Friday, 15 May 2020

اسلامی تصوف کے منکرین کا رد

اسلامی تصوف کے منکرین کا رد
محترم قارئینِ کرام : مسلمانوں میں ایک اچھا خاصہ تعلیم یا فتہ طبقہ اکثر یہ کہا کرتا ہے کہ جبکہ دین کی اصل قرآن کریم موجود ہی جس کی عملی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے اسوۂ حسنہ سے کی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دین سیکھا اور پھر ان سےتابعین نے مگریہ جہری و خفی اذکار ، یہ با طنی اشغال یہ فنا و بقا، یہ مجاہدات و ریاضات یا اولیائے طریقت کی باطن شریعت کی تحصیل کا یہ عمل ہمیں نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اسوہ میں ملتا ہے نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حیات طیبہ میں بلکہ بعد کی بزرگوں نی ان چیزوں کا اضافہ کیا ہے لہٰذا مروجہ تصوف بدعت ہے ۔ ایسا کہنا درست نہیں ہے اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے بدعت کی مفہوم کو متعین کرنا ہو گا یوں تو متعدد علماء نی مختلف انداز میں بدعت کی تعریف کی ہے لیکن ایک جامع تعریف یہ ہے کہ ’’ بدعت دین میں کسی ایسی چیز کے اضافے کو کہتے ہیں جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو نہ دلیل ‘‘اسے دوسری الفاظ میں دین میں نئی بات نکالنا کہہ لیجیے ۔ اس تعریف کی ضمن میں جب ہم مروجہ تصوف کا جائز ہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تصوف کی اصل قرآن و حدیث اور اعمال صحابہ میں موجود ہے ۔ تصوف نام ہے قلب کو مخلوقات سے مکمل طور پر فارغ کر لینے نفسانی خواہشات پر قابو پا لینے ، روحانی کمالات کے حصول کی کوشش اور اتباع شریعت کے ذریعہ وصول اِلی اﷲ ۔ اس تعریف کو پیش نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل آیات قرآنی پر غور فرمائیں۔(چشتی)
محبتِ الٰہی
والذین اٰمنو اشدُّ حبّا ﷲِ ۔ (البقرۃ ۵۶۱)
ترجمہ : اور جو لوگ ایمان والے ہیں ۔ ان کو سب سے زیادہ محبت اﷲ سے ہوتی ہے ۔
خشیتِ الٰہی
سورۃ انفال میں ارشاد ہوا۔ انمالمو منون الذین اذا ذکر ﷲ و جلت قلوبھم و اذا تلیت علےھم ا یتہ ذادتھم ایماناوّعلیٰ ربھم یتوکلون ۔ (انفال:۴)
ترجمہ : ایمان وا لے تو بس وہ ہو تے ہیں کہ جب (ان کے سا منے ) ﷲ کا ذ کر کیاجا تا ہے ۔ تو ان کے دل سہم جا تے ہیں ۔ اور جب انہیں اس کی آ یتیں پڑھ کر سنائی جا تی ہیں تو وہ ان کا ایما ن بڑ ھا دیتی ہیں ۔ اور وہ اپنے پر وردگا ر پر تو کل رکھتے ہیں ۔
تقشعر منہ جلودالزینَ یخشون ربھم ثم تلین جلودھم و قلوبھم الی ٰ ذکر ﷲ ۔ (سورہ الزمر ۳۲) ۔
ترجمہ : اس سے ان لو گوں کی جِلد جو اپنے پر وردگا ر سے دڑتے ہیں کا نپ اٹھتی ہے ۔ پھر ان کی جلد اور ان کے قلب ﷲ کے ذ کر کے لئے نر م ہو جا تے ہیں ۔
یا ایھا الذین اٰمنواتقو ﷲ التنظر نفس ما قدمت لغدواتقو ﷲ ۔ (الحشر۸۱)
ترجمہ : اے ایمان والو ڈرتے رہا کرو ﷲ سے اور ہر شخص کو دیکھنا چا ہیے کہ اس نے کیا آگے بھیجا ہے کل کے لئے اور ڈرتے رہا کرو ﷲ سے ۔
ذکر الٰہی
ذکر‘ نسیان (بھول) کا الٹ ہے جس کے معانی بیان کرنا، چرچا کرنا، تذکرہ کرنا، یاد آوری، کسی چیز کو محفوظ کرنا، کسی بات کا دل میں مستحضر ہونے اور حفاظت کرنے کے ہیں۔ ذکرِ الٰہی سے مراد اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے، ہر کام میں اس کی منشا کا خیال کرنے، قلب و ذہن کو اس کے تصور میں مشغول رکھنے کے ہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰـفِلِیْنَ ۔
ترجمہ : اور اپنے رب کا اپنے دل میں ذکر کیا کرو عاجزی و زاری اور خوف و خستگی سے اور میانہ آواز سے پکار کر بھی، صبح و شام (یادِ حق جاری رکھو) اور غافلوں میں سے نہ ہوجاؤ ۔ (الاعراف، 7: 205)
آیت مبارکہ میں ﷲ کا ذکر کرنے کا مقصد انسان کے دل میں عاجزی و زاری اور خوف وخستگی پیدا کرنا ہے ۔ اور اسی طرح اگلی آیت مبارکہ میں ایمان والوں کی نشانی بتائی گئی ہے کہ ﷲ کا ذکر ان کے دلوں میں خوف پیدا کرتا ہے ، ایمان میں زیادتی کرتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ ﷲُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰـتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ۔
ترجمہ : ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے) ۔ (الانفال، 8: 2)
اور ﷲ تعالیٰ کے ذکر سے ایمان والوں کو اطمینان ملتا ہے : اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِکْرِ ﷲِ ط اَلَا بِذِکْرِ ﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ۔
ترجمہ : جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل ﷲ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں ، جان لو کہ ﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔ (الرعد، 13: 28)
الذین یذ کرون ﷲ َ قیاما وقُعُوداوعلی جنو بھم ۔ ( آل عمران ۱۹۱)
ترجمہ : اور وہ لوگ جو ﷲ کو ہر وقت اور ہر حالت میں یاد کرتے اور یاد رکھتے ہیں ، کھڑے ، بیٹھتے اور بستروں پر لیٹے ہوئے ۔
فاذ کرو نی اذکرکم ۔ (البقرۃ ۲۵۱)
ترجمہ : تم میرا ذکر کرو میں تمھا را ذکر کروں گا ۔
رجال لاتلھیھم تجا رۃ ولا بیع عن ذکر ﷲ ۔ ( النور ۷۳)
ترجمہ : ایسے لو گ جنہیں نہ تجا رت غفلت میں ڈا ل دیتی ہے نہ (خرید و ) فروخت ﷲ کی یا د سے ۔
وَلَذِکرُ ﷲ اکبر۔( العنکبوت ۵۴)
ترجمہ : اور البتہ یاد ﷲ کی بہت بڑی ہے ۔
و الذ کر اسم ربک و تبتل الیہ تبتیلا ۔ (مزمل۔ ۸)
ترجمہ : اور ذکر کیا کرواپنے رب کے نام کا اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : یَقُولُ ﷲُ تَعَالَی : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِي فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَکَرَنِي فِي مَلَأٍ ذَکَرْتُهُ فِي مَلَأ خَیْرٍ مِنْهُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي یَمْشِي أَتَیْتُهُ هَرْوَلَةً ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں ۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (یعنی ذکرِ خفی) کرتا ہے تو میں بھی اپنے (شایانِ شان) اکیلے اس کا ذکر کرتا ہوں ، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (یعنی ذکرِ جہری) کرتا ہے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آتا ہے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزیک ہو جاتا ہوں ۔ اگر وہ ایک بازو کے برابرمیرے نزدیک آتا ہے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں ۔ (صحیح بخاری، 6: 2694، رقم: 6970، بیروت: دار ابن کثیر الیمامه،چشتی)(صحیح مسلم ، 4: 2061، رقم: 2675، بیروت: دار احیاء التراث العربي)
گویا اصل مقصود یہ ہے کہ انسان ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں رہے ، دنیاوی کاموں کی انجام دہی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے یاد کو اپنے دل میں بسائے رکھے ۔ اس کی حدود و احکام کا پابند رہے۔ یوں یادِ الٰہی‘ اطاعتِ الٰہی کا سبب بنتی ہے۔ جب کوئی شخص فرائض و واجبات کی ادائیگی سمیت احکامِ اسلامی کے مطابق زندگی گزارے، ذاتی و دنیاوی امور کی انجام دہی میں بھی اپنی زبان کو تلاوتِ قرآن و درود و سلام سے تر رکھے تو وہ ذکرِ الٰہی میں ہے اور اس کے درجات بلند ہو رہے ہوتے ہیں ۔
تسبیح و تحلیل
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ(۴۱) وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۴۲) ۔ (پ۲۲، الاحزاب:۴۲-۴۱)
ترجمہ : :اے ایمان والو ! اللہ کو بہت زیادہ یاد کرواور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرو۔
واذکُرربّک کثیراوسبح نالعشی وا لابکار ۔ (آل عمران۔۱۴)
ترجمہ : اور یاد کر اپنے رب کو بہت اور تسبیح کر شام اور صبح کو ۔
فاذا قضیتِ الصلوٰۃ فا نتشروا فی الار ض وابتغوامن فضل ﷲ والذکرو ﷲ کثیرالعلکم تفلحون ۔ (الجمعہ۔ ۱۱)
ترجمہ : پھر جب نماز پو ری ہو چکےتوزمین پر پھیل جا ئواورﷲ کا فضل تلا ش کرواورﷲ کو بکثرت یا د کر تے( رہو) تا کہ تم فلا ح پاؤ ۔
سبح اسم ربک الاعلٰی ۔ (الا علٰی۔۱)
ترجمہ : آپ (صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) پاکی بیان کریں اپنےرب کے نام کی جو سب سے بر تر ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’کسی شخص کاکوئی عمل ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے زیادہ (اس کے حق میں ) اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دِلانے والا ہو ۔ لوگوں نے عرض کی : کیا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد بھی نہیں ؟ ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد بھی ذکر کے مقابلے میں زیادہ نجات کا باعث نہیں مگر یہ کہ مجاہد اپنی تلوارسے (خدا کے دشمنوں پر) اس قدر وار کرے کہ تلوار ٹوٹ جائے ۔ ( الدعوات الکبیر، باب ما جاء فی فضل الدعاء والذکر، ۱ / ۸۰، الحدیث: ۱۹)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’کیا میں تمہیں ایسے بہترین اعمال نہ بتادوں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت ستھرے اور تمہارے درجے بہت بلند کرنے والے اور تمہارے لیے سونا چاندی خیرات کرنے سے بہتر ہوں اور تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہو کہ تم دشمن سے جہاد کرکے تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہیں شہید کریں ؟صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:جی ہاں ۔ ارشاد فرمایا : ’’وہ عمل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ہے ۔‘‘(ترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۷-باب منہ، ۵ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۳۸۸،چشتی)
حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا :مجاہدین میں سے کون اجرو ثواب میں سب سے بڑھ کر ہے ؟ ارشادفرمایا ’’ان میں سے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والا ہے ۔ اس نے عرض کی : روزہ رکھنے والوں میں سے کس کا اجر سب سے زیادہ ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ ان میں سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنے والوں کا ۔ پھر وہ نماز پڑھنے والوں ،زکوٰۃ دینے والوں ، حج کرنے والوں اور صدقہ دینے والوں کے بارے میں پوچھتے رہے تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہی ارشاد فرماتے رہے کہ ان میں سے اللہ تعالیٰ کوزیادہ یاد کرنے والے کا اجر سب سے زیادہ ہے ۔ تو حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا اے ابوحفص ! اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے سب بھلائی لے گئے ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ہاں (وہ بھلائی لے گئے) ۔ (مسند احمد، مسند المکیین، حدیث معاذ بن انس الجہنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۵ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۵۶۱۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت اور ہر حال میں اپنا ذکر کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
دنیا وی محبتو ں سے لا تعلقی
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ۔ (المنافقون۔9)
ترجمہ : اے ایمان والوں تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو ذکر اللہ سے غافل نہ کر دیں جو لوگ ایسا کریں گے وہی خسارہ پانے والے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اللہ کے مختلف ناموں کی تسبیح و ذکر کر رہی ہے جیسا کہ وہ قرآن میں فرماتا ہے : تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ؕ (بنی اسرآءِیل۔44)
ترجمہ : ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ اس میں ہے سبھی اس (اللہ) کی تسبیح کرتے ہیں اور مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ۔
اخلا قیات
ولا تستوی الحسنۃ ولا السّیّئۃادفع با لتی ھی احسن ۔ (حٰمٓ السجدہ۴۳)
ترجمہ : نہیں یکسا ں ہوتی نیکی اور برا ئی ۔ برا ئی کا تدا رک اس ( نےکی) سے کرو جو بہتر ہے ۔
اخلاق کی تعریف
لغت میں خلق کا لفظ عادت اور طبیعت پر بولا جاتا ہے اور علماء کی اصطلاح میں اس سے مراد ؛ جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تعریف کی ہے کہ اخلاق نفس میں راسخ ہو جانے والی اس ہیئت سے عبارت ہے کہ جس کے باعث انسان سے بلامشقت اور بغیر کسی غوروفکر کے بڑی سہولت اور آسانی کے ساتھ افعال صادر ہوتے ہیں ۔ (احیاء العلوم)
گویا اخلاق کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ انسانی نفس میں مستقل طور پر پائی جانے والی صفات وعادات کا وہ مجموعہ کہ جس کی روشنی میں انسان سے اچھے یا برے افعال صادر ہوتے ہیں ۔ اخلاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، کیونکہ اس کے باعث انسان کے سلوک اور افعال میں ایک ایسا اثر پیدا ہوتا ہے جو اس کی شناخت بن جاتا ہے ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسان کا سلوک اس کے نفس میں مستقلاً پائی جانے والی عادات وصفات کے موافق ہوجاتا ہے ۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بہت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے کہ ہر وہ صفت جو انسان کے دِل میں جنم لیتی ہے ؛ اس کے اثرات اس کے اعضائے جسمانی میں نمودار ہونے لگتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ کوئی بھی حرکت کرتا ہے تو اسی کے مطابق کرنے لگتا ہے ۔ یعنی اس وقت انسان کے تمام تر افعال ان باطنی عادات کے مطابق سرزد ہونے لگتے ہیں جو اس میں ہمیشہ سے پائی جاتی ہوتی ہیں ، جیسے ایک درخت کے اوپر دکھائی دینے والی شاخیں اورتنے انہی جڑوں کے مطابق پیدا ہوتے اور شکل وصورت اختیار کرتے ہیں جو زمین میں غائب ہوتی ہیں اور دکھائی نہیں دے رہی ہوتیں، لیکن درخت کے پتوں کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں کونسا بیج اور جڑ لگائی گئی تھی تو یہ درخت پیدا ہوا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ انسان کے جملہ افعال واعمال کی درستگی اس کا اخلاق درست ہونے پر منحصر ہے ، کیونکہ جب اصل درست ہو گی تو فرع بھی درست رہے گی اور جب اصل میں ہی بگاڑ ہو تو فرع کیسے درست رہ سکتی ہے ؟ اس کےعلاوہ تصوف کے مزید کتنے ہی موضوعات ہیں جن کی ترغیب ہمیں قرآن سے ملتی ہے ۔ مشلا سحر خیزی ، توکل، صبر ، شکر ،اخلا ق حسنہ ، تعلیم و تعلم ، دنیاوی محبتوں سے بے تعلقی اور مجا ہدہ وغیرہ ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...