فضائل و مناقب حضرت امامِ حسن علیہ السّلام
محترم قارئین : تین (3) ہجری میں پندرہ (15) رمضان المبارک کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی ، آپ رضی اللہ عنہ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی پہلی اولاد ہیں ۔ قُرب ولادت کے وقت نبی کریم عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام ایمن اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو سیدہ عالم کی دیکھ بھال کے لئے مامور کیا ۔ انہوں نے آیت الکرسی اور تینوں معوذ پڑھ کر ان کو دم کیا ، بچے کی ولادت ہوئی تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتویں دن نومولود کے عقیقے کے موقع پردو دُنبے ذبح کئے اور اپنی پیاری بیٹی سے فرمایا کہ بچے کے سر کے بال اتروائیں اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کریں ۔ جب آپ کا سر منڈا کر بالوں کا وزن کیا گیا تو یہ وزن ایک درہم کے برابر تھا۔ اتنی چاندی خیرات کی گئی ۔ دایہ کو دنبے کی ران اور ایک دینار دیا گیا ۔ سرمنڈانے کے بعد نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے نومولود کے سر پر خوشبو ملی اور اسی دن آپ کا نام رکھا گیا اور ختنہ کیا گیا ۔ علاوہ ازیں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی آپ کے کان میں اذان کہی تھی ۔ (ضیاء النبی ، مدارج النبوۃ ، سیرت حلبیہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام سینہ سے سرتک نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہہ ہیں اور حضرت امام حسین علیہ السلام سینہ سے نیچے تک حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہہ ہیں ۔ (جامع الترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3779،چشتی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں تھے اور وہ اپنی انگلیاں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک میں ڈال رہے تھے اور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں ڈالتے اور فرماتے : اللهم انی احبه فاحبه ۔
ترجمہ : اے اللہ میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر467)
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا ۔ راوی فرماتے ہیں کہ بیٹے سے مراد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (جامع الترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3773)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:میری والدہ نے مجھ سے پو چھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کتنے دنوں بعد جاتے ہو۔میں نے کہا کہ:اتنے اتنے دنوں سے میرا آنا جانا چھوٹا ہوا ہے۔اس پر وہ ناراض ہو گئیں۔تو میں نے کہا کہ:اچھا، اب آپ مان بھی جائیے۔میں آج ہی حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر نماز مغرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کروں گا ،اپنی اور آپ کی مغفرت کی دعا کرنے کی درخواست کروں گا،حضرت حذیفہ کہتے ہیں:میں گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز مغرب ادا کیا،پھر حضور عشاء تک نماز میں مشغول رہے،عشاء پڑ ھنے کے بعد جب آپ لوٹے تو میں آپ کے پیچھے ہو لیا ،حضور نے جب میری آواز سنی تو فر مایا:کون ؟ حذیفہ،میں نے کہا:جی ہاں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:تمہیں کیا کام ہے ؟ اللہ تمہاری اور تمہاری والدہ کی مغفرت فر مائے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:بے شک ایک فر شتہ جو آج رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ آیا،آج اس نے اپنے رب سے اس بات کی اجازت مانگی کہ وہ مجھے سلام کرے اور مجھے اس بات کی خوشخبری دے کہ:فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن ،حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ (جامع ترمذی،کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما،حدیث :۳۷۸۱،چشتی)
حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ بڑے حلیم،کریم اور متقی و پر ہیز گار تھے ،انہوں نے اپنی زندگی میں دو بار اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا ۔اس کے علاوہ جب بھی راہ خدا میں مال لٹانے کی باری آئی تو انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے ۵۰/مرتبہ پیدل حج کیا۔وہ کہتے تھے کہ:مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہےکہ میں اس سے ملاقات کروں اور اس تک پیدل چل کر نہ جاؤں۔
۱۷/رمضان سن ۴۰/ہجری میں اپنے والد ماجد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خلیفہ ہوئے،چالیس ہزار سے زیادہ مسلمانوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کیا۔اور آپ نے چھ یا سات مہینے تک عراق،خراسان،حجاز اور یمن وغیرہ پر حکومت کیا ۔پھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ملک شام سے آپ کے خلاف فوج کشی کی ،آپ نے بھی اپنی فوج اُتاری اور جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئی اور قریب تھا کہ جنگ کی آگ بھڑک جائے تو آپ نے سوچا کہ :کوئی فریق دوسرے پر اس وقت تک غالب نہ ہوگا جب تک کہ دونوں طرف سے بہت سارے مسلمانوں کا خون نہ بہہ جائے ۔یہ سوچ کر آپ نے حضرت امیر معاویہ کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ :وہ اس شرط پر حکومت ان کے سپرد کرنے کے لئے تیار ہیں کہ ان کے بعد خلافت ہمارے پاس رہے اور یہ کہ ہمارے والد کے زمانے میں مدینہ ،حجاز اور عراق کے لوگوں کے پاس جو کچھ تھا اس کا مطا لبہ نہیں کریں گے ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان شرائط کو منظور کر لیا اور اس طرح سے غیب داں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کے بچپنے ہی میں فر مایا تھا کہ”یہ میرا بیٹا سردار ہے ،اللہ تعالی اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرا دے گا”۔جس ذات کے لئے حضور نے فر مایا ہو کہ: یہ سردار ہے اس کی عظمتوں کا اندازہ بھلا کون لگا سکتا ہے۔(اسد الغابہ،باب الحاء والسین،حسن بن علی رضی اللہ عنہما
حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی تایخ وصال میں مور خین کا اختلاف ہے،ایک قول یہ ہے کہ سن ۴۹/ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔اور ایک قول یہ ہے کہ سن ۵۰/ہجری میں ہوا،اور سن ۵۱/ہجری کا بھی قول کیا گیا ہے۔لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔آپ کی وفات کاسبب یہ ہوا کہ دشمنوں کی سازش سے آپ کو زہر پلا دیا گیا ، جس کی وجہ سے آپ چالیس دن تک بیمار رہے پھر انتقال کر گئے ۔ جب بیماری زیادہ بڑھی تو آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے فر مایا کہ : مجھے تین بار زہر دیا گیا لیکن اس بار سب سے زیادہ شدید زہر تھا جس سے میرا جگر کٹ رہا ہے ۔سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے پو چھا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے؟تو آپ نے فر مایا:یہ سوال کیوں پوچھتے ہو؟کیا تم ان سے جنگ کروگے ۔ میں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔
کچھ لوگوں سے یہاں پر سخت غلطی واقع ہو ئی ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی “جعدہ بنت الاشعث” کو دشمنوں نے بہلا پھسلا کر اپنی سازش کا حصہ بنا لیا اور وہ دشمنوں کے جھانسے میں آکر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دھوکے میں زہر پلادی ۔ یہ بات بالکل جھوٹ اور افترائے محض ہے ۔ کیو نکہ تمام مور خین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے زہر پلانے والے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کسی کا نام نہ بتایا اور صرف اتنا کہا کہ : میں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں ۔
تو جب انہوں نےنام نہیں بتایا یہاں تک کہ کسی کے بارے میں اپنی شک کا اظہار بھی نہ فر مایا ۔ جس کی وجہ سے اس وقت کسی سے قصاص نہ لیا جا سکا تو پھر دوسروں کو کیسے اس کا علم ہوا ؟ اس لئے ایک ایسے مقدس امام جن سے اپنا رشتہ جوڑنے پر اس زمانے کی عورتیں ہر دکھ گوارا کرنے کو تیار رہتی تھی ،پھر جنہیں نوجوانا ن جنت کی سردار کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ ان کے بارے میں ایسا خیال ر کھنا اپنی تباہی اور بر بادی کو دعوت دینا ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اپنے ان نیک بندوں کے صدقے دارین کی سر خروئی نصیب فر مائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment