Saturday, 15 December 2018

خواتین کا طریقہ نماز

خواتین کا طریقہ نماز

قدرت نے مرد اور عورت میں بعض اوصاف مساوی رکھے ہیں اور بعض میں فرق رکھا ہے، چونکہ اسلام دین فطرت ہے ۔ اس لئے اس کے احکام میں بھی بعض میں مساوات اور بعض میں فرق رکھا ہے۔ جہاں جہاں فرق ہر ایک کو نظر آتا ہے، اس بارے میں ہر سلیم الفطرت آدمی سمجھتا ہےکہ اس سے بہتر صورت ممکن نہ تھی ۔

المرأة ترفع يديها حذاء منکبيها، وهو الصحيح لأنه أسترلها.
ترجمہ : تکبیر تحریمہ کے وقت، عورت کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے یہ صحیح تر ہے کیونکہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔(ابن همام، فتح القدير، 1 : 246)

فإن کانت إمرأة جلست علی إليتهاالأيسری و أخرجت رجليها من الجانب الأيمن لأنه أسترلها.
ترجمہ : اگر عورت نماز ادا کر رہی ہے تو اپنے بائیں سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف باہر نکالے کہ اس میں اس کا ستر زیادہ ہے۔(ابن همام، فتح القدير، 1 : 274)

والمرأة تنخفض فی سجودها و تلزق بطنها بفخذ يها لأن ذلک أسترلها.
ترجمہ : عورت اپنے سجدے میں بازو بند رکھے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا دے کیونکہ یہ صورت اس کے لئے زیادہ پردہ والی ہے۔
(مرغينانی، هدايه،1 : 50)

علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فأما المرأة فينبغی أن تفترش زرا عيها و تنخفض ولا تنتصب کإنتصاب الرجل و تلزق بطنها بفخذيها لأن ذلک أسترلها.
ترجمہ : عورت کو چاہیے اپنے بازو بچھا دے اور سکڑ جائے اور مردوں کی طرح کھل کر نہ رہے اور اپنا پیٹ اپنے رانوں سے چمٹائے رکھے کہ یہ اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے ۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع، 1 : 210،چشتی)

علامہ شامی لکھتے ہیں کہ : انها تخالف الرجل فی مسائل کثيرة.
ترجمہ : عورت کئ مسائل(چند) میں مرد کے خلاف ہے ۔

(1) عورت تکبیر تحریمہ کے وقت کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھائے گی۔
(2) آستینوں سے باہر ہاتھ نہیں نکالے گی۔
(3) سینے کے نیچے ہاتھ پہ ہاتھ باندھے گی۔
(4) رکوع میں مرد کی نسبت کم جھکے گی۔
(5) انگلیوں کو گرہ نہیں دے گی نہ انگلیاں زیادہ پھیلائے گی بلکہ ملا کر رکھے گی۔
(6) ہاتھ گھٹنوں کے اوپر رکھے گی۔
(7) گھٹنوں میں خم نہیں کرے گی۔
(8) رکوع و سجود میں گھٹنوں کو ملائے گی۔
(9) سجدے میں بازو زمین پر پھیلائے گی۔
(10) التحیات کے وقت دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بیٹھے گی۔
(11) مرد کی امامت نہیں کر سکتی۔
(12) نماز میں کوئی بات ہو جائے تو امام کو بتانے کے لئے تالی بجائے گی۔ سبحان اللہ نہیں کہے گی۔
(13) بیٹھتے وقت ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے گھٹنوں سے ملائے گی / انگلیاں ملائے گی۔
(14)عورتوں کی جماعت مکروہ ہے مگر پڑھیں تو ان کی امام درمیان میں کھڑی ہو گی آگے نہیں۔
(15) عورت کا جماعت میں حاضر ہونا مکروہ ہے (ہم اس سے متفق نہیں)
(16) مردوں کے ہمراہ باجماعت نماز ادا کریں تو مردوں سے پیچھے کھڑی ہوں۔
(17) عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ادا کرے گی تو ادا ہو جائے گی۔
(18) عورت پر نماز عید واجب نہیں پڑھے گی تو ہو جائے گی۔
(19) عورت پر تکبیرات تشریق نہیں۔
(20) صبح کی نماز روشن کر کے پڑھنا عورت کے لئے مستحب نہیں۔
(21) جہری نمازوں میں جہری قراءت نہیں کریں گی۔
(22) عورت نماز میں سجدہ وقعدہ میں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ کرے۔ یہ تمام تفصیل نماز کے حوالہ سے ہے ورنہ عورت اور مرد میں دیگر احکام میں بہت اختلاف ہے۔(شامی، ردالمختار، 1 : 506)

والمرأة الاتجافی رکوعها وسجودها وتقعد علی رجليها وفی السجده تفترش بطنها علی فخذيها.
ترجمہ : عورت رکوع اور سجدہ میں اعضاء کھول کر نہ رکھے، پاؤں پر بیٹھے، سجدہ میں اپنا پیٹ رانوں پر رکھے۔(شيخ نظام الدين وجماعة علماء هند، عالمگيری، 1 : 75)
والمرأة تنحنی فی الرکوع يسيرا ولا تعتمد ولا تفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعا وتنحنی رکبتيها ولا تجافی عضد تيها.
ترجمہ : عورت رکوع میں کم جھکے، ٹیک نہ لگائے نہ انگلیاں کھلی رکھے، ہاتھوں کو بند رکھے اور گھٹنوں پر ہاتھ جما کر رکھے، گھٹنوں کو ٹیڑھا رکھے اور بازو دور نہ رکھے۔(شيخ نظام الدين وجماعة علماء هند، عالمگيری، 1 : 74،چشتی)

عورت سجدہ میں کیسے ہو؟ احادیث مبارکہ کی روشنی میں

عن علی رضی الله عنه قال اذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتضم فخذيها.
ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2777
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر کرے اور اپنی ران (پیٹ اور پنڈلیوں) سے ملائے رکھے۔

عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفر.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2778
ابن عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا جسم کوسکیٹر کر اور سمٹا کر نماز ادا کرے۔

عن مغيرة عن ابراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها والتضع بطنها عليها.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2779
جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے۔

عن مجاهد أنه کان يکره أن يضع الرجل بطنه علی فخذيه إذا سجد کما تضع المرأة.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2780
(ابن عباس کے شاگرد) مجاہد کہتے ہیں مرد سجدہ میں اپنا پیٹ عورتوں کی طرح رانوں پر رکھے، یہ مکروہ ہے۔

عن الحسن (البصری) قال المرأة تضم فی السجود.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2781
عورت سجدہ میں سمٹ جڑ کر رہے۔

عن إبراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها ولا ترفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجافی الرجل.ابن ابی شيبه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2782
جب عورت سجدہ کرے تو پیٹ اپنے زانوؤں سے ملائے اور اپنی پیٹھ (سرین) مرد کی طرح بلند نہ کرے۔

عورت نماز میں کیسے بیٹھے؟ احادیث کی روشنی میں

عن خالد بن اللجلاج قال کن النسآء يؤمرن أن يتربعن إذا جلسن فی الصلوة ولا يجلسن جلوس الرجل علی أور اکهن يتقی علی ذلک علی المرأة مخافة أن يکون منها الشی…
ابن ابی شبيه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2783
عورتوں کو نماز میں چوکڑی بھر کر (مربع شکل میں) بیٹھنے کا حکم تھا اور یہ کہ وہ مردوں کی طرح سرینوں کے بل نہ بیٹھیں تاکہ اس میں ان کی پردہ پوشی کھلنے کا ڈر نہ رہے۔

عن نافع ان صفية کانت تصلی وهی متربعة.ابن ابی شبيه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2784،چشتی)
نافع سے روایت ہے حضرت سیدہ صفیہ نماز میں مربع شکل میں بیٹھا کرتی تھیں۔‘‘
عورت کو رکوع و سجود میں جسم کھلا نہیں رکھنا چاہیے ۔

قال إبراهيم النخعی کانت المرأة تؤمر إذا سجدت أن تلزق بطنها بفخذيها کيلا ترتفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجا فی الرجل.بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں عورت کو حکم تھا یہ سجدہ کرتے وقت اپنا پیٹ رانوں سے ملائے رکھے تاکہ اس کی پیٹھ بلند نہ ہو۔ اس طرح بازو اور ران نہ کھولے جیسے مرد۔

قال علی رضی الله عنه إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها.بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا عورت سجدہ میں سکڑ کر رہے اعضاء کو ملا کر رکھے۔

عن ابی سعيد الخدری صاحب رسول اﷲ عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أنه قال خير صفوف الرجال الاول و خير صفوف النساء الصف الأخر وکان يامر الرجال أن يتجا فوا فی سجودهم يأمر النسآء أن ينخفضن فی سجود هن وکان يأمر الرجال أن يفر شوا اليسریٰ وينصبوا اليمنی فی التشهدو يأمر النسآء أن يتربعن وقال يا معشر النسآء لا ترفعن أبصار کن فی صلاتکن تنظرن إلی عورات الرجال.
بيهقی، السنن الکبری،2 : 222، الرقم : 3014
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :إذا جلست المرأة فی الصلاة وضعت فخذها علی فخذها الاخریٰ و إذا سجدت الصقت بطنها فی فخذيها کأستر مايکون لها وإن اﷲ تعالی ينظر إليها ويقول يا ملآ ئکتی أشهد کم إنی قد غفرت لها.بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014
جب عورت نماز میں اپنا ایک ران دوسرے ران پر رکھ کر بیٹھتی ہے اور دوران سجدہ اپنا پیٹ رانوں سے جوڑ لیتی ہے جیسے اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھ کر فرماتا ہے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بنا کر اس کی بخشش کا اعلان کرتا ہوں۔

عن يزيد بن أبی حبيب أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم مر علی إمرأتين تصليان فقال إذا سجدتما فضمّا بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأة ليست فی ذلک کالر جل.(بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223، الرقم : 3016،چشتی)
یزید بن ابی حبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے گزرے۔ فرمایا جب تم سجدہ میں جاؤ تو گوشت کا کچھ حصہ زمین سے ملا کر رکھا کرو! عورت مرد کی طرح نہیں۔

قلت لعطاء التشير المرأة بيديها کالر جال بالتکبير؟ قال لا ترفع بذلک يديها کالر جال وأشار أفخفض يديه جدا وجمعهما إليه وقال إن للمرأة هية ليست للرجل.
عبدالرزاق، المصنف، 3 : 137، الرقم : 5066
میں نے عطا سے پوچھا کہ عورت تکبیر کہتے وقت مردوں کی طرح ہاتھوں سے اشارہ کرے گی؟ انہوں نے کہا عورت تکبیر تحریمہ کے وقت مردوں کی طرح ہاتھ نہیں اٹھائے گی، اشارہ سے بتایا عطاء نے اپنے ہاتھ بہت نیچے کئے اور اپنے ساتھ ملائے اور فرمایا عورت کی صورت مرد جیسی نہیں۔

عطا کہتے ہیں : تجمع المراة يديها فی قيامهاما استطاعت ۔ عورت کھڑے ہوتے وقت نماز میں جہاں تک ہوسکے ہاتھ جسم سے ملا کر رکھے۔
عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 137، الرقم : 5067

حسن بصری اور قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : إذا سجدت المرأة فأنها تنفم ما استطاعت ولا تتجافی لکی لا ترفع عجيز تها.
عبدالرزاق، المصنف،3 : 137، الرقم : 5068،چشتی)
جب عورت سجدہ کرے تو جتنا ہو سکے سمٹ جائے اعضاء کو جدا نہ کرے مبادا جسم کا پچھلا حصّہ بلند ہو جائے۔

کانت تؤمر المرأة ان تضع زراعيها بطنها علی فخذيها إذا سجدت ولا تتجا فی کما يتجا فی الرجل. لکی لا ترفع عجيز تها.عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5071
عورت کو حکم دیا گیا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے بازو اور پیٹ رانوں پر رکھے اور مرد کی طرح کھلا نہ رکھے تاکہ اس کا پچھلا حصہ بلند نہ ہو۔

عن علی قال إذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتلصق فخذ يها ببطنها.
عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5072
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ جائے اور اپنے ران اپنے پیٹ سے ملائے۔

جلوس المراءۃ (عورت کا بیٹھنا)

عن نافع قال کانت صفية بنت أبی عبيد إذا جلست فی مثنی أوأربع تربعت.
عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5074
صفیہ بنت ابوعبید جب دو یا چار رکعت والی نماز میںبیٹھتیں مربع ہو کر بیٹھیتں۔
عن قتاده قال جلوس المرأة بين السجدتين متورکة علی شقها الأيسر وجلوسها تشهد متربعة.
عبدالرزاق، المصنف، 3 : 139، الرقم : 5075
عورت دو سجدوں کے درمیان بائیں طرف سرینوں کے بل بیٹھے اور تشہد کے لئے مربع صورت میں۔

پس عورت اور مرد مسلمان کی نماز کی ادائیگی میں کھڑا ہونے، رکوع و سجود اور بیٹھنے میں شرعاً فرق ہے۔ ہر چند کہ ایسا کرنا فرض و واجب میں شامل نہیں ۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام و تابعین، محدثین، فقہائے امت سے جب معتبر کتابوں کے حوالہ سے یہ فرق ثابت ہے اور امام بخاری و مسلم اور دیگر محدثین کے استاذ امام الحدثین حضرت امام عبد الرزاق اور دوسرے اکابر محدثین و فقہائے امت کی تصریحات، روایات تحقیقات سے بھی یہ فرق ثابت ہو رہا ہے۔ عقل و نقل کی رو سے یہ فرق ثابت ہے تو اس پر عمل کرتے رہیں۔ یہی راہ مستقیم و ہدایت حق ہے ۔ شریعت کا منشاء یہی ہے اور یہ عورت کے وقار، عزت، احترام اور سترکا تقاضا بھی ہے۔ یہی اسلامی طریقہ ہے، مرد اور عورت کی نماز میں یہ فرق نہایت مناسب اور معنوی ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کی خصوصیات کا ہر جگہ خیال و لحاظ رکھا ہے۔ ان کی خلاف ورزی اور وہ بھی بلا دلیل شرعی مسلمان کا کام نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم دکھائے ، سمجھائے اور اس پر چلائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...