطا کردہ ایسے علم پر ہیں جو اس نے آپ کو سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا‘‘
اور سورہ کہف میں یوں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ’’آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے اور اس بات پر کیونکر صبر کریں گے جسے آپ کا علم محیط نہیں (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے) کہا عنقریب ﷲ چاہے تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں تمہارے کسی حکم کے خلاف نہ کروں گا (حضرت خضر علیہ السلام نے) کہا اگر آپ میرے ساتھ رہتے ہیں تو مجھ سے کسی بات کو نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں ۔
صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں ’’مفسرین و محدثین کہتے ہیں کہ جو علم حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے لئے خاص فرمایا وہ علم باطن و مکاشفہ ہے اور یہ اہل کمال کے لئے باعث فضل ہے۔‘‘ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ایک کشتی میں سوار ہوئے تو آپ نے اس کا تختہ توڑ کر شگاف کردیا لیکن اس کے باوجود کشتی میں پانی نہ آیا۔ پھر آپ نے ایک بستی میں ایک لڑکے کو قتل کردیا پھر آپ ایک گائوں پہنچے وہاں کے لوگوں نے آپ کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود آپ نے وہاں ایک دیوار کی مرمت کی جوکہ گرنے کے قریب تھی۔ ان تینوں کاموں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعتراضات کئے ۔ آخرکار حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ اب ہمیں جدا ہونا پڑے گا ۔ البتہ میں آپ کو ان کاموں کا راز بتاتا ہوں جنہیں بظاہر شرع دیکھ کر آپ نے اعتراضات کئے۔ میں نے وہ کشتی میں اس لئے عیب دار کردی کہ دریا کے پار ایک ظالم بادشاہ صحیح سلامت کشتیاں چھین لیتا تھا اس طرح ان غریبوں کی کشتی ظالم بادشاہ سے محفوظ رہ گئی ۔ وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا‘ کافر تھا اور اس کے والدین مسلمان ۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر یہ زندہ رہا تو اس کے والدین اس کی محبت میں کافر نہ ہوجائیں۔ اس کے عوض ﷲ تعالیٰ انہیں نیک اولاد عطا کرے گا ۔ پھر آپ نے فرمایا ’’رہی وہ دیوار وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں‘ آپ کے رب کی رحمت سے‘ اور یہ کچھ میں نے اپنے حکم سے نہ کیا۔ یہ بھید ہے ان باتوں کا جن پرآپ سے صبر نہ ہوسکا‘‘ ۔ (کہف ۸۲،چشتی)
اس واقعہ سے مفسرین نے جو نکات اخذ کئے‘ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ :
۱۔ ہر خوبی اور کمال کو محض ﷲ تعالیٰ کی عطا سمجھنا چاہئے۔
۲۔ ہر عیب کی نسبت اپنی طرف کرنی چاہئے رب تعالیٰ کی طرف نہیں۔
۳۔ حصول علم کے لئے سفر کرنا انبیاء کرام علیہم السّلام کی سنت ہے۔
۴۔ کتنا ہی علم حاصل ہوجائے مزید علم کی جستجو کرنی چاہئے۔
۵۔ اپنے سے کم مرتبہ والے سے بھی علم سیکھنے میں مضائقہ نہیں۔
۶۔ علم سیکھنے کے لئے استاد کے پاس جانا چاہئے۔
۷۔ کامل شیخ یا استاد کا ادب اور خدمت ضرور کرنی چاہئے۔
۸۔ مرشد یا استاد کے افعال پر اعتراض کرنا بے ادبی ہے۔ منتظر رہے کہ وہ خود ہی اس کی حکمت ظاہر فرمائیں۔
۹۔ مرشد کامل یا استاد پر اعتراض کرنے سے اکتساب فیض کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔
۱۰۔ باطنی علم کامل شیخ کی محبت اور اس کی نگاہ کیمیا گر سے حاصل ہوتا ہے۔
۱۱۔ بعض اولیاء کرام کو لوگوں کے باطن اور ان کے انجام کی بھی خبر ہوتی ہے۔
۱۲۔ اہل ﷲ کی توجہ سے سوراخ والی کشتی بھی ڈوبنے سے بچ جاتی ہے۔
۱۳۔ ﷲ تعالیٰ بندے کی نیکی سے اس کی اولاد‘ خاندان اور اہل محلہ کو حفاظت میں رکھتا ہے۔
۱۴۔ تقدیر پر راضی رہنے میں ہی انسان کی بھلائی ہے۔
۱۵۔ سورہ کہف کی آیت نمبر ۸۲ سے معلوم ہوا کہ ایک شخص کا نیک ہونا اس کی میراث کی حفاظت کا وسیلہ بن گیا۔ اگر باغ فدک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث ہوتا تو یقینا ﷲ تعالیٰ اسے حقداروں تک پہنچانے کے لئے انتظام فرماتا ۔ ثابت ہوا کہ باغ فدک میراث نہیں بلکہ وقف تھا ۔
دین و شریعت کے دو بنیادی جزو ہیں
(1) ظاہری احکام جو آگے چل کر فقہ کے نام سے مدون ہوئے ۔
(2) روحانی و باطنی احکام جو دوسری صدی ہجری میں زہد و رقائق اور تصوف و طریقت کے نام سے معنون ہوئے ۔
تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفوس اور حدیث کی اصطلاح میںاحسان کہتے ہیں۔ تصوف کے اجزائے ترکیبی عہدِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں عملاً موجود تھے کیونکہ یہ سب قرآن و سنت کی ابدی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ تصوف اِسلام کی روحانی اور باطنی کیفیات اور روحانی اقدار و اطوار کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ دینِ اِسلام کی علمی، فکری، عملی، معاشرتی اور تہذیبی و عمرانی و غیرہم تمام جہتوں میں اخلاص و احسان کا رنگ دیکھناچاہتا ہے۔ یہ اِنسان کے جسم و رُوح اور اِس کے وجود کی تمام پرتوں پر جاری و ساری ہے ۔ تصوف کی تمام تر اصطلاحات قرآن و حدیث سے ماخوذ و مستنبط ہیں ۔
ائمہ تصوف نے اپنے تمام معتقدات، تصورات اور معمولات کی بنیاد قرآن و سنت کو ٹھہرایا ہے، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایں راہ کسے باید کہ کتاب بر دست راست گرفتہ باشد و سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بردستِ چپ، و در روشنائی ایں دو شمع مے رود، تانہ در مغاک شبہت اُفتد نہ در ظلمت بدعت . ترجمہ : یہ راہ یعنی تصوف صرف وہی پا سکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآنِ حکیم اور بائیں ہاتھ میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو اور وہ اِن دو چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تاکہ نہ شک و شبہ کے گڑھوں میں گرے اور نہ ہی بدعت کے اندھیروں میں پھنسے ۔ (تذکرة الأولياء : 9،چشتی)
سلسلہ عالیہ چشتیہ کے نامور شیخ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی فرماتے ہیں : مشربِ پیر ۔ حجت نمی شود ۔ دلیل از کتاب و حدیث مے باید ۔
ترجمہ : شیخ طریقت کا مسلک حجت نہیں ہے دلیل قرآن و حدیث سے ہونی چاہئے ۔ (اخبار الاخيار : 81)
تمام اکابر مشائخ و اولیاء کے نزدیک شیخِ طریقت ایسا ہونا چاہئے جو شریعت، طریقت اور حقیقت کے احکام و آداب و شرائط کا عالم ہو کیونکہ اگر وہ عالم ہوگا تو خود کسی ناجائز چیز کے بارے میں نہیں کہے گا ۔
روحانیت قال سے نہیں حال سے عبارت ہے ۔ یہ علمی نظریہ کا نام نہیں بلکہ عملی تجربے کی چیز ہے اور یہ تجربہ بھی مادی نہیں سراسر باطنی ہے۔ روحانیت عقل و خرد اور دید شُنید سے حاصل ہونے والی چیز نہیں۔ یہ احساس، وجدان اور قلب و باطن کی راہ سے نصیب ہوتی ہے۔ یہ خارج سے نہیں، باطن سے پھوٹتی ہے۔ یہ تقریر و ابلاغ کے حسی و مادی تاروں سے نہیں ، گرمی انفاس کی پاکیزہ موجوں سے پھیلتی ہے ۔ یہ الفاظ کے قالب میں نہیں سماتی بلکہ احساس کی گہرائیوں میں اُترتی ہے ۔ روحانیت کہنے سننے کی چیز نہیں، سیکھنے اور برتنے کی چیز ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو اِنسان بطریقِ سلوک و تصوف پا لیتا ہے اور شکوک و شبہات سے محفوظ و مامون ہو جاتا ہے۔ یہ تزکیہ نفس ، تصفیہ باطن اور پاکیزگی نفس کا الوہی طریقہ اور وصول الی اللہ کا باطنی و پوشیدہ راستہ ہے ۔(چشتی)
شریعت و طریقت کا باہمی ربط و تعلق : یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دینِ اسلام میں اصل شریعت ہے اور اِس کی فرع طریقت ہے۔ شریعت سرچشمہ و منبع ہے اور طریقت اِس سے نکلا ہوا دریا ہے۔ طریقت کو شریعت سے جدا تصور کرنا غلط ہے۔ شریعت پر طریقت کا دار و مدار ہے۔ شریعت ہی معیار ہے۔ طریقت میں جو فیض ہے اور جو کچھ منکشف و مکشوف ہوتا ہے وہ شریعت ہی کے اِتباع کا صدقہ ہے۔ پس جو شخص طریقت، معرفت، حقیقت، سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شریعت مطہرہ کو جھٹلائے، مخالفت کرے اور رد کرے وہ بے دین ہے۔ اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس طریقت میں شریعت کا پاس و لحاظ نہ ہو وہ بے دینی ہے اور جس شریعت کے ساتھ طریقت و معرفت نہ ہو وہ بھی ناقص اور ادھوری ہے۔ ظاہری اعمال کے ساتھ باطنی پاکیزگی کا حسین امتزاج ہی ہمارا نکتۂِ امتیاز ہے ۔
اہل اللہ کے دستِ حق پرست پر بیعت کرنا مسنون و مستحب ہے لیکن اِسی پر اکتفا کر لینا اور اوامر و نواہی کی پابندی نہ کرنا قطعاً درست نہیں۔ اصلاحِ باطن کے لئے بیعت کرنا مسنون ہے لیکن فرائض و واجبات اور سنن پر عمل دین کی بنیادی ضرورت ہے۔ بیعت کے لئے ضروری نہیں کہ رسماً کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دیا جائے بلکہ بیعت کا اصل مقصد دین پر استقلال کے ساتھ کاربند رہنے کا عہد ہے۔ شیخِ کامل کی معاونت اور رہنمائی سے نفس و شیطان کے خطرناک حملوں کا مؤثر دفاع اور عبادت و ریاضت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت و محبت کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ یہ مقاصد اگر کسی اجتماعی نظم میں آکر حاصل ہو جائیں تو باطن کی اصلاح کا یہ طریقہ بھی اختیار کرنا درست ہے۔ اس سے مقصود اصلاحِ نفس اور تزکیہ باطن ہے جس کا حصول اُستاد سے حاصل ہو ، باپ سے ، شیخ سے یا کسی اجتماعی نظم سے جملہ ذرائع درست ہیں، لیکن بیعت کو رسم و رواج یا عادت بنا لینا مقصودِ طریقت نہیں۔ کسی بھی سلسلۂ طریقت کو اختیار کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ مندرجہ بالا مقاصد حاصل ہوں ورنہ تصوف و طریقت کے نام پر آج کل بے شمار کاروباری قسم کے لوگ اپنی اپنی دکانیں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ بے عملی، بے ادبی اور حرصِ جاہ و مال سے بچ کر ہی اصلاحِ نفس ممکن ہے ۔(چشتی)
خانقاہی نظام اور عہدِ جدید
دینِ اِسلام کی ترویج و اشاعت کا کارنامہ بیشتر ممالک میں صوفیائے کرام ہی کی تبلیغی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہی کی مساعی جمیلہ سے ہر سُو اِسلام پھیلتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اولیاء اللہ اور اربابِ طریقت کی والہانہ عقیدت و محبت اور اکرام و احترام کا جذبہ بغائت درجہ موج زن ہے۔ خانقاہی نظام ایک ایسا ادارہ ہے جہاں اِنسان کو مخلص، متقی، خدا ترس اور مخلوقِ خدا کا حقیقی اور سچا خیر خواہ بنانے کی تربیت دی جاتی تھی اِس نے برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی، سماجی، معاشرتی، سیاسی ، معاشی اور اخلاقی اقدار پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔ یہ خانقاہی نظام ایک عرصہ تک اپنی انہی معیاری بنیادوں پر اُستوار رہا جن پر اِسے قائم کیا گیا تھا لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تعلیم و تربیت کا یہ معیاری نظام رُو بہ تنزل ہوتا چلا گیا ۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کوئی ادارہ اور نظام کتنا ہی مثالی کیوں نہ ہو بتمام و کمال عروج پر قائم نہیں رہ سکتا ۔ زمانہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اُسے کچل کر رکھ دیتا ہے۔ یہی حال خانقاہی نظام کے ساتھ بھی ہوا۔ شریعت اور طریقت کے مابین تفریق، شطحیات و انحرافات، ترکِ دنیا، مجاز پرستی کے ذریعے کئی خرافات اور سنت کے خلاف کئی اُمور ’’روحانیت‘‘ کے نام پر اِس میں در آئے جس کے باعث اس میں پہلے جیسا اخلاص ، تقویٰ ، اطاعت ، خوفِ خدا اور بندگی الٰہی کی روایت برقرار نہ رہی ۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ خود خانقاہوں کے اکابر شیوخِ طریقت نے اِن تمام اُمور کا سختی کے ساتھ نوٹس لیا اور اِس کی اصلاح و تجدید کی کوششیں شروع کر دیں ۔
یہ مساعی جمیلہ جارحانہ کی بجائے خیر خواہانہ تھیں۔ تنقیح و تصریح اور تجدید و احیاء کی مؤثر آواز بلند ہوتی رہنی چاہیے تاکہ اِس نظام کو مثبت انداز کی تعمیری تنقید کے ذریعے خرافات سے پاک کیا جاتا رہے۔ لیکن چند ایک خرابیوں اور خلافِ سنت اُمور کو آڑ بنا کر پورے نظام کو فاسد اور باطل بنا دینا کہاں کی دانشمندی اور دین پروری ہے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ اِن خلافِ شرع اُمور کو کبھی بھی مسلمہ اربابِ طریقت کی تائید اور تحسین حاصل نہیں ہوئی۔ ہم بھی نظامِ خانقاہی کے احیاء کے بھرپور حامی ہونے کے ساتھ اس کی اصلاح کے داعی اور منکرات کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment