نماز میں تعوذ و تسمیہ پڑھنا
قراء ت سے پہلے تعوذپڑھے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : فاذا قراء ت القرآن فاستعذ باللہ من الشیطن الرجیم ۔ (سورۃالنحل آیت نمبر۸۹)
ترجمہ : توجب تم قرآن پڑھوتواللہ کی پناہ مانگوشیطان مردودسے۔
تفاسیر معتبرہ میں ہے کہ تلاوت قرآن سے پہلے تعوذ پڑھنا مسنون ہے اور نماز میں امام اور تنہا پڑھنے والے کے لئے سبحانک اللہم سے فارغ ہو کر آہستہ اعوذ باﷲ پڑھنا سنت ہے۔ یاد رہے تعوذ اور تسمیہ نماز میں آہستہ پڑھنا سنت ہے۔ بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ حضورﷺ اور شیخین کریمین رضی اﷲ عنہما نماز کی بلند قرأت ’’الحمد ﷲ رب العالمین‘‘ سے شروع کرتے تھے۔ (خلاصہ تفسیر روح المعانی و خزائن العرفان)
امام ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی ترمذی علیہ الرحمہ اپنی جامع کی جلد اول ص 57 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی میں رقم طراز ہیں :عن ابی سعید نالخدری قال کان رسول اﷲﷺ اذا قام الی الصلوٰۃ باللیل کبرثمہ یقول سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک، ثم یقول اﷲ اکبر کبیراً ثم یقول اعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم الخ
یعنی: رسول اﷲﷺ جب نماز پڑھنے کے لئے رات کو قیام فرماتے تو اولاً سبحانک اللھم پڑھتے پھر (نوافل میں ) اﷲ اکبر کبیراً بھی کہتے پھر تعوذ پڑھتے ، اعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطٰن الرجیم ۔ اس حدیث پاک میں بھی قرأت سے پہلے اعوذ باﷲ پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، وَابْنُ بَشَّارٍ، کِلَاہُمَا عَنْ غُنْدَرٍ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّی: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَۃَ، یُحَدِّثُ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ” صَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَکْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْہُمْ یَقْرَأُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ،۔
ترجمہ:حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی اقتدا میں نمازیں ادا کی ہیں لیکن اِن حضرات میں سے کسی کو بھی بلند آواز سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم پڑھتے نہیں سنا۔(صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب حُجَّۃِ مَنْ قَالَ لَا یُجْھَرُ بِالْبَسْمَلَہِ، ص332-33، حدیث، 794)(سنن ابو داؤد، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَنْ لَمْ یَرَ الْجھَْرَ بِبِسْمِ اللّٰہِ، ص313، حدیث 773)(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب فِیْ اِفْتِتَاحِِ الْقِرأَتِ بِا لْحَمْدُ لِلّٰہِ، ص187، حدیث234)(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاحِ، باب تَرْکُ الْجھَْرِ بِبِسْمِ اللّٰہِ، ص285،چشتی)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ بُدَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَاء، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ:کَانَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ یَفْتَتِحُ الصَّلَاۃَ بِالتَّکْبِیرِ وَالْقِرَاء ۃِ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔
ترجمہ:ابو الجَوزا سے روایت ہے کہ :ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم تکبیر تحریمہ سے نماز شروع فرماتے اور قرأت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، سے شروع کرتے۔(سنن ابو داؤد، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَنْ لَمْ یَرَ الْجھَْرَ بِبِسْمِ اللّٰہِ، ص314، حدیث774)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِیعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِیدٌ الجُرَیْرِیُّ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عَبَایَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: سَمِعَنِی أَبِی وَأَنَا فِی الصَّلاَۃِ، أَقُولُ: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَقَالَ لِی: أَیْ بُنَیَّ مُحْدَثٌ إِیَّاکَ وَالحَدَثَ، قَالَ: وَلَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ أَبْغَضَ إِلَیْہِ الحَدَثُ فِی الإِسْلاَمِ، یَعْنِی مِنْہُ، قَالَ: وَقَدْ صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ أَبِی بَکْرٍ، وَمَعَ عُمَرَ، وَمَعَ عُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْہُمْ یَقُولُہَا، فَلاَ تَقُلْہَا، إِذَا أَنْتَ صَلَّیْتَ فَقُلْ: الحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ۔
حَدِیثُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِیثٌ حَسَنٌ.وَالعَمَلُ عَلَیْہِ عِنْدَ أَکْثَرِ أَہْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُمْ: أَبُو بَکْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِیٌّ، وَغَیْرُہُمْ، وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنَ التَّابِعِینَ.
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے والد نے مجھے نماز میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا اے بیٹے :یہ بدعت ہے بدعت سے بچو نیز فرمایا میں نے صحابہ کرام کو اس سے زیادہ کسی بدعت سے بغض رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور یہ بھی کہا کہ میں نے نبی کریمﷺ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی لیکن ان میں سے کسی کو یہ کہتے نہیں سنا، لہٰذا تم بھی جہراً نہ کہو اور جب نماز پڑھو تو صرف اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین سے قرأت شروع کرو۔امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور اکثر اصحاب رسولﷺ جن میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی ہیں اور تابعین رضی اللہ عنہم کا اسی پر عمل ہے۔(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ فِیْ تَرْکِ الْجھَْرِ بِبِسْمِ اللّٰہِ،ص 185، حدیث 232،چشتی)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِیٍّ الْجَہْضَمِیُّ وَبَکْرُ بْنُ خَلَفٍ وَعُقْبَۃُ بْنُ مُکْرَمٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِیسیٰ قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عَمِّ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ” کَانَ یَفْتَتِحُ الْقِرَاء ۃَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قرأت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین سے شروع فرماتے۔
(سنن ابن ماجہ، ج1، ابو اب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب اِفْتِتَاحِ الْقِرأَۃ، ص248، حدیث860)
امام ترمذی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں : عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال کان النبی ﷺ یفتتح صلوٰۃ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ۔
یعنی : ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی پاکﷺ ’’سبحانک اللھم‘‘ کے بعد اور تعوذ کے بعد افتتاح قرأت بسم اﷲ سے کرتے تھے۔
اس کے بعد والے باب میں یوں رقم طراز ہیں : عن انس قال کان رسول اﷲﷺ و ابوبکر و عمر و عثمان یفتتحون القرأۃ بالحمد ﷲ رب العالمین ۔
یعنی: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اﷲ عنہم اپنی قرأت کا (جہراً) آغاز الحمد رب العالمین سے کرتے تھے۔ اس کے بعد وقال ابو عیسٰی ہذا حدیث حسن صحیح کہہ کر یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور مزید لکھتے ہیں کہ : والعمل علی ہذا عند اہل العلم من اصحاب النبیﷺ والتابعین ومن بعدہم ۔
یعنی : اصحاب، تابعین اور تبع تابعین کا یہی عمل رہا ہے کہ اولاً تعوذ، پھر تسمیہ اور پھر اپنی قرأت کا آغاز فاتحتہ الکتاب سے کرتے تھے۔ بلکہ اس سے آگے چل کر فرماتے ہیں کہ (احناف کی طرح) امام شافعی علیہ الرحمہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ فاتحۃ الکتاب سے آغاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے تعوذ و تسمیہ پڑھتے تھے انتہیٰ… البتہ باقاعدہ قرأت کا آغاز فاتحہ سے ہوتا تھا۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ امام شافعی بسم اﷲ کی جہری قرأت کے قائل ہیں، احناف اس بات کے قائل ہیں کہ نماز میں جہری یاسری قرأت ہو دونوں میں تعوذ و تسمیہ آہستہ ہی پڑھی جائیں گی کیونکہ جہراً ان کا پڑھنا سنت صحیحہ مرفوعہ سے ثابت نہیں ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ:حدثنااحمدبن عبدۃالضبی حدثنامعتمربن سلیمان قال حدثنی اسماعیل بن حمادعن ابی خالدعن ابن عباس قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یفتتح صلاتہ ببسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
ترجمہ:نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نمازکی ابتداء(یعنی قراء ت کی)بسم اللہ الرحمن الرحیم سے فرماتے تھے۔اس حدیث کوامام ترمذی نے اپنی جامع میں (حدیث نمبر۸۲۲،چشتی)اورامام ابن عدی نے الکامل میں (جلد۱ص۱۱۳پر)روایت کیا)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ:حدثناعبداللہ بن وھیب الغزی حدثنامحمدبن ابی السری حدثنامعتمربن سلیمان عن ابیہ عن الحسن عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کان یصرببسم اللہ الرحمن الرحیم وابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ۔
ترجمہ:رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی ابویہ وآلہ وصحبہ وبارک وکرم وسلم بسم اللہ الرحمن الرحیم پست آوازکے ساتھ پڑھتے تھے یونہی حضرت ابوبکراورحضرت عمرفاروق بھی۔اس حدیث کوامام طبرانی نے معجم کبیر(جلد۱ص۰۱۳پر)اورمعجم اوسط میں (حدیث نمبر۱۴۴۷،۰۱۵۸)روایت فرمایا)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:حدثناعبدالرحمن بن الحسین قال اخبرنایحیی بن طلحۃالیربوع قال حدثناعبادبن العوام عن شریک عن سالم الافطس عن سعیدبن جبیرعن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذاقرء بسم اللہ الرحمن الرحیم ھزء منہ المشرکون وقالوامحمدیذکرالہ الیمامۃ وکان مسیلمۃ یتسمی الرحمن فلمانزلت ھذہ الآیۃ امررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لایھجربھا ۔
ترجمہ:جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تومشرکین آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کامذاق اڑاتے اورکہتے کہ محمد(صلی اللہ جل وعلاعلیہ وعلی ابویہ وآلہ وصحبہ وبارک وکرم وسلم)یمامہ والے معبودکویادکررہاہے۔اورمسیلمۃکذاب کو”رحمن“نام دیاجاتاتھا۔پس جب یہ آیت نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حکم فرمادیاکہ بسم اللہ شریف کوبلندآوازسے نہ پڑھاجائے۔اس حدیث کوامام طبرانی نے معجم اوسط میں (حدیث نمبر۲۱۹۴)روایت کیا،چشتی)
حضرت عبداللہ بن مغفل سے مروی ہے کہ:حدثناابوعمربن ھمدان حدثناالحسن بن سفیان حدثناعقبۃبن مکرم حدثنایونس یعنی ابن بکیرحدثناابوحنیفۃعن ابی سفیان عن یزیدبن عبداللہ بن مغفل عن ابیہ قال صلی خلف امام فجھرببسم اللہ الرحمن الرحیم فقال صلیت خلف النبی صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکروعمرفلم اسمعھامن احدمنھم ۔
ترجمہ:انہوں نے ایک امام کے پیچھے نمازادافرمائی تواس نے بلندآوازسے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھاتوآپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم،حضرت ابوبکرصدیق اورحضرت عمرفاروق کے پیچھے نمازاداکی مگر کسی سے میں نے بلندآوازسے بسم اللہ نہ سنی۔اس حدیث کوامام اعظم ابوحنیفۃنے اپنی مسندمیں (حدیث نمبر۶۶۱،۷۶۱)روایت فرمایااوراس کے ہم معنی حدیث امام ترمذی نے اپنی جامع میں (حدیث نمبر۷۲۲) روایت کی)
حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:حدثنامحمدبن عبداللہ الحضرمی حدثنااحمدبن یونس حدثناابوبکربن عیاش عن ابی سعدقال عن ابی وائل قال کان علی وابن مسعودلایجھران ببسم اللہ الرحمن الرحیم ولابالتعوذ ولابآمین ۔
ترجمہ : حضرت علی اورحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہما”بسم اللہ شریف،تعوذ،اورآمین“بلندآوازسے نہ کہا کرتے تھے ۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے معجم کبیرمیں (جلد۸ص۵۹۱پر)روایت فرمایا)۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment