Saturday 9 May 2020

حضرات امیر معاویہ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ کی سزا

0 comments
حضرات امیر معاویہ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ کی سزا
محترم قارئینِ کرام : اَبدال ، اولیاء اللہ کی وہ قسم ہے جس کی برکت سے بارش برستی اور دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے ۔ ثقہ محدث امام محمد بن عبد الملک رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے زمانے کے ابدال تھے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت کی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ خلفائے اربعہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنھم بھی تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس راشد کندی نامی ایک شخص آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ ہماری تنقیص کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اُسے جھڑکا تو وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں اِن کی نہیں ، صرف معاویہ کی تنقیص کرتا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ( اس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر) تین مرتبہ فرمایا : ویلک اولیس من اصحابی ۔ تیرا ناس ہوجائے ، کیا معاویہ میرے صحابی نہیں ؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدنا معاویہ کو نیزہ دے کرفرمایا : یہ اس کے سینے میں مارو ! آپ رضی اللہ عنہ نے اسے نیزہ دے مارا ۔ حضرت محمد بن عبدالملک رحمۃ اللہ علیہ صبح راشد کندی کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا وہ مرگیا ہے ، اسے رات کو کسی نے ذبح کردیا تھا ۔ (البدایۃ والنھایۃ ، ترجمۃ معاویۃ وذکر شئ من ایامہ......... ج 8 ، ص 149، داراحیاءالتراث العربی بیروت ، 1408ھ،چشتی)(مختصر تاریخ دمشق ، معاویۃ بن صخر......... ج 25 ، ص 76 ، دارالفکر دمشق ، 1420ھ)

حضرت قطب ربانی امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس نے اللّٰہ تعالٰی کے ولی کی توہین کی اس کے دل میں زہر آلود تیر پیوست کردیا جاتا ہے ، اور وہ نہیں مرتا ، حتی کہ اس کا عقیدہ فساد کی نذر ہوجاتا ہے ، اور اس پر برے خاتمے کا خوف ہوتا ہے ۔ (الیواقیت الجواہر ، مترجم صفحہ نمبر 67)

جب اولیاء اللہ کی توہین کا یہ عالم ہے تو تمام ولیوں سے افضل ہستیوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں اور بے ادبوں کا کیا انجام ہوگا یہ خود ہی اندازہ کرلیں ۔ جنابِ من حاجی ہو محدث ہو حافظ ہو مقرب ہو عالم ہو قاری ہو شیخ ہو مفکر ہو مصنف ہو یا ولی اللہ ہو ایک بھی صحابی کا ہلکا سا بغض دل میں لیئے مر گئے تو جہنم تمہاری منزل ہوگی ۔

ربیع ابن نافع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے درمیان پردہ ہیں، جو یہ پردہ چاک کرے گا ، وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ، پر لعن طعن کی جرات کر سکے گا ۔ (مختصرتاریخ دمشق، 25/74)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : معلوم ہونا چاہیئے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب میں سے ہیں اور فضیلت جلیلہ کے حامل اصحاب میں شامل ہیں ، خبردار ! معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور سب و طعن میں پڑ کر حرام فعل کا ارتکاب نہ کرنا ۔ (ازالۃ الخفا، ص۱۴۶)

جب سیدنا عثمان غنی ، سیدنا امیر معاویہ اور اکابر بنی امیہ سے متعلق تاریخی کتابوں میں یہ پاکیزہ مواد بھی موجود ہے تو آخر اس کو نظر انداز کر کے بعض لوگوں نے صرف اس مواد کو جمع کرنے کی کوشش کیوں فرمائی جس سے ان جلیل القدر صحابیوں کی تنقیص ہو سکے ، آخر یہ مطالعہ تاریخ کا کون سا انداز ہے کہ غلاظت پسند مکھی کی طرح صرف انہی گندے چھینٹوں پر آدمی کی نظر پڑے جو کسی مفتری نے ہمارے پاکیزہ خصائل اسلاف کے دامن پر اڑائے ہوں ۔ (سیدنا معاویہ شخصیت اور کردار،ج:۲، ص:۱۰)

جو حضرت امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے

امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا : ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔
ترجمہ جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی رافضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 )

امام المفسرین علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور ان سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کف لسان کریں اورہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں ، کیونکہ صحابیت بڑی حرمت (وعظمت) کی چیز ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے ۔ (تفسیر قرطبی جلد نمبر ۱۶، ص:۳۲۲)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ کی سزا و شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مَنْ سَبَّ الاَنَبِیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِی جُلِدَ ۔
ترجمہ : جس نے کسی نبی کو گالی دی اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے کسی صحابی کو گالی دی ، اسے کوڑے مارے جائیں گے ۔ (المعجم الصغیر طبرانی مترجم اردو حدیث نمبر 928،چشتی)،(الصارم المسلول صفحہ نمبر 92)،(احکام اہل الذمہ لابن قیم 1؍275)،(کتاب الشفاء جلد دوئم صفحہ نمبر 223)

حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس اُمّت میں سب سے افضل ہیں ۔ ان کے گستاخ کو توبہ نصیب نہیں ہوگی ، میں اُن کے گستاخ سے بری الذمہ ہوں ۔ (کنزُ العُمّال عربی الجزء الثالث عشر صفحہ نمبر 8 مطبوعہ مؤسسۃ الرّسالہ)،(کنزُ العُمّال مترجم اردو جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 17 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)

امام عاصم الاحوال رحمة اللہ علیہ (المتوفی : ١٤٢ھ) جو مدائن شہر کے قاضی بھی رہے ہیں وہ فرماتے ہیں : میرے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو گالی دی تھی ، میں نے اسے دس کوڑے لگائے ، اس نے دوبارہ گالی دی میں نے دس کوڑے مزید لگائے ، پھر وہ دوبارہ ایسا کرتا رہا حتی کہ میں نے اسے ستر کوڑے مارے ۔ (العلل و معرفة الرجال لأحمد : ٤٢٨/١ ح : ٩٤٨ وسندہ صحيح)

إبراهيم بن میسرہ بیان کرتے ہیں : میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے کسی انسان کو مارا ہو سوائے ایک شخص کے جس نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالی دی تو انہوں نے اسے کوڑے لگائے ۔ (شرح إعتقاد أهل السنة للالكائي : 2385 وسنده حسن)

ابو الفتوح عز الدين (المتوفی : ٦٥٣ھ) جو کہ سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہم کی اولاد میں سے تھے انہوں نے ایک رافضی النّجيب يَحْيَى بْن أحمد الحلي ابن العُود کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے کی وجہ سے گدھے پر بٹھا کر حلب شہر کا چکر لگوایا تھا ۔ (تاریخ الإسلام للذهبي : ٧٤٩/١٤)

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے پوتے سیدنا ابراہیم بن الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں : میرے ایامِ شباب میں میرے پاس مغیرہ بن سعید آیا ، میں چونکہ جوانی میں شکل و صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت مشابہت رکھتا تھا، تو اس نے میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے رشتہ داری ، آپ سے مشابہت اور میرے متعلق اپنی خواہشات کا اظہار کیا، پھر اس نے سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا تذکرہ کیا تو ان پر لعنت کی اور اعلان براءت کیا ، میں نے کہا : اے اللہ کے دشمن! میرے سامنے تو ایسا کرتا ہے ؟ فرماتے ہیں : میں نے بڑی مضبوطی سے اس کا گلہ دبا دیا ۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا : گلہ دبانے کا مطلب کہ آپ نے اسے باتوں سے چپ کرا دیا ؟ فرمایا : نہیں بلکہ میں نے اس کا گلہ اتنی مضبوطی سے دبایا کہ اس کی زبان باہر نکل آئی تھی ۔ (كتاب الضعفاء للعقیلی : ١٧٩/٤ وسندہ صحیح)(ميزان الاعتدال للذهبي و نسبه البعض الي الحسن بن الحسن بن علي رحمة اللہ علیہ انظر تاريخ الإسلام و سير أعلام النبلاء للذهبي)

یاد رہے کہ یہ وہی مغیرہ بن سعید ہے ، جو نہایت برے عقائد و نظریات کا مالک تھا ، امام ذہبی رحمة اللہ علیہ اس کا نام ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : لعنہ اللہ ۔ (تاریخ الإسلام للذهبي : ٣١٧/٣)

امام ابن عدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس مغیرہ بن سعید سے بڑا لعنتی پورے کوفے میں نہیں تھا ۔ (الكامل في ضعفاء الرجال : ٧٣/٨)

حافظ ابن حزم نے بھی اس کے متعلق کہا : لَعنه الله ۔ (الفصل فی الملل والأهواء و النحل : ١٤١/٤)

محترم قارئینِ کرام : صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث ِقدسی میں ارشاد ِ الہٰی ہے : مَنْ عَادَى لِى وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ الخ ۔۔۔
ترجمہ :  جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی کرے تومیں اس کے خلاف جنگ کا اعلان کرتاہوں ۔ (صحیح بخاری شریف ،کتاب الرقاق باب التواضع حدیث نمبر 6502)

اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑا ولی کون ہوسکتا ہے ؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حب علی رضی اللہ عنہ والے دل میں بغض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہو ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت تو صحابہ و ال رسول رضی اللہ عنہم کا غلام بننے کا درس دیتی ہے ۔ اور ان لوگوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے جوکہ اپنے آپ کو سنی کہتے ہیں لیکن اپنے دلوں میں منکرین صحابہ کیلئے محبت بھی رکھتے ہیں ۔ کہیں منکرین صحابہ کی نحوست تمہیں بھی برباد نا کر دے اور جسطرح بغض صحابہ رضی اللہ عنہم کے سبب اللہ نے ن سے توبہ کی توفیق سلب کرلی تمھارے ساتھ بھی یہی معاملہ نا ہو ۔

صحیح بخاری ومسلم شریف میں ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یوں ہے ’’میرے صحابہ کو گالیاں مت دو ، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم میں سے اگر کوئی شخص اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی راہ ِ للہ خرچ کردے تو میرے صحابہ کے ایک مٹھی دانے صدقہ کرنے بلکہ اس سے آدھے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتا ‘‘ طبرانی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں ، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ۔

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تب بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470،شتی)(والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 214، الرقم : 4658)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 84، الرقم : 8309، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161،چشتی)

 نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ ۔
ترجمہ : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سےجو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا ) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۶)

غرض آیات ِ قرآنیہ اور اِن احادیـث ِ نبویہ کے پیش ِ نظر اہل ِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے ۔

فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ’’جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸)

حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض:۳۱)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری:۲/۲۶۸،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی کتاب مسویٰ شرح مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی جن کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قطعی ہے ایسی تشریح و تاویل کرتا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رضی اللہ عنہم اور اجماعِ امت کے خلاف ہے تو اس زندیق کہا جائے گا اور وہ لوگ زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اہل جنت میں سے نہیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا ، لیکن نبوت کی جو حقیقت کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ، اس کی اطاعت کا فرض ہونا اور اس کا معصوم ہونا ، یہ سب ہمارے اماموں کو حاصل ہے ، تو یہ عقیدہ رکھنے والے زندیق ہیں اور جمہور متأخرین حنفیہ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب القتل ہیں ۔ (مسویٰ شرح مؤطا محمد)

درّ مختار میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔(درمختار)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی:۲/۲۹۴،چشتی)

جس نے تمام صحابہ یا اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر ، مرتد اور فاسق کہہ کر گالی دی ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ، اس لئے کہ قرآن وسنت کے ناقلین کو کافر یا فاسق کہنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُسے قرآن اور حدیث میں شک ہے ، ناقلین پر افتراء پردازی کا مطلب ہے کہ منقول (قرآن وسنت) بھی جھوٹا ہے ، جب کہ قرآن نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں اور اللہ اُن سے راضی ہوچکا ہے ۔ قرآن اور احادیث کے نصوص سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر قطعی دلالت کرتا ہے ۔ (الرد علی الرافضۃ: ۱۹) ، تو جس نے قطعیت کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کا مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایذاء پہنچانا ہے ، اس لئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خواص ، محبوب اور ساتھی تھے ، اور کسی کے محبوب و خواص کو گالی دینے پر اُسے تکلیف پہنچے گی ہی ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تکلیف دینا کفر ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ نے اس قسم کا حکم بیان کیا ہے : جو اپنے گمان میں اس قدر تجاوز کرجائے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے انتقال کے بعد چند صحابۂ کرام کو چھوڑ کر سب مرتد ہوگئے تھے ، یا ان کی اکثریت فاسق ہوگئی تھی ، تو ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ، اس لئے کہ اس نے قرآن کے نصوص کو جھٹلایا ، جو ان کی فضیلت میں کئی جگہ واردہیں ، جیسے اللہ کا اُن سے راضی ہوجانا ، اُن کی مدح و ثناء بیان کرنا ، تو ایسے لوگوں کے کافر ہونے میں جو شک کرے وہ خود کافر ہے ۔ ابن تیمیہ نے آگے لکھا : کہ ایسے لوگوں کا یہ کفر دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں لازما جانا جائے ۔ (الصارم المسلول: ۵۸۶)

امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : کہ علماء کا اختلاف بعض صحابہ کو گالی دینے کے سلسلے میں ہے کہ وہ کافر ہے یا نہیں ؟ لیکن تمام صحابہ کو گالی دینے والایقیناًکافر ہے ۔(الصواعق المحرقۃ: ۳۷۹)

مذکورہ دلائل کی توضیح کے ساتھ یہاں بعض علماء کے دوسرے تفصیلی دلائل بیان کئے جارہے ہیں :

سورۂ فتح کی آخری آیت (محمد رسول اللہ والذین معہ ۔۔الی ۔۔لیغیظ بہم الکفار) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ جو صحابہ سے بغض رکھے وہ کافر ہے ، ایسے لوگوں سے صحابہ خود بغض رکھتے تھے ، اور صحابہ جس سے نفرت کریں ، وہ کافر ہے ، امام شافعی اور دوسرے علماء کا بھی یہی موقف ہے ۔ (الصواعق المحرقۃ،ص: ۳۱۷،چشتی)

امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبے ایک شخص کو دُرّے لگائے جس نے اُن کو ابو بکر رضی اللہ عنہ پر فوقیت دی تھی،اور پھر عمر نے فرمایا تھا : ’’ابو بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں میں سب سے زیادہ افضل ہیں ، فلاں فلاں چیزوں میں ۔۔۔‘‘ پھر کہا : جو اس کے خلاف کہے گا ، اُس پر ہم حد نافذ کریں گے جیسا کہ اُس جھوٹے کو دُرّے لگائے گئے ۔ (فضائل الصحابۃ للامام أحمد: ۱؍۳۰۰)

اسی طرح امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھ کو کوئی بھی ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت نہ دے ، ورنہ میں اُس پر افتراء پردازی کی حد نافذ کروں گا ۔ (فضائل الصحابۃ للامام أحمد: ۱؍۸۳)

جب دو خلیفۂ راشد عمر و علی رضی اللہ عنہما اُن لوگوں پر افتراء پردازی کی حد نافذ کرنے کا عزم کرتے ہیں جوعلی کو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم پر ترجیح دیتے ہیں یا جو عمر کو ابو بکر پر فوقیت دیتے ہیں ۔ حا لانکہ محض افضلیت کو اوپر نیچے کرنے میں نہ کوئی عیب ہے اور نہ ہی گالی ۔ تو اندازہ لگائیں کہ گالی کی سزا ان دونوں کے نزدیک کتنی بھاری رہی ہوگی ۔ (الصارم المسلول،ص:۵۸۶)

حضرت سحنون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جس نے ابوبکر ، عمر ، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے بارے یہ کہا : کہ وہ لوگ گمراہی اور کفر کی راہ پر تھے ، وہ واجب القتل ہے ، ان کے علاوہ اگر دوسرے صحابہ کو بھی گالی دی گئی تو اُسے سخت سزا دی جائے گی ۔ (الشفاء للقاضی عیاض ۲؍۱۱۰۹)

ہشام بن عمار کہتے ہیں : میں نے امام مالک  کو یہ کہتے ہوئے سناجو ابو بکر و عمر کو گالی دے اُسے قتل کردیا جائے گا ، جو ام المؤمنین عائشہ کو گالی دے ، وہ بھی واجب القتل ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے ( یعظکم اللہ أن تعودوا لمثلہ ، أبدا ان کنتم مؤمنین) ، (النور:۱۷) اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ پھرکبھی بھی ایسا کام نہ کرنا ، اگر تم سچے مؤمن ہو ۔ تو جس نے عائشہ کو متہم کیا ، اُس نے قرآن کی خلاف ورزی کی ، اور قرآن کی خلاف ورزی کرنے والا قتل کردیا جائے گا ۔ (الصواعق المحرقۃ، صفحہ نمبر ۳۸۴،چشتی)

امام ہیثمی لکھتے ہیں : جو لوگ ابو بکر اور ان کے ہمراہی کو کافر قرار دیتے ہیں ، جن کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنت کی بشارت دی ہے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر ۳۸۵)

 علامہ خرشی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : جس نے حضرت عائشہ پر ایسی تہمت لگائی ، جس سے اللہ نے ان کی برأت فرمائی ہے ، یا جو لوگ ابوبکر کی صحابیت ، یا عشرۂ مبشرہ کے اسلام ، یا تمام صحابہ کے اسلام کا انکار کرے یا خلفائے اربعہ میں سے کسی تکفیرکرے تو وہ کافر ہے ۔ (الخرشی علیٰ مختصر خلیل:۸؍۷۴)

خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ علماء لکھتے ہیں : وہ شخص کافر ہے جو عشرۂ مبشرہ میں سے کسی کی تکفیر کرے ، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تمام ازواج مطہرات کا احترام اور ان سے محبت واجب ہے ، جو شخص ان میں سے کسی کی بھی تکفیر کرے ، اُسے کافر قرار دیا جائیگا ۔ (الفرق بین الفرق،ص: ۳۶۰)

قاضی عیاض کہتے ہیں : صحابہ میں کسی کو بھی گالی دینا گناہ کبیرہ ہے ، گالی دینے والے کو قتل کے علاوہ دوسری سزائیں دی جائیں گی ، یہی میرا اور جمہور علماء کا مسلک ہے ۔ (مسلم بشرح النووی۱۶؍۹۳،چشتی)

عبد الملک بن حبیب کہتے ہیں : ’’کوئی غالی شیعہ عثمان سے بغض اور برأت کا اظہار کرے ، اُسے سخت سزادی جائے گی ، اور وہ اگر ابوبکر و عمر سے نفرت و عداوت کا اظہار کرے تو اُس پر سزا بڑھادی جائے گی ، اُس کی پٹائی ڈبل کی جائے گی ، اور اُسے تا حیات جیل میں رکھا جائے گا ۔ (الشفاء:۲؍۱۱۰۸)

فضیلت کے حاملین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینے والا کافر ہے ، اور جن کے بارے میں متواتر نص وارد نہیں ہیں ، جمہور علماء ان کو کافر قرار نہیں دیتے ، ہاں اگر کوئی صحابیت کو طعن و تشنیع کرے تو وہ کافر ہے ۔

شرفِ صحابیت کا  لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھئے

صحابیت کا عظیم  اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ  وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں  کیونکہ  کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے ۔ صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں : یاد رہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار  ہے  مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم کى فضىلت مىں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہےکیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ  بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38،چشتی)

سارے صحابہ عادل ہیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت  کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر  اور انصار  جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی  اور وہ اللہسے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (پ11،سورہ التوبۃ :100)

علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:745ہجری) فرماتےہیں :  وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ سے  مراد تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسیرالبحر المحیط،ج 5،ص96، تحت الآیۃ المذکورۃ)

یاد رہے سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم عادل ہیں ، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں ۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ  کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے ۔

ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رضی اللہ تعالٰی عنہم) کے بارے میں اللہ  سے ڈرو ، اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے ۔ (ترمذی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 463 ، حدیث:3888)

اللہ تعالٰی ہم سب کو امت کے بہترین طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا کما حقہ احترام اور ان کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔