نمازِ جمعۃ المبارک فضائل و مسائل
عربی زبان میں اس دن کا نام عروبہ تھا بعد میں جمعہ رکھا گیا اورسب سے پہلے جس شخص نے اس دن کا نام جمعہ رکھا وہ کعب بن لُوی ہیں ۔اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن نماز کیلئے جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے ۔ (تفسیر خازن ، الجمعۃ ، تحت الآیۃ : ۹، ۴/۲۶۵)
لفظ ’’جمعہ‘‘ کا مادہ جمع / ج، م، ع، ہے۔ ۔ ۔ جمع الشئی عن تفرقہ وان لم یجعل کالشئی الواحد۔ ’’بکھری ہوئی چیز کو جمع کرنا اگرچہ ایک چیز نہ بنایا جائے‘‘۔ ۔ ۔ ’’استجمع الیل اجتمع من کل موضع‘‘۔ سیلاب کا پانی ہر جگہ سے آکر جمع ہوگیا۔ ۔ ۔ تجمع القوم۔ ’’قوم ادھر ادھر سے آکر ایک جگہ جمع ہوگئی‘‘۔ ۔ ۔ الجمع اسم لجماعۃ الناس۔ ’’لوگوں کی جماعت‘‘۔ ۔ ۔ قرآن کریم میں ہے۔ إِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ. ’’جب صحابہ کرام رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ کسی جامع معاملہ میں موجود ہوں تو بلا اجازت نہیں جاتے‘‘۔ ۔ ۔ الزجاجہ نے کہا بعض علماء نے کہا یہ جمعہ کے دن ہوتا تھا۔ کہا کہ اللہ پاک نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب وہ اس کے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ہوں جہاں ضرورت ہو مثلاً جنگ وغیرہ جہاں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر نہ جائیں۔ ۔ ۔ پہلے جمعہ کو ’’عروبہ‘‘ کہا جاتا تھا ۔
نمازِ جمعہ کو یہ خصوصیت اور فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں صرف نمازِ جمعہ کی اذان کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ جب جمعہ کی اذان دی جائے تو نماز کے لیے حاضر ہوں۔ ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ۔ (سورۃ الجمعة، 62 : 9)
ترجمہ : اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ۔
آیتِ مبارکہ کے علاوہ درج ذیل احادیث مبارکہ میں بھی نمازِ جمعہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا جمعہ
سیرت بیان کرنے والے علماء کا بیان ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل ،پیر کے دن، چاشت کے وقت قباء کے مقام پر ٹھہرے،پیر سے لے کر جمعرات تک یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی ، جمعہ کے دن مدینہ طیبہ جانے کا عزم فرمایا ، بنی سالم بن عوف کی وادی کے درمیان جمعہ کا وقت آیا ، اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔یہ پہلا جمعہ ہے جو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اَصحاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ پڑھا ۔ (تفسیر خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۲۶۶)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا کیے گئے ، اسی میں جنت میں داخل کیے گئے اور اسی میں انہیں جنت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی ۔ ( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۸(۸۵۴))
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود ہے، اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش کیا جائے گا۔حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں : میں نے عرض کی اور موت کے بعد؟ ارشادفرمایا: بے شک! اللّٰہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم کھانا حرام کر دیا ہے، اللّٰہ تعالیٰ کا نبی زندہ ہے، روزی دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۲/۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷،چشتی)
حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک عیدالاضحی اورعید الفطر سے بڑا ہے، اس میں پانچ خصلتیں ہیں :(1) اللّٰہ تعالیٰ نے اسی میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا۔ (2) اسی میں انہیں زمین پر اُتارا۔ (3) اسی میں انہیں وفات دی۔ (4)اور اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز کا سوال کرے اللّٰہ تعالیٰ اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ کرے۔ (5)اور اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، کوئی مُقَرَّب فرشتہ، آسمان و زمین ،ہوا ، پہاڑ اور دریا ایسا نہیں کہ جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فضل الجمعۃ، ۲/۸، الحدیث: ۱۰۸۴)
حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے گا،اسے عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مُہر ہوگی ۔ ( حلیۃ الاولیاء، ذکر طبقۃ من تابعی المدینۃ۔۔۔ الخ، محمد بن المنکدر، ۳/۱۸۱، الحدیث: ۳۶۲۹)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح سے وضو کیا، پھر جمعہ پڑھنے آیا اور خاموشی سے خطبہ سنا تو اس کے اس جمعہ سے لے کر گزشتہ جمعہ تک اور تین دن زائد کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل من استمع وأنصت فی الخطبة، 2 : 587، رقم : 857)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازہ پر فرشتے آنے والے کو لکھتے رہتے ہیں۔ جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں اور جب امام (خطبہ کے لیے) بیٹھ جاتا ہے تو وہ اعمال ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اور آکر خطبہ سنتے ہیں۔ جلدی آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک اونٹ صدقہ کرتا ہے، اس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صدقہ کرتا ہے۔ اس کے بعد والا اس شخص کی مثل ہے جو مینڈھا صدقہ کرے پھر اس کی مثل ہے جو مرغی صدقہ کرے پھر اس کی مثل ہے جو انڈہ صدقہ کرے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل يوم الجمعة، 2 : 587، رقم : 856،چشتی)
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور جلدی (مسجد) میں حاضر ہوا اور امام کے قریب ہو کر خاموشی کے ساتھ غور سے خطبہ سنا تو اس کے لیے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں اور قیام کا ثواب ہے ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الجمعة، باب ما جاء فی فضل الغسل يوم الجمعة، 1 : 505، رقم : 496)
جمعہ یوم میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
امام سہیلی نے الروض الانف میں فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد اعلیٰ کعب بن لوی رضی اللہ عنہ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے یوم عروبہ (جمعہ) کو لوگوں کو جمع کیا۔ ۔ ۔ ’’عروبہ‘‘ کو ’’جمعہ‘‘ کا نام اسلام نے دیا۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے یوم عروبہ کا نام یوم جمعہ رکھا اور سیدنا کعب بن لوی قریش کو خطاب فرماتے اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد (بعثت) کے تذکرے سناتے اور ان کو بتاتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری اولاد میں سے ہونگے اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم دیتے اور اس محفل میں اشعار پڑھتے جن میں ایک یہ بھی ہے :
یالیتنی شاہد فحواء دعوتہ
اذا قریش تبغی الحق خذ لانا
ترجمہ : کاش میں (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے وقت موجود ہوتا جب قریش حق کو ذلیل کرنے کے درپے ہونگے ۔ (الامام الفقیہ المحدث ابوالقاسم عبدالرحمن بن عبداللہ السہیلی (508ھ۔ 581ھ) الروض الانف، شرح سیرۃ ابن ہشام ج1 ص 6 طبع لاہور)
ثعلب سے یہ بھی مروی ہے کہ جمعہ کانام جمعہ اس لئے پڑ گیا کہ قریش جناب سیدنا قصی کے پاس دارالندوہ میں جمع ہوتے تھے۔ ۔ ۔ بعض نے کہا اسلام میں جمعہ کا نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں۔
الکشی کی حدیث میں ہے کہ انصار نے ’’جمعہ‘‘ کا نام رکھا تھا کیونکہ وہ اس دن جمع ہوتے تھے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اس دن کا نام اس لئے جمعہ پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔(امام لغت محب الدین ابوالفیض السید محمد مرتضیٰ الحسینی الواسطی الزبیدی الحنفی، شرح تاج العروس من جواہر القاموس ج5 ص 306 بیروت)،(علامہ ابوالقاسم الحسین بن محمد، المعروف بالراغب الاصفہانی، المفردات فی غریب القرآن ص 97 طبع کراچی)،(حافظ علامہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری ج 2 ص 353 طبع بیروت)،(علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن عینی، عمدۃ القاری ج6 ص 161 طبع کوئٹہ) (العلامہ ابن منظور، لسان العرب ج2 ص 359 طبع بیروت)
یوم الجمعه سمي به لاجتماع الناس فيه ۔
ترجمہ : جمعہ کا دن اس لئے نام رکھا گیا کہ اس میں لوگ جمع ہوتے ہیں ۔ (امام مجددالدین ابوالسعادات المبارک محمد الجرزی ابن الاثیر (م 507ھ)، النہایہ فی غریب الحدیث ج1 ص 297 طبع ایران،چشتی)
سميت جمعة لاجتماع الناس فيها وکان يوم الجمعة فی الجاهلية يسمی العروبه.
ترجمہ : جمعہ کو جمعہ اس لئے کہا گیا کہ اس میں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں اسے عروبہ کہا جاتا تھا ۔ (نووی شرح مسلم، ج1 ص 279 طبع کراچی)
قرآن کریم میں فرمان باری تعالیٰ ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَO فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَO ۔ (سورۃ الجمعہ، 62 : 9 تا11)
ترجمہ : اے ایمان والو! جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن، تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو! اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو، اس امید پر کہ فلاح پاؤ اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا اس کی طرف چل دیئے اور آپ کو خطبہ میں کھڑا چھوڑ گئے۔ آپ فرمائیں وہ جو اللہ کے پاس ہے کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ہم ہی آخر ہیں (دنیا میں آنے میں)۔ ۔ ۔ ہم ہی سب سے آگے (جنت میں جانے میں)، البتہ ان کو ہم سے پہلے کتاب ملی اور ہم کو ان کے بعد پھر یہ جمعہ کا دن اُن پر فرض ہوا، جس میں انہوں نے اختلاف کیا، اللہ پاک نے ہم کو اس کی راہ دکھا دی۔ دوسرے لوگ اس سلسلہ میں ہمارے تابع ہیں۔ یہودی کل (ہفتہ) اور نصاریٰ کل کے بعد (اتوار)‘‘۔ (متفق علیہ)
مسلم کی روایت میں ہے فرمایا ’’ہم ہی آخر و اول ہیں، قیامت کے دن اور ہم ہی سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گفتگو کے آخر میں فرمایا۔
نحن الاخرون من اهل الدنيا والاولون يوم القيمة المقضي لهم قبل الخلائق.
ترجمہ : دنیا والوں میں ہم ہی سب سے آخر ہیں اور قیامت کے دن ہم ہی سب سے پہلے ہیں۔ جن کا فیصلہ باقی مخلوق سے پہلے ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة فيه خلق ادم وفيه ادخل الجنة وفيه اخرج منها ولا تقوم الساعة الافي يوم الجمعة.
ترجمہ : سب سے بہتر دن جس پر سورج چمکا جمعہ کا دن ہے۔ اسی میں آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی (ان کا یوم میلاد ہے) اسی میں وہ جنت میں داخل ہوئے اور اس میں وہاں سے نکالے گئے اور قیامت جمعہ کے دن ہی قائم ہوگی۔(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جمعہ کے دن ایک لمحہ ایسا ہے کہ جو مسلمان اس لمحہ اللہ پاک سے جو اچھی چیز مانگے اللہ پاک اسے وہی دیدتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
مسلم کی روایت میں الفاظ میں اتنا اضافہ ہے کہ ’’وہ لمحہ بہت مختصر ہوتا ہے‘‘ اور متفق علیہ روایت میں الفاظ کا اضافہ بھی دوسری روایت میں ہے کہ جمعہ کے دن ایک لمحہ ایسا ہے کہ اس لمحہ کوئی مسلمان کھڑا نماز ادا کرے اور اللہ پاک سے کوئی بھلائی مانگے، اللہ پاک اسے عطا فرماتا ہے‘‘۔
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ قبولیت کی وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے اور نماز ختم ہونے کے درمیان والا وقت ہے‘‘۔ (مسلم)
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مقبولیتِ دعا کی وہ گھڑی جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جمعہ کے دن آخری گھڑی کیسے ہوسکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ جو مسلمان اس وقت نماز پڑھے، حالانکہ غروب آفتاب کے وقت نماز درست نہیں۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو کوئی نماز کے انتظار میں بیٹھے جب تک نماز ادا نہ کرے وہ نماز میں ہے۔ اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا درست ہے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہی مراد ہے‘‘۔(امام مالک، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، احمد)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ گھڑی جس میں قبولیت دعا کی امید ہے جمعہ کے دن نماز عصر سے، سورج غائب ہونے تک ہے‘‘۔ (ترمذی)
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے دنوں میں افضل دن جمعہ کا ہے۔ اسی میں آدم علیہ السلام کی پیدائش اور اسی میں آپ کی وفات ہوئی۔ اسی میں صور پھونکا جائے گا۔ اسی میں دل دہلادینے والی آواز بلند ہوگی جس سے ہر ذی روح مرجائے گا۔ فاکثروا علی من الصلوٰۃ فیہ فان صلوٰتکم معروضۃ علی۔
جمعہ کے دن مجھ پر بہت زیادہ درود (وسلام) پڑھا کرو۔ بے شک تمہارا درود (وسلام) مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کی آپ کی وفات کے بعد آپ پر ہمارا درود (وسلام) کیسے پیش ہوگا۔ فرمایا:ان الله حرم علی الارض اجساد الانبياء.’’بے شک اللہ پاک نے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کردیئے ہیں‘‘۔(ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی، بحوالہ مشکوٰۃ ص 120 طبع کراچی،چشتی)
ابولبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار (سیدالایام) اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑھ کر عظمت والا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے حضور عید قربان اور عیدالفطر سے بھی بڑا ہے۔ اس میں پانچ فضیلتیں ہیں۔ 1۔ اسی میں اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ ۔ ۔ اور اسی میں اللہ پاک نے انہیں جنت سے زمین پر اتارا۔ ۔ ۔ اور اسی میں اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو وفات دی۔ ۔ ۔ اور اسی میں ایک ساعت ایسی بابرکت و سعادت ہے جس میں بندہ جو بھی مانگے اسے ملتا ہے بشرطیکہ حرام کا سوال نہ ہو۔ ۔ ۔ اور اسی میں قیامت قائم ہوگی۔ تمام مقرر فرشتے، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور سمندر جمعہ کے دن سے ڈرتے ہیں۔ ‘‘ (ابن ماجہ، احمد)
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اَکْثِرُوَا الصَّلٰوةَ عَلَیَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَاِنَّه، مَشْهُوْدٌ يَشْهَدُهُ الْمَلٰئِکَةُ وَاِنَّ اَحَدًا لَمْ يُصَلِّ عَلَیَّ اِلَّاعُرِضَتْ عَلَیَّ صَلٰوته، حَتّٰی يَفْرُغَ مِنْهَا قَالَ قُلْتُ وَبَعْدِ الْمَوْتِ؟ قَالَ اَللّٰهُ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اجْسَادَ الْاَنْبِيَاء وَنَبِیُّ اللّٰهِ حَیٌّ يُرْزَقُ.
ترجمہ : مجھ پر جمعہ کے دن بہت زیادہ درود (وسلام) پڑھا کرو! بے شک اس میں شمولیت کے لئے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور کوئی بھی آدمی جب مجھ پر درود (وسلام) پڑھتا رہتا ہے اس کا درود (وسلام) مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کی وفات کے بعد بھی؟ فرمایا بے شک اللہ پاک نے زمین پر نبیوں کے جسم حرام کردیئے۔ سو اللہ کے نبی زندہ ہیں انہیں رزق ملتا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو بھی مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہو، اللہ پاک اسے قبر کے فتنہ (وعذاب) سے محفوظ رکھتا ہے۔ (احمد، ترمذی)
جمعہ روز عید ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ مائدہ کی آیت کریمہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ الخ پڑھی۔ ان کے پاس ایک یہود تھا بولا:لو نزلت هذه الآية علينا لاتخذونها عيدا. فقال ابن عباس فانها نزلت في يوم عيدين في يوم جمعة ويوم عرفة.
ترجمہ : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی ہم اس دن کو عید بنالیتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا یہ آیت جس دن نازل ہوئی، ہمارے اسلام میں اس دن دو عیدیں تھیں ۔ (1) جمعہ کا دن اور (2) نوذی الحجہ، حج کا دن‘‘۔ (ترمذی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:اَللّٰهمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلّغْنَا رَمَضَانَ.
ترجمہ : الہٰی رجب اور شعبان میں ہمارے لئے برکت کردے اور ہمیں رمضان تک پہنچادے‘‘۔ اور فرماتے۔ لیلۃ الجمعۃَ یَوْم اَزْھَرُ۔ ’’جمعرات کا دن بارونق، نورانی دن ہے‘‘۔ (بیہقی فی الدعوات الکبیر)
جمعہ کے دن دعا قبول ہونے کی گھڑی
جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ خاص طور پر دعا قبول فرماتا ہے ،جیسا کہ اوپر حدیث نمبر3 میں بیان ہو ا اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اس میں ایک ساعت ہے،جو مسلمان بندہ اسے پائے اور وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو اللّٰہ تعالیٰ سے جو چیز مانگے گا وہی عطا فرما دی جائے گی ،اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ وقت بہت تھوڑا ہے۔( بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، ۱/۳۲۱، الحدیث: ۹۳۵)
یاد رہے کہ وہ کون سا وقت ہے اس بارے میں روایتیں بہت ہیں ،ان میں سے دو قوی ہیں : (1) وہ وقت امام کے خطبہ کے لیے بیٹھنے سے نماز ختم تک ہے۔(2)وہ جمعہ کی آخری ساعت ہے۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، ۱/۷۵۴)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر جمعہ کو آیا اور (خطبہ) سنا اور چپ رہا ،اس کے لیے ان گناہوں کی مغفرت ہو جائے گی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہوئے ہیں اور(ان کے علاوہ)مزید تین دن(کے گناہ بخش دئیے جائیں گے ) اور جس نے کنکری چھوئی اس نے لَغْوْ کیا۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل من استمع وانصت فی الخطبۃ، ص۴۲۷، الحدیث: ۲۷(۸۵۷)) یعنی خطبہ سننے کی حالت میں اتنا کام بھی لَغْوْ میں داخل ہے کہ کنکری پڑی ہو اُسے ہٹا دے۔
حضرت ابو سعید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزیں جو ایک دن میں کرے گا، اللّٰہ تعالیٰ اس کو جنتی لکھ دے گا۔ (1) جو مریض کو پوچھنے جائے ،(2) جنازے میں حاضر ہو ، (3) روزہ رکھے ،(4) جمعہ کو جائے ،(5)اور غلام آزاد کرے۔( الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، ۳/۱۹۱، الجزء الرابع، الحدیث: ۲۷۶۰)
جمعہ کی نماز چھوڑنے کی وعیدیں
اَحادیث میں جہاں نمازِ جمعہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں وہیں جمعہ کی نماز چھوڑنے پر وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں چنانچہ یہاں اس کی دووعیدیں ملاحظہ ہوں :
(1) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آئیں گے یا اللّٰہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر کر دے گا، پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب التغلیظ فی ترک الجمعۃ، ص۴۳۰، الحدیث: ۴۰(۸۶۵)،چشتی)
(2) حضرت اسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی عذر کے بغیر تین جمعے چھوڑے وہ منافقین میں لکھ دیاگیا۔( معجم الکبیر، مسند الزبیر بن العوام، باب ما جاء فی المرأۃ السوئ۔۔۔ الخ، ۱/۱۷۰، الحدیث: ۴۲۲)
نماز ِ جمعہ کی فرضیّت کی شرائط اور دیگر مسائل کیلئے بہارِ شریعت کامطالعہ فرمائیں ۔
نمازِ جمعہ کی فرضیت
(1) جمعہ فرضِ عین ہے اور ا س کی فرضیت ظہر سے زیادہ مُؤکَّد ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔ ( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، مسائل فقہیہ، ۱/۷۶۲)
(2) جمعہ پڑھنے کے لئے 6 شرطیں ہیں ،ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو جمعہ ہو گا ہی نہیں ،(1)جہاں جمعہ پڑھا جا رہا ہے وہ شہر یا فنائِ شہر ہو۔ (2)جمعہ پڑھانے والاسلطانِ اسلام ہویا اس کا نائب ہو جسے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا۔ (3)ظہر کا وقت ہو۔یعنی ظہر کے وقت میں نماز پوری ہو جائے ،لہٰذا اگر نماز کے دوران اگرچہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا تو جمعہ باطل ہو گیا،اب ظہر کی قضا پڑھیں ۔(4) خطبہ ہونا۔(5)جماعت یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مَردوں کا ہونا۔ (6)اذنِ عام،یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے ،کسی کو روک ٹوک نہ ہو ۔
(3) جمعہ فرض ہونے کے لئے 11شرطیں ہیں ،اگر ان میں سے ایک بھی نہ پائی گئی تو جمعہ فرض نہیں ،لیکن اگر پڑھے گا تو ادا ہو جائے گا۔(1)شہر میں مقیم ہونا،(2)صحت،یعنی مریض پر جمعہ فرض نہیں ،مریض سے مراد وہ ہے کہ جامع مسجد تک نہ جا سکتا ہو،یا چلا تو جائے گا مگر مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھا ہو گا۔ (3)آزاد ہونا،(4)مرد ہونا،(5)عاقل ہونا، (6)بالغ ہونا،(7)آنکھوں والا ہونا،یعنی نابینا نہ ہو،(8)چلنے پر قادر ہونا،(9)قید میں نہ ہونا(10)بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا،(11)اس قدر بارش،آندھی،اولے یا سردی نہ ہوناکہ ان سے نقصان کا صحیح خوف ہو۔
نوٹ:جمعہ سے متعلق شرعی مسائل کی مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے بہار شریعت،جلد 1،حصہ4سے ’’جمعہ کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔
{ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ: یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔} یہاں بہتری سے مراد لُغوی بہتری ہے یعنی دنیاوی کاروبار سے نمازِ جمعہ اور خطبہ وغیرہ بہتر ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حاضری واجب نہ ہو، صرف مستحب ہو۔
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۱۰)
ترجمہ : پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللّٰہ کا فضل تلاش کرو اور اللّٰہ کو بہت یاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ : پھر جب نماز پوری ہوجائے ۔ یعنی جب نماز پوری ہو جائے تو اب تمہارے لئے جائز ہے کہ معاش کے کاموں میں مشغول ہو جاؤ یا علم حاصل کرنے ،مریض کی عیادت کرنے ،جنازے میں شرکت کرنے ، علماء کی زیارت کرنے اور ان جیسے دیگر کاموں میں مشغول ہو کر نیکیاں حاصل کرو اور نماز کے علاوہ بھی ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کیا کرو تاکہ تمہیں کامیابی نصیب ہو ۔ (تفسیر خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴/۲۶۸، مدارک، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۲۴۱)
وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَاﰳ انْفَضُّوْۤا اِلَیْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىٕمًاؕ-قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۠(۱۱)
ترجمہ : اور جب انھوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا اس کی طرف چل دئیے اور تمہیں خطبہ میں کھڑا چھوڑ گئے تم فرماؤ وہ جو اللّٰہ کے پاس ہے کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللّٰہ کا رزق سب سے اچھا ۔
وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَاﰳ : اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا ۔ شانِ نزول:حضرت جابربن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے (ہوکرجمعہ کاخطبہ ارشاد فرمارہے) تھے کہ اچانک مدینہ طیبہ میں ایک تجارتی قافلہ آپہنچا (دستور کے مطابق اعلان کیلئے طبل بجایا گیا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب اس کی طرف چل دئیے حتّٰی کہ 12 آدمیوں کے سوامسجد میں کوئی بھی باقی نہ بچا۔ میں ، حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اورحضرت عمرفاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان بارہ افراد میں شامل تھے ۔اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔ (مسلم،کتاب الجمعۃ،باب فی قولہ تعالی:واذا رأوا تجارۃ او لہونا انفضوا الیہا۔۔۔الخ، ص۴۲۹، الحدیث:۳۸(۸۶۳))
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جب انہوں نے کسی تجارت کے بارے میں جانا یا کھیل کے بارے میں سنا تواس کی طرف چل دیئے اورآپ کو خطبے کی حالت میں منبر پر کھڑا چھوڑ گئے ،آپ ان سے فرمادیں : جونماز کا اجر و ثواب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے کی برکت و سعادت ہے جو درحقیقت اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور چونکہ اللّٰہ تعالیٰ بہترین روزی دینے والا ہے اس لئے تم اسی کی طرف چلو اور اسی سے رزق طلب کرو۔( روح البیان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۹/۵۲۸)
یاد رہے کہ جب یہ واقعہ رونما ہوا اس وقت بہت تنگی اور مہنگائی کا دورتھا اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اس خیال سے چلے گئے تھے کہ کہیں اَجناس ختم نہ ہو جائیں اور وہ انہیں پانے سے رہ جائیں ،اور ایسے حالات میں اس طرح ہونا ایک فِطری امر ہے نیز اس آیت کے نزول سے پہلے اِس طرح کے فعل سے کہیں منع بھی نہیں کیا گیا تھا بلکہ اِس آیت کے ذریعے حکم نازل کیا گیا تو حکم کے نزول سے پہلے ایسا کرنا کوئی گناہ نہیں تھا ، اسی لئے ا س آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی مذمت نہیں فرمائی بلکہ تربیت فرمائی ہے کہ ایسا کرنا ان کی شان کے لائق نہیں ،لہٰذا ان کے اس فعل پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ خطیب کو کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنا چاہیے۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment