Sunday, 31 May 2020

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور صالحین علیہم الرحمہ کا وسیلہ جائز ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور صالحین علیہم الرحمہ کا وسیلہ جائز ہے حیات ظاہری اور بعد از وفات بھی ۔ (نشرالطیب صفحہ نمبر 318 تا 322 حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورصالحین علیہم الرّحمہ کا وسیلہ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی ۔ (بخاری شریف، کتاب الاستسقاء، 1 / 342، الرقم : 964، کتاب فضائل الصحابة، 3 / 1360، الرقم : 3507، ابن خزيمة ، 2 / 337، الرقم : 1421، ابن حبان ، 7 / 110، الرقم : 2861، طبراني في المعجم الأوسط، 3 / 49، الرقم : 2437، بيهقي سنن الکبریٰ، 3 / 352، الرقم : 6220)

حضرت عبد اللہ بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو حضرت ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا : وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهِهِثِمَالُ الْيَتَامَي عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ’’وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں ۔ حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے ۔ (بخاری، کتاب الاستسقاء، 1 / 342، الرقم : 963، ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، 1 / 405، الرقم : 1272،مسند أحمد بن حنبل ،2 / 93، الرقم : 5673، 26، بيهقي سنن الکبریٰ، 3 / 352، الرقم : 6218 - 6219،تاريخ بغداد، خطيب البغدادی، 14 / 386، الرقم : 7700، تغليق التعليق، 2 / 389، الرقم : 1009،امام عسقلانی البداية والنهاية، 4 / 2، 471، علامہ ابن کثیر،چشتی)

حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا : (اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ) ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔:: ترمذی شریف، کتاب الدعوات 5 / 569، الرقم : 3578، ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، 1 / 441، الرقم : 1385،نسائی شریف، 6 / 168، الرقم : 10494، 10495،چشتی)

حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ انہیں ان لوگوں پر فضیلت ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یاد رکھو تمہارے کمزور اور ضعیف لوگوں کے وسیلہ سے ہی تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور ان کے وسیلہ سے ہی تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو بے شک تمہیں اپنے کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی رزق دیا جاتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے ۔ (بخاری شریف، کتاب الجهاد،3 / 1061، الرقم : 2739، ابو داودشریف، کتاب الجهاد، 3 / 32، الرقم : 2594، نسائی شریف، کتاب الجهاد، 6 / 45، الرقم : 3179، ترمذی شریف، کتاب الجهاد 4 / 206، الرقم : 1702،مسند، 5 / 198، الرقم : 21779، امام حمد بن حنبلسنن الکبري، 3 / 30، الرقم : 4388،)

حضرت عتبہ بن عزوان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے اور وہ کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کہے : اے ﷲ کے بندو! میری مدد کرو، اے ﷲ کے بندو! میری مدد کرو، یقینًا ﷲ تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ تو نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں) اور یہ تجربہ شدہ بات ہے ۔ حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں چھوٹ جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے : اے ﷲ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے ﷲ کے بندو! میری سواری پکڑا دو کیوں کہ ﷲ تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں (تمہاری سواری) پکڑا دیں گے ۔ (معجم الکبير، 10 / 217، الرقم : 10518،طبرانی،چشتی)

حضرت ابو جوزاء اوس بن عبد ﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے (اپنی ناگفتہ بہ حالت کی) شکایت کی ۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور (یعنی روضہ اقدس) کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہٰذا اس سال کا نام ہی ’’عَامُ الْفَتْق‘‘ (پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔(سنن دارمی، 1 / 56، الرقم : 92، مشکاة المصابيح، 4 / 400، الرقم : 5950،الوفاء بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 801،ابن جوزیشفاء السقام، 1 / 128، تقی الدين السبکیلمواهب اللدنية، 4 / 276، امام قسطلانی،چشتی)

حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبد المطلب رضی ﷲ عنہما کو وسیلہ بنایا اور ﷲ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی اور عرض کیا : اے ﷲ! یہ تیرے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا حضرت عباس ہیں ہم ان کے وسیلہ سے تیری نظر کرم کے طلبگار ہیں ہمیں پانی سے سیراب کر دے وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ ﷲ تعالیٰ نے انہیں پانی سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب فرمایا : اے لوگو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بمنزل والد سمجھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کرو اور انہیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔(مستدرک، 3 / 377، الرقم : 5438، مواهب اللدنية، 4 / 277، قسطلانی الاستيعاب، 3 / 98،جامع الصغير، 1 / 305، الرقم : 559، اما سيوطیفتح الباری، 2 / 497،قسطلا نی)

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (یا ﷲ!) اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ محمد مصطفیٰ کون ہیں ؟ پس حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا ہوا دیکھا لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ’’اے آدم! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل کی آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا ۔ (جامع الأحاديث، 11 / 94،امام سیوطیمعجم الصغير، 2 / 182، الرقم : 992،طبرانی مجمع الزوائد، 8 / 253، هيثمی)

بعد از وصال وسیلہ کی حدیث مع منکرین کے اعتراض کا جواب

أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا : حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ مَالِکٍ الدَّارِ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ ص، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَأَتَی الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْ هُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِيُوْنَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْکَ الْکَيْسُ، عَلَيْکَ الْکَيْسُ، فَأَتَی عُمَرَ، فَأَخْبَرَهُ، فَبَکَی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ، لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَاءِلِ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ ۔
ترجمہ : حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط پڑا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر شریف پر حاضر ہوکر عرض کیا: ”یا رسول اللہ ! اپنی امت کیلئے بارش کی دعا فرمائیں وہ ہلاک ہورہی ہے ۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس شخص کے خواب میں تشریف لاۓ اور فرمایا : ”عمر کے پاس جاؤ ، میرا سلام کہو اور بشارت دو کے بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کے نرمی اختیار کریں“، اس شخص نے حاضر ہوکر خبر دی (تو) خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا ۔ (علامہ ابن کثیر کہتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہیں)(المصنف ج ١٢ ص ٣٢‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)

اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے المصنف میں اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے فرمایا : اِس کی اسناد صحیح ہے ۔ امام ابن ہجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ سب سے پہلے تو ان اعتراض کے جواب میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ : اس حدیث کو مخالفین و موافقین سب کے نزدیک مسلم ائمہ و محدثین الحافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن کثیر نے اس کی سند کو " صحیح " کہا ہے، (الفتح الباری ٢/ ٤٩٥)(البداية والنهاية ٨ / ٨٤ ، البدایہ والنہایہ مترجم اردو جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 126 ،127)

یہاں ہی حجت تمام ہو جاتی ہے ، لیکن اعتراض کا تھوڑا تفصیلی جواب بھی ضروری ہے ، مالک الدار رضی الله تعالی عنہ کی توثیق ! آپ مشور تابعی ہیں اور آپ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے خادم اور وزیر خزانہ تھے .علّامہ ابن سعد نے مالک الدار کو تابعین میں شمار کیا ہے اور فرمایا کہ وہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں اور ان سے ابو صالح السمّان نے اور فرمایا " کان معروفا " ۔ (الطبقات الکبیر ، ٦ / ١٢/ ١٤٢٣،چشتی)

امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الثقات میں فرمایا ، مالک بن عیاض الدار ، حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ اور ابو صالح السمّان سے روایت کی ہیں . (" الكتاب: الثقات جلد ٥ ص ٣٨٤")

الحافظ امام شمس الدین ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے تجريد الأسماء الصحابه میں فرمایا ، مالك الدار مولي عمر بن خطاب ٠روي عن ابي بكر٠حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں.( تجريد الأسماء الصحابه ٢ / ٤٤ ،چشتی)

الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی مالک الدار کو صحابی رسول شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے نبی کریم علیہ السلام کو دیکھا اور تفصیل سے آپ کے حالات نقل کئیے.("الاصابة في تميز الصحابة ٦ / ١٦٤ ")

اسی لئے کہتے جھوٹ کے پیر نہیں کذاب البانی نے التوسل میں اس حدیث پر ضعیف کا حکم لگایا مالک الدار کو مجہول کہ کر مگر صحیح الترغیب و الرھیب میں مالک الدار والی ایک روایت پر البانی حسن کا فتویٰ صادر کر رہے ہیں ؟ یہ البانی کا ایک دجل اور ملاحضہ فرمائیں ۔ (صحیح الترغیب و الرھیب ١/ ٩٢٦،چشتی)

جواب : امام اعمش کی تدلیس ، امام اعمش بخاری و مسلم کے باالجماع ثقہ راوی ہیں ، ایک اہم نقطہ، وہابیوں کا کذاب محدث و امام ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث پر امام اعمش کی ممکنہ تدلیس پرکوئی اعتراض نہیں کیا جس کا شور شرابہ آج کا جاہل وہابی کرتا پھرتا ہے ۔

تدلیس کے اعتبار سے محدثین نے رواۃ حدیث کے مختلف طبقات بنائے ہیں،بعض طبقات کی روایات کو صحت حدیث کے منافی جبکہ دوسرے بعض کی روایات کو مقبول قرار دیاہے۔ مذکورہ راوی کے بارے میں تحقیق پیشِ خدمت ہے : امام اعمش مدلس ہیں مگر انکی حدیث ٢ امور کی بنا پر مقبول ہے، چاہے سماع کی تصریح کرے یا نا کرے، امام اعمش کا شمار مدلسین میں مرتبہ ثانیہ میں ہوتا ہے .

اور محدثین علیہم الرّحمہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طبقہ ثانیہ کے مدلس کی روایت مقبول ہے، طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی تدلیس مضر نہیں . ( التدلیس والمدلسون للغوری ص104)،(جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص113، روایات المدلسین للعواد الخلف ص32)

امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں ہیں جن کے بارے میں الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی فرماتے ہیں.من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح ، یعنی اس طبقے میں ان آئمۃ حدیث کو شمار کیا گیا ہے جن سے تدلیس کا احتمال ہے اور ان سے بخاری اور مسلم نے اپنی صحیح میں روایت لی .

علامہ ابن حزم محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست بتاتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہیں اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ منهم كان جلة أصحاب الحديث وأئمة المسلمين ١.كالحسن البصري ٢.وأبي إسحاق السبيعي و٣.قتادة بن دعامة و٤.عمرو بن دينار٥. وسليمان الأعمش ٦.وأبي الزبير و٧.سفيان الثوري و٨.سفيان بن عيينة ۔ (الاحکام لابن حزم ج2،ص141 ،142 فصل من یلزم قبول نقلہ الاخبار،چشتی)

اور اس میں یہی سليمان الأعمش بھی ہیں . اگر بالفرض وہابیوں کے اس اعتراض کو تسلیم بھی کرلیا جاے کہ اس حدیث کو سماع کی تصریح کی وجہ سے ہی قبول کریں جیسا کہ اہل مرتبہ ثالثہ اور بعد کے مدلسین کا مقام ہے پھر بھی یہ حدیث مقبول ہے کیوں کہ یہاں امام اعمش نے ابن ابی صالح سے اسکو روایت کیا ہے ، اور امام الائمہ فی الحدیث امام شمس الدین ذھبی " میزان الاعتدال" میں رقمطراز ہیں . ومتى قال: عن تطرق إليه احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم كـ إبراهيم وأبي وائل وأبي صالح السمان فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال ۔ (ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤)
ترجمہ : امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ جب " عن " کہیں تو تدلیس کا احتمال عارض ہوتا ہے ، مگر علاوہ ان شیوخ کے جن سے وہ اکثر روایت لیتے ہیں، جسے، ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ، ابی وائل رحمۃ اللہ علیہ اور ابی صالح السمّان رحمۃ اللہ علیہ . بلا شبہ اس نوع سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہوتی ہے ۔ (ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤)
نیز حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : حافظ ابوبکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ مالک سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘ اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عنہ نے کہا : اے میرے رب ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٩٢۔ ٩١ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت،چشتی) ، (حافظ ابوعمرو بن عبدالبر ، حافظ عمرو یوسف بن عبداللہ عبدالبر قرطبی مالکی متوفی ٤٦٣ ھ ‘ الاستیعاب علی ہامش الاطابہ ج ٢ ص ٤٦٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت،چشتی) ، اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے ۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٣٩٠۔ ٣٨٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ‘ ١٤٠٠ ھ)

علم حدیث میں حافظ ابن کثیر کی شخصیت موافقین اور مخالفین سب کے نزدیک مسلم ہے اور حافظ ابن کثیر نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اس روایت میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے آپ کے قبر انور پر جا کر آپ سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ اور اپنا خواب بیان کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو مقرر رکھا اور اس پر انکار نہیں کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی وصال کے بعد صاحب قبر سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے ۔

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن ابی شیبہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عمر کے خازن مالک الدار سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے ‘ کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے ‘ پھر اس شخص کو خواب میں آپ کی زیارت ہوئی اور یہ کہا گیا کہ عمر کے پاس جاؤ ‘ الحدیث۔ سیف نے ” فتوح “ میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ یکے از صحابہ حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے۔ (فتح الباری ج ٢ ص ٤٩٦ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ) ۔

اس حدیث کو حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر عسقلانی دونوں نے سندا صحیح قرار دیا ہے اور ان دونوں کی تصحیح کے بعد کسی تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور نہ کسی کا انکار درخور اعتناء ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)




No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...