Tuesday, 19 May 2020

استمداد اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ

استمداد اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ
محترم قارئینِ کرام : ﷲ تعالی بالذات و حقیقی مددگار ہے اور اس کے بندے اس کی عطا سے اس کے بندوں کی مدد کرتے ہیں تو بندوں کا مدد کرنا غیر حقیقی ہے حقیقت میں مدد ﷲ تعالٰی ہی فرماتا ہے یہ بندے تو صرف سبب ہیں کیونکہ دنیا اسباب کی جگہ ہے ﷲ تعالی نے ہر چیز کا ایک سبب مقرر فرمایا ہے جیسے بارش کیلئے بادل ، روشنی کے لئے سورج، کھیتی باڑی کے لئے اس کے اسباب الغرض ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہے جیسے موت دینا یہ ﷲ تعالی کی شان مبارک ہے مگر کہا جاتا ہے کہ پولیس نے دہشت گردوں کو مار دیا تو کیا حقیقۃ پولیس والوں نے انہیں موت دی ہے تو ہر مسلمان یہ ہی کہے گا کہ ﷲ تعالی نے ہی حقیقۃ انہیں موت دی ہے یہ تو صرف سبب بنے ہیں اسی طرح موت کا فرشتہ بھی حقیقۃ موت نہیں دیتا بلکہ وہ بھی سبب ہے اور ﷲ کے حکم و قدرت سے ہی موت دیتا ہے تو کیا یہ کہنا شرک ہوا کہ پولیس نے دہشت گردوں کو مار دیا اسی طرح کوئی مریض مر رہا ہو اور ڈاکٹر اس کا علاج کر کے بچالے تو کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے اس کو موت کے منہ سے بچا لیا یا ڈاکٹر نے اسے نئی زندگی دی ہے تو کیا یہ کہنا بھی شرک ہوگا حالانکہ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہوتا ہے حقیقۃ ڈاکٹر نے بچایا ہے اسی طرح ہم لوگوں کا یوں کہنا ’’ بارش یا سیلاب نے تباہی مچادی ‘‘اور اسی طرح کے مختلف جملے تو ان تما م جملوں میں ہم صرف سبب کی طرف نسبت کرتے ہیں اور ہمارا عقیدہ یہی ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر یہ تمام کام اﷲ تعالی کے حکم سے ہیں اسی طرح ہمارا انبیاء علیہم السّلام واولیاء کرام علیہم الرّحمہ سے مدد مانگنا بھی اسی معنی پر ہے کہ حقیقی مدد ﷲ ہی کی ہے مگر یہ تو صرف سبب ہیں وسیلہ ہیں اور صفات الہی کا مظہر ہیں لہذا یہ بھی شرک نہیں ہے اور خود پروردگار عزوجل نے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے : ولوانہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک فاستغفروا ﷲ واستغفرلہم الرسول لوجدوا ﷲ توابا رحیما ۔ اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کرکے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ، تو بیشک اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا مہربان پائیں گے ۔ (القرآن الکریم پارہ نمبر 5 )

کیا اللہ تعالٰی اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا ۔ پھریہ کیوں فرمایا کہ اے نبی ! تیرے پاس حاضرہوں اورتو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تو یہ دولت ونعمت پائیں گے۔ یہی ہمارا مطلب ہے۔ جو قرآن کی آیت صاف فرمارہی ہے کہ ﷲ تعالی اپنے حبیب کی شان عظمت ورفعت بتلانا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ تم کبھی بھی ڈائریکٹ مت ہونا بلکہ حضور کے وسیلہ سے ہی رب کی بارگاہ عالی میں آنا تو تم رب کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاؤ گے ۔

قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ۱ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ۱ وَ اشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔
ترجمہ : بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف حواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ (سورہ العمران ۵۲)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو ۔
کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے ۔ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کو ارشاد کیا ہے ۔
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ ۔
تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکٰوۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں ۔ ( سورہ مائدہ ۵۵)
’’فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰیہُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ۱ وَ الْمَلآیِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ ‘‘ترجمہ کنزالایمان:تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔ (سورہ تحریم آیت ۴)
وتعاونوا علی البر والتقوٰی ۔
ترجمہ : آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر ۔ (القرآن الکریم)

کیوں صاحب ! اگرغیر خدا سے مدد لینی مطلقا محال ہے تو اس حکم الٰہی کا حاصل کیا، اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہر گھل گیا ۔

جامع الاحادیث میں بحوالہ طبرانی یہ حدیث موجود ہے’’إذا ضل أحدُکم شیئا أو أراد أحدُکم غوثا وہو بأرضِ لیس بہا أنیسٌ فلیقلْ یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہ أغیثونی فإنِّ للہِ عبادا لا تراہم‘‘ ۔ [جامع الاحادیث حدیث نمبر ۲۳۰۰] اور اسی حدیث کو علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ میں نقل فرما یا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے ۔

حدیث اے اللہ کے بندو میری مدد کرو

محترم قارئین کرام : یہ ایک مشہور حدیث ہے اور سند کے حساب سے متعدد طرق سے بیان ہوئی ہے اور حسن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حدیث کے بارے میں ابن وھاب نجدی کے پیروکار کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور یوں ان کی مذہبی دکانداری چل رہی ہے ۔ یہاں پر اس کا مفصل رد پیش کیا جارہا ہے ۔ یہ حدیث اور اس نوع کی دیگر احادیث مکمل طور پر صحیح ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ : إِنَّ ِﷲِ عزوجل مَـلَائِکَةً فِي الْأَرْضِ سِوَی الْحَفَظَةِ يَکْتُبُوْنَ مَا يَسْقُطُ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا أَصَابَ أَحَدَکُمْ عُرْجَةٌ فِي الْأَرْضِ، لَا يَقْدِرُ فِيْهَا عَلَی الْأَعْوَانِ فَلْيَصِحْ فَلْيَقُلْ : عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنَا أَوْ أَعِيْنُوْنَا رَحِمَکُمُ ﷲُ فَإِنَّهُ سَيُعَانُ. وَفِي رِوَايَةِ رَوْحٍ : إِنَّ ِﷲِ مَـلَائِکَةً فِي الْأَرْضِ يُسَمَّوْنَ الْحَفَظَةَ يَکْتُبُوْنَ مَا يَقَعُ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَمَا أَصَابَ أَحَدًا مِنْکُمْ عُرْجَةٌ أَوِ احْتَاجَ إِلَی عَوْنٍ بِفَـلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ فَلْيَقُلْ : أَعِيْنُوْنَا، عِبَادَ ﷲِ، رَحِمَکُمُ ﷲُ فَإِنَّهُ يُعَانُ إِنْ شَاءَ ﷲُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے، انسان کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ، ایسے بھی ہیں جو درختوں کے پتوں کے گرنے تک کو لکھتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی کسی جگہ (کسی بھی مشکل میں) جائے، جہاں بظاہر اس کا کوئی مددگار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ پکار کر کہے : اے اللہ کے بندو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، تو پس اس کی مدد کی جائے گی۔ اور حضرت روح کی روایت میں ہے کہ بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جنہیں حَفَظَۃ (حفاظت کرنے والے) کا نام دیا جاتا ہے، اور جو زمین پر گرنے والے درختوں کے پتوں تک کو لکھتے ہیں، پس جب تم میں سے کوئی کسی جگہ محبوس ہو جائے یا کسی ویران جگہ پر اسے کسی مدد کی ضرورت ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ یوں کہے : اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، پس اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس شخص کی (فوراً) مدد کی جائے گی ۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 91، الرقم : 29721، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 128، الرقم : 7697، 1 / 183، الرقم : 167، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132)

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا انْفَلَتَتْ دَابَّةُ أَحَدِکُمْ بِأَرْضِ فَـلَاةٍ، فَلْيُنَادِ : يَا عِبَادَ ﷲِ، احْبِسُوْا عَلَيَّ، يَا عِبَادَ ﷲِ، احْبِسُوْا عَلَيَّ، فَإِنَّ ِﷲِ فِي الْأَرْضِ حَاضِرًا، سَيَحْبِسُهُ عَلَيْکُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبََرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں گم ہو جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے : اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو. بے شک ﷲ تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں تمہاری سواری پکڑا دیں گے ۔ اس حدیث کو امام ابویعلی، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 103، الرقم : 29818، وأبو يعلی في المسند، 9 / 177، الرقم : 5269، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 217، الرقم : 10518، 17 / 117، الرقم : 290، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 455، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 330، الرقم : 1311، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132،چشتی)

عَنْ عَتَبَةَ بْنِ غَزْوَانَ رضی الله عنه عَنْ نَبِيِّ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا أَضَلَّ أَحَدُکُمْ شَيْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُکُمْ عَوْنًا، وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيْسٌ فَلْيَقُلْ : يَا عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنِي، يَا عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنِي، فَإِنَّ ِﷲِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ. وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ وُثِّقُوْا ۔
ترجمہ : حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے، یا تم میں سے کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ یوں پکارے : اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، یقینا ﷲ تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں) ۔ اور (راوی بیان کرتے ہیں کہ) یہ آزمودہ بات ہے ۔ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ (أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 17 / 117، الرقم : 290،چشتی)(والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307)

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : جب تم میں سے کسی کی سواری بے آباد زمین میں چھوٹ بھاگے تو اسے چاہیئے کہ نداء کرے (یعنی صدا لگائے): اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ کیونکہ اللہ عزوجل کے حکم سے ہرزمین میں بندہ موجود ہے جو جلد ہی اسے تم پر روک دیگا ۔

اسے ابوالقاسم سلیمان بن احمد لخمی شامی طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور امام ذھبی نے آپ کو سیر اعلام النبلاء میں امام حافظ ثقہ رحال جوال محدثِ اسلام صاحب المعاجم کے القابات سے یاد کیا ہے ۔
ابوشجاع الدیلمی الھمذانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (حوالہ مسند الفردوس بماثور الخطاب: ج ۱، ص ۳۳۰،چشتی)
شھاب الدین احمد بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو یوں نقل کیا ہے : باب ما یقول اذا الفلتت دابتہ: یعنی جب سواری بھاگے تو اسکا مالک کیا کہے؛ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایتِ ابویعلیٰ کو نقل فرمایا۔ (المطالب المنیفہ: ج ۱۴،نمبر ۴۴،چشتی)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی روایت ابن السنی اور طبرانی کے حوالے سے عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ نقل فرمائی ہے۔ (الفتح الکبیر: ۱،۸۴)۔
اسی حدیث کو علی بن ابی بکر الھیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ابویعلیٰ اور طبرانی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ وفیہ معروف بن حسان وھو ضعیف: اس حدیث کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے)

امام محی الدین یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ محدث فرماتے ہیں؛ کہ اس باب میں کہ جب سواری کا جانور چھوٹ جائے تو مالک کیا کہے: بہت سی مشہور احادیث ہیں، ان میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت ابن السنی کے حوالہ سے نقل فرمانے کے بعد فرماتے ہیں؛ ہمارے شیوخ میں سے بعض نے مجھ سے بیان کیا جن کا شمار کبار علماٗ میں ہوتا ہے کہ ان کی سواری بدک بھاگی شاید وہ خچر تھی اور وہ اس حدیث کو جانتے تھے تو انہوں نے اس حدیث کے مطابق (یاعباداللہ احبسوا) کہا تو اللہ تعالیٰ نے اس سواری کو فوراً ان کے لیئے ٹھہرا دیا اور ایک مرتبہ میں بھی ایک جماعت کے ساتھ تھا کہ سواری کا جانور بدک بھاگا اور وہ لوگ اس کے پکڑنے سے عاجز ہوئے تو میں نے یہی یاعباداللہ احبسوا کہا تو وہ سواری کا جانور بغیر کسی اور سبب، صرف اس کلام کے کہنے سے فورا رک گیا۔ (کتاب الاذکار ج ۱، ص ۱۷۷،چشتی)
یعنی یہ وہ حدیث ہے جس سے صاف صاف غیراللہ کی مدد ثابت ہورہی ہے اور یہ نامور صحابہ کی تعلیم ہے اور خود سلف کا عمل ہے لیکن موجودہ دور کا خارجی دیوبندی وہابی فتنہ اس کو ضعیف قرار دے کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر لوگوں کو مذہبی دکانداری سے گمراہ کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ کیونکہ اس حدیث میں توسل مدد استمداد حاصل کرنا وہ بھی غیراللہ سے اور اس پر اللہ کا عطا فرمانا اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ اگر ہم نے اسکی دیگر طرق بیان کرنی شروع کردیں تو پوری کتاب لکھنی پڑ جائے گی ۔ القصہ مختصر کسی محدث کسی صحابی کسی تابعی نے اس کو (کفر شرک بدعت یا غیراللہ سے مدد کا نام) نہیں دیا۔ بلکہ ان کے عمل کے مطابق یہ عین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پاسداری کرنا اور تجربہ کرکے اس کو صحیح ثابت ہونے پرلکھنا بنتا ہے ۔ ایک مثال اور دے کر اسکو ختم کرتے ہیں کہ ایسی ہی حدیث جو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہے اس حدیث کو امام ابوبکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق العتکی البزار رحمۃ اللہ علیہ نے یوں روایت کیا ہے:حدثنا موسیٰ بن اسحق قال نا منجاب بن الحارث قال نا حاتم بن اسماعیل عن اسامۃ بن زید عن ابان بن صالح عن مجاھد عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان للہ ملائکۃ فی الارض سوی الحفظۃ یکتبون ما سقط من ورق الشجرۃ فاذا اصاب احدکم عرجۃ بارض فلاۃ فلیناد اعینوا عباد اللہ ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک آقائے دوجہاں علیہ التحیہ والثناء نے فرمایا : اللہ کے کچھ ملائکہ زمین میں محافظوں کے علاوہ ہیں جن کا کام درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھنا ہے چنانچہ جب تم میں سے کسی کو دورانِ سفر بیابان میں کوئی مصیبت آپڑے تو اسے چاہیئے کہ ندا کرے: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو ۔
پھر امام بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے الفاظ کے ساتھ نہیں جانا مگر اسی طریق اور اسی اسناد کے ساتھ۔ (مسند البزار ج ۱۱، ۱۸۱)۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو موقوفا بھی روایت فرمایا ہے بحوالہ شعب الایمان ج ۱، ۱۸۳۔ ایسے ہی مصنف ابن ابی شیبہ کی ج ۶ ، ص ۱۰۳ پر اور التفسیر الکبیر امام رازی نے استناداً بیان فرمایا ج ۲، ص ۱۵۰ پر ۔ اور اسناد کے اعتبار سے یہ حدیثِ حسن ہے ۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث جسے ابویعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اور ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ نے عمل الیوم واللیلۃ میں اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اپنی معجم الکبیر میں ذکر کیا ہے اس کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے اور ابن سنی کی اسناد کے علاوہ میں انقطاع بھی ہے کیونکہ عبد اللہ بن بریدہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان انقطاع ہے جو کہ ابن السنی کے اسناد میں اتصال کے ساتھ ہے ۔ یعنی عن ابن بریدۃ عن ابیہ (بریدۃ بن الحصیب) عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ؛ رہا معروف بن حسان کا ضعیف ہونا جیسا کہ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے اور راوی کے ضعیف ہونے سے حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم تب ہوگا جب کہ اس کےلیئے دیگر شواہد موجود نہ ہوں ۔ لیکن اس حدیث کے لیئے دیگر شواھد روایات موجود ہیں جو کہ دیگر صحیح اور حسن اسناد کے ساتھ موجود ہیں ۔ یعنی طبرانی کی وہ روایت جوکہ عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے ہے اگرچہ اس مین انقطاع ہے کیونکہ زید بن علی رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان کو نہیں پایا جیسا کہ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں ذکر کیا لیکن یہ روایت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے لیئے تقویت کا باعث ہے اور وہ روایت جو کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جسے طبرانی نے روایت کیا اس کے رجال ثقہ ہیں ۔

اور اگر کوئی بدمذہب پھر اس بات کو نہ ماننے اور کہے کہ جو بھی غیر اﷲ سے مدد مانگے خواہ کسی بھی عقیدے سے مانگے تو اس نے شرک کیا تو اس سے کہیے کہ جناب آپ ان حضرات کے بارے میں بھی مشرک ہونے کے فتوی لیکر آئیں اور انہیں بھی مشرک کہیں جنہوں نے انبیاء واولیاء کرام سے مدد مانگنے کو جائز فرمایا ہے اور خود مدد بھی مانگی ہے ۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اشعۃ اللمعات میں فرمایا : لیت شعری چہ می خواہند ایشاں باستمداد وامداد کہ این فرقہ منکر ند آں را آنچہ مامی فہمیم ازاں این ست کہ داعی دعاکنند خدا وتوسل کند بروحانیت این بندہ مقرب را کہ اے بندہ خدا و ولی وے شفاعت کن مراد بخواہ از خدا کہ بدہد مسؤل ومطلوب مرا اگر ایں معنی موجب شرک باشد چنانکہ منکر زعم کند باید کہ منع کردہ شود توسل وطلب دعا از دوستانِ خدا درحالت حیات نیز واین مستحب است باتفاق وشائع است در دین و آنچہ مروی و محکی است از مشائخ اہل کشف دراستمداد از ارواح کمل واستفادہ ازاں، خارج از حصراست ومذکور ست درکتب و رسائل ایشاں ومشہور ست میاں ایشاں حاجت نیست کہ آنرا ذکرکنیم وشاید کہ منکر متعصب سود نہ کند اور اکلماتِ ایشاں عافانا اللہ من ذٰلک کلام دریں مقام بحد اطناب کشید بر غم منکراں کہ درقرب ایں زماں فرقہ پیدا شدۃ اند کہ منکر استمداد واستعانت را از اولیائے خدا ومتوجہاں بجناب ایشاں را مشرک بخدا عبدۃ اصنام می دانند و می گویند آنچہ می گویند اھ ملتقطا ۔
ترجمہ : نہ معلوم وہ استمداد وامداد سے کیاچاہتے ہیں کہ یہ فرقہ اس کامنکر ہے۔ ہم جہاں تک سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا خدا سے دعا کرتا ہے او ر اس بندہ مقرب کی روحانیت کو وسیلہ بناتا ہے یا اس بندہ مقرب سے عرض کرتا ہے کہ اے خدا کے بندے اور اس کے دوست ! میری شفاعت کیجئے اور خدا سے دعا کیجئے کہ میرا مطلوب مجھے عطا فرمادے اگر یہ معنی شرک کا باعث ہو جیسا کہ منکرکا خیال باطل ہے تو چاہئے کہ اولیاء اللہ کو ا ن کی حیات دنیا میں بھی وسیلہ بنانا اور ان سے دعا کر انا ممنوع ہو حالانکہ یہ بالاتفاق مستحب ومستحسن اور دین معروف ومشہور ہے۔ ارواح کاملین سے استمداد اور استغفار کے بارے میں مشائخ اہل کشف سے جو روایات و واقعات وارد ہیں وہ حصر و شمار سے باہر ہیں اور ان حضرات کے رسائل وکتب میں مذکور اور ان کے درمیان مشہور ہیں، ہمیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں اور شائد ہٹ دھرم منکر کے لیے ان کے کلمات سود مند بھی نہ ہو خدا ہمیں عافیت میں رکھے اس مقام میں کلام طویل ہوا اور منکرین کی تردید وتذلیل کے پیش نظر جو ایک فرقہ کے روپ میں آج کل نکل آئے ہیں اور اولیاء اللہ سے استمداد واستعانت کا انکار کرتے ہیں اور ان حضرات کی بارگاہ میں توجہ کرنے والوں کو مشرک و بت پرست سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں جو کہتے ہیں ۔ (اشعۃ المعات باب حکم الاسراء جلد۳فصل ۱ص۶۰۱مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر،چشتی)

جزا کم ﷲ عن ذٰلک مرافقتہ فی جنتہ وایانا معکما برحمۃ انہ ارحم الراحمین وجزا کم ﷲ عن الاسلام واھلہ خیر الجزاء ، جئنا یا صاحبی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم زائرین لنبینا وصدیقنا وفاروقنا ونحن نتوسل بکما الٰی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم لیشفع لنا الٰی ربنا ۔
ترجمہ : اللہ تعالٰی آپ دونوں صاحبوں کو ان خوبیوں کے عوض اپنی جنت میں اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رفاقت عطا فرمائے اور آپ کے ساتھ ہمیں بھی، بیشک وہ ہر مہر والے سے زیادہ مہر والا ہے ۔ اللہ آپ دونوں کو اسلام واہل اسلام کی طرف سے بہتر بدلہ کرامت فرمائے ، اے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دونوں یارو! ہم اپنے نبی اور اپنے صدیق اور اپنے فاروق کی زیارت کو حاضر ہوئے اور ہم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف آپ دونوں سے توسل کرتے ہیں تاکہ حضور ہمارے رب کے پاس ہماری شفاعت فرمائیں ۔ (الاختیار والتعلیل مراقی الفلاح فتاوی عالمگیری)

اپنے مشائخ حدیث وطریقت سے اجازت حاصل کرتے ہیں زیادہ نہ سہی یہی دعائے سیفی جس کی نسبت شاہ ولی ﷲ نے لکھاکہ میں اپنے شیخ سے اخذ کی اور اجازت لی اسی کی ترکیب میں ملاحظہ ہوکہ جواہرخمسہ میں کیا لکھا ہے : ناد علی ہفت باریاسہ باریایکبار بخواند وآں اینست نادعلیا مظھرالعجائب تجدہ عونالک فی النوائب کل ھم وغم سینجلی بولایتک یاعلی یاعلی یاعلی ۔ نادعلی سات بار یاتین بار یا ایک بار پڑھو اور وہ یہ ہے : پکارعلی کو جوعجائب کے مظہرہیں تو ان کو اپنے مصائب میں مدد گار پائے گا، ہرپریشانی اور غم ختم ہوگا آپ کی مدد سے یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (فتوح الغیب ضمیمہ جواہرخمسہ مترجم اردو نادعلی کابیان مطبعہ دارالاشاعت کراچی ص۴۵۳،چشتی)

علامہ رشید احمد گنگوہی سے کسی نے سوا ل کیا کہ ان اشعار کو بطور وظیفہ پڑھنا کیسا ہے ؟ ’’ یا رسول ﷲ انظر حالنا یا حبیب ﷲ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق خذ یدی سھل لنا اشکالنا ‘
یا اکرم الخلق مالی من الوذ بہ
سواک عند حلول الحادث العمم
تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسے کلمات کو نظم ہوں یا نثر ورد کرنا مکروہ تنزیہی ہے کفر و فسق نہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد ۳صفحہ ۵ )

علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : جو استعانت و استمداد باعتقاد علم و قدرت مستقل ہو (یعنی کسی نے اسکو نہ دئے اور نہ کسی کا محتاج ہے) وہ شرک ہے اور جو باعتقد علم و قدرت غیر مستقل ہو (یعنی ﷲ نے انہیں دی اور ﷲ ہی کے محتاج ہیں) اور وہ علم قدرت کسی دلیل سے ثابت ہوجائے تو جائز ہے خواہ مستمد منہ (جس سے مدد طلب کی جارہی ہے ) حی ہو(زندہو) یا میت (مردہ ) ۔ (امدادالفتاوی کتاب العقائد جلد ۴صفحہ ۹۹)

منکرین استمداد اولیاء سے میرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا حضرات جو استمداد اولیاء کے قائل ہیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا یہ بھی مشرک ہیں یا معاذ اللہ ان کو چھوٹ حاصل ہے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...