Friday 29 May 2020

اسلام میں شاعری کی حیثیت اور اعتراضات کے جوابات

0 comments
اسلام میں شاعری کی حیثیت اور اعتراضات کے جوابات
محترم قارئینِ کرام : شاعری کے متعلق بعض لوگ عجیب قسم کی رائے رکھتے ہیں ، جو خود اچھا شعر کہہ لیتے ہیں ، ان کے نزدیک یہ قدرت کا ایک عظیم انعام ہے مگر جو کہہ نہیں سکتے ، وہ اس کے خلاف طرح طرح کی باتیں بناتے اور تمسخر تک اڑاتے ہیں . آئیے آج ہم دیکھیں کہ کلامِ مطلق بہ صورتِ نثر کیا چیز ہے اور کلامِ منظوم یعنی شعر و شاعری کی کیا حیثیت ہے . اسی سلسلے میں بہت سے مباحث پر گفتگو ہوگی ، امید ہے کہ مضمون کی طوالت قارئین میں اکتاہٹ پیدا نہیں کرے گی . کیونکہ یہ موضوع نازک بھی ہے اور قدرے تفصیل طلب بھی . ہم کوشش کریں گے کہ کلام کے مختلف زاویوں کو سامنے رکھ کر بات کو آگے بڑھائیں ، تاکہ شعر و شاعری کے جملہ معائب و محاسن قارئین پر واضح ہو سکیں .

کلام موزوں کو شعر کہتے ہیں. موزوں سے مراد یہ ہے کہ الفاظ مخصوص رِدَم اور وزن میں ہوں. شعر کا لغوی معنٰی "جاننا" ہے اور اصطلاح میں کلامِ مخیل و موزوں کو شعر کہتے ہیں. ایک دوسری تعریف کے مطابق جمہور کلامِ موزوں و مقفی کو شعر کہتے ہیں . تو گویا تعریفِ شعر کے چار اجزاء ٹھہرے نمبر 1 کلام ، نمبر 2 تخیل ، نمبر 3 وزن ، نمبر 4 قافیہ (یعنی اشعار کے آخری حروف کا ایک جیسا ہونا،چشتی) ۔ پھر شعر کے مختلف اوزان ہیں ، جنہیں علمِ عروض کی زبان میں بحر سے تعبیر کیا جاتا ہے .

رِدَم اور لَے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ، رِدَم کے تسلسل کو دُھن کہتے ہیں. دُھن ماتروں کی مجموعی صورت کا نام ہے ، جسے عربی میں ضرب اور اصطلاحِ موسیقی میں ماترہ کہا جاتا ہے . پھر ماتروں کے حساب اور تعین کے مطابق لَے اور تال کی تعیین کی جاتی ہے. موسیقی اور شاعری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے . کیونکہ موسیقی میں لَے کو سُر سے زیادہ اہمیت حاصل ہے. چناچہ ماہرینِ موسیقی کے نزدیک یہ ایک مسلمہ امر کہ بے سُرا منظور مگر بے گُرا یعنی بے لَے نامنظور. اِس کی وجہ یہ ہے کہ جسے ہم بے سُرا کہتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ لَے کا پکا ہو. چونکہ سُر سے زیادہ رِدَم سماعت کو ذوق دیتا ہے. اس لئے اساتذہ موسیقی کے نزدیک بے سُرے انسان کو تو قبولیت مل سکتی ہے ، مگر بے لَے کو نہیں. یہی لَے (رِدَم) کلامِ موزوں اور غیر موزوں میں خطِ امتیاز کھینچتی ہے. گویا شعر وہ ہوگا جس میں رِدَم اور وزن ہوگا. ماہرین عروض اِسی کو شعر کہتے ہیں. جس طرح یہ ضروری نہیں کہ ہر گلوکار ایک ماہر لَے کار بھی ہو ، اِسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ محض وزن میں کلام کر لینے والا ، یعنی شاعر ، افکار اور تخیل کے اعتبار سے بھی اُتنا ہی بلند اور ماہر ہو .

خوش آوازی اور چیز ہے اور لَے کاری بالکل اور چیز. ایک خوش آواز انسان جس قدر اپنی آواز کا جادو جگا سکتا ہے ، اسی قدر اگر وہ لَے کار بھی ہو تو اِسے نور علی نور والا معاملہ سمجھنا چاہیے. اِسی طرح اگر کوئی شخص وزن میں شعر کہہ سکنے کے ساتھ بلندی تخیل ، زبان و بیان اور رعایتِ لفظی اور دوسرے محاسنِ شعری پر بھی قدرت رکھتا ہو تو دنیائے فن میں ایسے باکمال انسان کو کلاسیکی شاعر یا ایسی شاعری کو کلاسیکل شاعری کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے .

کلاسیکل شعراء میں خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ، امیر خسرو دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ ، مرزا عبد القادر بیدل رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سرِ فہرست ہیں .
اردو میں میر تقی میر ، غالب ، مصحفی ، داغ ، ابراہیم ذوق ، میر انیس و غیرھُم کے نام بھی لیے جاسکتے ہیں. عربی ادب میں شعرائے جاہلیت کے چند شاعر ، جنہیں کلاسیکل ادب کا اُستاد کہا جاسکتا ہے. ان میں متنبی ، حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، صاحبانِ سبعہ معلقہ ، لبید وغیرھُم شامل ہیں .
آگے بڑھنے سے قبل رِدَم یعنی لَے کی اہمیت کے بارے میں اگر غور کیا جائے تو کائنات کی ہر شئے ایک خاص رِدَم سے دوچار ہے. لَے کی حقیقت اور اہمیت سمجھنے کے لئے قرآنِ مجید کی دو چار آیات سے استدلال پیش کیا جاتا ہے. ارشاد ہوا.
والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم.
ترجمہ: اور سورج چلتا ہے اپنی قرار گاہ کے لئے ، یہ حکم ہے زبردست علم والے کا.
والقمر قدرنہُ منازل حتیٰ عاد کاالعرجون القدیم.
ترجمہ: اور چاند کے لئے ہم نے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ پھر ہوگیا ، جیسے کھجور کی پرانی ڈالی.
لاالشمس ینبغی لھا ان تُدرک القمر ولا اللیل سابق النھار و کل فی کلک یسبحون.
ترجمہ: سورج کو (حق) نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جائے اور ہر ایک گھیرے میں تیر رہا ہے.
انا کل شیء خلقنٰہ بقدر.
ترجمہ: بے شک ہم نے ہر چیز ایک اندازے سے پیدا کی.
و اذالنجوم انکدرت.
ترجمہ: اور جب تارے جھڑ پڑیں.
واذالسما کشطت.
ترجمہ: اور جب آسمان جگہ سے کھینچ لیا جائے.
ان آیاتِ محولہ بالا سے یہ نتیجہ بخوبی ظاہر ہے کہ خالقِ ارض و سماء نے کائنات کی ہر چیز کو ایک مربوط و منضبط نظام کے تحت پیدا کیا اور رکھا ہوا ہے. چناچہ اسی ارتباط و ترتیب کے حوالے سے کلام ، سُر اور لَے کی موزونیت پر استدلال کیا جاسکتا ہے. جب ہر جرمِ فلکی اپنے مقررہ محور میں تیر رہا ہے اور تیرنے کے لئے رفتار ضروری ہے تو رفتار لَے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی.
ھو الذی جعل الشمس ضیاء و القمر نورا و قدرھم منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب ما خلق اللہ ذلک الا بالحق.
ترجمہ: وہی ہے جس نے سورج کو جگمگاتا بنایا اور چاند کو چمکتا اور اس کے لئے منزلیں ٹھہرائیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب جانو ، اللہ نے اسے نہ بنایا مگر حق ، نشانیاں مفصل بیان فرماتا ہے علم والوں کے لئے .

لطیفہ : ایک منکرِ قرآن اور ملحد نے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا کہ قرآن میں آیا ہے کہ "کل فی فلک یسبحون" یعنی ہر ایک سیارہ دائرے اور گھیرے میں تیر رہا ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر جرمِ فلکی (سیارہ) سیدھا تیرتا ہے ایک ہی جانب. جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ سیارے الٹے بھی تیرتے ہیں. آج ادھر سے اُدھر اور کل اُدھر سے اِدھر. قرآن نے یہ نامکمل بیان کیوں دیا ہے. اس پر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے سمجھایا کہ کاغذ اور قلم لے آو. جب وہ لے آیا تو آپ نے یہ الفاظ کاغذ پر لکھے "کل فی فلک" اور فرمایا کہ ان تین حروف کی ترتیب یہ ہے "ک ل ف ی ف ل ک" ان حروف کو جدھر سے بھی پڑھو ترتیب ایک ہی ہے. لہذا اس آیت کی یہ ترتیب یہ راز آشکار کر رہی ہے کہ سیارے الٹے سیدھے جس طرح بھی چلیں اور تیریں ان کا بیان قرآنِ مجید میں موجود ہے. وہ معترض یہ بیان سن کر مبہوت و حیران رہ گیا اور قرآن کی بلاغت و جامعیت پر عش عش کر اُٹھا.
"کل فی فلک یسبحون" سے پتہ چلتا ہے کہ ہر جرمِ فلکی اپنے مقررہ محور میں تیر رہا ہے اور تیرنے کے لئے رفتار ضروری ہے تو رفتار لَے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی . آیہ "والنجوم انکدرت" میں ستاروں کے بے چال ہونے اور بکھر جانے کا ذکر ہے جس کے معنٰی یہ ہوئے کہ جب یہ ستارے اپنی مقرری چال چھوڑ دیں گے یعنی "بے لَے" کر دیے جائیں گے تو ان کے بے چال اور بے لَے ہونے کا نتیجہ کیا ہوگا. اختتامِ سلسلہ کائنات اور آغازِ لمحہ قیامت. تیسری آیت میں فرمایا " ہم نے ہر شے کو ایک مقررہ مقدار میں پیدا کیا " مقدار سے مراد اس کا جسمِ مادی بھی ہے اور اس کا مزاجِ رفتار بھی اور رفتار میں لَے کا وجود بھی .(چشتی)
ان آیات میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ رِدَم یعنی لَے کائنات کی اساس بھی ہے ، جس دن لَے کا یہ مربوط نظام بے چال کر دیا جائے گا تو کائنات کی محسوس ہونے والی یہ خوبصورت حقیقت ایک افسانہ بن کر رہ جائے گی پھر بقول علامہ سیماب رحمۃ اللہ علیہ

دفعتا سازِ دو عالم بے صدا ہو جائے گا
کہتے کہتے رُک گئے جس دِن ترا افسانہ ہم
اس بات کو ایک نہایت خوبصورت انداز میں بِرج نرائن چکبست ہندو شاعر نے بھی بیان کیا ہے . وہ کہتا ہے کہ :
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کی اہے اِنہی اجزا کا پریشاں ہونا
یعنی کائنات کی ہر شے جن عناصرِ تخلیقہ سے مرکب ہے(جیسے کہ انسان عناصرِ اربعہ ، آگ ، مٹی ، ہوا اور پانی سے ) اُن میں اگر ترتیب قائم رہے یہی قیام و ظہورِ ترتیب زندگی کہلاتا ہے. اگر اُن کی ترکیب بکھر جائے اور پریشان ہوجائے ، تو اسی کو موت کہتے ہیں. گویا نظامِ کائنات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ترتیب اور انضباط کا لحاظ فرمایا ہے ، اسی ترتیب کے کلام اور آواز کی مناسبت سے ملحوظ رکھنے کو رِدَم اور شعر یعنی کلامِ موزوں کہتے ہیں.
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف احیاء العلوم میں جہاں موسیقی پر تفصیلی بحث کی وہاں خوش آوازی اور لحن کے علاوہ رِدَم اور لَے کی اہمیت پر بھی عقلی دلائل پیش کیے. ایک دلیل یہ بھی دی کہ لَے کے اندر اگر ذوق اور کیفیتِ انہماک نہ ہو تو روتا ہوا شیر خوار بچہ گھنٹی کی آوازِ مسلسل سن کر خاموش کیوں ہوجاتا ہے. جُھولے کی مخصوص رفتار جب ایک مسلسل لَے کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو بچہ اس کی خنک لوریوں میں جھول کر رونا بند کر دیتا ہے. اس قسم کی عام فہم مثالوں میں لَے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے .

لَے کی اہمیت پر ایک لطیفہ : ایک مرتبہ دورانِ سفر ریل گاڑی میں‌ایک مولانا سوار ہوئے وہ موسیقی سے خاصے بیزار نظر آتے تھے اور موسیقی ان سے بیزار. غالبا وہ کسی اور مسلک سے تعلق رکھتے تھے. جب خانقاہ کے حوالے سے میرا تعارف ہوا تو فرمانے لگے آپ لوگ ایسے غیر اہم مشغلوں میں مصروف رہتے ہیں کہ توبہ بھلی. میں نے عرض کی قبلہ ذرا وضاحت تو فرمائیے. بولے یہی طبلے کی تھاپ اور قوالیاں. میں نے کہا اس کی شرعی حیثیت کو ذرا چھوڑئیے کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے ، آپ نے چونکہ طبلے کی تھاپ کا ذکر کیا اور میں فطری طور پر لَے اور سُر کا شعور رکھتا ہوں اس لئے اتنا کہوں گا کہ آپ لَے اور سُر کی اہمیت کو غیر اہم چیز نہ کہیے. جب وہ میری بات اور لَے کی اہمیت کو نہ سمجھ سکے تو میں نے مولانا سے کہا کہ اسٹیشن قریب ہے ، ابھی فیصلہ ہو جائے گا ، کہنے لگے وہ کیسے؟ سٹیشن یہ مسئلہ کیسے حل کردے گا. جب گاڑی اسٹیشن کے قریب آکر آہستہ ہوئی اور پھر دھیرے دھیرے اور آہستہ ہوتی گئی تو میں نے کہا مولانا! اب مسئلہ کے حل کا وقت قریب آچکا ہے ، اٹھیے ، وہ اٹھ کھڑے ہوئے ، میں نے کہا اب آپ پلیٹ فارم کی طرف نہیں بلکہ اس کی مخالف سمت کی طرف اتر کر دوڑئیے. کہنے لگے جدھر گاڑی جا رہی ہے ادھر کیوں نہ دوڑوں ، میں نے کہا اگر آپ ادھر اتر کر دوڑیں گے تو مسئلہ حل نہیں‌ہوگا. کہنے لگے مجھے اس کا علم نہیں. میں نے کہا سنیے! اگر آپ جدھر گاڑی جارہی ہے اس طرف اتر کر بھاگتے ہیں تو آپ کو تھوڑی دیر گاڑی کی رفتار کےساتھ بھاگنا پڑے گا اور جب آپ اپنی رفتار پر قابو پا کر آہستہ آہستہ دوڑتے جائیں گے تو کچھ دیر بعد آپ رک بھی سکتے ہیں اور موت سے بھی بچ سکتے ہیں اور اگر گاڑی کی مخالف سمت میں اتریں گے تو بے لَے ہو جانے کی وجہ سے دھڑام کرکے ایک مرتبہ گر کر مر بھی سکتے ہیں. خیر یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی. اگلے اسٹیشن پر میں نے تجربۃ اپنے ایک ساتھی سے الٹی طرف اترنے کا کہا تو اس نے یہ کہہ کر معذرت چاہی کہ ابھی میرا مرنے کا کوئی ارادہ نہیں. مولانا تب جا کر کہیں لَے اور رِ دَم کے قائل ہوئے .

یہ واقعہ لکھنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی دوسری تخلیقات کی طرح لِے بھی کائنات میں ایک حقیقت ہے جسے ہم تخلیق کا ایک اہم جزو بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی لَے شعر کا بنیادی وصف ہے ، اس کے بغیر شعر کو شعر نہیں کہا جا سکتا۔ دریاوں کا بہاو ، سمندروں کا تلاطم ، ہواوں کا خرام ، آوازوں کا زیر و بم ، زمین اور فضا میں اڑنے والے پرندوں اور جہازوں کی اڑان اور اجرامِ فلکی کی مختلف چالیں ، در حقیقت اسی لَے کی مرہونِ منت ہیں ۔ دیکھا دیکھی شعر موزوں کر لینا اور بات ہے اور باقاعدہ شاعر ہونا اور شاعری کرنا بالکل اور بات ہے۔ بعض لوگ صرف وزن میں الفاظ جوڑ کر اور بعض اوزانِ شعر کا شعور نہ رکھنے کے باوجود محض تک بندی کی بنیاد پر خود کو بڑا شاعر سمجھ لیتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں شاعری کی تعریف کے سراسر خلاف ہیں۔
یہاں ہم اپنی مطالعاتی محنت اور ذوق کے تحت دنیائے شعر سے متعلق اساتذہء عروض کی تصریحات اور ان کی پیش کردہ تعریفاتِ اصطلاحات کا اجمالی ذکر مناسب سمجھتے ہیں ، تاکہ بعض سہل نٍگاروں پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ شاعری صرف چند الٹے سیدھے لفظوں کو جوڑ لینے یا وزن میں دو مصرعے کہہ لینے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک باقاعدہ اور مشکل ترین فن ہے ، جسے باقاعدہ ایک علمِ موہوبی بھی کہہ سکتے ہیں ، ایسا علم جس کا سلسلہ وما علمنہ الشعر پر منتہی ہوتا ہے جسے خود اللہ تعالی نے ایک علم قرار دیا ، کیونکہ علمنا کا مادہ ء اشتقاق ثلاثی مجرد کی صورت میں علم ہی قرار پاتا ہے۔ اگر شعر گوئی کوئی باقاعدہ علم یا فن نہ ہوتا تو حضور سے اس کے انتفائے نسبت کے وقت مادہ علم سے مشتق لفظ استعمال میں نہ لایا جاتا۔ اس سے یہ امر بھی پایہ ثبوت کو پہنچا کہ شاعری نبی کے شایانِ شان ہونے کے باعث نبی کے لئے درجہ علم نہیں رکھتی۔ مگر غیر نبی کے لئے ایک باقاعدہ علم کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ کہ علم شعر بھی اللہ تعالی کی طرف سے تعلیم شدہ علم ہے جسے بندوں کو ان کے ظرف کے مطابق تعلیم کیا جاتا ہے ، لیکن یہ بات خصائص نبوی سے ہے کہ اللہ نے اس علم کی آپ سے نفی کردی۔ اب ذرا دنیائے عروض کی سیر ملاحظہ ہو ۔(چشتی)
شعر کہنے کے لئے سب سے ضروری چیز "موزونیت" ہے جسے خداداد سمجھیے۔ موزونیت سکھانے یا بتانے سے پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہاں جن لوگوں کو موسیقی سے کچھ دلچسپی ہے ان کے لئے طبیعت کا موزوں کرلینا کسی قدر آسان ہوتا ہے۔ کسی خاص شعری بحر کو سامنے رکھتے ہوئے کسی راگ میں آواز موزوں کرتے رہنے سے (یعنی گنگنانے سے) اکثر موزونیت حاصل ہوجاتی ہے۔ شعر کہنے کے لئے علم کی سخت ضرورت ہے مگر معمولی علم والے بھی اگر چاہیں تو شعر کہہ سکتے ہیں۔ جو لوگ علوم کے ماہر ہوں انہیں زیادہ مشکل کا سامنا نہیں ہوتا۔ اس لئے شاعری سیکھنے سے پہلے علم حاصل کر لینا ضروری ہے۔
عقلا اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ کلام کی دو قسمیں ہیں منظوم اور منثور۔ منظوم کا صدر نظم سے اور منثور کا نثر ہے۔ ان کی مختصر تشریح ملاحظہ ہو۔
نظم
نظم کا لغوی معنی موتی پرونا ہے۔ اصطلاحا وہ کلام جس میں موزونیت (موسیقیت) پائی جائے اور جو بالقصد کہا جائے نظم کہلاتا ہے اس کی دس قسمیں ہیں
فرد ، رباعی ، قطعہ ، غزل ، قصیدہ ،مثنوی ، ترجیع بند ،ترکیب بند ، مستزاد اور مسمط۔
فرد
فرد بر وزنِ گرد بمعنی یکتا ، تنہا اور طاق۔ مگر شاعرانہ اصطلاح میں اسے شعر کہتے ہیں۔ شعر دو مصرعوں کا ہوتا ہے اور مصرع کہتے ہیں دروازے کے کواڑ کو۔ دو کواڑ ملتے ہیں تو دروازہ بنتا ہے۔ اس طرح دو مصرعے مل کر ایک شعر بنتا ہے۔ فرد کی مثال
عشق کا عالم کیا کہیے
جیسے کوئی نیند میں ہو​
رباعی
رباعی بروزنِ دلائی بمعنی منسوب بہ ربع۔ فارسی میں اس کو ترانہ کہتے ہیں۔ عربی میں ربع کے معنی چوتھائی کے ہیں۔ کیونکہ رباعی چار مصرعوں کی ہوتی ہے اس لئے اس کو اس نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ عروضی لحاظ سے چوبیس اوزان میں کہی جاتی ہیں۔ اساتذہ ما سبق ان چوبیس لفظوں کے خط کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ یہ وزن بحر ہزج مثمن سالم سے نکالا گیا ہے ۔ مثال از علامہ فوق سبزواری مرحوم صاحبِ فکر و فن :

اظہارِ شہود کی ضرورت کیا تھی
اس نام و نمود کی ضرورت کیا تھی
جب مر کے عدم کو پھر بسانا ہوگا
دنیا کے وجود کی ضرورت کیا تھی​

واضح ہو کہ رباعی کا مفہوم چوتھے مصرع پر منحصر ہوتا ہے۔ اس لئے چوتھا مصرع نہایت چست اور بامعنی ہونا چاہیے۔ ایسا کہ پہلے تین مصرعوں سے بلحاظ مفہوم مربوط ہو۔

قطعہ
قطعہ بر وزنِ حصہ بمعنی ٹکڑا۔ یہ وہ نظم ہوتی ہے جو کم از کم دو شعروں سے ترتیبدی گئی ہو پہلے تو قطعہ میں‌مطلع نہیں‌ہوتا تھا، مگر ذوق نے مطلع کو بھی قطعہ میں‌شامل کیا ہے۔ ہر وہ غزل قطعہ ہے جس میں‌مطلع نہ ہو مگر واضح نہ ہو کہ قطعہ کا موضوع غزل سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔غزل کا ہر شعر علیحدہ ہوتا ہے اور قطعہ کے اشعار میں‌ بلحاظِ مضمون تسلسل ہونا چاہئیے 
مثال :
کیا ہو جینا جس میں ہو کوشش نہ دیں کے واسطے
واسطے واں کے بھی کچھ، یا سب یہیں کے واسطے
ذوقٔ عاصی ہے تو اس کا خاتمہ کیجو بخیر
یا الٰہی اپنے ختم المرسلیںؐ کے واسطے​
غزل اور قصیدے میں‌اکثر قطعہ بند اشعار ہوتے ہیں۔
غزل : غزل بروزنِ اثر۔ بمعنٰی حسن و محبت کی باتیں کرنا، چناچہ غزل میں تغّزل کا ہونا شرطِ اوّل ہے مگر فی زمانہ غزل میں فلسفہ، منطق، سائینس، ہئیت، بہار و خزاں، مناظرِ قدرت اور فطری جذبات جیسی باتوں کا ذکر بھی شامل ہے۔غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔ طلوع بمعنٰی نکلنا گویا مطلع سے غزل شروع ہوتی ہے۔ مطلع میں دونوں مصرعے ردیف اور قافیے رکھتے ہیں۔ غزل داغ مشہور ہے جس کا مطلع یہ ہے ۔
شرکتِ غم بھی نہیں چاہتی غیرت میری
غیر کی ہو کے رہے یا شبِ فرقت میری
غزل کا آخری شعر مقطع ہوتا ہے۔ مقطع میں شاعر اپنا تخلص نظم کرتا ہے جس کی وجہ سے سامعین یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ یہ غزل فلاں شاعر کی ہے جیسے غالب کا مقطع ہے ۔
غالبؔ بُرا نہ مان جو واعظ بُرا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھّا کہیں‌جسے​
قصیدہ : قصیدہ بروزنِ ملیدہ بمعنیٰ مُوئے مغز-وہ نظم جس میں کسی کی مدح یا ہجو ہو۔ قصیدہ بھی غزل کی طرح ہوتا ہے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ غزل میں حسن و عشق، ہجر و وصال کا مضمون ہوتا ہے جب کہ قصیدوں میں حمد، نعت، منقبت،مدح، ہجو، نصیحت، شکایت ِ روزگار وغیرہ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ قصیدہ میں کم از کم بیس (۲۰) اشعار ہونے چاہیئں، زیادہ کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ قصیدہ اکثر قافیہ اور ردیف کے نام سے مشہور ہوتا ہے۔ مثلاً اگر قافیہ کنول، آنچل ہے تو اس کو لامیہ کہیں گے۔ اگرآفتاب ردیف ہے جیسے بہارآفتاب، قرارآفتاب تو قصیدہ شمسیہ ہوگا۔ اقسامِ نظم میں قصیدہ کا لکھنا مشکل ہے۔ اس کے لئے شوکتِ الفاظ اور عمدہ تراکیب کے علاوہ مضمونِ دقیق، معنیٰٔ بلند اور استعارۂ نازک کی ضرورت رہتی ہے، متأخرین غزل اور قصیدہ ایک ہی طرز پر لکھتے ہیں۔ قصیدہ دو قسم کا ہوتا ہے خطابیہ اور تمہیدیہ۔ قصیدہ، قصد سے مشتق ہے بمعنیٰ کسی کی جانب متوجّہ ہونا۔

خطابیہ : خطابیہ وہ قصیدہ ہوتا ہے جس میں مطلع سےآخری شعر تک شاعر کسی خاص مقصد تحت سامعین کو مخاطب کرے۔ اس میں وعظ، پند، مدح، ہجو وغیرہ شامل ہیں اس میں تمہید نہیں ہوتی ۔

تمہیدیہ : تمہید کے معنیٰ لُغّت میں ہموار اور درست کرناکے ہیں۔ یہاں بھی شاعر ایک  خاص مقصد کو بیان کرتا ہے ۔ تمہید یہ قصائد میں پہلے تشبیب پھر گریز پھر خطاب یا مدّعا اس کے بعد دعا اورآخر میں خاتمہ کےمتعلّق کچھ اشعار ہوتے ہیں ۔

تشبیب : تشبیت بروزنِ تدبیر بمعنیٰ ایّامِ شباب کا ذکر کرنا۔ اس کو تمہید بھی کہتے ہیں۔ لغوی معنیٰ جوانی کا حال اور معشوق کی صفت بیان کرنا ہے، کیونکہ شاعر نفسِ مضمون کو معشوق کے ذکر سے بلند کرتا ہے اس لئے اس کو تشبیب کہا گیا ۔

گریز : گریز بروزنِ منڈیر بمعنیٰ بھاگنا۔ اصطلاحِ شاعری میں ایک مضمون سے ہٹ کر دوسرے مضمون کی جانب آنے کو کہتے ہیں یعنی وہ شعر جو تشبیب کے بعد نفسِ مضمون کی جانب اشارہ کرے۔گریز جس قدر خوبصورتی کے ساتھ کیا جائے گا اُسی قدر قصیدہ اچھّا ہوگا ۔

خطاب : خطاب بروزنِ عتاب، بمعنیٰ بات کرنا، گریز کے بعد شاعر مدّعا بیان کرتا ہے اس کو خطاب کہتے ہیں ۔

دُعا : دُعا بروزنِ خُدا بمعنیٰ مانگنا، خواہش۔ وہ اشعار جو بطورِ دُعا نظم کئے جائیں ۔

خاتمہ : خاتمہ بروزنِ فاطمہ، بمعنیٰ انجام۔ وہ اشعار جن پر قصیدہ ختم کیا جائے (مثال کے لئے قصائدِ سودا اور ذوقؔ وغیرہ ملاحظہ ہوں) 

مثنوی : مثنوی بروزنِ سرسری بمعنیٰ منسوب بہ مثنیٰ جس کے معنیٰ دو کے ہیں۔ چونکہ مثنوی کے ہر بیت میں‌دوقافیہ مختلف ہوتے ہیں، اسی نسبت سے اس کو مثنوی کہا گیا ہے۔ اس کی ترتیب تمہید، توحید، نعت، مناجات، ساقی نامہ وغیرہ ہوتی ہے۔ مثنوی کے تمام ارکان ایک ہی وزن پر ہوتے ہیں۔ اس کے اشعار کی تعداد معیّن نہیں۔ مثنوی میں‌عام طور پر قصّے کہانیاں نظم ہوتی ہیں مگر اب واقعات بھی لکھے جاتے ہیں۔ مثال میں مثنوی میر حسنؔ اور گلزار ؔ نسیم دیکھئے یا حالیہ مثنوی پیام ساوتری کا مطالعہ کیجئے ۔(چشتی)

ترجیع بند : ترجیع بند وہ نظم ہے جو غزل کی طرح ردیف اور قافیہ کی پابندی سے لکھی جائے اور ان اشعار کے بعد ایک مطلع دوسری ردیف قافیہ میں لکھا جائے جو موضوع کے مطابق ہو اور یہ مطلع ہر بند کے آخر میں‌بغیر تبدیلی کے آتا رہے ۔

ترکیب بند : یہ نظم ترجیع بند کی طرح لکھی جاتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ بند کا مطلع تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ دیکھئے ترکیب بندِ حالیؔ ۔

مستزاد : مستزاد بروزنِ مستجاب بمعنیٰ زیادہ کیا گیا۔ رباعی یا غزل کے وزن میں‌ہر مصرع کے بعد ایک یا دو رکن اسی وزن کے اور بڑھا دیں۔ پہلے تو صرف رباعی کے وزن کو مستزاد کیا جاتا تھا اب غزل کے وزن کو بھی مستزاد کر لیا جاتا ہے، مثال ع پھر ذرا کہہ دیجئے ہنس کر کہ دیکھا جائے گا، آپ کا کیا جائے گا ۔
مسمّط : مسمّط بروزنِ مسبّغ بمعنیٰ لڑی میں موتی پرونا۔ لُغّت میں تسمیط جمع کرنے کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں چند متّفق الوزن والقافیہ مصرعوں کو ایک جگہ جمع کرنا۔ اس کی آٹھ قسمیں ہیں۔ مثلّث، مربعّ، مخمس، مسدّس، مسبّع، مثمن، متسّع، معشّر ۔
بہرحال شعر کے لوازم و محاسن کو سامنے رکھتے ہوئے شعر کہنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ندرتِ فکر اور بلندیِ تخیل کے ساتھ ساتھ ابلاغِ مفہوم کے لئے الفاظ کا چناؤ اِس قدر کٹھن مرحلہ ہے کہ اللہ اکبر۔ خواجہ آتشؔ نے ایسی ہی شاعری کے لئے کہا تھا ۔

شعر گوئی کام ہے آتشؔ ! مُرصَّع ساز کا
نگینوں کی طرح الفاظ کا رکھنا، اِس طرح کہ اگر کوئی اُس کو اُٹھا لے اور کوئی دوسرا لفظ اُسکی جگہ رکھنا چاہے تو شعر بے جان ہو کر رہ جائے۔ مثلاً غالبؔ نے ایک مصرعہ میں ایک بھاری بھرکم لفظ رکھ دیا، جو بظاہر نثر کا معلوم ہوتا ہے، مگر کوئی بڑے سے بڑا شاعر اور زبان دان اُسکی جگہ اُس سے بہتر کوئی لفظ نہیں رکھ سکتا۔ وہ مصرع یہ ہے ۔
تھی وہ اِک شخص کے تصوّر سے
اس مصرعے میں شخص کی جگہ آپ اور کوئی لفظ نہیں لا سکتے اور اگر لائیں گے تو شعریّت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ اساتذہ کی شاعری اور آج کل کی شاعری میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آج کے اکثر شاعر جو الفاظ استعمال کرتے ہیں، اُن سے بہتر الفاظ کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ مگر اساتذۂ متقدّمین جب شعر کہتے تھے تو یہ تمام گنجائشیں ختم کر دیتے تھے ۔

کلامِ موزوں کا شعر ہونا بطریقۂ احسن بیان ہو چُکا۔ لیکن شعر و شاعری کی شرعی حیثّیت پر بھی کلام کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔اگرچہ بعض اساتذۂ سخن اور محقّق علمائے اسلام نے اِس موضوع پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔ ہمارا یہ مختصر مقالہ اس کا متحّمل نہیں تاہم بالاختصار اس پر ہم کچھ ضرور عرض کریں گے۔ جو لوگ شعر گوئی کو ناجائز اور منافیِ علم و تحقیق خیال کرتے ہیں وہ سب سے پہلے دو دلیلیں آیاتِ قرآنی کے حوالے سے دیتے ہیں۔ پہلی آیت جو سب سے زیادہ پیش کی جاتی ہے ۔ سورۂ یٰسین شریف میں ہے : وما علّمنہُ الشعر وماینبغی لہ ۔
ترجمہ : اور ہم نے محمد (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعری نہیں سکھائی اور نہ شاعری اُن کے شایانِ شان ہے ۔​

اِس آیت محوّلہ بالا سے استدلال کرتے ہوئے معترضین کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو اللہ تعالٰی نے مجمع الکمالات بنایا اور آپ سے ہر نقص اور رِجس کی نفی کردی ہے ۔ اگر شاعری کوئی کمال والی بات ہوتی تو اللہ تعالٰی اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو شاعری کی تعلیم دینے کی نفی نہ کرتے ۔ شاعری کیونکہ اچھی چیز نہیں اس لئے اللہ تعالٰی نے اُس کی ذاتِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے نفی فرما دی ۔

اس اعتراض کے متعدد جوابات ہیں

نمبر 1 : وما علّمنہُ الشعَرک کی حکمت و علّت وماینبغی لہ ہے یعنی صرف رسولِ اکرم کی ذاتِ اقدس کے شایانِ شان شاعری نہیں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ فی نفسہٖ شاعری کسی کے لئے بھی جائز یا مناسب نہیں ۔ کیونکہ قرآنِ مجید کی فصاحت و بلاغت بے مثال ہے اور اِس میں باعتبارِ فواصل ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو فنِ شاعری کے حوالے سے کلامِ موزوں (شعر) محسوس ہوتی ہیں۔ اور اِسی بنا پر منکرینِ قرآن یہ کہتے تھے کہ یہ شاعرانہ کلام ہے اس میں قوافی ، ردیف اور وزن کا خیال رکھا گیا ہے اسی لیے یہ کلامِ مخلوق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شاعر ہیں اور یہ اُن کا موزوں کیا ہُوا کلام ہے۔ اِس شک و اعتراض کا دفعیہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے کہیں تو یہ فرمایا وما ھو بقولِ شاعر اور وہ (قرآن مجید) کسی شاعر کا کلام نہیں ہے اور کہیں و ما علمنہ الشعر و ما ینبغی لہ ان ھو الا ذکر و قرآن مبین فرمایا ۔
نوٹ : ہم یہاں ایک نہایت باریک و لطیف نکتہ امامِ اجل علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیرِ کبیر سے بیان کرتے ہیں جس میں سابقہ اعتراض کا جواب بھی باریک نظر سے نظر آئے گا۔ فرماتے ہیں : البحث الاول خص الشعر بنفی التعلیم مع ان الکفار کانو ینسبون الی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اشیاء من جملتھا السحر و لم یقل و ما علمنہ السحر و کذلک کانو ینسبونہ الی الکھانۃ و لم یقل و ما علمنہ الکھانۃ ۔(چشتی)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات سے بطورِ خاص تعلیم ِ شعر کی نفی کی گئی ہے ۔ حالانکہ کفار حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف جادو اور کہانت بھی منسوب کیا کرتے تھے اللہ نے یوں نہیں فرمایا کہ "ہم نے پیغمبر کو جادو کی تعلیم نہیں دی" اور نہ یوں فرمایا "ہم نے پیغمبر کو کہانت کی تعلیم نہیں دی" اس بات کا جواب دیتے ہوئے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فنقول اما الکھانۃ فکانوا ینسبون النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الیھا عند ما کان یخبر عن الغیوب و یکون کما یقول و اما السحر فکانوا ینسبونہ الیہ عند ما کان یفعل ما لا یقدر علیہ الغیر کشق القمر و تکلم الحصی و الجذع و غیر ذلک و اما الشعر فکانوا ینسبونہ الیہ عند ما کان یتلو ا القرآن علیھم لکنہ صلی اللہ علیہ وسلم ما کان یتحدی الا بالقرآن کما قال تعالی و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتو بسورۃ من مثلہ الی غیر ذلک ولم یقل ان کنتم فی شک من رسالتی فانطقوا الجزوع او اشبعوا الخلق العظیم او اخبروا بالغیوب فلما کان تحدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بالکلام و کانو ینسبونہ الی الشعر عند الکلام خص الشعر بنفی التعلیم ۔
ترجمہ : ہم کہتے ہیں کہ کفار نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہانت کی طرف اس وقت منسوب کرتے تھے جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غیب کی خبریں دیا کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خبر کے مطابق وہ بات اُسی طرح ظہور پذیر ہو جاتی اور جادو کی طرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسبت اُس وقت کرتے جب حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دستِ مبارک سے ایسے واقعات صادر ہوتے جو کسی غیر کے بس بات نہ ہوتی جیسا کہ چاند کو ٹکڑے کرنا کنکریوں اور درختوں وغیرہ سے کلام کرانا ، لیکن شعر و شاعری کی نسبت اُس وقت کرتے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُن کے سامنے قرآن کی تلاوت فرماتے نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چیلنج بھی کفار کو صرف قرآنِ پاک کے حوالے سے دیا چناچہ ارشادِ باری تعالی ہوا کہ "اے کافرو! اگر تم اس کتاب کی صداقت کےبارے شک و شُبہ میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے عبدِ مقدس پر نازل کی تو اس کی مثل ایک سورت ہی لا کر دکھا دو" اور آپ نے اس بات کا چیلنج نہیں دیا کہ اگر تمہیں میری رسالت میں شک ہے تو تم درخت کے سوکھے تنوں سے کلام کرا کے دکھاو یا تھوڑے طعام سے کثیر مخلوق کو سیر کردو یا غیب کی خبریں لے آو۔ لیکن کیونکہ حضور دعوتِ مقابلہ بھی کلامِ الہی قرآن مجید کے معاملہ میں دیتے تھے اور اسی کلام کی وجہ سے کفار آپ کو شاعر اور کلام کو شعر کہا کرتے تھے اِسی لئے خصوصا شعر کی تعلیم کی نفی ذاتِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کی گئی ۔(چشتی)

نمبر 2 : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تعلیم دینے والا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معلم اللہ تعالی جل شانہ ہے پس اللہ تعالی نے جو چاہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تعلیم دیا اور جو پسند نہ فرمایا تعلیم نہ دیا ۔

نمبر 3 : علمائے باطن ، عارفین و عاشقین کے نزدیک آنخصور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شاعری نہ سکھائے جانے کا ایک سبب اور بھی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ شاعر خواہ کتنا ہی مشاق اور بُلند پایہ کیوں نہ ہو ، مگر اچھا شعر کہنے میں اُسے کچھ نہ کچھ محنت ضرور کرنا پڑتی ہے ، اور نہیں تو قافیہ ، ردیف اور عروض وغیرہ ہی کا خیال اُسے ضرور رکھنا پڑتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی مگر جب تک وہ اپنی توجہات کو شعر کہتے وقت ایک خاص نقطہ پر مرتکز نہیں کر دیتا اُس سے شعر گوئی کا حق ادا نہیں ہوتا ، اللہ تعالی کو یہ پسند نہیں آیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چند لمحوں کے لیے بھی کسی دوسری طرف متوجہ ہوں اِسی لئے آپ کو سرے سے شاعری ہی نہیں سکھائی گئی ۔

نمبر 4 : منصبِ رسالت اتنا ارفع و بُلند ہے کہ اُس کے مقابلے میں شاعری کوئی کمال نہیں ، بلکہ نقص ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے مرتبہ رسالت کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات سے شاعری کی نفی کی ۔

نمبر 5 : شاعر پہلے الفاظ کو ترتیب دے کر اُسے قافیہ و ردیف کے مطابق موزوں کرتا ہے پھر اُس کے تابع کرکے معانی و مفاہیم کو سوچتا ہے جب کہ حکمت و دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے معنی کو ملحوظِ فکر رکھا جائے ، پھر الفاظ اُس کے تابع ہو کر آئیں۔ اور نبوت و حکمت لازم و ملزوم ہیں ، بلکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خود بھی حکیم ہیں اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اِسی لئے شاعری مرتبہ نبوت کے منافی ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہیں سکھائی گئی ۔

نمبر 6 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم شاعری نہ سکھانے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ کو کوئی شعر آتا ہی نہ تھا۔ بلکہ آپ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بعض اشعار کی معنوی اصلاح بھی فرمایا کرتے تھے۔مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود شعر موزوں کرنے کاملکہ نہیں عطا کیا گیا تھا ۔
ایک مرتبہ حضرت کعب بن زہیر اسلمی رضی اللہ عنہ نے قصیدہ نعتیہ میں عرض کیا :
وان الرسول لنار یستضا بہ
و صارم من سیوف الھند مسلول

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا نار کی جگہ نور کہو اور سیوف الہند کی جگہ سیوف اللہ رکھو ۔

نمبر 7 : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شعر کہنے پر قدرت دی گئی تھی۔ لیکن اللہ تعالی کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شعر کہنا حرام کیا گیا تھا اسی لیے آپ نے شعر نہیں کہے۔ ورنہ جب کبھی آپ نے مسجع و مقفی کلام فرمایا تو عرب کے بڑے بڑے فصحا حیران و ششدر رہ گئے چناں چہ درج ذیل چند کلمات مبارکہ ہمارے اس موقف پر دلیل ہیں ۔ ھل انت الا اصبع دمیت و فی سبیل اللہ ما لقیت واللہ لو لا اللہ ما اھتدینا ولا تصدقنا و لا صلینا فانزلن سکینۃ علینا وثبت الاقدام ان لا قینا ان الاولی قد بغوا علینا اذا ارادوا فتنۃ ابینا یرفع بھا صوتہ ابینا ابینا اللھم لا عیش الا عیش الآخرہ فاغفرالانصار والمھاجرۃ ۔

نمبر 8 :  بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وما ینبغی لہ کی ضمیر ہ قرآن کی طرف راجع ہے یعنی قرآن کا شعر ہونا صحیح نہیں ہے ۔ (یعنی قرآن کو شعر کہنا غلط ہے) ۔ (تفسیر مظہری،چشتی)

ہم یہاں قارئین کے ذوق جستجو کا احترام کرتے ہوئے دو باتیں مزید عرض کرتے ہیں اور اس کے بعد معترضین کی مستدلہ دوسری آیات پیش خدمت کریں گے :

اول : اس بات میں علمائے اسلام کا اختلاف ہے کہ آیا صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے شاعری کی نفی کی گئی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاعر نہیں بنایا گیا یا تمام انبیا علیہم السلام کو شعر کی تعلیم نہیں دی گئی ۔ بعض علمائ کہتے ہیں کہ صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے نفی کی گئی کیوں کہ عرب کا شاعرانہ ماحول اور اس وقت کی شاعری کا معیار جھوٹے تخیلات ، اخلاق سوز طرز کلام اور عجب و تکبر سے بھری خلاف واقعہ باتیں تھیں ۔ انہی کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سے شاعر ہونے کا الزام رفع کیا گیا جب کہ دیگر انبیائ علیہم السلام سے اس کی نفی نہیں کی گئی ۔ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وہ شعر جو انہوں نے اپنے بیٹےہابیل کی موت پر کہے تھے وہ بھی بعض کتب میں لکھے ہوئے ہیں :
تغیرت البلاد و من علیھا
ووجہ الارض مغبر قبیح
تغیر کل ذی طعم و لون
و قل بشاشۃ الوجہ الصبیح
(تفسیر روح المعانی)
اور دوسرے بعض علما کہتے ہیں کہ یہ نفی کا حکم عام ہے تمام انبیا علیہم السلام کو تعلیم شعر نہیں دی گئی کیوں کہ یہی آیت مذکورہ بالا ہی عام نفی پر دلالت کر رہی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔