Friday, 28 December 2018

مسلہ رفع یدین اور مذاھب اربعہ کا مؤقف

مسلہ رفع یدین اور مذاھب اربعہ کا مؤقف

محترم قارئین : رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرنے اور نہ کرنے سے متعلق سلف صالحین وائمہ ہدیٰ علیہم الرّحمہ کے مابین اختلاف ہے اور دوراول یعنی صحابہ وتابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم سےاس میں اختلاف چلا آرہا ہے اوراس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ رفع یدین کے بارے مختلف روایات وارد ہوئی ہیں لہٰذا جس مجتهد نے اپنے دلائل کی روشنی میں جس صورت کو زیاده بہتر و راجح سمجها اس کو اختیار کیا اورکسی بهی مجتهد نے دوسرے مجتهد کے عمل واجتہاد کو باطل وغلط نہیں کہا ۔

اور یہی حال ان مجتہدین کرام علیہم الرّحمہ کا دیگراختلافی مسائل میں بهی ہے کہ باوجود اختلاف کے ایک دوسرے کے ساتهہ محبت وعقیدت واحترام کا رشتہ رکهتے تهے جیسا کہ امام شافعی رحمۃ الله علیہ امام مالک رحمۃ الله علیہ کے شاگرد ہیں لیکن بہت سارے اجتہادی مسائل میں ان سے اختلاف رکهتے ہیں حتی کہ رفع یدین کے مسئلہ میں بهی دونوں استاذ و شاگرد کا اجتہاد مختلف ہے امام شافعی رحمۃ الله علیہرفع یدین کے قائل ہیں اور امام مالک رحمۃ الله علیہ رفع یدین کے قائل نہیں ۔

احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلاف اولی ہے یعنی بہترنہیں ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے : قوله إلا في سبع أشار إلى أنه لا يرفع عند تكبيرات الانتقالات ، خلافا للشافعي وأحمد ، فيكره عندنا ولا يفسد الصلاة الخرد المحتار على الدر المختار ، كتاب الصلاة ، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها ۔

مالکیہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین مکروه وخلاف اولی ہے ، مذهب مالکیہ کی مستند کتاب المدونة الكبرى میں ہے : ففي المدونة الكبرى قال الإمام مالك: (لا أعرف رفع اليدين في شيء من تكبير الصلاة، لا في خفض ولا في رفع إلا في افتتاح الصلاة، يرفع يديه شيئا خفيفا، والمرأة في ذلك بمنزلة الرجل)، قال ابن القاسم : (كان رفع اليدين ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام ) (المدونة الكبرى للإمام مالك ج 1ص 107 – دار الفكر بيروت)
امام مالك رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں کہ میں نمازکی تکبیرات میں کسی جگہ رفع اليدين نہیں جانتا نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹهتے وقت مگر صرف نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ، امام مالک کے صاحب وشاگرد ابن القاسم فرماتے ہیں کہ رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں .
امام مالك رحمۃ الله علیہ کے الفاظ پر ذرا غور کریں لا أعرف یعنی میں نہیں جانتا تکبیر تحریمہ کے علاوه رفع یدین کرنا الخیاد رہے کہ کتاب المُدَونة الكبرى فقہ مالكي کی اصل وبنیاد ہے دیگرتمام کتابوں پرمقدم ہے اور مُوطأ الإمام مالك کے بعد اس کا دوسرا نمبرہے اوراکثر علماء المالكية کی جانب سے اس کتاب المدونة کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور فتاوی کے باب میں بهی علماء المالكية کا اسی پراعتماد ہے اور روایت و درجہ کے اعتبارسے سب سے أصدق وأعلى کتاب ہےعلامہ ابن رشد المالکی نے بهی یہی تصریح کی ہے اور فرمایا کہ رفع یدین میں اختلاف کا سبب دراصل اس باب میں وارد شده مختلف روایات کی وجہ سے ہے یعنی چونکہ روایات مختلف ہیں لہذا ائمہ مجتہدین کا عمل بهی ہوگا .اهــ لہذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز غلط ہے توایسے لوگ جاہل وکاذب ہیں ۔
وأما اختلافهم في المواضع التي ترفع فيها فذهب أهل الكوفة أبو حنيفة وسفيان الثوري وسائر فقهائهم إلى أنه لا يرفع المصلي يديه إلا عند تكبيرة الإحرام فقط، وهي رواية ابن القاسم عن مالك " الی ان قال " والسبب في هذا الاختلاف كله اختلاف الآثار الواردة في ذلك الخبداية المجتهد ، كتاب الصلاة ، للعلامه ابن رُشد المالکی ۔
علامہ عبد الرحمن الجزيري رحمۃ الله علیہ نے بهی یہی تصریح کی ہے کہ مالکیہ کے نزدیک رفع یدین دونوں کندہوں تک تکبیرتحریمہ کے وقت مستحب ہے اس کے علاوه مکروه ہے ۔ المالكية قالوا : رفع اليدين حذو المنكبين عند تكبيرة الاحرام مندوب، وفيما عدا ذلك مكروه الخ ۔ (الفقه على المذاهب الاربعة ' لعبد الرحمن الجزيري ' الجزء الاولكتاب الصلاة باب رفع اليدين،چشتی)

شافعيه کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے ، امام شافعي رحمۃ الله علیہ كى كتاب الأم میں یہی تصریح موجود ہے اوردیگرعلماء شافعیه کا بهی یہی مذهب ہے ۔
قال سألت الشافعي : أين ترفع الأيدي في الصلاة ؟ قال : يرفع المصلي يديه في أول ركعة ثلاث مرات، وفيما سواها من الصلاة مرتين مرتين يرفع يديه حين يفتتح الصلاة مع تكبيرة الافتتاح حذو منكبيه ويفعل ذلك عند تكبيرة الركوع وعند قوله " سمع الله لمن حمده " حين يرفع رأسه من الركوع ولا تكبيرة للافتتاح إلا في الأول وفي كل ركعة تكبير ركوع، وقول سمع الله لمن حمده عند رفع رأسه من الركوع فيرفع يديه في هذين الموضعين في كل صلاة الخكتاب الأم ، باب رفع اليدين في الصلاةقال الشافعي ) وبهذا نقول فنأمر كل مصل إماما ، أو مأموما ، أو منفردا ؛ رجلا ، أو امرأة ؛ أن يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ؛ وإذا كبر للركوع ؛ وإذا رفع رأسه من الركوع ويكون رفعه في كل واحدة من هذه الثلاث حذو منكبيه ؛ ويثبت يديه مرفوعتين حتى يفرغ من التكبير كله ويكون مع افتتاح التكبير ، ورد يديه عن الرفع مع انقضائه .كتاب الأم ، باب رفع اليدين في التكبير في الصلاة ۔

حنابلہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے ۔ مسألة : قال : ( ويرفع يديه كرفعه الأول ) يعني يرفعهما إلى حذو منكبيه ، أو إلى فروع أذنيه ، كفعله عند تكبيرة الإحرام ، ويكون ابتداء رفعه عند ابتداء تكبيره ، وانتهاؤه عند انتهائه . (كتاب المُغني لإبن قدامة الحنبلي ، كتاب الصلاة ، باب صفة الصلاة) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...